• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دوران حیض دی گئی طلاق کا حکم

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344

سوال: ایک شخص نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دی پھر صلح ہو گئی تقریباً ایک سال بعد جھگڑے کے دوران میں پھر طلاق دے دی۔ خاندان والوں نے پھر رجوع کروا دیا۔ اب کچھ دن پہلے لڑائی کے دوران میں پھر طلاق کہہ دی ہم دونوں بہت پریشان ہیں کسی نے کہا کہ حیض والی طلاق واقع نہیں ہوئی، کیا یہ صحیح ہے؟
کتاب و سنت کی روشنی میں جلد جواب دے کر ممنون فرمائیں۔

جواب: سوال کے اندر پیش کی گئی صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہو چکی ہیں۔ اور یہ عورت طلاق دینے والے پر حرام ہو چکی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ طلاق دے کر رجوع کرنے کے بعد تیسری طلاق دینے والے کے متعلق فرمایا: (۔۔۔ پھر اگر وہ اسے (تیسری) طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ اس کے لیے حلال نہیں ہو گی یہاں تک کہ اس کے علاوہ کسی اور خاوند سے نکاح کرے پھر وہ اگر اسے طلاق دے دے تو (پہلے) دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ دونوں آپس میں رجوع کر لیں اگر سمجھیں کہ اللہ کی حدیں قائم رکھیں گے اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور وہ انہیں ان لوگوں کے لیے کھول کر بیان کرتا ہے جو جانتے ہیں)۔(البقرۃ:۰۳۲)
حیض کی حالت میں دی گئی طلاق کے شمار نہ ہونے کا فتویٰ صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ اس کی کوئی صریح دلیل کتاب و سنت میں موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ حیض میں دی گئی طلاق بدعی طلاق ہے اور گناہ کا کام ہے لیکن وہ دوسری سنت کے مطابق دی گئی طلاقوں کے ساتھ شمار ہو گی۔
عبداللہ بن عمرw نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تو عمر بن الخطابt نے اس کا تذکرہ رسول اللہe کے پاس کیا تو رسول اللہeسخت ناراض ہوئے اور فرمایا: ’’اسے حکم دو کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ رجوع کرے۔‘‘ (مسلم ، کتاب الطلاق، باب تحریم طلاق الحائض۔۔۔ الخ، ح:۷۵۶۳)
رسول اللہe کا ابن عمرw کے لیے رجوع کا حکم صادر کرنا صریح دلیل ہے کہ حیض میں دی گئی طلاق واقع ہوئی ہے۔۔۔ اگر طلاق واقع ہی نہ ہوئی ہوتی تو رجوع کا حکم کیوں دیا جاتا؟ خود عبداللہ بن عمرt نے بھی اس کی صراحت کی ہے کہ حیض میں دی گئی طلاق کو شمار کیا گیا تھا۔ (بخاری، کتاب الطلاق، باب اذا طلقت الحائض تعتدّ بذلک الطلاق، ح:۳۵۲۵)
امام بیہقی صحیح سند کے ساتھ روایت لائے ہیں عبداللہ بن عمرw کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حیض میں طلاق دے دی، تو سیدنا عمرt رسول اللہe کے پاس آئے اور اس کا تذکرہ رسول اللہ e کے پاس کیا تو آپe نے اسے ایک طلاق قرار دیا۔(السنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الطلاق و الخلع، باب الطلاق علی الحائض و ان کان بدعیاً، ج:۷، ص:۶۲۳) حافظ ابن حجرh فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حائضہ عورت کی طلاق کے واقع ہونے میں نص ہے۔ اس مسئلہ میں اختلاف کی صورت میں اسی کی طرف لوٹنا واجب ہے۔ (فتح الباری، ج:۹ ، ص:۸۳۴)
 
Last edited:

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
  • پاکستان اور سعودی عرب کے بعض مستند علما کا موقف یہ ہے کہ دوران حیض دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی،فورم پر موجود علمائے کرام سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر روشنی ڈالیں،تاکہ صحیح موقف کو سامنے لایا جا سکے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
  • پاکستان اور سعودی عرب کے بعض مستند علما کا موقف یہ ہے کہ دوران حیض دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی،فورم پر موجود علمائے کرام سے گزارش ہے کہ اس موضوع پر روشنی ڈالیں،تاکہ صحیح موقف کو سامنے لایا جا سکے۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

شیخ محترم @اسحاق سلفی بھائی
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
کیا حائضہ کو دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے
شروع از عبد الوحید ساجد بتاریخ : 02 February 2014 02:28 PM
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دو بچوں کی ماں کو اس کے شوہر نے طلاق دی لیکن اس وقت وہ حالت طہارت میں نہ تھی اور نہ اس نے اپنے شوہر کو یہ بتایا تھا ‘ حتیٰ کہ جب قاضی کے پاس گئے تو اس نے قاضی کو بھی اس بارے میں نہیں بتایا ‘ صرف اپنی ماں کو بتایا اور ماں نے ہی اسے کہا کہ قاضی کو نہ بتانا ورنہ تجھے طلاق ہو گی ‘ پھر عورت اپنے والدین کے گھر چلی گئی اور پھر شوہر کی طرف رجوع کا ارادہ کر لیا تا کہ بچے ضائع نہ ہوں ‘ سوال یہ ہے کہ حالت حیض میں دی گئی اس طلاق کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حالت حیض میں دی گئی طلاق کے بارے میں اہل علم میں بہت اختلاف ہے یہ طلاق موثر ہو گی با لغو قرار پائے گی ؟ جمہور اہل عمل کی رائے یہ ہے کہ یہ طلاق موثر ہو گی اور ایک طلاق شمار ہو گی لیکن شوہر کو حکم دیا جائیگا کہ وہ بیوی کو اپنے پاس واپس لائے اور اسے اپنے پاس رکھے حتی کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے اور اب اگر چاہے تو شوہر اسے اپنے پاس رکھے چاہے تو طلاق دے دے ‘ جمہور اہل علم کا یہی مذہب ہے ‘ جن میں ائمئہ اربعہ امام احمد ‘ شافعی ‘ مالک اور ابو حنیفہ ؒ بھی شامل ہیں لیکن ہمارے نزدیک ایک مسئلہ میں راجح وہ بات ہے جسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے پسند فرمایا ہے اور وہ یہ کہ حالت حیض میں دی گئی طلاق واقع ہوتی ہے نہ موثر ‘ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ کے حکم کے خلاف ہے اور نبی اکرم ؐ نے فرمایا:
((من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد)) ( صحيح مسلم )

’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس کے بارے میں ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ عمل مردود ہے ۔‘‘
اور اس خاص مسئلہ سے متعلق دلیل حدیث عبداللہ بن عمر ؓ ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی تھی اور حضرت عمر ؓ نے جب اس کے متعلق رسول اللہ ؐ کو بتایا تو آپ نے شدید ناراضی کا اظہار کیا اور فرمایا:
((مُرْهُ فَلْيُرَاجِعْهَا ، ثُمَّ لِيَتْرُكْهَا حَتَّى تَطْهُرَ ، ثُمَّ تَحِيضَ ، ثُمَّ تَطْهُرَ ، ثُمَّ إِنْ شَاءَ أَمْسَكَ بَعْدُ ، وَإِنْ شَاءَ طَلَّقَ قَبْلَ أَنْ يَمَسَّ ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ)) (صحيح البخاري)

’’انہیں حکم دو کہ وہ رجوع کریں اور پھر اسے چھوڑ دیں حتی کہ وہ پاک ہو جائے ‘ پھر اسے حیض آئے اور پھر وہ پاک ہو جائے اور پھر اس کے بعد اگر چاہے تو اسے اپنے پاس رکھے اور چاہے تو اسے طلاق دے دے مجامعت کرنے سے پہلے۔ یہ ہے وہ عدت جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے‘‘۔
یعنی وہ عدت جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے ‘ وہ حالت طہارت میں ہے جس میں شوہر نے بیوی کے ساتھ مقاربت نہ کی ہو ‘ لہٰذا جو شخص حالت حیض میں طلاق دے ‘ اس نے گویا اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق طلاق نہیں دی اس لئے ایسی طلاق مردود ہو گی چنانچہ مذکورہ بالا عورت کو دی گئی طلاق موثر نہیں ہے اور عورت ابھی تک اپنے شوہر کی عصمت میں ہے اور اسے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ طلاق کے وقت مرد کو یہ علم تھا کہ عورت طاہرہ ہے یا نہیں ‘ ہاں البتہ اگر اسے یہ علم ہو کہ عورت طاہرہ نہیں ہے تو وہ گنہگار ہو گا اور اگر علم نہ ہو تو وہ گنہگار نہیں ہو گا اور حالت حیض میں دی جانے کی وجہ سے طلاق بھی واقع نہیں ہوگی۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

ج3ص300

محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
حائضہ کو دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے!

تحریر: غلام مصطفے امن پوری

حائضہ کو دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے، جیسا کہ نافع ؒ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، سیدنا عمرؓ نے نبی اکرمﷺ سے اس بارے میں پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا:
مرہ فلیراجعھا، ثم لیطلقھا أو حاملا۔
انہیں حکم دیں کہ وہ رجوع کرلیں، پھر طہر یا حمل کی حالت میں طلاق دیں۔

(صحیح بخاری :۵۲۵۱، صحیح مسلم:۱۴۷۱،واللفظ لہ)

فلیراجعھا کے الفاظ واضح طور پر وقوع طلاق کا پتا دے رہے ہیں، اگر طلاق واقع نہیں تھی تو رجوع کیسا؟امام بخاریؒ نے ان الفاظ پر یوں تبویب فرمائی:‘‘اس بات کا بیان کہ حائضہ کو طلاق دی جاے تو وہ شمار ہوگی۔''

ہمارے موقف کی مزید تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ جب سیدنا عمرؓ نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کیا اس طلاق کو شمار کیا جائے گا توآپﷺ نے فرمایا، ہاں(سنن الدارقطنی:۵/۴،سنن الکبری للبیھقی: ۳۲۶/۷،وسندہ حسن)

نیز سیدناابن عمرؓ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، سیدنا عمرؓ نے نبی اکرمﷺ کو یہ واقعہ بیان کیا تو نبی اکرمﷺ نے اسے ایک طلاق شمار کیا۔
(مسند الطیالسی:۶۸،مسند عمر بن خطاب لابن النجاد:۱، وسندہ صحیح)

صاحب واقعہ سیدنا ابن عمرؓ خود فرماتے ہیں: ‘‘ یہ میری ایک طلاق شمار کی گئی۔''(صحیح بخاری:۵۲۵۳) راوی حدیث عبیداللہ بن عمر العمری کہتے ہیں:‘‘سیدنا ابن عمرؓ کی اپنی بیوی کو حیض میں دی گی طلاق ایک شمار ہوگئی تھی، اگرچہ ان کی یہ طلاق سنی نہ تھی۔''
(سنن الدارقطنی:۶/۳،مسند عمربن الخطاب،تحت حدیث:۳وسندہ حسن)

امام عطابن ابی رباح (مصنف ابن ابی شیبۃ:۵/۵،وسندہ صحیح) امام زہری( ایضا،وسندہ صحیح) امام ابن سیرین(ایضا،وسندہ صحیح)،امام جابرزید(ایضا،وسندہ صحیح) اور تمام محدیثن وائمہ دینؒ حیض میں طلاق کو موثر سمجھتے تھے۔اگرچہ حالت حیض میں طلاق سنی نہیں ہے،لیکن خود رسول اللہﷺ نے اسے نافذ بھی کیا لہذااس کے وقوع میں کوئی شبہ نہیں رہا۔

سنن ابی داوٗد(۲۱۸۵)میں یہ الفاظ ہیں کہ:
فردھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ولم یرھا شیا۔۔۔
آپﷺ نے اس کولوٹا دیااور آپ نے اسے (طلاق سنی) نہیں سمجھا۔''

اس کا مطلب یہ ہے کہ آپﷺ نے حالت حیض میں طلاق شمار تو کیاہے،لیکن مستحسن خیال نہیں کیا۔

سنن النسائی (۳۴۲۷،وسندہ صحیح)کے الفاظ:
‘‘سیدنا ابن عمرؓ نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو نبی اکرمﷺ نے ان کی اس (بیوی) کو واپس کردیا(رجوع کا حکم دیا)حتی کہ انہوں نے اسے حالت طہر میں طلاق دی۔''

مطلب یہ ہےکہ پہلی طلاق کے واقع ہوجانے کے بعد رجوع کیا، اس کے بعد حالت طہر میں دوسری طلاق دی، اس طرح تمام روایات میں تطبیق ہوجائے گی، کیونکہ صحیح حدیث اور سیدنا عمرؓ کے اپنے بیان سے ثابت ہے کہ حالت حیض والی طلاق موثر ہے ؛
لنک فتوی
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344

نگران اعلی: الشیخ محمد صالح المنجد
Mon 13 Shw 1437 - 18 July 2016 Top of Form

72417: حيض كى حالت ميں طلاق دينا


حيض كے پہلے دن بيوى اپنے خاوند كو بتانا بھول گئى كہ اسے حيض شروع ہو چكا ہے، اور خاوند سے طلاق كا مطالبہ كر ديا، خاوند نے تيسرى طلاق بھى دے دى، پھر بيوى كو ياد آيا كہ اسے تو حيض آيا ہوا ہے لہذا اس نے خاوند كو بتايا، برائے مہربانى آپ يہ بتائيں كہ اس سلسلہ ميں شرعى موقف كيا ہے ؟
Published Date: 2013-05-06
الحمد للہ:
حائضہ عورت كى طلاق ميں فقھاء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے كہ آيا اسے دى گئى طلاق واقع ہو گى يا نہيں ؟
جمہور فقھاء كرام كے ہاں يہ طلاق واقع ہو جائيگى، ليكن كچھ فقھاء كے ہاں حيض كى حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہوتى، اس دور كے اكثر فقھاء جن ميں شيخ ابن باز اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ شامل ہيں كا فتوى بھى يہى ہے كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوتى.
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اللہ سبحانہ و تعالى نے مشروع كيا ہے كہ عورت كو حيض اور نفاس سے پاكى كى حالت ميں طلاق دى جائے، اور اس حالت ميں كہ اس طہر ميں خاوند نے بيوى سے جماع نہ كيا ہو تو يہ شرعى طلاق ہے، اس ليے اگر اسے حيض يا نفاس ميں يا پھر ايسے طہر ميں طلاق دى جس ميں اس نے بيوى سے جماع كيا تو يہ طلاق بدعى ہے، اور علماء كے صحيح قول كے مطابق يہ طلاق واقع نہيں ہوگى كيونكہ اللہ عزوجل كا فرمان ہے:
{اے نبى ( اپنى امت سے كہو كہ ) جب تم اپنى بيويوں كو طلاق دينا چاہو تو ان كى عدت ( كے دنوں كے آغاز ) ميں انہيں طلاق دو }الطلاق ( 1 ).
اس كا معنى يہ ہے كہ وہ جماع كيے بغير طہر كى حالت ميں ہوں، اہل علم نے اس عدت ميں طلاق كے متعلق يہى كہا ہے، كہ وہ جماع كے بغير طہر ميں ہوں يا پھر حاملہ ہوں، يہى طلاق عدت ہے " انتہى
ديكھيں: فتاوى الطلاق ( 44 ).
مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:
" طلاق بدعى كى كئى قسميں ہيں:

كہ آدمى اپنى بيوى كو حيض يا نفاس كى حالت ميں يا پھر ايسے طہر ميں طلاق دے جس ميں بيوى سے جماع كيا ہو، صحيح يہ ہے كہ يہ طلاق واقع نہيں ہوگى " انتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 58 (.

اس بنا پر اگر طلاق حيض كى حالت ميں دى گئى ہے تو يہ طلاق واقع نہيں ہوئى اور يہ شمار نہيں ہوگى، اور عورت اپنے خاوند كى عصمت ميں ہى رہےگى.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك شخص نے بيوى كو حيض كى حالت ميں طلاق دے دى اسے علم نہ تھا كہ بيوى كو حيض آيا ہوا ہے تو كيا يہ طلاق واقع ہو جائيگى يا نہيں ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" ماہوارى كى حالت ميں دى گئى طلاق كے متعلق علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، اور اس ميں بہت لمبى بحث كى گئى ہے كہ آيا يہ طلاق لاگو ہى گى يا شمار نہيں ہوگى ؟
جمہور اہل علم كے ہاں يہ طلاق لاگو ہو جائيگى، اور عورت پر ايك طلاق شمار ہوگى، ليكن اسے واپس لانے كا حكم ديا جائيگا كہ وہ اسے واپس لائے اور حيض ختم ہونے تك چھوڑے ركھے پھر دوبارہ حيض آئے اور جب پاك ہو تو اگر چاہے تو اسے اپنى عصمت ميں ركھ لے اور اگر چاہے تو اسے طلاق دے دے.
جمہور اہل علم اسى پر ہيں جن ميں آئمہ اربعہ امام احمد امام شافعى امام مالك اور امام ابو حنيفہ رحمہم اللہ شامل ہيں، ليكن ہمارے نزديك راجح وہى جو شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے اختيار كيا ہے كہ حيض كى حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہوتى، اور نہ ہى لاگو ہوگى.
كيونكہ يہ اللہ سبحانہ و تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حكم كے خلاف ہے.
رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس كسى نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ مردود ہے قابل قبول نہيں "
اور پھر اس مسئلہ ميں تو خاص دليل بھى پائى جاتى ہے وہ يہ كہ عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے اپنى بيوى كو حيض كى حالت ميں طلاق دے دى اور جب اس كى خبر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو دى گئى تو آپ ناراض ہوئے اور فرمايا:
" اسے حكم دو كہ وہ اپنى بيوى سے رجوع كرے پھر اسے چھوڑ كر ركھے حتى كہ وہ پاك ہو جائے پھر اسے حيض آئے اور پھر وہ پاك ہو پھر وہ چاہے تو اسے ركھے يا پھر اسے طلاق دے دے "
پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" يہ وہ عدت ہے جس كے ليے اللہ تعالى نے طلاق دينے كا حكم ديا ہے "
چنانچہ وہ عدت جس كے ليے اللہ تعالى نے طلاق دينے كا حكم ديا ہے وہ يہ ہے كہ انسان بيوى كو اس حالت ميں طلاق دے كہ وہ پاك ہو اور خاوند نے اس سے جماع نہ كيا ہو، اس بنا پر اگر كوئى شخص اسے حيض كى حالت ميں طلاق ديتا ہے تو اس نے اللہ كے حكم كے مطابق طلاق نہيں دى، تو يہ طلاق مردود اور ناقابل قبول ہوگى.
اس ليے ہمارى رائے ميں تو اس عورت كو جو طلاق دى گئى ہے وہ شمار اور لاگو نہيں ہوگى، اور ابھى تك يہ عورت اپنے خاوند كى عصمت ميں ہے، اور طلاق ديتے وقت مرد كا عورت كے بارہ ميں پاك ہونے يا حيض كى حالت ميں ہونا كوئى معتبر نہيں، جى ہاں اس كے علم كا اعتبار نہيں.
ليكن اگر اسے علم ہوگيا كہ وہ حيض كى حالت ميں ہے تو پھر اس نے طلاق دے دى تو گناہ خاوند پر ہے اور يہ طلاق واقع نہيں ہوگى، اور اگر وہ علم نہيں ركھتا تھا تو پھر صرف طلاق نہيں ہوگى اور خاوند پر گناہ نہيں ہوگا " انتہى
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 268 (.
واللہ اعلم .
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
عبداللہ بن عمر کے بانچ شاگردوں نے ان سے یہ بیان کیا ہے کہ ان کی اس طلاق کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لغو قرار دیا ہے،لہذا عبداللہ بن عمر والی روایت میں تعارض درآیا ہے، کسی میں اسکو ایک طلاق مانا گیا ہے اور کسی روایت میں اس طلاق کو باطل کہا گیا ہے اس لیے ہمیں دوسرے دلائل کی طرف رجوع کرنا چاہیے،ذیل میں ان روایات کو پیش کیا جاتا ہے،جن میں طلاق فی الحیض کو باطل قرار دیا گیا ہے:
عن ابن عمر أنه طلق امرأته و ھي حائض فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليس ذلك بشيئ
سنن سعيد بن منصور: (6 / 402):

سيدنا عبد الله بن عمر نے اپني بيوي كو بحالت حيض طلاق دے دی تو اس كو رسول الله نے فرمايا: يہ طلاق كچھ بھی نہیں ہے۔
ہر پڈھا لکھا شخص آسانی سے یہ سمجھ سکتا ہے کہ مذکورہ بالا فرمان نبوی طلاق حیض کے باطل و مردود ہونے پر دلیل قاطع کا درجہ رکھتی ہے،جس کا سبب صرف یہ ہے کہ شریعت نے بحالت حیض طلاق سے اسی طرح منع کیا ہے جس طرح بحالت طہر بیک وقت تین طلاق سے منع کیا ہے،حالت حیض یا ایک وقت کی تین طلاقوں کے تین ہونے کا نظریہ سراسر اصول شریعت کے خلاف ہے،کیوں کہ شریعت کا یہ اصول ہے کہ جس کام کا جو طریقہ بتلا کر یہ کہہ دیا گیا ہے کہ اس کے خلاف دوسرا طریقہ مت اختیار کرو وہ کام اگر خلاف حکم و تعلیم شریعت انجام دیا جائے تو باطل و لغو موجب گناہ ہوگا،اسی بنا رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے طلاق فی الحیض کو
لیس بشیئ کہہ کر باطل و لغو قرار دیا ہے۔
قَالَ عَبْدُ اللَّهِ فَرَدَّهَا عَلَيَّ ، وَلَمْ يَرَهَا شَيْئًا ، وَقَالَ : إِذَا طَهُرَتْ فَلْيُطَلِّقْ أَوْ لِيُمْسِكْ قَالَ ابْنُ عُمَرَ : وَقَرَأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ فِي قُبُلِ عِدَّتِهِنَّ
مصنف عبد الرزاق: (6 / 309)

َاگر اس آیت اور حدیث مبارکہ پر غور کیا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ فردها علي ولم يرها شيئا كے الفاظ اس آيت كی تفسیر ہیں یعنی كہ ایسی طلاق جو خلاف شرع ہوگی اس کو باطل و لغو قرار دیا گائے گا۔
اور اسی طرح یہ حدیث کہ جس کے الفاظ یہ ہیں:
فردها علي ولم يرها شيئا کی باطل تاویل کر کے اس کے اصل معنی سے پھیرا جا رہا ہے۔
جہاں تک رجوع کی بات ہے تو رجوع کے کئی معنی ہیں،جس کا یہاں تعین نہیں کیا جا سکتا کہ اس حدیث میں رجوع اپنے اصلی معنی میں یا کسی اور معنی میں۔

علمائے کرام کی جناب میں ایک سوال ہے کہ اگر کوئی مسلمان خلاف شرع نکاح کرے یعنی ایسا نکاح کہ جو سنت نبوی سے ثابت نہ ہو،اس میں حق مہر،ولی یا دوسرے ارکان موجود نہ ہوں تو کیا ایسا نکاح درست قرار پائے گا؟
 
Last edited:

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
سیدنا عبد اللہ بن عمر سے طلاق فی الحیض کے بارے سوال ہوا تو انہوں نے ایسا طلاق شمار نہ کیا:
وقد سئل ابن عمر -رضي الله عنهما- عن رجل طلق امرأته وهي حائض، فقال: "لا يعتد بذلك" رواه ابن حزم (10/163) بإسناده إليه، قال ابن القيم: "إسناد صحيح" زاد المعاد (5/236) ، كما صححه الحافظ ابن حجر -رحمه الله تعالى- في التلخيص الحبير (3/206) .
مندرجہ علمائے کرام کے ہاں طلاق فی الحیض لغو ہے:
لايقع طلاق الحائض: قال بهذا القول بعض المالكية[13] وهو أحد الوجهين في مذهب أحمد[14] واختاره بعض الحنابلة[15] وابن عقيل منهم [16] وشيخ الإسلام ابن تيمية [17]و ابن القيم[18] ومحمد بن إسماعيل الصنعاني[19] والشوكاني[20] وصديق حسن خان[21] وأحمد شاكر[22] والشيخ عبد الرزاق عفيفي[23] والشيخ عبدالعزيز بن باز[24] وشيخنا الشيخ محمد العثيمين[25].

وينسب هذا القول لابن عمر وابن مسعود وابن عباس وطاوس وعمر بن خلاس ولأبي قلابة عبد الله بن زيد الجرمي والشعبي والفقهاء السبعة ومحمد بن إسحاق والحجاج بن أرطاة وقال به إبراهيم بن إسماعيل بن عُلية وهشام بن الحكم
[26] والشيعة[27] والخوارج[28].
[13] انظر: التوضيح شرح مختصر ابن الحاجب (4/39) وشرح الرسالة لقاسم بن عيسى (2/474)
[14] انظر: إغاثة اللهفان في حكم طلاق الغضبان ص: 64
[15] انظر: الإنصاف (8/448)
[16] انظر: إغاثة اللهفان في حكم طلاق الغضبان ص: 63
[17] انظر: مجموع الفتاوى (33/72)
[18] انظر: تهذيب السنن (3/103)
[19] انظر: سبل السلام (3/359) .
[20] انظر: الدراري المضيَّة (2/10)
[21] انظر: الروضة الندية (2/48)
[22] انظر: نظام الطلاق في الإسلام ص: 19.
[23] انظر: فتاوى اللجنة الدائمة (20/58)
[24] الذي استقر عليه رأي الشيخ عدم وقوع طلاق الحائض وكان يرى وقوع الطلاق أولاً . انظر مجموع فتاوى الشيخ عبدالعزيز بن باز (21/280)
[25] انظر: ثمرات التدوين من مسائل ابن عثيمين مسألة ( 471 )
[26] انظر: الحاوي (10/115) والمغني (8/238) الإشراف على نكت مسائل الخلاف (2/736)
[27] انظر: المبسوط (6/66) والحاوي (10/115) ومعالم السنن (3/201) والمغني (8/238) والإشراف على نكت مسائل الخلاف (2/736)
[28] انظر: معالم السنن (3/201).




اس کے علاوہ پاکستانی علما میں یہ نام قابل ذکر ہیں:
مفتی عبید اللہ عفیف صاحب
علامہ رئیس ندوی صاحب
ڈاکٹر ذاکر نائیک
عبد الرشید مجاہدآبادی
محمد حسین ظاہری صاحب
عبد السلام بھٹوی

 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
عبداللہ بن عمر کے بانچ شاگردوں نے ان سے یہ بیان کیا ہے کہ ان کی اس طلاق کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لغو قرار دیا ہے،لہذا عبداللہ بن عمر والی روایت میں تعارض درآیا ہے، کسی میں اسکو ایک طلاق مانا گیا ہے اور کسی روایت میں اس طلاق کو باطل کہا گیا ہے
اس کیلئے تو راستہ طویل و دشوار ہے
آسان صورت یہ ہے کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم کی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہا سے مروی درج ذیل حدیث
کی بنیاد مسئلہ کا حل نکالا جائے :
مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما: أنه طلق امرأته وهي حائض، على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسأل عمر بن الخطاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «مره فليراجعها، ثم ليمسكها حتى تطهر، ثم تحيض ثم تطهر، ثم إن شاء أمسك بعد، وإن شاء طلق قبل أن يمس، فتلك العدة التي أمر الله أن تطلق لها النساء» (صحیح بخاری، الطلاق )
ترجمہ :
امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ انہوں نے اپنی بیوی
(آمنہ بنت غفار) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (حالت حیض میں) طلاق دے دی۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہو کہ اپنی بیوی سے رجوع کر لیں اور پھر اپنے نکاح میں باقی رکھیں۔ جب ماہواری (حیض) بند ہو جائے، پھر ماہواری آئے اور پھر بند ہو، تب اگر چاہیں تو اپنی بیوی کو اپنی نکاح میں باقی رکھیں اور اگر چاہیں تو طلاق دے دیں (لیکن طلاق اس طہر میں) ان کے ساتھ ہمبستری سے پہلے ہونا چاہئے۔ یہی (طہر کی) وہ مدت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو طلاق دینے کا حکم دیا ہے۔»
علامہ غلام مصطفی ظہیر صاحب لکھتے ہیں :
" فلیراجعھا " کے الفاظ واضح طور پر وقوع طلاق کا پتا دے رہے ہیں، اگر طلاق واقع نہیں تھی تو رجوع کیسا؟
امام بخاریؒ نے ان الفاظ پر یوں تبویب فرمائی:‘‘اس بات کا بیان کہ حائضہ کو طلاق دی جاے تو وہ شمار ہوگی۔''


ہمارے موقف کی مزید تائید اس بات سے ہوتی ہے کہ جب سیدنا عمرؓ نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کیا اس طلاق کو شمار کیا جائے گا توآپﷺ نے فرمایا، ہاں(سنن الدارقطنی:۵/۴،سنن الکبری للبیھقی: ۳۲۶/۷،وسندہ حسن
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,101
ری ایکشن اسکور
1,462
پوائنٹ
344
سیدنا عبد اللہ بن عمر سے دونوں طرح کی روایات منقول ہیں، یہ بھی موجود ہے کہ اس طلاق کو شمار کیا گیا اور یہ بھی مذکور ہے کہ اس کو لغو کہا گیا،اس لیے ہمیں اصل کی طرف رجوع کرنا چاہیےاور اصل طریقہ وہی ہے جسے قرآن کریم نے بیان کردیا ہے کہ عورتوں کو طلاق ان کی عدت کے مطابق دو اور جب عدت سے ہٹ کر طلاق دی گئی تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ و سلم نے سخت غصے کا اظہار کیا اور اس کو اللہ کی نافرمانی قرار دیا،ہمارے معاشرے میں اکثر طلاقیں بدعی ہی ہوتی ہیں یعنی اس معاملے اللہ کی کھلی بغاوت ہوتی ہے،طلاق کا وہی طریقہ درست ہے جو ہمیں قرآن مجید نے بتلایا اور پھر حدیث رسول نے بھی اس کی وضاحت فرما دی،
یہاں میں آپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں کیا بدعت والی نماز اللہ کے ہاں قبول ہے؟ کیا بدعت والا روزہ اللہ کے ہاں مقبول ہے؟
اگر نہیں تو پھر طلاق بدعی کیسے واقع ہو گئی؟اگر ہم کسی ایک بدعی چیز کو تسلیم کریں گے تو پھر ہر بدعی عمل کو قبول کرنا پڑے گا،تین طلاق یک لخت دینا بھی بدعی طلاق کہلاتا ہے اسکو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔
 
Top