• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دوران نماز سلام کہنا

شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
کیا نماز باجماعت کے دوران باہر سے آنے والا شخص بلند آواز سے السلام علیکم کہے گا ? احباب رہنمائی فرمائیں.
جزاکم اللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
کیا نماز باجماعت کے دوران باہر سے آنے والا شخص بلند آواز سے السلام علیکم کہے گا ? احباب رہنمائی فرمائیں.
جزاکم اللہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
نمازی کو سلام کہنا اور اس کا جواب دینا جائز و مشروع ہے
فی الحال دو احادیث پیش ہیں :
عبد الله بن عمر، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى قباء يصلي فيه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فجاءته الانصار، ‏‏‏‏‏‏فسلموا عليه وهو يصلي، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فقلت لبلال:‏‏‏‏ كيف رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يرد عليهم حين كانوا يسلمون عليه وهو يصلي؟ قال:‏‏‏‏ "يقول هكذا:‏‏‏‏ وبسط كفه، ‏‏‏‏‏‏وبسط جعفر بن عون كفه، ‏‏‏‏‏‏وجعل بطنه اسفل، ‏‏‏‏‏‏وجعل ظهره إلى فوق".
سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لیے قباء گئے، تو آپ کے پاس انصار آئے اور انہوں نے حالت نماز میں آپ کو سلام کیا، وہ کہتے ہیں: تو میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: جب انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت نماز میں سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح جواب دیتے ہوئے دیکھا؟ بلال رضی اللہ عنہ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کر رہے تھے، اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی ہتھیلی کو پھیلائے ہوئے تھے، جعفر بن عون نے اپنی ہتھیلی پھیلا کر اس کو نیچے اور اس کی پشت کو اوپر کر کے بتایا۔

سنن ابی داود 927 ،أبواب تفريع استفتاح الصلاة ، سنن الترمذی/ الصلاة ۱۵۵ (۳۶۸)، (تحفة الأشراف: ۲۰۳۸، ۸۵۱۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۲)قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عن ابن عمر، ‏‏‏‏‏‏عن صهيب، ‏‏‏‏‏‏انه قال:‏‏‏‏ مررت برسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يصلي، ‏‏‏‏‏‏فسلمت عليه"فرد إشارة"، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ ولا اعلمه إلا قال:‏‏‏‏ إشارة باصبعه.
سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اس حال میں کہ آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے اشارہ سے سلام کا جواب دیا۔ راوی کہتے ہیں: مجھے یہی معلوم ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے «إشارة بأصبعه» کا لفظ کہا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کے اشارہ سے سلام کا جواب دیا، یہ قتیبہ کی روایت کے الفاظ ہیں۔
سنن ابی داود 927 ،أبواب تفريع استفتاح الصلاة ،وصحَّحه الشيخ الألبانيُّ في «صحيح أبي داود» (٨٥٨) ، سنن الترمذی/الصلاة 159 (۳۶۷)، سنن النسائی/السھو ۶ (۱۱۸۷)، (تحفة الأشراف: ۴۹۶۶)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۵۹ (۱۰۱۹)، مسند احمد (۴/۳۳۲)، سنن الدارمی/الصلاة ۹۴ (۱۴۰۱)
قال الشيخ الألباني: صحيح
ــــــــــــــــــــــــــــــــ​
مشہور الجزائری شیخ محمَّد علي فركوس حفظہ اللہ
ایک فتوی میں یہ مذکورہ احادیث نقل کرکے لکھتے ہیں :
ففي هذه الأحاديثِ دليلٌ على جوازِ تسليمِ غيرِ المُصَلِّي على المُصَلِّي حيث إنَّ الصحابةَ رضي الله عنهم سَلَّموا عليه مِن غيرِ نكيرٍ منه، بل وافَقَهم عليه بأَنْ ردَّ السلامَ بالإشارة، ولا يُقال عن هذه الأحاديثِ: إنها خاصَّةٌ بالنفل دون الفرض لورودِ العموم في لفظِ: «الصلاة»
یعنی ان احادیث میں دلیل ہے کہ نماز سے باہر والے کا نماز پڑھنے والے کو سلام کہنا جائز ہے ،کیونکہ ان احادیث سے واضح ہے کہ صحابہ کرام نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو(جب آپ نماز میں تھے ) سلام کہا ،اور آپ ﷺ نے انہیں منع نہیں کیا بلکہ ان کے سلام کا اشارے سےجواب دے کر ان کی موافقت فرمائی، اور ان احادیث کے متعلق یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہوگا کہ یہ نفلی نماز کے متعلق ہیں ،کیونکہ " نماز " کا لفظ عام ہے ،جو نفل فرض تمام قسم کی نمازوں کو شامل ہے ۔
ــــــــــــــــــــــ
هذا ـ وإن كان السلامُ على المُشْتغِلِ بالصلاةِ جائزًا ويكفيه الرَّدُّ بالإشارة كما يجوز له أن يردَّ بعد فراغِه مِن صلاته، على نحوِ ما ثَبَتَ عن ابنِ مسعودٍ رضي الله عنه ـ إلَّا أنَّه يُكْرَه الإكثارُ مِن السلام على المُصَلِّي وتَرْدادُه عليه مع كُلِّ داخلٍ إلى المسجد أو تَكرارُه عليه مع كُلِّ مارٍّ عليه؛ لأنَّ المُصَلِّيَ يُناجي ربَّه بالقرآن والذِّكر والدعاء؛
الأمرُ الذي يستدعي الاستغراقَ في خدمته؛ فلا يصحُّ الاشتغالُ بغيره لقولِه صلَّى الله عليه وسلَّم: «إِنَّ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلًا»؛ لذلك لا تُقاسُ حالةُ غيرِ الصلاة على الصلاة للفارق بينهما. قال النَّوويُّ ـ رحمه الله ـ: «إنَّ وظيفةَ المُصَلِّي الاشتغالُ بصلاته وتَدَبُّرُ ما يقوله؛ فلا ينبغي له أن يُعَرِّجَ على غيرِها».

تنبیہ : احادیث نبویہ سے نمازی کو سلام دینا اور اس نمازی کا اشارہ سے جواب دینے کا جواز تو ثابت اور واضح ہے ،تاہم یہ ملحوظ رہے کہ :کثرت سے سے اور بار بار نمازی کو سلام کہہ کر اس کی توجہ نماز سے ہٹانا بھی ناپسندیدہ عمل ہے ،اس سے بچنا چایئے ، کیونکہ نمازی اپنے رب سے قرآن ،ذکر اور دعاء کی صورت میں مناجات کر رہاہوتا ہے ،اور اس عبادت کا تقاضا ہے کہ نمازی ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہو اور مخلوق سے بے توجہ رہے ،
اس لئے یہ جائز اور مناسب نہیں کہ بار بار اس کی توجہ الی اللہ میں مخل ہواجائے ،
والعلمُ عند الله تعالى، وآخِرُ دعوانا أنِ الحمدُ لله ربِّ العالمين، وصلَّى الله على محمَّدٍ وعلى آله وصحبه وإخوانه إلى يوم الدِّين، وسلَّم تسليمًا.
https://ferkous.com/home/?q=fatwa-50
 
Last edited:
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
نمازی کو سلام کہنا اور اس کا جواب دینا جائز و مشروع ہے
فی الحال دو احادیث پیش ہیں :
عبد الله بن عمر، ‏‏‏‏‏‏يقول:‏‏‏‏ خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى قباء يصلي فيه، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فجاءته الانصار، ‏‏‏‏‏‏فسلموا عليه وهو يصلي، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ فقلت لبلال:‏‏‏‏ كيف رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يرد عليهم حين كانوا يسلمون عليه وهو يصلي؟ قال:‏‏‏‏ "يقول هكذا:‏‏‏‏ وبسط كفه، ‏‏‏‏‏‏وبسط جعفر بن عون كفه، ‏‏‏‏‏‏وجعل بطنه اسفل، ‏‏‏‏‏‏وجعل ظهره إلى فوق".
سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھنے کے لیے قباء گئے، تو آپ کے پاس انصار آئے اور انہوں نے حالت نماز میں آپ کو سلام کیا، وہ کہتے ہیں: تو میں نے بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا: جب انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت نماز میں سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس طرح جواب دیتے ہوئے دیکھا؟ بلال رضی اللہ عنہ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح کر رہے تھے، اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنی ہتھیلی کو پھیلائے ہوئے تھے، جعفر بن عون نے اپنی ہتھیلی پھیلا کر اس کو نیچے اور اس کی پشت کو اوپر کر کے بتایا۔

سنن ابی داود 927 ،أبواب تفريع استفتاح الصلاة ، سنن الترمذی/ الصلاة ۱۵۵ (۳۶۸)، (تحفة الأشراف: ۲۰۳۸، ۸۵۱۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۲)قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عن ابن عمر، ‏‏‏‏‏‏عن صهيب، ‏‏‏‏‏‏انه قال:‏‏‏‏ مررت برسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يصلي، ‏‏‏‏‏‏فسلمت عليه"فرد إشارة"، ‏‏‏‏‏‏قال:‏‏‏‏ ولا اعلمه إلا قال:‏‏‏‏ إشارة باصبعه.
سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اس حال میں کہ آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے اشارہ سے سلام کا جواب دیا۔ راوی کہتے ہیں: مجھے یہی معلوم ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے «إشارة بأصبعه» کا لفظ کہا ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی کے اشارہ سے سلام کا جواب دیا، یہ قتیبہ کی روایت کے الفاظ ہیں۔
سنن ابی داود 927 ،أبواب تفريع استفتاح الصلاة ،وصحَّحه الشيخ الألبانيُّ في «صحيح أبي داود» (٨٥٨) ، سنن الترمذی/الصلاة 159 (۳۶۷)، سنن النسائی/السھو ۶ (۱۱۸۷)، (تحفة الأشراف: ۴۹۶۶)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة ۵۹ (۱۰۱۹)، مسند احمد (۴/۳۳۲)، سنن الدارمی/الصلاة ۹۴ (۱۴۰۱)
قال الشيخ الألباني: صحيح
ــــــــــــــــــــــــــــــــ​
مشہور الجزائری شیخ محمَّد علي فركوس حفظہ اللہ
ایک فتوی میں یہ مذکورہ احادیث نقل کرکے لکھتے ہیں :
ففي هذه الأحاديثِ دليلٌ على جوازِ تسليمِ غيرِ المُصَلِّي على المُصَلِّي حيث إنَّ الصحابةَ رضي الله عنهم سَلَّموا عليه مِن غيرِ نكيرٍ منه، بل وافَقَهم عليه بأَنْ ردَّ السلامَ بالإشارة، ولا يُقال عن هذه الأحاديثِ: إنها خاصَّةٌ بالنفل دون الفرض لورودِ العموم في لفظِ: «الصلاة»
یعنی ان احادیث میں دلیل ہے کہ نماز سے باہر والے کا نماز پڑھنے والے کو سلام کہنا جائز ہے ،کیونکہ ان احادیث سے واضح ہے کہ صحابہ کرام نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو(جب آپ نماز میں تھے ) سلام کہا ،اور آپ ﷺ نے انہیں منع نہیں کیا بلکہ ان کے سلام کا اشارے سےجواب دے کر ان کی موافقت فرمائی، اور ان احادیث کے متعلق یہ کہنا بھی صحیح نہیں ہوگا کہ یہ نفلی نماز کے متعلق ہیں ،کیونکہ " نماز " کا لفظ عام ہے ،جو نفل فرض تمام قسم کی نمازوں کو شامل ہے ۔
ــــــــــــــــــــــ
هذا ـ وإن كان السلامُ على المُشْتغِلِ بالصلاةِ جائزًا ويكفيه الرَّدُّ بالإشارة كما يجوز له أن يردَّ بعد فراغِه مِن صلاته، على نحوِ ما ثَبَتَ عن ابنِ مسعودٍ رضي الله عنه ـ إلَّا أنَّه يُكْرَه الإكثارُ مِن السلام على المُصَلِّي وتَرْدادُه عليه مع كُلِّ داخلٍ إلى المسجد أو تَكرارُه عليه مع كُلِّ مارٍّ عليه؛ لأنَّ المُصَلِّيَ يُناجي ربَّه بالقرآن والذِّكر والدعاء؛
الأمرُ الذي يستدعي الاستغراقَ في خدمته؛ فلا يصحُّ الاشتغالُ بغيره لقولِه صلَّى الله عليه وسلَّم: «إِنَّ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلًا»؛ لذلك لا تُقاسُ حالةُ غيرِ الصلاة على الصلاة للفارق بينهما. قال النَّوويُّ ـ رحمه الله ـ: «إنَّ وظيفةَ المُصَلِّي الاشتغالُ بصلاته وتَدَبُّرُ ما يقوله؛ فلا ينبغي له أن يُعَرِّجَ على غيرِها».

تنبیہ : احادیث نبویہ سے نمازی کو سلام دینا اور اس نمازی کا اشارہ سے جواب دینے کا جواز تو ثابت اور واضح ہے ،تاہم یہ ملحوظ رہے کہ :کثرت سے سے اور بار بار نمازی کو سلام کہہ کر اس کی توجہ نماز سے ہٹانا بھی ناپسندیدہ عمل ہے ،اس سے بچنا چایئے ، کیونکہ نمازی اپنے رب سے قرآن ،ذکر اور دعاء کی صورت میں مناجات کر رہاہوتا ہے ،اور اس عبادت کا تقاضا ہے کہ نمازی ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہو اور مخلوق سے بے توجہ رہے ،
اس لئے یہ جائز اور مناسب نہیں کہ بار بار اس کی توجہ الی اللہ میں مخل ہواجائے ،
والعلمُ عند الله تعالى، وآخِرُ دعوانا أنِ الحمدُ لله ربِّ العالمين، وصلَّى الله على محمَّدٍ وعلى آله وصحبه وإخوانه إلى يوم الدِّين، وسلَّم تسليمًا.
https://ferkous.com/home/?q=fatwa-50
 
Top