• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دوزندگیاں اور دو موتیں

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
دوزندگیاں اور دو موتیں

محمد رفیق طاہر​

كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
تم اللہ کا کیسے انکار کرتے ہو, حالانکہ تم بے جان تھے تو اس نے تمہیں زندگی بخشی , پھر وہ تمہیں موت دے گا , پھر زندہ کرے گا , پھر تم اسی کی طرف ہی لوٹائے جاؤ گے ۔
(البقرۃ28)
اس آیت کریمہ میں اللہ سبحانہ وتعالى نے دو زندگیوں اور دو موتوں کا تذکرہ فرمایا ہے ۔ ایک وہ مرحلہ جب انسان کی حیاۃ دنیوی کا آغاز نہیں ہوا تھا اور دوسرا وہ مرحلہ جب انسان اپنی دنیوی زندگی مکمل کر لیتا ہے , اللہ تعالى نے ان دونوں مراحل کو موت سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اور دنیوی زندگی کے آغاز سے ا ختتام تک اور مرنے کے بعد اخروی زندگی کو اللہ تبارک وتعالى نے حیات سے تعبیر کیا ہے ۔
دنیوی زندگی کا آغاز اسی وقت ہو جاتا ہے جب رحم مادر میں نطفہء امشاج (zygote) تشکیل پاتا ہے ۔ اور اسکا اختتام سانسیں رکنے , روح نکلنے , اور نبض تھمنے کے ساتھ ہو جاتا ہے ۔ اور اسکے کچھ ہی بعد اخروی زندگی کا آغاز ہوتا ہے جو کہ ابدی اور دائمی زندگی ہے ۔
انہی دو زندگیوں اور دو موتوں کا تذکرہ اللہ تعالى نے یوں بھی فرمایا ہے :
قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِنْ سَبِيلٍ
وہ (کفار) کہیں گے اے ہمارے رب ! تو نے ہمیں دو بار موت دی, اور دو بارہ زندگی عطاء کی , سو ہم نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا ہے , تو کیا نکلنے کا کوئی راستہ ہے ؟ (غافر:11)
ان آیات بینات کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی بناء پر کچھ لوگوں نے قبروبرزخ کی زندگی , اور قبر میں روح کے لوٹنے اور منکر نکیر کے سوال وجواب سے متعلق تمام تر احادیث کا انکار کردیا ۔ اور کہنے لگے کہ اگر ہم یہ بات تسلیم کر لیں کہ قبر میں مرنے والے کی روح لوٹا دی جاتی ہے تو ایک تیسری زندگی کا اثبات ہوتا ہے ۔ جبکہ قرآن میں صرف دو زندگیوں کا ذکر ہے ۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ اعادہ روح اور منکر ونکیر کے سوالات سے متعلقہ احادیث مبارکہ ان قرآنی آیات کے خلاف یا متضاد نہیں , بلکہ انکے موافق و مطابق ہیں ۔
دراصل غلطی اس وقت پیدا ہوئی جب انہوں نے موت اور زندگی کے آغاز کو نہیں سمجھا ۔ اور زندگی کے مختلف مراحل سے نا آشنا رہے ۔ اخروی زندگی کے پہلے مرحلہ یعنی قبروبرزخ کی زندگی کو انہوں ایک الگ زندگی سمجھ لیا اور اسی اخروی زندگی کے دوسرے مرحلہ کو انہوں نے ایک الگ زندگی خیال کر لیا جبکہ ایسا نہیں ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کی دونوں زندگیوں , یعنی حیات دنیوی اور حیات اخروی کے دو الگ الگ مراحل ہیں ۔ دنیوی زندگی کا آغاز ماں کے رحم سے ہوتا ہے ۔ بچہ شکم مادر میں زندہ ہوتا ہے , اسکی افزائش ہوتی ہے , اسے خوراک ملتی ہے , وہ حرکت کرتا , بیمار ہوتا اور کچھ چیزوں کو محسوس بھی کرتا ہے ۔ لیکن اسکی زندگی کا یہ مرحلہ شکم مادر سے خارج کی زندگی سے بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ وہ باہر کی تمام تر چیزوں سے بے خبر ہوتا ہے , کسی قسم کی آواز اسے سنائی نہیں دیتی اور نہ ہی وہ بولتا ہے ۔ پھر جب وہ وہاں سے باہر نکلتا ہے تو اسکی اسی دنیوی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالى نے فرمایا ہے "ثم نخرجکم طفلا" پھر ہم تمہیں اس حال میں باہر نکالتے ہیں کہ تم بچہ بن چکے ہوتے ہو ۔
پھر جب یہ دنیوی زندگی ختم ہوتی ہے تو جسم میں روح کے لوٹائے جاتے ہی اخروی زندگی کا آغاز ہوجاتا ہے , جسے قبر یا برزخ کی زندگی کہتے ہیں ۔ اس میں کچھ سوال وجواب ہوتے ہیں اور جزاء یا سزا کا سلسلہ چل نکلتا ہے , جوکہ اخروی جزاء یا سزا کے مقابلہ میں بہت ہی کم ہے ۔ پھر روز محشر جب قبریں پھٹیں گی اور لوگ میدان محشر میں جمع ہونگے تو اسکی اخروی زندگی کا دوسرا دور شروع ہو جائے گا ۔
یعنی جس طرح دنیوی زندگی کے دو مراحل ہیں ایک شکم مادر میں اور دوسرا خارج میں , ایسے ہی اخروی زندگی کے بھی دو مراحل ہیں ایک قبر وبرزخ میں اور دوسرا مرحلہ خارج میں ,جس کا آغاز روز قیامت سے ہوگا ۔اور اگر اول الذکر آیت پر ہی تھوڑا غور کر لیں تو اخروی زندگی کے یہ دونوں مراحل نکھر کے سامنے آجاتے ہیں , ملاحظہ فرمائیں :
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالى فرما رہے ہیں کہ تم مردہ و بے جان تھے تو اس نے اس بے جانی کیفیت اور موت کی حالت کے ختم ہوتے ہی فورا زندگی سے نوازا , پھر زندگی عطاء کرنے کے کچھ بعد تمہیں موت دے گا , اور پھر موت دینے کے کچھ بعد تمہیں زندہ کرے گا , اور زندہ کرنے کے کچھ بعد تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔
[عربی زبان میں "ف" تعقیب مع الوصل اور "ثم" تعقیب مع التراخی کے لیے آتا ہے, اسی لیے "ف" کا معنى "فورا بعد" اور "ثم" کا معنى "کچھ بعد" کیا گیا ہے ۔]
تو اس آیت مبارکہ میں اللہ سبحانہ وتعالى نے یہ نہیں فرمایا کہ جب وہ تمہیں پھر زندہ کرے گا تو اسکے فورا بعد تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔ بلکہ فرمایا ہے کہ جب وہ تمہیں زندگی دے گا تو اسکے کچھ بعد تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔دوبارہ زندگی اور رجعت الی اللہ (اللہ کی طرف لوٹنے) کا درمیانی وقفہ کا نام ہی قبر یا برزخ کی زندگی ہے ۔
کیونکہ زندگی ملنے کے فورا بعد محشر کی طرف دوڑ نہیں لگے گی بلکہ اللہ فرما رہے ہیں "ثم إلیہ ترجعون" پھر کچھ دیر بعد تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
سو, اعادہ روح کے نتیجہ میں ملنے والی زندگی ابدی , دائمی اور ہمیشہ کی زندگی ہے ۔ اور قیامت سے پہلے پہلے اس زندگی کا ایک مرحلہ ہے اور قیامت کے بعد اسی زندگی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا۔
یاد رہے کہ قیامت کے دن روحوں کے بدن میں داخل ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے !
لنک
 
Top