• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دوزندگیوں کا منکرکون؟ امام احمدبن حنبل ؒ یا ڈاکٹر عثمانی!

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کتاب کا نام
دوزندگیوں کا منکرکون؟ امام احمدبن حنبل ؒ یا ڈاکٹر عثمانی!

تحریر
ڈاکٹر عبداللہ جابر دامانوی

شائع کردہ
کیماڑی کراچی۔ P.C. 75620 فون: 32853011

یونیکوڈ کاوش

نوٹ
کتاب پر تبصرہ وغیرہ کرنے کےلیے اس لنک پر کلک کریں!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دو زندگیاں اور دو موتیں
اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ (البقرۃ:۲۸)
’’تم اللہ (کے ایک معبود ہونے) کا کیسے انکار کرتے ہو کہ تم مردہ تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں زندہ کیا۔ پھر وہ تمہیں موت دے گا اور پھر (قیامت کے دن) وہ تمہیں زندہ کرے گا اور پھر تم اُسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے‘‘۔
دوسرے مقام پر اِرشاد فرمایا:
ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ ثُمَّ إِنَّكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ (المؤمنون:۱۵۔۱۶)
’’پھر یقینا تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو اور پھر قیامت کے دن تم (زندہ کر کے) اٹھائے جاؤ گے‘‘۔
نیز ملاحظہ فرمائیں: سورۃ المؤمن آیت ۱۱۔
ثابت ہوا کہ ہر انسان کو دو زندگیاں اور دو موتیں ہی عنایت کی گئی ہیں اور ڈاکٹر موصوف نے بھی اس کا ذکر کیا ہے بلکہ ان لوگوں کا زبردست ردّ کیا ہے کہ جو بقول ان کے دو زندگیوں کے بعد تیسری زندگی کے قائل ہیں۔ اور ان پر کفر کے فتوے بھی داغے ہیں۔ لیکن پھر انتہائی تعجب کی بات ہے کہ موصوف اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود بھی خود تیسری زندگی کے قائل ہیں اور ان کا خیال ہے کہ مرنے کے بعد اگر نئے برزخی جسم کے ساتھ تیسری زندگی تسلیم کر لی جائے تو یہ بات بالکل درست ہے بلکہ قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ڈاکٹر عثمانی تیسری زندگی کے قائل تھے؟
موصوف نے عذاب قبر کے ماننے والوں کو دو زندگیوں اور دو موتوں کا انکاری قرار دیا ہے لیکن آپ کو حیرت ہو گی کہ خود موصوف حقیقتاً دو زندگیوں اور دو موتوں کے انکاری اور تین زندگیوں اور تین موتوں کے قائل تھے۔ چنانچہ موصوف لکھتے ہیں:
اللہ کے فرمان سے معلوم ہوا کہ ہر مرنے والے کو قبر ملتی ہے چاہے اس کی لاش کو جلا کر خاک کر دیا جائے، یا اس کی میت درندوں اور مچھلیوں کے پیٹ کی غذا بن جائے۔ یہی وہ اصلی قبر ہے جہاں روح کو دوسرے (برزخی) جسم میں ڈال کر قیامت تک رکھا جائیگا۔ اور اسی پر راحت یا عذاب کا پورا دور گزرے گا اور یہ معاملہ صرف مومنوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ کافر، مشرک، فاسق و فاجر و منافق ہر ایک کے ساتھ یہی ہوگا۔ قرآن و حدیث کا یہی فیصلہ ہے۔ [عذاب برزخ صفحہ ۲]
قرآن کے بیان سے معلوم ہوا کہ فرعون کی لاش اس دنیا میں عبرت کے لئے محفوظ، اور اس کے ساتھیوں کی لاشیں بھی اسی دنیا میں، لیکن ان کو صبح و شام آگ پر پیش کیا جا رہا ہے۔ ثابت ہوا کہ ان کو کوئی دوسرا قیامت تک باقی رہنے والا اور عذاب برداشت کرنے والا جسم دیا گیا ہے۔ جسد عُنصری وہ بہرحال نہیں ہے۔[عذاب برزخ صفحہ ۳]
بخاری کی اس حدیث سے بہت سی باتیں سامنے آ گئیں۔
  1. روحوں کو جسم (برزخی) ملتا ہے اور روح اور اس جسم کے مجموعہ پر راحت و عذاب کا دَور گزرتا ہے۔
  2. اس مجموعہ کو قیامت تک باقی رکھا جائیگا اور اس پر سارے حالات قیامت تک گزریں گے۔
  3. یہ ایسا جسم ہے کہ اگر اس کو نقصان پہنچایا جائے تو یہ پھر بن جاتا ہے۔
  4. دنیا میں زناکاروں کی قبریں مختلف ملکوں اور مختلف مقاموں پر ہوتی ہیں مگر برزخ میں ان کو ایک ہی تنور میں برہنہ حالت میں جمع کر کے آگ کا عذاب دیا جاتا ہے اور قیامت تک دیا جاتا رہے گا۔
  5. نیکوکار مرنے والے مردوں ، عورتوں اور بچوں کو بھی جسم ملتا ہے۔
  6. شہداء کو بھی جسم دیا جاتا ہے اور مسلم کی حدیث کے مطابق ان کے جسم سبز رنگ کے اور اڑنے والے ہوتے ہیں۔ مسلم کی حدیث کے مطابق ان کے جسم۔۔۔
[عذاب برزخ صفحہ ۶]
ان ساری صحیح حدیثوں نے بتلا دیا کہ سچی بات تو یہ ہے کہ جو شخص بھی وفات پا جاتا ہے اس کو حسب حیثیت ایک برزخی جسم ملتا ہے جس میں اس کی روح کو ڈال دیا جاتا ہے اور اس جسم اور روح کے مجموعہ پر سوال و جواب اور عذاب و ثواب کے سارے حالات گزرتے ہیں۔ اور یہی اس کی اصلی قبر بنتی ہے ۔ قرآن اور صحیح احادیث کا بیان تو یہ ہے۔[عذاب برزخ صفحہ ۹]
(فوٹو عذاب برزخ ص۲، ۳،۶، ۹)

موصوف کی وضاحت سے معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد ہر انسان کو ایک نیا جسم دیا جاتا ہے جسے موصوف برزخی جسم قرار دیتے ہیں۔ اور روح کو اس جسم میں ڈال دیا جاتا ہے اور پھر اس مکمل انسان کو قیامت تک راحت یا عذاب کے مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ عذاب کے نتیجے میں یہ جسم ریزہ ریزہ بھی ہو جاتا ہے اور پھر جب یہ جسم دوبارہ درست ہو جاتا ہے تو اس جسم میں دوبارہ روح کو ڈال دیا جاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بار بار اعادہ روح ہوتا رہتا ہے اور ثواب و عذاب کا یہ سلسلہ قیامت تک رہتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ جسم چاہے نیا ہو یا پرانا، برزخی ہو یا عنصری، اگر روح اس میں ڈال دی جائے تو یہ ایک زندہ انسان ہو جائے گا۔ اور مرنے والے کو یہ ایک کامل و مکمل زندگی حاصل ہو جائے گی اور جب قیامت آئے گی تو پھر نیا جسم فوت ہو جائے گا اور پرانا جسم دوبارہ زندہ ہو جائے گا۔ اور موصوف کی اس وضاحت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ موصوف میت (مردہ) کے عذاب کے قائل ہی نہیں ہیں بلکہ وہ زندہ کے عذاب کے قائل ہیں اور مرنے کے بعد ان کے بقول روح کو ایک نئے جسم کے ساتھ زندگی دی جاتی ہے۔

اس وضاحت سے روزِ روشن کی واضح ہو گیا کہ موصوف تیسری زندگی کے قائل ہیں اور اعادہ روح کے بھی۔ نئے جسم میں پہلی بار جب روح کو داخل کیا گیا تو وہ زندہ انسان بن گیا۔ اب عذاب کے نتیجے میں جب یہ جسم ریزہ ریزہ ہو گیا تو اسے دوبارہ بنا دیا گیا۔ اور پھر بار بار نئے جسم کی طرف اعادئہ روح ہوتا رہے گا اور یہ سلسلہ قیامت تک رہے گا۔ روح کے نئے جسم میں ڈالے جانے والے عقیدہ سے ہندوؤں کے عقیدئہ تناسخ کو بھی تقویت ملتی ہے۔ گویا موصوف ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ کے بھی قائل تھے۔ حدیث قدسی میں آتا ہے کہ ’’جو شخص میرے کسی ولی سے دشمنی رکھتا ہے اسے میری طرف سے اعلانِ جنگ ہے‘‘۔ (بخاری)۔ موصوف محدثین کرام کے سخت دشمن تھے اور ان پر کفر کے فتوے لگانا ان کا روزمرہ کا معمول تھا۔

یہی وجہ ہے کہ موصوف تیسری زندگی، اعادئہ روح اور ہندوؤں کے عقیدئہ تناسخ کے قائل ہو کر اس دنیا سے برزخ کی طرف رواں دواں ہوئے ہیں۔ ثابت ہوا کہ موصوف:

(۱) تیسری زندگی کے قائل تھے۔
(۲) باربار اعادہ روح کے قائل تھے۔
(۳) ہندوؤں کے عقیدئہ تناسخ کے بھی قائل تھے۔
(۴) میت کے عذاب کے برخلاف وہ زندہ کے عذاب کے قائل تھے اور اس اصول کے مطابق وہ عذاب قبر کے انکاری تھے۔ برزخی قبر میں عذاب کے قائل تھے جبکہ برزخی قبر کا عقیدہ شیعوں کا ہے۔ تفصیل آگے آرہی ہے۔
(۵) موصوف تکفیری فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں یعنی مسلمانوں کو کافر قرار دیتے ہیں۔ تکفیری خارجی فرقہ کے متعلق تفصیل ہماری کتاب الدین الخالص جدید ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں۔ موصوف نے برزخی جسم کے ثبوت کے لئے جو احادیث ذکر کی ہیں ان میں سے کسی میں بھی جسم کے الفاظ ثابت نہیں ہیں اور نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ روح کو برزخی جسم میں ڈال دیا جاتا ہے بلکہ موصوف نے زبردستی ان احادیث سے برزخی جسم کو کشید کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ جہنم میں ارواح کے عذاب کے مناظر ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مختلف موقعوں پردکھائے ہیں اور بس۔ لیکن موصوف نے نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر جو واضح اور کھلا جھوٹ باندھا ہے اس کی سزا جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لینے کے مترادف ہے۔ (بخاری و مسلم)۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
موصوف معجزات کو دلیل بنانے والوں سے کہتے ہیں:
’’نبی کے معجزہ کو معمول بنا کر اپنے عقیدہ کے ثبوت میں پیش کرنا بلا کی چابکدستی ہے‘‘ (عذاب برزخ ص۱۹)۔
لیکن خود موصوف ان احادیث سے برزخی جسم کشید کرنے لگ گئے اور انہیں یہ خیال تک نہ آیا کہ معجزات سے بھلا کبھی دلیل اخذ کی جا سکتی ہے؟ کسی چیز کا نفس الامر میں موجود ہونا اور معجزہ اسے صرف ظاہر کرے مثلاً کسی میت پر عذاب ہو رہا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم وحی کے ذریعہ بتا دیں کہ اسے عذاب ہو رہا ہے، یہ معجزہ نہیں بلکہ وحی کی ایک شکل ہے چاند کے دو ٹکڑے ہو جانا بھی ایک معجزہ ہے لیکن اس سے کوئی عام دلیل اخذ نہیں کی جا سکتی ہے اور نہ اسے دلیل بنایا جا سکتا ہے۔ پھر حیرت اس بات پر ہے کہ جرائم جسم عنصری کرے اور عذاب نئے برزخی جسم کو دیا جائے!! یہ کیا بوالعجبی ہے اور کیا جہالت ہے؟؟

ڈاکٹر موصوف نے قبر کے عذاب کے ماننے والوں پر کفر کے فتوے داغے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ قبر کے عذاب کو اگر تسلیم کر لیا گیا تو یہ بات دنیاوی قبر میں عذاب قبر کا اثبات حیات فی القبر کے ہم معنی اور قبر پرستی کے شرک کی اصل اور بنیاد ہے (عذاب قبر ص:۲۶)۔

یہ بات تو درست ہے کہ قبروں کو سجدہ گاہ بنانا، وہاں چادر، بکرا، مٹھائی وغیرہ چڑھانا قبروں کی پوجا پاٹ کرنا، بزرگوں سے دعائیں مانگنا، انہیں مدد کے لئے پکارنا وغیرہ شرکیہ افعال ہیں۔ لیکن قبر کے اندر کے معاملات پر لب کشائی کرنا، آخرت کے حالات کو دنیا پر قیاس کرنا اور قبر کے عذاب و ثواب پر ایمان لانے کے بجائے الٹا اس پر فتویٰ بازی کرنا جہالت کی انتہاء ہے اور احادیث صحیحہ متواترہ کا انکار ہے۔ عذاب قبر کے بیان پر اس قدر کثرت کے ساتھ احادیث مروی ہیں کہ جن کا کوئی شمار ہی نہیں اور ان احادیث کے ماننے والوں پر فتویٰ بازی کرنا یقینا سخت گمراہی ہے۔ اور ایسا شخص یقینا ضال و مضل ہے یعنی خود بھی گمراہ ہے اور دوسروں کو بھی گمراہ کر رہا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تناسخ کیا ہے؟
وارث سرہندی صاحب لکھتے ہیں:
تناسخ: روح کا ایک جسم سے دوسرے جسم میں آنا۔ (ہندوؤں کے عقیدہ کے مطابق) بار بار جنم لینا، جون بدلنا، چولا بدلنا، آواگون۔ (جامع علمی اردو لغت ص۴۶۹) نیز ملاحظہ فرمائیں: رابعہ اردو لغت جدید ص:۲۶۰۔

سید قاسم محمود صاحب تناسخ کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: آواگون! جون بدلنا بقول مولانا اشرف علی تھانوی ایک بدن سے دوسرے بدن کی طرف نفس ناطقہ کا انتقال۔

ہندوستان میں اس اعتقاد کے لوگ عام ہیں۔ بقول البیرونی :
’’جس طرح شہادت بہ کلمہ اخلاص مسلمانوں کے ایمان کا شعار ہے، تثلیث علامت نصرانیت ہے اور سبت منانا علامت یہودیت اسی طرح تناسخ ہندو مذہب کی نمایاں علامت ہے‘‘۔
موصوف مزید لکھتے ہیں:
’’عقیدہ تناسخ روح کے ایک شخص سے دوسرے شخص میں منتقل ہونے کے معنی میں متعدد شیعی فرقوں میں بھی پایا جاتا ہے‘‘۔
موصوف آخر میں لکھتے ہیں:
’’تناسخ کا عقیدہ ہندومت اور مسلمانوں کے علاوہ بدھ مت، قدیم یونانیوں اور دنیا کے دیگر مذاہب و اقوام کے ہاں بھی پایا جاتاہے۔ اسلام کی صحیح تعلیمات اس عقیدے کی مخالف ہیں اور واضح طور پر اس کی تردید کرتی ہیں‘‘۔ (شاہکار اسلامی انسائیکلوپیڈیا ص۵۳۴)

مسلمانوں سے شیعہ مراد ہیں جیسا کہ موصوف نے اوپر وضاحت کی ہے۔ اس وضاحت سے ثابت ہوا کہ برزخی قبر کی طرح تناسخ کا عقیدہ بھی ہندوؤں کے علاوہ شیعوں میں بھی پایا جاتا ہے اور وہاں سے ڈاکٹر موصوف نے اس عقیدہ کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عذاب قبر کی کیفیت
موت کے وقت ملک الموت روح کو قبض کر لیتے ہیں (السجدہ:۱۸) اور جسم اور روح میں جدائی واقع ہو جاتی ہے اور یہ جدائی قیامت تک رہتی ہے۔ قبرکے سوال و جواب کے بعد روح جنت یا جہنم میں داخل کر دی جاتی ہے اور میت قبر میں ہوتی ہے روح کو جو عذاب ہوتا ہے اسے عذاب جہنم کہتے ہیں اور میت (جسم) کو قبر میں جو عذاب ہوتا ہے اسے عذاب قبر کہتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ان دونوں عذابوں یعنی عذاب جہنم اور عذابِ قبر کو کو الگ الگ بتایا ہے اور اُمت کو نماز کے آخر میں چار چیزوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیا ہے (مسلم) اور آپ بھی ہمیشہ نماز کے آخر میں ان سے پناہ مانگا کرتے تھے (بخاری)
عذاب قبر قیامت تک جاری رہے گا لیکن موصوف نے عذاب قبر کو سمجھنے میں زبردست ٹھوکر کھائی ہے اور عذاب جہنم والی احادیث کو ذکر کر کے اسے ہی عذاب قبر قرار دے ڈالا اور اصل عذاب قبر کا صاف انکار کر دیا اور جنت اور جہنم کو برزخی قبریں قرار دے دیا۔ فاعتبروا یااولی الابصار
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
ڈاکٹر موصوف کا سفید جھوٹ

دوسرے حضرات اس بات پر مصر ہیں کہ نہیں، ہر مرنے والے کی رُوح اسی دنیاوی جسم میں لوٹا دی جاتی ہے اور یہی جسم قبر میں پھر زندہ ہو جاتا ہے اور برابر زندہ رہتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ مُردہ کا جسم ریزہ ریزہ ہو جائے یا آگ اسے جلا کر خاکستر کر دے تو جلا دیا جانے والا کافر تو عذاب سے بچ گیا۔ اُس کے دونوں کانوں کے درمیان گُرز کیسے مارا جائے گا اور عذاب کا دور اس پر کیسے گذرے گا تو اللہ کی قدرت اور ان اللہ علیٰ کل شیءٍ قدیر کا سہارا لیا جاتا ہے۔
سبحان اللہ۔ اللہ کی قدرت سے کس کو انکار ہے لیکن قدرت کے ساتھ ساتھ اللہ کی ایک نہ بدلنے والی سنت بھی تو ہے ۔ اس کو نظرانداز کردینا بھی تو اچھا نہیں۔
قرآن و بخاری و مسلم کی احادیث نبوی ﷺ کے فیصلہ کے برخلاف اب جو یہ کہا جانے لگا ہے کہ روح نکلنے کے بعد اسی دنیاوی قبر کے مردے میں واپس لوٹا دی جاتی ہے اور یہ مردہ زندہ ہو جاتا ہے۔ دیکھنے اور سننے لگتا ہے اور اس قبر میں زندہ ہو جانے والے مردے پر عذاب اور راحت کا پورا دور قیامت تک گزرے گا۔ [عذاب برزخ ص: 10]
موصوف نے یہ بالکل سفید جھوٹ کہا ہے اس لئے کہ قرآن و بخاری و مسلم میں میت کے عذاب کا ذکر آیا ہے۔ میت راحت و آرام یا عذاب کو محسوس کرتی ہے۔ عذاب سے چیختی چلاتی بھی ہے (بخاری) اور قبر میں سوال و جواب کے وقت اعادہ روح بھی ہوتا ہے (ابوداوٗد، مسند احمد) کیونکہ یہ انتہائی اہم سوالات ہوتے ہیں کہ جن پر میت کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہوتا ہے اس لئے اس اہم موقع پر روح کو بھی حاضر کیا جاتا ہے لیکن روح کے اعادہ کے باوجود مرنے والا میت ہی ہوتا ہے اس لئے کہ دو زندگیاں یعنی دنیاوی زندگی اس کی ختم ہو چکی ہے اور قیامت کے دن کی زندگی ابھی شروع نہیں ہوئی اور انسان اس وقت حالت موت میں ہوتا ہے یعنی میت ہوتا ہے۔ روح کے اعادہ سے زندگی ثابت نہیں ہوتی جس طرح دنیا میں سوتے وقت روزانہ انسان پر موت طاری ہو جاتی ہے اور اس کی روح قبض کر لی جاتی ہے اور جاگنے پر پھر اعادہ روح ہو جاتا ہے۔ (دیکھئے: سورۃ الزمر آیت ۴۲ اور اس آیت کی تفسیر بخاری:۶۳۲۰) اور انسان جاگ جاتا ہے، لیکن اس سے کئی زندگیاں ثابت نہیں ہوتیں۔ دنیاوی زندگی میں روزانہ اعادہ روح کے باوجود بھی کئی زندگیاں اور کئی موتیں ثابت نہیں ہوتیں بلکہ اسے ایک ہی زندگی کہا جاتا ہے۔ موت کے بعد میت کی طرف سوال و جواب کے لئے اعادہ روح ہوتا ہے تو اس سے بھی زندگی ثابت نہیں ہوتی بلکہ میت بدستور میت ہی رہتی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
برزخی قبر کا تصور کہاں سے آیا؟
قرآن و حدیث کے دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ قبر زمین میں ہوتی ہے جسے ارضی قبر کہتے ہیں اور کسی فرضی (برزخی) قبر کا قرآن و حدیث میں کہیں دور دور تک نام و نشان نہیں ملتا۔ لیکن موصوف اس بات پر مصر ہیں کہ قبر برزخ میں ہوتی ہے اس سلسلہ میںجب ہم نے تحقیق کی تو اس کی ایک دلیل مل گئی اور معلوم ہوا کہ برزخ میں قبر کا تصور شیعوں کے ہاں پایا جاتا ہے چنانچہ ملاحظہ فرمائیں:
(فوٹو الفروع من الکافی ج۳ ص۲۴۲ طبع تہران)
عمرو بن یزید بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے امام جعفر صادق سے پوچھا کہ آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے تمام شیعہ جنت میں ہیں۔ المختصر یہ کہ امام صاحب نے فرمایا کہ جنت میں تمام شیعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم یا وصی رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شفاعت کی وجہ سے جائیں گے لیکن اللہ کی قسم میں تمہارے حال پر ڈرتا ہوں، برزخ میں۔ عرض کیا: برزخ کیا ہے؟ فرمایا: ’’وہ قبر ہے جو موت کے وقت سے لے کر قیامت کے دن تک ہے‘‘۔
معلوم ہوا کہ برزخ میں قبر کا تصور ملت جعفریہ کے ہاں پایا جاتا ہے جسے ڈاکٹر موصوف نے وہاں سے اسمگل کر کے عام مسلمانوں میں پھیلانے کی کوشش کی ہے اور برزخی قبر کو نہ ماننے والوں کو کافر قرار دے دیا۔ غور کیجئے کہ شیعیت کے لئے کیسے کیسے ہاتھ کام کر رہے ہیں؟ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
واضح رہے کہ دنیاوی قبر، دنیاوی جسم، برزخی قبر اور برزخی جسم کی اصطلاحات موصوف کی ایجاد کردہ ہیں اور ان سے جہاں قرآن و حدیث کا صاف انکار لازم آتا ہے وہاں یہ اصطلاحات بدعات کے زمرے میں بھی آتی ہیں۔ اور انہیں ہم عثمانی بدعات کہہ سکتے ہیں اور یہ سب کل بدعۃ ضلالۃ و کل ضلالۃ فی النار کا مصداق ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مختصر مختصر
(۱) ڈاکٹر موصوف نے سورۃ الاعراف کی آیت نمبر۴۰ کا انکار کیا جس میں ہے: ’’کافر کی روح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے‘‘۔ اور اس آیت کے معنی میں تحریف کی بھی زبردست کوشش کی ہے۔ نیز اس آیت کا مذاق بھی اُڑایا ہے، دیکھئے: عذابِ برزخ ص۲۲۔
(۲) موصوف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی شان میں سخت گستاخی کا ارتکاب کیا ہے اور آپ کی سخت توہین بھی کی ہے یعنی آپ پر ’’بحرانی کیفیت‘‘ طاری ہونے کا الزام لگایا ہے! دیکھئے: عذاب برزخ ص۲۰۔
(۳) موصوف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ تعا لی عنہم میں سے 1 سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ تعا لی عنہ کو بدحواسی کی حالت میں کفر پر مرنے والا قرار دیا اور 2 بریدہ اسلمی رضی اللہ تعا لی عنہ اور ان دونوں صحابہ پر دبے الفاظ میں کفر کے فتوے داغے ہیں۔ (نعوذ باﷲ من ذالک)۔ (عذاب برزخ ص۱۸۔۱۹)
(۴) موصوف نے اس اُمت کے جم غفیر یعنی تمام محدثین کرام اور پوری اُمت مسلمہ پر کفر کے کھلے اور واضح فتوے داغے ہیں۔ (عذاب برزخ ص:۲۶) اور یہ فتوے پلٹ کر ان پر چسپاں ہو چکے ہوں گے ان شاء اللہ تعالیٰ۔
(۵) موصوف اپنے نظریہ کے دفاع کے لئے احادیث کو نقل کرنے میں قطع و برید سے بھی کام لیتے ہیں اور جو حدیث ان کے نظریہ سے ٹکراتی ہے اس کے اہم الفاظ ہی سرے سے نقل نہیں کرتے۔ دیکھئے: عذاب برزخ ص۱۷۔۱۸۔
الغرض آپ جس قدر بھی غور کریں گے تو آپ کو موصوف کی شخصیت دھوکا و فریب اور جھوٹ سے مزین کفر کی مشین گن اور عجمی سازش معلوم ہو گی۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top