• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"دوست کو دوست سے ملا دو " قبرِ رسول ﷺ سے آواز آئی ۔۔۔ یہ حدیث صحیح ہے یا نہیں ؟؟ ارجنٹ

شمولیت
دسمبر 25، 2012
پیغامات
77
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
55
ایک ویب سائیٹ پر یہ موجود ہے !!

یعنی امام بیہقی رحمہ اللہ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے اپنی قبور میں زندہ ہونے پر ایک رسالہ لکھا ہے اور اس میں بہت سی احادیث ذکر کی ہیں۔مزید لکھتے ہیں :

ثم ان کانت تلک الحیوۃ فی القبر وان کانت یترتب علیہا بعض مایترتب علی الحیوۃ فی الدنیا المعروفۃ لنا من الصلاۃ والاذان والاقامۃ ورد السلام المسموع۔

( ایضاًج22ص 38)

جس کا حاصل یہ ہے کہ قبر کی اس زندگی پر دنیا والے کچھ احکام لگتے ہیں جیسے نماز، اذان ،اقامت اور سنے ہوئے سلام کا جواب دینا۔

فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا

(الکہف :11)

کی تفسیر میں امام رازی رحمہ اللہ نے کرامت کی بحث چھیڑ دی اور اسی میں یہ بھی درج کیا:

اما ابوبکرفمن کراماتہ انہ لما حملت جنازتہ الی باب قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ونودی: السلام علیک یارسول اللہ ھذا ابوبکر بالباب فاذا الباب قد انفتح واذا بہاتف یہتف من القبر :''ادخلوا الحبیب الی الحبیب''

(مفاتیح الغیب المعروف تفسیر کبیر ج7ص433)

یعنی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کرامات میں سے یہ ہے کہ جب ان کا جنازہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر اٹھاکر لایا گیا اور "السلام علیک یارسول اللہ" عرض کرکے کہاگیا کہ یہ ابوبکر دروازے پر حاضر ہیں تو دروازہ کھل گیا اور قبر مبارک سے آوازدینے والے کی آواز آئی کہ دوست کو دوست کے پاس داخل کردو۔
کیا یہ جو نقل کی گئی حدیث صحیح ہے یا نہیں ؟ برائے مہربانی رہنمائی کریں ۔۔ شکریہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
شیخ یہ لنک کام نہیں کر رہا ہے ۔
محترم شیخ کفایت اللہ صاحب کا یہ پورا مضمون آپ کیلئے یہاں پیش کیئے دیتے ہیں :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
بھائی تفسیر کبیر امام رازی کی تفسیر کوکہاجاتا ہے ۔
ہمارے پاس تفسیر کبیرکا جونسخہ ہے اس میں ہمیں مذکورہ صفحہ پرایسی کوئی بات نہیں ملی ، ہم نے شاملہ میں سرچ کیا تو درج ذیل نتائج ملے:

تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (10/ 135)
وَلَمَّا تُوُفِّيَ رِضْوَانُ اللَّه عَلَيْهِ دَفَنُوهُ إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّه صَلَّى اللَّه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا ذَاكَ إِلَّا أَنَّ اللَّه تَعَالَى رَفَعَ الْوَاسِطَةَ بَيْنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ فِي هَذِهِ الْآيَةِ،

تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (16/ 51)
وَلَمَّا تُوُفِّيَ دُفِنَ بِجَنْبِهِ، فَكَانَ ثَانِيَ اثْنَيْنِ هُنَاكَ أَيْضًا

ان دونوں مقامات پرابوبکررضی اللہ عنہ کے فضائل میں تفصیلی بحث موجود ہے لیکن یہاں پر مذکورہ روایت نہیں ہے۔


ممکن ہے آپ کے بریلوی دوست کی مراد یہ بات ہو :

تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (21/ 433)
«أَمَّا الْآثَارُ» فَلْنَبْدَأْ بِمَا نُقِلَ أَنَّهُ ظَهَرَ عَنِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ مِنَ الْكَرَامَاتِ ثُمَّ بِمَا ظَهَرَ عَنْ سَائِرِ الصَّحَابَةِ، أَمَّا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمِنْ كَرَامَاتِهِ أَنَّهُ لَمَّا حُمِلَتْ جِنَازَتُهُ إِلَى بَابِ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنُودِيَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَبُو بَكْرٍ بِالْبَابِ فَإِذَا الْبَابُ قَدِ انْفَتَحَ وَإِذَا بِهَاتِفٍ يَهْتِفُ مِنَ الْقَبْرِ أَدْخِلُوا الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ

عرض ہے کہ یہ اثر یا کرامت بے سند ہے ، امام رازی نے اس کا کوئی حوالہ نہیں دیا لہذا غیرمسموع ہے۔
نیزاس میں وصیت ابوبکررضی اللہ عنہ کا تذکرہ بھی نہیں ہے ۔

الغرض یہ کہ تفسیر رازی میں مذکورہ بات مکمل ہمین نہیں مل سکی بعض دوسری کتب میں یہ روایت ملتی ہے اس کی حقیقت آگے ملاحظہ ہو:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:

أنبأنا أبو علي محمد بن محمد بن عبد العزيز بن المهدي وأخبرنا عنه أبو طاهر إبراهيم بن الحسن بن طاهر الحموي عنه أنا أبو الحسن أحمد بن محمد بن أحمد العتيقي سنة سبع وثلاثين وأربع مائة نا عمر بن محمد الزيات نا عبد الله بن الصقر نا الحسن بن موسى نا محمد بن عبد الله الطحان حدثني أبو طاهر المقدسي عن عبد الجليل المزني عن حبة العرني عن علي بن أبي طالب قال لما حضرت أبا بكر الوفاة أقعدني عند رأسه وقال لي يا علي إذا أنا مت فغسلني بالكف الذي غسلت به رسول الله صلى الله عليه وسلم وحنطوني واذهبوا بي إلى البيت الذي فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد يفتح فادخلوا بي وإلا فردوني إلى مقابر المسلمين حتى يحكم الله بين عباده قال فغسل وكفن وكنت أول من يأذن إلى الباب فقلت يا رسول الله هذا أبو بكر مستأذن فرأيت الباب قد تفتح وسمعت قائلا يقول ادخلوا الحبيب إلى حبيبه فإن الحبيب إلى الحبيب مشتاق[تاريخ دمشق لابن عساكر: 30/ 436 واخرجہ ایضا أبو الفرج عبد المنعم بن كليب الحراني من طریق ابی علی فی مشيخة ابن كليب رقم 18 ترقیم جوامع الکلم]۔

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد خود امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے اس پر جرح کرتے ہوئے کہا:
هذا منكر وراويه أبو الطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي وعبد الجليل مجهول والمحفوظ أن الذي غسل أبا بكر امرأته أسماء بنت عميس [تاريخ دمشق لابن عساكر: 30/ 437]۔

عرض ہے کہ ہماری نظر میں یہ روایت موضوع ومن گھڑت ہے ۔
اس کی سند میں موجود ابو طاہر المقدسی یہ موسى بن محمد بن عطاء بن طاهر البَلْقاويّ المقدسيّ ہے جیساکہ خود امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے بھی صراحت کردی ہے ۔

یہ شخص کذاب ہے ۔

امام موسى بن سهل رحمه الله (المتوفى262)نے کہا:
أشهد عليه أنه كان يكذب[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 161 واسنادہ صحیح]۔

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
كان يكذب[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 161]۔

امام أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
يكذب وياتى بالا باطل[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 161]۔

امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
يُحَدِّثُ عَنِ الثِّقَاتِ، بِالْبَوَاطِيلِ فِي الْمَوْضُوعَاتِ[الضعفاء الكبير للعقيلي: 4/ 169]۔

ان کے علاوہ اوربھی بہت سارے ائمہ نے اس پرجرح کی ہے۔

نیز سند میں اوربھی علتیں ہیں۔
 
Top