• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم دوسری بیعت عقبہ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسری بیعت عقبہ

نبوت کے تیرہویں سال موسم حج - جون ۶۲۲ ء - میں یثرب کے ستر سے زیادہ مسلمان فریضہ ٔ حج کی ادائیگی کے لیے مکہ تشریف لائے۔ یہ اپنی قوم کے مشرک حاجیوں میں شامل ہوکر آئے تھے اور ابھی یثرب ہی میں تھے ، یامکے کے راستے ہی میں تھے کہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ہم کب تک رسول اللہﷺ کو یوں ہی مکے کے پہاڑوں میں چکر کاٹتے ، ٹھوکریں کھا تے ، اور خوفزدہ کیے جاتے چھوڑے رکھیں گے ؟
پھر جب یہ مسلمان مکہ پہنچ گئے تو درپردہ نبیﷺ کے ساتھ سلسلۂ جنبانی شروع کی اور آخر کار اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ دونوں فریق ایام تشریق 1کے درمیانی دن - ۱۲؍ ذی الحجہ کو - منیٰ میں جمرہ ٔ اولیٰ، یعنی جمرہ ٔ عقبہ کے پاس جو گھاٹی ہے اسی میں جمع ہوں اور یہ اجتماع رات کی تاریکی میں بالکل خفیہ طریقے پر ہو۔
آیئے اب اس تاریخی اجتماع کے احوال ، انصار کے ایک قائد کی زبانی سنیں کہ یہی وہ اجتماع ہے جس نے اسلام وبت پرستی کی جنگ میں رفتارِزمانہ کا رخ موڑ دیا۔
حضرت کعب بن مالکؓ فرماتے ہیں :
''ہم لوگ حج کے لیے نکلے۔ رسول اللہﷺ سے ایام تشریق کے درمیانی روز عَقَبہ میں ملاقات طے ہوئی اور بالآخر وہ رات آگئی جس میں رسول اللہﷺ سے ملاقات طے تھی۔ ہمارے ساتھ ہمارے ایک معزز سردار عبد اللہ بن حرام بھی تھے (جو ابھی اسلام نہ لائے تھے ) ہم نے ان کو ساتھ لے لیا تھا - ورنہ ہمارے ساتھ ہماری قوم کے جو مشرکین تھے ہم ان سے اپنا سارا معاملہ خفیہ رکھتے تھے - مگر ہم نے عبد اللہ بن حرام سے بات چیت کی اور کہا: اے ابوجابر ! آپ ہمارے ایک معزز اور شریف سربراہ ہیں اور ہم آپ کو آپ کی موجودہ حالت سے نکالنا چاہتے ہیں تاکہ آپ کل کلاں کو آگ کا ایندھن نہ بن جائیں۔ اس کے بعد ہم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور بتلایا کہ آج عقبہ میں رسول اللہﷺ سے ہماری ملاقات طے ہے۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور ہمارے ساتھ عقبہ میں تشریف لے گئے اور نقیب بھی مقرر ہوئے۔ ''
حضرت کعبؓ واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ہم لو گ حسبِ دستور اس رات اپنی قوم کے ہمراہ اپنے ڈیروں میں سوئے ، لیکن جب تہائی رات گزر گئی تو اپنے ڈیروں سے نکل نکل کر رسول اللہﷺ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ماہ ذی الحجہ کی گیارہ بارہ ، تیرہ تاریخوں کو ایامِ تشریق کہتے ہیں۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کے ساتھ طے شدہ مقام پر جا پہنچے۔ ہم اس طرح چپکے چپکے دبک کر نکلتے تھے جیسے چڑیا گھونسلے سے سکڑ کر نکلتی ہے۔ یہاں تک کہ ہم سب عقبہ میں جمع ہوگئے۔ ہماری کل تعداد پچھتّر تھی۔ تہتر مرد اور دو عورتیں ایک ام عمارہ نسیبہ بنت کعب تھیں۔ جو قبیلہ بنومازن بن نجار سے تعلق رکھتی تھیں اور دوسری ام منیع اسماء بنت عمرو تھیں۔ جن کا تعلق قبیلہ بنوسلمہ سے تھا۔
ہم سب گھاٹی میں جمع ہو کر رسول اللہﷺ کا انتظار کر نے لگے اور آخر وہ لمحہ آہی گیا جب آپ تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ آپ کے چچا حضرت عبا س بن عبد المطلب بھی تھے۔ وہ اگر چہ ابھی تک اپنی قوم کے دین پر تھے مگر چاہتے تھے کہ اپنے بھتیجے کے معاملہ میں موجود رہیں اور ان کے لیے پختہ اطمینان حاصل کرلیں۔ سب سے پہلے بات بھی انہیں نے شروع کی۔1
گفتگو کا آغاز اور حضرت عباس ؓ کی طرف سے معاملے کی نزاکت کی تشریح :
مجلس مکمل ہوگئی تو دینی اور فوجی تعاون کے عہد وپیمان کو قطعی اور آخری شکل دینے کے لیے گفتگو کا آغاز ہوا۔ رسول اللہﷺ کے چچا حضرت عباس نے سب سے پہلے زبان کھولی۔ ان کا مقصود یہ تھا کہ وہ پوری صراحت کے ساتھ اس ذمہ داری کی نزاکت واضح کردیں جو اس عہد وپیمان کے نتیجے میں ان حضرات کے سر پڑنے والی تھی۔ چنانچہ انہوں نے کہا:
خزرج کے لوگو ! عام اہل ِ عرب انصار کے دونوں ہی قبیلے، یعنی خزرج اور اوس کو خزرج ہی کہتے تھے - ہمارے اندر محمدﷺ کی جو حیثیت ہے وہ تمہیں معلوم ہے۔ ہماری قوم کے جو لوگ دینی نقطۂ نظر سے ہمارے ہی جیسی رائے رکھتے ہیں۔ ہم نے محمدﷺ کو ان سے محفوظ رکھا ہے۔ وہ اپنی قوم اور اپنے شہر میں قوت وعزت اور طاقت وحفاظت کے اندر ہیں۔ مگر اب وہ تمہارے یہاں جانے اور تمہارے ساتھ لاحق ہونے پر مصر ہیں۔ لہٰذا اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم انہیں جس چیز کی طرف بلا رہے ہو اسے نبھالو گے اور انہیں ان کے مخالفین سے بچالو گے تب تو ٹھیک ہے۔ تم نے جو ذمے داری اٹھائی ہے اسے تم جانو لیکن اگر تمہارایہ اندازہ ہے کہ تم انہیں اپنے پاس لے جانے کے بعد ان کا ساتھ چھوڑ کر کنارہ کش ہوجاؤ گے تو پھر ابھی سے انہیں چھوڑ دو۔ کیونکہ وہ اپنی قوم اور اپنے شہر میں بہر حال عزت وحفاظت سے ہیں۔
حضرت کعبؓ کہتے ہیں کہ ہم نے عباس ؓ سے کہا کہ آپ کی بات ہم نے سن لی۔ اب اے اللہ کے رسول ! آپ گفتگو فرمائیے اور اپنے لیے اور اپنے رب کے لیے جو عہد وپیمان پسند کریں۔ 2
اس جواب سے پتہ چلتا ہے کہ اس عظیم ذمے داری کو اٹھا نے اور اس پر خطر نتائج کو جھیلنے کے سلسلے میں انصار
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۴۰، ۴۴۱
2 ابن ہشام ۱/۴۴۱ ، ۴۴۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کے عزمِ محکم ، شجاعت وایمان اور جوش واخلاص کا کیا حال تھا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ نے گفتگو فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے قرآن کی تلاوت کی، اللہ کی طرف دعوت دی اور اسلام کی ترغیب دی، اس کے بعد بیعت ہوئی۔
بیعت کی دفعات:
بیعت کا واقعہ امام احمدؒ نے حضرت جابرؓ سے تفصیل کے ساتھ روایت کیا ہے۔ حضرت جابر ؓ کا بیان ہے کہ ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! ہم آپ سے کس بات پر بیعت کریں؟آپﷺ نے فرمایا : اس بات پر کہ :
چستی اور سستی ہر حال میں بات سنو گے اور مانو گے۔
تنگی اور خوشحالی ہر حال میں مال خرچ کرو گے۔
بھلائی کا حکم دو گے اور برائی سے روکو گے۔
اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہوگے اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گرکی ملامت کی پروا نہ کرو گے۔
اور جب میں تمہارے پاس آجاؤں گا تو میری مدد کرو گے اور جس چیز سے اپنی جان اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہوا س سے میری بھی حفاظت کرو گے۔ اور تمہارے لیے جنت ہے۔ 1
حضرت کعبؓ کی روایت میں ...جسے ابنِ اسحاق نے ذکر کیا ہے...صرف آخری دفعہ (۵) کا ذکر ہے۔ چنانچہ اس میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے قرآن کی تلاوت ، اللہ کی طرف دعوت اور اسلام کی ترغیب دینے کے بعد فرمایا : میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم اس چیز سے میری حفاظت کرو گے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہو۔ اس پر حضرت براء ؓ بن معرور نے آپﷺ کا ہاتھ پکڑا اور کہا: ہاں! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے! ہم یقینا اس چیز سے آپﷺ کی حفاظت کریں گے جس سے اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں...لہٰذا اے اللہ کے رسول ! آپ ہم سے بیعت لیجئے۔ ہم اللہ کی قسم! جنگ کے بیٹے ہیں اور ہتھیار ہمارا کھلونا ہے۔ ہماری یہی ریت باپ دادا سے چلی آرہی ہے۔
حضرت کعب ؓ کہتے ہیں کہ حضرت براء رسول اللہﷺ سے بات کرہی رہے تھے کہ ابو الہثیم بن تیہان نے بات کاٹتے ہوئے کہا : اے اللہ کے رسول ! ہمارے اور کچھ لوگوں...یعنی یہود...کے درمیان -عہد وپیمان کی- رسیاں ہیں اور اب ہم ان رسیوں کو کاٹنے والے ہیں ، تو کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ ہم ایسا کر ڈالیں پھر اللہ آپﷺ کو غلبہ وظہور عطا فرمائے تو آپﷺ ہمیں چھوڑ کر اپنی قوم کی طرف پلٹ آئیں۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اسے امام احمد بن حنبل نے حسن سند سے روایت کیا ہے ۳/۳۲۲، بیہقی نے سنن کبریٰ میں روایت کیا ہے ۹/۹ اور اما م حاکم اور ابن حبان نے صحیح کہا ہے۔ ابن اسحاق نے قریب قریب یہی چیز حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت کی ہے۔ البتہ اس میں ایک دفعہ کااضافہ کیا ہے جو یہ ہے کہ ہم اہلِ حکومت سے حکومت کے لیے نزاع نہ کریں گے۔ دیکھئے: ابن ہشام ۱/۴۵۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
یہ سن کر رسول اللہﷺ نے تبسم فرمایا، پھر فرمایا : (نہیں)بلکہ آپ لوگوں کا خون میرا خون اور آپ لوگوں کی بربادی میری بربادی ہے۔ میں آپ سے ہوں اور آپ مجھ سے ہیں۔ جس سے آپ جنگ کریں گے اس سے میں جنگ کروں گا اور جس سے آپ صلح کریں گے اس سے میں صلح کروں گا۔ 1
خطر ناکی ٔ بیعت کی مکر ر یاد دہانی:
بیعت کی شرائط کے متعلق گفت وشنید مکمل ہوچکی ، اور لوگوں نے بیعت شروع کرنے کا ارادہ کیا تو صفِ اول کے دو مسلما ن جو ۱۱ نبوت او ر ۱۲ نبوت کے ایام حج میں مسلمان ہوئے تھے۔ یکے بعد دیگرے اٹھے تاکہ لوگوں کے سامنے ان کی ذمے داری کی نزاکت اور خطرناکی کو اچھی طرح واضح کردیں اور یہ لوگ معاملے کے سارے پہلو ؤں کو اچھی طرح سمجھ لینے کے بعد ہی بیعت کریں۔ اس سے یہ بھی پتہ لگانا مقصود تھا کہ قوم کس حد تک قربانی دینے کے لیے تیار ہے۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ جب لوگ بیعت کے لیے جمع ہوگئے تو حضرت عباس ؓ بن عبادہ بن نضلہ نے کہا : تم لوگ جانتے ہوکہ ان سے (اشارہ نبیﷺ کی طرف تھا ) کس بات پر بیعت کررہے ہو ؟ جی ہاں کی آوازوں پر حضرت عباسؓ نے کہا: تم ان سے سرخ اور سیاہ لوگوں سے جنگ پر بیعت کر رہے ہو۔ اگر تمہارا یہ خیال ہو کہ جب تمہارے اموال کا صفایا کردیا جائے گا اور تمہارے اشراف قتل کر دیئے جائیں گے تو تم ان کا ساتھ چھوڑ دوگے تو ابھی سے چھوڑ دو۔ کیونکہ اگر تم نے انہیں لے جانے کے بعد چھوڑ دیا تو یہ دنیا اور آخرت کی رسوائی ہوگی اور اگر تمہارا یہ خیال ہے کہ تم مال کی تباہی اور اشراف کے قتل کے باوجود عہدنبھاؤ گے جس کی طرف تم نے انہیں بلایا ہے تو پھر بے شک تم انہیں لے لو۔ کیونکہ یہ اللہ کی قسم دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔
اس پر سب نے بیک آواز کہا : ہم مال کی تباہی اور اشراف کے قتل کا خطرہ مول لے کر انہیں قبول کرتے ہیں۔ ہاں ! اے اللہ کے رسول ! ہم نے یہ عہد پورا کیا تو ہمیں اس کے عوض کیا ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا : جنت۔ لوگوں نے عرض کی: اپنا ہاتھ پھیلائیے ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ پھیلا یا اور لوگوں نے بیعت کی۔ 2
حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ اس وقت ہم بیعت کرنے اٹھے تو حضرت اسعد بن زرارہ نے ... جو ان ستر آدمیوں میں سب سے کم عمر تھے...آپﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولے : اہل یثرب ! ذراٹھہر جاؤ۔ ہم آپ کی خدمت میں اونٹوں کے ۲کلیجے مار کر (لمبا چوڑا سفر کرکے ) اس یقین کے ساتھ حاضر ہوئے ہیں کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ آج آپﷺ کو یہاں سے لے جانے کے معنی ہیں سارے عرب سے دشمنی ، تمہارے چیدہ سرداروں کا قتل ، اور تلواروں کی مار۔ لہٰذا اگر یہ سب کچھ برداشت کر سکتے ہو تب تو انہیں لے چلو۔اور تمہارا اجر اللہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۴۲
2 ایضاً ۱/۴۴۶
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پر ہے اور اگر تمہیںاپنی جان عزیز ہے تو انہیں ابھی سے چھوڑ دو۔ یہ اللہ کے نزدیک زیادہ قابلِ قبول عذر ہوگا۔1
بیعت کی تکمیل:
بیعت کی دفعات پہلے ہی طے ہوچکی تھیں ، ایک بار نزاکت کی وضاحت بھی ہوچکی تھی۔ اب یہ تاکید مزید ہوئی تو لوگوں نے بیک آواز کہا : اسعد بن زرارہ ! اپنا ہاتھ ہٹا ؤ۔ اللہ کی قسم! ہم اس بیعت کو نہ چھوڑ سکتے ہیں اور نہ توڑ سکتے ہیں۔2
اس جواب سے حضرت اسعدؓ کو اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ قوم کس حد تک اس راہ میں جان دینے کے لیے تیار ہے -- درحقیقت حضرت اسعد بن زرارہ حضرت مُصعب بن عُمیر کے ساتھ مل کر مدینے میں اسلام کے سب سے بڑے مبلغ تھے۔ اس لیے طبعی طور پر وہی ان بیعت کنندگان کے دینی سربراہ بھی تھے اور اسی لیے سب سے پہلے انہیں نے بیعت بھی کی۔ چنانچہ ابنِ اسحاق کی روایت ہے کہ بنو النجار کہتے ہیں کہ ابوامامہ اسعدبن زرارہ سب سے پہلے آدمی ہیں جنہوں نے آپﷺ سے ہاتھ ملایا۔ 3اورا س کے بعد بیعتِ عامہ ہوئی۔ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ ایک ایک آدمی کر کے اٹھے اور آپﷺ نے ہم سے بیعت لی اور اس کے عوض جنت کی بشارت دی۔4
باقی رہیں دوعورتیں جو اس موقعے پر حاضر تھیں تو ان کی بیعت صرف زبانی ہوئی۔ رسول اللہﷺ نے کبھی کسی اجنبی عورت سے مصافحہ نہیں کیا۔5
بارہ نقیب:
بیعت مکمل ہوچکی تو رسول اللہﷺ نے یہ تجویز رکھی کہ بارہ سربراہ منتخب کر لیے جائیں۔ جو اپنی اپنی قوم کے نقیب ہوں اور اس بیعت کی دفعات کی تنفیذکے لیے اپنی قوم کی طرف سے وہی ذمے دار اور مکلف ہوں۔ آپ کا ارشاد تھا کہ لوگ اپنے اندر سے بارہ نقیب پیش کیجیے تاکہ وہی لوگ اپنی اپنی قوم کے معاملات کے ذمہ دار ہوں۔ آپﷺ کے اس ارشاد پر فوراً ہی نقیبوں کا انتخاب عمل میں آگیا۔ نو خَزَرج سے منتخب کیے گئے اور تین اَوس سے۔ نام یہ ہیں :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسند احمد حضرت جابرؓ سے ۳/۳۲۲۔ بیہقی ، سنن کبریٰ ۹/۹
2 ایضاً سابقہ حوالے
3 ابن اسحاق کا یہ بھی بیان ہے کہ بنوعبد الاشہل کہتے ہیں کہ سب سے پہلے ابو الہثیم بن تیہان نے بیعت کی اور حضرت کعب بن مالک کہتے ہیں کہ براء بن معرور نے کی (ابن ہشام ۱/۴۴۷) راقم کا خیال ہے کہ ممکن ہے بیعت سے پہلے نبیﷺ سے حضرت ابوالہثیماور براء کی جو گفتگو ہوئی تھی۔ لوگوں نے اسی کو بیعت شمار کرلیا ہو۔ ورنہ اس وقت آگے بڑھائے جانے کے سب سے زیادہ حقدار حضرت اسعد بن زرارہ ہی تھے۔ واللہ اعلم
4 مسند احمد ۳/۳۲۲ 5 دیکھئے : صحیح مسلم باب کیفیۃ بیعۃ النساء ۲/۱۳۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
خزر ج کے نقباء:
۱۔ اسعد بن زرارہ بن عدس ۲۔ سعد بن ربیع بن عَمرو
۳۔ عبد اللہ بن رواحہ بن ثعلبہ ۴۔رافع بن مالک بن عجلان
۵۔براء بن معرور بن صخر ۶۔ عبد اللہ بن عَمرو بن حرام
۷۔ عبادہ بن صامت بن قیس ۸۔ سَعد بن عُبادہ بن دلیم
۹۔ مُنذر بن عَمرو بن خنیس
اوس کے نقباء :
۱۔اُسید بن حضیر بن سماک ۲۔ سعد بن خیثمہ بن حارث
۳۔ رِفَاعہ بن عبد المنذر بن زبیر1
جب ان نقباء کا انتخاب ہوچکا تو ان سے سردار اور ذمے دار ہونے کی حیثیت سے رسول اللہﷺ نے ایک اور عہد لیا۔ آپﷺ نے فرمایا : آپ لوگ اپنی قوم کے جملہ معاملات کے کفیل ہیں۔ جیسے حواری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جانب سے کفیل ہوئے تھے اور میں اپنی قوم یعنی مسلمانوں کا کفیل ہوں۔ ان سب نے کہا : جی ہاں۔2
شیطان معاہدہ کا انکشاف کرتا ہے:
معاہدہ مکمل ہوچکا تھا اور اب لوگ بکھرنے ہی والے تھے کہ ایک شیطان کو اس کا پتہ لگ گیا۔ چونکہ یہ انکشاف بالکل آخری لمحات میں ہوا تھا اور اتنا موقع نہ تھا کہ یہ خبر چپکے سے قریش کو پہنچادی جائے، اور وہ اچانک اس اجتماع کے شرکاء ٹوٹ پڑیں ، اور انہیں گھاٹی ہی میں جالیں۔ اس لیے شیطان نے جھٹ ایک اونچی جگہ کھڑے ہو کر نہایت بلند آواز سے ، جو شاید ہی کبھی سنی گئی ہو ، یہ پکارلگائی : خیمے والو! محمد (ﷺ ) کو دیکھو۔ اس وقت بددین اس کے ساتھ ہیں اور تم سے لڑنے کے لیے جمع ہیں۔
رسول اللہﷺ نے فرمایا : یہ اس گھاٹی کا شیطان ہے۔ او اللہ کے دشمن ! سن ، اب میں تیرے لیے جلد ہی فارغ ہورہا ہوں۔ اس کے بعد آپﷺ نے لوگوں سے فرمایا کہ وہ اپنے ڈیروں پر چلے جائیں۔3
قریش پر ضرب لگانے کے لیے انصار کی مستعدی:
اس شیطان کی آواز سن کر حضرت عباس عبادہ بن نضلہؓ نے فر مایا : اس ذات کی قسم ! جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، آپ چاہیں تو ہم کل اہل منیٰ پر اپنی تلواروں کے ساتھ ٹوٹ پڑیں۔ آپ نے فرمایا :
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 زبیر ، حرف ب سے ، بعض لوگوں نے ب کی جگہ ن کہا ہے یعنی زنیر۔ بعض اہل ِ سیر نے رفاعہ کے بدلے ابو الہثیم بن تیہان کا نام درج کیا ہے ۔
2 ابن ہشام ۱/۴۴۳، ۴۴۴، ۴۴۶ 3 ابن ہشام ۱/۴۴۷، زاد المعاد ۲/۵۱
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ بس آپ لوگ اپنے ڈیروں میں چلے جائیں۔ اس کے بعد لوگ واپس جاکر سو گئے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔1
رؤساء یثرب سے قریش کا احتجاج:
یہ خبر قریش کے کانوں تک پہنچی تو غم والم کی شدت سے ان کے اندر کہرام مچ گیا۔ کیونکہ اس جیسی بیعت کے جو نتائج ان کی جان ومال پر مرتب ہوسکتے تھے اس کا انہیں اچھی طرح اندازہ تھا۔ چنانچہ صبح ہوتے ہی ان کے رؤساء اور اکابر مجرمین کے ایک بھاری بھرکم وفد نے اس معاہدے کے خلاف سخت احتجاج کے لیے اہل یثرب کے خیموں کا رخ کیا ، اور یوں عرض پرداز ہوا۔
خزرج کے لوگو! ہمیں معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگ ہمارے اس صاحب کو ہمارے درمیان سے نکال لے جانے کے لیے آئے ہیں اور ہم سے جنگ کرنے کے لیے اس کے ہاتھ پر بیعت کررہے ہیں۔ حالانکہ کوئی عرب قبیلہ ایسا نہیں جس سے جنگ کرنا ہمارے لیے اتنا زیادہ ناگوار ہو جتنا آپ حضرات سے ہے۔2
لیکن چونکہ مشرکین خزرج اس بیعت کے بارے میں سرے سے کچھ جانتے ہی نہ تھے ، کیونکہ یہ مکمل راز داری کے ساتھ رات کی تاریکی میں زیر عمل آئی تھی اس لیے ان مشرکین نے اللہ کی قسم کھا کھا کر یقین دلایا کہ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ ہم اس طرح کی کوئی بات سرے سے جانتے ہیں نہیں۔ بالآخر یہ وفد عبد اللہ بن اُبی ابن سلول کے پاس پہنچا۔ وہ بھی کہنے لگا یہ باطل ہے۔ ایسا نہیں ہوا ہے ، اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ میری قوم مجھے چھوڑ کر اس طرح کاکام کرڈالے۔ اگر میں یثرب میں ہوتا تو بھی مجھ سے مشورہ کیے بغیر میری قوم ایسا نہ کرتی۔
باقی رہے مسلمان تو انہوں نے کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھا اورچپ سادھ لی۔ ان میں سے کسی نے ہاں یا نہیں کے ساتھ زبان ہی نہیں کھولی۔ آخر رؤساء قریش کا رجحان یہ رہا کہ مشرکین کی بات سچ ہے، اس لیے وہ نامراد واپس چلے گئے۔
خبر کا تیقن اور بیعت کرنے والوں کا تعاقب:
رؤساء مکہ تقریباً اس یقین کے ساتھ پلٹے تھے کہ یہ خبر غلط ہے، لیکن اس کی کرید میں وہ برابر لگے رہے۔ بالآخر انہیں یقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ خبر صحیح ہے اور بیعت ہوچکی ہے لیکن یہ پتہ اس وقت چلا جب حجاج اپنے اپنے وطن روانہ ہوچکے تھے۔ اس لیے ان کے سواروں نے تیز رفتاری سے اہل یثرب کا پیچھا کیا لیکن موقع نکل چکا تھا۔ البتہ انہوں نے سعد بن عبادہ اور منذر بن عمرو کو دیکھ لیا اور انہیں جا کھدیڑا لیکن منذرزیادہ تیز رفتار ثابت ہوئے اور نکل بھا گے۔ البتہ سعد بن عبادہ پکڑ لیے گئے اور ان کا ہاتھ گردن کے پیچھے انہیں کے کجاوے کی رسی سے باندھ دیا گیا۔ پھر انہیں مارتے پیٹتے اور بال نوچتے ہوئے مکہ لے جایا گیا لیکن وہاں مطعم بن عدی اور حارث بن حرب بن امیہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ابن ہشام ۱/۴۴۸ 2 ایضاً ۱/۴۴۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نے آکر چھڑادیا۔ کیونکہ ان دونوں کے جو قافلے مدینے سے گزرتے تھے۔ وہ حضرت سعد ؓ ہی کی پناہ میں گزرتے تھے۔ ادھر انصار ان کی گرفتاری کے بعد باہم مشورہ کررہے تھے کہ کیوں نہ دھا وا بول دیا جائے، مگر اتنے میں وہ دکھائی پڑگئے اس کے بعد تمام لوگ بخیر یت مدینہ پہنچ گئے۔1
یہی عقبہ کی دوسری بیعت ہے جسے بیعتِ عقبہ کُبریٰ کہا جاتا ہے۔ یہ بیعت ایک ایسی فضا میں زیر عمل آئی جس پر محبت ووفاداری ، منتشر اہلِ ایمان کے درمیان تعاون وتناصر ، باہمی اعتماد ، اورجاں سپاری وشجاعت کے جذبات چھا ئے ہوئے تھے۔ چنانچہ یثربی اہلِ ایمان کے دل اپنے کمزور مکی بھائیوں کی شفقت سے لبریز تھے ، ان کے اندر ان بھائیوں کی حمایت کا جوش تھا اور ان پر ظلم کرنے والوں کے خلاف غم وغصہ تھا۔ ان کے سینے اپنے اس بھائی کی محبت سے سرشار تھے جسے دیکھے بغیر محض للہ فی اللہ اپنا بھائی قرار دے لیا تھا۔
اور یہ جذبات واحساسات محض کسی عارضی کشش کا نتیجہ نہ تھے۔ جو دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔ بلکہ اس کا منبع ایمان باللہ ، ایمان بالرسول اور ایمان بالکتاب تھا۔ یعنی وہ ایمان جوظلم وعدوان کی کسی بڑی سے بڑی قوت کے سامنے سرنگوں نہیں ہوتا۔ وہ ایمان کہ جب اس کی باد بہاری چلتی ہے تو عقیدہ وعمل میں عجائبات کا ظہور ہوتا ہے۔ اسی ایمان کی بدولت مسلمانوں نے صفحاتِ زمانہ پر ایسے ایسے کارنامے ثبت کیے اور ایسے ایسے آثار ونشانات چھوڑے کہ ان کی نظیر سے ماضی وحاضر خالی ہیں اور غالباً مستقبل بھی خالی ہی رہے گا۔
****​
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
! زاد المعاد ۲/۵۱، ۵۲۔ ابن ہشام ۱/۴۴۸ - ۴۵۰
 
Top