• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دو شرعی دلیلوں کے مابین تعارض ؟! اصول الفقہ

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
دو شرعی دلیلوں کے مابین تعارض ؟!

تنبیہ:
دو قطعی دلیلوں کے درمیان کبھی تعارض آہی نہیں سکتا الا یہ کہ ان میں سے ایک دوسرے کو منسوخ کرنے والا ہو، یا اس کی تخصیص کرنے والا ہو، وجہ اس کی یہ ہے کہ ہر قطعی دلیل علم وعمل کا فائدہ دیتی ہے تو جب یہ متعارض ہوں گی تو متضاد ہوں گی اور شریعت کبھی بھی متضاد باتوں کی حامل نہیں ہوتی۔

اسی طرح قطعی اور ظنی دلیل میں بھی کوئی تعارض نہیں ہوتا کیونکہ ظنی دلیل کبھی بھی قطعی دلیل کے آڑے نہیں آسکتی/ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔بلکہ ہمیشہ قطعی کو ہی اس پر مقدم کیا جائے گا، اگر ظنی ، قطعی کی تخصیص کرنے والی نہ ہوتو۔ اگر ایسا ہو تو اس کا تعلق عام کی تخصیص والےمسئلہ سے ہوگا، جیسا کہ یہ بحث پیچھے گزرچکی ہے۔ ایسی صورتحال میں قطعی کی وجہ سے ظنی دلیل کو ترک نہیں کیا جائے گا۔

اس کی مثال اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان گرامی ہے: ﴿ حُرِّمَتْ عَلَيكُمُ الْمَيتَةُ وَالدَّمُ ﴾ [المائدة:3] تم پر مردار اور خون حرام کردیا گیا ہے۔

تو یہ قطعی الثبوت نص ہے جوہر مردار اور ہر خون پر دلالت کرنے کے عام ہے ، اس فرمان الہٰی کو اس حدیث کے ساتھ ملا کرعمل کیا جائے گا: «أحلت لنا ميتتان ودمان، أما الميتتان فالجراد والحوت، وأما الدمان فالكبد والطحال» ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کیے گئے ہیں، مردار تو مچھلی اور مکڑی (ٹڈی دَل) ہیں اور خون جگر اور تلی ہیں۔

اسی طرح سمندر کے مردار کے بارے میں حدیث ہے ، جو کہ نبیﷺ کا سمندر کے بارے میں فرمان ہے: «هو الطهور ماؤه الحل ميتته» سمندر کا پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردار حلا ل ہے۔

اس طرح خبر واحد کے ذریعے ، جو کہ ظنی ہے، کتاب کے عموم کی تخصیص کی گئی ہے جو کہ قطعی ہے۔ تو یہاں پر قطعی کو ظنی پر مقدم نہیں کیا گیا۔

جب یہ بات معلوم ہوچکی ہے کہ دو قطعیوں اور ایک قطعی اور ظنی کے درمیان تعارض نہیں ہوسکتا تو اب صرف دو ظنیوں کی بات ہی رہ گئی ہے۔ تو جب دو ظنیوں کے درمیان تعارض ہوجائے تو اس میں ان دو میں سے ہی کوئی ایک حالت پائی جائے گی:

ان میں جمع کا امکان ہوگا۔

جمع کا امکان نہیں ہوگا۔

جمع کے امکان کی حالت میں ان کوجمع کیا جائے گا چاہے ان کی تاریخ معلوم ہوجائے ،چاہے معلوم نہ ہو۔ اس کی مثال نبی کریمﷺ کا میمونہ رضی اللہ عنہا کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنا ہے۔بعد میں جب انہوں نے نبی کریمﷺ کو بتایا کہ وہ جنبی تھیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ: «إن الماء لا يجنب» پانی جنبی نہیں ہوتا۔

اس کے ساتھ وہ حدیث بھی ملائی جائے کہ آپﷺ نے اس بات سے منع کیا ہے کہ کوئی عورت مرد کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرے یا کوئی مرد عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرے۔ تو ان دونوں اس طرح جمع کیا جائے گا کہ اس نہی کو کراہت پر محمول کرلیا جائے اور فعل کو اباحت پر۔ اس تطبیق کی تائید بئر بضاعۃ والی حدیث سے ہے ، جس میں آپﷺ نے فرمایا تھا کہ : « أن الماء طهور لا ينجسه شيء إلا ما غلب على ريحه وطعمه ولونه» پانی پاک ہی ہوتا ہے، اس کو کوئی چیز پلید نہیں کرسکتی مگر یہ کہ کوئی چیز اس کی بو، ذائقہ اور رنگ پر غالب آجائے۔

اور اگر جمع وتطبیق ممکن نہ ہوتو پھراس کی دو حالتیں ہیں:

۱۔
تاریخ کو دیکھا جائے گا اور بعد والی حدیث کو ناسخ اور پہلی کو منسوخ کہا جائے گا۔ اس کی مثال طلق بن علی رضی اللہ عنہ والی حدیث ہے کہ جب وہ مدینہ آئے، اس وقت مسجد نبویﷺ چھپر والی تھی تو انہوں نے ایک دیہاتی کو رسول اللہﷺ سے اس آدمی کے متعلق سوال کرتے ہوئے سنا جو وضو کے بعداپنی شرمگاہ کو چھو لیتا ہے، کیا اس پر وضو کرنا واجب ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ: «وهل هو إلا بضعة منك؟» وہ تو تیرے جسم کا ایک ٹکڑا ہی ہے۔

اب اس کے ساتھ بسرہ بنت صفوان اور ابوہریرۃ رضی اللہ عنہما والی حدیث کو ملایا جائے تو تعارض بنتا ہے، وہ حدیث یہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: «من مس ذكره فليتوضأ» جو شخص اپنی شرمگاہ کو چھوئے ، اس پر وضو کرنا لازمی ہے۔

اب ان حدیثوں میں موجود تعارض کو ختم کرنا اور ان کے درمیان تطبیق دینا ممکن نہیں ہے لیکن یہ معلوم ہے کہ طلق والی حدیث پہلے کی ہے اور بسرہ اور ابوہریرۃ رضی اللہ عنہما والی حدیث بعد کی ہے ۔ یہ پتہ یوں چلا کہ طلق والی حدیث اس وقت کی ہے جب مسجد نبوی ﷺ ابھی چھپر والی تھی اور یہ مدینہ میں رسول اللہﷺ کے آنے کے بعد پہلی تعمیر کے موقع پر تھا ، اور ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سات ہجری میں مسلمان ہوئے تھے ۔ تو اسی لیے بعض علماء نے پہلی حدیث کو منسوخ قرار دیا ہے۔

۲۔ اگر تاریخ معلوم نہ ہو تو کسی خارجی امر کی وجہ سے ان میں سے ایک کو ترجیح دی جائے گی۔ اس کی مثال وہ احادیث ہیں جو اندھیرے میں صبح کی نماز پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں، ان حدیثوں کے ساتھ جو روشنی میں نماز پڑھنے پر دلالت کرتی ہیں۔تو اب چونکہ ان میں تطبیق ممکن نہیں ہے اور نہ ہی تاریخ کا علم ہے اس لیے اندھیرے والی سائیڈ کو اللہ رب العالمین کے اس فرمان کے عموم کی وجہ سے راجح قرار دیا جائے گا: ﴿ وَسَارِعُوا إلَى مَغْفِرَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ ﴾ [آل عمران:133] اپنے رب کی طرف سے مغفرت کی طرف لپکو۔

اسی طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ کی نبی کریمﷺ کی میمونہ رضی اللہ عنہا سے شادی کے بارے میں ہے کہ آپ ﷺ نے ان سے احرام کی حالت میں شادی کی ، ابو رافع کی حدیث کے ساتھ کہ آپﷺ نے ان کے ساتھ حلال ہونے کی حالت میں شادی کی۔ ابورافع کا یہ بھی بیان ہے کہ وہ ان دونوں کے درمیان سفیر تھے۔ تو یہ ایک ہی واقعہ ہے اور دونوں حدیثوں کے زمانہ میں بھی فرق نہیں ہے۔تو یہاں پر نہ تو نسخ کا دعویٰ ممکن ہے اور نہ ہی بیک وقت حلال ہونے اور مُحرم ہونے کی حالت کے درمیان تطبیق دینا ۔ تو یہاں ہم ترجیح دیں گے اور ابورافع کی حدیث کو ابن عباس کی حدیث پر چند امور کی وجہ سے ترجیح دیں گے ، چند ایک یہ ہیں:

۱۔ ابورافع رسول اللہﷺ اور میمونہ رضی اللہ عنہا کے درمیان سفارت کے فرائض سرانجام دے رہے تھے ، لہٰذا وہ واقعہ کی حقیقت کو ابن عباس سے زیادہ جانتے تھے کیونکہ وہ اس قصہ کو براہ راست دیکھنے والے تھے۔

۲۔ خود ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے جو اس واقعہ کا ایک حصہ ہیں، ایک روایت ملتی کہ رسول اللہﷺ نے ان نے حلال ہونے کی حالت میں شادی کی تھی۔

دو شرعی دلیلوں کے مابین تعارض ؟!
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
محترم .
حدیث طلق اور حدیث بسرہ وابی ہریرہ کے درمیان جمع وتطبیق ممکن ہے.
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
یہ پتہ یوں چلا کہ طلق والی حدیث اس وقت کی ہے جب مسجد نبوی ﷺ ابھی چھپر والی تھی
اس کا کیا ثبوت ہے؟ جہاں تک مجھے پتا ہے اس حدیث میں صرف یہی بیان ہے کہ اس وقت مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی تھی۔ اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسجد نبوی کی تعمیر دو بار ہوئی تھی، اور طلق بن علی دوسری تعمیر میں شامل تھے۔ جو تقریبا 9 ہجری کے قریب تھی شاید۔ اور اسی دوران مدینہ میں نصاریٰ کا وفد بھی آیا تھا جس میں طلق بن علی شامل تھے۔
 
شمولیت
مئی 01، 2014
پیغامات
257
ری ایکشن اسکور
68
پوائنٹ
77
محترم ناصر بھائی
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان "انما ھو بضعة منه "کے صدور کا سبب کیا تھا؟
 
Top