• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

"دہشت گردی ۔۔۔ اسباب و سدباب" پروفیسرحافظ محمد سعید

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
پروفیسرحافظ محمد سعید امیر جماعت الدعوۃ پاکستان کا خصوصی کالم

"دہشت گردی ۔۔۔ اسباب و سدباب"


کیا آپ حافظ سعید صاحب کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں ؟؟؟
گلشن اقبال پارک، علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ نے پوری قوم کو رنجیدہ اور سوگوار کردیا ہے۔یہ المناک واقعہ اتوار کے دن شام سات بجے کے قریب پارک کے اس مین داخلی دروازے کے اندر پیش آیا جہاں خواتین اور بچوں کا سب سے زیادہ رش ہوتا ہے۔دھماکہ میں 74سے زائد افراد جان بحق اور 350کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں ۔ جان بحق ہونے والوں میں 29 معصوم بچے اور 24خواتین ہیں ۔دھماکہ کی شدت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اس کا نشانہ بننے والوں کے اعضاء دور دور تک بکھر گئے،جھولوں ،درختوں اور بجلی کے تاروں پر لٹکتے نظر آئے۔ یہ بات طے ہے کہ پبلک مقام پر دہشت گردی کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے ۔۔۔ یعنی زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کر کے لوگوں کے حوصلے توڑنااور خوف وہراس پیدا کرنا۔بلاشبہ دھما کے سے جانی نقصان تو بہت ہوا ہے لیکن دشمن پاکستانی عوام میں خوف وہراس پیداکرنے اور ان کے حوصلے توڑنے میں ناکام رہا ہے۔جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جیسے ہی دھماکہ کی خبر عام ہوئی لوگ ڈرکر گھروں میں چھپنے کے بجائے زخمیوں کو خون دینے ہسپتالوں میں پہنچ گئے یہاں تک کہ خون دینے والوں کی لائنیں لگ گئیں۔ ہسپتالوں میں جو زخمی مسیحی بچے ،خواتین اورمرد داخل تھے، مسلمان نوجوانوں نے ان کو خون دے کر ثابت کیا کہ اقلیتوں کی جانیں بھی اتنی ہی قیمتی ہیں جتنی ایک عام مسلمان پاکستانی شہری کی۔

پاکستان میں دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی دہشت گردی کے بیشمار واقعات رونما ہو چکے ہیں ۔ہر واقعہ کے بعد تفتیشی ٹیمیں بنتی ہیں ،مجرموں کو جلد کیفر کردار تک پہنچانے کی باتیں ہوتی ہیں،کچھ دن تحقیقات ہوتی ہیں پھر معاملہ ٹھنڈا پڑجاتا ہے اور آخر کار ہم اس المناک سانحہ کو بھول جاتے ہیں، یہاں تک کہ ایک دوسراسانحہ جنم لیتا ہے جو ہمیں کچھ عرصہ کے لئے خواب سے بیدار کر تا ہے۔ بیداری اور غفلت کا یہ ا یسا دائرہ ہے جس کے اندر ہم مسلسل گھوم رہے ہیں۔

حالیہ المناک سانحہ پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردوں سے جاں بحق ہونے والوں کے ہر قطرۂِ خون کا انتقام لیا جائے گا۔وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سفاک درندوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے دکھ کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے کہ دہشت گردوں کا تمام صوبوں میں پیچھا کیا جائے۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میںآپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔جبکہ حالیہ سانحہ کی تحقیقا ت کے لئے حسب سابق جوائنٹ تحقیقاتی کمیٹی بھی بن چکی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی اوّلین ذ مہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ہر ممکن حفاظتی اقدامات ضروری ہیں۔لیکن کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے حکمرانوں کے تمام تر دعووں کے باوجود دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششیں بار آور کیوں نہیں ہورہی ہیں۔۔۔؟

وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی سمت اور ترجیحات درست نہیں۔ وہ سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور سائے کے تعاقب میں ہیں ۔۔۔ جبکہ منزل پر پہنچنے اور مسائل و مشکلات پر قابو پانے کے لئے جذبات کی بجائے حقائق کا ادراک ضروری ہے۔شاطر قاتل ہمیشہ ماسک اور دستانے پہن کر واردات کرتا ہے او ر واردات کی تحقیق کرنے والا زیرک انسان ماسک کے پیچھے چھپے قاتل چہرے کو تلاش کرتا ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی اس بات کا فیصلہ کرنا ہو گا کہ مصنوعی چہروں کے پیچھے چھپے اصل قاتل اور دہشت گرد کون ہیں۔جب ہم اصل قاتلوں کو پہچان کر ان کے خلاف مؤثر کاروائی کریں گے تب دہشت گردی ختم ہوگی۔

سچی بات ہے کہ گلشن اقبال لاہور میں 74افراد کی اموات پرپورا ملک سوگوار اور غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں جس کا سامنا ہماری قوم کو کرنا پڑا ہو بلکہ اس سے قبل بھی دہشت گردی کی بہت سی سنگین وارداتیں ہو چکی ہیں ۔تاریخ کی ایک بدترین دہشت گردی آج سے 69سال پہلے ہوئی تھی جس میں 15لاکھ پاکستانی بڑے ہی بہیمانہ اور ظالمانہ طریقے سے شہید کر دیئے گئے تھے۔ پنجاب کے کھیتوں اور کھلیانوں میں پاکستانیوں کی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے تھے، دریا سرخ ہوگئے تھے اور فضا متعفن ہو گئی تھی۔یہاں تک کہ دہشت گردوں نے حاملہ ماؤں کے پیٹ چاک کر کے بچوں کو نکالا،نیزوں پر اچھا لا اورمیخوں میں پرو کر مساجد کے منبر ومحراب میں گاڑ کر نیچے لکھ دیا تھا: ’’یہ ہے پاکستان۔‘‘

تاریخ کی سب سے بڑی اس دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈجواہر لال نہرو،گاندھی اور کانگریس کے دیگر رہنما تھے جنہوں نے پاکستان کی مخالفت میں بیانات دیئے اور پھر دنوں،مہینوں کے اندر اپنے بیانات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے 15لاکھ مسلمانوں کو شہید کر کے ثابت کر دکھایا کہ وہ پاکستان دشمنی میں شرافت ،انسانیت اور تہذیب کی تمام حدیں پامال کرسکتے ہیں۔اس کے بعد سے اب تک بھارت میں 35ہزار سے زائد مسلم کش فسادات ہو چکے ہیں۔یہ فسادات ہمیشہ بھارتی حکمرانوں کی سرپرستی میں ہوتے ہیں جن میں متعصب اور جنونی ہندوؤں کے علاوہ فوج اور پولیس بھی حصہ لیتی ہے۔اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ فسادات نہیں ۔۔۔ دہشت گردی کے واقعات ہیں۔

دہشت گردی کا ایک اور بدترین واقعہ 1971ء میں پیش آیا تھاجس میں ڈیڑھ لاکھ پاکستانی شہید کر دیئے گئے تھے۔ آج ہماری نوجوان نسل کو معلوم نہیں کہ دہشت گردوں کانشانہ بننے والوں میں مولوی فریداحمد بھی شامل تھے۔پاکستان کا پرچم لہرانے کی پاداش میں مولوی فرید احمد کا جب ایک ہاتھ کاٹ دیاگیا تو انہوں نے دوسرے ہاتھ میں پرچم تھام لیا،جب دوسرا ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا تو زبان سے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔حتیٰ کہ سفاک اور بے رحم دہشت گردوں نے ان کی زبان بھی کاٹ دی تھی۔سلہٹ کے رہنے والے جمال احمد انتہائی وضع دار ، بزرگ اور محب وطن تھے مشرقی پاکستان کے گورنر منعم خان کی کابینہ میں وزیر بھی رہ چکے تھے۔جمال احمد کی ٹانگوں کے ساتھ رسے باندھے گئے، رسوں کو دو جیپوں کے ساتھ باندھا گیا اورجیپوں کومخالف سمت میں چلا دیا گیاجس سے جمال احمد کا جسم دوحصوں میں چر گیا۔ٹانگیں الگ ہو گئیں ،جسم پھٹ گیا اورانتڑیا ں باہر آگئی تھیں۔یہ ایسا المناک منظر تھا کہ دیکھنے والوں میں سے کتنے ہی بیہوش ہو گئے تھے۔

آہ۔۔۔ افسوس صد افسوس۔۔۔! آج ہم دہشت گردی کے یہ تمام ا لمناک سانحات بھول چکے ،دشمن کی پہچان اور شناخت بھی کھو بیٹھے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ غلطی پر غلطی کر رہے ہیں،غلط سمت پر جارہے ہیں اور منزل سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی گزشتہ سال ڈھاکہ کی سرزمین پر کھڑے ہو کر سینہ تان کر اور خم ٹھونک کر کہہ چکا ہے۔۔۔ ہم ہیں جنہوں نے یہ سب کچھ کیا ۔۔۔ہم ہیں جنہوں نے دہشت گردی کو فروغ دیا ۔۔۔ ہم ہیں جنہوں نے پاکستان توڑاتھااور۔۔۔ آئندہ بھی ہم یہ سب کچھ کریں گے۔

سچی بات یہ ہے کہ بی جے پی اور کانگریس دو ایسی جماعتیں ہیں جن میں پاکستان میں دہشت گردی کروانے کی مسابقت اور دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم نہرو نے15لاکھ مسلمانوں کو شہید کر کے جس پاکستان دشمن پالیسی کی بنیاد رکھی ہر بھارتی حکمران نے اپنے وقت میں اسے آگے بڑھایا ہے جبکہ نریندر مودی نے اپنے پیش روؤں سے دس ہاتھ آگے بڑھتے ہوئے اپنی انتخابی مہم پاکستان دشمنی کی بنیاد پر چلائی،ووٹ حاصل کئے اور اسی بنیاد پر وزیر اعظم بنے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت ایک ایسا ملک ہے جس کے اقتدار کے ایوانوں میں دہشت گر د براجمان ہیں جو نہ صرف سرکاری سطح پر دہشت گرد ی کی سرپرستی کرتے بلکہ دہشت گرد تیار کر کے پاکستان بھیجتے ہیں۔ان حالات میں کہے بغیر چارہ نہیں کہ بھارت کی پاکستان کے خلاف دہشت گردی بڑھتی جارہی ہے۔

18فروری 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس کے المناک سانحہ کو یاد کرکے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ جب آناً فاناً خوفناک آگ نے ٹرین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پھر بند ڈبوں میں بچے ،بوڑھے ،جوان اور عورتیں سوکھی لکڑی کی طرح جل کر کوئلہ ہو گئی تھیں۔اس حادثہ کا مجرم کوئی عام آدمی نہیں بلکہ بھارتی فوج کا حاضر سروس کرنل پروہت تھا جس نے دھماکہ خیز موادچوری چھپے نہیں فوجی کیمپ سے حاصل کیاتھا۔ستم اور ڈھٹائی کی بات یہ ہے کہ بھارت نے اس دہشت گردی کا الزام بھی پاکستان پر دھر دیا تھا۔
اب بھارت کا ایک اور دہشت گرد ’’را‘‘ کا ایجنٹ ’’کل بھوشن یادیو‘‘ بلوچستان سے پکڑا گیا ہے۔ یہ شخص’’ را ‘‘کا عام ایجنٹ نہیں بلکہ فیلڈ کمانڈر ہے جو2003ء سے ایرانی بندر گاہ چاہ بہار میں کورنگ پوسٹ کے طور پر تعینات تھا، 3مارچ 2016ء کو آخری بار ایران کے بارڈر سے پاکستان میں داخل ہوا ۔۔۔ اور پھر مع ثبوتوں، دستاویزات و نقشہ جات گرفتار ہوا۔یادیو اپنے اعترافی بیان میں تعیناتی سے لے کر اب تک پاکستان میں دہشت گردی و تخریب کاری کی جو کارروائیاں کیں اورمستقبل کے اپنے پاکستان دشمن منصوبوں سے بھی پردہ اٹھاچکاہے۔یہ بات قابل غور ہے کہ ’’را‘‘ نے نیول کمانڈر کو دہشت گردی کے لئے پاکستان کیوں بھیجا ۔۔۔؟ جواب واضح ہے کہ ’’را‘‘ کا بڑا ٹارگٹ گوادر بندرگاہ اور اقتصادی راہداری منصوبہ ہے۔’’را‘‘ کے دہشت گرد کی گرفتاری بلاشبہ اہم کارنامہ ہے اور یہ کارنامہ انجام دینے والے مبارک باد کے مستحق ہیں۔

ہمارے وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ بھوشن کی گرفتاری سے ہمارے ہاتھ پکا ثبوت آگیا ہے ۔ قوم پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ہمارے اداروں کے پاس بھارت کی پاکستان میں دہشت گردی کے پہلے سے جو ثبوت ہیں ان کا کیا بنا۔۔۔؟ مودی کا ڈھاکہ کی سرزمین پر کھڑے ہو کر علی الاعلان پاکستان توڑنے کا اعتراف ۔۔۔ کیا یہ ثبوت کافی نہ تھا۔۔۔؟ کہ خود کو بہلانے کے لئے ہم مز ید شوا ہد کی تلاش میں ہیں۔پس اب وقت آگیا ہے کہ ہم سرابوں اور خوابوں سے نکلیں۔معاملہ بھارتی ہائی کمشنر کی وزارت خارجہ میں طلبی اور مراسلہ تھمانے سے بہت آگے نکل چکا ہے لہٰذا دہشت گردی کے اسباب کے سد باب کے لئے ضروری ہے کہ ہم بھوشن کا معاملہ بلاکسی رو رعایت کے عالمی سطح پر اٹھائیں اور دنیا کو پاکستان کے خلاف بھارتی دہشت گردی سے آگاہ کریں۔وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو چاہئے تھا کہ اپنے نشری خطاب میں بھارتی جارحیت اور یادیو کی گرفتاری پر بات کرتے۔ہمارے حکمرانوں کی خاموشی سے بھارت کو شہ ملتی ہے۔بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کا یہ بیان کہ’’گرفتار ہونے والا ہمارا قابل احترام فوجی آفیسر ہے اور اس کی رہائی کے لئے ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔‘‘اسی خاموشی کا نتیجہ ہے۔ سوان حالات میں خاموشی ۔۔۔ نہ مصلحت ہے نہ سیاست بلکہ مداہنت ہے اور مداہنت ہمیشہ جارحیت کا باعث بنتی ہے۔


 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
میرے نزدیک طاغوتی حکمرانوں اور طاغوتی نظام سے ایسی امیدیں رکھنا حقیقت میں سراب کے پیچھے دوڑتا ہے

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
ایک مسلم کو کفار کے خلاف جنگ کرنے کے لئے "دنیا" کی اجازت کی ضرورت نہی


Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 

سید طہ عارف

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 18، 2016
پیغامات
737
ری ایکشن اسکور
141
پوائنٹ
118
حسبنا کتاب اللہ و سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Sent from my SM-G360H using Tapatalk
 
شمولیت
فروری 04، 2016
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
27
پروفیسرحافظ محمد سعید امیر جماعت الدعوۃ پاکستان کا خصوصی کالم

"دہشت گردی ۔۔۔ اسباب و سدباب"


کیا آپ حافظ سعید صاحب کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں ؟؟؟
گلشن اقبال پارک، علامہ اقبال ٹاؤن لاہور میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ نے پوری قوم کو رنجیدہ اور سوگوار کردیا ہے۔یہ المناک واقعہ اتوار کے دن شام سات بجے کے قریب پارک کے اس مین داخلی دروازے کے اندر پیش آیا جہاں خواتین اور بچوں کا سب سے زیادہ رش ہوتا ہے۔دھماکہ میں 74سے زائد افراد جان بحق اور 350کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں ۔ جان بحق ہونے والوں میں 29 معصوم بچے اور 24خواتین ہیں ۔دھماکہ کی شدت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اس کا نشانہ بننے والوں کے اعضاء دور دور تک بکھر گئے،جھولوں ،درختوں اور بجلی کے تاروں پر لٹکتے نظر آئے۔ یہ بات طے ہے کہ پبلک مقام پر دہشت گردی کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے ۔۔۔ یعنی زیادہ سے زیادہ جانی نقصان کر کے لوگوں کے حوصلے توڑنااور خوف وہراس پیدا کرنا۔بلاشبہ دھما کے سے جانی نقصان تو بہت ہوا ہے لیکن دشمن پاکستانی عوام میں خوف وہراس پیداکرنے اور ان کے حوصلے توڑنے میں ناکام رہا ہے۔جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ جیسے ہی دھماکہ کی خبر عام ہوئی لوگ ڈرکر گھروں میں چھپنے کے بجائے زخمیوں کو خون دینے ہسپتالوں میں پہنچ گئے یہاں تک کہ خون دینے والوں کی لائنیں لگ گئیں۔ ہسپتالوں میں جو زخمی مسیحی بچے ،خواتین اورمرد داخل تھے، مسلمان نوجوانوں نے ان کو خون دے کر ثابت کیا کہ اقلیتوں کی جانیں بھی اتنی ہی قیمتی ہیں جتنی ایک عام مسلمان پاکستانی شہری کی۔

پاکستان میں دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے قبل بھی دہشت گردی کے بیشمار واقعات رونما ہو چکے ہیں ۔ہر واقعہ کے بعد تفتیشی ٹیمیں بنتی ہیں ،مجرموں کو جلد کیفر کردار تک پہنچانے کی باتیں ہوتی ہیں،کچھ دن تحقیقات ہوتی ہیں پھر معاملہ ٹھنڈا پڑجاتا ہے اور آخر کار ہم اس المناک سانحہ کو بھول جاتے ہیں، یہاں تک کہ ایک دوسراسانحہ جنم لیتا ہے جو ہمیں کچھ عرصہ کے لئے خواب سے بیدار کر تا ہے۔ بیداری اور غفلت کا یہ ا یسا دائرہ ہے جس کے اندر ہم مسلسل گھوم رہے ہیں۔

حالیہ المناک سانحہ پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردوں سے جاں بحق ہونے والوں کے ہر قطرۂِ خون کا انتقام لیا جائے گا۔وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سفاک درندوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے دکھ کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے کہ دہشت گردوں کا تمام صوبوں میں پیچھا کیا جائے۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میںآپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔جبکہ حالیہ سانحہ کی تحقیقا ت کے لئے حسب سابق جوائنٹ تحقیقاتی کمیٹی بھی بن چکی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی اوّلین ذ مہ داری ہے اور اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے ہر ممکن حفاظتی اقدامات ضروری ہیں۔لیکن کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے حکمرانوں کے تمام تر دعووں کے باوجود دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششیں بار آور کیوں نہیں ہورہی ہیں۔۔۔؟

وجہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کی سمت اور ترجیحات درست نہیں۔ وہ سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہیں اور سائے کے تعاقب میں ہیں ۔۔۔ جبکہ منزل پر پہنچنے اور مسائل و مشکلات پر قابو پانے کے لئے جذبات کی بجائے حقائق کا ادراک ضروری ہے۔شاطر قاتل ہمیشہ ماسک اور دستانے پہن کر واردات کرتا ہے او ر واردات کی تحقیق کرنے والا زیرک انسان ماسک کے پیچھے چھپے قاتل چہرے کو تلاش کرتا ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی اس بات کا فیصلہ کرنا ہو گا کہ مصنوعی چہروں کے پیچھے چھپے اصل قاتل اور دہشت گرد کون ہیں۔جب ہم اصل قاتلوں کو پہچان کر ان کے خلاف مؤثر کاروائی کریں گے تب دہشت گردی ختم ہوگی۔

سچی بات ہے کہ گلشن اقبال لاہور میں 74افراد کی اموات پرپورا ملک سوگوار اور غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں جس کا سامنا ہماری قوم کو کرنا پڑا ہو بلکہ اس سے قبل بھی دہشت گردی کی بہت سی سنگین وارداتیں ہو چکی ہیں ۔تاریخ کی ایک بدترین دہشت گردی آج سے 69سال پہلے ہوئی تھی جس میں 15لاکھ پاکستانی بڑے ہی بہیمانہ اور ظالمانہ طریقے سے شہید کر دیئے گئے تھے۔ پنجاب کے کھیتوں اور کھلیانوں میں پاکستانیوں کی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے تھے، دریا سرخ ہوگئے تھے اور فضا متعفن ہو گئی تھی۔یہاں تک کہ دہشت گردوں نے حاملہ ماؤں کے پیٹ چاک کر کے بچوں کو نکالا،نیزوں پر اچھا لا اورمیخوں میں پرو کر مساجد کے منبر ومحراب میں گاڑ کر نیچے لکھ دیا تھا: ’’یہ ہے پاکستان۔‘‘

تاریخ کی سب سے بڑی اس دہشت گردی کے ماسٹر مائنڈجواہر لال نہرو،گاندھی اور کانگریس کے دیگر رہنما تھے جنہوں نے پاکستان کی مخالفت میں بیانات دیئے اور پھر دنوں،مہینوں کے اندر اپنے بیانات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے 15لاکھ مسلمانوں کو شہید کر کے ثابت کر دکھایا کہ وہ پاکستان دشمنی میں شرافت ،انسانیت اور تہذیب کی تمام حدیں پامال کرسکتے ہیں۔اس کے بعد سے اب تک بھارت میں 35ہزار سے زائد مسلم کش فسادات ہو چکے ہیں۔یہ فسادات ہمیشہ بھارتی حکمرانوں کی سرپرستی میں ہوتے ہیں جن میں متعصب اور جنونی ہندوؤں کے علاوہ فوج اور پولیس بھی حصہ لیتی ہے۔اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ فسادات نہیں ۔۔۔ دہشت گردی کے واقعات ہیں۔

دہشت گردی کا ایک اور بدترین واقعہ 1971ء میں پیش آیا تھاجس میں ڈیڑھ لاکھ پاکستانی شہید کر دیئے گئے تھے۔ آج ہماری نوجوان نسل کو معلوم نہیں کہ دہشت گردوں کانشانہ بننے والوں میں مولوی فریداحمد بھی شامل تھے۔پاکستان کا پرچم لہرانے کی پاداش میں مولوی فرید احمد کا جب ایک ہاتھ کاٹ دیاگیا تو انہوں نے دوسرے ہاتھ میں پرچم تھام لیا،جب دوسرا ہاتھ بھی کاٹ دیا گیا تو زبان سے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔حتیٰ کہ سفاک اور بے رحم دہشت گردوں نے ان کی زبان بھی کاٹ دی تھی۔سلہٹ کے رہنے والے جمال احمد انتہائی وضع دار ، بزرگ اور محب وطن تھے مشرقی پاکستان کے گورنر منعم خان کی کابینہ میں وزیر بھی رہ چکے تھے۔جمال احمد کی ٹانگوں کے ساتھ رسے باندھے گئے، رسوں کو دو جیپوں کے ساتھ باندھا گیا اورجیپوں کومخالف سمت میں چلا دیا گیاجس سے جمال احمد کا جسم دوحصوں میں چر گیا۔ٹانگیں الگ ہو گئیں ،جسم پھٹ گیا اورانتڑیا ں باہر آگئی تھیں۔یہ ایسا المناک منظر تھا کہ دیکھنے والوں میں سے کتنے ہی بیہوش ہو گئے تھے۔

آہ۔۔۔ افسوس صد افسوس۔۔۔! آج ہم دہشت گردی کے یہ تمام ا لمناک سانحات بھول چکے ،دشمن کی پہچان اور شناخت بھی کھو بیٹھے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ غلطی پر غلطی کر رہے ہیں،غلط سمت پر جارہے ہیں اور منزل سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ دوسری طرف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی گزشتہ سال ڈھاکہ کی سرزمین پر کھڑے ہو کر سینہ تان کر اور خم ٹھونک کر کہہ چکا ہے۔۔۔ ہم ہیں جنہوں نے یہ سب کچھ کیا ۔۔۔ہم ہیں جنہوں نے دہشت گردی کو فروغ دیا ۔۔۔ ہم ہیں جنہوں نے پاکستان توڑاتھااور۔۔۔ آئندہ بھی ہم یہ سب کچھ کریں گے۔

سچی بات یہ ہے کہ بی جے پی اور کانگریس دو ایسی جماعتیں ہیں جن میں پاکستان میں دہشت گردی کروانے کی مسابقت اور دوڑ لگی ہوئی ہے ۔ بھارت کے پہلے وزیر اعظم نہرو نے15لاکھ مسلمانوں کو شہید کر کے جس پاکستان دشمن پالیسی کی بنیاد رکھی ہر بھارتی حکمران نے اپنے وقت میں اسے آگے بڑھایا ہے جبکہ نریندر مودی نے اپنے پیش روؤں سے دس ہاتھ آگے بڑھتے ہوئے اپنی انتخابی مہم پاکستان دشمنی کی بنیاد پر چلائی،ووٹ حاصل کئے اور اسی بنیاد پر وزیر اعظم بنے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ بھارت ایک ایسا ملک ہے جس کے اقتدار کے ایوانوں میں دہشت گر د براجمان ہیں جو نہ صرف سرکاری سطح پر دہشت گرد ی کی سرپرستی کرتے بلکہ دہشت گرد تیار کر کے پاکستان بھیجتے ہیں۔ان حالات میں کہے بغیر چارہ نہیں کہ بھارت کی پاکستان کے خلاف دہشت گردی بڑھتی جارہی ہے۔

18فروری 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس کے المناک سانحہ کو یاد کرکے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ جب آناً فاناً خوفناک آگ نے ٹرین کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پھر بند ڈبوں میں بچے ،بوڑھے ،جوان اور عورتیں سوکھی لکڑی کی طرح جل کر کوئلہ ہو گئی تھیں۔اس حادثہ کا مجرم کوئی عام آدمی نہیں بلکہ بھارتی فوج کا حاضر سروس کرنل پروہت تھا جس نے دھماکہ خیز موادچوری چھپے نہیں فوجی کیمپ سے حاصل کیاتھا۔ستم اور ڈھٹائی کی بات یہ ہے کہ بھارت نے اس دہشت گردی کا الزام بھی پاکستان پر دھر دیا تھا۔
اب بھارت کا ایک اور دہشت گرد ’’را‘‘ کا ایجنٹ ’’کل بھوشن یادیو‘‘ بلوچستان سے پکڑا گیا ہے۔ یہ شخص’’ را ‘‘کا عام ایجنٹ نہیں بلکہ فیلڈ کمانڈر ہے جو2003ء سے ایرانی بندر گاہ چاہ بہار میں کورنگ پوسٹ کے طور پر تعینات تھا، 3مارچ 2016ء کو آخری بار ایران کے بارڈر سے پاکستان میں داخل ہوا ۔۔۔ اور پھر مع ثبوتوں، دستاویزات و نقشہ جات گرفتار ہوا۔یادیو اپنے اعترافی بیان میں تعیناتی سے لے کر اب تک پاکستان میں دہشت گردی و تخریب کاری کی جو کارروائیاں کیں اورمستقبل کے اپنے پاکستان دشمن منصوبوں سے بھی پردہ اٹھاچکاہے۔یہ بات قابل غور ہے کہ ’’را‘‘ نے نیول کمانڈر کو دہشت گردی کے لئے پاکستان کیوں بھیجا ۔۔۔؟ جواب واضح ہے کہ ’’را‘‘ کا بڑا ٹارگٹ گوادر بندرگاہ اور اقتصادی راہداری منصوبہ ہے۔’’را‘‘ کے دہشت گرد کی گرفتاری بلاشبہ اہم کارنامہ ہے اور یہ کارنامہ انجام دینے والے مبارک باد کے مستحق ہیں۔

ہمارے وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ بھوشن کی گرفتاری سے ہمارے ہاتھ پکا ثبوت آگیا ہے ۔ قوم پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ ہمارے اداروں کے پاس بھارت کی پاکستان میں دہشت گردی کے پہلے سے جو ثبوت ہیں ان کا کیا بنا۔۔۔؟ مودی کا ڈھاکہ کی سرزمین پر کھڑے ہو کر علی الاعلان پاکستان توڑنے کا اعتراف ۔۔۔ کیا یہ ثبوت کافی نہ تھا۔۔۔؟ کہ خود کو بہلانے کے لئے ہم مز ید شوا ہد کی تلاش میں ہیں۔پس اب وقت آگیا ہے کہ ہم سرابوں اور خوابوں سے نکلیں۔معاملہ بھارتی ہائی کمشنر کی وزارت خارجہ میں طلبی اور مراسلہ تھمانے سے بہت آگے نکل چکا ہے لہٰذا دہشت گردی کے اسباب کے سد باب کے لئے ضروری ہے کہ ہم بھوشن کا معاملہ بلاکسی رو رعایت کے عالمی سطح پر اٹھائیں اور دنیا کو پاکستان کے خلاف بھارتی دہشت گردی سے آگاہ کریں۔وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو چاہئے تھا کہ اپنے نشری خطاب میں بھارتی جارحیت اور یادیو کی گرفتاری پر بات کرتے۔ہمارے حکمرانوں کی خاموشی سے بھارت کو شہ ملتی ہے۔بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کا یہ بیان کہ’’گرفتار ہونے والا ہمارا قابل احترام فوجی آفیسر ہے اور اس کی رہائی کے لئے ہم ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔‘‘اسی خاموشی کا نتیجہ ہے۔ سوان حالات میں خاموشی ۔۔۔ نہ مصلحت ہے نہ سیاست بلکہ مداہنت ہے اور مداہنت ہمیشہ جارحیت کا باعث بنتی ہے۔


اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے
 
شمولیت
فروری 04، 2016
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
27
ہم جہاں بھی جاتے ہیں ہمیں دہشت گردی دہشت گردی کے الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔ ہم تنگ آ گئے ہیں دہشت گردی دہشت گردی سن کر۔
 
شمولیت
فروری 04، 2016
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
27
یہ کالم لاہور کے حملے کے بارے میں لکھا گیا تھا لیکن اِس میں ہندوستان کہاں سے آ گیا ؟
 
شمولیت
فروری 04، 2016
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
27
پروفیسرحافظ محمد سعید امیر جماعت الدعوۃ پاکستان کا خصوصی کالم

"دہشت گردی ۔۔۔ اسباب و سدباب"


کیا آپ حافظ سعید صاحب کی رائے سے اتفاق کرتے ہیں ؟؟؟


حالیہ المناک سانحہ پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردوں سے جاں بحق ہونے والوں کے ہر قطرۂِ خون کا انتقام لیا جائے گا۔وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ سفاک درندوں کو نہیں چھوڑا جائے گا۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے دکھ کا اظہار ان الفاظ میں کیا ہے کہ دہشت گردوں کا تمام صوبوں میں پیچھا کیا جائے۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میںآپریشن کا فیصلہ کیا گیا ہے۔


یہاں پر ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا کافر کے قتل کا مسلمان سے قصاص لیا جائے گا کہ نہیں؟
 
شمولیت
فروری 04، 2016
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
27
پروفیسرحافظ محمد سعید امیر جماعت الدعوۃ پاکستان کا خصوصی کالم
لیکن کبھی ہم نے سوچا کہ ہمارے حکمرانوں کے تمام تر دعووں کے باوجود دہشت گردی کے خلاف کی جانے والی کوششیں بار آور کیوں نہیں ہورہی ہیں۔۔۔؟



وجہ یہ ہے کہ آپ نے تکفریت کو فروغ دیا تھا اور ابھی تک آپ آزاد گوم رہے ہیں۔
 
شمولیت
فروری 04، 2016
پیغامات
203
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
27
پروفیسرحافظ محمد سعید امیر جماعت الدعوۃ پاکستان کا خصوصی کالم
اب بھارت کا ایک اور دہشت گرد ’’را‘‘ کا ایجنٹ ’’کل بھوشن یادیو‘‘ بلوچستان سے پکڑا گیا ہے۔ یہ شخص’’ را ‘‘کا عام ایجنٹ نہیں بلکہ فیلڈ کمانڈر ہے جو2003ء سے ایرانی بندر گاہ چاہ بہار میں کورنگ پوسٹ کے طور پر تعینات تھا، 3مارچ 2016ء کو آخری بار ایران کے بارڈر سے پاکستان میں داخل ہوا ۔۔۔ اور پھر مع ثبوتوں، دستاویزات و نقشہ جات گرفتار ہوا۔یادیو اپنے اعترافی بیان میں تعیناتی سے لے کر اب تک پاکستان میں دہشت گردی و تخریب کاری کی جو کارروائیاں کیں اورمستقبل کے اپنے پاکستان دشمن منصوبوں سے بھی پردہ اٹھاچکاہے۔یہ بات قابل غور ہے کہ ’’را‘‘ نے نیول کمانڈر کو دہشت گردی کے لئے پاکستان کیوں بھیجا ۔۔۔؟ جواب واضح ہے کہ ’’را‘‘ کا بڑا ٹارگٹ گوادر بندرگاہ اور اقتصادی راہداری منصوبہ ہے۔’’را‘‘ کے دہشت گرد کی گرفتاری بلاشبہ اہم کارنامہ ہے اور یہ کارنامہ انجام دینے والے مبارک باد کے مستحق ہیں۔




کچھ معلوم بھی ہے کہ یہ کہاں سے پکڑا گیا ہے اگر نہیں معلوم تو معلوم کروائیں۔ اِس کو کچھ نہیں ہونے والا یہ آپ کے صدر کا خاص دوست ہے۔
 
Top