• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم دینِ ابراہیمی میں قریش کی بدعات

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
دینِ ابراہیمی میں قریش کی بدعات

یہ تھے اہل جاہلیت کے عقائد واعمال ، اس کے ساتھ ہی ان کے اندر دین ابراہیمی کے کچھ باقیات بھی تھے۔ یعنی انھوں نے یہ دین پورے طور پر نہیں چھوڑا تھا، چنانچہ وہ بیت اللہ کی تعظیم اور اس کا طواف کرتے تھے۔ حج وعمرہ کرتے تھے۔ عرفات ومزدلفہ میں ٹھہرتے تھے اور ہَدی کے جانور وں کی قربانی کرتے تھے ، البتہ انھوں نے اس دین ابرہیمی میں بہت سی بدعتیں ایجاد کرکے شامل کردی تھیں۔ مثلاً:
1۔۔۔۔ قریش کی ایک بدعت یہ تھی کہ وہ کہتے تھے ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اوّلاد ہیں ، حرم کے پاسبان، بیت اللہ کے والی اور مکہ کے باشندے ہیں ، کوئی شخص ہمارا ہم مرتبہ نہیں اور نہ کسی کے حقوق ہمارے حقوق کے مساوی ہیں...اور اسی بنا پر اپنا نام حمس (بہادر اور گرم جوش ) رکھتے تھے...لہٰذا ہمارے شایان شان نہیں کہ ہم حدود حرم سے باہر جائیں۔ چنانچہ حج کے دوران یہ لوگ عرفات نہیں جاتے تھے اور نہ وہاں سے اِفاضہ کرتے تھے۔ بلکہ مُزْدَلِفہ ہی میں ٹھہر کر وہیں سے افاضہ کرلیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بدعت کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا : ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ (۲:۱۹۹) یعنی '' تم لوگ بھی وہیں سے افاضہ کرو جہاں سے سارے لوگ افاضہ کرتے ہیں۔ ''
ابن ہشام ۱/۱۹۹ ، صحیح بخاری ۱/۲۲۶
2۔۔۔۔ ان کی ایک بدعت یہ بھی تھی کہ کہتے تھے کہ حمس (قریش) کے لیے احرام کی حالت میں پنیر اور گھی بنانا درست نہیں اور نہ یہ درست ہے کہ بال والے گھر (یعنی کمبل کے خیمے ) میں داخل ہوں اور نہ یہ درست ہے کہ سایہ حاصل کرنا ہوتو چمڑے کے خیمے کے سوا کہیں اور سایہ حاصل کریں۔ (ابن ہشام ۱/۲۰۲)
3۔۔۔۔ ان کی ایک بدعت یہ بھی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ بیرونِ حرم کے باشندے حج یا عمرہ کرنے کے لیے آئیں اور بیرون حرم سے کھانے کی کوئی چیز لے کر آئیں تو ان کے لیے کھانا درست نہیں۔ (ایضاً ایضا ً)
4۔۔۔۔ ایک بدعت یہ بھی تھی کہ انھوں نے بیرون حرم کے باشندوں کو حکم دے رکھا تھا کہ وہ حرم میں آنے کے بعد پہلا طواف حمس سے حاصل کیے ہوئے کپڑوں ہی میں کریں۔ چنانچہ اگر ان کا کپڑا دستیاب نہ ہوتا تو مرد ننگے طواف کرتے اور عورتیں اپنے سارے کپڑے اتار کر صرف ایک چھوٹا سا کھلا ہوا کرتا پہن لیتیں اور اسی میں طواف کرتیں اور دوران طواف یہ شعر پڑھتی جاتیں :


الیوم یبدو کلہ أو بعضہ​
وما بدا منہ فلا أحلہ​


''آج کچھ یا کل شرمگاہ کھل جائے گی۔ لیکن جو کھل جائے اسے (دیکھنا ) حلال نہیں قرار دیتی۔ ''
اللہ تعالیٰ نے اس خرافات کے خاتمے کے لیے فرمایا:
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ (۷: ۳۱)
''اے آدم کے بیٹو ! ہر مسجد کے پاس اپنی زینت اختیار کر لیا کرو۔ ''
بہر حال اگر کوئی عورت یا مرد برتر اور معزز بن کر ، بیرونِ حرم سے لائے ہوئے اپنے ہی کپڑوں میں طواف کر لیتا تو طواف کے بعد ان کپڑوں کو پھینک دیتا ان سے نہ خود فائدہ اٹھاتا نہ کوئی اور۔ (ایضاً ۱/۲۰۲، ۲۰۳، صحیح بخاری ۱/۲۲۶)
5۔۔۔۔ قریش کی ایک بدعت یہ بھی تھی کہ وہ حالتِ احرام میں گھر کے اندر دروازے سے نہ داخل ہوتے تھے بلکہ گھر کے پچھواڑے ایک بڑا سا سوراخ بنا لیتے ، اور اسی سے آتے جاتے تھے اور اپنے اس اجڈ پنے کو نیکی سمجھتے تھے۔ قرآنِ کریم نے اس سے بھی منع فرمایا: وَلَيْسَ الْبِرُّ‌ بِأَن تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِن ظُهُورِ‌هَا وَلَـٰكِنَّ الْبِرَّ‌ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٨٩﴾ یہی دین - یعنی شرک وبُت پرستی اور توہمات وخرافات پر مبنی عقیدہ وعمل والا دین - عام اہل عرب کا دین تھا۔
اس کے علاوہ جزیرۃ العرب کے مختلف اطراف میں یہودیت ، مسیحیت ، مجوسیت اور صابئیت نے بھی دَر آنے کے مواقع پالیے تھے، لہٰذا ان کا تاریخی خاکہ بھی مختصراً پیش کیا جارہا ہے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
جزیرۃ العرب میں یہودکے کم از کم دو اَدوار ہیں۔ پہلا دور اس وقت سے تعلق رکھتا ہے جب فلسطین میں بابل اور آشور کی حکومت کی فتوحات کے سبب یہودیوں کو ترکِ وطن کرنا پڑا۔ اس حکومت کی سخت گیری اور بخت نصر کے ہاتھوں یہودی بستیوں کی تباہی وویرانی ، ان کے ہَیکل کی بربادی اور ان کی اکثریت کی ملک بابل کو جلا وطنی کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہود کی ایک جماعت فلسطین چھوڑ کر حجاز کے شمالی اطراف میں آبسی۔ (قلب جزیرۃ العرب ص ۲۵۱)
دوسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب ٹائیٹس رومی کی زیر قیادت ۷۰ ء میں رومیوں نے فلسطین پر قبضہ کیا۔ اس موقع پر رومیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی دارو گیر اور ان کے ہیکل کی بربادی کا نتیجہ یہ ہوا کہ متعدد یہودی قبیلے حجاز بھاگ آئے اور یَثْرِب ، خَیْبَر اور تَیْماء میں آباد ہو کر یہاں اپنی باقاعدہ بستیاں بسا لیں اور قلعے اور گڑھیاں تعمیر کر لیں۔ ان تارکینِ وطن یہود کے ذریعے عرب باشندوں میں کسی قدر یہودی مذہب کا بھی رواج ہوا اور اسے بھی ظہور ِاسلام سے پہلے اور اس کے ابتدائی دور کے سیاسی حوادث میں قابل ذکر حیثیت حاصل ہوگئی۔ ظہورِ اسلام کے وقت مشہور یہودی قبائل یہ تھے۔ خَیبر، نضیر، مُصْطَلق ، قریظہ اور قَینُقاع۔ سمہودی نے ذکر کیا ہے کہ یہود قبائل کی تعداد بیس سے زیادہ تھی۔ (قلب جزیرۃ العرب ص ۲۵۱ ۔ وفاء الوفاء ۱/۱۶۵)
یہودیت کو یمن میں بھی فروغ حاصل ہوا۔ یہاں اس کے پھیلنے کا سبب تبان اسعد ابو کرب تھا۔ یہ شخص جنگ کرتا ہوا یثرب پہنچا اور وہاں یہودیت قبول کرلی اور بنو قریظہ کے دو یہودی علماء کو اپنے ساتھ یمن لے آیا اور ان کے ذریعے یہودیت کو یمن میں وسعت اور پھیلاؤ حاصل ہوا۔ ابو کرب کے بعد اس کا بیٹا یوسف ذو نواس یمن کا حاکم ہوا تواس نے یہودیت کے جوش میں نجران کے عیسائیوں پر ہلہ بول دیا اور انہیں مجبورکیا کہ یہودیت قبول کریں مگر انھوں نے انکار کردیا۔ اس پر ذو نواس نے خندق کھدوائی اور اس میں آگ جلوا کر بوڑھے ، بچے ، مرد، عورت سب کو بلا تمیز آگ کے الاؤ میں جھونک دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس حادثے کا شکار ہونے والوں کی تعداد بیس سے چالیس ہزار کے درمیان تھی۔ یہ اکتوبر ۵۲۳ ء کا واقعہ ہے۔ قرآن مجید نے سورۂ بروج میں اسی واقعے کا ذکر کیا ہے۔ (ابن ہشام ۱/۲۰، ۲۱، ۲۲، ۲۷، ۳۱، ۳۵، ۳۶، نیز ملاحظہ فرمایئے کتب تفسیر ، تفسیر سورۂ بروج اور الیمن عبر التاریخ ص ۱۵۸،۱۵۹)
جہاں تک عیسائی مذہب کا تعلق ہے کہ بلاد عرب میں اس کی آمد حبشی اور رومی قبضہ گیروں اور فاتحین کے ذریعے ہوئی۔ ہم بتا چکے ہیں کہ یمن پر حبشیوں کا قبضہ پہلی بار ۳۴۰ء میں ہوا لیکن یہ قبضہ دیر تک برقرار نہ رہا۔ یمنیوں نے ۳۷۰ء سے ۳۷۸ء کے دوران نکال بھگایا۔ (الیمن عبر التاریخ ۱۵۸، ۱۵۹، تاریخ العرب قبل الاسلام ص ۱۳۲، ۴۳۲ )البتہ اس دوران یمن میں مسیحی مشن کام کرتا رہا۔ تقریباً اسی زمانے میں ایک مستجاب الدعوات اور صاحب کرامات زاہد جس کانام فیمیون تھا ، نجران پہنچا اور وہاں کے باشندوں میں عیسائی مذہب کی تبلیغ کی۔ اہل نجران نے اس کی اور اس کے دین کی سچائی کی کچھ ایسی علامات دیکھیں کہ وہ عیسائیت کے حلقہ بگوش ہو گئے۔ (ابن ہشام ۱/۳۱،۳۲،۳۳،۳۴)
پھر ذونواس کی کاروائی کے رَدِّ عَمل کے طور پر ۵۲۵ء میں حبشیوں نے دوبارہ یمن پر قبضہ کیا ، اور اَبْرَہہ نے حکومتِ یمن کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لی توا س نے بڑے جوش وخروش کے ساتھ بڑے پیمانے پر عیسائیت کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ اسی جوش وخروش کا نتیجہ تھا کہ اس نے یمن میں ایک کعبہ تعمیر کیا اور کوشش کی کہ اہلِ عرب کو (مکہ اور بیت اللہ سے ) روک کر اسی کا حج کرائے اور مکہ کے بیت اللہ شریف کو ڈھا دے لیکن اس کی جرأت پر اللہ تعالیٰ نے اسے ایسی سزادی کہ اوّلین وآخرین کے لیے عبرت بن گیا۔
دوسری طرف رومی علاقوں کی ہمسائیگی کے سبب آل غسان ، بنوتغلب ، اور بنو طی وغیرہ قبائل عرب میں بھی عیسائیت پھیل گئی تھی، بلکہ حِیرہ کے بعض عرب بادشاہوں نے بھی عیسائی مذہب قبول کرلیا تھا۔
جہاں تک مجوسی مذہب کا تعلق ہے تو اسے زیادہ تر اہلِ فارس کے ہمسایہ عربوں میں فروغ حاصل ہوا تھا۔ مثلاً: عراق عرب ، بحرین، (الاحساء) حجر اور خلیج عربی کے ساحلی علاقے۔ ان کے علاوہ یمن پر فارسی قبضے کے دوران وہاں بھی اکّا دُکّا افراد نے مجوسیت قبول کی۔
باقی رہا صابی ٔ مذہب ...جس کا طرۂ امتیاز ستارہ پرستی ، نچھتروں پر اعتقاد ، تاروں کی تاثیر اور انہیں کائنات کا مدبر ماننا تھا۔ تو عراق وغیرہ کے آثار قدیمہ کی کھدائی کے دوران جو کتبات برآمد ہوئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کلدانی قوم کا مذہب تھا۔ دورِ قدیم میں شام ویمن کے بہت سے باشندے بھی اسی مذہب کے پیروتھے لیکن جب یہودیت اور پھر عیسائیت کا دَور دَورہ ہوا تو اس مذہب کی بنیادیں ہل گئیں اور اس کی شمع فروزاں گل ہو کر رہ گئی ، تاہم مجوس کے ساتھ خلط ملط ہو کر یا ان کے پڑوس میں عراق عرب اور خلیج عربی کے ساحل پر اس مذہب کے کچھ نہ کچھ پَیروکار باقی رہے۔ (تاریخ ارض القرآن ۲/۱۹۳-۲۰۸)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
دینی حالت

جس وقت اسلام کا نیّرتاباں طلوع ہوا ہے یہی مذاہب وادیان تھے جو عرب میں پائے جاتے تھے ، لیکن یہ سارے ہی مذاہب شکست وریخت سے دوچار تھے۔ مشرکین جن کا دعویٰ تھا کہ ہم دین ابراہیمی پر ہیں شریعت ابراہیمی کے اوامر ونواہی سے کوسوں دُور تھے۔ اس شریعت نے جن مکارمِ اخلاق کی تعلیم دی تھی ان سے ان مشرکین کو کوئی واسطہ نہ تھا۔ ان میں گناہوں کی بھر مار تھی اور طولِ زمانہ کے سبب ان میں بھی بت پرستوں کی وہی عادات ورسوم پیدا ہو چلی تھیں جنھیں دینی خرافات کا درجہ حاصل ہے۔ ان عادات ورسوم نے ان کی اجتماعی سیاسی اور دینی زندگی پر نہایت گہرے اثرات ڈالے تھے۔
یہودی مذہب کا حال یہ تھا کہ وہ محض ریا کاری اور تحکم بن گیا تھا۔ یہودی پیشوا اللہ کے بجائے خود رب بن بیٹھے تھے۔ لوگوں پر اپنی مرضی چلاتے تھے اور ان کے دلوں میں گزرنے والے خیالات اور ہونٹوں کی حرکات تک کا محاسبہ کرتے تھے۔ ان کی ساری توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ کس طرح مال وریاست حاصل ہو۔ خواہ دین برباد ہی کیوں نہ ہو اور کفر والحاد کو فروغ ہی کیوں نہ حاصل ہو اور ان تعلیمات کے ساتھ تساہُل ہی کیوں نہ برتا جائے، جن کی تقدیس کا اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو حکم دیا ہے اور جن پر عمل درآمد کی ترغیب دی ہے۔
عیسائیت ایک ناقابل فہم بت پرستی بن گئی تھی۔ اس نے اللہ اور انسان کو عجیب طرح سے خلط ملط کر دیا تھا ، پھر جن عربوں نے اس دین کو اختیار کیا تھا ان پر اس دین کا کوئی حقیقی اثر نہ تھا کیونکہ اس کی تعلیمات ان کے مالوف طرز زندگی سے میل نہیں کھاتی تھیں اور وہ اپنا طرزِ زندگی چھوڑ نہیں سکتے تھے۔ باقی ادیان عرب کے ماننے والوں کا حال مشرکین ہی جیسا تھا، کیونکہ ان کے دل یکساں تھے عقائد میں توارد تھا اور رسم ورواج میں ہم آہنگی تھی۔

الرحیق المختوم
 
Top