• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دینی مدارس ۔۔۔ ایک دلخراش رخ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اہل پاک و ہند کے منتظمین کا مساجد و مدارس کے علماء کے ساتھ سلوک
یہ بات میں نے اپنے یہاں بھی دیکھی ہے کہ منتظمین کا سلوک مسجد کے امام وخطیب اور مدرسہ کے استاذہ کے ساتھ تقریبا ایسا ہے جیسے پاک و ہند میں برتا جاتا ہے

یہاں کے مزدور کی جتنی تنخواہ ہے اسی کے مساوی ایک مفتی کو تنخواہ دی جارہی ہے لیکن دوسرے مصاریف میں خرچ کی ذرہ برابر بھی پرواہ نہیں ،مثال کے طور پر مسجد کے ایک منارہ کیلئے 1 کروڑ روپے سے زائد کی رقم خرچ کردی گئی جس کے متعلق سن کر مجھے بہت افسوس اور حیرانگی بھی ہوئی اور میں نے بعض کمیونٹی کے لوگوں سے اس بارے بابت بھی کی کہ اتنا خرچہ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ یہاں بہت سی مساجد ایسی بھی ہیں جن کے منارے نہیں ہیں

اور مفتی صاحب جوکہ ایک نوجوان شخصیت ہے اور جن کے ذمہ بعض نمازوں کی امامت بشمول خطبہ جمعہ اور مدرسہ میں بچوں کو پڑھانا اور عالم کلاس کو " علم صرف " پڑھانا وغیرہ شامل ہے اور انہی کے والد صاحب مجھ سے شکوہ کررہے تھے کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود تنخواہ کیا دی جارہی ہے ؟ جو یہاں ایک مزدور کو ایک گھنٹہ کی اجرت ملتی ہے وہی انکو ملتی ہے

یہی حال دوسرے علماء کا ہے اور پھر کئی علماء کو دیکھا جوکہ فقط امامت کی ڈیوٹی لے لیتے ہیں اور اس کے علاوہ کسب حلال کیلئے اپنے آپ کو دوسرےکاموں میں مشغول کرلیتے ہیں اور بعض علماء کو دیکھا جو امامت یا تدریس کی بجائے کسی دوسرے شعبہ کو اپنا کر درس و تدریس کو خیر آباد کہہ دیتے ہیں

اور اب ان منتظمین کی اکثریت پاک و ہند کے نفوس پر مشتمل ہے اور وہی ذہنیت یہاں بھی پائی جاتی ہے ، اب گاڑیوں کی کار پارکنگ کیلئے مسجد کی پارکنگ ناکافی ہے جس کیلئے ساتھ والے چرچ کی پارکنگ کرایہ پر لی گئی ہے اور اس کیلئے تقریبا 1 لاکھ روپے سے زائد رقم ماہانہ چرچ کی انتظامیہ کو ادا کی جاتی ہے لیکن مدرس کی تنخواہ میں اضافہ بالکل بھی قابل غور نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی یہاں پاک و ہند کی طرح قران کی تعلیم مفت دی جاتی ہے بلکہ ہر بچہ سے ماہوار تقریبا 4500 روپے لیے جاتے ہیں

پھر یہاں جو مدرس ہیں وہ 5 دن مدرسہ میں پڑھاتے ہیں اور دو دن کی مزید ٹیوشن کی تلاش میں ہوتے ہیں جس سے کچھ اضافی آمدن ہوسکے

اب بہت سے ایسے علماءکو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جوکہ کسی کمپنی میں یا کنسٹریکشن اور سنٹری کے کاموں یا مکینک اور ڈرائیونگ یا پھر ہوٹل وغیرہ کے کاموں میں لگ چکے ہیں کیونکہ درس و تدریس میں اتنی معقول تنخواہ ملتی ہی نہیں

اب اسی طرح ایک صاحب ڈھونڈتے ڈھونڈتے مجھ تک پہنچے ،وہ ایک مسجد کیلئے عمرہ سے واپسی پر دو ڈیجیٹل اوقات صلاۃ کی گھڑیاں لائے اور کچھ عرصہ کے بعد کچھ سیٹنگ میں گڑبڑ ہوگئی تو انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ مسجد کیلئے صلاۃ پینل چاہیے اورچاہیے بھی 4 عدد ،میں نے پوچھا بھائی چار کی ضرورت کیوں ہے تو جواب ملا کہ حال،برآمدہ ،تہہ خانہ اورعورتوں کی نماز کی جگہ کیلئے چاہیے ،مجھ یہ سن کر بہت تعجب ہوا اور میں نے ان سے کہا کہ اتنے صلاۃ پینل کا آپکو کس نے کہا ہے ؟ جواب ملا کہ انتظامیہ نے مجھ سے اسکی فرمائش کی ہے اور میں فی سبیل اللہ لگانا چاہتا ہوں ،اب یہ فرمائش تقریبا 1 لاکھ روپے کے خرچ کی تھی

میں نےکہا بھائی آپ جو گھڑیاں سعودیہ سے لائے ہیں وہ میرے پاس لے آئیں میں ان شاءاللہ ٹھیک کردونگا اور اگر صلاۃ پینل کی ضرورت بھی ہے تو بھی ایک عدد پوری مسجد کیلئے کافی ہے باقی جگہوں پر عام کلاک ہی کافی ہوگا اور انتظامیہ سے میری بات کروادیں میں انہیں یہ بات بھی بتاسکوں کے فضول خرچی سے منع کیا گیا ہے

ان صاحب نے کچھ عرصہ بعد رابطہ کے بعد بتایا کہ انتظامیہ نے آپ کی بجائے کسی اور سے صلاۃ پینل منگوانے کی فرمائش کی ہے اور آپ سے رابطہ کرنے کو منع کیا ہے جب میں نے انہیں بتایا کہ آپ کہہ رہے ہو فضول خرچی گناہ ہے ،اب انتظامیہ کے ہاتھ اللہ کے نام پر دینے کیلئے مرغا لگا ہوا تھا اور وہ اسے ذبح کرنے پر تلے ہوئے تھے
اللہ تعالی ہدایت دے۔
آپ کہاں کی بات کر رہے ہیں؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مدارس و مساجد کے اساتذہ کرام۔
وہ جنہیں مزدور بھی نہیں مانا جاتا۔​

(تحریر : محمد عاصم حفیظ)
‌ارض پاک میں کچھ محنت کش کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں ایک مزدور کے برابر اجرت بھی نہیں ملتی۔ان کی ڈیوٹی کے اوقات کسی مزدور سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ایک مزدور تو اپنی ذمہ داری پوری کرکے اجرت وصول کر پاتا ہے لیکن انہیں اپنے "مالکوں" کی بہت سی باتیں بھی سننی پڑتی ہیں. یوم مزدور پر کوئی بھی ان کے بارے میں بات نہیں کرتا۔میرا موضوع وہ قراء کرام اور مدارس کے اساتذہ کرام ہیں۔جن کے معاوضے مزدور کی کم سے کم تنخواہ سے بھی کہیں کم ہوتے ہیں۔گزشتہ دنوں ایک قاری صاحب کو کئی سال ایک ادارے میں پڑھانے کے بعد اس وجہ سے نکال دیا گیا کہ انہوں نے اپنی 8 ہزار تنخواہ میں کچھ اضافہ کی بات کی تھی۔یہ صرف ایک کہانی نہیں ہے آپ کو رمضان المبارک میں کئی مدارس کے اشتہار ملیں گے۔جن میں اساتذہ کرام کی تنخواہیں ادا کرنے کی اپیل کی گئی ہوگی لاہور کے پوش ترین علاقے کے ایک دینی مدرسے میں استاد کو بارہ سے تیرہ ہزار معاوضہ دیا جاتا ہے۔جی ہاں اسی تنخواہ میں اسے نہ صرف اپنے خاندان کو پالنا ہوتا ہے بلکہ صحت تعلیم رہائش اور دیگر ضرورتوں کو بھی پورا کرنا ہوتا ہے۔ انہیں مزدور تسلیم نہیں کیا جاتا اور اسی لیے انہیں سوشل سیکیورٹی اور کسی بھی قسم کی سرکاری سہولیات بھی میسر نہیں ہوتیں۔ مدارس اور مساجد میں حفظ القران اور درس نظامی کے اساتذہ کرام کی تنخواہیں سرکاری طور پر مزدور کی کم سے کم تنخواہ کے برابر بھی نہیں ہوتیں۔یقین مانیں کے بعض جگہوں پر صرف آٹھ سے دس ہزار میں انہیں 24 گھنٹے کے لیے ملازم بنایا جاتا ہے۔حتیٰ کہ بعض "مالک حضرات" تو صفائی اور دیگر ذمہ داریاں بھی انہی سے پوری کراتے ہیں۔آج یوم مزدور ہے سب مزدوروں کی بات ہوگی لیکن کوئی بھی تعلیم القرآن اور حدیث سے منسلک ان محنت کشوں کی بات نہیں کرے گا جنہیں ارض پاکستان میں اپنے بنیادی حقوق تک میسر نہیں ہیں۔معاشرہ انہیں صرف "مستحق" کا مقام دیتا ہے اور کوئی بھی مالدار شخصیت یا انتظامیہ کے سیٹھ صاحب تنخواہ دیتے یا کوئی بھی چھوٹی سی بھی رقم عنایت کرتے وقت صدقہ و خیرات کی نیت ضرور کرلیتے ہیں۔ لاکھوں کے اخراجات اور پرشکوہ عمارتوں پر مشتمل مساجد و مدارس کے اساتذہ کرام زندگی کی گھڑیاں سسک سسک گزار رہے ہیں۔ انہیں معاشرے کے متوسط ترین بلکہ پست ترین طبقے کے طور پر زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ دوسروں کے بچوں کو قرآن و حدیث پڑھا کر ان کی زندگیاں سنوارنے والے خود اپنے بچوں کے لئے مناسب تعلیم کا بندوبست نہیں کر پاتے۔ کئی اداروں میں رہائش کا احسان کیا جاتا ہے لیکن وہ ایک کمرے یا یہ حجرے سے بڑھ کر نہیں ہوتی جس میں انھیں پوری فیملی سمیت گزارا کرنا ہوتا ہے۔ حکومت مزدوروں کے لئے کی مراعات کا اعلان کرتی ہے لیکن یہ سب ان تک نہیں پہنچ پاتا۔ شائد ہی کوئی مدرسہ مسجد یا دینی ادارہ ایسا ہو کہ جس نے حکومتی سوشل سکیورٹی کے اداروں میں اپنے استاذ کرام کہ رجسٹریشن کرائی ہو۔ کوئی بھی رجسٹر ادارہ سوشل سکیورٹی کے حکومتی اداروں کے ساتھ منسلک ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے اگر کوئی مشکلات بھی ہیں تو وفاق المدارس اور دینی جماعتوں کو اپناکرداراداکرناچاہئے تاکہ دین کی اشاعت و تبلیغ سے منسلک یہ لوگ معاشرے میں چند بنیادی سہولیات سے مستفید ہو سکیں۔ان کے لئے بڑھاپے میں پینشن اور صحت رہائش و تعلیم سے متعلق دیگر سرکاری سہولیات مل سکیں۔دوسری طرف حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ دینی اداروں سے منسلک ان اساتذہ کرام کو بھی دیگر پرائیویٹ اداروں کی طرح سوشل ویلفئر کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لئے اقدامات اٹھائے۔ تعلیم القرآن والحدیث سے منسلک ان عظیم لوگوں کو کم سے کم مزدور ہی تسلیم کرلیا جائے تاکہ وہ بھی سرکاری سہولیات سے مستفید ہو سکیں۔​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
علماء کی تنخواہیں سب سے کم کیوں؟

تالیف: سید خالد جامعی
علم اللہ تعالی کی وہ عظیم نعمت ہے جس کی فضیلت اور اہمیت ہر دور میں تسلیم کی گئی ہے۔ یہ ان انعامات الٰہیہ میں سے ہے جن کی بنا پر انسان دیگر مخلوقات سے افضل ہےاس علم سےمراد علم الہی ہے ۔ علم ہی ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو عطا فرما کر اس کے ذریعے فرشتوں پر ان کی برتری ثابت فرمائی۔ رسول اللہﷺپر جو پہلی وحی نازل فرمائی گئی اُس میں اُن کی تعلیم سے ابتدا کی گئی اور پہلی ہی وحی میں بطورِ احسان انسان کو دیئے گئے علم کا تذکرہ فرمایا گیا۔ دینِ اسلام میں حصولِ علم کی بہت تاکید کی گئی ہے اور علم و اہلِ علم کی متعدد فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور مسلمانوں کو علم کے حصول پر ابھارا گیا ہے۔ اور جس طرح علم کی اہمیت و فضیلت مسلّمہ ہے، اُسی طرح اِس نعمتِ عظیم کے حامل افراد کی فضیلت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ رسول اللہﷺ کی اس امت میں تو بالخصوص اہلِ علم بہت اعلی مقام کے حامل ہیں حتیٰ کہ انہیں انبیائے کرام کا وارث قرار دیا گیا ہے۔ اور امت مسلمہ کی قیادت کا فریضہ ہمیشہ علماء نے انجام دیا ہے او رہر دور میں اللہ تعالیٰ نے ایسے علماء پیدافرمائے ہیں جنہوں نے امت کو خطرات سےنکالا ہے اوراس کی ڈوپتی ہوئی کشتی کو پار لگانے کی کوشش کی ہے ، اسلامی تاریخ ایسے افراد سے روشن ہے جنہوں نے حالات کو سمجھا اور اللہ کے بندوں کو اللہ سے جوڑنے کے لیے اور ان کو صحیح رخ پر لانے کے لیے انہوں نے ہر طرح کی قربانیاں دی جو اسلامی تاریخ کا سنہرا باب ہے ۔اسلامی معاشرہ میں علمائے کرام کاکرداربڑی اہمیت رکھتا ہے ۔لیکن عصر حاضر میں علم اورعلماء کو ان کا مقام نہیں دیا گیا جدید ریاست علم دین کو علم نہیں سمجھتی اور نہ ہی عالم کو عالم سمجھتی۔ زیر نظر کتاب ’’ علماء کی تنخواہیں سب سے کم کیوں ہیں ؟ ‘‘ کی خالد جامعی کی تصنیف ہے ۔ خالد جامعی کہتے ہیں کہ ہم نے ذاتی طور پر چند سال پہلے معلومات کی تو یہ بات ہمارے علم میں آئی کہ ایک بہت بڑے مدرسے کے محترم شیخ الحدیث کی تنخواہ صرف پندرہ ہزار روپے ماہانہ تھی، حالانکہ وہ محترم عالم عربی، فارسی، اردو، پنجابی، پشتو اور ترکی زبان بھی جانتے تھے، وہ انگریزی سے بھی بہت اچھی طرح واقف تھے۔ سرکاری اداروں کے ایک ناخواندہ، ناتراش چپراسی کی تنخواہ اور مراعات ان محترم شیخ الحدیث سے کئی گنا زیادہ ہیں، اس کے ساتھ بے شمار مراعات، سہولیات الگ ہیں، مثلاً علاج معالجہ کی مفت سہولت، رہائش گاہ، مختلف الاؤنسز، ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن اور بچوں کی ملازمت وغیرہ وغیرہ۔ لیکن بنیادی سوال یہی ہے کہ علما کے معاوضے کیوں اتنے کم ہیں؟ علما اتنے کم معاوضوں کے باوجود شب و روز دین کی خدمت میں مصروف ہیں، وہ کبھی ان قلیل معاوضوں پر کوئی احتجاج یا حرف شکایت تک زبان پر نہیں لاتے، آخر کیوں؟ توکل، صبر و شکر کی اصطلاحات کا عملی نمونہ کیا عہد حاضر میں ان قلیل المشاہیرہ علما کے سوا کوئی اور ہوسکتا ہے؟ لوگ درویش، صوفی، اہل اﷲ کا پوچھتے ہیں کہ عصر حاضر میں اﷲ والے نہیں ملتے، وہ جا کر ان علما کو دیکھ لیں، اکثر علما آپ کو اسی حال میں ملیں گے۔ یہی علما جو شب و روز دین کی نشر و اشاعت میں مصروف ہیں۔ یہ اللہ کے کام میں ایسے مشغول ہیں کہ معاش کمانے کے لیے فرصت نہیں۔ یہ خود دار ہیں سوالی نہیں۔ نیز خالد جامعی صاحب اس کتاب میں بتایا ہےکہ ہماری ریاست کا کردار اس وقت نہ تو ایک اسلامی ریاست والا ہے، نہ ہی لبرل ہے، یہ تو عوام ہیں جو ریاست کے مقابلے میں اپنی ذمے داری کسی حد تک پوری کرتے ہیں اور اپنے جید علما کو نہ صرف احترام دیتے ہیں بلکہ ہمہ وقت خدمت کے لیے تیار بھی رہتے ہیں۔
ڈاؤن لوڈ لنک
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
دینی مدارس اور روایت!!

محمد عرفا ن ندیم
مدارس اور اہل مدارس، ہماری دینی وعلمی روایت کے امین ہیں ، وہ روایت جس کا آغازفاران کی چوٹیوں سے ہوا تھا۔ اس روایت نے گزشتہ چودہ صدیوں میں انسانیت کا سر فخر سے بلند کر دیا ۔بلاشبہ انسانی تاریخ کا یہ دور، کرہ ارض کی لاکھوں کروڑوں سالہ حیات میں موسم بہار کہلانے کا مستحق ہے، افسوس مگر یہ ہے کہ آج یہ روایت اپنے احیا کی تمام تر توانائیوں کے باوجود آخری سانسیں لی رہی ہے ، بالکل اس نحیف و نزار بڈھے کی طرح جس کی جوان اولاد ، اس کے علاج معالجے کی بجائے اسے بستر مرگ پر مرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دے ، کم تر الفاظ میں اس ناہنجار اولاد کو بے حس اور مردہ ضمیر ہی کہا جا سکتا ہے ، یہ الفاظ البتہ میں دوسرے مقدمے میں استعمال نہیں کر سکتا ۔
تاریخ کے مختلف ادوار میں یہ روایت دنیا کے مختلف خطوں میں پنپتی رہی ،پہلے حجاز ، پھر بغداد ، پھر اندلس اور آخری پڑاوٴہند میں ہوا ، 1857کے بعد یہ روایت کچھ عرصے کے لیے ڈگمگا ئی مگر جلد ہی سر سبز و شاداب ہو گئی ،ایک توانااور مضبوط درخت کی طرح ۔
تقسیم کے بعدیہ روایت ، اپنی تمام تر قوت اور رعنائی کے ساتھ پاکستان کے حصے میں آگئی ،ہماری بدقسمتی کہ ہم اسے روح عصر سے ہم آہنگ نہ کر سکے ، اس کی حیات کے تقاضو ں کا ادراک اور اس کی رعنائی و زیبائی کا خیال نہ رکھ سکے ، نتیجہ یہ نکلا کہ آج یہ بستر مرگ پر پڑی ہے ، اکھڑی سانسیں ، مٹتا وجود اور بے بس جانشین ، اب یہی قصہ ہے اس عظیم روایت کا جو کبھی دنیا کے لیے قابل رشک ہوا کرتی تھی ۔
یہ ممکن نہیں کہ دینی و علمی روایت کی بات ہو اور اسے مدارس سے الگ کرکے دیکھا جا سکے ، آج کے مدارس ، ماضی کے کالجز اور یونیورسٹیاں ہوا کرتی تھیں جہاں ریسرچ اور تحقیق کے چشمے پھو ٹتے تھے ، یہ اس دور کی بات ہے جب نظام تعلیم میں دوئی نہیں تھی ، برا ہو لارڈ میکالے کا جس نے اس روایت کو دو متضاد خانوں میں بانٹ دیا اور خرابی ہو ان دانشوروں کے لیے جنہوں نے اس تقسیم کو برقرار رکھا ۔
نوآبادیات نے روایت کا سارا بوجھ مدارس اور اہل مدارس کے کندھوں پر ڈال دیا ، یہ بوجھ کی شدت تھی یا حاملین روایت کی غفلت و سستی کہ یہ اپنا بانکپن برقرار نہ رکھ پائی ،اب روایت کا وجود اس ادھیڑ عمر بڑھیا کی طرح ہے جس کی صرف ہڈیاں دکھائی دیتی ہیں ، چہرہ دھنس گیا، ماس لٹک چکا ، بینائی جا چکی ،چال میں لڑکھڑاہٹ اورکسی زور دار آندھی کی منتظر ۔
گزشتہ دنوں ، انہی صفحات پر مولانا زاہد الراشدی کا مضمون ”مدرسہ ڈسکورس “کے حوالے سے نظر سے گزراجس میں انہوں نے مدارس کے نصاب ونظام میں خامیوں کی نشاندہی کی اورماضی کی روایت کا حوالہ بھی دیا کہ ہماری روایت کس قدر توانااور علم و تحقیق کا مرکز ہو اکرتی تھی ۔ میرا حسن ظن ہے کہ ہمیں اپنی روایت کی بازیافت کے لیے انہی مدارس کی طرف رجوع کرنا پڑے گا لیکن کیا مدارس اور اہل مدارس بھی اس حسن ظن میں مبتلا ہیں ۔
مدارس کے نصاب و نظام اور بہتری کے لیے اتنا لکھا جا چکا کہ ایک اچھی خاصی لائبریری وجود میں آ سکتی ہے ، سوال مگر یہ ہے کہ اس لکھے کا مخاطب کون ہے ، میرااضطراب یہی ہے کہ اب اس کا تعین ہونا چاہئے ۔
میں ایک عرصے سے ان موضوعات پر سوچ اور لکھ رہا ہوں ، اہل مدارس اور وفاق کے ذمہ داران سے بھی وقتا فوقتا تبادلہ خیال رہتا ہے ، مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایسے تمام حضرات خامیوں کے قائل اور بہتری کے خواہاں ہیں ، اپنی علمی روایت کے احیا کے لیے متفکر اور بے چین لیکن کسی طرف سے عملی کوششوں کا آغاز دکھائی نہیں دیتا ۔
ایسے میں یہ سوال شدت اختیار کر جاتا ہے کہ یہ سب کو ن کرے گا اور یہ کس کی ذمہ داری ہے ۔ میرا گمان تھا کہ مولانا زاہد الراشدی صاحب وفاق کے منتظمین کے قریب اور ان تک رسائی رکھتے ہیں ، یقینا وہ وفاق کی کسی کمیٹی کے رکن بھی ہوں گے ، حیرت مگر اس بات پر ہوتی ہے کہ وہ بھی اپنا درد دل صرف اخبارات تک ہی بیا ن کر سکتے ہیں ، یہ سب تجاویز ، سفارشات اور صورتحال وہ ڈائریکٹ منتظمین تک کیوں نہیں پہنچاتے ،وفاق کے اجلاسوں میں یہ آوازکیوں نہیں اٹھائی جاتی اور اگر آواز اٹھتی ہے تو اس کی شنوائی کیوں نہیں ہوتی ، مکرر عرض ہے کہ اب اس لکھے کا تعین ہونا چاہئے کہ اس کا مخاطب کون ہے ۔
بعض احباب کو میری یہ رائے گراں گزرتی ہے کہ مدارس کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ تعلیمی بورڈ اور علمی و تحقیقی ادارے کم اور خانقاہیں ذیادہ ہیں ، اس سے میری مراد مدارس کی تحقیر ہرگز نہیں کہ اپنی ذات میں یہ بھی بہت بڑا کام ہے کہ عوام کا تعلق اللہ سے جوڑا جائے لیکن ہماری روایت صرف یہ نہیں تھی ۔ ہماری روایت ایک وسیع پیکج تھا جس کی بنیادتو تعلق مع اللہ تھی مگر آگے اس کے مختلف شیڈز تھے ۔
فقہ ، قانون ، سماجیات ، زبان ، ادب ، بلاغت، ابلاغ ، منطق ، فلسفہ ، جغرافیہ ، فلکیات اور الہیات ان شیڈز کی مختلف صورتیں تھیں ۔ آج یہ روایت جمود کا شکار ہے اور یہ جمود صرف چند پہلووٴں تک محدود ،روایت سے تعلق توڑ کر کوئی قوم کیسے آگے بڑھ سکتی ہے مگر ہم شاید تاریخ کے نئے اصول طے کرنے پر مصر ہیں ۔
گزشتہ چند سالوں سے مختلف مدارس کے منتظمین و مہتممین نے ،اپنے طور پر نصاب و نظام میں تبدیلی اور عصری مضامین کو شامل نصاب کر کے اتنا تو ثابت کر دیا کہ تبدیلی اور بہتری کی ضرورت بہر حال موجود ہے ۔
مگر یہ کیا ہوا کہ ہر کوئی اپنے طور پر پیوند لگانے میں مصروف ہے ، جس کو جہاں کوئی عیب دکھائی دیا اس نے وہاں پیوند لگا لیا ،مجموعی طور پر البتہ کوئی اس پیوند کاری کے لیے تیار نہیں ۔ یہ رویہ بذات خود ایک عیب اور باعث انتشار ہے ، اس لیے لازم ہے کہ اوپر والی سطح پر ان چیزوں کا ادراک ہو ، سوال پھر اسی دائرے میں آجاتا ہے کہ اب یہ تعین ضروری ہے کہ بلی کی گردن میں گھنٹی کون باندھے گا ۔
مولانا زاہد الراشدی نے”مدرسہ ڈسکورس “ کو مدارس کی انہی خامیوں کا نتیجہ قرار دیا ہے،جب اہل مدارس اپنی روایت کی بازیافت کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے تو مدرسہ ڈسکورس جیسے پلیٹ فارم اس کی جگہ لیں گے ، مدرسہ ڈسکورس پر اعتراض سے قبل ضروری ہے کہ حاملین روایت ، اپنی روایت کے احیا کے لیے خودآگے بڑھیں ، وہ آج کے نوجوان کی علمی تشنگی کو دور کرنے کے لیے وہ اقدامات کریں جس سے ان کی روایت سے وابستگی مضبوط تر ہوجائے۔
اسباب کا ازالہ کیئے بغیر نتائج پر اعتراض ایک غیر منطقی رویہ جس کی کسی طور پزیرائی نہیں کی جا سکتی ۔
ہمارے ہاں دینی و عصری دونوں نظامہائے تعلیم پر گفتگوئیں اور اعتراجات معمول کی بات ہے جس میں کسی حد تک صداقت بھی موجود ہے ، کیا ہی اچھا ہو کہ ارباب مدارس آگے بڑھ کر ایک متوازن نصاب و نظام وضع کریں اور ایک مثالی طالب علم دنیا کے سامنے لا کر کھڑا کر دیں ۔مکرر عرض ہے کہ مدارس کے باب میں بہت لکھا جا چکا ، اس لکھے کا مخاطب کون ہے ، اب وقت ہوا چاہتا ہے کہ اس کا تعین کیا جا ئے تاکہ انفرادی پیوند کاری کی بجائے اجتماعی سطح ایسا نظم وضع کیا جائے کہ اس پیوند کاری کی ضرورت باقی نہ رہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
اداروں اور جماعتوں کی انتظامیہ کا فرعونی رویہ
دھونس، تحکم اور کمزور کو کچلنے کی نفسیات کوئی دین ، مذہب فکر یا پیشہ نہیں سکھاتا، لیکن یہ دبڑدھونس انسانی کمزوریوں میں سے ایک ہے، جہاں انسان کو موقعہ ملتا ہے، وہ خود کو ’انا ربکم الاعلی‘ کے درجے پر فائز کرنے کی مکمل کوشش کرتا ہے، یہ فرعونی رویہ دیگر دنیاوی اداروں میں ہو تو ہو، کہ انہیں دین سے کوئی تعلق نہیں، لیکن افسوس یہ رویے ’دینداروں‘ میں بھی زوروں پر ہیں، دیگر جگہوں پر تو کسی نہ کسی طرح پوچھ گچھ یا احتجاج کی کوئی صورت موجود ہوتی ہے، لیکن دینی اداروں میں اس حوالے سے چیک اینڈ بیلنس نام کی کوئی چیز ہی موجود نہیں، لہذا بڑی چھوٹی جماعتوں، مسجدوں اور مدرسوں کی انتظامیہ ’وحدہ لا شریک‘ کے درجے پر فائز ہیں، ان جگہوں پر اگر حقوق محفوظ ہیں تو ان سلطنتوں کے خداؤں اور ان کی پرستش کرنے والوں کے۔وہاں رہنے والی رعایا، حقوق نام کی کسی چیز کی توقع نہیں رکھ سکتی چاہے کوئی بڑے سے بڑا شیخ الحدیث ، خطیب یا استاذ ومحقق ہی کیوں نہ ہو۔
اندرون و بیرونِ ملک اور عرب و عجم میں ’شیخ الحدیث، المسند المعمر الحافظ، الفقیہ، شیخ الإسلام‘ کے القاب حاصل کرنے والے ایک شیخ الحدیث لاہور کے علاقے قینچی کی مسجد میں اپنی خطابت کو برقرار نہ رکھ پائے، کیونکہ مقابلے میں غنڈہ گرد جماعت کے چھوٹے بڑے فرعون اتر آئے تھے، جنہوں نے علی الاعلان کہا کہ ایک طرف فلانے بلوچ صاحب کو کھڑا کرلیں، دوسری طرف شیخ الحدیث صاحب کی تقریر کروا لیں، دیکھتے ہیں بھلا عوام کن کو زیادہ سنتی ہے، فرعون کے وزیر ہامان کے اس انوکھے استدلال کا سامنا کوئی نہ کرسکا، اور مسجد کی زمامِ خطابت ایک ’شیخ الحدیث‘ سے لے لی گئی۔ اور شیخ الحدیث صاحب جن کے سامنے حرمین کے ائمہ وخطبا بھی دو زانو ہو کر بیٹھتے تھے، انہیں اس فرعونی معاشرے میں چند جہلانے ان کی اوقات یاد دلادی۔
حفظ کے استاد تھے، نسلوں کی نسلوں نے ان سے حفظِ قرآن کیا، اپنی جوانی اور بڑھاپے کا بھی اکثر حصہ انہوں نے کسی ادارے کی خدمت میں گزارا، مدیروں کے خاندانوں نے ان سے حفظ کیا، لیکن وہی مدیر کے بیٹے بڑے ہوئے تو استاد گرامی کو کہا کہ ہم نے آپ کی کلاس کا ٹیسٹ لیا، معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی صحت و عمر اجازت نہیں دیتی کہ آپ اب یہ کام جاری رکھ سکیں، لہذا اپنے حسبِ حال کوئی اور کام تلاش کریں۔ استاد نے وہاں کیا کہا ہوگا، مجھے نہیں معلوم، لیکن ان کے حق میں ایک عربی شاعر کہہ چکے ہیں:

أعلمه الرماية كل يوم ... فلما اشتد ساعده رماني
ایک بوڑھے استاد بیچارے مرحوم ہوئے، اللہ تعالی ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل کرے، ساری عمر مدرسے کی خدمت میں گزار دی، پھر آخری عمر میں قوی مضمحل ہونے لگے، تو معلوم ہونا شروع ہوگیا کہ میں کسی وقت بھی ’مدیر کے حکم‘ کا شکار ہوسکتا ہوں، لہذا جو بھی صفحہ وغیرہ آتا بلا پڑھے دستخط کردیا کرتے تھے، البتہ اتنی دہائی ضرور دیا کرتے تھے کہ اس عمر میں مجھ سے ’استعفے‘ پر دستخط نہ کروائیے گا، لیکن افسوس آخری عمر میں وہ فرعونیت کا شکار ہوکر آنسو بہا بہا کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔
فرعون صرف ایک شخصیت کا نام نہیں، بلکہ فرعونیت ایک مکمل سسٹم، جس میں چیلے چپٹے وغیرہ مکمل لوازمات موجود ہوتے ہیں، مجھے اچھی طرح یاد ہے ہمارے ایک استاد محترم ایک جماعت کی مسجد میں خطیب ہوا کرتے تھے، بہت پرجوش اور جماعتی فکر کے ساتھ اتنے مخلص کہ اپنے دیگر ساتھیوں اور اداروں میں اس جماعت کی فکر کا سرگرم دفاع کیا کرتے تھے، وقت بدلا، وہی استاد محترم اسی جماعت کے ہاتھوں جن کے امیر صاحب کہا کرتے تھے کہ .... صاحب آپ کھل کر کام کریں ہمارا مکمل تعاون آپ کے ساتھ ہے، جب ہامانی چیلوں کی طرف سے اس مسجد سے نکالے گئے تو جماعتی فرعون ان کی کال تک ریسیو نہیں کرتا تھا، نیچے چیلے ٹھیک ٹھاک قسم کی دھمکیاں لگاتے، لیکن جب استادِ محترم لاچار ہو کر اوپر فون کرتے، تو وہ فون ریسیو ہی نہیں کیا جاتا تھا، اور بالاخر وہ اس مسجد سے فارغ ہوئے، اور یوں ہوئے کہ انہیں بیوی بچے تو ایک طرف کتابیں رکھنے کے لیے بھی کسی طرف جگہ نہیں مل رہی تھی، جی ہاں میں اس کو فرعونی نظام کیوں نہ کہوں؟ کیا محمدی نظام میں علما کی لائبریریاں سڑکوں پر نکال کر پھینکی جاتی ہیں؟
بعض لوگوں کو حق بولنے کا جنون ہوتا ہے، یہی استادِ محترم کئی اور جگہوں پر بھی کلمہ حق اور حسد دونوں کا شکار ہوئے، اور اتنا ذلیل کیے گئے کہ دورانِ درس انتظامیہ کے افراد اٹھ کر انہیں ٹوکنا شروع ہوجاتے تھے کہ آپ طالبعلموں کو خراب کر رہے ہیں۔ اور حالانکہ یہ استاد طالبعلموں کے لیے اتنے مخلص تھے کہ کئی ایک بڑے چھوٹوں کے اندر علمی ذوق بیدار کرنے والے، ان کی ضرورویات کو پورا کرنے والے یہی استاد تھے، اور انہیں طلبہ کے دشمن کہنے والوں کے پاس سوائے اس کے اور کوئی کوالٹی نہیں تھی کہ وہ فرعونی نظام میں ’ہامانی اہلیت‘ سے مالا مال تھے۔
اور پھر یہ بیچارے چاپلوسی کی زندگی گزارنے والے، ان کی کیا اہمیت ہوتی ہے؟ وہی دس پندرہ اور حد بیس سال، جب تک مدیر کے اشارہ ابرو پر دم ہلانے کی سکت ہوگی، منظورِ نظر رہیں گے، بعد میں پھر وہی حال:

الله يعلم أنا لا نحبكم... ولا نلومكم إذ لا تحبونا
اور پھر دنیا دیکھتی ہے کہ کئی ایک ایسے اساتذہ جن کا ہم وغم انتظامیہ کا دم بھرنا اور اساتذہ کی شکایتیں لگانا تھا، ایک دن آتا ہے، ان کو بھی مدیر صاحب بڑے طمطراق و شان سے ’سندِفراغت‘ عطا کردیتے ہیں، بلا اس بات کی پرواہ کیے کہ ماضی میں ان کی میری ذات یا ہمارے ادارے کے لیے کیا خدمات ہیں، اور انہوں نے اس پاداش میں لوگوں سے کیا کیا باتیں سنی ہیں۔ لہذا مقامِ عبرت ہے سب کے لیے کہ کسی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انسان کو اپنے زملا وکولیگز کے خلاف محاذ گرم کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
بہترین سیکرٹری اور مجلس شوری وہی ہوتی ہے جو انتظامیہ اور اساتذہ و طالبعلموں کے درمیان اس قسم کا تعلق پیدا کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے متنفر ہونے کی بجائے، ایک دوسرے کے زیادہ سے زیادہ خیر خواہ بنیں، وہ طلبہ و اساتذہ میں انتظامیہ کا نمائندہ ہو، لیکن مدیر و انتظامیہ کےسامنے ان کے حقوق کا زبردست حمایتی ہو۔ یہ گھٹیا رویہ ہے کہ مدیر یا انتظامیہ بیس روپے کی سہولیات فراہم کرنے کے لیے تیار ہوں، لیکن چیلے چمٹے کہیں کہ نہیں ان کی اوقات پانچ دس سے زیادہ کی نہیں ہے ، شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں نے بھی اداروں کا بیڑہ غرق کیا ہے، بعض انتظامیہ کو اصل صورتِ حال اور حقائق کا علم تک نہیں ہونے دیتے۔
دیکھیے مدیر اور متولی کی نفسیات و ہی ہوتی ہیں، چاہے بالمقابل اس کا کوئی قریبی دوست اور کلاس فیلو ہی کیوں نہ ہو، جامعہ اسلامیہ سے اکٹھے پڑھ کر ایک صاحب نے جاکر مدرسہ بنالیا، ساتھ اپنے بعض کلاس فیلوز کو بھی وہاں استاد رکھ لیا، چند ہی سالوں بعد ’مدیریت‘ کی تاب نہ لاتے ہوئے ان ’شیخ الحدیث‘ صاحب کو مدرسہ کو خیر آباد کہہ کر کوئی انتظام کرنا پڑا، لہذا دوستی یاری میں بھی اس قسم کے فیصلے کرنے سے پہلے کافی غور وفکر کی ضرورت ہے ۔ ایک اور مدیر صاحب ہیں، خود لاکھوں روپیہ تنخواہ، گاڑیاں رہائشوں کے مزے اٹھا رہے ہیں، جبکہ جن لوگوں کو ہائیر کر رہے ہیں، ان کی اوقات وہی معروف دور چار کوڑیوں سے زیادہ نہیں ہے۔ آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ایک امام یا خطیب صاحب ایک ایک نماز یا جمعہ کے لیے اتنی سہولیات اٹھاتے ہیں، لیکن وہی جب انتظامیہ کی شکل میں نظر آتے ہیں تو اپنے ملازمین کو پورے مہینے کے لیے اس کے قریب قریب بھی سہولیات اور تنخواہ نہیں دیتے جو خود ایک جماعت یا جمعے کے عوض لے لیتے ہیں۔
تلك إذا قسمة ضيزى
کالجز ، یونیورسٹیز اور عصری سکولوں میں یہ نوٹ کیا گیا ہے کہ آپ کو کم یا زیادہ جتنی بھی تنخواہ دی جاتی ہے، وہ ایک محدود ڈیوٹی کے مقابلے میں ہوتی ہے، کہ آپ نے ہر روز پانچ سات آٹھ گھنٹے پڑھانا ہے، اس کے بعد آپ جنت میں جائیں یا جہنم میں، انتظامیہ آپ سے کسی قسم کا کوئی تعرض نہیں کرے گی، دینی اداروں میں یہ بھی عجیب وغریب رواج ہے کہ آپ نے ہاں کرلی ہے تو مطلب ہے کہ آپ پکے پکے آگئے ہیں، ہمیشہ اسی جنت میں رہنا ہے، باقی دنیا سے آپ کا کوئی تعلق نہیں، چوبیس میں سے پچیس گھنٹے آپ نے اسی مسجد و مدرسہ کے لیے ہر دم تیار و چوکس رہنا ہے۔ ایک مدرسہ کے استاد تھے، تنخواہ اتنی تھی کہ گھر کا گزارہ نہیں چلتا تھا، کہنے لگے ارادہ ہے کہ کوئی پھل فروٹ وغیرہ کی ریڑھی لگالوں، لیکن انتظامیہ ان معاملات میں بھی ناک بھوں چڑھاتی ہے ، کہ بھئی ہماری ناک نہیں رہتی...او ظالمو! ایک قابل استاد ہو کر اس کا خرچ پورا نہیں ہورہا، اور وہ ریڑھی لگانے تک کی سوچ رہا ہے، کیا اس سے تمہاری ناک کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتی ؟
ایک طرف ملازمین نے فل ٹائم ایک ہی مسجد و مدرسہ میں رہنا ہے، اور دوسری طرف انتظامیہ کے حالات پر نظر دوڑائیں، ساتھ درجنوں کام شروع کیے ہوتے ہیں، کسی نے ساتھ سکول کھولا ہوا ہے، کسی نے یونیورسٹی جوائن کی ہوئی ہے، کسی نے دو دو تین مدرسے کھولے ہوئے ہیں، خو د ہفتے اور دنوں کو بھی کئی کئی حصوں میں تقسیم کیا ہوتا ہے، اتنی دیر مدرسہ میں، اتنی دیر آڑھت اور دکان یا سکول یونیورسٹی میں، اور ملازم صاحب پچیس گھنٹے، آٹھ دن اور مہینے کے پینتیس دن اسی ’دین کے کام‘ میں مصروف رہیں گے، تاکہ کسی اور طرف نظر اٹھا کر دیکھنے کی فرصت ہی نہ ملے۔
آپ تصور کرسکتے ہیں کہ ملازم سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ تم چھٹی والے دن بھی گھر نہ جاؤ، اور عید بھی یہیں گزارو، ورنہ مکمل تنخواہ نہیں حاصل کرپاؤ گے؟
امام اور خطیب کی یہ ذمہ داری ہو کہ اس نے مسجد و مدرسہ میں آنے جانے والے کے نخرے بھی اٹھانے ہیں، متولی یا منتظم صاحب کا کوئی مہمان آئے گا، تو چائے پانی بھی اسی امام صاحب کی ذمہ داری ہے، منتظم کے بچوں کے پیمپر اور ان کو سکول لانے لے جانے کا کام بھی ’امام صاحب‘ کے سپر ہوتا ہوگا؟ یعنی امام و قاری کے ساتھ یہ رویہ رکھا جائے کہ وہ اللہ کے گھر کے امام کی بجائے متولی و منتظم کا چپڑاسی محسوس ہونا شروع ہوجائے؟
فيا لله العجب!!
لاہور میں ایک قدرے مشہور حکیم صاحب ہیں، دواخانے کے ساتھ ایک مسجد کو مدرسہ کا نام دے کر کاروبار چلایا ہوا ہے، اور ساتھ لاہور کی مہنگی سوسائٹیز میں پلاٹس اور مکان خرید رہے ہیں، دو تین اساتذہ رکھے ہوئے تھے، پھر اچانک ان کو آرڈر جاری کردیا کہ ہم مدرسہ نہیں چلاسکتے، آپ اپنا بندوبست کرلیں، ان اساتذہ نے کہا کہ آپ نہیں چلاسکتے تو ہم اس کا انتظام و انصرام کرلیتے ہیں، قصہ مختصر اساتذہ کو کہا یہاں سے بھاگیں، اور پھر باقاعدہ غنڈوں کے ذریعے سے اساتذہ پر حملہ کروایا، تاکہ میری فیکٹری پر کوئی اور قبضہ نہ کرسکے۔
اور یہ دینی جماعتیں کیا ہیں، اپنی اپنی سلطنتیں ہیں، جس کے ہم بے تاج بادشاہ ہیں، کسی بھی عالم دین، امام مسجد یا اس کی مسجد پر حملہ آور ہونے کے لیے ہمارے پاس اتنا جواز کافی ہے کہ ہم کسی جماعت کے کارندے ہیں، حافظ طیب محمدی نام کے بزرگ جن کو میں ذاتی طور پر نہیں جانتا، لیکن طالبانِ علم اور علما سے ان کی بہت تعریف سنی ہے، کہ پختہ و ثقہ عالم دین اور اخلاص و للہیت کی تصویر ہیں، اب بڑھاپے میں داخل ہوئے ہیں، تو کسی جماعتی کے یزدانی و رحیمی کی دہشت گردی کا شکار ہوگئے ہیں، ان جماعتی ہامانوں نے پولیس سے ایکا کرکے اس بزرگ کو پسِ دیوارِ زنداں کروادیا ہے، اور اب ان کے گھر والوں اور بچوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں کہ اس مکان سے باہر نکلیں... یہ کوئی انسانیت ہے؟ میں مانتاہوں کہ بعض دفعہ مسجدوں میں مختلف گروپوں کی سیاسیت بھی ہوتی ہے، لیکن بخدا یہ کوئی انسانی رویہ ہے کہ آپ مخالف عالم کے خلاف پرچے کٹوائیں ؟ اور حافظ طیب صاحب کے معاملے میں مرکزی کی جو شخصیت متنازعہ ہے، انہیں صاحب کا نام ان کاروائیوں میں بھی سرِ فہرست ہے، جو مولوی منظور کے خلاف ’انکشاف‘ کے نام سے کی گئی ہیں۔
مجھے یاد ہے ایک جماعت کے امیر پاک اپنے باڈی گارڈ کو یہ آفر کروا رہے تھے کہ اگر آپ کے سسرال رخصتی کرنے میں دیر کر رہے ہیں، تو ہم اس مکمل قافلے کا رخ سسرال کی طرف موڑتے ہیں، اور جاکر بچی کو ساتھ بٹھالاتے ہیں، کیونکہ جب نکاح ہوگیا ہے تو پھر رخصتی سے لیٹ کرنے کا اختیار ان کو نہیں ہے۔ یہ دینی جماعت ہے یا کوئی غنڈوں کا ٹولا؟ ایک اور صاحب کی سنیں، قاری صاحب ہیں، مدیر کے بھائی ہیں، پتہ چلا استانی نے سکول میں ’لاڈلوں‘ کو مارا ہے، نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، جاکر اس ’استانی‘ پر حملہ آور ہوگئے کہ تم ہوتی کون ہو ان ’شہزادوں‘ پر ہاتھ اٹھانے والی؟ اور اس کے کپڑے چاک کردیے۔ اور انتظامیہ سے اختلاف پر اساتذہ کے سامان کو اٹھوا کر باہر پھینکنے کی دھمکیاں تو ہر تیسرے ادارے میں آپ سنتے ہوں گے۔
یار کون سا مذہب اس ظلم وستم کی تائید کرتا ہے؟ کونسی اخلاقیات مکر وفریب کی حمایت کرتی ہیں؟ کس کتاب میں آپ نے پڑھ لیا ہے کہ مخالف کو زچ کرنے کے لیے یا اپنی دھاک بٹھانے کےلیے آپ پولیس اور ایجنسیوں کے چھاپے مروانے پر اتر آئیں ! کوئی کتا بھی وفادار ہو یا نہ ہو، اس دنیا میں گلی میں پھرتے ہوئے اس کتے کے حقوق بھی ہیں، لیکن افسوس کئی ایک دینداروں میں دینداری تو دور کی بات انسانیت کا پاس ہی ختم ہوتا جارہا ہے ۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ الحمدللہ خیر ابھی باقی ہے، سب لوگ ایک جیسے نہیں، لیکن یاد رکھیں، ظلم وستم کے جو رویے عام ہوجائیں، چاہے وہ بعض افراد کی طرف سے ہی ہوں، اگر دیگر لوگ ان کے ازالے کی کوشش نہیں کرتے تو مجموعی طور پر سب معاشرہ گناہ گار ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:

لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى لِسَانِ دَاوُودَ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِكَ بِمَا عَصَوْا وَكَانُوا يَعْتَدُونَ (78) كَانُوا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُنْكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ (79) ( المائدة)
گزارش:

تمام اہل دین کو اپنی اپنی انفرادی ضرورویات و مصروفیات و مصروفات سے کچھ حصہ نکال کر ایک مرکزی ادارہ اور کمیٹی قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، جو مساجد و مدارس کے حالات کو دیکھنے کی، اچھائی کی حوصلہ افزائی اور برائے کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہو، ورنہ اس معاشرے میں جہاں دیندار لوگ پہلے ہی نیچے سے نیچے جارہے ہیں، دین کے لیے مشکلات پیدا کی جارہی ہیں، ایک وقت آئے گا، دینداروں کی اخلاقی کمزوریوں کے سبب ان کا کام ویسے ہی ٹھپ ہوجائے گا، یہ کوئی بات نہیں کہ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات بناکر پیش کرنے والے، سمجھانے والے، خود اپنے اداروں، اور نظاموں میں اسلامی چھوڑ کر بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کو بھی ممکن نہ بناسکیں۔ اب یہ مثالیں عام ہیں کہ مولویوں کی لڑائی چھڑانے کے لیے ایس ایچ او اور ایس پی وغیرہ مسجدوں کے منبروں پر بیٹھ کر دین کے لبادوں میں لپٹے ’عبادِ درہم و دینار‘ کو نصیحتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ خدارا ان معاملات کا تدارک کریں، ورنہ تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
تذکرہ ایک مہتمم کا

مجھ ناچیز کو دو مدارس میں تدریس کرنے کا موقع ملا پہلا :جامعہ امام بخاری گندھیاں اوتاڑ میں آٹھ سال، بلکہ اس مبارک مدرسہ کا پہلا استاد میں ہی ہوں ۔دوسرا دار الحدیث راجووال ،اس جامعہ میں ایک سال تدریس کا موقع ملا ۔
میں نے دونوں کے مہتمم صاحبان کو نیکی و تقوی سے متصف اور اساتذہ و طلبہ سے خیر خواہ اور ان کے حقوق کا خیال رکھنے والے پائے ۔
پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہیں ۔ ہر شعبہ میں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں ۔من کان للہ کان اللہ لہ کا مبارک قانون قیامت تک کے لیے ہے ۔ آپ کے ایمان کو تازہ کرنے کے لیے ایک مثالی مہتمم صاحب کا ذکر خیر کرنا چاہتا ہوں ۔
ایک متہمم صاحب کا رویہ جو انھوں نے مجھ سے اپنایا وہ پیش خدمت ہے :
۱۔ میں نے ابھی اس مہتمم صاحب کے مدرسہ میں تدریس شروع نہیں کی تھی،انھیں معلوم ہوا کہ میرا گھر کچا اور بوسیدہ ہے تو گھر کی تعمیر کے لیے پچاس ہزار مہیا کیا۔
۲۔ مہتمم صاحب کے مدرسہ میں صحیح بخاری کی تدریس شروع کی ساتھ ہی فارغ وقت میں صحیح بخاری کی شرح(انوار القلوب للقاری بفوائد صحیح البخاری ) لکھنی شروع کر دی جب مہتمم صاحب کو اس کا علم ہوا تو مجھے کہنے لگے کہ اس مبارک کام میں بھی میں آپ کے ساتھ ہوں جو کتاب چاہیے ،یا کوئی بھی معاون چیز مجھے بتائیں، میں حاضر ہوں اور بہت زیادہ تعاون اس مد میں بھی مجھ سے کرتے رہے ۔لاکھ سے زائد رقم کی کتب بھی میرے کہنے پر میرے ساتھ لاہو رگئے ۔
۳۔ اس مہتمم صاحب کو معلوم ہوامیرے گھر کا دروازہ ابھی لگوانا باقی ہے تو فورا دس ہزار تحفہ دیا کہ آپ گھر کا دروازہ جلد لگائیں ۔
۴۔ بیٹا پیدا ہوا تو تنخواہ سے الگ بھی دس ہزار تحفہ دیا کہ یہ بچے کے لیے میری طرف سے تحفہ ہے ۔
۵۔ جامعہ کے پرنٹر سے مجھے اجازت دی کہ آپ چونکہ تصنیف و تحقیق کے شعبہ سے بھی منسلک ہیں ،جب بھی آپ کو پرنٹ لینے کی ضرورت پڑے آپ کو عام اجازت ہے ۔
۶۔مکتبہ کا قانون مجھ سے پہلے اور تھا میرے کہنے پر اس عظیم مکتبہ کی چابی مجھے دے دی کہ آپ چوبیس گھنٹے اس مکتبہ سے فائدہ اٹھا ئیں ۔
۷۔اسی مہتمم کے ہاں رہتے ہوئے جو بھی کتب شائع کیں ہر ہر کتاب میں مہتمم صاحب نے حسب استطاعت تعاون کیا ۔
۸۔ ایک سال کی تکمیل کے بعد جب قصور میں جامعہ امام احمد بن حنبل کھولنے کا اراد مصمم کیا تو باہمی رضا مندی سے مدرسہ چھوڑ دیا ہے لیکن یہی مہتمم صاحب فرمارہے ہیں کہ محترم نئے مدرسے چلانے مشکل ہوتے ہیں آپ کے ننھے منھے بچے ہیں تو مکمل سال نصف تنخواہ میں آپ کو دیا کروں گا اور ایک سال یہ نصف تنخواہ بھی مجھے دیتے رہے حالانکہ میں اپنے مدرسہ میں تدریس کررہا تھا ۔
۹۔ جب بھی اس مہتمم صاحب کے جامعہ سے اپنے مدرسہ کے لیے تعاون کے لیے رابطہ کیا تو بخوشی جمعہ میں تعاون بھی کرواتے ہیں ۔
۱۰۔ اسی مہتمم صاحب کے رشتہ داروں سے ایسے بھی افراد ہیں جو اب تک میرے خاص معاونین میں سے ہیں ۔
۱۱۔ یہی مہتمم صاحب میرے ایک شعبہ( مؤسسۃ لخدمۃ صحیح البخاری )کے اہم رکن بھی ہیں ۔
۱۲۔ اسی مہتمم صاحب کی بیوی صاحبہ کے مقالہ کی تخریج و تحقیق کی تو اس پر الگ سے تعاون کیا اورمہتمم صاحب نے اپنی ایک کتاب کی نظر ثانی کا کام کروایا توا س کی خدمت الگ سے کی ۔
۱۳۔ میرے ایک استاذ محترم وفات پاگئے مجھے لمبا سفر کرنا تھا تو مہتمم صاحب مجھے لاہور چھوڑنے کے لیے آئے اور ساتھ مجھے سفری خرچ بھی دیا کہ آپ ایک نیکی کے سفر میں جارہے ہیں مجھے نیکی کا موقع دیں ۔
۱۳۔ میں نے اپنی ایک کتاب( نصحیحتں میرے اسلاف کی) کا مقدمہ لکھنے کا کہا تو میرے پیارے بھائی ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ نے اول فرصت میں جامع اور علمی مقدمہ تحریر فرمایا اور اس مقدمہ کے آخر میں مجھ فقیر کے متعلق اپنے تاثرات اس طرح لکھے :
مجھے سردست کچھ مؤلف کے بارے گزارشات پیش کرنی ہیں۔ میں فضیلۃ الشیخ ابن بشیرحفظہ اللہ سے ذاتی طور پر ایک عرصہ سے واقف ہوں۔ خدمت دین، تحقیق و تصنیف، دعوت و تبلیغ تعلیم و تدریس کے حوالے سے جذبات کا ایک تلاطم ہے جو ان کی شخصیت میں سمو دیا گیا ہے۔ آسماں کی بلندیوں کو چھوتے عزائم، سمندر کی وسعتوں اور گہرائیوں سے بھی کچھ آگے بڑھتے ہوئے احساسات،شبانہ روز انتھک محنت اور ہمالیہ سے محو کلام جرأت و ہمت یہ ہیں الشیخ ابن بشیر الحسینوی، جیسے انہیں میں نے محسوس کیا ہے!!۔
دارالحدیث راجووال کے مکتبہ میں مسلسل کئی گھنٹے بیٹھے رہتے، کتابوں کے ڈھیر میں گم سم، ان کے ذوق مطالعہ کے پیش نظرمیں نے مکتبہ کی چابی انہی کو دے رکھی تھی۔ مطالعہ میں استغراق و انہماک کے باجود دنیا کے جدید حالات اور تقاضوں سے بھی آگاہ اور باخر، انٹرنیٹ پر مسلسل نہ صرف اکثر محدثین سے رابطے میں رہتے ہیں، بلکہ آن لائن تدریسی مصروفیات بھی رکھتے ہیں۔
بالخصوص تدریس حدیث کے اسلوب و منہاج میں ہمارے مربی، ہمارے محسن ہمارے شیخ مکرّم، محدث العصر، فضیلۃ الشیخ حافظ محمد شریف حفظہ اللہ أستاذ الحدیث و رئیس مرکز التربیۃ الاسلامیۃ فیصل آباد سے بھی بہت متاثر ہیں۔ منہج الدراسۃ المقارنۃ یعنی ایک ایک حدیث کو اصل مصادر سے پڑھنا، ان کے طرق و اسانید کو دیکھنا، الفاظ و کلمات اور تعبیرات کا مطالعہ کرنا، متعلقہ شروح الحدیث کی گہرائی میں جانا اور پھر ان سے احکام و سائل کا استنباط کرنا اور فقہ الحدیث میں مہارت حاصل کرنا۔
یقینا اس منہج تدریس کی بدولت ہماری مادر علمی ’’مرکز التربیۃ الاسلامیۃ‘‘ سے علماء کی ایک کھیپ تیار ہوئی جو اس وقت متعدد دینی مدارس اور تحقیقی اداروں میں وقیع خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ہمارے ممدوح، فاضل دوست ابن بشیر صاحب اس منہج تدریس کا دینی مدارس میں احیاء کرنا چاہتے ہیں۔
اسی طرح تحقیق و تصنیف کے حوالے سے بھی موصوف بڑے اچھے جذبات رکھتے ہیں۔ایسے خوبصورت جذبات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ہمارے فاضل بھائی نے گزشتہ سال [۱۴ ،اگست ۲۰۱۴ء]شہر قصور میں جامعہ امام احمد بن حنبل کی بنیاد رکھی، میری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس فاضل بھائی کے عظیم الشان منصوبہ جات کی تکمیل فرمائے، ان کیلئے مطلوبہ افراد و وسائل اپنے غیبی خزانوں سے مہیا فرمائے۔ شفاعت حقہ کے طور پر ہر قاری سے بالعموم اور شہر قصور کے احباب سے بالخصوص میری درخواست ہے کہ خیر کے ان کاموں میں موصوف کے دست و بازو بنیں تاکہ یہ کھل کر کام کر سکیں۔
وصلی اللّٰہ وسلم و بارک علی النبی الکریم
وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعھم بإحسان إلی یوم الدین
عرض حال کا مقصد یہ ہے کہ بڑی خیر موجود ہے بس دیکھنے والی نگاہیں اور مثبت سوچ والے دماغ چاہئیں.
کتبہ :ابن بشیر الحسینوی، رئیس جامعہ امام احمد بن حنبل، قصور.
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
کچھ دن پہلے ایک صاحب نے فیس بک پر اپنے خیالاتِ عالیہ کا اظہار کیا، صاحب اکثر اوقات نہایت دردِ دل سے علم اور اہلِ علم کی عزت و توقیر اور اجلال و اکرام کے حوالے سے نہایت عمدہ اور مفید معلومات فراہم کرتے ہیں نیز اندازِ بیاں شوخ و گستاخ ہونے کے ساتھ ساتھ تیکھا، رسیلا اور ادبیت سے معمور ہوا کرتا ہے.
ہمارے اس نوجوان کی صلاحیتوں میں اللہ تعالیٰ مزید اضافہ فرمائیں اور ان کو ایسے معاونین میسر آئیں جو ان کی بعض غلط فہمیاں دور کرنے میں ان کے ممدّ و معاون ثابت ہوں. آمین ثم آمین یا رب العالمین.
ان کی آخری چلبلی تحریر مدیرانِ مدارس اور اساطینِ مساجد کے متعلق نظر سے گزری جس کا لبِّ لباب بقولِ اقبال کچھ یوں تھا :
ع : گلہ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہلِ حرم سے ہے
کسی بُت کدے میں کروں بیاں تو کہیں صنم بھی ہری ہری
صاحب نے جو فرمایا اس سے اس فقیر کو ہرگز ہرگز کلّی اتفاق نہیں ہے، بے شک اس میدان میں کچھ حضرات ایسے موجود ہیں جو ہمارے درجات میں اضافے کا سبب ہیں اور جن کا وجودِ نامسعود ہمارے لیے ایک مستقل اذیّت اور ہردم پریشانی کا باعث ہے لیکن اس راہ میں کچھ ایسے مدیرانِ مدارس اور اساطینِ مساجد بھی ہیں جو ایک ہنر مند جوہری کی طرح تراش کر آپ کو وہ ہیرا اور جوہرِ قابل بنانا چاہتے ہیں جس کی چار دانگِ عالم میں شہرت ہو.
جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں دورانِ تدریس حضرت جناب پروفیسر چوہدری یاسین ظفر صاحب نے اس فقیر کو جس عزت افزائی سے نوازا اور جس اپنائیت اور چاہت کا وقتاً فوقتاً اظہار فرماتے رہتے ہیں وہ اک طویل داستان ہے سرِ دست اتنا عرض کیے دیتا ہوں کہ سات برس کے اس دورانیے میں بےجا سرزنش اور ڈانٹ ڈپٹ تو بہت دور کی بات ہے کبھی جائز معاملہ میں بھی تنبیہ نہیں فرمائی جس کی وجہ سے کبھی کبھار مجھے احساس ہوتا ہے شاید میں اس ذرہ نوازی اور بندہ پروری کے قابل نہیں.
اگر کبار مشائخ کرام کا ذکر کروں تو حضرتِ شیخ الحدیث صاحب، مولانا محمد یونس بٹ صاحب، مفتی عبد الحنان زاہد صاحب ،پروفیسر نجیب اللہ طارق صاحب اور مولانا ادریس سلفی صاحب جس محبت سے پیش آتے اور جس طرح علمی رہنمائی فرماتے ہیں مجھے استاذ گرامی جناب صوفی گلزار احمد صاحب رحمہ اللہ، مرشدی حافظ عبد الرحمن صاحب چھوٹی اناسی والے رحمہ اللہ اور مولانا محمد ھود صاحب حفظه الله یاد آ جاتے ہیں.
اگر مسجد کا معاملہ دیکھوں تو اہلِ علاقہ، برادری والوں اور انتظامیہ مسجد کا معاملہ نہایت خوشگوار ہے اور میری غمی خوشی میں شریک ہونے کو فرضِ منصبی سمجھتے ہیں.
میرے عزیز حضرتِ اقبال " ارمغانِ حجاز " میں کیا خوب کہ گئے :
ع : تمیزِ خار و گُل سے آشکارا
نسیمِ صبح کی روشن ضمیری
حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے
اگر کانٹوں میں ہو خوئے حریری
میں یہ نہیں کہتا کہ بد سلوکی نہیں کی جاتی مگر اتنی گزارش کروں گا کہ اپنے آپ کو نفع بخش اور بے ضرر بنا لیں پھر جہاں عزت افزائی اور قدر دانی کرنے والے حضرات ملیں ان کا دامن تھام کر تا دمِ واپسیں ان سے وابستہ رہیں نیز اس دوران حقوق تلفی اور چھوٹے چھوٹے معاملات کو بنیاد بنا کر کسی سازش کا حصہ نہ بنیں بلکہ برداشت اور معافی کو اپنی شخصیت کا جزوِ لا ینفک بنا لیں تا کہ آپ کا علمی فیضان جاری و ساری رہے.
میں ذاتی طور پر کئی ایسے حضرات سے آگاہ و واقف ہوں جو اپنے عجیب و غریب مزاج کی وجہ سے قابل ہونے کے باوجود اداروں کے لیے اس قدر پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں کہ کوئی ان سے بلا معاوضہ کام لینے کو بھی تیار نہیں ہے.
کاتب : حافظ عبد العزيز آزاد
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
میں ایک ’دینی ملازم‘ ہوں

میں معاشرے میں موجودہ نظام ِتعلیم میں دوئی کی وجہ سے دوہری محنت کرتا ہوں۔ لیکن جب میں کچھ کرنے کے قابل ہوجاتا ہو تو پھر میرے نظام میں اتنا دم خم نہیں کہ میں اطمینا ن سے اپنے خون پسینے کی مزدوری طلب کرسکوں یا اس پر کوئی بحث و مباحثہ کرسکوں، کیونکہ میں کوئی عام مزدور نہیں، بلکہ میں دین اور دینداروں کا ملازم ہوں۔
اللہ کا فضل و کرم اور کسی کی نظرِ عنایت تو میں آسمانوں تک بھی پہنچ سکتا ہوں، لیکن بظاہر میرے لیے کوئی ضابطہ اخلاق نہیں، میں اپنا کوئی حق طلب نہیں کرسکتا، کیونکہ دین کے لیے اپنے آپ کو قربان کرنے والوں کا کیا حق ہوسکتا ہے؟ انہیں اپنے جسم وجان کا حق کیا، بلکہ خود انہیں بھی لٹانے کے لیے ہر وقت تیار ہنا چاہیے۔ میں جس نظام سے پڑھتا ہوں، اس سے منسلک لوگ قبر تک مجھے طعنہ دے سکتے ہیں کہ میں ان کی فراہم کردہ مفت کی دال کھا کر پڑھا ہوں۔ اور میں جن کا ملازم ہوں، وہ کسی بھی وقت مجھ پر احسان جتلانے کی اہلیت رکھتے ہیں، مجھے کوئی کسی بھی وقت کہہ سکتا ہے کہ تم تو مسجد و مدرسہ میں بیٹھ کر ’حرام کھاتے رہتے ہو‘، بھیک مانگنا تو ہماری ذمہ داری ہے، میں سوچتا ہوں کہ کیا یہ میری غلطی نہیں کہ میں بھیک مانگنے والوں کی ملازمت کرتا ہوں؟ کیا دنیا میں کوئی ایسا مزدور ہے کہ وہ محنت ومشقت کے بعد اپنی مزدوری مانگنے سے بھی شرماتا ہو؟ یا پھر یہ صرف علاقائی مسئلہ ہے؟ ساری دنیا میں دین کے لیے کام کرنے والے کسی درجہ میں بھی دیگر پیشہ وروں سے پیچھے نہیں ہوتے، حتی کہ کافروں نے بھی اسلامی علوم پر کام کیا، تو انہیں صرف ’مولوی‘ کہہ سمجھ کر ان کے حقوق کا استحصال نہیں کیا گیا، بلکہ ایک باحث، ریسرچر، استاد کی حیثیت سے انہیں نمایاں حقوق دیے جاتے ہیں۔ لیکن اس پار تو ہر وقت یہ فکر ستائے جارہی ہوتی ہے کہ مجھے کسی وقت کوئی بھی ’مفت خورے‘ کا طعنہ دینا شروع ہوجائےگا، آخر ایسا کیوں ہے؟ یہ میری فیلڈ میں خرابی ہے یا پھر میرے اختیار میں خرابی ہے؟ مجھے امداد واحسان اور خدمت و خدا ترسی کے نام پر چھپ چھپا کر لاکھوں نہیں،بلکہ مجھے میری محنت کا حق و معاوضہ چاہیے، جو کوئی بھی مزدور فخر سے وصول کرسکتا ہے۔
مجھے تو اچھی طرح سمجھ ہے کہ اللہ تعالی اخلاص سے کی گئی محنت ومشقت کو کبھی ضائع نہیں کرتا، لیکن کیا مزدوری طلب کرنا اخلاص کے منافی ہوتا ہے؟ اور پھر یہ بات کیا میں اپنے بچوں کو بھی سمجھا سکتا ہوں کہ تم میری آمدنی نہیں، بلکہ میرے اخلاص کو تو دیکھو، تم اس بات پر پریشان نہ ہو کہ تمہارے پاس سہولیات کا وجود ہے کہ نہیں، بلکہ یہ دیکھو کہ تمہارے باپ کو اللہ نے کیا مقام دیا ہے، کیا میرے القابات اور میری تعریف و توصیف اور اسانید و تزکیات سے میرے بچوں کا پیٹ بھر سکتا ہے؟ یہ سب چیزیں مل کر ان معصوموں کے چہرے پر موجود مسکراہٹوں میں اضافہ کرسکتی ہیں؟
میری جوانی کا اخلاص میرے بڑھاپے کا سہارا بن سکتا ہے؟ میری زندگی میں میرے مکفولیں اگر صبر کرلیں، تو میری موت ان کے روشن مستقبل کی نوید بن سکتی ہے؟
یہ معاشرہ تعلیم، صحت، دفاع، استحکام وغیرہ بنیادی ضروریات و سہولیات کے لیے کروڑوں ’خادمین وملازمین‘ کو اربوں کھربوں کی تنخواہیں اور سہولیات دیتا ہے، تو کیا دین اس معاشرے کی ضرورت نہیں؟ میں دین کا ملازم اپنے لیے سر اٹھا کر تنخواہ و سہولت کا مطالبہ کیوں نہیں کرسکتا؟ آخر میری محنت ومشقت کو صدقہ و خیرات سے ہی کیوں منسلک کیا جاتا ہے؟ اور حد تو یہ ہے کہ یہ ملک صدقہ و خیرات کرنے میں نمایاں ترین ملکوں میں ہے، یہاں کی مساجد ومدارس دلہنوں کی طرح سجھی ہوئی ہیں، یہاں ایک ایک رات کی محفل، مجلس، کانفرنس ، جلسہ لاکھوں، کروڑوں میں انعقاد پذیر ہوتا ہے،لیکن یہاں ’دینی ملازم‘ کے پاس اپنی محنت ومشقت کی کوئی ضمانت تک موجود نہیں۔ اور تو اور میں اگر اپنا حق طلب کرنے کے لیے کوئی بھی اقدام کروں تو مجھ ’دین کے خادم و ملازم‘ کو دین کا غدار، ننگِ اسلاف سمجھنا سمجھانا شروع کردیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ میں مجبورا خاموش ہی رہتاہوں، بلکہ میں ہوا کا رخ دیکھ کر اپنے خلاف بولنا اور لکھنا بھی شروع کردیتا ہوں ، کیوں؟ کیونکہ میں ’دین کا ملازم‘ ہوں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ذیل میں موضوع سے متعلق ایک مضمون ارسال کیا جارہا ہے، اس میں اردو عبارت وغیرہ کی کمزوریاں ہیں، معلومات بھی ناقص ہیں، لیکن پھر بھی اہمیت کے پیش نظر یہاں لگایا جارہا ہے۔
مدارس اسلامیہ اور حالات حاضرہ

بر صغیر میں مدارس و مساجدکی تعداد کا اندازہ رمضان المبارک میں سفرا کی رسید و روداد سے لگایا جاسکتا ہے جہاں بھی کچھ گھر بھی مسلمانوں کا ہے وہاں مسجد یا مدرسہ یا دونوں موجود ہیں! پھر بھی مسلمان تعلیم میں پیچھے ہیں !
۱- بہت سےایسےعلمائے کرام سے ملاقات ہوتی رہتی ہے جو امداد یافتہ یا غیر امداد یافتہ مدارس میں درس و تدریس سے منسلک ہیں اور امامت کی خدمت انجام دے رہے ہیں وہ اپنے بچے بچیوں کو مدارس میں پڑھانے کے بجائے انگلش میڈیم کانوینٹ اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں!لیکن یہی لوگ درسگاہ میں طلبہ و طالبات سے مسجد میں مصلیان سے اور پروگرام میں عوام سے کہتے ہیں کہ " دینی تعلیم و تربیت کو حاصل کئیے بغیر دنیا و آخرت کی کامیابی نا ممکن ہے۔
۲- بہت سے ایسے علمائے کرام سے ملاقات ہوتی رہتی ہے جو بینک کا فارم ،ریلوے ٹکٹ فارم وغیرہ صحیح طریقے سے نہیں بھر پاتے ہیں اور ہندوستان جس ملک میں رہتے اس کی سرکاری زبان سے میں ایک درخواست بھی نہیں لکھ سکتے ہیں اور انگریزی اتنی کی اے بی سی ڈی سنا سکیں اور کمپیوٹر کو ایسے دیکھتے ہیں جیسے لگتا ہے کہ ایٹم بم ہو اور کچھ مدارس میں کمپیوٹر ہے ہی نہیں ہے اور جہاں کچھ ہے ان کو گرد و غبار کا پاوڈر روزآنہ لگتا ہے یہی لوگ درس و تدریس ،تحریر و تقریر میں فاتح عالم کا دعوی ببانگ دہل کرتے ہوئے نظر آتے ہیں! انٹرنیشنل لیبل پر خدمات دین کی خدمت انجام دینے کی بات کرتے ہیں ۔
۳-مدارس سے فراغت کے بعد دی جانے والی سندوں میں عالمیت ہائی اسکول، فضیلت انٹر میڈیٹ کے مساوی ہے اور ہائی سکول، انٹرمیڈیٹ کی سندوں سے کس گریڈ کی جاب ملے گی اور اس پر تماشا یہ ہے کہ ان فارغ التحصیل حضرات کو انگریزی زبان اور کمپیوٹر سے نا کے برابر رابطہ رہا ہے پھر بھی کچھ لوگ ان سندوں کو حاصل کرنے کے بعد جامعات میں درس و تدریس کی خدمات انجام دینے والے شعبہ اسلامک اسٹڈیز اور عربی و اردو زبانوں کے پروفیسران حضرات کے مبلغ علم کو تولنے لگتے ہیں!ہائی اسکول، انٹرمیڈیٹ، گریجویشن، پوسٹ گریجویشن ایم فل ،پی ایچ ڈی وغیرہ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد ہی جاکر کالجز ،یونیورسٹیز میں ٹیچنگ سے جڑتے ہیں!
قارئین کرام!
دینی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم و ہنر سے مزین ہوئے بغیر حالات حاضرہ کے تقاضوں کو پائے تکمیل تک نہیں پہنچا سکتے ہیں ایک گاؤں میں دو مدرسے کھولنا کمال کی بات نہیں ہے بلکہ صحیح تعلیم و تربیت فراہم کرنا یہ کمال کی بات ہے! تقریبا اترپردیش میں امداد یافتہ مدارس کی تعداد سینکڑوں سے زائد ہے اور غیر امداد یافتہ مدارس کی تعداد ہزاروں سے زائد ہے لیکن پھر بھی مسلمانوں کی تعلیمی حالت دلتوں سے بدتر ہے! اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ یا تو مدارس کے نصاب تعلیم و تربیت اور نظام میں کمی ہے یا تو مسلمان تعلیم و تربیت سے غفلت برت رہے ہیں !
درس نظامی کا نصاب تعلیم کتب قدیم پر مشتمل ہے جس کو پڑھ کر قابل اور ذی استعداد عالم بنا جا سکتا ہے لیکن حالات حاضرہ کے تقاضوں کو پائے تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکتا ہے یہی وجہ ہے کہ درس نظامی کے فارغین مدارس، مساجد سے آگے نہیں بڑھ سکے جب تک یہ لوگ عصری تعلیم و ہنر سے مزین نہ ہوئے اسی لیے کہ کچھ مدارس میں درس نظامی کے نصاب تعلیم میں تبدیلی کر دی گئی ہے اور ان مدارس کے طلبہ حالات حاضرہ کے تقاضوں سے باخبر ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ! آج جب ہم مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو دیکھتے ہیں تو ان میں اغنیاء کے بچے بہت ہی کم نظر آتے ہیں ہم نے کچھ دیندار اغنیاء حضرات سے پوچھا کہ آپ لوگ اپنے بچوں کو عالم دین کیوں نہیں بناتے ہیں تو کہنے لگے کہ ہم لوگ کئی مدارس چلاتے ہیں اور کئی مساجد کے متولی ہیں ان مدارس کے مدرسین اور مساجد کے آئمہ کی تنخواہیں ہم ہی دیتے ہیں جب ہمارے بچے تنخواہیں دیتے ہوئے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم لوگ اتنی قلیل تنخواہ پر گزارا نہیں کر پائیں گے اور چندہ وغیرہ کرنا ہم لوگوں کے لیے باعث عار ہے! اس لیے یہ لوگ دینی تعلیم گھر پر ہی حاصل کر لیتے ہیں لیکن عالم دین نہیں بنتے ہیں اور ان لوگوں نے مزید بتایا کہ مدارس سے فراغت کے بعد جگہ کی تقرری بہت اہم مسئلہ ہوتا ہے ہم لوگوں کے پاس بہت سے علمائے کرام آتے ہیں جو اپنی پریشانیاں بتاتے ہوئے قلیل تنخواہ پر بھی رکھنے کے لیے ضد کرتے ہیں! جن علمائے کرام کے تعلقات وسیع رہتے ہیں ان کے لیے جگہ ملنا کوئی مشکل بات نہیں ہے لیکن جن کے تعلقات وسیع نہیں ہیں وہ جگہوں کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں یا قلیل تنخواہ پر گزارا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور سائڈ انکم کے ذرائع کو اختیار ہوئے تعویذ و تقریر وغیرہ کے میدانوں میں قسمت آزمائی کرنے لگتے ہیں۔
بند اس قفل میں ہے علم ان کا
جس کی کنجی کا کچھ نہیں ہے پتہ ( حالی)
گلی گلی ،کوچے کوچے ،قریہ قریہ ایک دو کمرے پر مشتمل مدرسہ کھول کر" دار العلوم اور جامعہ" نام رکھنا کمال کی بات نہیں ہے، رسید و روداد میں طلبہ و طالبات کو زیادہ لکھ کر چندہ اکھٹا کرنا کمال کی بات نہیں ہے اور وہ علم جس سے نقصان ہو اس کو حاصل کرنا کمال کی بات نہیں ہے بلکہ دینی اور حالات حاضرہ کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر خلوص و للہیت کے ساتھ تعلیم اور حاصل کرنا اور دینا کمال کی بات ہے! امت مسلمہ کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر علم و آگہی کی روشنی تک لے جانا یہ کمال کی بات ہے، اچھے،صالح اور نافع افراد پیدا کرنا یہ کمال کی بات ہے جہاں تک ہندوستان میں مدارس کی تعلیمی اور انتظامی امور کی بات ہے راقم الحروف جب جامعة الأزهر الشريف قاہرہ مصر سے واپس آیا تو مدارس میں بہت ساری اچھائیوں کے ساتھ کچھ بڑی خامیاں نظر آئیں جن کو دور کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ مدارس کے منیجر اور انتظامی امور کے نگراں غیر عالم ہوتے ہیں اور پرنسپل اور اساتذہ حضرات انہیں لوگوں کے اشارے پر کام کرنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ چاپلوس ہو جاتے ہیں الا ماشاء اللہ۔ اور کچھ جگہوں پر مدرسین کمیٹی کے لوگوں کو آپس میں لڑاتے ہیں تاکہ پھوٹ ڈالو اور سہولت حاصل کرو پر عمل ہو سکے اور کچھ جگہوں پر اساتذہ ہی آپس میں گروپ بندی کیے رہتے ہیں۔ اور جو ان کے گروپ سے الگ رہتا ہے اس کی طرف بے بنیاد باتوں کو منسوب کرکے کمیٹی کی نظر میں خراب بنا دیتے ہیں! جس کی بنیاد پر کمیٹی کے لوگ پریشان ہو کر ان پر سختی کرتے ہیں یا ان کو ان کی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں۔ پھر منیجر، صدر المدرسین اور اساتذہ تعلیم کو ایسی راہ پر لے جاتے ہیں جس پر چلنے سے فائدہ کم نقصان زیادہ نظر آتا ہے اور مدرسہ میں ماہرین کا کوئی " تعلیمی اور انتظامی پینل" نہ ہونے کی بنیاد پر منیجر و پرنسپل کے ارد گرد تعلیم و تربیت اور نظام گردش کرتا ہے اور افراد کو ان کی حسب لیاقت و صلاحیت اور دلچسپی کے مطابق ذمہ داری دینے کے بجائے ایک ہی ڈنڈے سے ہانکتے ہوئے ایسی ذمہ داری دے دی جاتی ہے جس میں دلچسپی یا اس کے مطابق نہیں ہوتی ہے جس کی وجہ سے نا چاہتے ہوئے وہ اپنے اوپر تھوپنی ہوئی ذمہ داری نبھاتا ہے پھر خلوص و للہیت کا فقدان نظر آنے لگتا ہے! دوسری طرف مانٹیسری اور شرسوتی اسکولوں میں تعلیمی اور انتظامی امور کے لیے ایک پینل ہوتا ہے جہاں عمارت چھوٹی ہوتی ہے لیکن تعلیم اچھی ہوتی ہے چھوٹی سی عمارت پرکشش، جاذب، دلکش بنا کر منظر عام پر لایا جاتا ہے اساتذہ ،طلبہ و طالبات اور ان کے گارجین کے سامنے ایک ٹھوس نظام ہوتا ہے ان کے یہاں تعداد پر نہیں معیار پر نظر ہوتی ہے سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کی تعلیمی حالت دلتوں سے بھی" بدتر "ہے جب تک یہ رپورٹ " بہتر " میں نہیں بدل جاتی ہے تب ہمیں کوشش کرنی چاہئے ۔
 
Top