• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دین اسلام میں بدنی اور قلبی پاکیزگی کا اہتمام

عبد الرشید

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
5,400
ری ایکشن اسکور
9,990
پوائنٹ
667
خطبہ مسجد نبوی........26 صفر 1433ھ

خطیب : عبدالمحسن القاسم
مترجم: عمران اسلم​
خطبہ اول

إن الحمد لله، نحمده ونستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهدِه الله فلا مُضِلَّ له، ومن يُضلِل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله، صلَّى الله عليه وعلى آله وأصحابه وسلَّم تسليمًا كثيرًا.
أما بعد:
بندگان خدا! حقیقی تقوٰی اللہ تعالیٰ سے ڈر جانے کا نام ہے۔ تمہارے ظاہر و باطن سے تقویٰ بہت بہتر ہے۔
دین اسلام ایک باکمال اور خوبصورت دین ہے جس نے قلب و بدن کی طہارت پر شدت سے زور دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَكِنْ يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ [المائدة: 6]
’’اللہ تعالیٰ تم پر کسی قسم کی تنگی ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ اس کا ارادہ تمھیں پاک کرنے کا اور تمہیں اپنی بھرپور نعمت دینے کا ہے۔ تاکہ تم شکر ادا کرتے رہو۔‘‘
اسی طرح دین اسلام نے مقامات عبادت کو شرک و غلاظت سے پاک کرنے کا حکم دیا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ [الحج: 26].
’’اور میرے گھر کو طواف، قیام اور رکوع و سجدہ کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھنا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنےرسولوں کو صفائی قلب کے ساتھ متصف کیا۔ اللہ تعالیٰ حضرت ابراہیم سے متعلق فرماتے ہیں:
إِذْ جَاءَ رَبَّهُ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [الصافات: 84].
’’جبکہ اپنے رب کے پاس بے عیب دل لائے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کو بچپن ہی سے دل کی بیماریوں سے محفوظ و مامون رکھا۔
حضرت انس بیان فرماتے ہیں کہ
’’نبی کریم ﷺ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ اسی اثنا میں جبریل تشریف لائے۔ انھوں نے آپﷺ کو پکڑ کر لٹا لیا، آپﷺ کا سینہ چاک کیا اور آپﷺ کے دل کو باہر نکال لیا۔اور فرمایا: تمہارے دل میں یہ شیطان کا حصہ ہے۔ پھر سونے کے برتن میں موجود آب زم زم سے اس کو دھویا۔ اس کو درست کیا اور اپنی جگہ پر رکھ دیا۔ ‘‘ (مسلم)
جب حضور نبی کریمﷺ مبعوث کیے گئے توا للہ تعالیٰ نے آپﷺ کو قلب کی طہارت کا حکم دیا۔ فرمایا:
وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ [المدثر: 4]
’’اور اپنے کپڑے پاک رکھا کر۔‘‘
سعید بن جبیر﷫ اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مذکورہ بالا حکم میں دل اور نیت کی پاکیزگی بھی شامل ہے۔‘‘
نبی کریمﷺ یہ دعا پڑھا کرتے تھے:
«اللهم نقِّني من الخطايا كما يُنقَّى الثوبُ الأبيضُ من الدَّنَس، اللهم اغسِل خطايايَ بالماء والثلجِ والبَرَد»؛ متفق عليه.
’’اے اللہ میری خطاؤں کو دور کر دے جس طرح سفید کپڑے سے میل کچیل دور کی جاتی ہے۔ اے اللہ میری لغزشوں کو پانی، برف اور اولوں کے ساتھ دھو دے۔‘‘
مزید برآں سفر معراج سے قبل بھی اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کے دل کو پاک کیا۔ آپﷺ فرماتے ہیں:
«نزلَ جبريلُ ففرَجَ صدري - أي: شقَّه -، ثم غسلَه بماء زمزَم، ثم جاء بطستٍ من ذهبٍ مُمتلئٍ حكمةٍ وإيمانًا فأفرغَها في صدري ثم أطبقَه، ثم أخذَ بيدي فعرَجَ بي إلى السماء»؛ متفق عليه.
’’ جبریل تشریف لائے، میرے سینے کو چاک کر کے آبِ زم زم سے دھویا۔ پھر وہ ایمان و حکمت سے بھرا ہوا سونے کا برتن لائے اور میرے سینے میں انڈیل دیا۔ اوراس کو جوڑنے کے بعد مجھے لے کر آسمان کی طرف چل دئیے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے تقوی اور اہتمامِ طہارت کے با وصف قرآن کریم میں اہل قبا کی تعریف فرمائی۔
لَمَسْجِدٌ أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى مِنْ أَوَّلِ يَوْمٍ أَحَقُّ أَنْ تَقُومَ فِيهِ فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَنْ يَتَطَهَّرُوا [التوبة: 108].
’’البتہ جس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہےوہ اس لائق ہے کہ آپ اس پر کھڑے ہوں، اس میں ایسے آدمی ہیں کہ جو خوب پاک ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب پاک ہونے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
صفائی نصف ایمان ہے۔ اللہ تعالیٰ پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ [البقرة: 222].
’’اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
طہارت نماز کی کنجی ہے۔ طہارت کے بغیر نماز شروع نہیں کی جا سکتی۔
اللہ تعالیٰ نے جنت میں داخلہ طہارت اور پاکیزگی پر موقوف فرمایا ہے۔ جنت میں صرف پاک صاف لوگ داخل ہوں گے۔ فرمایا:
سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ [الزمر: 73]
’’تم پر سلام ہو، تم خوشحال رہوتم اس میں ہمیشہ کے لیے چلے جاؤ۔‘‘
جس شخص نے پاکیزہ زندگی گزاری اور اللہ تعالیٰ کو اسی حالت میں ملا تو وہ جنت میں جائے گا۔ جو دنیا میں پاکیزہ نہ رہا، اگر تو اس کی طہارت سرے سے معدوم ہوئی جیسا کہ کافر شخص، تو وہ کسی طور بھی جنت میں نہیں جائے گا۔ اور اگر عدم طہارت عارضی ہو (جیسا کہ مسلمان کی) تو اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اس کو عذاب دے گا، اس کو نجاست سے پاک کرنے کے لیے آگ میں ڈالے گا پھر اس میں سے نکال لے گا۔
جب اہل ایمان پل صراط پر پہنچیں گے تو انھیں جنت و جہنم کے درمیانی پل پر روک لیا جائے گا۔ ان کی ان لغزشوں کو دور کیا جائے گا جو ان کے دخول جنت میں حائل تھیں۔ اور ان کوجہنم میں داخل نہیں کیا جائے گا۔
دل کی پاکیزگی دخول جنت کی بنیادی شرط ہے۔ فرمان عالیشان ہے:
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (88) إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ [الشعراء: 88، 89].
’’جس دن کے مال اور اولاد کچھ کام نہ آئے گی۔ لیکن فائدہ والاوہی ہو گا جو اللہ کے سامنے بے عیب دل لے کر جائے۔‘‘
ابن قیم﷫ رقمطراز ہیں:
"لا يُجاوِرُ الرحمنَ قلبٌ دُنِّس بأوساخِ الشهوات والرياء أبدًا".
’’ایسا دل قطعاً اللہ کے قریب نہیں ہو سکتا جس کو خواہشات نفسانی اور ریاء کے ساتھ گندا کر دیا گیا ہو۔‘‘
جسموں کی طرح دل بھی بیمار اور تندرست، مردہ اور زندہ ہوتے ہیں۔ جب دل کو گندگی سےدور کیا جاتا ہے وہ رحمت و بھلائی سے بھر جاتا ہے۔ اسلام نے صحت قلب کے لیے مکمل اہتمام کرتے ہوئے ایسی تمام باتوں سے منع کیا ہے جو فسادیِ دل کا باعث ہوں۔ دل کی اصلاح کا بہترین ذریعہ توحید الہٰی اور دل کی موت کا پروانہ خدا تعالیٰ کے ساتھ شرک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ [التوبة: 28].
’’بے شک مشرکین نجس ہیں۔‘‘
ایسے لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا عبرتناک اور رسوا کر دینے والے عذاب کا وعدہ ہے۔ فرمایا:
أُولَئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ [المائدة: 41].
’’اللہ تعالیٰ کا ارادہ ان لوگوں کے دلوں کو پاک کرنے کا نہیں۔ ان کے لیے دنیا میں بھی بڑی ذلت اور رسوائی ہےاور آخرت میں بھی ان کے لیے بڑی سخت سزا ہے۔‘‘
منافقین کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
إِنَّهُمْ رِجْسٌ [التوبة: 95]
’’وہ لوگ بالکل گندے ہیں۔‘‘
ابن کثیر﷫ کہتے ہیں:
یعنی وہ خبیث ہیں۔ ان کے ظاہر و باطن نجس ہیں۔‘‘
بغض اور حسد دلوں کی بیماری کا ذریعہ ہیں۔ اگر دعا اور کینےسے بچاؤکے ذریعے ان کا تدارک نہ کیا جائے تو دل تاریک ہو جاتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
«لا تباغَضوا ولا تحاسَدوا ولا تدابَروا، وكونوا عبادَ الله إخوانًا».
’’بغض و حسد نہ کرو، پیٹھ نہ پھیرو ، اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بن جاؤ۔‘‘
نبی کریمﷺ کے پاس ایک آدمی آیا۔ آپﷺ نے صحابہ کرام سے فرمایا: ’’تمہارے پاس جنتی شخص تشریف لایا ہے۔‘‘ جب اس سے اس کے عمل کے بارے سوال کیا گیا تو اس نے کہا:
’’میں اپنے دل میں کسی مسلمان کے لیے کینہ نہیں رکھتا۔ اور کسی کو اللہ کی عطا پر حسد نہیں کرتا۔‘‘ (احمد)
قرآن کریم میں مومنوں کی دعا یہ ہے:
وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا [الحشر: 10].
’’اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ نہ ڈال۔‘‘
امام ابن قیم﷫ فرماتے ہیں:
’’میں نے امام ابن تیمیہ﷫ سے بڑھ کر کسی کو مجموعہ عفو و درگزر اور کینے سے پاک نہیں دیکھا۔‘‘
ذہن نشین رکھیے کہ چھوٹی سی معصیت بھی دل پر اثر انداز ہوتی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
«إن العبدَ إذا أخطأ خطيئةً نُكِتَت في قلبه نُكتةٌ سوداء، فإذا هو نزَعَ واستغفرَ وتابَ صُقِل قلبُه، وإن عادَ زِيدَ فيها حتى تعلُوَ قلبَه، وهو الرانُ الذي ذكرَ اللهُ: كَلَّا بَلْ رَانَ عَلَى قُلُوبِهِمْ مَا كَانُوا يَكْسِبُونَ [المطففين: 14]»؛ رواه الترمذي.
’’جب کوئی شخص گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر سیاہ نکتہ لگ جاتا ہے، جب وہ توبہ واستغفار کرتا ہے تو نکتہ مٹ جاتا ہے۔ اگر وہ دوبارہ گناہ کرے تو نکتہ مزید بڑھ جاتا ہے اور دل بھر جاتا ہے۔ یہ وہی زنگ ہے جس کو جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کیا ہے:
’’یوں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ (چڑھ گیا) ہے۔‘‘
ہر شخص کو چاہیے کہ وہ شب و روز دل کی طہارت کاسامان کرے۔ دل کو صاف کرنے والی چیز پانچ فرضی نمازیں ہیں۔ نبی کریم ﷺ فرمان ہے:
«أرأيتُم لو أن نهرًا ببابِ أحدِكم يغتسِلُ منه كلَّ يومٍ خمسَ مراتٍ؛ هل يبقَى من درَنه شيء؟». قالوا: لا يبقَى من درَنه شيءٌ. قال: «فذلك مثَلُ الصلوات الخمسِ، يمحُو اللهُ بهنَّ الخطايا»؛ متفق عليه.
’’اگر تمہارے گھر کے سامنے سے نہر رواں ہو اور تم روزانہ اس میں پانچ بار نہاؤ تو کیا تمہارے جسم پر میل کچیل رہے گی؟‘‘ صحابہ نے نفی میں جواب دیا تو آپﷺ نے فرمایا:
’’پانچ نمازوں کا بھی یہی معاملہ ہے ان کے ذریعے اللہ گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔‘‘
طہارت کےساتھ نماز ادا کرنا دخولِ جنت کا سبب ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
«ما من مُسلمٍ يتوضَّأ فيُحسِنُ وُضوءَه ثم يقوم فيُصلِّي ركعتين يُقبِلُ عليهما بقلبِه ووجهِه إلا وجَبَت له الجنة»؛ متفق عليه.
’’جو مسلمان اچھی طرح وضو کرتا ہے پھر مکمل یکسوئی کے ساتھ دو رکعت ادا کرتا ہے تو اس کے لیے جنت واجب ہوگئی۔‘‘
وضو دل اور دیگر اعضا کی طہارت کا باعث ہے۔ نبی کریمﷺ کے ایک فرمان کا مفہوم یہ ہے کہ
جب کوئی بندہ مسلم وضو کرتے ہوئے منہ دھوتا ہے تو اس کے چہرے کی ساری خطائیں جھڑ جاتی ہیں۔ جب ہاتھ دھوتا ہے تو ہاتھوں سے کیے جانے والے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ اور جب پاؤں دھوتا ہے تو پاؤں کے ذریعے کیے جانے والے گناہ جھڑ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک صاف ہو جاتا ہے۔ (متفق علیہ)
جو شخص وضو کے بعد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے اس کےلیے روز قیامت جنت کے آٹھوں دروازے کھولے جائیں گے۔ آپﷺ نے فرمایا:
تم میں سے جو مکمل وضو کرے اور پھر
أشهدُ أن لا إله إلا الله، وأشهدُ أن محمدًا عبدُه ورسولُه،
پڑھے۔ تو اس کےلیے جنت کے آٹھوں دوازے کھول دئیے جائیں گے۔ جس میں سے چاہے داخل ہو جائے۔
زکوٰۃ کی ادائیگی بھی دل کی طہارت و پاکیزگی کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا [التوبة: 103].
’’آپ ان کےمالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں۔‘‘
قرآن مبین بھی جسموں اور دلوں کی شفا کاباعث ہے۔ فرمایا:
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ [الإسراء: 82].
’’یہ قرآن جو ہم نازل کر رہے ہیں مومنوں کے لیے تو سراسر شفا اور رحمت ہے۔ ہاں ظالموں کو بجز نقصان کے اور کوئی زیادتی نہیں ہوتی۔‘‘
اسلامی حکومت سے تمسک بھی دلوں کی اصلاح کا اہم ذریعہ ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
«ثلاثٌ لا يُغلُّ عليهنَّ قلبُ مُسلمٍ: إخلاصُ العملِ لله، ومُناصَحة الأئمة المُسلمين، ولُزوم جماعتهم»؛ رواه الترمذي.
’’تین چیزوں سے ایک مسلمان کا دل تنگ نہیں پڑنا چاہئے: اللہ کے لیےخالص عمل، حکام المسلمین کو نصیحت اور اسلامی حکومت کا التزام کرتے ہوئے۔‘‘
خواتین کا پردہ بھی طہارت و عافیت کا باعث ہے۔ قرآن میں ارشاد ہے:
وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ [الأحزاب: 53].
’’جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی چیز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو تمہارےاور ان کے دلوں کے لیے کامل پاکیزگی یہی ہے۔‘‘
نیک لوگوں کی صحبت، زبان کی حفاظت اور فتنوں سے دامن بچانا دل کی پاکیزگی و طہارت کاباعث ہے۔ آپﷺ نے فرمایا:
«تُعرضُ الفتنُ على القلوبِ كالحَصير عُودًا عُودًا، فأيُّ قلبٍ أُشرِبَها نُكِتَت فيه نُكتةٌ سوداء، وأيُّ قلبٍ أنكرَها نُكِتَت فيه نُكتةٌ بيضاء»
’’دلوں پر فتنے پیش کیے جائیں گے، جیسے چٹائی (کثیر) تنکوں کے ساتھ تیار ہوتی ہے۔ جو دل ان (فتنوں کو) قبول کر لے گا اس کے دل پر سیاہ نکتہ لگ جائے گا اور جو انکار کر دے گا اس کے دل پر سفید نکتہ لگا دیا جائے گا۔‘‘
انسان کی ظاہری پاکیزگی باطنی پاکیزگی کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔ اسی وجہ سےاسلام نے پیدائش سےوفات تک ایک مسلمان کی بدنی طہارت کا بخوبی اہتمام کیا ہے۔ جب وہ پیدا ہوتا ہے تو ختنہ کیا جاتا اورسر مونڈھا جاتا ہے۔ جب فوت ہو جاتاہے تو غسل اور پاک صاف کپڑے میں کفنایا جاتاہے۔
حضور نبی کریمﷺ ذاتی طور پر خوشبو کو پسند فرماتے۔ آپﷺ کےسر کی مانگ میں مشک کی چمک نظر آتی۔ آپﷺ کا معمول تھا کہ ہر وضو اور نماز کے ساتھ، گھر میں جاتے اور نیند سےبیدار ہوتے وقت مسواک کرتے۔
دین اسلام نے جن فطری چیزوں کا حکم دیاہے ان میں سے کچھ یہ ہیں:
مونچھیں کاٹنا، داڑھی بڑھانا، مسواک کرنا، کلی کرنا، ناخن تراشنا، انگلیوں کے جوڑ دھونا، بغلوں کے بال صاف کرنا، زیر ناف بال کاٹنا،استنجا کرنا اور ختنہ کرنا۔
اسلام نے مونچھیں کاٹنے، ناخن تراشنے، بغلوں کے بال صاف کرنے اور زیر ناف بال کاٹنے کی آخری مدت چالیس دن مقرر کی ہے۔
ہر مسلمان کو ہفتےمیں کم سے کم ایک بار غسل کا حکم دیاہے۔ آپﷺ کا فرمان ہے:
«حقٌّ على كل مُسلمٍ أن يغتسلَ في كلِّ سبعةِ أيامٍ يومًا يغسِلُ فيه رأسَه وجسدَه»؛ متفق عليه.
’’ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہفتےمیں ایک دن مقرر کرے جس میں وہ غسل کرے اور اپنے سر اور جسم کودھوئے۔‘‘
جب نبی کریمﷺ کوچھینک آتی توآپﷺ اپنا ہاتھ یا کپڑا منہ پر رکھ لیتے اور چھینک کی آواز پست رکھتے۔ (ابو داؤد)
اسلا م نے شاہراہوں سے باعث ایذا چیزوں کو ہٹانے کا حکم دیا ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
«عُرِضَت عليَّ أعمالُ أمتي حسنُها وسيِّئُها، فوجدتُ في محاسِن أعمالها: الأذى يُماطُ عن الطريقِ ..»؛ رواه مُسلمٌ.
’’مجھے اپنی امت کے اچھےاور برےاعمال دکھائے گئے۔ میں نے دیکھا کہ اچھے اعمال میں تکلیف دہ چیز کو راستے سے دور کرنا شامل ہے.....‘‘
دین اسلام کی وسعت کا اندازہ کیجئے کہ اس نے قضائے حاجت کا بھی سلیقہ بتایاہے۔ داہنے ہاتھ سے استنجا کرنے، ہڈی اور گوبر کے استعمال اور تین سے کم ڈھیلوں کے استعمال سے منع فرمایا۔
اسلام نے ہر اس چیز سے منع کیا ہے جس سے بچنا مفید ہے۔آپﷺ نے پیتےہوئے برتن میں سانس لینے اور کھانے پر پھونکنے سےمنع فرمایا۔ مشکیزے کو منہ لگا کر پینے سے منع فرمایا۔
آپﷺ نے حکم دیا کہ نیند سے بیدار ہو کر ہاتھ تین بار دھونےسے قبل برتن میں نہ ڈالا جائے۔ اور جب کتا برتن میں منہ مار لے تو برتن کو سات بار دھویا جائے اور دھوتے ہوئے پہلی دفعہ مٹی استعمال کی جائے۔ اسلام نے جرابوں پر مسح کی مدت مقیم کے لیے ایک دن اور مسافر کے لیے تین دن مقرر کی ہے۔ پاؤں کو دھونےمیں اس سے زیادہ تاخیرنہ کی جائے۔ جو اپنے پاؤں کو مکمل نہیں دھوتا اس کے لیے آگ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ آپﷺ کا ارشاد ہے:
«ويلٌ للأعقابِ من النارِ»؛ متفق عليه.
’’ایڑیاں خشک رکھنے والوں کے لیے ویل (جہنم کی وادی)ہے۔‘‘
نبی کریمﷺ نے تکلیف دہ خوشبو سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔ فرمایا:
«من أكلَ ثومًا أو بصلاً فليعتزِلنا، أو ليعتزِل مسجِدنا وليقعُد في بيته»؛ متفق عليه.
’’کوئی شخص لہسن اور پیاز کھا کر ہم سے یا ہماری مساجد سےدور رہے اور اپنے گھر میں آرام کرے۔‘‘
شراب کی نجاست ملاحظہ کیجئے کہ شراب نوشی پر چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔
دین اسلام نے راستوں اور سایوں میں قضائے حاجت کرنے اور مسجدوں میں تھوکنےسے منع فرمایا۔ اور ان کو صاف و رکھنے کی ترغیب دلائی۔
نبی کریم ﷺکےزمانےمیں ایک سیاہ عورت (یامرد)مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی۔ ایک دفعہ آپﷺ نے اس کو مسجد میں دیکھا تو اس کی عدم موجودگی کےمتعلق دریافت کیا۔ آپﷺ کو بتلایا گیا کہ وہ دنیا سےرخصت ہو گئی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ کی۔ ‘‘ پھر آپﷺ اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور نماز جنازہ ادا کی۔
دل اور کپڑوں کی باہمی ظاہری اور باطنی مناسبت ہوتی ہے۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتےہیں۔ لہٰذا ریشم، سونے اور درندے کی کھال پہننے اور کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانےکی ممانعت فرمائی گئی ہے۔ کیونکہ ایسی چیزیں عبادت و خشوع کے اعتبار سے دل پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں۔
اے مسلمانو!
انسانوں کے لیے کامل و اکمل اور پاکیزہ دین اسلام سے بڑھ کر کوئی اور نہیں ہو سکتا۔ خوش بخت ہے وہ جواپنے دل، زبان اور دیگر اعضا کو پاکیزہ اور الٰہی غضب سے بچا کر رکھتا ہے۔ اور ان کااستعمال اس طرح کرتا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ چاہتا اور راضی ہوتا ہے۔اور اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتا ہے۔
يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ذَلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ [الأعراف: 26].
’’اے آدم کی اولاد ہم نے تمہارے لیے لباس پیدا کیا جو تمہاری شرم گاہوں کو بھی چھپاتا ہےاور موجب زینت بھی ہے اور تقوے کا لباس یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔‘‘
بارك الله لي ولكم في القرآن العظيم، ونفعني الله وإياكم بما فيه من الآياتِ والذكرِ الحكيم، أقول ما تسمعون، وأستغفر الله لي ولكم ولجميع المسلمين من كل ذنبٍ، فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم.

دوسرا خطبہ
الحمد لله على إحسانه، والشكرُ له على توفيقِهِ وامتِنانه، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له تعظيمًا لشأنه، وأشهد أن محمدًا عبدُه ورسولُه، صلَّى الله عليه وعلى آله وأصحابه وسلَّم تسليمًا كثيرًا.
اےمسلمانو!
دین اسلام ایک باعظمت دین ہے۔ اس نے باطنی صفائی کے ساتھ ساتھ ظاہری صفائی کا خیال رکھتے ہوئے دن میں متعدد بار کانوں کے اندرونی اور بیرونی حصے کے مسح کا حکم دیاہے۔ جسمانی طہارت کا خصوصی اہتمام کیجئے۔ یاد رکھیے! پیشاب کا ایک قطرہ بھی ناقض وضو ہے۔ اور ایک کلمہ کفر یا عمل نواقض اسلام میں سے ہے جس کی بدولت ایک مسلمان دائرہ اسلام سےنکل جاتاہے۔
کسی کا ایمان اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک دل درست نہ ہو اور دل اس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک زبان درست نہ ہو۔ سلیم القلب شخص وہی ہےجوشرک، بغض و عداوت، خود غرضی، دنیوی محبت، اور تکبر سےپاک ہو۔ انسان کو چاہیے کہ وہ خواہشات نفس پر کنٹرول کرے اور شبہات سے بھی دامن بچائے۔ اپنی زبان اور مال کو محرمات اور مشتبہ چیزوں سے محفوظ رکھے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں نبی کریم ﷺ پر درود پڑھنے کا حکم جاری فرمایا ہے:
إِنَّ اللهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الذِيْنَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيْمًا [الأحزاب: 56].
’’اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی پررحمت بھیجتےہیں۔ اے ایمان والو! تم (بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام (بھی) بھیجتے رہو۔‘‘
اللهم صلِّ وسلِّم على نبيِّنا محمدٍ، وارضَ اللهم عن خلفائه الراشدين الذين قضَوا بالحق وبه كانوا يعدِلون: أبي بكرٍ، وعمر، وعثمان، وعليٍّ، وعن سائر الصحابةِ أجمعين، وعنَّا معهم بجُودِك وكرمِك يا أكرم الأكرمين.
اللهم أعِزَّ الإسلام والمسلمين، وأذِلَّ الشرك والمشركين، ودمِّر أعداء الدين، واجعل اللهم هذا البلد آمِنًا مُطمئنًّا وسائر بلاد المسلمين.
اللهم اجعل أعمالَنا كلَّها صالِحة، واجعلها لوجهِك خالِصة، ولا تجعل لأحدٍ فيها شيئًا.
اللهم أصلِح أحوال المسلمين في كل مكان، اللهم احقِن دماءَهم، وألِّف بين قلوبِهم، واجمع كلمتَهم على الحقِّ يا رب العالمين، وولِّ عليهم خيارَهم، واصرِف عنهم الفتنَ ما ظهرَ منها وما بطَن.
اللهم وفِّق إمامنا لهُداك، واجعل عمله في رِضاك، ووفِّق جميع ولاة أمور المسلمين للعملِ بكتابك، وتحكيمِ شرعك يا ذا الجلال والإكرام.
عباد الله:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [النحل: 90].
فاذكروا الله العظيم الجليل يذكركم، واشكروه على آلائه ونعمه يزِدكم، ولذكر الله أكبر، والله يعلم ما تصنعون.

خطبہ پر جانے کے لیے یہاں کلک کریں


 

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
‏میں روزانہ پڑھے لکھے لوگوں کو روڈ پر کچرا پھینکتے ہوۓ اور ان پڑھ لوگوں کو صاف کرتے دیکھتا ہوں
 
Top