• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دین اسلام

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اللہ کی پسند... دین اسلام

اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:

{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا o}
[المائدہ:۳]

'' آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام پورا کردیا اور میں تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہوگیا۔ ''
اسلام: یہ گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی بھی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور جو استطاعت رکھے اس کا حج کرنا، اسلام کہلاتا ہے۔
امت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کی یہ بہت بڑی نعمت ہے کہ ان کو کسی دوسرے دین کا محتاج نہیں بنایا بلکہ انہی کا دین کامل کردیا اور نہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی نبی کا محتاج بنایا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء بنایا اور تمام جن و انس کی طرف مبعوث کیا۔ چنانچہ ہر وہ چیز حلال ہے جسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حلال کہیں اور ہر وہ چیز حرام ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حرام قرار دیں اور ہر وہ چیز دین و شریعت کا حصہ ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دین شمار کریں اور جس چیز کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم خبر دیں، وہ سچ ہے، اس میں جھوٹ کا شائبہ تک نہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا o} [الانعام:۱۱۵]
'' اور تیرے رب کا کلام واقعیت اور اعتدال کے اعتبار سے کامل ہے۔ ''
یعنی اخبار و واقعات کے لحاظ سے سچا اور احکام و مسائل کے اعتبار سے عادل ہے یعنی اس کا ہر امر اور نہی عدل و انصاف پر مبنی ہے۔اسی بناء پر اللہ تعالیٰ نے اس دین کو کامل کہا:

{اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا ط}
[المائدہ:۳]

'' آج میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام پورا کردیا اور میں تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہوگیا۔ ''
یعنی تم بھی اس دین سے پیار کرو کیونکہ یہ دین اللہ تعالیٰ کو پسند اور پیارا ہے اور اس دین کو لے کر آنے والی شخصیت افضل الرسل ہے اور اللہ نے اس دین میں اشرف ترین کتاب کا نزول فرمایا ہے۔
صرف اس دین کو محبوب سمجھنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس دین کو غلبہ و اقتدار دینے کا وعدہ بھی فرمایا۔
{وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُم فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضَی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِنْ م بَعْدِ خَوْفِہِمْ اَمْنًا یَّعْبُدُوْنَنِی لَا یُشْرِکُوْنَ بِی شَیْئًا وَّمَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُوْنَ o} [النور:۵۵]
'' تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ہیں اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین (خاص علاقہ) کا حاکم بنائے گا، جیسے کہ ان لوگوں کو حاکم بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقینا ان کے لیے ان کے دین کو مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا، جیسے ان کے لیے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے خوف و خطر کو وہ امن و امان سے بدل دے گا، وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے، اس کے بعد بھی جو لوگ کفر کریں وہ یقینا فاسق ہیں۔ ''
اللہ تعالیٰ نے اسلام کو جمانے کا وعدہ کیا اور اس کو پورا کرکے دکھلا دیا۔ ابتدائً نبی علیہ السلام مکہ میں اکیلے تھے، پھر تھوڑی سی جماعت بن گئی چنانچہ مکہ میں تقریباً تیرہ سال تک یہ لوگ چھپ کر اور ڈرتے ہوئے اللہ کی توحید اور عبادت کی طرف دعوت دیتے رہے۔ انہیں قتال کا حکم نہیں ملا تھا حتیٰ کہ مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم ہوا تو وہاں جاکر قتال کرنے کا حکم ملا، لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مکہ، خیبر، بحرین اور تمام جزیرۃ العرب اور یمن کی سرزمین مسلمانوں کے زیر سایہ کردی۔ نبی علیہ السلام نے ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ (ٹیکس) وصول کیا، اسی طرح شام کے بعض علاقوں کے باشندوں سے بھی جزیہ لیا۔ رومیوں کے بادشاہ ہرقل اور مصر و اسکندریہ کے مالک اور عمان کے بادشاہوں اور حبشہ کے بادشاہ نجاشی نے آپ کی خدمت میں تحائف بھیجے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جو اشیاء کمزور ہوکر بکھر گئی تھیں انہیں مجتمع کرنے کے لیے آپ کے خلیفہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے چنانچہ انہوں نے جزیرۃ العرب کو پکڑا اور مرکز بنایا۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی کمان میں اسلامی لشکر فارس کے شہروں کی طرف بھیجا، جنہوں نے کئی شہر فتح کرلیے اور ایک دوسرا لشکر حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں شام کی طرف روانہ کیا اور تیسرا لشکر حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی نگرانی میں مصر کی طرف بھیجا۔ چنانچہ شامی لشکر نے اللہ کی مدد سے ان کی زندگی میں ہی دمشق وغیرہ فتح کرلیے اور اللہ تعالیٰ نے اہل اسلام پر ایک احسان یہ بھی کیا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کا الہام کردیا۔ جنہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد معاملات کو کمال طریقہ سے کنٹرول کیا، حتیٰ کہ چشم فلک نے بھی انبیاء کے بعد ان جیسا عدل و انصاف اور مضبوط سیرت والا نہیں دیکھا، لہٰذا ان کی زندگی میں ہی شام کا مکمل علاقہ اور مصر کی پوری سرزمین اور فارس کے اکثر صوبے مسلمانوں کے زیر سایہ آگئے۔ سلطنت کسریٰ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے، حتیٰ کہ وہ اپنی مملکت کے دور ترین علاقہ میں پسپا ہوگیا اور قیصر کو بھی مغلوب کرلیا گیا وہ بھی جنگ سے جان چھڑا کر شام سے بھاگ کر قسطنطنیہ چلا گیا۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں بادشاہوں کا خزانہ اللہ کی راہ میں خرچ کردیا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیشین گوئی کی تھی۔
جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا تو اسلامی مملکت مشرق و مغرب کے کناروں تک پھیل گئی۔ چنانچہ مغرب کے دور کے شہر اندلس، قبرص اور بلاد قیروان اور وہ شہر بھی جو بحر الکاہل کے ساتھ تھے، فتح ہوتے گئے اور مشرق کی جانب سے چین کے آخر تک مسلمان لشکر پہنچ گئے اور انہی کے دور خلافت میں شاہِ ایران یزدگرد قتل کردیا گیا اور اس کی بادشاہت مکمل طور پر ختم ہوگئی۔ پھر عراق و خراسان کے بھی علاقے فتح ہوئے اور مسلمانوں نے ترکوں سے بھی ایک بہت بڑی جنگ لڑی، جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کے بادشاہ خاقان کو ذلیل و رسوا کیا اور چونکہ حضرت عثمان کثرت سے تلاوت قرآن کیا کرتے تھے اور انہوں نے تمام امت کو قرآن کی حفاظت پر اکٹھا کیا تھا، لہٰذا اس کی برکت سے مشارق و مغارب سے ان کے سامنے جزیہ اور مال غنیمت آنے لگا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے متعلق فرمان بھی تھا:

(( إِنَّ اللّٰہَ زَوٰٰی لِيْ الْأَرْضَ فَرَأَیْتُ مَشَارِقَھَا وَمَغَارِبَھَا، وَإِنَّ أُمَّتِيْ سَیَبْلُغُ مُلْکَھَا مَا زُوِيَ لِيْ مِنْھَا۔ ))
أخرجہ مسلم في کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب: اذا تواجہ المسلمان بسیفیھما، رقم: ۲۵۸۔

'' اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو سکیڑا تو میں نے اس کے مشارق و مغارب دیکھے اور یقینا میری امت کی بادشاہت وہاں تک پہنچے گی، جہاں تک میرے لیے زمین سکیڑ دی گئی۔ ''
متنبہ ہوجائیں! ہم وہاں پر چلتے پھرتے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا اس لحاظ سے کہ اسلام تمام بلدان عالم میں داخل ہوچکا ہے۔ (خیر ، فتوحات اور مدد ...اسلام کے لیے ہی ہے) چنانچہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ معاملہ جہاں تک اللہ نے چاہا، چلتا رہے گا جیسے کہ اللہ نے خود اس کی خبر دی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بشارت سنائی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

(( لَیَبْلُغَنَّ ھَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّیْلُ وَالنَّھَارُ، وَلَا یَتْرُکُ اللّٰہُ بَیْتَ مَدْرٍ وَلَا وَبْرٍ إِلاَّ أَدْخَلَہُ اللّٰہُ ھٰذَا الدِّیْنَ، بِعِزٍّ عَزِیْزٍ، أَوْ بِذِلٍّ ذَلِیْلٍ، عِزًا یَعِزُّ اللّٰہُ بِہِ الْاِسْلَامَ، وَذِلًا یَذِلُّ بِہِ الْکُفْرَ۔ ))
سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، رقم: ۳۔

'' البتہ ضرور یہ معاملہ (دین) وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک دن اور رات پہنچتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کوئی مٹی کا گھر اور خیمہ نہیں چھوڑے گا مگر اس میں اس دین کو داخل کردے گا، عزت والے کی عزت کرتے ہوئے یا ذلت کرنے والے کو ذلیل کرتے ہوئے۔ عزت ایسی کہ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اسلام کو عزت بخشے گا اور ذلت ایسی کہ اس کے ذریعہ اللہ کفر کو رسوا کرے گا۔ ''
کوئی بھی، خواہ اکیلا ہو یا ایک جماعت یا پورا ملک ہو یا اس سے بھی کوئی بڑا یا چھوٹا ہو، دین اسلام کو زمین سے ختم نہیں کرسکتا اور نہ ہی کمزور کرسکتا ہے۔ جو اس کام کی کوشش کرتا ہے، اس کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو سورج کی شعاعوں کو منہ کی پھونکوں سے ختم کرنا اور بجھانا چاہتا ہے۔ جیسے یہ محال ہے، ایسے ہی دین اسلام کو ختم کرنا محال ہے۔ تاریخی حوادثات میں غور و فکر کرنے والے کے لیے آسانی سے دیکھنا ممکن ہے کہ جب بھی اسلام کے خلاف اس طرح کی تدابیر اور مکر کیے گئے تو اللہ تعالیٰ نے اسلام کا پھیلاؤ بڑھا دیا اور جو لوگ بذات خود اسلام کے خلاف تدابیر کرتے تھے، ان میں سے کئی افراد اور جماعتوں کی جماعتیں اور قبیلے اسلام میں داخل کرتا گیا۔یہ کام کیوں نہ ہوں حالانکہ خالق کائنات فرماتا ہے:
{یُرِیْدُوْنَ أَنْ یُّطْفِئُوْا نُوْرَ اللّٰہِ بِأَفْوَاھِھِمْ وَیَأْبَی اللّٰہُ إِلَّآ أَنْ یُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْکَرِہَ الْکٰفِرُوْنَo ھُوَ الَّذِیْٓ أَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْھُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ o} [التوبۃ :۳۲۔۳۳]
'' وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہوں (پھونکوں) سے بجھا دیں اور اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہیں ہے بلکہ وہ اپنا نور پورا کرے گا، گو کہ کافر ناخوش رہیں۔ اسی نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا ہے کہ اسے دیگر تمام ادیان پر غالب کردے اگرچہ مشرک برا مانیں۔ ''
جی ہاں! اللہ تعالیٰ نے یہ دین اسی لیے بھیجا کہ اسے تمام ادیان پر، خواہ عرب کے ہوں یا عجم کے، غالب کردے۔فرمایا:
{إِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ o} [آل عمران:۱۹]
'' بے شک اللہ کے ہاں دین اسلام ہے۔ ''
مزید فرمایا:

{وَمَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْہُ وَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo}
[آل عمران:۸۵]

'' اور جس نے اسلام کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کیا تو وہ دین ہرگز اس سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔ ''
تقدیر لکھنے والی قلمیں رکھ دی گئی ہیں، صحیفوں کی سیاہی خشک ہوگئی اور معاملہ کا قطعی فیصلہ ہوگیا اور جھگڑا بھی ختم ہوچکا ہے اور اب ادیان کی باہمی تقریب پر بحث مباحثہ یا اس طرح کی کوئی اور بات بھی ختم ہوچکی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سب ادیان پر حق واضح کردیا اور وہ فیصلہ فرما چکے ہیں اور جب خالق کائنات فیصلہ کردیں تو سب مخلوق پر خاموشی سے اسے ماننا اور اس کے سامنے عاجزی کا اظہار کرنا لازم ہے۔ چنانچہ اب اللہ تعالیٰ خبر دے چکا کہ میرے ہاں اسلام کے سوا کوئی بھی دین معتبر اور قابل قبول نہیں اور اسلام کا مفہوم یہ ہے کہ خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کاموں میں پیروی کرنا جن کاموں کے ساتھ وہ بھیجے گئے ہیں۔
اب اللہ تعالیٰ نے سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے کے اپنی طرف پہنچنے کے سب راستے مسدود کردیے ہیں۔ لہٰذا اب جو بھی اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین (اسلام) سے الگ ہوا تو وہ ہرگز قبول نہیں ہوگا اور یہ انسان خسارہ پانے والوں میں سے ہوگا۔
مزید فرمایا:
{أَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ o} [القلم:۳۵]
'' کیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کی مثل کردیں گے۔ ''

{وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ إِِنَّنِی مِنَ الْمُسْلِمِیْنَo}
[فصلت:۳۳]

'' اپنی بات کے اعتبار سے اس شخص سے زیادہ اچھا کون ہے جو اللہ کی طرف دعوت دے اور نیک عمل کرے، اور کہا: بے شک میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ ''
اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top