• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دین میں غلو ہلاکت کا سبب !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
972118_496562973771901_446398056_n.jpg


اللہ تعالی کا فرمان ہے:

قُلْ يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوْٓا اَهْوَاۗءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَاَضَلُّوْا كَثِيْرًا وَّضَلُّوْا عَنْ سَوَاۗءِ السَّبِيْلِ

کہہ دو ، اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ایسی قوم کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو پہلے سے گمراہ ہوئے، انھوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کر دیا اور خود بھی سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔

(المائدۃ:77)

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

إِيَّاكُمْ وَالْغُلُوَّ؛ فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِالْغُلُوِّ فِي الدِّينِ

’’اے لوگو! دین میں غلو نہ کرو کیونکہ تم سے پہلے لوگ یقیناً دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔‘‘

(سنن ابن ماجہ: ۳۰۲۹، وسندہ صحیح، وصححہ ابن خزیمہ :۲۸۶۷وابن حبان ، الموارد:۱۰۱، والحاکم ۱؍۴۶۶، ووافقہ الذہبی)

حد سے زیادتی اور تشدد کو غلو کہا جاتا ہے یعنی جو امور کتاب و سنت اور اجماع سے ثابت نہیں ، ان میں سلف صالحین اور علمائے حق کے فہم کو چھوڑتے ہوئے ایسا راستہ اختیار کرنا جو سراسر شریعت کے خلاف ہو مثلاً عیسائیوں کا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہنا ، مردہ یا زندہ بزرگوں کی محبت میں حد سے تجاوز کرتے ہوئے انھیں مقام الوہیت پر بٹھانا ، دوران حج جمرات کو سات کنکریاں مارنا مسنون ہیں مگر سات کی بجائے آٹھ یا دس کنکریاں مارنا ، ایسے مسئلے گھڑنا جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے مثلاً نما ز پاک جوتوں ساتھ اور بغیر جوتوں کے دونوں طرح صحیح ہے مگر بعض لوگوں کا جوتوں کے ساتھ ہی نماز کو ضروری سمجھنا وغیرہ، یہ سب غلو کی قسمیں ہیں ۔ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے غلو کو کبائر میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: مخلوق کے بارے میں غلو کرنا حتیٰ کے اس کے مقام سے تجاوز کیا جائے اور بعض اوقات یہ غلو گناہِ کبیرہ سے شرک کی طرف لے جاتا ہے۔
(اعلام الموقعین ج۴ ص ۴۰۷)

(تحقیقی، اصلاحی اور علمی مقالات، تالیف:حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ ،ج2ص88)

اس کے علاوہ بیشتر احادیث غلو کی ممانعت پر موجود ہیں ۔یہ غلو ہی کا نتیجہ تھا کہ قوم نوح(علیہ السلام) اپنے بزرگوں کی تعظیم کیلئے قبروں پر بیٹھنا شروع ہوئے، ان کی تصاویر اور بت بنا ڈالیں اور ان کو اللہ کے ساتھ پکارنا شروع کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالی نے زمین سے پانی نکالا اور آسمان سے بھی پانی ان پر برسایا اور آخر کار عبرت کا نشان بن گئے۔

یہودیوں نے عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا (نعوذ باللہ) ٹھہرا کر دین میں غلو کیا۔

نصاری نے عیسی اور مریم علیھما السلام کو اللہ تعالی کا بیٹا اور بیوی (نعوذ باللہ) ٹھہرا کر دین میں غلو کیا۔

اسی طرح مشرکین مکہ نے بھی لات و عزی وغیرہ بتوں کو اللہ تعالی کی عبادت میں شریک کرکے دین میں غلو کیا۔

رافضیوں نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنھم اور اماموں کو اللہ تعالی کے ساتھ شریک کرکے دین میں غلو کیا۔

موجودہ دور میں بھی ایسے فرقے وجود میں‌آئے ہیں جنہوں نے انبیإ علیھم السلام کو بالعموم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اس امت کے اولیإ و صالحین کو بالخصوص مشکل کشا، حاجت روا اور فریاد رس بنا کر بالکل اسی طرح غلو کو اختیار کیا جس طرح پچھلی قوموں نے اختیار کیا۔

یہی وجہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو غلو سے ڈرایا۔

اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ الحمد للہ اعتدال پر مبنی ہے۔ وہ نہ نصاری کی طرح کسی کی شان حد سے زیادہ بڑھا کر غلو کرتے ہیں اور نہ ہی کسی کی شان میں تنقیص کرکے یہودیوں کی طرح گستاخی کرتے ہیں۔

اللہ تعالی ہمیں غلو کے مرض سے بچائے۔ آمین
 
Top