دین کیا ہے ؟ اور اس میں فساد کے اسباب
ایک مختصر مگر جامع تحریر
ماخوز از
دین :
دین عقائد ، اخلاق ، معاملات ، حدود ، کفارات اور قصاص وغیرہ کےمجموعے کا نام ہے ۔
عقائد میں مسئلہ توحید اصل ہے ، پھر نبوت ، پھر قیامت کے دن جزا و سزا کا مسئلہ ہے ، پھر فرشتوں کے وجود ان کے متعلق جو ذکر آیا ہے اس کا اعتقاد توحید کے مسئلے کاجزء ہے ۔ عبادات سے نماز ، روزہ ، حج اور زکوۃ وغیرہ مراد ہیں ۔ معاملات سے خرید و فروخت ، مزدوری ، ملازمت ، ہبہ و نکاح وغیرہ مراد ہیں ۔
دین کی خرابی :
دین کی خرابی یا کمزوری اعتقادی او رعملی خامی کا نام ہے ۔ دین کے فساد کے مندرجہ ذیل اسباب ہیں :
کتاب وسنت کی اشاعت نہ کی جائے ۔ مفتی او ر قاضی ( جج ) اس قسم کے لوگ بنائے جائیں جو علوم رسمیہ سے تو آشنا ہوں مگر کتاب وسنت سے جاہل ہوں :
عن عبد الله بن عمرو بن العاص قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
: إن اللهَ لا يقبضُ العلمَ انتزاعًاينتزِعُهُ من العبادِ، ولكن يقبضُ العلمَ بقبضِ العلماءِ، حتى إذا لم يُبْقِ عالمًا، اتخذَ الناسُ رُؤوسًا جُهَّالًا، فسُئِلوا، فأفْتَوا بغيرِ علمٍ، فضلوا وأضلوا .
( متفق عليه )
'' عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی علم ( کتاب وسنت ) کو بندوں سے چھین کر قبض نہیں کرے گا بلکہ علماء کو قبض کرکے علم کو قبض کرے گا یہاں تک کہ کوئی عالم نہیں چھوڑے گا ، ( اس وقت ) لوگ جاہلوں کو سردار بنالیں گے ، وہ علم کے بغیر فتوی دیں گے ، خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ ''
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب کتاب وسنت پڑھنے پڑھانے کا رواج کم ہوجائے گا ، علماء فوت ہوجائیں گے ، پیچھے وہ لوگ رہ جائیں گے جو کتاب وسنت سے نا آشنا ہوں گے ، بغیر علم کے فتوی دیں گے ، اس بنا پر دین میں نئی نئی باتیں رائج ہو جائیں گی ۔
حدیث کی طرف توجہ کم کی جائے یا اس کی حجیت کا انکار کیا جائے :
عن المقدام بن معديكرب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
ألا إنِّي أوتيتُ القرآنَ ومثلَهُ معَهُ ، ألا يوشِكُ رجلٌ شبعانٌ علَى أريكتِهِ يقولُ : عليكم بِهَذا القرآنِ ، فما وجدتُمْ فيهِ من حلالٍ فأحلُّوا ، وما وجدتُمْ فيهِ من حرامٍ فحرِّموهُ ، وإنَّ ما حرَّمَ رسولُ اللَّهِ - صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ - كما حرَّمَ اللَّهُ
( رواه أبو داؤد ، مشكوة )
مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' خبردار رہو ! مجھے قرآن اور قرآن کی مثل ( احکام ) دیے گئے ہیں ( یعنی حدیث ) یاد رکھو عنقریب ایک آدمی اپنے تخت پر بیٹھ کر یہ کہے گا کہ اس قرآن کو لازم پکڑو ، جو اس میں حلال پاؤ اس کو حلال جانو اور جو اس میں حرام پاؤ اس کو حرام جانو ، جس کو اللہ کا رسول حرام کہے وہ اسی طرح ہے جس کو اللہ ( قرآن میں ) حرام کہے ، ( کیونکہ اللہ کا رسول بھی بذریعہ وحی خبر پاکر ہی حرام کہتا ہے ۔ ) ''
علماء کا بدعملوں کے ساتھ خلط ملط ہونا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کردینا :
عن عبد الله بن مسعود قال قال رسول صلى الله عليه وسلم :
لمَّا وقَعَت بنو إسرائيلَ في المَعاصي، نَهَتهُم عُلَماؤُهُم ، فلَم ينتَهوا، فجَالَسوهم في مَجالِسِهِم وواكَلوهُم وشارَبوهُم، فضربَ اللَّهُ قلوبَ بعضِهِم علَى بعضٍ، ولعنَهُم علَى لِسانِ داودَ، وعيسى ابنِ مريمَ، ذلِكَ بما عصَوا وَكانوا يَعتدونَ
( ابو داؤد والترمذي )
( ضعفہ الألبانی)
'' عبد اللہ بن مسعود کہتے ہیں : فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے : '' جب بنی اسرائیل نافرمانی کرنے لگے تو ان کےعلماء نے ان کو روکا ، وہ نہ رکے تو وہ بھی ان کی مجلسوں میں بیٹھنے لگے اور کھانے پینے میں ان کے ساتھ شریک ہوئے ، اللہ تعالی نے ان کے دلوں کو ایک دوسرے سے متاثر کیا ، وہ داؤد اور عیسی بن مریم کی زبان پر لعنتی بنے کیونکہ وہ نافرمانی کرتے اور حد سے بڑھتے تھے ۔ ''
قرآن وسنت کی غلط تاویلیں کرنا جس سے شریعت بدل جائے اور غلو کرنا :
عن إبراهيم بن عبد الرحمن العذري قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
يحملُ هذا العلمَ مِن كلِّ خَلفٍ عُدولُهُ ، ينفونَ عنهُ تحريفَ الغالينَ ، وانتحالَ المُبطلينَ ، وتأويلَ الجاهلينَ
( مشكوة )
'' ابراہیم بن عبد الرحمن عذری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
'' اس علم ( کتاب وسنت ) کے واقف ہر زمانے مین عادل ہوں گے ، جو دین میں غلو کرنے والوں کی تحریف ،باطل والوں کے جھوٹ اور جاہلوں کی تاویل سے اسے الگ کریں گے ۔ ''
غلو کا معنی حد سے تجاوز کرنے کا ہے ، جیسے نبی کو خدا بنانا ، ولی کو خدا یا نبی کی طرح سمجھنا اور علماء کو معصوم خیال کرنا ۔
تعمق فی الدین ، یعنی دین میں خیال کی بنا پر باتیں بنانا :
عن أنس قال : واصَل النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم آخِرَ الشهرِ، وواصَل أناسٌ من الناسِ، فبلَغ النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فقال : ( لو مُدَّ بيَ الشهرُ، لواصَلتُ وِصالًا يدَعُ المتعمِّقونَ تعمُّقَهم ( بخاري جزء 2 )
'' انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخیر ماہ میں دو تین دن بدون افطار متواتر روزے رکھے ، بعض لوگوں نے بھی ایسا ہی کیا ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا : اگر یہ مہینہ اور زیادہ ہوتا تو میں اتنا وصال کرتا کہ تعمق کرنے والے اپنا تعمق چھوڑ دیتے ۔ ''
تعمق کا یہ مطلب ہے کہ شریعت نے جو اندازے مقرر کیے ہیں ان پر اکتفا نہ کرنا بلکہ ان کی حکمتوں کو دیکھ کر اپنی طرف سے ان میں کمی بیشی کرنا ۔
تشدد ، یعنی مشکل عبادات کو پسند کرنا جیسے : ہمیشہ کا روزہ ، ساری رات کا ہمیشہ قیام ، سنن و مستحبات پر فرائض کی طرح التزام ، زن وفرزند سے الگ ہو جانا جس کو رہبانیت کہتے ہیں :
عن أنس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يقول : لاَ تشدِّدواعلى أنفسِكم فيشدَّدَ عليْكم فإنَّ قومًا شدَّدوا على أنفسِهم فشدَّدَ اللَّهُ عليْهم فتلْكَ بقاياهم في الصَّوامعِ والدِّيارِ (رَهبانيَّةً ابتدعوها ما كتبناها عليْهم ).( أبو داؤد )
'' انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے : '' اپنی جان پر سختی نہ کرو ، پھر اللہ تم پر سختی کرے گا ۔ ایک قوم نے اپنی جان پر سختی کی پھر اللہ نے ان پر سختی کی ، یہ انھی لوگوں کے جانشین ہیں ۔ ان گرجوں اور عبادت خانوں میں جو رہبانیت کی بدعت ان لوگوں نے نکالی ہے ، ہم نے ان پر فرض نہ کی تھی ۔ ''
ضرورت کے وقت علیحدگی اختیار کرنا جائز ہے ، ان کی غلطی یہ تھی کہ ایک وقتی ضرورت کو دائمی شریعت بنالیا ۔
استحسان ( شرعی دلیل ) کے بغیر کسی ظاہری مصلحت کی بنا پر دین میں کسی امر کا جاری کرنا ۔ بعض اوقات اس قسم کی غلطیاں علماء اور فقہاء ( اصل میں فقراء ہے ۔ خضر ) سے بھی ہو جاتی ہیں اور دوسرے لوگ ان کو سند قرار دیتے ہیں :
عن زياد بن حدير قال قال لي عمر : هل تعرف ما يهدم الإسلام ؟ قال قلت : لا ، قال : يهدمه زلة العالم و جدال المنافق بالكتاب و حكم الأئمة المضلين . ( سنن الدارمي )
'' زیاد بن حدیر کہتےہیں کہ مجھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : '' کیا تم جانتے ہو کہ اسلام کو کیا چیز گراتی ہے ؟ '' میں نے کہا نہیں ۔ آپ نے کہا : عالم کی لغزش اور منافق کا اللہ کی کتاب لے جھگڑنا اور گمراہ کرنے والے بادشاہوں کے فیصلے ۔ ''
رواج کی پیروی ، یعنی اہل علم کسی مسئلے پر متفق ہو جائیں اور ان کے پاس کتاب وسنت سے کوئی دلیل نہ ہو ، عوام کا ان کے متعلق خیال ہو کہ یہ لوگ اکثر یا ہمیشہ ٹھیک بات کہتے ہیں ، اس بنا پر ان کے اتفاق کو قطعی دلیل خیال کرنے لگتے ہیں :
( وإذا قيل لهم اتبعوا ما أنزل الله قالوا بل نتبع ما ألفينا عليه آبائنا ) ( البقرة 170 )
'' جب ان کو کہا جاتا ہے اس چیز کی پیروی کرو جو اللہ نے نازل فرمائی کہتے ہیں ہم تو اس کی پیروی کریں گے جس پر اپنے بڑوں کو پایا ۔ ''
غیر معصوم کی تقلید :
(اتخذوا أحبارهم و رهبانهم أربابا من دون الله ) ( التوبة 31 )
'' ان لوگوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے ۔ ''
یعنی جو وہ حلال کرتے ہیں اس کو حلال سمجھتے ہیں اور جو وہ حرام کرتے ہیں اس کو حرام سمجھتے ہیں ، اس قسم کی تقلید حرام ہے ۔ اگر مسئلہ معلوم نہ ہو تو اپنے سے کسی بڑے عالم پر اعتماد کرکے اس سے مسئلہ پوچھ لے ، اس کو معصوم خیال نہ کرے اور دل میں یہ خیال کرلے کہ جب مجھے اس کے خلاف کوئی شرعی دلیل ملے گی تو اس کو چھوڑ دوں گا ، تو یہ جائز ہے ۔
دوسرے مذاہب کی رسوم کا مذہب حق میں جاری ہونا ، اس سے بھی دین میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے ، اسی واسطے اس سے شریعت نے سخت منع کیا ہے :
عن ابن عباس رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
أبغضُ الناسِ إلى اللهِ ثلاثةٌ : ملحدٌ في الحرمِ ، ومبتغٍ في الإسلامِ سُنَّةَ الجاهليةِ ، ومُطَّلِبُ دمِ امرئٍ بغيرِ حقٍّ ليُهريقَ دَمَه ( البخاري )
'' عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتےہیں : فرمایا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین آدمی اللہ تعالی کے ہاں بہت ناپسندیدہ ہیں : ایک حرم میں کج روی کرنے والا ، دوسرا کفر کی رسم اسلام میں نکالنے والا ، تیسرا مسلمان کاناحق خون کرنے والا ۔ ''
مذہب میں یہود و نصاری اور سیاسیات میں روم و فارس کی اتباع کرنا ارو ان کا رویہ اختیار کرنا :
عن عبد الله بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :
يأْتِيَنَّ على أمتي ما أتَى على بني إسرائيلَ حذْوَ النعلِ بالنعلِ ( ترمذي )
'' عبد اللہ بن عمرو کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں وہ زمانہ آئے گا جیسا کہ بنی اسرائیل پر آیا ، جیسے جوتے برابر ہوتے ہیں اسی طرح وہ برابر ہو جائیں گے ۔ ''
یعنی امت ان کے ساتھ مشابہ ہو جائے گی ، یعنی یہود و نصاری کی بدعات اور شر کی باتیں ( شریعت کی تحریف ، حیلہ سازی ، نبی کی تعظیم مین غلو وغیرہ ) جن کا ذکر قرآن میں ہے ، یہ امت بھی اس قسم کی باتیں کرنے لگے گی ۔ ایک حدیث میں ہے :
((لتركبُنَّ سَنَنَ من كان قبلَكُم )) ( بخاری )
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، تم پہلے لوگوں کے طریقے پر ضرور چلو گے ۔ ''
ایک حدیث میں ہے : لوگوں نےکہا کہ اس سے مراد فارس و روم ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اور کون ہیں ؟
( بخاری رقم 6888)
شراح حدیث نے اس کا مطلب بیان کیا ہے کہ سیاسی امور میں فارس و روم اور مذہبی امور میں یہود و نصاری کی پیروی کریں گے ۔
یہ گیارہ اسباب ، جن کا ذکر ہوا ، اور اسی قسم کے اور اسباب جن سے دین مین خرابی پیدا ہوتی ہے ، قرآن مجید نے ایک جگہ ان سب کو مختصر الفاظ میں '' اتباع شہوات '' اور '' اضاعت نماز '' سے تعبیر کیا ہے ۔ اتباع شہوات میں بدعات اور اضاعت نماز میں دین کے بعض کا ترک داخل ہے ، یعنی دین میں کمی بیشی در اصل دین کی خرابی ہے ۔
(ختم شد )