محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
ذکر الٰہی- اللہ تعالی کی پسندیدہ عبادت !!!
فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :
(( أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ أَنْ تَمُوْتَ وَلِسَانُکَ رَطْبٌ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔ ))
صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۶۳۔
''اللہ تعالیٰ کو یہ عمل بہت پیارا لگتا ہے کہ تو اس حال میں وفات پائے کہ تیری زبان اللہ کے ذکر سے تر ہو۔ ''
اللہ تعالیٰ نے نماز کو ذکر کہا۔ فرمایا:
{فَاسْعَوْا إِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ o} [جمعہ:۹]
'' اللہ کے ذکر(نماز) کی طرف جلدی آجایا کرو۔ ''
بندوں پر اللہ تعالیٰ نے مختلف اقسام کی نعمتیں اور احسانات کیے جس کی بناء پر انہیں اکثر حالات میں تسبیح (سبحان اللہ کہنا) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ کہنا) اور الحمد للہ کا بکثرت ذکر کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ ذکر کرنے والے بہت زیادہ ثواب اور اچھے ٹھکانے والے بن سکیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ئَآمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا o} [الاحزاب:۴۱]
'' اے ایمان والو! اللہ کا بہت زیادہ ذکر کیا کرو۔ ''
یعنی دن ہو یا رات، خشکی ہو یا تری، سفر ہو یا حضر، ذکر کرنے والا غنی ہو یا فقیر، بیمار ہو یا تندرست، چھپ کر کرے یا اعلانیہ کرے، ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔ چنانچہ جب تم یہ کام کرلو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمت نچھاور کر دیں گے اور اس کے فرشتے تمہارے لیے مغفرت کی دعا کریں گے۔فرمایا:
{فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ o} [النساء:۱۰۳]
''اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو۔ ''
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
(( أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرِ أَعْمَالِکُمْ وَأَزْکَاھَا عِنْدَ مَلِیْکُمُ وَأَرْفَعِھَا فِيْ دَرَجَاتِکُمْ وَخَیْرٍ لَّکُمْ مِنْ أَنْفَاقِ الذَّھَبِ وَالْوَرِقِ، وَخَیْرٍ لَّکُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضْرِبُوْا أَعْنَاقَھُمْ وَیَضْرِبُوْا أَعْنَاقَکُمْ؟ )) قَالُوْا: بَلیٰ، قَالَ: (( ذِکْرُ اللّٰہِ۔ )) قَالَ مَعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رضی اللہ عنہ : مَا شَيْئٍ أَنْجٰی مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ، مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔ ))
صحیح سنن الترمذي، رقم: ۲۶۸۸۔
'' کیا میں تم کو بہتر عمل نہ بتاؤں جو تمہارے رب کے ہاں بڑا ہی پاکیزہ اور تمہارے درجات میں سب سے زیادہ بلند درجے والا ہے اور تمہارے لیے سونے اور چاندی کے خرچ کرنے سے بھی بہتر ہے اور تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہے کہ تم دشمن سے ملو اور تم ان کی گردنیں اڑاؤ اور وہ تمہاری گردنیں اڑائیں؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: جی ضرور بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ذکر سے بڑھ کوئی چیز اللہ کے عذاب سے نجات نہیں دیتی۔ ''
یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور عاجزی کے ساتھ صبح اور شام اپنے نفس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کر اور اس کی یاد سے غفلت مت برت۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ o} [الاعراف:۲۰۵]
'' اور تُو اپنے رب کو صبح و شام اپنے دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ یاد کیا کر اور اونچی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ اور غافلوں میں سے نہ ہوجانا۔ ''
قرآن مجید کے بیشتر مقامات میں ذکر الٰہی کا تذکرہ اور اس سے غفلت کی نہی موجود ہے اور ذکر کرنے والوں کی مدح و ستائش اور فلاح کا مدار ذکر اللہ کی کثرت کو قرار دیا گیا ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ان لوگوں کا ذکر کرتا ہے۔مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( مَثَلُ الَّذِيْ یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِيْ لَا یَذْکُرُ رَبَّہٗ مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَیِّتِ۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب الدعوات، باب: فضل ذکر اللّٰہ عزوجل، رقم: ۶۴۰۷۔
'' اس انسان کی مثال جو اللہ کا ذکر کرتا ہے اور جو ذکر نہیں کرتا زندہ اور مردے شخص کی سی ہے۔ ''
لنک{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo}دیا گیا ہے۔
فتح الباری، ص: ۲۰۹/۱۱۔ تفسیر قرطبی، ص: ۱۱۵/۲، ص: ۱۲۱۔ ۱۲۸/۱۴۔ تفسیر ابن کثیر، ص: ۵۰۲، ۵۰۳/۳۔ شرح مسلم للنووی، ص: ۱۵/۱۷۔ مدارج السالکین لابن قیم، ص: ۳۹۷، ۳۹۹/۲۔
بعض شارحين حديث اس كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:ام المؤمنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہر حالت ميں اللہ تعالى كا ذكر كيا كرتے تھے "
صحيح مسلم كتاب الحيض حديث نمبر ( 558 ).
ديكھيں: الشرح الممتع تاليف ابن عثيمين ( 1 / 288 ) اور تو ضيح الاحكام تاليف بسام ( 1 / 250 ) اور فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 232 ).عمر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ہم ميں سے كوئى شخص جنابت كى حالت ميں سو جايا كرے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جواب ديا:
" جى ہاں جب وہ وضوء كرلے "
صحيح بخارى كتاب الغسل حديث نمبر ( 280 ).
كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
{ اے ايمان والو اللہ كا ذكر كثرت سے كيا كرو، اور صبح و شام اس كى پاكيزگى بيان كرو }الاحزاب ( 41 / 42 ).
اس موضوع كى آيات بہت زيادہ ہيں، اور اسى طرحاور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:
{ اور بكثرت اللہ كا ذكر كرنے والے اور ذكركرنے والياں ان كے ليے اللہ تعالى نے مغفرت اور اجر عظيم تيار كر ركھا ہے } الاحزاب ( 35 ).
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى ذكر كرنے كى وصيت كرتے ہوئے فرمايا:
" ہر وقت تيرى زبان اللہ كے ذكر كے تر رہنى چاہيے "
اسے ترمذى نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 2687 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.
كيا يہ شرك نہيں تو اور كيا ہے، اللہ كے علاوہ كوئى بھى تكليف اور دكھ دور نہيں كر سكتا چاہے ولى ہو يا نبى.اب ہم درود تاج كے چند ايك كلمات اور اس كا ترجمہ بيان كرتے ہيں:
" دافع البلآء و الوبآء و القحط و المرض و الالم الخ.
وہ بلاء و وبا اور قحط و مرض اور دكھ كو دور كرنے والے ہيں.
پہلى قسم:يہ معلوم ہونا چاہيے كہ يہ ان امور ميں شامل ہے جن كا وحى كے بغير جاننا ممكن نہيں، اس ميں قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ اذكار اور دعائيں دو قسموں پر مشتمل ہيں:
1 - وہ بہتر اور اچھے الفاظ اختيار كرے، كيونكہ يہ بندے كا اپنے رب اور معبود كے ساتھ مناجات كا مقام ہے.وہ ذكر اور دعا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے تو ثابت نہ ہو بلكہ دعا كرنے والا شخص اپنى جانب سے ادا كرے يا پھر وہ سلف سے منقول ہو تو بندے كے ليے يہ دعا اور ذكر پانچ شروط كے ساتھ جائز ہو گا:
انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
اس حديث ميں صرف لفظ جلالہ " اللہ اللہ " كا ذكر كرنے كى كوئى دليل نہيں ملتى اس كى كئى وجوہات ہيں:" قيامت اس وقت قائم ہو گى جب زمين ميں كوئى اللہ اللہ كرنے والا نہ بچے گا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 148 ).
" كسى لا الہ الا اللہ كہنے والے پر قيامت قائم نہيں ہو گى "
يہ روايت پہلى روايت كى شرح كرتى ہے تو معنى يہ ہو گا: مؤحدين جو لا الہ الا اللہ كہنے والے ہونگے ان پر قيامت قائم نہيں ہو گى.يہ روايت مسند احمد ( 3 / 268 ) اور صحيح ابن حبان ( 15 / 262 ) اور مستدرك حاكم ( 4 / 540 ) ميں ہے، بلكہ يہ مسلم كى بھى ايك روايت ہے جيسا كہ قاضى عياض نے ابن ابى جعفر كى روايات سے نقل كيا ہے.
ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 2 / 178 ).
لہذا پہلى روايت ميں لفظ مفرد توحيد سے كنايہ ہے، اور اس كا معنى يہ ہے كہ جب تك اللہ كى عبادت كرنے والا ايك بھى شخص زمين ميں ہو گا قيامت قائم نہيں ہو گى." جب تك زمين ميں كوئى لا الہ الا اللہ كہنے والا ہو گا قيامت قائم نہيں ہو گى "