• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ذکر الٰہی- اللہ تعالی کی پسندیدہ عبادت !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ذکر الٰہی- اللہ تعالی کی پسندیدہ عبادت

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :

(( أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ أَنْ تَمُوْتَ وَلِسَانُکَ رَطْبٌ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔ ))
صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۶۳۔

''اللہ تعالیٰ کو یہ عمل بہت پیارا لگتا ہے کہ تو اس حال میں وفات پائے کہ تیری زبان اللہ کے ذکر سے تر ہو۔ ''
اللہ تعالیٰ نے نماز کو ذکر کہا۔ فرمایا:

{فَاسْعَوْا إِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ o} [جمعہ:۹]

'' اللہ کے ذکر(نماز) کی طرف جلدی آجایا کرو۔ ''
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ئَآمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا o} [الاحزاب:۴۱]

'' اے ایمان والو! اللہ کا بہت زیادہ ذکر کیا کرو۔ ''
بندوں پر اللہ تعالیٰ نے مختلف اقسام کی نعمتیں اور احسانات کیے جس کی بناء پر انہیں اکثر حالات میں تسبیح (سبحان اللہ کہنا) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ کہنا) اور الحمد للہ کا بکثرت ذکر کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ ذکر کرنے والے بہت زیادہ ثواب اور اچھے ٹھکانے والے بن سکیں۔

بندوں کی سہولت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حد بندی بھی نہیں فرمائی۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان کلمات کا ذکر بے وضوء، باوضوء اور جنبی آدمی بھی کرسکتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر اسی طرح ممکن ہے کہ انسان بیٹھا ہوا لیٹا ہوا اور کھڑا بھی ذکر کرتا رہے۔

ذکر الٰہی کی اہمیت بتاتے ہوئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

اللہ تعالیٰ نے بندوں پر جو بھی فرض لاگو کیا اس کی حد بندی بھی فرما دی اور عذر کی حالت میں اس کی سہولت بھی دے دی سوائے ذکر کے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نہ تو اس کی حد بندی کی اور نہ ہی اس کے چھوڑنے میں کسی قسم کا عذر قبول کیا مگر ان لوگوں کو معذور قرار دیا جو اس کے چھوڑنے پر بہت زیادہ ہی مجبور ہوں۔

فرمایا:

{فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ o} [النساء:۱۰۳]

''اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو۔ ''
یعنی دن ہو یا رات، خشکی ہو یا تری، سفر ہو یا حضر، ذکر کرنے والا غنی ہو یا فقیر، بیمار ہو یا تندرست، چھپ کر کرے یا اعلانیہ کرے، ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔ چنانچہ جب تم یہ کام کرلو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمت نچھاور کر دیں گے اور اس کے فرشتے تمہارے لیے مغفرت کی دعا کریں گے۔

فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

(( أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرِ أَعْمَالِکُمْ وَأَزْکَاھَا عِنْدَ مَلِیْکُمُ وَأَرْفَعِھَا فِيْ دَرَجَاتِکُمْ وَخَیْرٍ لَّکُمْ مِنْ أَنْفَاقِ الذَّھَبِ وَالْوَرِقِ، وَخَیْرٍ لَّکُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضْرِبُوْا أَعْنَاقَھُمْ وَیَضْرِبُوْا أَعْنَاقَکُمْ؟ )) قَالُوْا: بَلیٰ، قَالَ: (( ذِکْرُ اللّٰہِ۔ )) قَالَ مَعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رضی اللہ عنہ : مَا شَيْئٍ أَنْجٰی مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ، مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔ ))
صحیح سنن الترمذي، رقم: ۲۶۸۸۔

'' کیا میں تم کو بہتر عمل نہ بتاؤں جو تمہارے رب کے ہاں بڑا ہی پاکیزہ اور تمہارے درجات میں سب سے زیادہ بلند درجے والا ہے اور تمہارے لیے سونے اور چاندی کے خرچ کرنے سے بھی بہتر ہے اور تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہے کہ تم دشمن سے ملو اور تم ان کی گردنیں اڑاؤ اور وہ تمہاری گردنیں اڑائیں؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: جی ضرور بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ذکر سے بڑھ کوئی چیز اللہ کے عذاب سے نجات نہیں دیتی۔ ''
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

{وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ o} [الاعراف:۲۰۵]

'' اور تُو اپنے رب کو صبح و شام اپنے دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ یاد کیا کر اور اونچی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ اور غافلوں میں سے نہ ہوجانا۔ ''
یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور عاجزی کے ساتھ صبح اور شام اپنے نفس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کر اور اس کی یاد سے غفلت مت برت۔

مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

(( مَثَلُ الَّذِيْ یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِيْ لَا یَذْکُرُ رَبَّہٗ مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَیِّتِ۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب الدعوات، باب: فضل ذکر اللّٰہ عزوجل، رقم: ۶۴۰۷۔

'' اس انسان کی مثال جو اللہ کا ذکر کرتا ہے اور جو ذکر نہیں کرتا زندہ اور مردے شخص کی سی ہے۔ ''
قرآن مجید کے بیشتر مقامات میں ذکر الٰہی کا تذکرہ اور اس سے غفلت کی نہی موجود ہے اور ذکر کرنے والوں کی مدح و ستائش اور فلاح کا مدار ذکر اللہ کی کثرت کو قرار دیا گیا ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ان لوگوں کا ذکر کرتا ہے۔

اعمال صالحہ کا اختتام بھی ذکر اللہ پر ہی ہوتا ہے مثلاً روزہ، حج، نماز، جمعہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات سے نفع اٹھانے والے ذاکرین کو خصوصی طور پر اولو الالباب (عقل والے) کہا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے سب اعمال کا ساتھی اور روح قرار دیا یعنی نماز، روزہ، حج وغیرہ میں اللہ کا ذکر ہے بلکہ حج، تلبیہ اور حج کے مقصد کی روح اللہ کی یاد اور ذکر ہے۔ جہاد کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر پیوستہ ہے۔ اس لیے برابر کے حریف کا سامنا اور دشمن سے مقابلہ کے وقت اللہ کی یاد کا حکم (اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال کی آیت نمبر ۴۵ میں اللہ کے ذکر کو جہاد میں کامیابی کا ذریعہ قرار دیا ہے دیکھئے

{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo}دیا گیا ہے۔

فتح الباری، ص: ۲۰۹/۱۱۔ تفسیر قرطبی، ص: ۱۱۵/۲، ص: ۱۲۱۔ ۱۲۸/۱۴۔ تفسیر ابن کثیر، ص: ۵۰۲، ۵۰۳/۳۔ شرح مسلم للنووی، ص: ۱۵/۱۷۔ مدارج السالکین لابن قیم، ص: ۳۹۷، ۳۹۹/۲۔
لنک
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
جنبى حالت ميں ذكر و اذكار كرنا !!!
ميں يہ معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ آيا كيا جنبى شخص كے ليے حالت جنابت ميں اللہ تعالى سے دعا كرنا اور اللہ كا ذكر كرنا ممكن ہے، اور خاص كر كيا وہ سونے كى دعائيں پڑھ سكتا ہے ؟

الحمد للہ:

اگر كوئى شخص حالت جنابت ميں ہو تو اس كے ليے اللہ كا ذكر كرنا اور اس سے دعا كرنا جائز ہے، چاہے سونے كى دعائيں، يا كوئى اذكار ہوں تو وہ بھى كر سكتا ہے.

اس كى دليل عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى درج ذيل حديث ہے:


ام المؤمنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہر حالت ميں اللہ تعالى كا ذكر كيا كرتے تھے "
صحيح مسلم كتاب الحيض حديث نمبر ( 558 ).
بعض شارحين حديث اس كى شرح كرتے ہوئے كہتے ہيں:

حديث اصل كے ليے مقرر ہے، وہ يہ كہ ہر حالت ميں اللہ تعالى كا ذكر كيا جائے، چاہے بے وضوء ہو يا پھر جنبى حالت ميں ہو اللہ كا ذكر سبحان اللہ، لا الہ الا اللہ، اللہ اكبر، الحمد اللہ وغيرہ دوسرے جائز اذكار اور دعائيں پڑھى جا سكتى ہيں، مسلمانوں كا اس پر اجماع ہے.

ليكن جنبى حالت ميں جو اذكار حرام ہيں وہ قرآن مجيد كى تلاوت ہے، كہ كوئى ايك آيت قرآن مجيد سے ديكھ كر يا زبانى پڑھنا جائز نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايسا كرنے كى ممانعت ثابت ہے.
ليكن جنبى شخص كے ليے مستحب يہ ہے كہ وہ جب سونا چاہے تو اپنى شرمگاہ دھو كر وضوء كرے.

اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

عمر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا ہم ميں سے كوئى شخص جنابت كى حالت ميں سو جايا كرے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جواب ديا:

" جى ہاں جب وہ وضوء كرلے "

صحيح بخارى كتاب الغسل حديث نمبر ( 280 ).
ديكھيں: الشرح الممتع تاليف ابن عثيمين ( 1 / 288 ) اور تو ضيح الاحكام تاليف بسام ( 1 / 250 ) اور فتاوى اسلاميۃ ( 1 / 232 ).

واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اللہ كے ذكر سے كيا مراد ہے ؟


اللہ كے ذكر سے كيا مراد ہے، آيا ذكر كى مجالس قائم كرنا اور ڈھول بجانا اور تالياں اور سيٹياں بجانا ذكر ہے يا كہ سرى اور جھرى اللہ كا ذكر كرنا اور قرآن مجيد خاموشى سے پڑھنا ذكر كہلاتا ہے ؟

الحمد للہ:

اللہ سبحانہ و تعالى كا ذكر عام ہے جو اللہ كے احكام پر عمل كرنا اور اللہ كے منع كردہ امور سے اجتناب اور تسبيح و تحميد يعنى سرى اور جہرى طور پر سبحان اللہ الحمد اللہ اور قرآن مجيد كى تلاوت كرنا، اور اس كے علاوہ اللہ تعالى نے جو افعال اور اقوال مشروع كيے ہيں يہ سب ذكر ميں شامل ہيں.

اللہ كے ذكر ميں ڈھول تماشہ اور تالياں اور سيٹياں بجانا اور اجتماعى ذكر كرنا شامل نہيں، بلكہ يہ بدعت ہے اور ايسا كرنا جائز نہيں.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے"

انتہى

اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء
الشيخ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز
الشيخ عبد الرزاق عفيفى
الشيخ عبد اللہ بن غديان
الشيخ عبد اللہ بن قعود

واللہ اعلم .

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 24 / 170 ).
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ذكر كا دورانيہ بڑھانے كے ليے كتاب و سنت كى دعاؤں سے معين تعداد ميں ورد كا اختراع كرنا

كيا كتاب و سنت سے ثابت شدہ روز مرہ دعاؤں كا ايك معين تعداد ميں ورد كرنا جائز ہے تا كہ عبادت كا وقت زيادہ كيا جا سكے، اور جتنا ممكن ہو مسجد ميں بيٹھا جائے، اور اس كى دليل كيا ہے ؟

الحمد للہ:

مسلمان كے ليے كثرت سے اللہ كا ذكر كرنا مستحب ہے؛

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ اے ايمان والو اللہ كا ذكر كثرت سے كيا كرو، اور صبح و شام اس كى پاكيزگى بيان كرو }الاحزاب ( 41 / 42 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:

{ اور بكثرت اللہ كا ذكر كرنے والے اور ذكركرنے والياں ان كے ليے اللہ تعالى نے مغفرت اور اجر عظيم تيار كر ركھا ہے } الاحزاب ( 35 ).
اس موضوع كى آيات بہت زيادہ ہيں، اور اسى طرح

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى ذكر كرنے كى وصيت كرتے ہوئے فرمايا:

" ہر وقت تيرى زبان اللہ كے ذكر كے تر رہنى چاہيے "

اسے ترمذى نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى حديث نمبر ( 2687 ) ميں صحيح قرار ديا ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ اذكار اور دعائيں دو قسم كى ہيں:

پہلى قسم:

جو معين تعداد ميں وارد ہيں، اس ميں اسى تعداد كا خيال ركھا جائے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے وارد ہے، نہ تو اس ميں كمى كى جائے اور نہ ہى زيادہ، مثلا نماز كے بعد والے اذكار اور صبح و شام كے وقت سو بار سبحان اللہ و بحمدہ، اور دن ميں ايك مرتبہ سو بار لا الہ اللہ وحدہ لا شريك لہ لہ الملك و لہ الحمد و ھو على كل شيئ قدير وغيرہ.

دوسرى قسم:

جس كى كوئى معين تعداد نہيں، مثلا تسبيح و تحميد كى مطلقا ترغيب دلائى گئى ہے كہ سبحان اللہ الحمد للہ اور اللہ اكبر كہا جائے، اور قرآن مجيد كى تلاوت كرنا.

تو انسان اس كو بغير كسى معين تعداد كا التزام كيے بغير مطلقا كر سكتا ہے جيسا نبىكريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مشروع كيا ہے.

مستقل فتاوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

" اذكار اور دعاؤں ميں اصل توقيف ہے ( يعنى شخص كو اسى طرح اذكار كرنا ہونگے جس طرح شريعت نے بيان كيا ہے ) چنانچہ وہ اللہ كى عبادت اس طرح ہى كريگا جو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زبان مبارك سے ثابت ہے.

اس بنا پر جو قولى يا عملى سنت سے وقت كے ساتھ مقيد ہو يا عدد يا جگہ كے ساتھ مقيد ہو يا كيفيت كے ساتھ تو ہم اسى طرح عبادت كرينگے جو شريعت سے ثابت ہے، اور شريعت نے جو اذكار اور دعائيں اور سارى عبادات مطلقا مشروع كى ہيں اسے تعداد يا جگہ يا وقت يا كيفيت كے ساتھ مقيد نہيں كيا تو ہمارے ليے اس ميں وقت يا تعداد يا جگہ يا كيفيت كا التزام كرنا جائز نہيں، بلكہ جس طرح مطلقا وارد ہے اسى طرح عبادت كرينگے"

ديكھيں: فتاوى اسلاميہ ( 4 / 178 ).

واللہ تعالى اعلم، اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
شرعى ورد كا ضابطہ !!!

كيا درود تاج، اور درود لكھى، اور درود تنجينا وغيرہ بدعت ميں شمار ہوتے ہيں ؟

الحمد للہ:

درود تاج اور لكھى اور درود تنجينا بدعت ہے اس كى احاديث سے كوئى دليل نہيں ملتى، بلكہ يہ شركيہ درود ہيں ان ميں بہت سارے شركيہ كلمات پائے جاتے ہيں، ذيل كى سطور ميں ہم اس كى وضاحت ميں كچھ كلمات اور ترجمہ پيش كيا جاتا ہے:

درود تاج:

اس كے خواص اور فضائل بيان كرتے ہوئے صاحب كتاب لكھتا ہے:

1 - اگر كسى شخص كو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زيارت كا دل و جان سے آرزو ركھتا ہو تو وہ عروج ماہ جمعہ كى شب نماز عشاء سے فارغ ہو كر باوضو اور قبلہ رخ اور خوشبو دار لباس پہن كر ايك سو ستر بار يہ درور پڑھ سو جائے اور گيارہ راتيں اسى طرح كرے تو ان شاء اللہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زيارت كا شرف حاصل ہو گا.
ليكن ايك صاحب كتاب لكھتے ہيں: يہ عمل چاليس جمعہ تك كرے.

2 - دل كى صفائى كے ہر روز فجر كى نماز كے بعد سات مرتبہ اور عصر كے بعد تين مرتبہ اور عشاء كے بعد تين بار پڑھے تو اس كا دل صاف ہو جائيگا.

3 - جادو اور آسيب و جن اور شياطين اور چيچك كى وبا سے بچنے اور انہيں دور كرنے كے ليے گيارہ بار پڑھ كر دم كرے.

4 - رزق كى كشادگى كے ليے فجر كى نماز كے بعد ہميشہ اس كا وظيفہ كرے.

5 - اور اگر بانجھ عورت اكيس كھجوروں پر سات سات بار پڑھ كر دم كرے اور روزانہ بيوى كو ايك كھجور كھلائے، اور حيض سے بيوى كى طہارت و غسل كے بعد ہم بسترى كرے تو اللہ كے فضل سے صالح فرزند پيدا ہو گا، اور اگر حاملہ عورت كو كچھ خلل ظاہر تو سات دن تك سات مرتبہ متواتر پانى دم كر كے پلائے.

6 - دشمنوں حاسدوں اور ظالموں كى زيادتيوں سے بچنے كے ليے روزانہ ايك دفعہ كافى ہے.

يہ مندرجہ بالا فضائل كہاں سے آئے اور كس نے بيان كيے اس كے متعلق كتاب ميں كوئى ذكر نہيں، بغير دليل اتنے بڑھے اور زيادہ فضائل چہ معنى دارد ؟

اب ہم درود تاج كے چند ايك كلمات اور اس كا ترجمہ بيان كرتے ہيں:

" دافع البلآء و الوبآء و القحط و المرض و الالم الخ.

وہ بلاء و وبا اور قحط و مرض اور دكھ كو دور كرنے والے ہيں.
كيا يہ شرك نہيں تو اور كيا ہے، اللہ كے علاوہ كوئى بھى تكليف اور دكھ دور نہيں كر سكتا چاہے ولى ہو يا نبى.


درود لكھى:

يہ درود سلطان محمود غزنوى كى طرف منسوب كيا جاتا ہے اور اس كى فضيلت ايك لاكھ درود كے برابر بيان كرتے ہيں.

كيا يہ يہ فضيلت درورد ابراہيمى كو بھى حاصل ہے ؟؟؟

اس كے علاوہ بھى كئى ايك درود بنا ركھے جن ميں درود مقدس جو سارے كا سارا ہى شركيہ كلمات پر مشتمل ہے، اور عربى كى بجائے عجمى كلمات كى بھرمار كى گئى ہے اللہ اس سے محفوظ ركھے.


دورد تنجينا:

اس كو عرش كے خزانوں ميں سے ايك خزانہ قرار ديا گيا ہے.

ہم پوچھتے ہيں اس كى دليل كہاں ہے، اور پھر يہ ياد ركھيں درود ايك عبادت ہے اور عبادت توقيفى ہوتى ہے جب يہ ثابت ہى نہ ہو تو اس پر عمل كيسے كيا جا سكتا ہے ؟ .


ذيل ميں ہم چند ايك ضوابط پيش كرتے ہيں جن سے آپ مشروع اور بدعتى ورد درود معلوم كر سكتے ہيں:

اول:

سب سے بہتر ورد وہ ہے جس كے الفاظ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے منقول ہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى اپنے نبى كے ليے وہ كلمات اور الفاظ اختيار كرتا ہے جو اكمل اورافضل ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم بھى اپنى امت كے ليے وہى اختيار كرتے ہيں جو افضل و اكمل ہيں.

دوم:

انسان كے ليے جائز ہے كہ وہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر غير وارد شدہ كلمات ميں درود پڑھے، ليكن اس ميں كوئى ايسا لفظ نہيں ہونا چاہيے جو شرعا ممنوع ہو مثلا اس ميں غلو ہو يا وسيلہ اور غير اللہ سے مانگنا شامل ہو.

سوم:

ذكر كرنےوالے كے ليے ذكر كا وقت يا تعداد يا كيفيت كى تحديد كرنى جائز نہيں، صرف صحيح دليل كى بنا پر ہى كيا جا سكتا ہے، كيونكہ اللہ تعالى كى عبادت اس طريقہ پر ہى ہو سكتى ہے جو اللہ نے اپنى كتاب ميں مشروع كيا ہے، يا پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى زبان مبارك سے مشروع كيا.

اور پھر عبادت ميں يہ بھى ضرورى ہے كہ وہ فى ذاتہ مشروع ہو اور اس كى كيفيت اور وقت اور مقدار بھى مشروع ہونى چاہيے، اور اگر كوئى شخص اپنے طور پر كوئى ورد اختيار كرے جس كے الفاظ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہ ہوں اور اس كى تعداد بھى محدود كرے يا اسے كسى معين وقت ميں كرنے كا التزام كرتا ہو تو يہ بدعت كا مرتكب ہو رہا ہے.

علماء اس بدعت كو اضافى بدعت كا نام ديتے ہيں كيونكہ اصل ميں عمل مشروع تھا، ليكن كيفيت يا مقدار اور وقت كى تحديد كے اعبتار سے اس ميں بدعت پيدا ہوئى ہے.

يہ علم ميں ركھيں كہ ہر قسم كى بھلائى اور خير صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع و پيروى كرنے ميں ہے، اور پھر جو شخص بھى ايجاد كردہ ورد كرنے والوں كى حالت پر غور كرے گا تو اكثر طور پر انہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت شدہ صبح و شام كے اذكار اور دعاؤں پر عمل كرنے ميں كوتاہى كرنے والا ہى پائيگا، سلف كہا كرتے تھے كہ انسان جب بھى كوئى بدعت ايجاد كرتا ہے تو اس كے بدلے اس طرح كى ايك سنت ترك كر ديتا ہے، درود تاج اور درود لكھى وغيرہ سے اس كى تائيد و تاكيد ہوتى ہے.

واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
اذكار و دعاؤں ميں معين عدد كى تحديد !!!


اگر شريعت ميں تحديد نہ كى گئى ہو تو كيا اذكار اور دعاؤں كى تحديد كرنا جائز ہے، مثلا يا لطيف ( 29 ) بار اور يا قھار ( 306 ) اور حسبنا اللہ و نعم الوكيل ( 450 ) بار الخ كہنا يا كہ ايسا كرنا صحيح نہيں، كيونكہ كتاب و سنت ميں مجھے تو اس كے استعمال كے جواز كى كوئى دليل نہيں ملى ؟

الحمد للہ:

يہ كلمات اور اذكار اس محدود عدد ميں ذكر كرنے كى كوئى اساس اور دليل نہيں اور نہ ہى صحيح ہيں، غالبا يہ بعض بدعتى قسم كے لوگوں كى بلكہ صوفيوں كى جانب سے تحديد كى گئى ہے وہ اپنى جانب سے اذكار اور ورد كى تحديد كرتے ہوئے كہتے ہيں:

اگر كوئى يہ كلمات اتنى بار پڑھے تو اسے اتنا اجروثواب حاصل ہو گا اور اس كا فلان كام ہو جائيگا، اور اس كى حفاظت ہو گى، اور جو فلاں ورد كريگا اسے اتنے لاكھ نيكياں مليں گى.

يہ معلوم ہونا چاہيے كہ يہ ان امور ميں شامل ہے جن كا وحى كے بغير جاننا ممكن نہيں، اس ميں قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ اذكار اور دعائيں دو قسموں پر مشتمل ہيں:
پہلى قسم:

وہ اذكار جو كتاب و سنت ميں وارد ہيں اور كسى وقت يا جگہ يا حالت كے ساتھ مقيد ہيں، تو يہ قسم اسى طرح ادا كى جائيگى جس طرح وہ وارد ہے اور جس جگہ اور جس وقت اور حالت يا الفاظ ميں بيان ہوا ہے وہيں اور اسى طرح ادا كى جائيگى يا كسى ہيئت ميں آئى ہے وہ بغير كسى كمى و زيادتى كے اسى طرح دعا پڑھى جائيگى.

دوسرى قسم:

ہر وہ دعا اور ذكر جو مطلق ہے اور اسے كسى وقت يا جگہ كے ساتھ مقيد نہيں كيا گيا: اس كى دو حالتيں ہيں:

پہلى حالت:

وہ دعا اور ذكر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت اور وارد ہو تو وہى الفاظ ادا كيے جائينگے اور اس كے ليے كوئى وقت يا جگہ يا عدد كى تحديد نہيں كى جائيگى.

دوسرى حالت:

وہ ذكر اور دعا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے تو ثابت نہ ہو بلكہ دعا كرنے والا شخص اپنى جانب سے ادا كرے يا پھر وہ سلف سے منقول ہو تو بندے كے ليے يہ دعا اور ذكر پانچ شروط كے ساتھ جائز ہو گا:
1 - وہ بہتر اور اچھے الفاظ اختيار كرے، كيونكہ يہ بندے كا اپنے رب اور معبود كے ساتھ مناجات كا مقام ہے.

2 - وہ الفاظ عربى معانى كے موافق ہوں.

3 - وہ دعاء كسى بھى شرعى محذور و ممانعت سے خالى ہو، مثلا يہ كہ وہ اللہ كے علاوہ كسى دوسرے سے مدد طلب كرنے وغيرہ پر مشتمل نہ ہو.

4 - وہ مطلقا ذكر اور دعاء ميں سے ہو اسے كسى وقت يا جگہ يا حالت كے ساتھ مقيد نہ كيا جائے.

5 - وہ اسے سنت اور طريقہ نہ بنا لے كہ اس كى مواظبت اور التزام كرے اور تسلسل كے ساتھ ادائيكى كرنا شروع كر دے. اھـ

ماخوذ از كتاب: تصحيح الدعاء للشيخ بكر ابو زيد ( 42 ) كچھ تصرف كے ساتھ.

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر سوال ميں مذكور الفاظ تو شرعى ہيں اور كتاب و سنت ميں وارد ہيں، ليكن انہيں اس تعداد ميں محدود كرنا بدعت ہے جس كا التزام كرنا صحيح نہيں، بلكہ انسان دعاء كے دوران ان صفات كا واسطہ دے كر اپنے رب سے مناجات كرے اور اس كے علاوہ باقى سب اسماء اللہ كے ساتھ دعا مانگے، كسى اسم كے معين عدد اور جگہ كى اپنى جانب سے تحديد مت كرے.

بلكہ جو شريعت ميں مخصوص اور محدود وارد ہو اس پر ہم التزام كريں، اور جو وارد نہيں اسے ہم اپنى جانب سے مخصوص نہيں كر سكتے، كيونكہ يہ مقام نبوت پر تعدى اور ظلم و زيادتى شمار ہو گى.

واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
صرف لفظ جلالہ " اللہ " كا ذكر كرنا


ميں نے ايك عالم دين سے صوفيوں كى بدعات كا تذكرہ سنا جس ميں اس نے بيان كيا كہ وہ صرف لفظ جلالہ " اللہ " كا ذكر كرتے ہوئے اللہ اللہ اللہ كہتے ہيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايسا كرنا ثابت نہيں، اور نہ ہى صحابہ كرام نے ايسا عمل كيا ہے، ليكن كيا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان نہيں ہے جس كا معنى يہ ہے كہ قيامت اس بندے پر قائم نہيں ہو گى جو اللہ اللہ كريگا، اور يہ ذكر صرف لفظ جلالہ پر مشتمل ہے، جسے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ذكر كرنے والے كى مدح سرائى كرتے ہوئے بيان كيا ہے، اور يہاں استثناء كرتے ہوئے كہا كہ قيامت سب سے برى اور شرير ترين لوگوں پر قائم ہو گى ؟

الحمد للہ:

اول:

صرف لفظ جلالہ كا ذكر كرنا يعنى " اللہ اللہ اللہ " كہنا بدعت ہے اور ان اذكار ميں شامل ہوتا ہے جو جاہل قسم كے صوفيوں اور ان كى موافقت كرنے والوں نے ايجاد كيا ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام سے اس كا ثبوت نہيں ملتا.

دوم:

بعض لوگ جو اس ذكر كى مشروعيت پر استدلال كرتے اور دلائل ديتے ہيں وہ صرف گرے پڑے شبہات ہيں جس سے اس قسم كا ذكر كى مشروعيت كبھى ثابت نہيں ہوتى ان دلائل درج ذيل دلائل شامل ہيں:

انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" قيامت اس وقت قائم ہو گى جب زمين ميں كوئى اللہ اللہ كرنے والا نہ بچے گا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 148 ).
اس حديث ميں صرف لفظ جلالہ " اللہ اللہ " كا ذكر كرنے كى كوئى دليل نہيں ملتى اس كى كئى وجوہات ہيں:

1 ـ بعض روايات ميں آيا ہے كہ:

" كسى لا الہ الا اللہ كہنے والے پر قيامت قائم نہيں ہو گى "
يہ روايت مسند احمد ( 3 / 268 ) اور صحيح ابن حبان ( 15 / 262 ) اور مستدرك حاكم ( 4 / 540 ) ميں ہے، بلكہ يہ مسلم كى بھى ايك روايت ہے جيسا كہ قاضى عياض نے ابن ابى جعفر كى روايات سے نقل كيا ہے.
ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 2 / 178 ).
يہ روايت پہلى روايت كى شرح كرتى ہے تو معنى يہ ہو گا: مؤحدين جو لا الہ الا اللہ كہنے والے ہونگے ان پر قيامت قائم نہيں ہو گى.

2 ـ اس حديث سے يہ مراد لينا جائز نہيں كہ صرف لفظ جلالہ " اللہ اللہ " كرنے والے قيامت قائم نہيں ہو گى، اور اس كے علاوہ جو دوسرے ذكر كرتے ہونگے ان پر قيامت قائم ہو گى، كيونكہ اس سے انتہائى يہى گمان كيا جا سكتا ہے كہ اسم مفرد كا ذكر كرنا مستحب ہے نہ كہ فرض، تو پھر كسى ايسے امر پر قيامت كى ہولناكيوں سے نجات كا مدار كيسے ہو سكتا ہے جو صرف مستحب ہو؟!

3 ـ پھر عربى لغت بھى اس كى معاونت نہيں كرتى جو اس سے صرف اسم مفرد كا ذكر كرنے پر استدلال كرنا چاہتا ہو، كيونكہ صرف اسم مفرد كوئى تام معنى نہيں ديتا، اور اللہ كا ذكر كرنے كا معنى يہ ہے كہ اس ميں ضرورى اللہ كى تعريف اور حمد كى صفات پائى جانى چاہيے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" لغت عرب كے اہل علم اور باقى سارى لغات كے عالم بھى اس پر متفق ہيں كہ صرف اكيلے نام پر سكوت بہتر اور صحيح نہيں، اور نہ ہى يہ مكمل اور تام جملہ ہے، اور نہ ہى مفيد كلام بنتى ہے " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 10 / 564 ).

4 ـ صحابہ كرام رضى اللہ عنہم اور تابعين عظام اس حديث سے اسم مفرد كا ذكر كرنا مستحب نہيں سمجھے، اور نہ ہى ان ميں سے كسى ايك سے ثابت ہے كہ انہوں نے اس حديث سے اس كا استنباط كيا ہو، اس استدلال كے باطل ہونے كے ليے يہى ايك دليل كافى ہے.

5 ـ پھر اس حديث كى شرح ميں علماء كرام كے اقوال تسلسل كے ساتھ ثابت ہيں ليكن كسى ايك سے بھى ثابت نہيں كہ انہوں نے اس سے اسم مفرد پر استدلال كيا ہو.

امام نووى رحمہ اللہ مسلم كى شرح ميں كہتے ہيں:

" وہ اللہ اللہ كہتا ہے " لفظ جلالہ كى ہاء پر پيش پڑھے، ليكن بعض لوگ غلط پڑھتے ہوئےاس پر پيش نہيں پڑھتے " انتہى
ديكھيں: شرح مسلم نووى ( 2 / 178 ).

اور تحفۃ الاحوذى ميں طيبى رحمہ اللہ كا قول منقول ہے:

" حتى لا يقال " كا معنى يہ ہے كہ اللہ كا نام نہ ليا جائے اور نہ ہى اللہ كى عبادت كى جائے " انتہى
ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( 6 / 375 ).

اور مناوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس سے يہ مراد نہيں كہ يہ كلمہ نہيں بولا جائيگا، بلكہ اس سے مراد يہ ہے كہ حقيقى طور پر اللہ كا ذكر نہيں كيا جائيگا، گويا كہ قيامت جب تك زمين ميں كوئى كامل انسان ہے قيامت قائم نہيں ہو گى، يا پھر تكرار اس سے كنايہ ہے كہ كسى برائى پر دل سے بھى انكار نہيں كيا جائيگا؛ كيونكہ جو كوئى كسى برائى كو ديكھ كر اس كا انكار كرتا اور اسے روكتا ہے تو اس كى قباحت كى بنا پر " اللہ اللہ " كہتا ہے.
تو معنى يہ ہوا كہ: اس وقت تك قيامت قائم نہيں ہو گى جب تك برائى كو روكنے والا موجود ہو گا " انتہى
ديكھيں: فيض القدير ( 6 / 417 ).

اور شيخ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس كا معنى يہ نہيں كہ مسلمان بيٹھ كر صرف اللہ كے اسم مفرد " اللہ اللہ " كا ذكر كرنے لگے، اور سو بار " اللہ اللہ اللہ " كہے، جيسا كہ اكثر طرق سے منسلك لوگ كرتے ہيں، اور اس كى شرح و تفسير مسند احمد كى روايت ميں پائى جاتى ہے جس ميں بيان ہوا ہے كہ:

" جب تك زمين ميں كوئى لا الہ الا اللہ كہنے والا ہو گا قيامت قائم نہيں ہو گى "
لہذا پہلى روايت ميں لفظ مفرد توحيد سے كنايہ ہے، اور اس كا معنى يہ ہے كہ جب تك اللہ كى عبادت كرنے والا ايك بھى شخص زمين ميں ہو گا قيامت قائم نہيں ہو گى.

اور اس كى صراحت ابن سمعان كى حديث ميں موجود ہے جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے روايت كيا ہے، اس ميں بيان ہوا ہے كہ جب اللہ تعالى قيامت كرنا چاہے گا تو ايك پاكيزہ ہوا بھيجے گا جو ہر مومن كى روح كو قبض كر لےگى، تو زمين پر صرف شرير قسم كے لوگ ہى رہ جائينگے، اور ان لوگوں پر قيامت قائم ہو گى"

اور اس ميں زيادہ سے زيادہ يہى ہے كہ يہ ذكر مستحب ہے، تو كيا مستحب ترك كرنے والے پر ہى قيامت قائم ہو گى، يعنى جب سب مسلمان اپنے واجبات و فرائض كى ادائيگى كرتے رہيں اور ان كے عقائد صحيح ہوں، ليكن انہوں نے اس مستحب معاملہ ميں خلل پيدا كيا تو ان پر قيامت قائم ہو جائيگى ؟! " انتہى


واللہ اعلم .
الاسلام سوال و جواب
 
Top