• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ذکر الٰہی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ذکر الٰہی- اللہ تعالی کی پسندیدہ عبادت

فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم :
(( أَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ أَنْ تَمُوْتَ وَلِسَانُکَ رَطْبٌ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔ ))
صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۶۳۔
’’اللہ تعالیٰ کو یہ عمل بہت پیارا لگتا ہے کہ تو اس حال میں وفات پائے کہ تیری زبان اللہ کے ذکر سے تر ہو۔ ‘‘
ذکر الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ دل کو اس کے لیے متنبہ اور بیدار کیا جائے۔
امام طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
رطوبت لسان کا معنی زبان پر ذکر کا آسان ہونا ہے اس کی ضد زبان کا خشک ہونا ہے اور زبان پر جاری ہونے کا مفہوم اللہ کے ذکر پر ہمیشگی کرنا ہے۔
ذکر باللسان کو ذکر اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ذکرِ قلبی پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ جب ذکر سے مراد بکثرت قول لسانی لیا جانے لگا تو لفظ ذکر سے فوراً یہی مفہوم ذہن میں آتا ہے اور اس سے وہ ذکر قلبی مراد ہے جسے عمومی حالات میں برقرار رکھنا واجب ہے۔ یہ مفہوم بھی بیان کیا جاتا ہے کہ جن الفاظ کو پڑھنے میں ترغیب واقع ہوئی ہے انہیں بھی اور ان کے علاوہ مزید اور پڑھنا مثلاً جیسے الباقیات الصالحات ہیں۔ جن سے سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ مراد ہے۔
اس کے علاوہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلاَّ بِاللّٰہِ، بِسْمِ اللّٰہِ، حَسْبِیَ اللّٰہ ُاور استغفار وغیرہ پڑھنا اور دنیا اور آخرت کی بھلائی کی دعا بھی ذکر اللہ میں شامل ہے۔
ذکر اللہ سے مراد کسی واجب یا مندوب عمل پر ہمیشگی کرنا بھی ہوتا ہے مثلاً تلاوت قرآن، حدیث پڑھنا، علم پڑھانا، نفلی نماز پڑھنا وغیرہ۔
بسا اوقات معنی کے استحضار کے بغیر ہی ذکرِ لسانی کی وجہ سے ذاکر کو اجر مل جاتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دوسرا معنی مراد نہ لیتا ہو اور اگر بولنے کے ساتھ ساتھ ذکر قلبی بھی مل جائے تو وہ کامل ذکر ہوجاتا ہے اور اگر ذکر کرنے والا قلبی توجہ کے ساتھ ساتھ ذکر کے معنی پر بھی توجہ دے اور جو ذکر کے اندر اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اللہ کی صفات سے نقائص کی نفی ہے تو اس کا ذکر درجہ کمال میں اور آگے بڑھ جائے گا۔
چنانچہ اگر یہ اشیاء کسی عمل مثلاً فرضی نماز، جہاد وغیرہ میں مل جائیں تو ان کا درجہ بھی بڑھ جاتا ہے اور اگر انسان توجہ کو درست کرلے اور خالص اللہ تعالیٰ کے لیے ہی کرلے تو ان اعمال کا درجہ کامل ترین ہوجاتا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ذکر لسانی کا مطلب وہ الفاظ ہیں جو تسبیح و تحمید اور تمجید پر دلالت کرتے ہیں اور ذکر قلبی سے مراد ذات اور صفات کے دلائل میں اور احکامات جاننے کے لیے اوامر اور نواہی کا مکلف بنایا گیا ہے ان کے دلائل اور اللہ تعالیٰ کی مخلوقات کے اسرار میں غور و فکر کرنا ہے اور ذکر بالجوارح کا مطلب فرمانبرداری میں غرق ہونا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے نماز کو ذکر کہا۔ فرمایا:
{فَاسْعَوْا إِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ o} [جمعہ:۹]
’’ اللہ کے ذکر(نماز) کی طرف جلدی آجایا کرو۔ ‘‘
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ذکر الٰہی کی دو اقسام ہیں
(۱) ذکر قلبی
(۲) ذکر لسانی


اور پھر ذکر قلبی کی دو اقسام ہیں
(۱) اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی میں اس کی بادشاہت میں اور آسمان و زمین میں اس کی نشانیوں میں غورو فکر کرنا۔ اسی کے متعلق حدیث ہے کہ ذکر خفی بہترین ذکر ہے۔
ذکر خفی سے مراد مذکورہ اشیاء ہی ہیں۔ ذکر قلبی کی یہ قسم اذکار میں سے سب سے زیادہ بلند و بالا اہمیت کی حامل ہے۔
(۲) امر اور نہی کے وقت ذکر قلبی یعنی جس کا حکم ہوا اسے کر گزرنا اور جس سے روکا گیا اس سے رک جانا اور شبہے والی اشیاء سے توقف کرنا ہے۔
صرف ذکر لسانی اذکار میں سب سے کمزور درجہ رکھتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کی کوئی فضیلت نہیں بلکہ اس کی بھی بہت سی فضیلتیں ہیں۔ جیسا کہ احادیث میں وارد ہوا ہے۔
(تفصیل کے لیے کتب احادیث کی طرف رجوع فرمائیں)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ئَآمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا o} [الاحزاب:۴۱]
’’ اے ایمان والو! اللہ کا بہت زیادہ ذکر کیا کرو۔ ‘‘
بندوں پر اللہ تعالیٰ نے مختلف اقسام کی نعمتیں اور احسانات کیے جس کی بناء پر انہیں اکثر حالات میں تسبیح (سبحان اللہ کہنا) اور تہلیل (لا الہ الا اللہ کہنا) اور الحمد للہ کا بکثرت ذکر کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ ذکر کرنے والے بہت زیادہ ثواب اور اچھے ٹھکانے والے بن سکیں۔
بندوں کی سہولت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حد بندی بھی نہیں فرمائی۔ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان کلمات کا ذکر بے وضوء، باوضوء اور جنبی آدمی بھی کرسکتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا بکثرت ذکر اسی طرح ممکن ہے کہ انسان بیٹھا ہوا لیٹا ہوا اور کھڑا بھی ذکر کرتا رہے۔
ذکر الٰہی کی اہمیت بتاتے ہوئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے بندوں پر جو بھی فرض لاگو کیا اس کی حد بندی بھی فرما دی اور عذر کی حالت میں اس کی سہولت بھی دے دی سوائے ذکر کے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نہ تو اس کی حد بندی کی اور نہ ہی اس کے چھوڑنے میں کسی قسم کا عذر قبول کیا مگر ان لوگوں کو معذور قرار دیا جو اس کے چھوڑنے پر بہت زیادہ ہی مجبور ہوں۔
فرمایا:
{فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ o} [النساء:۱۰۳]
’’اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے رہو۔ ‘‘
یعنی دن ہو یا رات، خشکی ہو یا تری، سفر ہو یا حضر، ذکر کرنے والا غنی ہو یا فقیر، بیمار ہو یا تندرست، چھپ کر کرے یا اعلانیہ کرے، ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہیے۔ چنانچہ جب تم یہ کام کرلو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمت نچھاور کر دیں گے اور اس کے فرشتے تمہارے لیے مغفرت کی دعا کریں گے۔
فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
(( أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرِ أَعْمَالِکُمْ وَأَزْکَاھَا عِنْدَ مَلِیْکُمُ وَأَرْفَعِھَا فِيْ دَرَجَاتِکُمْ وَخَیْرٍ لَّکُمْ مِنْ أَنْفَاقِ الذَّھَبِ وَالْوَرِقِ، وَخَیْرٍ لَّکُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّکُمْ فَتَضْرِبُوْا أَعْنَاقَھُمْ وَیَضْرِبُوْا أَعْنَاقَکُمْ؟ )) قَالُوْا: بَلیٰ، قَالَ: (( ذِکْرُ اللّٰہِ۔ )) قَالَ مَعَاذُ بْنُ جَبَلٍ رضی اللہ عنہ : مَا شَيْئٍ أَنْجٰی مِنْ عَذَابِ اللّٰہِ، مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ۔ ))
صحیح سنن الترمذي، رقم: ۲۶۸۸۔

’’ کیا میں تم کو بہتر عمل نہ بتاؤں جو تمہارے رب کے ہاں بڑا ہی پاکیزہ اور تمہارے درجات میں سب سے زیادہ بلند درجے والا ہے اور تمہارے لیے سونے اور چاندی کے خرچ کرنے سے بھی بہتر ہے اور تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہے کہ تم دشمن سے ملو اور تم ان کی گردنیں اڑاؤ اور وہ تمہاری گردنیں اڑائیں؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: جی ضرور بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ذکر سے بڑھ کوئی چیز اللہ کے عذاب سے نجات نہیں دیتی۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
{وَاذْکُرْ رَّبَّکَ فِیْ نَفْسِکَ تَضَرُّعًا وَّخِیْفَۃً وَّدُوْنَ الْجَھْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ وَلَا تَکُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ o} [الاعراف:۲۰۵]
’’ اور تُو اپنے رب کو صبح و شام اپنے دل میں عاجزی اور خوف کے ساتھ یاد کیا کر اور اونچی آواز کی نسبت کم آواز کے ساتھ اور غافلوں میں سے نہ ہوجانا۔ ‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور عاجزی کے ساتھ صبح اور شام اپنے نفس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کر اور اس کی یاد سے غفلت مت برت۔
مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( مَثَلُ الَّذِيْ یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِيْ لَا یَذْکُرُ رَبَّہٗ مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَیِّتِ۔ ))
أخرجہ البخاري في کتاب الدعوات، باب: فضل ذکر اللّٰہ عزوجل، رقم: ۶۴۰۷۔

’’ اس انسان کی مثال جو اللہ کا ذکر کرتا ہے اور جو ذکر نہیں کرتا زندہ اور مردے شخص کی سی ہے۔ ‘‘
قرآن مجید کے بیشتر مقامات میں ذکر الٰہی کا تذکرہ اور اس سے غفلت کی نہی موجود ہے اور ذکر کرنے والوں کی مدح و ستائش اور فلاح کا مدار ذکر اللہ کی کثرت کو قرار دیا گیا ہے اور ان سب سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ان لوگوں کا ذکر کرتا ہے۔
اعمال صالحہ کا اختتام بھی ذکر اللہ پر ہی ہوتا ہے مثلاً روزہ، حج، نماز، جمعہ وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آیات سے نفع اٹھانے والے ذاکرین کو خصوصی طور پر اولو الالباب (عقل والے) کہا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے سب اعمال کا ساتھی اور روح قرار دیا یعنی نماز، روزہ، حج وغیرہ میں اللہ کا ذکر ہے بلکہ حج، تلبیہ اور حج کے مقصد کی روح اللہ کی یاد اور ذکر ہے۔ جہاد کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر پیوستہ ہے۔ اس لیے برابر کے حریف کا سامنا اور دشمن سے مقابلہ کے وقت اللہ کی یاد کا حکم (اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال کی آیت نمبر ۴۵ میں اللہ کے ذکر کو جہاد میں کامیابی کا ذریعہ قرار دیا ہے دیکھئے {یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo}دیا گیا ہے۔
فتح الباری، ص: ۲۰۹/۱۱۔ تفسیر قرطبی، ص: ۱۱۵/۲، ص: ۱۲۱۔ ۱۲۸/۱۴۔ تفسیر ابن کثیر، ص: ۵۰۲، ۵۰۳/۳۔ شرح مسلم للنووی، ص: ۱۵/۱۷۔ مدارج السالکین لابن قیم، ص: ۳۹۷، ۳۹۹/۲۔

حوالہ
 

aqeel

مشہور رکن
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
300
ری ایکشن اسکور
315
پوائنٹ
119
ًًما شاء اللہ صوفیا عظام کی زبانی فضیلت ذکر اللہ پر بہت خوبصورت تحریر ہے۔
بس کوئی ساتھی یہ بتا دے کہ ذکر قلبی صحابہ رضوان اللہ کیسے کرتے تھے؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ًًما شاء اللہ صوفیا عظام کی زبانی فضیلت ذکر اللہ پر بہت خوبصورت تحریر ہے۔
یہ صوفیاء والے اذکار کی فضیلت بیان نہیں ہوئی۔ بلکہ یہ مسنون ذکر الہی کی فضیلت کا بیان ہے
جبکہ صوفیاء کس طرح ذکر کرتے ہیں۔ اور کیا عقائد رکھتے ہیں۔ ملاحظہ کریں۔

صوفی حضرات : کے مختلف طریقے اور سلسلے ہیں ، مثلا تیجانیہ ، نقشبندیہ ، شاذلیہ ، قادریہ ، رفاعیہ ،اور اس کے علاوہ دوسرے سلسلے جن پر چلنے والے یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ہی حق پر ہیں ان کے علاوہ کو‎ئی اور حق پر نہیں ، حالانکہ اسلام تفرقہ بازی سے منع کرتا ہے ، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
{ اور تم مشرکوں میں سے نہ بنو ان لوگوں میں سے جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور خود بھی گروہ گروہ ہو گئے ، ہر گروہ اس چیز پر جو اس کے پاس ہے وہ اس میں مگن اور اس پر خوش ہے } الروم ( 31- 32 )
صوفی حضرات : نے اللہ تعالی کے علاوہ انبیاء اور اولیاء زندہ اور مردہ کی عبادت کرنی شروع کردی ، اور وہ انہیں پکارتے ہوئے اس طرح کہتے ہیں ( یا جیلانی ، یا رفاعی ، یا رسول اللہ مدد ، اور یہ بھی کہتے ہیں ، یا رسول اللہ آپ پر ہی بھروسہ ہے ) ۔
اور اللہ تبارک وتعالی اس سے منع فرماتا ہے کہ اس کے علاوہ کسی اور کو ایسی چیز میں پکارا جاۓ جس پر وہ قادر نہیں بلکہ یہ اسے شرک شمار کیا ہے ۔
جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :
{ اور اللہ تعالی کو چھوڑ کر ایسی چیز کی عبادت مت کرو جو آپ کو کوئی نفع نہ دے سکے اور نہ ہی کوئِی نقصان اور ضرر پہنچا سکے ، پھر اگر آپ نے ایسا کیا تو تم اس حالت میں ظلم کرنے والوں میں سے ہو جاؤ گے } یونس ( 106 )
اور صوفی حضرات : کا یہ اعتقاد ہے کہ کچھ قطب اور ابدال اور اولیاء ہیں جنہیں اللہ تعالی نے معاملات اور کچھ امور سپرد کیے ہیں جن میں وہ تصرف کر تے ہيں ۔
اوراللہ تعالی نےتو مشرکوں کے جواب کوبیان کرتے ہوۓ یہ فرمایاہے :
{ اور معاملات کی تدبیر کون کرتا ہے ؟ تو وہ ضرور یہ کہیں گے کہ اللہ تعالی ہی کرتا ہے } یونس ( 31 )
تو مشرکین عرب کو ان صوفیوں سے اللہ تعالی کی زیادہ معرفت تھی ۔
اورصوفی حضرات مصائب میں غیراللہ کی طرف جاتے اور ان سے مدد طلب کرتے ہیں ۔
لیکن اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
{ اوراگر اللہ تعالی تجھے کوئی تکلیف پہنچائے تو اللہ تعالی کے علاوہ کوئ بھی اسےدور کرنے والا نہیں ، اور اگرتجھے اللہ تعالی کوئی نفع دینا چاہے تو وہ ہر چیز پر قادر ہے } الانعام ( 17 )
بعض صوفی حضرات وحدۃ الوجود کا عقیدہ رکھتے ہیں ، تو ان کے ہاں خالق اور مخلوق نہیں بلکہ سب مخلوق اور سب الہ ہیں ۔
صوفی حضرات : زندگی میں زھد اور اسباب کو حاصل نہ کرنے اور جھاد کو ترک کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔
لیکن اللہ تبارک وتعالی کافرمان ہے :
{ اور جوکچھ اللہ تعالی نے آپ کودے رکھاہے اس میں آخرت کے گھر کی بھی تلاش رکھ ، اور اپنے دنیوی حصے کو نہ بھول } القصص (77 ) اور اللہ رب العزت کا فرمان ہے : { اور تم ان کے مقابلے کے لیے اپنی طاقت کے مطابق قوت تیار کرو } الانفال ( 60 )
صوفی حضرات : اپنے مشائخ کو احسان کے درجہ پر فائز کرتے ہیں اور اپنے مریدوں سے ان کا مطالبہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کا ذکر کرتے وقت اپنے شیخ کا تصور کریں حتی کہ نماز میں بھی شیخ کا تصور ہونا چاہئے ، حتی کہ ان میں سے بعض تونما ز پڑہتے وقت شیخ تصویر اپنے آگے رکھتے تھے ۔
حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : ( احسان یہ ہے کہ عبادت ایسے کرو گویا کہ اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہو، اگر آپ اللہ تعالی کونہیں دیکھ رہے تو اللہ تعالی تمہیں دیکھ رہا ہے ) صحیح مسلم ۔
صوفی حضرات : رقص وسرور اور گانے بجانے اور موسیقی اور اونچی آواز سے ذکرکو جائز قرار دیتے ہیں ۔
اور اللہ تعالی کا فرمان تو یہ ہے کہ :
{ ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالی کا ذکر کیا آتا ہے تو ان کے دل دھل جاتے ہیں } الانفال ( 3 )


پھر آپ ان کو دیکھیں گے وہ صرف لفظ جلالہ ( اللہ اللہ اللہ ) کا ذکر کرتے ہیں جو کہ بدعت اور ایسی کلام ہے جو کہ شرعی معنی کے لحاظ سے غیر مفید ہے ، بلکہ وہ تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ صرف ( اھ ، اھ ) اور یا پھر ( ہو ، ہو ، ہو ) کرنا شروع کردیتے ہیں ۔
اور اسلام مصادر کتاب وسنت میں تو یہ ہے کہ بندہ رب ایسے کلام سے یاد اور اس کا ذکر کرے جو کہ صحیح اور مفید ہو جس پر اسے اجروثواب سے نوازا جاۓ ، مثلا سبحان اللہ ، الحمد للہ ، لاالہ الا اللہ ، اللہ اکبر ، اوراس طرح کے دوسرے اذکار ۔


صوفی حضرات : مجالس ذکر میں عورتوں اور بچوں کے نام سے غزلیں اور اشعار گاتے اور پڑھتے ہیں اور اس میں باربار عشق و محبت اور خواہشات کی باتیں ایسے دہراتے ہیں گویا کہ وہ رقص وسرور کی مجلس میں ہوں ، اور پھر وہ مجلس کے اندر تالیوں اور چیخوں کی گونج میں شراب کا ذکر کرتے ہیں اور یہ سب کچھ مشرکین کی عادات وعبادات میں سے ہے ۔
اللہ تعالی کا اس کے متعلق فرمان ہے :
{ اور ان کی نماز کعبہ کے پاس صرف یہ تھی کہ سیٹیاں بجانا اور تالیاں بجانا } الانفال ( 35 )
مکاء سیٹی بجانا اور تصدیۃ تالی بجانے کو کہتے ہیں ۔
اور بعض صوفی اپنے آپ کو لوہے کی سیخ مارتے اور یہ پکارتے ہيں (یاجداہ) تو اس طرح شیطان آکر اس کی مدد کرتا ہے کیونکہ اس نے غیراللہ کو پکارا ، اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
{ اور جو شخص رحمن کی یاد سے غافل ہو جاۓ ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں وہی اس کا ساتھی رہتا ہے } الزخرف ( 36 )
صوفی حضرات : کشف اور علم غیب کا دعوی کرتے ہیں اور قرآن کریم ان کے اس دعوی کی تکذیب کرتا ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :
{ کہہ دیجئے کہ آسمان وزمین والوں میں سے اللہ تعالی کے علاوہ کوئ بھی غیب کا علم نہیں جانتا } النمل ( 65 )
صوفی حضرات : کا گمان ہے کہ اللہ تعالی نے دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پیدا کی ہے ، اور قرآن کریم ان کی تکذیب کرتے ہوۓ کہتا ہے :
{ میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لۓ پیدا کیا ہے } الذاریات ( 56 )
اور اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کومخاطب کرتے ہوۓ فرمایا یہ فرمایا ہے :
{ آپ اس وقت تک اپنے رب کی عبادت کرتے رہيں یہاں تک کہ آپ کو موت آجاۓ } الحجر ( 99 )
صوفی حضرات : اللہ تعالی کو دنیا میں دیکھنے کا گمان کرتے ہیں اور قرآن مجید ان کی تکذیب کرتا ہے جیسا کہ موسی علیہ السلام کی زبان سے کہا گیا { اےمیرے رب ! مجھے اپنا دیدار کردیجئے کہ میں آپ کو ایک نظر دیکھ لوں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا تم مجھ کو ہر گز نہیں دیکھ سکتے } الاعراف ( 143 )
صوفی حضرات : کا گمان یہ ہے کہ وہ بیداری کی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ کے بغیر علم ڈاریکٹ اللہ تعالی سے حاصل کرتے ہیں ، تو کیا وہ صحابہ کرام سے بھی افضل ہیں ؟۔
صوفی حضرات : اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطہ کے بغیرڈاریکٹ اللہ تعالی سے علم حاصل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : میرے دل نے میرے رب سے بیان کیا ۔
صوفی حضرات : میلاد مناتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کے نام سے مجلسیں قائم کرتے ہیں ، اور ان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی مخالفت کرتے ہوۓ شرکیہ ذکر اور قصیدے اور اشعار پڑھتے ہیں جن میں صریح شرک ہوتا ہے ۔
تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر ، عمر اور عثمان اور علی رضي اللہ تعالی عنہم اور آئمہ اربعہ وغیرہ نے میلاد منایا تو ان کیا ان کی عبادت اور علم زیادہ صحیح ہے یا کہ صوفیوں کا ؟
صوفی حضرات : قبروں کا طواف یا ان کا تبرک حاصل کرنے کے لۓ سفر کرتے اور ان پر جانور ذبح کرتے ہیں جوکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی صریحا مخالفت ہے ۔ فرمان نبوی ہے :
( صرف تین مسجدوں کی طرف سفر کیا جاۓ مسجد حرام ، اور میری یہ مسجد ، اور مسجد اقصی ) صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔
صوفی حضرات : اپنے مشائخ کے بارہ میں بہت ہی متعصب ہیں اگرچہ وہ اللہ تعالی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت ہی کیوں نہ کریں ، اور اللہ تعالی کا تو فرمان یہ ہے : { اے ایمان والو ! اللہ تعالی اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو } الحجرات ( 2 )
صوفی حضرات : استخارہ کے لیے طلسم اور حروف استعمال کرتے اور تعویذ گنڈا وغیرہ کرتے ہیں ۔
صوفی حضرات : وہ درود جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں نہیں پڑھتے بلکہ ایسے بناوٹی درود پڑھتے ہیں جس میں صریح تبرک اور شرک پایا جاتا ہے جس پر اللہ تعالی کی رضا حاصل نہیں ہوتی ۔
اور رہا یہ سوال کہ کیا صوفیوں کے مشائخ کا رابطہ ہے تو یہ صحیح ہے ان کا رابطہ شیطان سے ہے نہ کہ اللہ تعالی سے ۔
تو وہ ایک دوسرے کے دل میں چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے ہیں تاکہ انہیں دھوکہ میں ڈالیں اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے دشمن بہت سے شیطان پیدا کیے تھے کچھ آدمی اور کچھ جن ، جن میں سے بعض بعض کو چکنی چپڑي باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے تھے تا کہ ان کو دھوکہ میں ڈال دیں اوراگر اللہ تعالی چاہتا تو یہ ایسے کام نہ کرتے } الانعام ( 112 )
اور اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے :
{ اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں } الانعام (121)
اور اللہ سبحانہ وتعالی کے فرمان کا ترجمہ ہے :
{ کیا میں تمہیں بتا‎ؤں کہ شیطان کس پر اتر تے ہیں وہ ہر ایک جھوٹے گنہگار پر اترتے ہیں } الشعراء ( 221 - 222 )
تو یہ وہ حقیقی رابطہ جو ان کے درمیا ن ہوتا ہے نہ کہ وہ رابطہ جو وہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی سے رابطہ جو کہ بہتان اور جھوٹ ہے اور اللہ تعالی اس سے منزہ اور بلند وبالا ہے ۔ دیکھیں معجم البدع ( 346 - 359 )
اور صوفیوں کے بعض مشائخ کا اپنے مریدوں کی نظروں سے اوجھل ہونا بھی اسی رابطہ کا نتیجہ ہے جو کہ شیطان کے ساتھ ہوتا ہے ، حتی کہ بعض اوقات وہ شیطان انہیں دور دراز جگہ پر لے جاتے ہیں اور پھر اسی دن یا رات کو واپس لے آتے ہیں تا کہ ان کے مریدوں کو گمراہ کیا جاسکے ۔
تو اسی لیے یہ عظیم قاعدہ ہے کہ ہم خارق عادات کاموں سے اشخاص کا وزن نہیں کرتے بلکہ ان کا وزن کتاب وسنت کے قرب اور اس پر التزام کرنے کے ساتھ ہوگا ، اور اللہ تعالی کے اولیاء کے لۓ یہ شرط نہیں کہ ان کے ھاتھ پر خارق عادت کام ہو بلکہ وہ تو اللہ تعالی کی عبادت اس طریقے پر کرتے ہیں جو کہ مشروع ہے نہ کہ بدعات کو رواج دے کر ۔
اولیاء اللہ تو وہ ہیں جو کہ حدیث قدسی میں ذکر کیے گئے ہیں جسے امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے روایت کیا ہے ۔
ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یقینا اللہ تعالی نے فرمایا ہے : ( جس نے میرے ولی سے دشمنی کی میری اس کے ساتھ جنگ ہے اور جو میرا بندا کسی چیز کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تو وہ مجھے اس چيزسے زیادہ پسند ہے جو میں نے اس پر فرض کیا ہے اور جو بندہ نوافل کے ساتھ میرا قرب حاصل کرتا ہے تو میں اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہو ں تو اس کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا اور اس کی بصر ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا اور اس کا ھاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا اور اس کی ٹانگ ہو تا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اسے عطا کرتا ہوں اور اگر میری پناہ میں آتا ہے تو میں اسے پناہ دیتاہوں ) ۔
اور اللہ تبارک وتعالی توفیق بخشنے والا اور صحیح راہ پر چلانے والا ہے ۔
واللہ تعالی اعلم .

ًً
بس کوئی ساتھی یہ بتا دے کہ ذکر قلبی صحابہ رضوان اللہ کیسے کرتے تھے؟
صوفی صاحب! آپ تصوف کے حوالے سے ذکر قلبی کیا ہے؟ اور کس طرح ہوتی ہے؟ وضاحت کردیں۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بہت خوب شیخ نعیم صاحب۔ اللہ تعالی آپ کی تمام خواہشیں پوری فرما دے۔ اور جنت الفردوس میں ہمسایہ محبوب رب العالمین بنا دے۔ میرے لئے بھی دعا فرمائیے گا۔
 

محمد آصف مغل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 29، 2013
پیغامات
2,677
ری ایکشن اسکور
4,006
پوائنٹ
436
بارک اللہ شیخ نعیم۔ ایسا جواب لکھتے لکھتے کیبورڈ پر ہاتھ رُک گئے تھے۔ لیکن ماشاء اللہ آپ نے کمال کا جواب دیا۔ بارک اللہ لکم فی الدنیا و الآخرۃ
 

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
ًً بس کوئی ساتھی یہ بتا دے کہ ذکر قلبی صحابہ رضوان اللہ کیسے کرتے تھے؟
حضور صوفی عقیل پہلے آپ ذکر قلبی کی صوفیانہ تعریف فرمائیں اور پھر اس تعریف کی روشنی میں اس بات کا ثبوت دیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ذکر قلبی کرتے تھے ؟۔۔ اس کے بعد ہم آپ کو بتائیں گے کہ کیسے کرتے تھے ؟
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
بہت خوب شیخ نعیم صاحب۔ اللہ تعالی آپ کی تمام خواہشیں پوری فرما دے۔ اور جنت الفردوس میں ہمسایہ محبوب رب العالمین بنا دے۔ میرے لئے بھی دعا فرمائیے گا۔
آمین
اور میرے لیے بھی۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
بہت خوب شیخ نعیم صاحب۔ اللہ تعالی آپ کی تمام خواہشیں پوری فرما دے۔ اور جنت الفردوس میں ہمسایہ محبوب رب العالمین بنا دے۔ میرے لئے بھی دعا فرمائیے گا۔
آمین
اور میرے لیے بھی۔
جزاک اللہ خیرا آصف بھائِی اور ارسلان بھائی۔
آصف بھائی۔ نہ تو میں ابھی عمر کے لحاظ سے شیخ ہوں اور نہ علم کے حساب سے۔ حسن ظن کا شکریہ۔ ابھی تو میں جوان ہوں۔۔۔۔ابتسامہ۔۔۔۔
اللہ تعالی ہم کو دین مستقیم پر استقامت دے اور ہم سب کو جنت الفردوس میں ہمسایہ محبوب رب العالمین بنا دے۔آمین یا رب العالمین۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
جزاک اللہ خیرا آصف بھائِی اور ارسلان بھائی۔
آصف بھائی۔ نہ تو میں ابھی عمر کے لحاظ سے شیخ ہوں اور نہ علم کے حساب سے۔ حسن ظن کا شکریہ۔ ابھی تو میں جوان ہوں۔۔۔۔ابتسامہ۔۔۔۔
اللہ تعالی ہم کو دین مستقیم پر استقامت دے اور ہم سب کو جنت الفردوس میں ہمسایہ محبوب رب العالمین بنا دے۔آمین یا رب العالمین۔
آمین
 
Top