• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رئیس ندوی کی علمی تحقیق کا ایک شاہکار

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
رئیس ندوی کی علمی تحقیق کا ایک شاہکار


رئیس ندوی کی اللمحات پانچ جلدوں میں" تصنیف کثیف "کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ مصنف نے خوب اچھی طرح اپنے دل کا غبار نکالاہے ۔احناف سے اوربالخصوص امام ابوحنیفہ سے بغض وعداوت کو آشکاراکرنے کیلئے انوارالباری کے رد کو بہانہ بنایاگیاہے۔اس کی ضرورت نہین تھی ۔مصنف کو چاہئے تھاکہ اخلاقی جرات سے کام لیتے ہوئے کسی آڑ کے بغیر یہ کام کرتے۔مصنف چھٹی جلد لکھنے کا بھی ارادہ رکھتے تھے لیکن لمحات کیلئے خدانے انہیں اتنے لمحے نہیں دیئے اور وہ چھٹی جلد لکھنے کا خواب لئے خداکے حضور حاضرہوگئے ۔

غلطیاں ہرانسان سے ہوتی ہیں۔ مصنف بھی ایک انسان ہوتاہے غلطیاں اس سے بھی ہوسکتی ہیں۔ لیکن دانستہ غلطیوں کی بات دیگرہے۔ مصنف نے جس طرح لمحات کی پانچوں جلدوں میں حقیقت کا چہرہ مسخ کرنے کی کوشش کی ہے وہ قابل عبرت ہے۔ ایسی غلطیاں اورایسی باتیں ایک دوہوتیں تواس کی نشاندہی بھی کی جاسکتی تھی لیکن یہ توپوری کتاب اورتمام پانچ جلدوں میں پھیلی ہوئی داستان ہے کوئی کہاں تک نشاندہی کرے۔

خط غلط املاء غلط انشاء غلط
ہست ایں مضموں زسرتاپاغلط​
یابقول مصحفی

مصحفی ہم توسمجھتے تھے کہ ہوگاکوئی زخم
تیرے دل میں توبہت کام رفو کا نکلا​
یابقول کسے
ایک دوزخم نہیں جسم ہے ساراچھلنی
دردبے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے​
اس وقت موضوع بحث رئیس ندوی صاحب کا بیان کردہ لطیفہ ہے اور وہ یہ کہ ہے کہ

امام محمد امام شافعی کے شاگرد ہیں!


اوراس کیلئے بے چارے کے پاس لے دے کر صرف ایک ہی دلیل ہے اور وہ بھی ابن عبدالبر کی محتمل عبارت اوریہ محتمل عبارت بھی زبردستی اس جانب بنائی گئی ہے۔اوراس کے سمجھنے میں خواہ ضمیر کو یہاں سے وہاں موڑاگیاہے۔اورترجمہ میں مصنف کی ترجمانی کرنے کے بجائے اپنے جذبات اورخیالات کی ترجمانی کی گئی ہے ۔
ابن عبدالبر کی عبارت دیکھیں۔

قَالَ أَبُو عُمَرَ وَلِيَ الرَّشِيدُ الْخِلافَةَ سَنَةَ سَبْعِينَ وَمِائَةٍ فَأَقَامَ خَلِيفَةً ثَلاثًا وَعِشْرِينَ سَنَةً وَمَاتَ سَنَةَ ثَلاثٍ وَتِسْعِينَ وَمِائَةٍ أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَرَ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَحْمَدَ قَالَ أَنا ابو الْقسم عبيد الله بْنُ عُمَرَ بْنِ أَحْمَدَ الشَّافِعِيُّ الْبَغْدَادِيُّ بِمَنْزِلِهِ فى مَدِينَة الزهراء قَالَ حَدَّثَنِي جَمَاعَةٌ مِنْ شُيُوخِي بِمَعْنَى مَا أَذْكُرُهُ قَالَ حُمِلَ الشَّافِعِيُّ مِنَ الْحِجَازِ مَعَ قَوْمٍ مِنَ الْعَلَوِيَّةِ تِسْعَةً وَهُوَ الْعَاشِرُ إِلَى بَغْدَادَ وَكَانَ الرَّشِيدُ بِالرَّقَّةِ فَحُمِلُوا مِنْ بَغْدَادَ إِلَيْهِ وَأُدْخِلُوا عَلَيْهِ وَمَعَهُ قَاضِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحسن الشيبانى وَكَانَ صديقا للشافعى وَأحد الَّذِينَ جَالَسُوهُ فِي الْعِلْمِ وَأَخَذُوا عَنْهُ فَلَمَّا بَلَغَهُ أَنَّ الشَّافِعِيَّ فِي الْقَوْمِ الَّذِينَ أُخِذُوا مِنْ قُرَيْشٍ بِالْحِجَازِ وَاتُّهِمُوا بِالطَّعْنِ عَلَى الرَّشِيدِ وَالسَّعْيِ عَلَيْهِ اغْتَمَّ لِذَلِكَ غَمًّا شَدِيدًا وَرَاعَى وَقْتَ دُخُولِهِمْ عَلَى الرَّشِيدِ قَالَ فَلَمَّا أُدْخِلُوا عَلَى الرَّشِيدِ سَأَلَهُمْ وَأَمَرَ بِضَرْبِ أَعْنَاقِهِمْ فَضُرِبَتْ أَعْنَاقُهُمْ إِلَى أَنْ بَقِيَ حَدَثٌ عَلَوِيٌّ مِنْ اهل الْمَدِينَة وَأَنا فَقَالَ للعلوى أَأَنْت الْخَارِجُ عَلَيْنَا وَالزَّاعِمُ أَنِّي لَا أَصْلُحُ لِلْخِلافَةِ فَقَالَ الْعَلَوِيُّ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَدَّعِيَ ذَلِكَ أَوْ أَقُولَهُ قَالَ فَأَمَرَ بِضَرْبِ عُنُقِهِ فَقَالَ لَهُ العلوى ان كَانَ لابد مِنْ قَتْلِي فَأَنْظِرْنِي أَكْتُبُ إِلَى أُمِّي بِالْمَدِينَةِ فَهِيَ عَجُوزٌ لَمْ تَعْلَمْ بِخَبَرِي فَأَمَرَ بِقَتْلِهِ فَقُتِلَ ثُمَّ قَدِمْتُ وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ جَالِسٌ مَعَهُ وَالْفِقْهِ وَالْقَاضِي يَعْرِفُ ذَلِكَ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ شَافِعِ بن السَّائِب بن عبيد بن عبديزيد بن هَاشم بن الْمطلب بن عبدمناف فَقَالَ لِي أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ فَقُلْتُ نَعَمْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ مَا ذَكَرَكَ لِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ ثُمَّ عَطَفَ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ مَا يَقُولُ هَذَا هُوَ كَمَا يَقُولُهُ قَالَ بَلَى وَله من الْعلم مَحل كَبِيرٌ وَلَيْسَ الَّذِي رُفِعَ عَلَيْهِ مِنْ شَأْنِهِ قَالَ فَخُذْهُ إِلَيْكَ حَتَّى أَنْظُرَ فِي أَمْرِهِ فَأَخَذَنِي مُحَمَّدٌ وَكَانَ سَبَبَ خَلاصِي لِمَا أَرَادَ الله عز وَجل مِنْهُ
(الانتقاء97)

اس میں کوئی شک نہیں کہ امام محمد اورامام شافعی کی آپسی جان پہچان ہوگی۔ خواہ یہ واقفیت مدینہ میں ہوئی ہو یامکہ میں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امام محمد نے امام شافعی سے کچھ اوربطورخاص روایات وغیرہ حاصل کی ہوں۔یہ ہردور میں ہوتارہاہے۔ کسی سے کچھ استفادہ کرنا اورکسی کی شاگردی اختیار کرنادونوں میں بہت فرق ہے۔ انسان اپنی زندگی میں بہت سے افراد سے استفادہ کرتاہے۔ اس سے یہ لازم نہیں اتاکہ وہ اس کا شاگرد ہوگیا۔

امام ترمذی سے بعض روایات امام بخاری نے سنی ہیں۔ تورئیس ندوی کے اصول کے مطابق امام بخاری امام ترمذی کے شاگرد ہوگئے۔ کیایہ بات کوئی عقل وہوش رکھنے والاکہہ سکتاہے؟اسی طرح نہ جانے کتنے محدثین ہیں جنہوں نے اپنے شاگردوں سے روایات لی ہیں توکیاوہ اپنے استاد کے استاد ہوگئے اوران کے استاد اِن کے شاگرد ہوگئے۔جالسوہ فی العلم واخذوہ عنہ سے شاگردی پر استدلال کرناغلط ہے۔ہاں استفادہ پراستدلال کیاجاسکتاہے اور وہ بھی صرف اسی صورت میں کہ اس کو امام شافعی کے فخر میں شمار کیاجائے کہ امام محمد نے ان سے استفادہ کیا۔جیساکہ امام ترمذی کے فخر میں شمار کیاجاتاہے کہ دورایت انہو نے ان سے لی ہیں ۔

یاپھراس کو امام محمد کے مناقب میں شمار کیاجائے کہ انہوں نے حصول علم میں اپنے سے عمر میں کمتر شخص سے بھی استفادہ کرنے میں کوئی عارنہیں سمجھاجیساکہ امام شافعی کے سلسلے میں ایسے ہی ایک واقعہ کو امام شافعی کی فضیلت میں شمار کیاگیاہے۔

خْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ الْوَاسِطِيُّ، قَالَ: كَتَبَ الشَّافِعِيُّ حَدِيثَ ابْنِ عَجْلانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَحْيَى بْنِ خَلادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ رَأَى رَجُلا صَلَّى فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: ارْجِعْ فَصَلِّ، فَإِنَّكَ لَمْ تُصَلِّ ".فَكَتَبَ الشَّافِعِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ حُسَيْنٍ الأَلْثَغِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: يَعْنِي لِحِرْصِ الشَّافِعِيِّ عَلَى طَلَبِ الصَّحِيحِ مِنَ الْعِلْمِ، كَتَبَ عَنْ رَجُلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ الْحَدِيثَ الَّذِي احْتَاجَ إِلَيْهِ، وَلَمْ يَأْنَفْ مِنْ كِتَابَتِهِ عَمَّنْ هُوَ فِي سِنِّهِ، أَوْ أَصْغَرَ مِنْهُ، وَلَعَلَّ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ كَانَ حَيًّا فِي ذَلِكَ الْوَقْتِ، فَلَمْ يُبَالِ بِذَلِكَ
(آداب الشافعی ومناقبہ29)
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
امام محمد اوراما م شافعی کے حالات میں لکھنے والے تقریباتمام ہی افراد نے اس کی صراحت کی ہے کہ امام شافعی امام محمد کے شاگرد تھے۔اس کی تردید کا شرف صرف دوافراد کوحاصل ہے۔ ایک ابن تیمیہ اوردوسرے یہ سلفی صاحب۔

ابن تیمیہ نے منہاج السنہ میں رافضی کی اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہ امام ابوحنیفہ نے جعفر صادق کی شاگردی اختیار کی۔ امام ابوحنیفہ کے شاگرد امام محمد سے امام شافعی نے شاگردی اختیار کی اورامام شافعی کی شاگردی امام احمد بن حنبل نے اختیار کی ۔اس طرح ائمہ اہل سنت ائمہ اہل بیت کے شاگرد ہیں۔

ابن تیمیہ نے اس کے جواب میں جہاں اس کاانکار کیاکہ امام شافعی امام محمد کے شاگرد تھے وہیں اس کابھی انکار کردیاکہ امام احمدبن حنبل امام شافعی کے شاگرد تھے۔ہمیں اس بات کا شروع سے ہی اعتراف ہے کہ ابن تیمیہ کامزاج بحث اوراستدلال میں کچھ اس قسم کا ہے کہ وہ جس جانب جھکتے ہیں اسی جانب جھکے رہ جاتے ہیں۔ جس کے اثبات کے درپے ہوتے ہیں تواس ثبات میں دوسرے حقائق سے انکار بھی کردیاکرتے ہیں۔ اب رافضی کی تردید کا دھن ان پر ایساسوار ہواکہ انہوں نے امام شافعی اورامام محمد کی شاگردی کے انکار کے ساتھ امام شافعی اورامام احمد بن حنبل کی شاگردی کابھی انکار کردیا۔
قالَ الرَّافِضِيُّ (4) : " وَأَمَّا الشَّافِعِيُّ فَقَرَأَ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ ".
وَالْجَوَابُ: أَنَّ هَذَا لَيْسَ كَذَلِكَ، بَلْ جَالَسَهُ وَعَرَفَ طَرِيقَتَهُ (5) وَنَاظَرَهُ، وَأَوَّلُ مَنْ أَظْهَرَ الْخِلَافَ لِمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، وَالرَّدَّ عَلَيْهِ (هُوَ) الشَّافِعِيُّ (6) ،فَإِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَسَنِ أَظْهَرَ الرَّدَّ عَلَى مَالِكٍ وَأَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ عُرِفَ مِنْهُ (1) رَدٌّ عَلَى مُخَالِفِيهِ (2) ، فَنَظَرَ (3) الشَّافِعِيُّ فِي كَلَامِهِ، وَانْتَصَرَ لِمَا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ قَوْلِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَكَانَ انْتِصَارُهُ فِي الْغَالِبِ لِمَذْهَبِ أَهْلِ الْحِجَازِ وَأَهْلِ الْحَدِيثِ.ثُمَّ إِنَّ عِيسَى بْنَ أَبَانَ صَنَّفَ كِتَابًا تَعَرَّضَ فِيهِ بِالرَّدِّ عَلَى الشَّافِعِيِّ، فَصَنَّفَ ابْنُ سُرَيْجٍ كِتَابًا فِي الرَّدِّ عَلَى عِيسَى بْنِ أَبَانٍ.وَكَذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ لَمْ يَقْرَأْ عَلَى الشَّافِعِيِّ لَكِنْ جَالَسَهُ، كَمَا جَالَسَ الشَّافِعِيُّ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَسَنِ، وَاسْتَفَادَ كُلٌّ مِنْهُمَا مِنْ صَاحِبِهِ.وَكَانَ الشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ يَتَّفِقَانِ فِي أُصُولِهِمَا، أَكْثَرُ مِنَ اتِّفَاقِ الشَّافِعِيِّ وَمُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، وَكَانَ الشَّافِعِيُّ أَسَنَّ مِنْ أَحْمَدَ بِبِضْعَ عَشْرَةَ سَنَةً.
منہاج السنۃ النبویہ7/533

رافضی نے کہاکہ شافعی نے محمدبن الحسن پر پڑھا۔اس کاجواب یہ ہے کہ بات ایسی نہیں ہے بلکہ انہوں نے ان کی ہمنشینی اختیار کی اوران کا طریقہ پہچانا اوران سے مناظرہ کیا اورمحمد بن حسن کے خلاف جس نے سب سے پہلے مخالفت ظاہر کی اورتردید کی وہ شافعی ہی تھے۔محمد بن الحسن قبل ازیں امام مالک اوراہل مدینہ پر رد کرچکے تھے اوروہ پہلے شخص ہیں جن سے مخالفین کی تردید کا عمل شروع ہوا۔توشافعی نے ان کے کلام میں غوروفکر کیا اوراہل مدینہ کا جوقول ان کو حق لگااس کی نصرت اوربیشترمسائل میں انہوں نے اہل حجاز اوراہل حدیث کی نصرت کی ۔پھر عیسی بن ابان نے امام شافعی کے رد میں کتاب لکھی ۔پھر ابن سریج نے عیسی بن ابان کے رد میں کتاب لکھی ۔اوراسی طرح احمد بن حنبل نے امام شافعی کی شاگردی نہیں کی بلکہ ان کی ہمنشینی کی جیساکہ شافعی نے محمد بن الحسن کی ہمنیشینی کی تھی اوراوردونوں نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا۔شافعی اوراحمدکا اصول میں اتفاق شافعی اورمحمد بن حسن کے اصول میں اتفاق سے زیادہ ہے۔اورشافعی احمد بن حنبل نے دس سال سے زیادہ کے بڑے تھے۔

ابن تیمیہ کی پوری بات آپ نے ملاحظہ فرمالی۔ ابن تیمیہ کی یہ بات حقائق کے برعکس ہے۔ اوراس میں علمی متانت ودیانت سےز یادہ مخالف کی تردید کا عمل غالب دکھائی دیتاہے۔ اس کی مکمل وضاحت ہم آگے چل کر کریں گے جہاں امام شافعی کی امام محمد بن الحسن کی شاگردی پر بحث کریں گے۔ تاہم یہ بات قابل لحاظ رہے کہ ابن تیمیہ نے اگرچہ یہ بات کہی کہ شاگردی نہیں بلکہ ہم نشینی تھی اوردونوں نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا لیکن انہوں نے ایساکہنے سے قطعی گریز کیاہے کہ امام محمد امام شافعی کے شاگرد ہیں۔

اس جملہ عجیبہ ولطیفہ مضحکہ کا صدور تو رئیس ندوی سے ہوناتھا۔پھرکوئی دوسراایسی بات کیسے کہہ سکتاتھا۔رئیس ندوی نے زیر بحث عبارت کا جوترجمہ بلکہ ترجمانی کی ہے وہ بھی دیکھتے چلیں۔
وَمَعَهُ قَاضِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحسن الشيبانى وَكَانَ صديقا للشافعى وَأحد الَّذِينَ جَالَسُوهُ فِي الْعِلْمِ وَأَخَذُوا
قاضی محمد بن حسن امام شافعی کے دوست اوران سے علم حاصل کرنے کیلئے ان کے ساتھ بیٹھنے والے ان کے تلامذہ میں سے تھے۔
اغْتَمَّ لِذَلِكَ غَمًّا شَدِيدًا
بنابریں امام محمد بن حسن کو اپنے
استاذ
امام شافعی کے اس معاملے کے سبب بہت شدید غم ہوا۔

موصوف کاکمال یہ ہے کہ اپنے جذبات وخیالات کو بریکٹ میں لکھنے کے علمی قاعدے کو درکنار کرتے ہوئے ترجمہ میں ہی مصنف کے بجائے اپنی ترجمانی کرنے لگتے ہیں۔

یہ ان کے ترجمہ میں سے دوکا انتخاب کیاہے اس سے واضح ہے کہ وہ ترجمہ میں ترجمانی کس طورپر کرنے لگتے ہیں۔امام محمد کوامام شافعی کا شاگرد مانیں اچھی بات ہے۔ جمہوریت میں ہرشخص کو اپنی ڈفلی بجانے کا حق ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ترجمہ میں اپنے خیالات کی ترجمانی شروع کردی جائے اورمصنف بے چارے کو الگ تھلگ گوشے میں کھڑاکردیاجائے۔
اس کے بعد موصوف نے کچھ مزید ارشاد فرمایاہے اسے بھی دیکھتے چلیں۔

مصنف انوار نے اس روایت کو بطورحجت اپنی کتاب مقدمہ انوارتذکرہ امام شافعی میں ذکرکیاہے مگر ترویج اکاذیب وتلبیسات والی اپنی پالیسی یہاں بھی نہیں چھوڑی۔ وہ یہ کہ مصنف انوار کی حجت بنائی ہوئی اس روایت میں جویہ صراحت ہے کہ امام محمد درسگاہ امام شافعی میں تعلیم پاکر امام شافعی کے شاگرد ہونے کے شرف سے مشرف ہیں۔ اس کا ذکر مصنف انوار نےاشارۃًبھی نہیں آنے دیا ۔یہ ہے مصنف انوار کی دینی وعلمی وتحقیقی امانت داری !(اللمحات5/139)[/QUOTE

اس کے علاوہ اس مبحث میں جوکچھ رئیس صاحب نے رئیسانہ شان سے فرمایاہے اس کو بھی ذرادیکھتے چلیں۔

اس روایت میں نہایت واضح طورپر امام محمد کو امام شافعی کا شاگرد،ان کی درسگاہ میں بیٹھ کر ان سے فیضیاب ہونے والا اورتحصیل علم کرنے والاکہاگیاہے اوریہ بات بہت واضح ہے کہ امام محمد جس زمانے میں مدینہ منورہ اورمکہ مکرمہ بسلسلہ حج جاتے تھے اوروہاں امام شافعی درس وتدریس کے فرائض انجام دیتے تھے ۔اس زمانے میں امام محمد امام شافعی کی درس گاہ میں امام شافعی سے علوم بھی حاصل کرتے تھے۔
امام شافعی کی علمی برتری وفقہی صلاحیت اپنے اوپر محسوس کرتے ہوئے امام محمد نےیہ مناسب سمجھاکہ امام شافعی کی خدمت میں بھی رہ کر کچھ وقت دے کر امام شافعی سے پڑھاکر یں۔

(المصدرالسابق)

میراخیال ہے کہ رئیس ندوی کی باتوں کی وضاحت کافی حد تک ہوگئی ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
رئیس ندوی کی یہ بات کہ امام محمد امام شافعی کے شاگرد ہیں۔ علمی دنیا میں ایک نیالطیفہ ہے ۔ویسے بھی رئیس ندوی جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں وہاں اس طرح کے لطیفے بہت عام ہیں۔ ہرشخص کو کتاب میں کہیں کچھ نئی بات نظرآجاتی ہے تواس کو سمجھے بغیر اورہضم کئے بغیر نشرواشاعت شروع کردیتاہے۔

رئیس ندوی نے جس جملہ سے استدلال کیاہے وہ جیساکہ ماقبل میں گزرایہ ہے۔

وَمَعَهُ قَاضِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحسن الشيبانى وَكَانَ صديقا للشافعى وَأحد الَّذِينَ جَالَسُوهُ فِي الْعِلْمِ وَأَخَذُوا عَنْهُ
اس کا ایک ترجمہ توآپ نے ملاحظہ فرمالیا۔دوسراترجمہ یہ بھی ہوسکتاہے۔اگرجالسوہ میں ہ کی ضمیر کا مرجع محمد بن الحسن کی جانب کیاجائے تو ترجمہ ہوگا۔
اوران کے ساتھ قاضی محمد بن الحسن الشیبانی تھے اور وہ امام شافعی کے دوست تھے اورشافعی ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے محمد بن الحسن سے علمی معاملات میں ہم نشینی کی تھی اوران سے استفادہ کیاتھا۔
بات یہ ہے کہ یہاں پر ہ کی ضمیر کا مرجع امام شافعی کی جانب نہ لوٹاکر محمد بن الحسن کی جانب لوٹانے کی دلیل یہ ہے کہ خود ابن عبدالبر نے امام شافعی کے جن اہل علم سے ملازمت اوراستفادہ کو بالخصوص بیان کیاہے توصرف دوحضرات کا ذکرکیاہے۔ایک امام شافعی اورایک امام محمد بن الحسن الشیبانی ۔ابن عبدالبر کی عبارت دیکھئے۔

بَابٌ فِي طَلْبِهِ لِلْعِلْمِ وَمُلازَمَتِهِ


أخبرنَا احْمَد بن عبد الله بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ نَا أَبِي قَالَ نَا أسلم بن عبد العزيز قَالَ نَا المزنى وَمُحَمّد بن عبد الله بن عبد الحكم جَمِيعًا قَالا جَاءَ الشَّافِعِيُّ إِلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فَقَالَ لَهُ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَسْمَعَ مِنْكَ الْمُوَطَّأَ فَقَالَ مَالِكٌ تَمْضِي إِلَى حَبِيبٍ كَاتِبِي فَإِنَّهُ الَّذِي يَتَوَلَّى قِرَاءَتَهُ فَقَالَ لَهُ الشَّافِعِيُّ تَسْمَعُ مِنِّي رَضِيَ اللَّهُ عَنْكَ صُفَحًا فَإِنِ اسْتَحْسَنْتَ قِرَاءَتِي قَرَأْتُهُ عَلَيْكَ وَإِلا تَرَكْتُ فَقَالَ لَهُ اقْرَأْ فَقَرَأَ صُفَحًا ثُمَّ وَقَفَ فَقَالَ لَهُ مَالِكٌ هِيهِ فَقَرَأَ صُفَحًا ثُمَّ سَكَتَ فَقَالَ لَهُ هِيهِ فَقَرَأَ فَاسْتَحْسَنَ مَالِكٌ قِرَاءَتَهُ فَقَرَأَهُ عَلَيْهِ أَجْمَعُ قَالَ الْمُزَنِيُّ وَابْنُ عبد الحكم فَلِذَلِكَ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ قَاسِمٍ قَالَ نَا الْحَسَنُ بْنُ رَشِيقٍ قَالَ نَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ آدَمَ قَالَ نَا الرّبيع ابْن سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ قَالَ سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ أَتَيْتُ مَالِكًا وَقَدْ حَفِظْتُ الْمُوَطَّأَ فَقَالَ لِي اطْلُبْ مَنْ يَقْرَأُ لَكَ فَقُلْتُ لَا عَلَيْكَ أَنْ تَسْمَعَ قِرَاءَتِي فَإِنْ خَفَّتْ عَلَيْكَ وَإِلا طَلَبْتَ مَنْ يَقْرَأُ لِي فَقَالَ لِي اقْرَأْ فَقَرَأْتُ فأعجبه ذَلِك
وَقَالَ اقْرَأْ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ الْمُوَطَّأَ مِنْ أَوَّلِهِ إِلَى آخِرِهِ حَدَّثَنَا خَلفُ بْنُ قَاسِمٍ قَالَ نَا الْحَسَنُ بْنُ رَشِيقٍ قَالَ نَا مُحَمَّدُ بن يحيى الفارسى قَالَ أَنا الرّبيع ابْن سُلَيْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ حَمَلْتُ عَنْ مُحَمَّد بن الْحسن حمل بخى وَمرَّة قَالَ وقر بعير لَيْسَ عَلَيْهِ الاسماعى مِنْهُ قَالَ وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا سُئِلَ عَنْ مَسْأَلَةٍ فِيهَا نَظَرٌ إِلا رَأَيْتُ الْكَرَاهَةَ فِي وَجْهِهِ إِلا مُحَمَّدَ بْنَ الْحَسَنِ
الانتقائ فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ69
یہاں دیکھئے انہوں نے کس طرح باب قائم کرکے اس کے تحت اس کو صراحت سے ذکر کردیاکہ امام شافعی نے تویوں بہت سارے لوگوںسے روایت لی ہے اورکچھ نہ کچھ علم حاصل کیاہے لیکن ببالخصوص جن سے انہوں نے علم حاصل کیاوہ دوہیں۔ ایک امام مالک اوردوسرے محمد بن الحسن الشیبانی۔

ابن عبدالبر کی یہ روایت ہی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ ضمیر کامرجع وہی درست ہے جومیں نےطے کیاہے۔ اس پر مزید دلیل ہے کہ امام محمد کے ترجمہ میں اسی کتاب میں انہوں نےا مام محمد کے شاگردوں میں امام شافعی کا ذکر کیاہے۔

وَأَمَّا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ
فَوُلِدَ بِوَاسِطَ سَنَةَ خَمْسٍ وَثَلاثِينَ وَمِائَةٍ وَقِيلَ سَنَةَ إِحْدَى وَثَلاثِينَ وَمِائَةٍ وَهُوَ مَوْلًى لِبَنِي شَيْبَانَ كَانَ فَقِيهًا عَالِمًا كَتَبَ عَنْ مَالِكٍ كَثِيرًا مِنْ حَدِيثِهِ وَعَنِ الثَّوْرِيِّ وَغَيْرِهِمَا وَلازَمَ أَبَا حَنِيفَةَ ثُمَّ أَبَا يُوسُفَ بَعْدَهُ وَهُوَ رَاوِيَةِ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَبِي يُوسُفَ الْقَائِمِ بِمَذْهَبِهِمَا وَلَهُ فِي ذَلِكَ مُصَنَّفَاتٌ وَكَانَ الشَّافِعِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ يُثْنِي عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ وَيُفَضِّلُهُ وَيَقُولُ مَا رَأَيْتُ قَطُّ رَجُلا سَمِينًا أَعْقَلَ مِنْهُ قَالَ وَكَانَ أَفْصَحَ النَّاسِ كَانَ إِذَا تَكَلَّمَ خُيِّلَ إِلَى سَامِعِهِ أَنَّ الْقُرْآنَ نَزَلَ بِلُغَتِهِ وَقَالَ الشَّافِعِيُّ كَتَبْتُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ وَقْرَ بَعِيرٍ

(الانتقاء174)

لیکن امام شافعی کے شاگرد وں میں امام محمد بن الحسن کا ذکر نہیں کیاہے۔اس سے یہ فیصلہ ہی طے ہوجاتاہے کہ ضمیر کا مرجع کدھر سے کدھر ہوناچاہئے۔
دوسری بات جدلاًاوربالفرض ہم تسلیم کریں کہ امام محمد نے امام شافعی سے استفادہ کیاہے تویہ استفادہ اسی نوعیت کا تھاجواستاد اپنے قابل اورذہین شاگردوں سے کرتاہے۔جیساکہ امام بخاری نے امام ترمذی سے کہاکہ جتناتم نے مجھ سے نفع اٹھایاہے اس سے زیادہ میں نے تم سے نفع اٹھایاہے۔ توکیاایسی بات کہنے سے امام بخاری امام ترمذی کے شاگرد ہوجائیں گے؟وہی صورت حال یہاں بھی ہے کہ اگرامام محمد نے امام شافعی سے استفادہ کیابھی ہے تواس کی حیثیت وہی ہے جوایک ذہین باصلاحیت،لائق اورسعادت مند شاگرد سے استاد کو فائدہ ہوتاہے کہ وہ زیادہ مطالعہ کرتاہے۔ زیادہ محنت کرتاہے تاکہ طالب علم کی علمی تشنگی پوری کی جاسکے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
مدعی سست گواہ چست

یہ کہاوت بڑی پرانی ہے اورنئے دو رمیں توکچھ لوگوں نے اس سے مستفاد ایک نیامحاورہ ایجاد کرلیاہے کہ" دیگ سے زیادہ چمچہ گرم"اما م شافعی کو اس کا اعتراف ہے کہ انہوں نے امام محمد سے ایک اونٹ کے برابر علم حاصل کیا۔لیکن رئیس ندوی صاحب کو اس پر بڑی تکلیف ہے۔اب یہ بات سمجھنی مشکل ہے کہ جب امام شافعی کو امام محمد سے تلمذ اورحصول علم میں کوئی پریشانی نہیں ہے تو رئیس ندوی صاحب تکلیف کس بات کی۔اس پر بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ کی بھپتی بھی کہی جاسکتی ہے ۔

امام شافعی کا امام محمد سے حصول علم کا اعتراف

قَالَ أَنا الرّبيع ابْن سُلَيْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ حَمَلْتُ عَنْ مُحَمَّد بن الْحسن حمل بخى وَمرَّة قَالَ وقر بعير لَيْسَ عَلَيْهِ الاسماعى مِنْهُ
(الانتقاء)
یہ روایت ابن ابی حاتم نے بھی آداب الشافعی ومناقبہ میں ذکرکیاہے۔دیکھئے۔
عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ، يَقْولُ: حَمَلْتُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ، حَمْلَ بُخْتِيٍّ لَيْسَ عَلَيْهِ إِلا سَمَاعِي "
(آداب الشافعی ومناقبہ26)
بلکہ امام شافعی نے خود اس کااعتراف کیاہے کہ جب ان کو گرفتار کرکے بغداد لایاگیااوران کو خلیفہ نے بغداد میں ہی ٹھہرنے کا حکم دیاتوانہوں نے سوچاکہ کیوں نہ اس فارغ وقت کو امام محمد بن الحسن سے حصول تعلیم میں لگایاجائے ۔
حَتَّى رُفِعْتُ إِلَى الْعِرَاقِ، فَقِيلَ لِي: الْزَمِ الْبَابَ، فَنَظَرْتُ فَإِذَا أَنَا لا بُدَّ لِي مِنَ الاخْتِلافِ إِلَى بَعْضِ أُولَئِكَ.وَكَانَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، جَيِّدَ الْمَنْزِلَةِ، فَاخْتَلَفْتُ إِلَيْهِ، وَقُلْتُ: هَذَا أَشْبَهُ لِي مِنْ طَرِيقِ الْعِلْمِ، فَلَزِمْتُهُ، وَكَتَبْتُ كُتُبَهُ، وَعَرَفْتُ قَوْلَهُمْ، وَكَانَ إِذَا قَامَ نَاظَرْتُ أَصْحَابَهُ
(آداب الشافعی ومناقبہ26)
کیااس سے بھی زیادہ صاف اورصریح بات امام شافعی کی امام محمد کی شاگردی کے تعلق سے ہوسکتی ہے۔ لیکن پھر بھی رئیس ندوی کا اصرار یہی ہے کہ امام محمد امام شافعی کے شاگرد ہیں۔ سبحان اللہ قاسم العقول !
یہی روایت تاریخ بغداد میں بھی ہے دیکھتے چلیں۔
حَدَّثَنِي الربيع، قَالَ: سمعت الشافعي، يقول: حملت عن محمد بن الحسن وقر بختي كتبا.
تاریخ بغداد2/561
اس کے علاوہ دیگر مورخین نے بھی اس بات کو لکھاہے کہ امام شافعی امام محمد کے دست گرفتہ اوران کے شاگرد اوران سے استفادہ کنندگان میں شامل ہیں۔اس بات کا اعتراف خود امام شافعی کو بھی ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ رٹ لگائی جاتی ہے اورگنگاالٹی بہائی جاتی ہے کہ نہیں صاحب امام شافعی امام محمد کے شاگردنہیں بلکہ امام محمد امام شافعی کے شاگرد ہیں اوردلیل کیاہے توابن عبدالبر کی ایک محتمل عبارت ۔اس کے برخلاف دوسری تحریریں جو نہایت واضح اس امر کی موجود ہیں کہ امام شافعی امام محمد کے شاگرد ہیں وہ سرے سے غائب ازنظر۔

ابن تیمیہ علیہ الرحمہ نے جوبات کہی ہے کہ امام شافعی امام محمد کے شاگرد نہ تھے وہ کئی بناء پر ناقابل قبول ہے۔

اولاانہوں نے اپنے قول کی کوئی دلیل پیش نہیں کی محض دعویٰ کردیا۔یہ دعویٰ کچھ لوگوں کیلئے توقابل قبول ہوسکتاہے لیکن سبھی کیلئے نہیں۔ بالخصوص جب ابن تیمیہ کی خود کی دلیل کے مطالبہ کی دعوت عام رہی ہو۔ توپھران کی کوئی بات بلادلیل اوربغیرکسی حجت کے کیسے تسلیم کی جاسکتی ہے۔
ثانیاامام شافعی نے خود اعتراف کیاہے کہ انہوں نے امام محمد سے ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر علم حاصل کیاہے۔ اس سے بڑھ کر اورکون سااعتراف چاہئے۔اوران کے پاس سوائے نفی کے اورکیادلیل ہے۔
ثالثا تاریخ وتراجم اورسیر وسوانح نگاروں نے عمومی طورپر یہ بات لکھی ہے کہ امام شافعی نے امام محمد سے علم حاصل کیا۔یہ بھی بجائے خود ایک بڑی شہادت ہے(جسے ہم آگے چل کر ذکر کریں گے۔)
غالباابن تیمیہ اوررئیس ندوی جیسے لوگوں کو امام محمد اورامام شافعی کی شاگردی کے تعلق پر شبہات کی بڑی وجہیں وہ مناظرات ہیں جو کتابوں میں بالخصوص محدثین کرام نے نقل کئے ہیں یاامام شافعی نے کتاب الام میں کتاب الرد علی محمد ابن الحسن کاباب باندھاہے۔لیکن یہ شبہات غلط ہیں کیونکہ امام شافعی نے جس طرح امام محمد پر رد کیااسی طرح امام مالک پر بھی رد کیاہے۔ توکیااس کی وجہ سے کوئی کہہ سکتاہے کہ وہ امام شافعی کے استاد نہیں اورامام شافعی ان کے شاگرد نہیں۔

جہاں تک مناظرات کی بات ہے توامام شافعی جس وقت امام مالک سے پڑھنے کیلئے آئے تھے۔ اس وقت ان کی تعلیم کا ابتدائی یامتوسط دور تھا۔امام ذہبی کے مطابق وہ امام مالک کی خدمت میں تئیس سال کی عمر میں حاضر ہوئے تھے۔پھر ایک سال سے کچھ کم وقت رہ کر چلے گئے۔اس کے بعد بھی امام مالک سے ملنے جلنے کاسلسلہ جاری رہالیکن مستقل امام مالک کی خدمت میں نہیں رہے۔دوسرے امام مالک سوال وجواب اورمناظرہ کو قطعاناپسند کرتے تھے۔ اس لئے ان سے مناظرہ نہ ہی کیاجاسکتاتھا۔جب اسد بن فرات نے بعض مسائل میں ان سے سوال وجواب والارخ اختیار کیاتوامام مالک نے فرمایاھذہ سلسلۃ بنت سلسلۃ اوریہ بھی فرمایاکہ اگرتمہیں اس طرزعلم کی خواہش ہے توفعلیک بالعراق۔

امام شافعی جب امام محمد کے پاس آئے تو ان کی علمی قابلتیں بڑھ چکی تھیں۔ اس کے علاوہ امام محمد مناظرات اورسوال جواب کے سلسلہ کو پسند کرتے تھے۔وہ اس کی تشجیع کرتے تھے کہ ان کے شاگردان کے ساتھ بحث کریں۔ ان سے مناظرہ کریں۔ اپنے سوالات اورشبہات ان کے سامنے رکھیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام شافعی کے امام محمد سے مناظرات ہوئے۔ان مناظرات سے یہ خیال قائم کرلیناکہ امام محمد نےا مام شافعی سے مناظروں میں شکست کھائی ہے ایک بے بنیاد اورسطحی علم پر مبنی ہے۔اگربات ایسی ہی ہوتی توپھرامام شافعی امام محمد کے اتنےمعترف اور مداح نہ ہوتے۔بات یہ ہے کہ امام شافعی نے امام محمد سے مناظروں اپنی بات چیت کو بیان کیاہے کہ میں نے اس سلسلے میں ایسااورایسااستدلال کیاہے ۔دونوں کاآخر میں کس امر پر اتفاق ہوتاتھا۔اس سے بیشتر مناظرے خالی ہیں اوریہی چیز یہ بتاتی ہے کہ امام شافعی اورامام محمد کے مناظروں پوری تفصیل سے قلم بند نہیں کئے گئے ہیں بلکہ محض جزئی طورپر قلم بند کئے گئے ہیں۔ یاامام شافعی نے اتناہی بیان کیاہے جتنی کہ ضرورت ہوئی ہے۔

رابعاایک ابتدائی دور کے طالب علم اورمنتہی طالب علم کے طرز عمل میں فرق ہوتاہے قاعدہ بغدادی پڑھنے والاویسے ہی پڑھتاہے جیسے کہ استاد پڑھاتاہے چوں چرانہیں کرتالیکن ایک منہتی جماعت کاطالب علم استاد کی ہربات کی گرفت کرتاہے۔ اگران سے کوئی غلطی ہوجائے تواس پر ٹوکتاہے۔ اپنے مطالعہ کی روشنی میں استاد سے بحث کرتاہے۔اپنی بات ثابت کرنے کی کوشش کرتاہے لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتاکہ منہتی جماعت کا طالب علم طالب علم نہ رہااوراستاد شاگردی کا رشتہ ہی نہ رہا بلکہ یہ صرف جالسہ وعرف طریقتہ ہے۔

نوٹ:ابن تیمیہ کی یہ بات بھی غلط ہے کہ ) ،فَإِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَسَنِ أَظْهَرَ الرَّدَّ عَلَى مَالِكٍ وَأَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَهُوَ أَوَّلُ مَنْ عُرِفَ مِنْهُ (1) رَدٌّ عَلَى مُخَالِفِيهِ (2)

کیونکہ قبل ازیں اوزاعی نے سیر پر کتاب لکھی اوراس میں امام ابوحنیفہ کے سیر کے مسائل پر اعتراضات کئے۔ اس کے جواب میں امام ابویوسف نے بطورخاص الردعلی سیر الاوزاعی لکھی۔ اس سے واضح ہے کہ علمی مناقشات کا دور امام محمد سے پہلے ہی شروع ہوچکاتھا۔ہاں ابن تیمیہ کی جانب اگرکہاجاسکتاہے تویہ کہ اس طرز کو شہرت دینے میں امام ابویوسف سے زیادہ امام محمد کاہاتھ ہے۔ انہی کی وجہ سے اس صنف کو ترقی ہوئی۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
فقہاء شافعیہ کااعتراف کہ امام شافعی امام محمد کےشاگرد ہیں

شوافع مورخین محدثین اورفقہاء جس قدرامام شافعی کی محبت سے معمور ہوں گے اس کے بیان کی حاجت نہیں ہے۔ لیکن اگراس کے باوجود انہون نے اس کا اعتراف کیاہے کہ امام شافعی نے ہی امام محمد سے استفادہ کیاہے اوران کی شاگردی کی ہے توظاہر سی بات ہے کہ ان کی یہ بات رئیس ندوی کے مقابلہ میں یااورکسی کے مقابلہ میں زیادہ قابل قبول ہوگی۔ کیونکہ ابن نجاز یہ کہہ چکے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے حالات سے زیادہ واقفیت ان کے مسلک سے تعلق رکھنے والے جانتے ہیں۔ اسی طرح امام شافعی سے زیادہ واقفیت شوافع حضرات کو ہوگی۔

آئیے ذیل میں کچھ شوافع اہل علم کے اعترافات دیکھیں اورسوچیں کہ تعصب نے رئیس ندوی کو کس مقام پر کھڑاکردیاہے ۔

محمد بن الحسن بن فرقد، أبو عبد الله الشيباني مولاهم [1] :
صاحب أبي حنيفة وإمام أهل الرأي، أصله دمشقي من أهل قرية تسمى حرستا.
قدم أبوه العراق فولد محمد بواسط، ونشأ بالكوفة. وسمع العلم بها من أبي حنيفة، ومسعر بن كدام، وسفيان الثوري، وعمر بن ذر، ومالك بن مغول.
وكتب أيضا عن مالك بن أنس، وأبى عمرو الأوزاعي، وزمعة بن صالح، وبكير ابن عامر، وأبى يوسف القاضي، وسكن بغداد وحدث بها. فروى عنه محمد بن إدريس الشافعي، وأبو سليمان الجوزجاني، وهشام بن عبيد الله الرازي، وأبو عبيد القاسم بن سلام، وإسماعيل بن توبة وعلي بن مسلم الطوسي، وغيرهم.وكان الرشيد ولاه القضاء وخرج معه في سفره إلى خراسان، فمات بالري، ودفن بها.
تاریخ بغداد2/169

خطیب بغدادی کانام محتاج تعارف نہیں ہے۔ نہ ہی خطیب بغدادی کو احناف سے کوئی محبت ہے بلکہ اس کے برعکس ایک گونہ عداوت ہے۔اس عداوت کے ساتھ ان کے اندر "ہوی"بھی موجود ہے جس کااعتراف حافظ ذہبی نے بھی بسملہ والے رسالہ میں کیاہے۔اس کے باوجود اگرامام محمد کے شاگردوں میں وہ امام شافعی کو ذکر کررہے ہیں تواس کی وجہ ظاہر ہے کہ یہ بات اتنی مشہور ،اتنی پکی ہے کہ اسکے انکار کی جرات ان کو نہیں ہوسکی ۔یہ شرف تو چودہویں صدی کے ایک مخصوص شخص کیلئے خاص تھا !

ابن عبدالبر
بَابٌ فِي طَلْبِهِ لِلْعِلْمِ وَمُلازَمَتِهِ
أخبرنَا احْمَد بن عبد الله بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ نَا أَبِي قَالَ نَا أسلم بن عبد العزيز قَالَ نَا المزنى وَمُحَمّد بن عبد الله بن عبد الحكم جَمِيعًا قَالا جَاءَ الشَّافِعِيُّ إِلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فَقَالَ لَهُ إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَسْمَعَ مِنْكَ الْمُوَطَّأَ فَقَالَ مَالِكٌ تَمْضِي إِلَى حَبِيبٍ كَاتِبِي فَإِنَّهُ الَّذِي يَتَوَلَّى قِرَاءَتَهُ فَقَالَ لَهُ الشَّافِعِيُّ تَسْمَعُ مِنِّي رَضِيَ اللَّهُ عَنْكَ صُفَحًا فَإِنِ اسْتَحْسَنْتَ قِرَاءَتِي قَرَأْتُهُ عَلَيْكَ وَإِلا تَرَكْتُ فَقَالَ لَهُ اقْرَأْ فَقَرَأَ صُفَحًا ثُمَّ وَقَفَ فَقَالَ لَهُ مَالِكٌ هِيهِ فَقَرَأَ صُفَحًا ثُمَّ سَكَتَ فَقَالَ لَهُ هِيهِ فَقَرَأَ فَاسْتَحْسَنَ مَالِكٌ قِرَاءَتَهُ فَقَرَأَهُ عَلَيْهِ أَجْمَعُ قَالَ الْمُزَنِيُّ وَابْنُ عبد الحكم فَلِذَلِكَ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ قَاسِمٍ قَالَ نَا الْحَسَنُ بْنُ رَشِيقٍ قَالَ نَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ آدَمَ قَالَ نَا الرّبيع ابْن سُلَيْمَانَ الْمُؤَذِّنُ قَالَ سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ أَتَيْتُ مَالِكًا وَقَدْ حَفِظْتُ الْمُوَطَّأَ فَقَالَ لِي اطْلُبْ مَنْ يَقْرَأُ لَكَ فَقُلْتُ لَا عَلَيْكَ أَنْ تَسْمَعَ قِرَاءَتِي فَإِنْ خَفَّتْ عَلَيْكَ وَإِلا طَلَبْتَ مَنْ يَقْرَأُ لِي فَقَالَ لِي اقْرَأْ فَقَرَأْتُ فأعجبه ذَلِك
وَقَالَ اقْرَأْ فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ الْمُوَطَّأَ مِنْ أَوَّلِهِ إِلَى آخِرِهِ حَدَّثَنَا خَلفُ بْنُ قَاسِمٍ قَالَ نَا الْحَسَنُ بْنُ رَشِيقٍ قَالَ نَا مُحَمَّدُ بن يحيى الفارسى قَالَ أَنا الرّبيع ابْن سُلَيْمَانَ قَالَ سَمِعْتُ الشَّافِعِيَّ يَقُولُ حَمَلْتُ عَنْ مُحَمَّد بن الْحسن حمل بخى وَمرَّة قَالَ وقر بعير لَيْسَ عَلَيْهِ الاسماعى مِنْهُ قَالَ وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا سُئِلَ عَنْ مَسْأَلَةٍ فِيهَا نَظَرٌ إِلا رَأَيْتُ الْكَرَاهَةَ فِي وَجْهِهِ إِلا مُحَمَّدَ بْنَ الْحَسَنِ (الانتقائ فی فضائل الائمۃ الثلاثۃ69)

دیکھئے امام ابن عبدالبر نے کون ساباب قائم کیاہے اوراسی باب کے تحت صرف امام مالک اورامام شافعی کا ذکر کیاہے اس سے کہنامقصود یہ ہے کہ یوں توانہوں نے بہت سارے لوگوں سے استفادہ اوراخذ علم کیاہوگالیکن بطورخاص جن سے انہوں نے اخذ علم کیاہے وہ امام مالک اورامام محمد علیہ الرحمہ ہیں۔

حافظ ذہبی
حافظ ذہبی کا علم حدیث اورتاریخ وتراجم میں جو مقام ومرتبہ ہے وہ علم حدیث سے واقفیت رکھنے والوں پر پوشیدہ نہیں ہے۔اسی کے ساتھ وہ شافعی المذہب والمسلک بھی ہیں۔ ذرادیکھتے چلیں کہ انہوں نے امام شافعی کے ترجمہ میں اورامام محمد بن الحسن الشیبانی کے ترجمہ میں کس کو کس کا شاگرد بتایاہے۔
وَأَخَذَ بِاليَمَنِ عَنْ: مُطَرِّفِ بنِ مَازِنٍ، وَهِشَامِ بنِ يُوْسُفَ القَاضِي وَطَائِفَةٍ. وَبِبَغْدَادَ عَنْ: مُحَمَّدِ بنِ الحَسَنِ فَقِيْهِ العِرَاقِ وَلاَزَمَهُ وحمل عنه وقر بعير. وعن: إسماعيل بن عُلَيَّةَ وَعَبْدِ الوَهَّابِ الثَّقَفِيِّ، وَخَلْقٍ.
سیر اعلام النبلاء8/236
امام شافعی کے ترجمہ میں وہ لکھتے ہیں یمن میں انہوں نے مطرف بن مازن ،ہشام بن یوسف ،اوردیگر سے علم حاصل کیااوربغداد میں محمد بن الحسن سے علم حاصل کیا اوران سے لگے رہے اورایک اونٹ کے بوجھ کے برابر علم حاصل کیا۔

علاوہ ازیں امام محمد کے ترجمہ میں حافظ ذہبی امام محمد کے شاگردوں کی تفصیل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
1358- محمد بن الحسن 1:
ابن فَرْقَد، العَلاَّمَةُ، فَقِيْهُ العِرَاقِ، أَبُو عَبْدِ اللهِ الشَّيْبَانِيُّ، الكُوْفِيُّ، صَاحِبُ أَبِي حَنِيْفَةَ.
وُلِدَ بِوَاسِطَ، وَنَشَأَ بِالكُوْفَةِ.
وَأَخَذَ عَنْ أَبِي حَنِيْفَةَ بَعْضَ الفِقْهِ، وتمم الفقه على القاضي أبو يُوْسُفَ.
وَرَوَى عَنْ: أَبِي حَنِيْفَةَ، ومِسْعَر، وَمَالِكِ بن مِغْوَل، والأوزاعي، ومالك بن أنس.
أَخَذَ عَنْهُ: الشَّافِعِيُّ -فَأَكْثَرَ جِدّاً-
وَأَبُو عُبَيْدٍ، وَهِشَامُ بنُ عُبَيْدِ اللهِ، وَأَحْمَدُ بنُ حَفْصٍ فَقِيْهُ بُخَارَى، وَعَمْرُو بنُ أَبِي عَمْرٍو الحَرَّاني، وَعَلِيُّ بنُ مُسْلِمٍ الطُّوْسِيُّ، وَآخَرُوْنَ.
وَقَدْ سُقْتُ أَخْبَارَهُ فِي جُزْءٍ مُفْرَدٍ.
سیر اعلام النبلائ 7/555
انہوں نے امام شافعی نے علم حاصل کیااوربہت زیادہ علم حاصل کیا۔
کیااس کے بعد بھی مزید کسی شک وشبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے۔

حافظ ابن کثیر
حافظ ابن کثیر بھی علم تفسیروحدیث اورتاریخ میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ ان کی ایک کتاب طبقات الشافعیین ہے۔اس میں وہ امام شافعی کے ترجمہ میں باب قائم کرتے ہیں۔
فصل في ذكر مشايخه في القراءة والحديث والفقه
اوراس باب میں جہاں بہت سارے لوگوں کا نام لیاہے اس میں جونام ہے وہ ملاحظہ کیجئے۔
ومالك بن أنس، ومحمد بن إسماعيل بن أبي فديك، ومحمد بن الحسن الشيباني
طبقات الشافعیین لابن کثیر

پھراسی کتاب میں حافظ ابن کثیر ایک باب قائم کرتے ہیں
فصل في رحلته وطلبه العلم وولايته بأرض نجران وظيفة الحكم
اوراس باب کے تحت لکھتے ہیں۔
قال ابن أبي حاتم: ثنا الربيع، سمعت الشافعي، رضي الله عنه، يقول: حملت عن محمد بن الحسن حمل بختي ليس عليه إلا سماعي، وثنا أحمد بن سريج: سمعت الشافعي، رضي الله عنه، يقول: أنفقت على كتب محمد بن الحسن ستين دينارا ثم تدبرتها، فوضعت إلى جنب كل مسألة حديثا ردا عليه، قلت: هذا كله كان في قدوم الشافعي، رضي الله عنه، بغداد في القدمة الأولى، وكان ذلك في سنة أربع وثمانين ومائة، بعد موت القاضي أبي يوسف، رحمه الله، بسنتين، فلم يدركه ولا رآه، وما ذكره عبد الله بن محمد البلوي في رحلة الشافعي، رضي الله عنه، في مناظرة الشافعي، رضي الله عنه، أبا يوسف بحضرة الرشيد،وتأليب أبي يوسف عليه، فكلام مكذوب باطل، اختلقه هذا البلوي، قبحه الله وأبو يوسف، رحمه الله، كان أجل قدرا وأعلى منزلة مما نسب إليه، وإنما أدرك الشافعي، رضي الله عنه، في هذه القدمة محمد بن الحسن الشيباني، وأنزله في داره، وأجرى عليه نفقة، وأحسن إليه بالكتب، وغير ذلك رحمهم الله، وكانا يتناظران فيما بينهما كما جرت عادة الفقهاء، هذا على مذهب أهل الحجاز، وهذا على مذهب أهل العراق، وكلاهما بحر لا تكدره الدلاء، وقد بعث الشافعي، رضي الله عنه، في وقت يطلب من محمد بن الحسن كتبا عينها، فتأخر إرسالها فكتب إليه:
قل للذي لم تر عينا من رآه مثله ... ومن كان من رآه قد رأى من قبله
العلم ينهي أهله أن يمنعوه أهله ... لعله يبذله لأهله لعله

طبقات الشافعیین
خط کشیدہ جملے بڑے غور سے پڑھے جانے کے قابل ہیں۔ ایہ ایک شافعی محدث اورمورخ اورمفسر کا اعتراف ہے لیکن اب کچھ لوگ ایسے علم وفضل کے مالک ہوئے ہیں کہ ان کو امام محمد بن الحسن کے نام سے ہی بخارآناشروع ہوجاتاہے۔اورناک بھوں چڑھانے لگتے ہیں۔ چاہے رئیس ندوی ہو ایسے لوگوں کی باتیں ان ائمہ عظام کے مقابلہ پادر ہواہیں اوران کو محض لطیفہ اوروقت گزاری کیلئے پڑھناچاہئے۔

حافظ ابن حجر
حافظ ابن حجر علم حدیث میں ممتاز مقام کے مالک ہیں۔ ان کو حافظ الدنیاسے بھی یاد کیاجاتاہے۔ دیکھتے چلیں کہ انہوں نے امام شافعی اورامام محمد بن الحسن کے تراجم میں کس کو کس کا شاگرد بتایاہے۔
امام محمد کے ترجمہ میں لسان المیزان میں لکھتے ہیں۔
محمد" بن الحسن الشيباني أبو عبد الله أحد الفقهاء لينه النسائي وغيره من قبل حفظه يروي عن مالك بن أنس وغيره وكان من بحور العلم والفقه قويا في مالك انتهى وهو محمد بن الحسن بن فرقد الشيباني مولاهم الفقيه أبو عبد الله ولد بواسط ونشأ بالكوفة وتفقه على أبي حنيفة رحمة الله عليه وسمع الحديث من الثوري ومسعر وعمر بن زر ومالك بن مغول والأوزاعي ومالك بن أنس وزمعة بن صالح وجماعة وعنه الشافعي وأبو سليمان الجوزجاني وأبو عبيد بن سلام وهشام وعبيد الله الرازي وعلي بن مسلم الطوسي وغيرهم
لسان المیزان5/121
اس کے سوااورمزید نصوص نقل کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن اس کی حاجت نہیں ہے ۔کیونکہ اسی میں کفی وشفی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
کچھ شرارتی قسم کے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں شر کے ساتھ ساتھ تکبر کی بھی آمیزش ہوتی ہے انہیں جب شرارت کی سزا ملتی ہے تو وہ اپنی خفت مٹانے اور اپنی تکبرانہ ساکھ بحال رکھنے کے لیے مزید شرارتیں کرتے ہیں ۔
جمشید صاحب اپنی شرارت ’’اہل حدیث ایک نئے تناظر میں ‘‘ پر سزا بھگتنے کے بعد حالیہ موضوع میں خفت مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
ورنہ امام محمد و امام شافعی رحمہما اللہ کا ایک دوسرے سے استفادہ کرنا کوئی انوکھی بات نہیں تھی ۔ ظاہر سی بات ہے صاحب انوار الباری نے جس بات کو گول کرنے میں زور صرف کیا تھا اس کو اصل جگہ پر لانے کے لیے بھی کچھ تفصیل کی ضرورت تھی ۔

احناف سے اوربالخصوص امام ابوحنیفہ سے بغض وعداوت کو آشکاراکرنے کیلئے انوارالباری کے رد کو بہانہ بنایاگیاہے۔اس کی ضرورت نہین تھی ۔مصنف کو چاہئے تھاکہ اخلاقی جرات سے کام لیتے ہوئے کسی آڑ کے بغیر یہ کام کرتے
جیساکہ آپ نے شرمندگی چھپانے کے لیے رئیس ندوی رحمہ اللہ کو بہانہ بنایا ہے ۔ اس کی ضرورت نہیں تھی ۔ اخلاقی جرأت ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
خضرحیات صاحب کی بے چینی سمجھنی مشکل نہیں ہے۔اورخضرحیات صاحب ہی کیا۔دوسرے بھی کچھ کم بے چین نہیں ہے۔ لیکن اب اتنی بھی بے چینی کیاکہ آپ کے وکیل نے اپنی بات مکمل نہیں کی اورآپ نے مطالبہ شروع کردیاجواب دوجواب دو۔
کفایت اللہ صاحب نے جب تاحال اس موضوع کو ختم نہیں کیاہے توان کی باتوں کاجواب کیسے دیناشروع کردیں۔
ویسے کفایت اللہ صاحب سے کہئے کہ وہ جلد اس موضوع کو "جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سے "تمت"تک پہنچائیں۔
کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جوعلمی اعتبار سے تہی دست ہوتے ہیں لیکن ان کاساراجوش وخروش دوسروں کے دم پر ہوتاہے۔ (مشارالیہ کاذکر ضروری نہیں ہے)
ویسے آنجناب نے بھی وہی کیاہے جس کاالزام مجھے دیاگیاہے۔ رئیس ندوی صاحب کی جانب سے دفاع کرنے کیلئے کچھ ثبوت اوردلیل مہیاکرتے اس کے بجائے موضوع میں غیرمتعلق باتیں چھیڑرکھی ہیں؟یاپھردل بڑاکرکے رئیس ندوی کی اس تعلق سے غلط بیانی کا اعتراف ہی کرلیتے۔لیکن
نہ خنجر اٹھے گانہ تلوار ان سے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
جواب دو ۔۔۔۔۔ جواب دو ۔۔۔۔
ہم نے کہاں آپ سے مطالبہ کیا ہے ؟
ہم نے تو صرف یہ کہا تھا کہ اپنی شرارت کی سزا وہاں بھگت رہے ہیں جبکہ خفت مٹانے کی یہاں کوشش کر رہے ہیں ۔
اتنی بھی جلدی کیا ہے ؟ آپ نے پہلے جو شجرکاری کی ہے اس کے پھل سے ہی محظوظ ہوں ۔۔۔۔۔۔ جب کمی آنے لگی تو مزید ذرا محنت کر لیجیے گا ۔

ویسے آنجناب نے بھی وہی کیاہے جس کاالزام مجھے دیاگیاہے۔ رئیس ندوی صاحب کی جانب سے دفاع کرنے کیلئے کچھ ثبوت اوردلیل مہیاکرتے اس کے بجائے موضوع میں غیرمتعلق باتیں چھیڑرکھی ہیں؟یاپھردل بڑاکرکے رئیس ندوی کی اس تعلق سے غلط بیانی کا اعتراف ہی کرلیتے۔لیکن
نہ خنجر اٹھے گانہ تلوار ان سے
جہاں دیگیں اور چمچے چلتے ہوں وہاں خنجر و تلوار اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
موضوع میں غیر متعلق بات چھیڑنا یا غیر متعلق بات کو موضوع کی شکل دینا یہ آپ سے بڑھ کر بھلا کون جانتا ہے ۔
رئیس ندوی صاحب نے غلط بیانی کی ہے یا آپ ان کے موقف کو غلط بیان کر رہے ہیں ؟ رئیس ندوی صاحب نے امام شافعی و امام محمد کے تعلق کو بیان کیا ہے جس کو بقول آپ کے صاحب انوار الباری ہضم کر گئے تھے اب اس ’’ بیان ‘‘ کو غلط بیانی سے تعبیر کرنا آپ کی مجبوری ہے بصورت دیگر معصوم عن الخطاء صاحب انوار الباری کو تمغہ خیانت مل سکتا ہے ۔
اور مزید ہمیں اعتراف کی دعوت دے رہے ہیں سبحان اللہ ! کیا اعتراف کریں آپ کی بات ٹھیک ہے کہ آپ کے بزرگ کوثری ہند کی ؟
ویسے یہاں بھی ایک نظر کر لیں یہاں بھی کچھ باتیں قابل اعتراف ہیں کہ نہیں ؟ خود بھی اعتراف کریں اور آپ کے بزرگ ابھی زندہ ہیں ان کو بھی پیغام پہنچا کر دعوت اعتراف دیں ۔
http://www.kitabosunnat.com/forum/علماء-185/سفرنامہ-ابن-بطوطہ-کی-ایک-حکایت-اور-ابن-تیمیہ-کے-موقف-کی-9540/
کم ازکم آئینہ دیکھ لیں کہ آپ کے شیوخ الحدیث اور بزرگان دیوبند کتنا تکلف کرکے حقائق کا خون کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
جیساکہ آپ نے شرمندگی چھپانے کے لیے رئیس ندوی رحمہ اللہ کو بہانہ بنایا ہے ۔ اس کی ضرورت نہیں تھی ۔ اخلاقی جرأت ہے تو
بحمد اللہ ہماراحال رئیس ندوی جیسانہیں ہے۔ اخلاقی جرات بھی ہے اورکفایت اللہ صاحب کے موضوع ختم کرنے پر جواب بھی آئے گا
اوریہ تھریڈ "اہل حدیث ایک نئے تناظرمیں"دوتین گھنٹوں کی محنت کا نتیجہ تھی۔ اب انشاء اللہ وقت ملاتوذرامزید تفصیل سے لکھاجائے گا۔
جواب دو ۔۔۔۔۔ جواب دو ۔۔۔۔
ہم نے کہاں آپ سے مطالبہ کیا ہے ؟
ہم نے تو صرف یہ کہا تھا کہ اپنی شرارت کی سزا وہاں بھگت رہے ہیں جبکہ خفت مٹانے کی یہاں کوشش کر رہے ہیں ۔
اتنی بھی جلدی کیا ہے ؟ آپ نے پہلے جو شجرکاری کی ہے اس کے پھل سے ہی محظوظ ہوں ۔۔۔۔۔۔ جب کمی آنے لگی تو مزید ذرا محنت کر لیجیے گا ۔
آپ کے اس پورے مراسلہ میں ہی بین السطور میں جواب دو کا مفہوم ہے۔بالخصوص آخری پیراگراف ہے تواضح ہے۔
پہلے کفایت اللہ صاحب کو کہہ لیں کہ وہ جلدی سے پوری کھیت بولیں غیرمقلدین کی فصل کاٹتے ہمیں دیر نہیں لگے گی۔انشاء اللہ۔
رئیس ندوی نے کیاچھوڑاہے اورکیابیان کی ہے وہ میرے مراسلہ مین خوب واضح ہے اورآپ کا موضوع پر بات نہ کرکے یہاں وہاں کی بات دوہرائے جاناہی یہ بتاتاہے کہ آپ موضوع پر بات کرنے سے کیوں کترارہے ہیں۔
رئیس ندوی صاحب نے غلط بیانی کی ہے یا آپ ان کے موقف کو غلط بیان کر رہے ہیں ؟ رئیس ندوی صاحب نے امام شافعی و امام محمد کے تعلق کو بیان کیا ہے جس کو بقول آپ کے صاحب انوار الباری ہضم کر گئے تھے اب اس ’’ بیان ‘‘ کو غلط بیانی سے تعبیر کرنا آپ کی مجبوری ہے بصورت دیگر معصوم عن الخطاء صاحب انوار الباری کو تمغہ خیانت مل سکتا ہے ۔
اگرہم نے ان کے موف کو غلط بیان کیاہے توکتاب کے حوالہ کے ساتھ واضح کیجئے لیکن یہ چیز توآنجناب سے کبھی ہونے والی نہیں ہے۔بس ادھر ادھر کی لایعنی باتیں ضرورہوں گی۔ رئیس ندوی نے صرف امام محمد اورامام شافعی کا تعلق بیان کیاہے۔ یہ بجائے خود ایک بہت بڑاجھوٹ ہے!لمحات کو صرف چشم عقیدت کا سرمہ ہی مت بنایئے کبھی پڑھنے کی بھی عادت ڈال لیجئے کیالکھاہے اورکیانہیں لکھاہے۔
کم ازکم آئینہ دیکھ لیں کہ آپ کے شیوخ الحدیث اور بزرگان دیوبند کتنا تکلف کرکے حقائق کا خون کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اورآپ حضرات کچھ کم کرتے ہیں۔ دائودراز صاحب بخاری کا ترجمہ کرتے ہیں اورترجمہ میں ہی تحریف کرتے ہیں۔ کوئی صاحب تفسیر ابن کثیر کا ترجمہ کرتے ہیں اورترجمہ میں مسلکی روش کو شامل کرتے ہوئے ابن کثیر کی بجائے اپنی ترجمانی شروع کردیتے ہیں۔ کسی صاحب کو جوش اٹھتاہے تو امام نووی کی کتاب ریاض الصالحین میں زیارت قبر کے بجائے زیارت مسجد کی تحریف کرڈالیتے ہیں اورآپ حضرات کے کارنامے تواتنے ہیں کہ اس کو ایک دوتھریڈ میں مکمل بیان بھی نہیں کیاجاسکتا۔اگرکبھی وقت اورموقع ملاتوآپ کے شیوخ حدیث اورفضیلۃ الشیوخ کی کارگزاری کی داستان سنائوں گا۔
بہرحال باتیں بہت ہوگئیں اگرموضوع کے تعلق سے کچھ باتیں کرنی ہیں توکیجئے ورنہ خود کو بھی اورمجھے بھی آرام دیجئے والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
امام شافعی اور امام محمد کے تعلق کے حوالے دو باتیں ہیں :
اول : ایک دوسرے سے استفادہ کرنا ۔
دوم : ایک کو دوسرے کا شاگرد کہنا ۔
پہلی بات کا آپ بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہردو افراد نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا ہے ۔ چنانچہ آپ نے لکھا ہے کہ :
اس میں کوئی شک نہیں کہ امام محمد اورامام شافعی کی آپسی جان پہچان ہوگی۔ خواہ یہ واقفیت مدینہ میں ہوئی ہو یامکہ میں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امام محمد نے امام شافعی سے کچھ اوربطورخاص روایات وغیرہ حاصل کی ہوں۔یہ ہردور میں ہوتارہاہے۔ کسی سے کچھ استفادہ کرنا اورکسی کی شاگردی اختیار کرنادونوں میں بہت فرق ہے۔ انسان اپنی زندگی میں بہت سے افراد سے استفادہ کرتاہے۔ اس سے یہ لازم نہیں اتاکہ وہ اس کا شاگرد ہوگیا۔
اب یہ بتائیں کہ اس پہلی بات کو مصنف انوار نے مکمل بیان کیا ہے کہ نہیں ؟ یعنی اس بات کا ذکر تو کیاہے کہ امام شافعی نے امام محمد سے استفادہ کیا لیکن کیا اس بات کا ذکر بھی کیا ہے کہ امام محمد نے بھی امام شافعی سے استفادہ کیا ہے ؟
چنانچہ آپ نے صاحب لمحات کا اقتباس نقل کیا ہے لیکن اس کی مناسب وضاحت نہیں کر پائے ملاحظہ فرمائیں :
مصنف انوار نے اس روایت کو بطورحجت اپنی کتاب مقدمہ انوارتذکرہ امام شافعی میں ذکرکیاہے مگر ترویج اکاذیب وتلبیسات والی اپنی پالیسی یہاں بھی نہیں چھوڑی۔ وہ یہ کہ مصنف انوار کی حجت بنائی ہوئی اس روایت میں جویہ صراحت ہے کہ امام محمد درسگاہ امام شافعی میں تعلیم پاکر امام شافعی کے شاگرد ہونے کے شرف سے مشرف ہیں۔ اس کا ذکر مصنف انوار نےاشارۃًبھی نہیں آنے دیا ۔یہ ہے مصنف انوار کی دینی وعلمی وتحقیقی امانت داری !(اللمحات5/139)
صاحب لمحات کایہ اعتراض درست ہے یا نہیں ؟
اب اگر امام محمد نے امام شافعی سے استفادہ کیا ہےتو صاحب انوار کو چھپانے کی کیا ضرورت ہے ؟

رہی دوسری بات ہے کہ کون کس کا شاگرد ہے ؟ یادونوں ہی ایک دوسرے کے شاگرد ہیں ؟ میرے خیال سے اس بارے میں اتنا متحمس ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور بال کی کھال اتارنے کی ضرورت نہیں ہے ۔
آپ کے پاس کونسا ترازو ہے جس سے آپ استفادے کا ناپ تول کرتے ہیں کہ فلاں کا کم تھا اور فلاں کا زیادہ تھا ۔ اور ابن عبد البر رحمہ اللہ کا قول :
وَكَانَ صديقا للشافعى وَأحد الَّذِينَ جَالَسُوهُ فِي الْعِلْمِ وَأَخَذُوا عَنْهُ
کسی ایسے شخص کے بارے میں نہیں کہا جاسکتا جس نے صرف ایک دو پاؤ استفادہ کیا ہو ۔
صحیح بات تو یہ ہے کہ دونوں نے ایک دوسرے سے تعلیم و تعلم کیا ہے ۔ ایک کو استاد بنادینا اور دوسرے کو شاگرد ایسے پیمانے جمشید صاحب ہی ایجاد کرسکتے ہیں یا ان کے بزرگ ۔
باقی رہا ضمیر کہاں لوٹنی ہے کہاں نہیں لوٹتی ؟ یہ عربی زبان سے ادنی واقفیت رکھنے والا طالب علم بھی جان سکتا ہے ۔ جمشید صاحب یا ان کی قسم کےلوگ اس کو جس طرف مرضی لوٹاتے رہیں کون روک سکتا ہے ؟ جہاں نصوص کا انکار کرنا اوران میں لفظی تحریف کرنا کوئی بڑی بات نہیں وہاں ضمیر کا مرجع بدلنا تو بڑا آسان کام ہے ۔
 
Top