• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رات سونے سے قبل اپنا محاسبہ ضرور کریں !!!

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
احتساب
تحریر : اشفاق سنابلی (ممبئی)
-----------------------
احتساب کا لغوی معنی:
احتساب (ح․ س․ ب) سے ماخوذ ہے جس کا معنی شمار کرنا اور گننا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے: حسبت الشی احسبہ اذا اعددتہ۔​
اصطلاحی معنی:
امام ماوری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”أن ینصح الانسان فی شاکلة‘وضاھاہ وان کان مذموماً استدرکہ ان امکن وانتھی عن مثلہ فی المستقبل“۔
ترجمہ: انسان دن کے اجالے میں اور رات کے اندھیرے میں اس سے صادر ہونے والے اعمال کا جائزہ لے۔ اگر وہ اعمال اچھے ہوں تو انہیں جاری رکھے اور ان جیسے اعمال مزید کرے، اگر اعمال برے ہو ں تو ان کی جانچ پڑتال کرے اور ان سے اور ان جیسے دیگر اعمال و افعال سے رک جائے اور آئندہ کبھی نہ کرے۔ (ادب الدنیا والدین: ص342)
نفس کا معنی یہ ہے کہ وہ روح ، جسم اور خون کا ایک ایسا لطیف مادہ ہے جو کہ ان تینوں پر مشتمل ہے۔ جن میں سے اگر کوئی ایک بھی باقی نہ رہیں تو کسی کی حیات و زندگی باقی نہ رہے گی۔
نفس کی تین قسمیں ہیں:
(1) نفس امّارہ: جو انسان کو شہوات و ملذات کی طرف راغب کرتا ہے اور دل کو پستی اور برے اخلاق و عادات کی طرف کھینچتا ہے۔
(2) نفس لوامہ: وہ نفس ہے کہ جب بتقاضائے بشریت انسان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس پر ندامت کے آنسو بہاتا ہے۔
(3) نفس مطمئنہ: وہ نفس ہے جو گندی عادات و صفات سے پاک و صاف ہوتا ہے اور عمدہ اخلاق و کردار سے متصف ہوتا ہے۔

واضح ہو کہ آخرت کی کامیابی کے حصول کے لیے نفس کو تمام گناہوں سے پاک و صاف کرنا ضروری ہے اس کے بغیر جنت کا حصول نا ممکن ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: (سورة الشمس 7 تا 10)ترجمہ : ”قسم ہے نفس کی اور اسے درست کرنے کی ۔ پھر سمجھ دی اس کو برائی اور بچ کر نکلنے کی۔ جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا۔ اور جس نے اسے خاک میں ملادیا وہ ناکام ہوا“۔
نبی اللہﷺ اپنے نفس کے لیے دعائیں مانگتے رہتے تھے آپﷺ کی یہ دُعا منقول ہے: ”اللھم آتِ نفسی ھواھا انت خیر من زکاہا انت ولیھا ومولاھا“ اے اللہ میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا فرما اور اسے پاک کردے اس لیے کہ تو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے بلاشبہ تو ہی اس کا والی اور مولیٰ ہے۔( ٍصخيح مسلم )

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو قیامت کے دن کے احتساب سے بار بار ڈرایا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(الحشر19 - 18 )ترجمہ: ” اے ایمان والو !اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ لے کہ کل( قیامت) کے واسطے اس نے اعمال کا (کیا) ذخیرہ بھیجا ہے۔ اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جنھوں نے اللہ کے (احکامات) کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انھیں اپنی جانوں سے غافل کردیا ۔ اور ایسے ہی لوگ نافرمان( فاسق) ہوتے ہیں۔

علامہ ابن القیم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: یدل علی محاسبة النفس قولہ تعالی﴿یا ایھا الذین آمنوا…الخ﴾ فیقول سبحانہ وتعالی لینظر احدکم ماقدم لیوم القیامة من الأعمال: ام من الصالحات التی تنجیہ ام من السےئات التی توبقہ۔( اغاثة اللفھان لابن القیم: ج۱/۱۵۱)
یہ آیت محاسبہ نفس کے وجود پر دلالت کرتی ہے لہٰذا ہر شخص کو غور و فکر کرنا چاہیے کہ اس نے روز قیامت کے لیے کون سے اعمال بھیجے ہیں۔ کیا نیک اعمال جو اسے دوزخ سے نجات دیں گے یا برے اعمال جو اسے تباہ و برباد کردیں گے۔


بروز قیامت انسان کے سارے اعمال اس کے سامنے پیش کردےئے جائیں گے اور کہہ دیا جائے گا کہ اب تم اپنا حساب دیکھ لو اور خود ہی بتاو کہ تم کس قابل ہو جنت یا جہنم کے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: (بنی اسرائیل14 - 13) ترجمہ : ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہٴ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے (اوپر) کھلا ہوا پائے گا، لے خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے آج تو تو خود ہی حساب لینے کو کافی ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا محاسبہٴ نفس:
حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میری ملاقات ابوبکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے ہوئی تو انھوں نے فرمایاحنظلہ کیسے ہو؟ میں نے کہا :حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے۔ ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا سبحان اللہ! تم کیا کہہ رہے ہو؟ حنظلہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ہم نبی اکرمﷺ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ ہمیں جنت و جہنم کی یا د دلاتے ہیں تو کیفیت یہ ہوتی ہے کہ گویا ہم اپنی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پھر جب ہم آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں اور بیوی بچوں اور جائداد وغیرہ میں مشغول ہوجاتے ہیں تو ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں ۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم اس جیسی کیفیت ہماری بھی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ میں اور ابوبکر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) چل پڑے اورآپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ حنظلہ منافق ہوگیا ہے آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ جنت و جہنم کی یاد دلاتے ہو تو کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ گویا ہم انھیں دیکھ رہے ہیں پھر جب آپ کے پاس سے جدا ہوجاتے ہیں اور معاشی امور میں مشغول ہوجاتے ہیں تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا :اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم ہمیشہ اس حال پر رہ جاوٴ جس حال میں میرے پاس اور ذکر میں ہوتے تو فرشتے تمہارے بستروں اور تمہارے راستوں میں تم سے مصافحہ کریں لیکن اے حنظلہ ایک گھڑی دوسری گھڑی سے مختلف ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 2750)
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک باغ میں گئے۔ جب وہ ذرا مجھ سے دور ہوگئے اور میرے اور ان کے درمیان دیوار حائل ہوگئی تو اپنے نفس کو مخاطب کر کے کہنے لگا۔ عمر بن خطاب(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) تو اپنے آپ کو امیرالمومنین سمجھتا ہے۔ اللہ کی قسم یا تو تو اللہ سے ڈرنے والا بن جا یا پھر عذاب بھگتنے کے لیے تیار ہوجا۔ (محاسبة النفس لا بن ابی الدنیا ص 23 )

مشہور صحابی رسولﷺ عمروبن العاص کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو آپ اپنے چہرے کو دیوار کی طرف کرکے خوب روئے۔ اس حالت میں ان کے فرزند ان سے کہنے لگے کہ ابا جان کیا رسول اللہﷺ نے آپ کو فلاں فلاں خوشخبریاں نہیں دیں ہیں انھوں نے ان کی طرف منھ پھیر کر کہا کہ تمام اعمال میں سب سے افضل ترین عمل شہادتین کا اقرار ہے۔ میری زندگی تین مختلف ادوارپر مشتمل ہے ایک دور وہ تھا کہ نبی اکرمﷺ سے دشمنی رکھنے والا مجھ سے زیادہ کوئی اور نہ تھا۔ اس دور میں اگر میں آپ پر قابو پالیتا اور معاذاللہ آپ کو قتل کر دیتا اور اگر اسی حالت میں مر جاتا تو جہنمی ہوتا۔دوسرا دور جب اللہ نے میرے دل میں ایمان ڈال دی میں آپﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ(ﷺ) اپنا داہنا ہاتھ لاےئے تاکہ میں اسلام پر بیعت کروں، آپﷺ نے داہنا ہاتھ پھیلایا، میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، آپﷺ نے فرمایا عمرو یہ کیا معاملہ ہے ؟میں نے عرض کیا: کہ میرے کچھ شرائط ہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا :وہ شرائط کیا ہیں؟میں نے کہا :کہ میرے سابقہ گناہ معاف کر دےئے جائیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: کہ تمھیں نہیں معلوم کہ اسلام لانے سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اسی طرح ہجرت ماقبل ہجرت کے سارے گناہ ختم کردیتی ہے اور حج بھی پہلے ہونے والے گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔ اس دو ر میں رسول اللہﷺ سے زیادہ محبوب میرے دل میں اور کوئی شخصیت نہ تھی اور میں بطور تعظیم رسول اللہﷺ کو نظر بھر دیکھ بھی نہیں سکاہوں۔ اگر کوئی مجھ سے آپﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرنے کی فرمائش کرے تو میں بیان نہیں کرسکتا اس لیے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو نظر بھر دیکھا بھی نہیں۔ اگر اس دور میں میری وفات ہوتی تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا۔
تیسرا وہ دور آیا کہ ہم سے کئی کام ایسے ہوئے کہ میں نہیں جانتا کہ اس میں میرا کیا حال ہوگا۔ جب میرا انتقال ہوجائے تو میرے جنازے کے ساتھ کوئی نوحہ وماتم کرنے والی نہ آئے اور مجھے دفن کردو تو آہستہ آہستہ مجھ پر مٹی ڈالو، میرے قبر پر اتنی دیر تک(میرے لیے دُعا و استغفار میں) کھڑے رہو جتنی دیر میں ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جا تا ہے تاکہ میں (تمہاری دعا و استغفار سے)انس حاصل کروں اور دیکھوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔( مسلم /حدیث نمبر121)

پہلے اپنا محاسبہ:
ایک مسلمان کے لیے کہ وہ اپنے نفس کا بذات خود محاسبہ کرے اور اس بات کا اندازہ لگائے کہ قیامت کے دن کے لیے کون سا توشہ روانہ کیا ہے۔
چنانچہ میمون بن مھران رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”لایکون الرجل لقیتا حتی یکون لنفسہ اشد محاسبة من الشریک لشریکہ“(اغاثة اللفھان:95)
کوئی شخص اس وقت تک متقی نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ اس سے زیادہ نہ کرے جیسا کہ ایک شریک اپنے دوسرے شریک اور پارٹنر سے کرتا ہے۔ حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ”لاتلقی المومن الا یعاتب نفسہ“ موٴمن تمہیں اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہوا ہی ملے گا(اغاثة اللفھان:96)
افسوس کہ آج ایسے افراد کی بہت کمی ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کی جنھیں تلاش رہتی ہے کہ کوئی ان کی کوتاہیوں کی خبر دے۔ عوام سے لے کر اہل علم تک سب دوسروں کے عیوب کی تلاش میں سرگرداں ہیں ان کو اپنے اندر جھانکنے کی فرصت ہی نہیں۔ احتساب و محاسبہ تودرکنار اب ہر جگہ تملق و چاپلوسی کا دور دورہ ہے۔ جو جتنا بڑا چاپلوس ہے اس کی اتنی ہی آؤ بھگت ہوتی ہے۔ اور دربار میں اعلیٰ مقام ملتا ہے۔ تملق و چاپلوسی ایک بیماری کا روپ اختیار کرچکی ہے۔
کمینہ صفت انسانوں نے اسے عروج و بلندی پانے کا ایک آسان ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ سچ ہے #
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دنیا میں جسے دیکھو خوشامد کا ہے بندہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو محاسبہ نفس کی توفیق عطا فرمائیں( آمین )

http://thefreelancer.co.in/show_article.php?article=242
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
محاسبہ نفس كے شڈول ميں شركت كرنے كا حكم !!!

بہت سارى مجلسوں ميں ممبران كو مختلف موضوع ميں شركت كى دعوت دى جاتى ہے كہ انعامى مقابلہ ميں شركت كے ليے نام لكھائيں اور مقابلہ كى مدت كے دوران نماز پنجگانہ مسجد ميں ادا كريں اور يہ مقابلہ ان شاء اللہ ايك ہفتہ تك رہے گا اس كو مكمل كرنے كے ليے مقابلہ ميں حصہ لينے والا شخص ايك خاكہ ميں رنگ بھرتا ہے جس كى سات شاخيں ہيں جو ہفتہ كے سات يوم كے قائم مقام ہيں اور ہر شاخ كے پانچ پتے ہيں، جسے كميٹى پوائنٹ كے ليے اور كامياب ہونے والے كے ليے استعمال كرے گى جو نمازوں كى جگہ ہے، جب آپ نماز مسجد ميں ادا كريں تو ايك پتہ ميں سبز رنگ بھر ديں، اور جب نماز باجماعت ادا نہيں كر سكے تو پتہ ميں زرد رنگ بھر ديں، پھل خيرى عمل كے ليے ہے، اور پوائنٹ ميں شمار نہيں ہو گا، اس طرح كے مضامين كا حكم كيا ہے، اور كيا يہ معاملہ بدعت شمار ہو گا ؟

الحمد للہ:

مسلمان اپنے رب كى عبادت كتاب عزيز ميں اللہ كے حكم اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اتباع كرتے ہوئے بجا لاتا ہے، اور جو عبادت ہو وہ بدنے اور اس كے رب عزوجل كے مابين ہے، اس پر لوگوں كے مطلع ہونے كى ضرورت نہيں كہ لوگ اسے ديكھيں كيا كر رہا ہے، اور اس نےكوتاہى كيوں كى ہے ؟

ظاہر يہى ہوتا ہے كہ سوال ميں وارد شدہ فعل اور اس جيسے دوسرے افعال شريعت كے موافق نہيں؛ اس كى كئى وجوہات ہيں:

1 ـ يہ سلف امت كے طريقہ پر نہيں، اور نہ ہى كسى صحابى نے ايسا كيا اور نہ ہى ان كے بعد كسى نے بلكہ يہ اس زمان كى بدعت ہے.

2 ـ مسلمان اپنے رب كے ليے نماز ادا كرتا ہے، اس ليے نماز ادا نہيں كرتا كہ مخلوق اسے انعام سے نوازے.

3 ـ اس طرح كا شڈول ضعيف و كمزور نفس والوں كے ليے كذب و جھوٹ كا دروازہ كھولتا ہے، ان ميں سے كوئى شرم كريگا كہ اس كے مسلمان بھائى اسے كوتاہى كرنے والا ديكھيں، تو اسطرح وہ جھوٹ و كذب ميں پڑ جائيگا.

4 ـ اس مقابلہ ميں شريك ہونے والے ممبران ميں ايك دوسرے سے آگے بڑھنے كى دوڑ ميں شامل ہونا عمل ميں فخر و تعجب كرنے كا دروازہ كھولےگا.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

بعض افراد فرضى اور سنت نمازوں كے بارہ ميں محاسبہ نفس كرنے كے ليے ايك چارٹ بناتے ہيں، اس چارٹ ميں ہر نماز كے آگے دو خانے ايك فرض اور دوسرا سنتوں كے ليے بنايا جاتا ہے اور ہر نماز باجماعت ادا كرنے كى صورت ميں اس كے پوائنٹ لكھے جاتے ہيں، اور جب سنت مؤكدہ ادا كرے تو بھى اس كے خانہ ميں پوائنٹ لكھتے ہيں، اور اگر ادا نہ كرے تو بھى اس كے خانہ ميں پوائنٹ درج كرتے ہيں.

اور ہفتہ مكمل ہونے پر پوائنٹ جمع كيے جاتے ہيں ايك ماہ كے ليے چار چارٹ بنائے جاتے ہيں، يہ لوگ كہتے ہيں كہ اس وسيلہ سے نماز پنجگانہ اور سنت كى ادائيگى پر پابندى ہوتى ہے اس طريقہ كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟

كيا يہ مشروع ہے يا نہيں، اور اس طرح كے چارٹ نشر اور شائع كرنے ميں آپ كى رائے كيا ہے، اللہ آپ كو جزائے خير عطا فرمائے ؟


شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" يہ طريقہ مشروع نہيں بلكہ بدعت ہے، اور ہو سكتا ہے اس طرح دل سے اللہ كى بندگى كا معنى و مفہوم ہى خارج ہو جائے اور سارى عبادات روٹينى بن كر رہ جائيں جيسے وہ كہتے ہيں.

صحيحين ميں انس بن مالك رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسجد ميں داخل ہوئے تو دو ستونوں كے درميان رسى بندھى ہوئى ديكھى تو آپ نے دريافت فرمايا يہ كيا ہے ؟

انہوں نے جواب ديا: يہ زينب رضى اللہ تعالى عنہا كى رسى ہے جب وہ تھك جاتى ہے يا اكتاہٹ محسوس كرتى ہيں تو اس رسى كو پكڑ ليتى ہيں.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اسے كھول دو، تم ميں سے كوئى ايك اس وقت تك نماز ادا كرے جب وہ چست ہو، اور جب اكتا جائے يا تھك جائے تو بيٹھ جائے "


پھر ہو سكتا ہے بعض اوقات انسان كو اصل ميں غير افضل اعمال كسى سبب كى بنا پر افضل پيش آ سكتا ہے، اگر وہ آنے والے كسى مہمان كى خدمت ميں لگ جائے اور اس كى ظہر كى سنت مؤكدہ رہ جائيں تو يہ اس كے ليے سنت مؤكدہ كى ادائيگى ميں مشغول ہونے سے بہتر ہے.

ميں اپنے نوجوانوں كو نصيحت كرتا ہوں كہ وہ عبادت ميں چستى كے حصول كے ليے اس طرح كے طريقے اور اسلوب اختيار مت كريں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس طرح كے اسلوب اختيار كرنے سے بچنے كا كہا ہے، اور اپنى سنت اور سنت خلفاء راشدين كى اتباع و پيروى كرنے كى ترغيب دلائى اور بدعات سے اجتناب كرنے كا حكم ديا ہے، اور بيان كيا ہے كہ ہر بدعت گمراہى ہے، چاہے اس بدعت كو ايجاد اور عمل كرنے والے اچھا ہى سمجھتے ہوں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے طريقہ ميں يہ شامل نہ تھا اور نہ ہى خلفاء راشدين اور صحابہ كرام اس طرح كرتے تھے " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 16 / 111 ).

اور شيخ عبد الرحمن البراك حفظہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ہم چھ دوست ہر پندرہ يوم كے بعد كسى ايك كے گھر جمع ہو كر ايك پروگرام كرتے ہيں جس ميں قرآن مجيد اور اربعين نووى اور منھاج المسلم پڑھتے ہيں اور گھر والے كى جانب سے كچھ وعظ و نصيحت ہوتى ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كےصحابہ كرام كے متعلق حالات پڑھتے ہيں، اس پروگرام كى ابتدا قرآن مجيد سے اور اختتام دعا سے ہوتا ہے.

اور اس پروگرام ميں يہ بھى شامل ہے كہ ہر ايك نے ايك ورقہ پر كرنا ہوتا جسے ہم نے ايك دوسرے سے آگے نكلنے كا چارٹ كے نام سے موسوم كيا ہے، اس ميں قرآن كا ورد اور مسجد ميں نماز پنجگانہ كى ادائيگى، اور روزہ، صلہ رحمى شامل ہے، جب ہم اس چارٹ كو پر كرتے ہيں تو اس كے نتائج اچھے نكلتے ہيں، اور جب پر نہ كريں تو نتائج اچھے نہيں ہوتے، بلكہ ہم سے قرآن مجيد كى تلاوت ميں كوتاہى ہو جاتى ہے، لہذا اس طرح كے چارٹ كا شريعت ميں كيا حكم ہے ؟


شيخ كا جواب تھا:

" الحمد للہ:

مجھے ظاہر تو يہى ہوتا ہے كہ يہ چارٹ بنانا اور ايك دوسرے سے آگے بڑھنے كے ليے اس كى شقوں كے مطابق عمل كرنا بدعت ہے؛ كيونكہ يہ آپس ميں فخر اور اعجاب عمل پر مشتمل ہے، اور اسى طرح اس ميں ايسے عمل كا اظہار بھى پايا جاتا ہے جسے خفيہ ركھنا افضل ہے؛ اس ليے كہ صدقہ اور تلاوت قرآن يا ذكر جيسے عمل خفيہ ركھنا رياء كارى سے زيادہ دور ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اپنے پروردگار سے دعا كيا كرو گڑ گڑا كر كے بھى اور چپكے چپكے بھى ﴾الاعراف ( 55 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد ربانى ہے:

﴿ يہ تيرے پروردگار كى اس مہربانى كا ذكر جو اس نے اپنے بندے زكريا پر كي تھى، جبكہ اس نے اپنے رب سے چپكے چپكے دعا كى تھى ﴾مريم ( 2 - 3 ).

اور ان سات بندوں ميں سے ايك بندے كے متعلق بھى يہى ہے جسے اللہ تعالى يوم قيامت اپنا سايہ نصيب كرينگے حديث ميں يہ بيان ہوا ہے:

" ايك وہ شخص جو صدقہ كرے اور اسے خفيہ ركھے حتى كہ اس كا باياں ہاتھ بھى نہ جانے كہ اس كے بائيں ہاتھ نے كيا صدقہ كيا ہے "

اس ليے يہ چاہيے كہ ايك دوسرے كو اطاعت و نوافل كى نصيحت كثرت سے كى جائے، اور ہر شخص وہ عمل كرے جو اس كے آسان وميسر ہو جو اس كے اور اس كے پروردگار كے درميان ہو، تو اس سے تقوى اور نيكى و بھلائى ميں ايك دوسرے كے ساتھ تعاون حاصل ہو گا، اور عمل ايسى اشياء سے بھى محفوظ و سلامت رہے گا جس سے عمل كے ضائع ہونے كا خدشہ ہے، يا پھر اس كا اجروثواب كم ہو جاتا ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے، اور وہى سيدھى راہ كى راہنمائى كرنے والا ہے. واللہ تعالى اعلم " انتہى

http://www.islamway.com/?iw_s=Fatawa&iw_a=view&fatwa_id=8762

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب

http://islamqa.info/ur/109125
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
احتساب
تحریر : اشفاق سنابلی (ممبئی)
-----------------------
احتساب کا لغوی معنی:
احتساب (ح․ س․ ب) سے ماخوذ ہے جس کا معنی شمار کرنا اور گننا ہے چنانچہ کہا جاتا ہے: حسبت الشی احسبہ اذا اعددتہ۔​
اصطلاحی معنی:
امام ماوری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ”أن ینصح الانسان فی شاکلة‘وضاھاہ وان کان مذموماً استدرکہ ان امکن وانتھی عن مثلہ فی المستقبل“۔
ترجمہ: انسان دن کے اجالے میں اور رات کے اندھیرے میں اس سے صادر ہونے والے اعمال کا جائزہ لے۔ اگر وہ اعمال اچھے ہوں تو انہیں جاری رکھے اور ان جیسے اعمال مزید کرے، اگر اعمال برے ہو ں تو ان کی جانچ پڑتال کرے اور ان سے اور ان جیسے دیگر اعمال و افعال سے رک جائے اور آئندہ کبھی نہ کرے۔ (ادب الدنیا والدین: ص342)
نفس کا معنی یہ ہے کہ وہ روح ، جسم اور خون کا ایک ایسا لطیف مادہ ہے جو کہ ان تینوں پر مشتمل ہے۔ جن میں سے اگر کوئی ایک بھی باقی نہ رہیں تو کسی کی حیات و زندگی باقی نہ رہے گی۔
نفس کی تین قسمیں ہیں:
(1) نفس امّارہ: جو انسان کو شہوات و ملذات کی طرف راغب کرتا ہے اور دل کو پستی اور برے اخلاق و عادات کی طرف کھینچتا ہے۔
(2) نفس لوامہ: وہ نفس ہے کہ جب بتقاضائے بشریت انسان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو اس پر ندامت کے آنسو بہاتا ہے۔
(3) نفس مطمئنہ: وہ نفس ہے جو گندی عادات و صفات سے پاک و صاف ہوتا ہے اور عمدہ اخلاق و کردار سے متصف ہوتا ہے۔

واضح ہو کہ آخرت کی کامیابی کے حصول کے لیے نفس کو تمام گناہوں سے پاک و صاف کرنا ضروری ہے اس کے بغیر جنت کا حصول نا ممکن ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: (سورة الشمس 7 تا 10)ترجمہ : ”قسم ہے نفس کی اور اسے درست کرنے کی ۔ پھر سمجھ دی اس کو برائی اور بچ کر نکلنے کی۔ جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا۔ اور جس نے اسے خاک میں ملادیا وہ ناکام ہوا“۔
نبی اللہﷺ اپنے نفس کے لیے دعائیں مانگتے رہتے تھے آپﷺ کی یہ دُعا منقول ہے: ”اللھم آتِ نفسی ھواھا انت خیر من زکاہا انت ولیھا ومولاھا“ اے اللہ میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا فرما اور اسے پاک کردے اس لیے کہ تو سب سے بہتر پاک کرنے والا ہے بلاشبہ تو ہی اس کا والی اور مولیٰ ہے۔( ٍصخيح مسلم )

اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو قیامت کے دن کے احتساب سے بار بار ڈرایا ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(الحشر19 - 18 )ترجمہ: ” اے ایمان والو !اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص دیکھ لے کہ کل( قیامت) کے واسطے اس نے اعمال کا (کیا) ذخیرہ بھیجا ہے۔ اور (ہر وقت) اللہ سے ڈرتے رہو۔ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے۔ اور تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جنھوں نے اللہ کے (احکامات) کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی انھیں اپنی جانوں سے غافل کردیا ۔ اور ایسے ہی لوگ نافرمان( فاسق) ہوتے ہیں۔

علامہ ابن القیم رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: یدل علی محاسبة النفس قولہ تعالی﴿یا ایھا الذین آمنوا…الخ﴾ فیقول سبحانہ وتعالی لینظر احدکم ماقدم لیوم القیامة من الأعمال: ام من الصالحات التی تنجیہ ام من السےئات التی توبقہ۔( اغاثة اللفھان لابن القیم: ج۱/۱۵۱)
یہ آیت محاسبہ نفس کے وجود پر دلالت کرتی ہے لہٰذا ہر شخص کو غور و فکر کرنا چاہیے کہ اس نے روز قیامت کے لیے کون سے اعمال بھیجے ہیں۔ کیا نیک اعمال جو اسے دوزخ سے نجات دیں گے یا برے اعمال جو اسے تباہ و برباد کردیں گے۔


بروز قیامت انسان کے سارے اعمال اس کے سامنے پیش کردےئے جائیں گے اور کہہ دیا جائے گا کہ اب تم اپنا حساب دیکھ لو اور خود ہی بتاو کہ تم کس قابل ہو جنت یا جہنم کے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: (بنی اسرائیل14 - 13) ترجمہ : ہم نے ہر انسان کی برائی بھلائی کو اس کے گلے لگا دیا ہے اور بروز قیامت ہم اس کے سامنے اس کا نامہٴ اعمال نکالیں گے جسے وہ اپنے (اوپر) کھلا ہوا پائے گا، لے خود ہی اپنی کتاب آپ پڑھ لے آج تو تو خود ہی حساب لینے کو کافی ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا محاسبہٴ نفس:
حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میری ملاقات ابوبکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے ہوئی تو انھوں نے فرمایاحنظلہ کیسے ہو؟ میں نے کہا :حنظلہ تو منافق ہو گیا ہے۔ ابوبکر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے فرمایا سبحان اللہ! تم کیا کہہ رہے ہو؟ حنظلہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا کہ ہم نبی اکرمﷺ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ ہمیں جنت و جہنم کی یا د دلاتے ہیں تو کیفیت یہ ہوتی ہے کہ گویا ہم اپنی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ پھر جب ہم آپ کے پاس سے چلے جاتے ہیں اور بیوی بچوں اور جائداد وغیرہ میں مشغول ہوجاتے ہیں تو ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں ۔ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم اس جیسی کیفیت ہماری بھی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ میں اور ابوبکر(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) چل پڑے اورآپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوگئے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ حنظلہ منافق ہوگیا ہے آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ ہم آپ کے پاس ہوتے ہیں تو آپ جنت و جہنم کی یاد دلاتے ہو تو کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ گویا ہم انھیں دیکھ رہے ہیں پھر جب آپ کے پاس سے جدا ہوجاتے ہیں اور معاشی امور میں مشغول ہوجاتے ہیں تو بہت کچھ بھول جاتے ہیں۔ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا :اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم ہمیشہ اس حال پر رہ جاوٴ جس حال میں میرے پاس اور ذکر میں ہوتے تو فرشتے تمہارے بستروں اور تمہارے راستوں میں تم سے مصافحہ کریں لیکن اے حنظلہ ایک گھڑی دوسری گھڑی سے مختلف ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر 2750)
انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور امیرالمومنین عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک باغ میں گئے۔ جب وہ ذرا مجھ سے دور ہوگئے اور میرے اور ان کے درمیان دیوار حائل ہوگئی تو اپنے نفس کو مخاطب کر کے کہنے لگا۔ عمر بن خطاب(رضی اللہ تعالیٰ عنہ) تو اپنے آپ کو امیرالمومنین سمجھتا ہے۔ اللہ کی قسم یا تو تو اللہ سے ڈرنے والا بن جا یا پھر عذاب بھگتنے کے لیے تیار ہوجا۔ (محاسبة النفس لا بن ابی الدنیا ص 23 )

مشہور صحابی رسولﷺ عمروبن العاص کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو آپ اپنے چہرے کو دیوار کی طرف کرکے خوب روئے۔ اس حالت میں ان کے فرزند ان سے کہنے لگے کہ ابا جان کیا رسول اللہﷺ نے آپ کو فلاں فلاں خوشخبریاں نہیں دیں ہیں انھوں نے ان کی طرف منھ پھیر کر کہا کہ تمام اعمال میں سب سے افضل ترین عمل شہادتین کا اقرار ہے۔ میری زندگی تین مختلف ادوارپر مشتمل ہے ایک دور وہ تھا کہ نبی اکرمﷺ سے دشمنی رکھنے والا مجھ سے زیادہ کوئی اور نہ تھا۔ اس دور میں اگر میں آپ پر قابو پالیتا اور معاذاللہ آپ کو قتل کر دیتا اور اگر اسی حالت میں مر جاتا تو جہنمی ہوتا۔دوسرا دور جب اللہ نے میرے دل میں ایمان ڈال دی میں آپﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ(ﷺ) اپنا داہنا ہاتھ لاےئے تاکہ میں اسلام پر بیعت کروں، آپﷺ نے داہنا ہاتھ پھیلایا، میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، آپﷺ نے فرمایا عمرو یہ کیا معاملہ ہے ؟میں نے عرض کیا: کہ میرے کچھ شرائط ہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا :وہ شرائط کیا ہیں؟میں نے کہا :کہ میرے سابقہ گناہ معاف کر دےئے جائیں گے؟ آپﷺ نے فرمایا: کہ تمھیں نہیں معلوم کہ اسلام لانے سے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں اسی طرح ہجرت ماقبل ہجرت کے سارے گناہ ختم کردیتی ہے اور حج بھی پہلے ہونے والے گناہوں کو ختم کردیتا ہے۔ اس دو ر میں رسول اللہﷺ سے زیادہ محبوب میرے دل میں اور کوئی شخصیت نہ تھی اور میں بطور تعظیم رسول اللہﷺ کو نظر بھر دیکھ بھی نہیں سکاہوں۔ اگر کوئی مجھ سے آپﷺ کا حلیہ مبارک بیان کرنے کی فرمائش کرے تو میں بیان نہیں کرسکتا اس لیے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو نظر بھر دیکھا بھی نہیں۔ اگر اس دور میں میری وفات ہوتی تو مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوتا۔
تیسرا وہ دور آیا کہ ہم سے کئی کام ایسے ہوئے کہ میں نہیں جانتا کہ اس میں میرا کیا حال ہوگا۔ جب میرا انتقال ہوجائے تو میرے جنازے کے ساتھ کوئی نوحہ وماتم کرنے والی نہ آئے اور مجھے دفن کردو تو آہستہ آہستہ مجھ پر مٹی ڈالو، میرے قبر پر اتنی دیر تک(میرے لیے دُعا و استغفار میں) کھڑے رہو جتنی دیر میں ایک اونٹ ذبح کرکے اس کا گوشت تقسیم کیا جا تا ہے تاکہ میں (تمہاری دعا و استغفار سے)انس حاصل کروں اور دیکھوں کہ میں اپنے رب کے فرشتوں کو کیا جواب دیتا ہوں۔( مسلم /حدیث نمبر121)

پہلے اپنا محاسبہ:
ایک مسلمان کے لیے کہ وہ اپنے نفس کا بذات خود محاسبہ کرے اور اس بات کا اندازہ لگائے کہ قیامت کے دن کے لیے کون سا توشہ روانہ کیا ہے۔
چنانچہ میمون بن مھران رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”لایکون الرجل لقیتا حتی یکون لنفسہ اشد محاسبة من الشریک لشریکہ“(اغاثة اللفھان:95)
کوئی شخص اس وقت تک متقی نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ اس سے زیادہ نہ کرے جیسا کہ ایک شریک اپنے دوسرے شریک اور پارٹنر سے کرتا ہے۔ حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں ”لاتلقی المومن الا یعاتب نفسہ“ موٴمن تمہیں اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہوا ہی ملے گا(اغاثة اللفھان:96)
افسوس کہ آج ایسے افراد کی بہت کمی ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہیں اور ان لوگوں کی جنھیں تلاش رہتی ہے کہ کوئی ان کی کوتاہیوں کی خبر دے۔ عوام سے لے کر اہل علم تک سب دوسروں کے عیوب کی تلاش میں سرگرداں ہیں ان کو اپنے اندر جھانکنے کی فرصت ہی نہیں۔ احتساب و محاسبہ تودرکنار اب ہر جگہ تملق و چاپلوسی کا دور دورہ ہے۔ جو جتنا بڑا چاپلوس ہے اس کی اتنی ہی آؤ بھگت ہوتی ہے۔ اور دربار میں اعلیٰ مقام ملتا ہے۔ تملق و چاپلوسی ایک بیماری کا روپ اختیار کرچکی ہے۔
کمینہ صفت انسانوں نے اسے عروج و بلندی پانے کا ایک آسان ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ سچ ہے #
سو کام خوشامد سے نکلتے ہیں جہاں میں
دنیا میں جسے دیکھو خوشامد کا ہے بندہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو محاسبہ نفس کی توفیق عطا فرمائیں( آمین )

http://thefreelancer.co.in/show_article.php?article=242
یہ امام ماوری رحمة اللہ علیہ کون ہیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
أبو الحسن علي بن محمد بن محمد بن حبيب البصري البغدادي، الشهير بالماوردي. مفكر إسلامي. من وجوه فقهاء الشافعية وإمام في الفقه والأصول والتفسير، وبصير بالعربية. كان من رجال السياسة البارزين في الدولة العباسية وخصوصًا في مرحلتها المتأخرة.
نشأ الماوردي بالبصرة، وتعلّم وسمع الحديث من جماعة من العلماء، وتولى القضاء في كورة (أستوا) من ناحية نيسابور، ولقب بأقضى القضاة عام 429هـ. تألق نجم الماوردي عند عودته إلى بغداد وقيامه بالتدريس، ولكن نجمه السياسي برز عندما عمل سفيرًا بين رجالات الدولة في الفترة بين عامي 381 و 422هـ، لحل الخلافات الناشبة بين أقطار الدولة العباسية.
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
أبو الحسن علي بن محمد بن محمد بن حبيب البصري البغدادي، الشهير بالماوردي. مفكر إسلامي. من وجوه فقهاء الشافعية وإمام في الفقه والأصول والتفسير، وبصير بالعربية. كان من رجال السياسة البارزين في الدولة العباسية وخصوصًا في مرحلتها المتأخرة.
نشأ الماوردي بالبصرة، وتعلّم وسمع الحديث من جماعة من العلماء، وتولى القضاء في كورة (أستوا) من ناحية نيسابور، ولقب بأقضى القضاة عام 429هـ. تألق نجم الماوردي عند عودته إلى بغداد وقيامه بالتدريس، ولكن نجمه السياسي برز عندما عمل سفيرًا بين رجالات الدولة في الفترة بين عامي 381 و 422هـ، لحل الخلافات الناشبة بين أقطار الدولة العباسية.
بھای اس کا ترجمہ کردیں
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
بھای اس کا ترجمہ کردیں
نام :علی بن محمد بن حبیب ،البصری ،الماوردی ۔۔۔کنیت : ابو الحسن
المتوفی (450 ھ)
فقہ ،اصول ،تفسیر میں زبردست عالم اور اسلامی مفکر،، مشہور قاضی اور شافعی فقہاء میں ایک مستند مقام کے حامل ،کئی قیمتی کتب کے مصنف،جن میں چند مندرجہ ذیل ہیں :
أدب الدنيا والدين؛ أعلام النبوة؛ الحاوي الكبير؛ الإقناع وهو مختصر لكتاب الحاوي الكبير. اور سب سے مشہور الأحكام السلطانية
اور ضخیم تفسیر (النکت و العیون )
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
اگرچہ مضمون پرانا ہے لیکن سرچ کے دوران میرے سامنے ابھی آیا تو سوچا اصلاح کر دوں۔۔۔۔
پوسٹ میں مذکور بات لمبی روایت کا ایک حصہ ہے جو روایت ضعیف ہے اس میں ابو بکر بن ابی مریم ضعیف اور مختلط راوی ہے۔ امام البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔ واللہ اعلم
 
Top