• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رات کو پیش آنے والے ٢٦٥مسائل کا شرعی حل قسط ٥

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,111
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
نماز وتر کے احکام:
١
:نماز وتر مستحب ہے۔

سیدنا طلحہ بن عبیداللہ سے روایت ہے نجد والوں میں سے ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے ہم اس کی آوا زکی گنگناہٹ سنتے تھے لیکن سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کیا کہتا ہے یہاں تک کہ وہ رسول اللہ کے نزدیک آیا تب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھتا ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''دن رات میں پانچ نمازیں (فرض) ہیں''وہ بولا :ان کے سوا میرے اوپر اور کوئی نماز ہے ؟آپ نے فرمایا :''لا الا ان تطوع ''نہیں مگر یہ کہ تو نفل پڑھنا چاہے۔ (صحیح البخاری:٤٦،صحیح مسلم:٨)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :پھر اللہ تعالی نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں ،میں لوٹ کر آیا ،جب موسی علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انھوں نے پوچھا :اللہ نے کیا فرض کیا تمہاری امت پر ۔میں نے کہا پچاس نمازیں ان پر فرض کیں ۔موسی علیہ السلام نے کہا :تم پھر اپنے رب کے پاس واپس جاؤ کیونکہ تمھاری امت میں اس قدر طاقت نہیں میں اپنے پروردگار کے پاس لوٹ کر گیا اس نے آدھی معاف کر دیں ۔پھر میں لوٹ کر موسی علیہ السلام کے پاس آیا اور ان سے بیان کیا ،انھوں نے کہا اپنے پرور دگار کے پاس لوٹ جاؤکیونکہ تمھاری امت میں اتنی طاقت نہیں،پھر میں اپنے پرور دگار کے پاس لوٹ گیا۔اس نے فرمایا:پانچ نمازیں فرض ہیں اور وہ پچاس کے برابر ہیںمیرے بات نہیں بدلتی ۔''(صحیح البخاری:٣٤٩،صحیح مسلم:١٦٣)

امام ابن المنذر مذکورہ دلائل کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ احادیث اور اس موضوع کی دیگر احادیث جن کو میں ذکر نہیں کیا اس بات پر دلیل ہیں کہ فرضی نمازیں پانچ ہیں اور ان کے علاوہ باقی نفلی ہیں ۔''(الاوسط:٥/١٦٧)

امام ابن خزیمہ لکھتے ہیں کہ یہ احادیث اس بات پر دلیل ہیں کہ وتر کو بندوں پر واجب قرار دینے والا ان پر چھ نمازیں واجب کرنے والا ہے ،''(صحیح ابن خزیمہ:٢/١٣٧)

امام ابن حبان نے دس احادیث سے استدلال کیاہے کہ وتر فرض نہیں ہے اور وہ ان احادیث کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ وتر فرض نہیں ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے چند دن پہلے سیدنا معاذرضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تھا کہ وہ انھیں بتلائے بے شک اللہ تعالی نے دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں اگر وتر فرض ہوتا تو اللہ تعالی اس کو بھی لوگوں کے لیے واضح کر دیتے،''(صحیح ابن حبان:٥/٦٥ـ.٦٦)

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں رمضان میں آٹھ رکعات اور وتر پڑھائے آئندہ رات ہم مسجد میں جمع ہو گئے اور ہم نے امید کی کہ آپ ہماری طرف آئیں گے ہم مسجد میں رہے یہاں تک ہم نے صبح کر دی تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور ہم نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے امید کی تھی کہ آپ ہماری طرف نکلیں گے اور ہمیں نماز پڑھائیں گے آپ نے فرمایا:کرھت ان یکتب علیکم الوتر ''میں نے ناپسند سمجھا کہ وتر تم پر فرض کردیا جائے ۔(صحیح ابن خزیمہ:٢/١٣٨،ح١٠٧٠)

٢:نماز وتر کی اہمیت:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں بھی نماز وتر پڑھتے تھے (صحیح البخاری:١٠٠٠،مسلم:٧٠٠)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر نفل پڑھاکرتے تھے جدھر وہ منہ کرے اور اسی پر وتر پڑھتے تھے مگر فرض اس پر نہ پڑھتے تھے(صحیح البخاری:١٠٠٠،صحیح مسلم:٧٠٠،دارالسلام:١٦١٨)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے اور وہ سامنے لیٹی رہتیں پھر جب وتر رہ جاتے تو آپ انھیں بیدار کر دیتے وہ وتر پڑھ لیتیں ۔(صحیح البخاری:٩٩٧،صحیح مسلم:٧٤٤،دارالسلام:١٧٣٥)
ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالی وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے ۔(صحیح البخاری:٦٤١٠،صحیح مسلم:٢٦٧٧)
ان احادیث سے نماز وتر کی اہمیت ثابت ہوتی ہے لیکن فرضیت نہیں ۔

٣:نماز وتر کا وقت:

سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس کو ڈر ہو کہ رات کے آخری حصے میں نہ اٹھ سکے گا تو وہ رات کے اول حصے میں (نماز عشاء کے بعد)پڑھ لے۔اور جس کو امید ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں اٹھے گا تو وہ وتر رات کے آخری حصے میں پڑھے اس لیے کہ آخری رات کی نماز ایسی ہے کہ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔(صحیح مسلم:٧٥٥)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی وصیت کی ۔(صحیح البخاری تعلیقا بالجزم قبل ح:٩٩٥)
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر اول رات میں اور درمیان رات میں اور آخر میں سب وقت ادا کیے ہیں اور آپ کے وتر کی انتہا سہری تک ہوئی۔(صحیح مسلم:٧٤٥،دارلسلام:١٧٣٧)
نماز کے آخری حصے (فجر)تک نماز وتر کا وقت ہے ۔(صحیح مسلم:٧٤٥دارالسلام:١٧٣٨)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کی نماز دو دو رکعتیں ہیں جب صبح (صادق)ہونے کا خطرہ ہو تو ایک رکعت پڑھ لو ۔یہ ایک (رکعت پہلی ساری)نماز کو طاق بنا دے گی۔(صحیح البخاری:٩٩٠،٩٩٣صحیح مسلم:٧٤٩)

٤:نماز وتر کی رکعات کی تعداد:

ایک وتر
:سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:الوتر رکعۃ من آخر اللیل''وتر ایک رکعت ہے رات کے آخری حصے میں ۔(صحیح مسلم:٧٥٢)ایک وتر کے مسنون ہونے پر بہت زیادہ دلائل ہیں تفصیل کا طالب (الدلیل الواضح از:شیخ عبد العزیز نورستانی حفظہ اللہ )کی طرف رجوع کرے۔
تین اورپانچ وتر:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :وتر ہر مسلمان پرحق ہے پس جس کی مرضی ہو پانچ وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو تین وتر پڑھے اور جس کی مرضی ہو ایک وتر پڑھے۔(سنن ابوداؤد:١٤٢٣،سنن النسائی:١٧١٠)
تین وتر پڑھنے کا طریقہ:دو رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیں پھر ایک وتر الگ پڑھیں ۔(صحیح البخاری:٦٢٦،صحیح مسلم:٧٥٢)

تنبیہ:
تین وتر دو قعدوں اور ایک سلام کے ساتھ پڑھنا منع ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تین وتر (اکٹھے)نہ پڑھو،پانچ یا سات پڑھو۔اور مغرب کی مشابہت نہ کرو۔(سنن الدار قطنی:١٦٣٤،صحیح ابن حبان:٦٨٠،واسنادہ صحیح )تفصیل کے لیے دیکھئے(فتاوی الدین الخالص:٥/٥٣٦.٥٣٨)

فائدہ
:جب تین وتر پڑھنے ہوں تو پہلی رکعت میں سورۃ الاعلی دوسری میں سورۃ الکافرون اور تیسری میں سورۃ الاخلاص پڑھنی چاہیے۔(سنن ابو داؤد:١٤٢٣،سنن ابن ماجہ:١١٧١ صحیح)
سات(٧)
وتروں کے ثبوت کے لیے دیکھئے (مسلم:١/٢٥٦)
نو (٩
)وتر وں کے ثبوت کے لئے دیکھئے(مسلم:١/٢٥٦)نو (٩)وتروں میں پہلا تشھد اس وقت ہو گا جب آٹھ رکعات مکمل ہو جائیں اور دوسرا تشہد نو یں رکعات میں کرنا ہے (مسلم:١/٢٥٦)
٥:ایک رات میں دو بار وتر پڑھنا جائز نہیں ۔

سیدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رمضان میں قیام کیا اور وتر پڑھ لیا پھر اپنی مسجد میں گئے تو اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھائی لیکن وتر نہیں پڑھایا اور کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ (لا وتران فی لیلۃ)ایک رات میں وتر کی نماز دو دفعہ نہیں ہے (سنن ابو داؤد:١٤٣٩،سندہ صحیح)

٦:وتر کے بعد تہجد پڑھنا جائز ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں نماز وتر کے بعد دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا (صحیح ابن خزیمہ:١١٠٦،صحیح ابن حبان:٦٨٣،سندہ حسن)یہ دو رکعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فعلا بھی ثابت ہیں ۔(صحیح مسلم:٧٣٨،دارالسلام:١٧٢٤)امام ابن خزیمہ فرماتے ہیں :وتر کے بعد جو بھی نماز پڑھنا چاہے وہ پڑھ سکتا ہے اور بے شک یہ دونوں رکعتیں وتر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی ہیں اور یہ امت کے علاوہ آپ کا خاصہ نہیں تھیں ۔جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ دو رکعتیں پڑھنے کا حکم دیا وہ حکم مستحب اور فضیلت پر محمول ہے نہ کہ واجب اور فرض پر ہے ۔(صحیح ابن خزیمہ:قبل ح:١١٠٦)تنبیہ : نمازِ وتر کے بعد دو رکعتیں پڑھنا اور وتر کو رات کی آخری نماز قرار دینے میں علامہ نووی کے نزدیک کوئی تعارض نہیں ہے ۔ دیکھئے خلاصۃ الاحکام للنووی (١/٥٦٧)
ان دو رکعتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( إذا زلزلت )اور( قل یا ایھاالکافرون ) پڑھتے تھے۔ ( مسند احمد ٥/٢٦٠ح ٢٢٢٤٤،وسندہ حسن )
اور اس مسئلہ کی ایک دلیل ما قبل مسئلہ(نمبر٦)میں گزر چکی ہے ۔

٧:نماز وتر میں دعاء وتر رکوع سے پہلے پڑھنی چاہیے ۔

سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعت وتر پڑھتے اور دعاء رکوع سے پہلے کرتے۔(سنن ابن ماجہ:١١٨٢ صحیح)نیز دیکھیں مصنف ابن ابی شیبہ(٢/٩٧)
٨:دعاء وتر کے لیے ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں۔

امام نسائی نے باب باندھا ہے :ترک رفع الیدین فی الدعاء فی الوتر ۔وتر کی دعاء میں ہاتھوں کا نہ اٹھانا
(سنن النسائی:قبل ح ١٧٤٩)مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں :قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانے کے بارے میں مجھے کوئی مرفوع حدیث نہیں ملی۔(تحفۃ الاحوذی:٢/٥٦٧)
٩:دعاء وتر۔اللھم اھدنی فیمن ھدیت وعافنی فیمن عافیت وتولنی فیمن تولیت وبارک لی فیما اعطیت وقنی شر ما قضیت فانک تقضی ولا یقضی علیک انہ لا یذل من والیت ولایعز من عادیت تبارکت ربنا وتعالیت (سنن ابو داؤد:١٤٢٥،ترمذی:٤٦٤)
١٠:وتروں سے سلام پھیرنے کے بعد کی دعاء۔
تین دفعہ کہے :سبحان الملک القدوس ،دو دفعہ پست آواز میں(سنن ابو داؤد:١٤٣٠) اور تیسری دفعہ اونچی آواذ میں ۔(سنن الدار قطنی:٢/٣١،سنن الکبری للبیھقی:٣/٣٩)اور آخر میں کہے رب الملائکۃ والروح (سنن الدار قطنی:٢/٣١،سنن الکبری للبیھقی:٣/٤٠)
 
Top