• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رات کو پیش آنے والے ٢٦٥مسائل کا شرعی حل قسط ٩

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,111
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
نماز تہجد کے لیے اپنی بیوی کو بھی بیدار کرنا چاہیے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے لیے رحمت کی دعا کی ہے،جو رات کو اٹھا ۔پھر نماز تہجد اداکی اور اپنی بیوی کو جگایاپھر اس نے بھی نماز پڑھی ،اور اگر اس نے انکار کیا تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔اللہ تعالی اس عورت پر رحم کرے جو رات کو اٹھی اور نماز پڑھی خاوند کو جگایا اس نے بھی نماز پڑھی اگر ا س نے انکار کیا تو اس کے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے۔''(سنن ابی داؤد:١٣٠٨،امام حاکم(١/٤٠٩)اور ابن خزیمہ(١١٤٨) نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔)
رمضان کے آخری عشرے میں آدمی خود بھی بیدار ہواور گھر والو ں کو بھی بیدار کرے

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:''کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یجتھد فی العشر الاواخر ،مالا یجتھد فی غیرہ۔''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جتنی محنت رمضان کے آخری عشرے میں کرتے تھے اتنی اس کے علاوہ دنوں میں نہیں کرتے تھے۔''(صحیح مسلم:١١٧٥)یعنی ان دنوں کی راتوں میں نماز تہجد کا خصوصی اہتمام کرتے تھے ۔
عام دنو ں میں مکمل رات عبادت کرنامکروہ یا ممنوع ہے

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:''میرے پاس بنو اسد قبیلے کی ایک عورت تھی اسی اثنا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور کہا کہ یہ عورت کون ہے ؟میں کہا یہ فلاں عورت ہے جو رات کو نہیں سوتی وہ اپنی نماز کا ذکر کرتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''مہ،علیکم ما تطیقون من الاعمال فان اللہ لا یمل حتی تملوا۔''اس کو چھوڑو۔تم وہی کام کرو جس کی تم طاقت رکھتے ہو، اللہ تعالی ثواب دینے سے نہیں تھکتا تم نیک عمل کرنے سے تھک سکتے ہو۔(صحیح البخاری:١١٥١)حافظ ابن حجر فرماتے ہیںکہ:''مہ(اس کو چھوڑ )میں اس کے مکروہ ہونے کی طرف اشارہ ہے۔''(فتح الباری:٣/٤٦)تین آدمیوں والاواقعہ ان میں سے ایک نے کہا تھا کہ میں رات کو قیام کروں گا سوؤں گا نہیں، جب رسول اللہ ؐ کو اطلاع ہوئی تو آپ نے سختی سے انھیں ڈانٹا۔(صحیح البخاری:٥٠٦٣)
بعض صوفی قسم کے لوگ ساری ساری رات جاگتے رہتے ہیں وہ اس کو اپنے گمان میں تو اچھا عمل سمجھتے ہیں حالانکہ سنت کے خلاف ہونے کی وجہ سے ان کا یہ عمل سرے سے مردود ہے ۔کیونکہ قرآن(المزمل:٢۔٤)اورحدیث(صحیح البخاری:١١٣١،١١٤١ وغیرہ )سے معلوم ہوتا ہے کہ رات کا کچھ حصہ سونا اور کچھ حصہ عبادت کرنی چاہیے ۔اور یہی امام کائنات محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا ،اور رسول اللہ ؐ سے بڑھ کر کون زیادہ متقی ہو سکتا ہے۔؟!آپ کی پیروی میں ہی نجات ہے لہذا ہم ہر ہر کام میں اسی کو لازم پکڑیں۔
قیام اللیل کا سب سے بہتر طریقہ

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :''اللہ تعالی کو نمازوں میں سب سے محبوب داؤد علیہ السلام کی نماز ہے وہ رات کا نصف (آدھا)حصہ سو جاتے اور اس کا تیسرا حصہ قیام کرتے اور چھٹا حصہ سو جاتے ۔''(صحیح البخاری:١١٣١)بعض لوگ نماز تہجد کبھی پڑھتے ہیں اور کبھی نہیں پڑھتے حالانکہ روزانہ تہجد کا اہتمام کرنا چاہیے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کوکہا:''لا تکن مثل فلان کان یقوم من اللیل فترک قیام اللیل۔''اے عبداللہ!تو اس شخص کی طرح نہ ہو جو نماز تہجد پڑھا کرتا تھا پھر اس نے چھوڑ دی ۔(صحیح البخااری:١١٥٢)
ساری رات سوئے رہنے کی مذمت اور نماز تہجد پڑھنے کی فضیلت

بعض لوگ ساری ساری رات سوئے رہتے ہیں نہ ان کو نماز کی فکر ہے اور نہ انھیں دعا کی فکر ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:''ان فی اللیل لساعۃ لا یوافقھا رجل مسلم یسال اللہ خیرامن امر الدنیا والآخرۃ الا اعطاہ ایاہ ،و ذلک کل لیلۃ۔''رات میں ایک ایسی گھڑی ہوتی ہے جو مسلمان آدمی اس گھڑی کی موافقت کرتا ہے (یعنی اسے پا لیتا ہے)تو وہ آدمی جو بھی اللہ تعالی سے دنیا اور آخرت میں سے کسی چیز کا سوال کرتا ہے تو اللہ تعالی اسے وہ چیز دے دیتے ہیں۔(اور یہ گھڑی)ہر رات کو ہوتی ہے۔(صحیح مسلم:٧٥٧)اور پھر نماز تہجد پڑھنے سے شیطان آدمی کے سر پر جو گرہ لگاتا ہے وہ کھل جاتی ہے۔(صحیح البخاری:١١٤٢)سحری کے وقت اٹھ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنا متقی لوگوں کی علامت ہے۔(الذاریات:١٨)

اگر نیند کا غلبہ ہو تو؟

اگر آدمی سویا ہوا ہے اس پر نیند کا غلبہ ہو تو وہ کیا کرے ؟فرض نماز اٹھ کر پڑھے یا بعد میں جب نیند پوری ہو جائے تو پھر پڑھے؟استاذ محترم حافظ عبدالمنان نور پوری حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ:''منہ پر پانی کے چھینٹے لگا کر یا غسل وغیرہ کر کے نیند کھول کر فرض نما ز ادا کر لے اگر نماز نفل ہے تو سو جائے اٹھ کر نفل پڑھ لے۔''(احکام ومسائل:٢/١٦٨)
مسجد میں سونا درست ہے

خواہ مرد ہو(صحیح البخاری:٤٤٠۔٤٤٢)یا عورت جو اپنا خیمہ لگا کر سوئے(جب فتنہ کا ڈڑ نہ ہو اور کوئی مجبوری ہو) (صحیح البخاری:٤٣٩)بعض لوگ مسجد میں سونے سے لوگوں کو منع کرتے ہیں ۔انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مسجد کسی کی جاگیر نہیں یہ تو اللہ کا گھر ہے ۔یاد رہے کہ مسجد میں سونا تو جائز ہے افسوس کہ اس سے منع کیا جاتا ہے۔ مگر مسجد میں شور ڈالنااور بے ہودہ باتیں کرنا منع ہے لیکن جب کوئی کسی کو مسجد میں سونے سے منع کرتا ہے تو بے جا باتیں بھی کرتا ہے اور بے جا شور بھی ڈالتا ہے یعنی مسنون فعل(مسجد میں سونے) سے روکتا ہے اور غیر مسنون فعل(مسجد میں شور ڈالنے) کا ارتکاب کر رہا ہے! اللہ تعالی ایسے کم عقل لوگوں کو سمجھ عطا فرمائے ۔آمین۔
سونے والے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا جائز ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:''کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی وانا راقدۃ معترضۃ علی فراشہ...۔''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اس حال میں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر(آپ کے سامنے )چوڑائی میں سوئی ہوتی۔''(صحیح البخاری:٥١٢)امام بخاری نے اس حدیث پر باب باندھا ہے کہ:''سونے وا لے کے پیچھے نماز پڑھنا۔''
قیلولہ کرنا مسنون ہے
۔خواہ آدمی سفر میں ہی کیوں نہ ہو ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں ایک درخت کے نیچے قیلولہ کیا اور اپنی تلوار درخت کے ساتھ لٹکا دی۔(صحیح البخاری:٢٩١٠)اگر ایک جماعت نے قیلولہ کرنا ہے ان میں ان کا امیر اور امام بھی ہے تو امام اور امیر کو الگ سایہ مہیا کرنا چاہیے۔(صحیح البخاری:٢٩١٣)
نماز جمعہ کے بعد قیلولہ کرنا مسنون ہے

سیدنا سھل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :''ما کنانقیل ولا نتغدی فی عھد رسول اللہ الا بعد الجمعۃ۔''ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صبح کا کھانا اور قیلولہ نماز جمعہ کے بعد ہی کرتے تھے۔(صحیح البخاری:٩٣٩۔٩٤١)
کچھ لوگ سو رہے ہوں اور کچھ لوگ جاگتے ہوں تو السلام علیکم آہستہ کہنا چاہیے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنھم بیان کرتے ہیں کہ:''ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان کے حصے کا دودھ اٹھا کر رکھ دیا کرتے تھے پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تشریف لاتے اور اس طرح سلام کرتے کہ سوئے ہوئے کو بیدار نہ کرتے اور بیدار کو سنا دیتے۔''(صحیح مسلم:٢٠٥٥)اس حدیث کے تحت حافظ نووی فرماتے ہیں کہ:''ا س میں یہ اد ب کہ جب آدمی ایسی جگہ پر جائے جہاں پر کچھ لوگ سو رہے ہوں اور کچھ بیدار ہوں تو آنے والا سلام کہے اور سلام ہلکی اور اونچی آواز کے درمیان میں ہو(یعنی درمیانی آواز میں اتنا اونچی ہو)کہ وہ بیدار لوگوں کو سنا دے اور دوسروں کو پریشان نہ کرے۔''(شرح مسلم للنووی:٢/١٨٤)اس سے یہ مسئلہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ اگر کچھ لوگ سوئے ہوئے ہیں تو ان کے پاس جاگنے والوں کو اس طرح اونچی آواز میں باتیں نہیں کرنی چاہیے کہ سونے والے بیدار ہو جائیں ،اللہ تعالی عمل کی توفیق دے۔
نیند ناقض وضو ہے

اس کی دلیل یہ ہے ،سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم سفر پر ہوتے تو رسول اللہ ؐ ہمیں حکم دیتے کہ ہم تین دن اور ان کی راتیں موزے نہ اتارےں الا یہ کہ حالت جنابت لاحق ہو جائے،تاہم پاخانہ ،پیشاب اور نیند کی وجہ سے اتارنے کی ضرورت نہیں ۔''(سنن الترمذی:٩٦،سنن النسائی:١٢٧،اس حدیث کو امام ابن خزیمہ(١٩٦)اور امام ابن حبان(١٠٩۔الموارد)نے صحیح اور امام ترمذی نے حسن کہا ہے۔)یہ حدیث اس مسئلہ میں واضح دلیل ہے کہ نیند ناقض وضو ہے کیونکہ نیند کا ذکر پیشاب اور پاخانہ کے ساتھ ہوا ہے جس طرح ان سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اسی طرح نیند سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
امام ابن حبا ن فرماتے ہیں کہ نیند کا ذکر پیشاب ،پاخانہ اور جنابت کے ساتھ ہوا ہے جس طرح ان کو کسی خاص حالت کے خاص نہیں کیا ،اسی طرح نیند کو بھی کسی خاص حالت کے ساتھ مخصوص نہیں کیا جائے گا ۔اور جس طرح ان کے تھوڑا یا زیادہ ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے اسی طرح نیند کے تھوڑا یا زیادہ ہونے میں بھی کوئی فرق نہیں ہے ۔(صحیح ابن حبان:)
فائدہ:
رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سو بھی جاتے تو آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا کیو نکہ یہ آپ کا خاصہ تھا۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:''آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے آپ نے خراٹے مار ے پھر آپ کے پاس مؤذن آیا آپ نکلے آپ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔''(صحیح مسلم:٧٦٣/١٧٩١)درج ذیل محدثین نے اس کو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ قرار دیا ہے،مثلا:امام سفیان(صحیح مسلم تحت ح:٧٦٣/١٧٩٣)امام ابن خزیمہ(صحیح ابن خزیمہ:١/)امام نووی(شرح مسلم للنووی:١/١٦٣ درسی)
سونے کی کچھ ممنوع حالتیں

(١)پیٹ کے بل سونا منع ہے ۔سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ:''نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اور میں اپنے پیٹ کے بل لیٹا ہوا تھا ۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پاؤں کے ساتھ مارااور کہا اے جنیدب !:''انما ھی ضِجْعَۃ اھل النار۔''بے شک یہ جہنمیوں کے لیٹنے کا طریقہ ہے۔(سنن ابن ماجہ:٣٧٢٤صحیح)
(٢)ایسی چھت پر سونا منع ہے جس کی باڑنہ ہو۔
(٣)دھوپ اور سائے میں سونا منع ہے۔
(٤)خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے لیکن بیوی آنے سے انکار کر دے اور اس کا اسی حالت میں سو جانا منع ہے کہ خاوند اس پر ناراض ہو ۔
(٥)دس سال کی عمر کے بچوں کو اکٹھانہیں سونا چاہیے۔
جب بچے دس سال کی عمر کے ہو جائیں گے تو ان کو اکٹھا نہیں سونا چاہیے بلکہ ان کے بسترے الگ کر دینے چاہیے۔اس میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں،یعنی دو بہنیں جب دس سال کی ہو جائیں تو ان کے بستر الگ کر دیے جائیں ،اس طرح جب دو بھائی دس سال کے ہو جائیں تو ان کے بستر بھی الگ کر دینے چاہیے خصوصا جب سونے والے بھائی اور بہن ہوں۔سیدنا عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''جب تمہارے بچے سات سال کے ہو جائےں تو نماز کی تلقین کرو اور جب دس سال کی عمر کو پہنچ جائیں اور نماز میںسستی کریں تواس پر انھیں مارو اور ان کے درمیان بسترے میں تفریق کر دو۔''(سنن ابی داؤد:٤٩٠امام نووی نے کہا :''اسنادہ حسن۔''(ریاض الصالحین:ح٣٠١)ایک دوسر ی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ:''مرد مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں جمع نہ ہوں اور عورت عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں جمع نہ ہوں۔''(صحیح مسلم:٣٣٨)علامہ مناوی شرح جامع صغیر میں لکھتے ہیںکہ:''جب تمہاری اولاد دس برس کی عمر کو پہنچ جائے تو ان کے وہ بستر جہاں وہ سوتے ہیں ۔جدا جدا کر دو شہوت کی مصیبتوں سے ڈرتے ہوئے اگرچہ وہ دو بہنیں ہی ہوں۔''(کذا فی عون المعبود:٢/٩٩ط :دار احیاء التراث)
سوئے ہوئے آدمی کے نیچے آکر کوئی بچہ فوت ہو جائے تو؟

اگر سوئے ہوئے آدمی یا عورت کے نیچے آکر کوئی بچہ فوت ہو جائے تو اس پر قتل خطا کی مثل دیت ہے یا کفارہ ہے ۔اس پر مفصل بحث کے لیے دیکھیں(فتاوی الدین الخالص:٥/١٥۔٢٧)
دیت اس کا حق ہے جس کا قتل ہوا ہے اگر لینا چاہے تو لے سکتا ہے اگر چھوڑنا چاہے تو چھوڑ سکتا ہے۔
قتل خطا کی دیت درج ذیل ہے:
سو(١٠٠)اونٹ ان میں سے چالیس(٤٠) اونٹنیاں ایسی ہوں گی جن کے پیٹوں میں ان کے بچے ہو ں گے (یعنی حاملہ ہوں گی)(ابوداؤد:٤٥٤٧،سنن النسائی:٤٧٩٥قال الاستاذ:صحیح)یا پھر کفارہ دو مہینے کے روزے رکھنے ہوں گے ۔تفصیل کے مطولات کی طرف رجو ع کریں ۔
تنبیہ:اگر باپ یا ماں کے نیچے آکر بچہ فوت ہو جائے تو ان پر کوئی قصاص نہیں ہے۔رسول اللہ ؐ نے فرمایاکہ:''والد سے بچے کے بدلے قصاص نہیں لیا جائے گا۔''(سنن الترمذی:١٤٠٠ و صححہ الالبانی)
نیند کے متفرق مسائل:
(١) حائضہ عورت کے ساتھ ایک ہی چادر میں خاوند کا سونا صحیح ہے۔(صحیح البخاری:٣٢٢)
(٢) سونے والا مرفوع القلم ہے ۔
(٣)سویا ہو ا جب رات کو بیدار ہو تو قضائے حاجت سے فارغ ہونے کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں اور چہرے کو دھو کر سوئے ۔(صحیح مسلم:٣٠٤/٦٩٨)
 
Top