رد اہل تشیع 1: قرآن مجید کی شہادتیں صحابہ رضی اللہ عنہم کی فضیلت میں
اہل تشیع کے اعتراضات: ماخوذ از تنزیہہ الامامیہ
جناب رسول خدا ﷺ نے ابھی تک اعلانِ نبوت بھی نہیں فرمایا تھا کہ جناب ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کی سفر تجارت کے سلسلہ میں شام جاتے ہوئے بحیرہ راہب سے ملاقات ہوئی۔ اس نے رسمی احوال پرسی کے بعد یہ پیش گوئی کی کہ عنقریب تم میں ایک شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا اور تکالیف شاقہ برداشت کرنے کے بعد وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا، تم اس کی تصدیق کرنا، کیونکہ اس نبی کے بعد زمامِ اقتدار تمہیں ملے گی۔ (ملاحظہ ہو: سیرت جلیہ 1، ص 310، تاریخ الخلفاء:230، صواعق محرقہ : 45)
1۔ چونکہ ابوبکر صاحب کو راہب کی بات پر پختہ یقین تھا۔ اس لیے جب آنحضرت ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو یہ بظاہر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے اور حصول اقتدار اور عروس حکومت سے ہمکنار ہونے کے لیے تمام تر تکالیف کو بطیب ِ خاطر برداشت کیا۔
2۔ خلیفہ صاحب کے قلبی مرض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ شرک تم میں چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی چلتا ہے۔ (در منثور:54، کنزالعمال ج2 ص 166)
3۔ نیز آنحضرت ﷺ نے یہ فرما کر کہ ابوبکر کی سبقت اسلامی کا بھانڈا بھی چوراہے پر پھوڑا ہے ۔
"ماسبقکم ابوبکر بصوم والا صلوٰۃ الا بشیءوقرنی قلبہ"
یعنی ابوبکر نے روزہ رکھنے، نماز پڑھنے میں تم پر سبقت حاصل نہیں کی ، بلکہ ایک ایسی چیز کی وجہ سے کی ہے جو ان کے دل میں راسخ تھی، یعنی بحیرا راہب کی پیشینگوئی۔
نہاں کئے ماند آن رازے کزد سازند محفلہا
جواب: تحفہ حسینیہ: از ابوالحسنات محمد اشرف السیالوی
ڈھکو صاحب نے قرآن مجید اور ارشادات رسول اللہ ﷺ اور ارشادات ائمہ جو اصحاب ثلاثہ کے اخلاص پر دلالت کرتے ہیں، ان کے مقابل اور معارض اقوال پیش کر کے حضرت شیخ الاسلام کے استدلال کا توڑ پیش کرنا چاہا ہے اور اس میں ترتیب خلافت کو ہی ملحوظ رکھ کر اپنے قلبی بغض کا اظہار کیا ہے ۔ سیرت جلیہ اور صواعق محرقہ میں مرقوم روایت بجا مگر اس سے جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ وہ ڈھکو صاحب کی اپنی افتاد طبع ہے۔ اس قول میں کوئی ایسی دلالت تو کجا اشارہ بھی موجود نہیں ہے اور اسی کشید کردہ بلکہ فرض کردہ مقصد کو مدنظر رکھ کر تیسری دلیل بھی تیار کر لی ہے۔ لہٰذا ڈھکو صاحب کے استدلال کا دارومدار دو امور پر ہوا ، ایک اپنے مفروضہ پر اور دوسرا ایک حدیث پر۔ اب ہم ذیل میں اس استدلال کی عقلی اور نقلی حیثیت کو واضح کرتے ہیں اور فیصلہ قارئین کرام پر چھوڑتے ہیں:
1۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ آیا قرآن مجید کے آیات صریحہ اور احادیث صحیحہ کے مقابل سیرت طیبہ کی روایت سے خود ساختہ اور تراشیدہ مطلوب پیش کرنا ، کسی بااصول عالم دین بلکہ مسلمان کے نزدیک قابل قبول ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے دلائل کے مقابلہ میں جوابی طور پر دلائل پیش کرتے وقت قوت کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ اگر دلیل وزنی ہوگی تو مستدل کا موقف وزنی ہوگا اور برابر درجہ کی ہونگی تو دونوں احکام موقوف اور معلق ہو کر رہ جائیں گے اور کمزور دلیل بلکہ شبہ پیش کیا جائے گا تو طفلانہ حرکت اور مجنونانہ گپ قرار پائے گی۔ اس پس منظر میں دیکھو تو شیخ الاسلام قرآن مجید کی آیات کا خلاصہ اور مغز پیش کر رہے ہیں۔ اور ڈھکو صاحب ایسی روایت جس میں قطعاً ان کے مدعا پر کسی پہلو سے دلا لت موجود ہی نہیں بلکہ صرف اپنا مزعومہ اور مفروضہ ہے جس کو صرف طفلانہ بلکہ مجنونانہ حرکت ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
2۔ دلیل وہ ہونی چاہئے جو دعویٰ اور مدلول کو مستلزم ہو اور عقلاً تحقق دلیل کے بعد مدلول کا متحقق نہ ہونا باطل ہو ، لیکن اس روایت میں اس طرح کا کوئی استلزام موجود نہیں۔ یہ خبر سن کر حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ، ہو سکتا ہے خلوص سے ایمان لائے ہوں اور راہب کی خبر کے ہر دو حصوں کا یقین کیا ہو کہ محمد ﷺ ، اللہ تعالیٰ کے بر حق رسول ہیں اور میں ان کی زندگی میں وزیر و مشیر اور بعد از وصال خلیفہ اور نائب ہوں گا۔ جب یہ احتمال موجود ہے ، بلکہ دلائل کتاب و سنت کی روشنی میں متعین ہے، تو دوسرے احتمال کی وجہ ترجیح تو کجا، اس کا تصور بھی کوئی با ہوش اور عقلمند نہیں کر سکتا، اس کے تحت پہلی صورت کو رد کیونکر کیا جا سکتا ہے اور کم از کم اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال والے عقلی قاعدہ کے تحت با عزت انسان کو اپنے استدلال سے دست بردار ہونا پڑتا ہے۔ جب اس کے استدلال میں دوسرا احتمال موجود ہو چہ جائیکہ جب دوسرا احتمال ہی متعین ہو۔
تذییل: یہی حال تیسری دلیل کا بھی ہے (کہ جناب ابوبکر نے اسی چیز کی وجہ سے سبقت کی ہے جو ان کے دل میں راسخ ہے۔)
(الف)۔ کیونکہ ظاہر ہے دل میں حرص و لالچ بھی ہوا کرتا ہے اور ایمان و اخلاص بھی اور عشق و محبت بھی۔ جب دونوں احتمال موجود ہیں تو ازروئے عقل و دیانت یہ استدلال بھی لغو اور باطل ٹھہرا۔
(ب)۔ تحریف معنوی اور ستم بالائے ستم: ڈھکو صاحب نے اپنی جان پر ظلم یہ کیا ہے کہ حدیث رسول ﷺ میں تحریف معنوی کر دی ہے۔
"ماسبقکم ابوبکر بصوم ولا بصلوۃ الابشیء و قرفی قلبہ"
جس کا صحیح ترجمہ تو یہ تھا کہ تم سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نہ روزہ کے ذریعے سبقت لے گئے ہیں اور نہ نماز کے سبب سے، لیکن اس چیز کی وجہ سے جو ان کے دل میں راسخ ہے۔
یعنی ان کی سبقت اہل اسلام پر مسلم ہے۔ مگر سبب اس کا کثرت صوم و صلوٰۃ نہیں، بلکہ یہ تو اعمال ظاہرہ ہیں اور وہ سبب ان کے دل سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن ڈھکو صاحب نے طالب علموں کے سامنے شرمندگی کا خوف کیے بغیر اپنی مرضی کا ترجمہ داغ دیا۔ طلبہ جانتے ہیں کہ جس چیز کی سبقت مراد ہو اس پر الیٰ داخل کیا جاتا ہے۔ کما قال تعالیٰ: سابقوا الیٰ مغفرۃ من ربکم۔ الآیۃ۔۔ نہ کہ اس پر باء داخل کی جاتی ہے جو کہ سببیت پر دلالت کرتی ہے لیکن اگر یہ معنی کرتے جو قواعد کے مطابق ہیں تو قلبی بغض کا اظہار نہیں ہو سکتا تھا ، اس لیے شرم خلق اور شرم خدا سے بے نیاز ہو کر یہ ترجمہ کر دیا۔
الغرض جب اس میں بھی احتمال ہے کہ وہ شی ء ایمان و یقین کامل اور اخلاص اکمل ہو ، تو استدلال باطل ہو گیا۔ بلکہ یہی احتمال متعین ہے کیونکہ تمام اہل اسلام پر سبقت طلب جاہ اور حرص سلطنت سے تو ثابت نہیں ہو سکتی، بلکہ ایمان و اخلاص کامل اور حب صادق سے ، کیونکہ اعمال ظاہرہ مجسمے ہوا کرتے ہیں اور یقین محکم اور حب صادق اور عشق کامل، ان کی جان اور ان کے پر پرواز ہوا کرتے ہیں جو سبقت کا موجب بنتے ہیں۔ قال الحافظ الشیرازی:
آنجا کہ زاہداں بہ ہزار اربعین رسند
مست شراب عشق بیک آہ میر سد
(ج)۔۔ علاوہ ازیں یہ تیسری دلیل ڈھکو صاحب کی پہلی دلیل کی فرع ہے جب اس کے پرخچے فضاء آسمانی میں بکھرے ہوئے ہر آنکھ والے کو نظر آ جائیں گے تو اس کا فیصلہ وہ خود کر لیں گے۔
3۔ بحیرا راہب نے جو کچھ آپ کو بتلایا تھا اس میں نبی اکرم ﷺ کا نبی آخر الزمان ہونا بھی داخل تھا اور سب اہل کتاب کا ان کی راہ میں آنکھیں بچھائے ہونا بھی۔ اگر آپ کو اس کی بات سن کر اپنے وزیر اور خلیفہ ہونے کا یقین آ گیا تھا تو آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کا یقین کیونکر نہ ہوا اور جب آپ کو اس کی خوشخبری کے تحت دونوں امر کا یقین ہو گیا تو اس سے آپ کے خلوص پر اعتراض کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے۔ مثلاً ہمیں یقین ہے کہ آپ کی غلامی میں آ کر جنت ملے گی اور حور و غلمان اور نہ ختم ہونے والی زندگی ، تو کیا ہمارا ایمان صرف اس لالچ کے تحت ہوگا لہٰذا عنداللہ اس کا اعتبار ہی نہیں ہوگا؟ نعوذباللہ من ذالک۔ جب یہ بشارت ہمارے اخلاص میں مخل نہیں، تو وہ بشارت حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے اخلاص میں کیونکر خلل انداز ہو سکتی ہیں۔
4۔ نبی اکرم ﷺ ملک عرب کے مالک بن چکے ہوتے یا آپ کے لیے حالات ساازگار ہوتے تو پھر تو اس توہم کی کوئی گنجائش ہو سکتی تھی۔ لیکن مکی زندگی کے تیرہ سال انتہائی پر آشوب تھے۔ پھر مدنی زندگی میں کبھی جنگ بدر، کبھی جنگ احد اور کبھی خندق وغیرہ، علاوہ ازیں وطن سے بے وطن ہونا، گھر بار سے الگ ہونا اورکفار کی طرف سے زد و کوب کیا جانا (جس کو خود ڈھکو صاحب نے تقیہ نہ کرنے کے خوفناک انجام کے تحت ذکر کیا ہے)، قریبی رشتہ داروں بلکہ اولاد کے ساتھ جنگ و جدال صرف اس موہوم امید پر کون برداشت کر سکتا ہے ۔ اگر دل میں حلاوت ایمان گھر نہ کر چکی ہو اور عشق نبوی کے شراب نے مست بنا کر دنیا کی ہر تکلیف کو سہل نہ کر دیا ہو تو ایسے مصائب و شدائد کبھی برداشت نہیں ہو سکتے۔
5۔ راہب نے جس وزارت اور خلافت کی خبر دی تھی وہ ذاتی رائے اور نجوم و رمل کے علم پر مبنی تھی یا اللہ تعالیٰ کی منزل کتب میں ازلی فیصلہ اور محیط علم غیب کی بناء پر؟ صورت اولیٰ میں اس قدر جزم اور یقین کس کو آ سکتا ہے بالخصوص ان مشکل اور تکلیف دہ احوال میں اور دوسری صورت میں اخلاص کی نفی نہیں ہو سکتی ورنہ خود نبی اکرم ﷺ کی ذات پر بھی یہی فتویٰ لگے گا کیونکہ ولادت شریفہ کے وقت سے لے کر اعلان نبوت سے پہلے تک مختلف رھبان اور احبار آپ کی نبوت اور رسالت کی خبریں دیتے رہے اور اس وجہ سے آپ کو جناب ابوطالب نے سفر تجارت میں شام کی طرف لے جاتے وقت راہ سے واپس کر دیا تھا کیونکہ راہب نے آپ سے کہا تھا کہ یہ پیغمبر آخر الزمان ہیں اور مجھے ان کے متعلق یہود کی بدباطنی اور دشمنی کا خطرہ ہے اور اس قسم کے بے شمار واقعات کتب سیرت میں موجود ہیں تو کیا یہاں بھی اس قسم کے توہم کی گنجائش ہوگی؟
مضمون ابھی جاری ہے۔ ازراہ کرم تکمیل تک تبصرہ جات سے گریز کریں۔ شکریہ
حضرت ابوبکر صاحب (رضی اللہ عنہ) کے اسلام لانے کا اصل محرک
اہل تشیع کے اعتراضات: ماخوذ از تنزیہہ الامامیہ
جناب رسول خدا ﷺ نے ابھی تک اعلانِ نبوت بھی نہیں فرمایا تھا کہ جناب ابو بکر (رضی اللہ عنہ) کی سفر تجارت کے سلسلہ میں شام جاتے ہوئے بحیرہ راہب سے ملاقات ہوئی۔ اس نے رسمی احوال پرسی کے بعد یہ پیش گوئی کی کہ عنقریب تم میں ایک شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا اور تکالیف شاقہ برداشت کرنے کے بعد وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گا، تم اس کی تصدیق کرنا، کیونکہ اس نبی کے بعد زمامِ اقتدار تمہیں ملے گی۔ (ملاحظہ ہو: سیرت جلیہ 1، ص 310، تاریخ الخلفاء:230، صواعق محرقہ : 45)
1۔ چونکہ ابوبکر صاحب کو راہب کی بات پر پختہ یقین تھا۔ اس لیے جب آنحضرت ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا تو یہ بظاہر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے اور حصول اقتدار اور عروس حکومت سے ہمکنار ہونے کے لیے تمام تر تکالیف کو بطیب ِ خاطر برداشت کیا۔
2۔ خلیفہ صاحب کے قلبی مرض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ شرک تم میں چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ مخفی چلتا ہے۔ (در منثور:54، کنزالعمال ج2 ص 166)
3۔ نیز آنحضرت ﷺ نے یہ فرما کر کہ ابوبکر کی سبقت اسلامی کا بھانڈا بھی چوراہے پر پھوڑا ہے ۔
"ماسبقکم ابوبکر بصوم والا صلوٰۃ الا بشیءوقرنی قلبہ"
یعنی ابوبکر نے روزہ رکھنے، نماز پڑھنے میں تم پر سبقت حاصل نہیں کی ، بلکہ ایک ایسی چیز کی وجہ سے کی ہے جو ان کے دل میں راسخ تھی، یعنی بحیرا راہب کی پیشینگوئی۔
نہاں کئے ماند آن رازے کزد سازند محفلہا
جواب: تحفہ حسینیہ: از ابوالحسنات محمد اشرف السیالوی
ڈھکو صاحب نے قرآن مجید اور ارشادات رسول اللہ ﷺ اور ارشادات ائمہ جو اصحاب ثلاثہ کے اخلاص پر دلالت کرتے ہیں، ان کے مقابل اور معارض اقوال پیش کر کے حضرت شیخ الاسلام کے استدلال کا توڑ پیش کرنا چاہا ہے اور اس میں ترتیب خلافت کو ہی ملحوظ رکھ کر اپنے قلبی بغض کا اظہار کیا ہے ۔ سیرت جلیہ اور صواعق محرقہ میں مرقوم روایت بجا مگر اس سے جو نتیجہ اخذ کیا گیا ہے۔ وہ ڈھکو صاحب کی اپنی افتاد طبع ہے۔ اس قول میں کوئی ایسی دلالت تو کجا اشارہ بھی موجود نہیں ہے اور اسی کشید کردہ بلکہ فرض کردہ مقصد کو مدنظر رکھ کر تیسری دلیل بھی تیار کر لی ہے۔ لہٰذا ڈھکو صاحب کے استدلال کا دارومدار دو امور پر ہوا ، ایک اپنے مفروضہ پر اور دوسرا ایک حدیث پر۔ اب ہم ذیل میں اس استدلال کی عقلی اور نقلی حیثیت کو واضح کرتے ہیں اور فیصلہ قارئین کرام پر چھوڑتے ہیں:
1۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ آیا قرآن مجید کے آیات صریحہ اور احادیث صحیحہ کے مقابل سیرت طیبہ کی روایت سے خود ساختہ اور تراشیدہ مطلوب پیش کرنا ، کسی بااصول عالم دین بلکہ مسلمان کے نزدیک قابل قبول ہو سکتا ہے۔ ظاہر ہے دلائل کے مقابلہ میں جوابی طور پر دلائل پیش کرتے وقت قوت کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ اگر دلیل وزنی ہوگی تو مستدل کا موقف وزنی ہوگا اور برابر درجہ کی ہونگی تو دونوں احکام موقوف اور معلق ہو کر رہ جائیں گے اور کمزور دلیل بلکہ شبہ پیش کیا جائے گا تو طفلانہ حرکت اور مجنونانہ گپ قرار پائے گی۔ اس پس منظر میں دیکھو تو شیخ الاسلام قرآن مجید کی آیات کا خلاصہ اور مغز پیش کر رہے ہیں۔ اور ڈھکو صاحب ایسی روایت جس میں قطعاً ان کے مدعا پر کسی پہلو سے دلا لت موجود ہی نہیں بلکہ صرف اپنا مزعومہ اور مفروضہ ہے جس کو صرف طفلانہ بلکہ مجنونانہ حرکت ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔
2۔ دلیل وہ ہونی چاہئے جو دعویٰ اور مدلول کو مستلزم ہو اور عقلاً تحقق دلیل کے بعد مدلول کا متحقق نہ ہونا باطل ہو ، لیکن اس روایت میں اس طرح کا کوئی استلزام موجود نہیں۔ یہ خبر سن کر حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) ، ہو سکتا ہے خلوص سے ایمان لائے ہوں اور راہب کی خبر کے ہر دو حصوں کا یقین کیا ہو کہ محمد ﷺ ، اللہ تعالیٰ کے بر حق رسول ہیں اور میں ان کی زندگی میں وزیر و مشیر اور بعد از وصال خلیفہ اور نائب ہوں گا۔ جب یہ احتمال موجود ہے ، بلکہ دلائل کتاب و سنت کی روشنی میں متعین ہے، تو دوسرے احتمال کی وجہ ترجیح تو کجا، اس کا تصور بھی کوئی با ہوش اور عقلمند نہیں کر سکتا، اس کے تحت پہلی صورت کو رد کیونکر کیا جا سکتا ہے اور کم از کم اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال والے عقلی قاعدہ کے تحت با عزت انسان کو اپنے استدلال سے دست بردار ہونا پڑتا ہے۔ جب اس کے استدلال میں دوسرا احتمال موجود ہو چہ جائیکہ جب دوسرا احتمال ہی متعین ہو۔
تذییل: یہی حال تیسری دلیل کا بھی ہے (کہ جناب ابوبکر نے اسی چیز کی وجہ سے سبقت کی ہے جو ان کے دل میں راسخ ہے۔)
(الف)۔ کیونکہ ظاہر ہے دل میں حرص و لالچ بھی ہوا کرتا ہے اور ایمان و اخلاص بھی اور عشق و محبت بھی۔ جب دونوں احتمال موجود ہیں تو ازروئے عقل و دیانت یہ استدلال بھی لغو اور باطل ٹھہرا۔
(ب)۔ تحریف معنوی اور ستم بالائے ستم: ڈھکو صاحب نے اپنی جان پر ظلم یہ کیا ہے کہ حدیث رسول ﷺ میں تحریف معنوی کر دی ہے۔
"ماسبقکم ابوبکر بصوم ولا بصلوۃ الابشیء و قرفی قلبہ"
جس کا صحیح ترجمہ تو یہ تھا کہ تم سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نہ روزہ کے ذریعے سبقت لے گئے ہیں اور نہ نماز کے سبب سے، لیکن اس چیز کی وجہ سے جو ان کے دل میں راسخ ہے۔
یعنی ان کی سبقت اہل اسلام پر مسلم ہے۔ مگر سبب اس کا کثرت صوم و صلوٰۃ نہیں، بلکہ یہ تو اعمال ظاہرہ ہیں اور وہ سبب ان کے دل سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن ڈھکو صاحب نے طالب علموں کے سامنے شرمندگی کا خوف کیے بغیر اپنی مرضی کا ترجمہ داغ دیا۔ طلبہ جانتے ہیں کہ جس چیز کی سبقت مراد ہو اس پر الیٰ داخل کیا جاتا ہے۔ کما قال تعالیٰ: سابقوا الیٰ مغفرۃ من ربکم۔ الآیۃ۔۔ نہ کہ اس پر باء داخل کی جاتی ہے جو کہ سببیت پر دلالت کرتی ہے لیکن اگر یہ معنی کرتے جو قواعد کے مطابق ہیں تو قلبی بغض کا اظہار نہیں ہو سکتا تھا ، اس لیے شرم خلق اور شرم خدا سے بے نیاز ہو کر یہ ترجمہ کر دیا۔
الغرض جب اس میں بھی احتمال ہے کہ وہ شی ء ایمان و یقین کامل اور اخلاص اکمل ہو ، تو استدلال باطل ہو گیا۔ بلکہ یہی احتمال متعین ہے کیونکہ تمام اہل اسلام پر سبقت طلب جاہ اور حرص سلطنت سے تو ثابت نہیں ہو سکتی، بلکہ ایمان و اخلاص کامل اور حب صادق سے ، کیونکہ اعمال ظاہرہ مجسمے ہوا کرتے ہیں اور یقین محکم اور حب صادق اور عشق کامل، ان کی جان اور ان کے پر پرواز ہوا کرتے ہیں جو سبقت کا موجب بنتے ہیں۔ قال الحافظ الشیرازی:
آنجا کہ زاہداں بہ ہزار اربعین رسند
مست شراب عشق بیک آہ میر سد
(ج)۔۔ علاوہ ازیں یہ تیسری دلیل ڈھکو صاحب کی پہلی دلیل کی فرع ہے جب اس کے پرخچے فضاء آسمانی میں بکھرے ہوئے ہر آنکھ والے کو نظر آ جائیں گے تو اس کا فیصلہ وہ خود کر لیں گے۔
3۔ بحیرا راہب نے جو کچھ آپ کو بتلایا تھا اس میں نبی اکرم ﷺ کا نبی آخر الزمان ہونا بھی داخل تھا اور سب اہل کتاب کا ان کی راہ میں آنکھیں بچھائے ہونا بھی۔ اگر آپ کو اس کی بات سن کر اپنے وزیر اور خلیفہ ہونے کا یقین آ گیا تھا تو آپ ﷺ کی نبوت و رسالت کا یقین کیونکر نہ ہوا اور جب آپ کو اس کی خوشخبری کے تحت دونوں امر کا یقین ہو گیا تو اس سے آپ کے خلوص پر اعتراض کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے۔ مثلاً ہمیں یقین ہے کہ آپ کی غلامی میں آ کر جنت ملے گی اور حور و غلمان اور نہ ختم ہونے والی زندگی ، تو کیا ہمارا ایمان صرف اس لالچ کے تحت ہوگا لہٰذا عنداللہ اس کا اعتبار ہی نہیں ہوگا؟ نعوذباللہ من ذالک۔ جب یہ بشارت ہمارے اخلاص میں مخل نہیں، تو وہ بشارت حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے اخلاص میں کیونکر خلل انداز ہو سکتی ہیں۔
4۔ نبی اکرم ﷺ ملک عرب کے مالک بن چکے ہوتے یا آپ کے لیے حالات ساازگار ہوتے تو پھر تو اس توہم کی کوئی گنجائش ہو سکتی تھی۔ لیکن مکی زندگی کے تیرہ سال انتہائی پر آشوب تھے۔ پھر مدنی زندگی میں کبھی جنگ بدر، کبھی جنگ احد اور کبھی خندق وغیرہ، علاوہ ازیں وطن سے بے وطن ہونا، گھر بار سے الگ ہونا اورکفار کی طرف سے زد و کوب کیا جانا (جس کو خود ڈھکو صاحب نے تقیہ نہ کرنے کے خوفناک انجام کے تحت ذکر کیا ہے)، قریبی رشتہ داروں بلکہ اولاد کے ساتھ جنگ و جدال صرف اس موہوم امید پر کون برداشت کر سکتا ہے ۔ اگر دل میں حلاوت ایمان گھر نہ کر چکی ہو اور عشق نبوی کے شراب نے مست بنا کر دنیا کی ہر تکلیف کو سہل نہ کر دیا ہو تو ایسے مصائب و شدائد کبھی برداشت نہیں ہو سکتے۔
5۔ راہب نے جس وزارت اور خلافت کی خبر دی تھی وہ ذاتی رائے اور نجوم و رمل کے علم پر مبنی تھی یا اللہ تعالیٰ کی منزل کتب میں ازلی فیصلہ اور محیط علم غیب کی بناء پر؟ صورت اولیٰ میں اس قدر جزم اور یقین کس کو آ سکتا ہے بالخصوص ان مشکل اور تکلیف دہ احوال میں اور دوسری صورت میں اخلاص کی نفی نہیں ہو سکتی ورنہ خود نبی اکرم ﷺ کی ذات پر بھی یہی فتویٰ لگے گا کیونکہ ولادت شریفہ کے وقت سے لے کر اعلان نبوت سے پہلے تک مختلف رھبان اور احبار آپ کی نبوت اور رسالت کی خبریں دیتے رہے اور اس وجہ سے آپ کو جناب ابوطالب نے سفر تجارت میں شام کی طرف لے جاتے وقت راہ سے واپس کر دیا تھا کیونکہ راہب نے آپ سے کہا تھا کہ یہ پیغمبر آخر الزمان ہیں اور مجھے ان کے متعلق یہود کی بدباطنی اور دشمنی کا خطرہ ہے اور اس قسم کے بے شمار واقعات کتب سیرت میں موجود ہیں تو کیا یہاں بھی اس قسم کے توہم کی گنجائش ہوگی؟
مضمون ابھی جاری ہے۔ ازراہ کرم تکمیل تک تبصرہ جات سے گریز کریں۔ شکریہ