• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسمِ عثمانی کا التزام اور اس بارے میں علماء کی آراء

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رسمِ عثمانی کا التزام اور اس بارے میں علماء کی آراء

حافظ محمد سمیع اللہ فراز​
مقالہ نگار حافظ سمیع اللہ فراز﷾نے چند سال قبل شیخ زید اسلامک سنٹر، جامعہ پنجاب سے علوم ِاسلامیہ میں پروفیسرڈاکٹر حافظ عبداللہ﷾(شیخ زید اسلامک سنٹر، پنجاب یونیورسٹی، لاہور) کے زیرنگرانی ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔ موصوف کے مقالہ کا عنوان تھا: ’’رسم عثمانی اور اس کی شرعی حیثیت‘‘۔ مقالہ مذکور کے بہترین مقالہ جات کی فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سے اسلامک سنٹر نے بعد ازاں اسے کتابی صورت میں طبع کروایا ہے۔ زیرنظر مضمون اسی مقالہ کی ایک فصل کے انتخاب پر مشتمل ہے، جسے فاضل مقالہ نگار نے ماہنامہ رُشد قراء ات نمبر کے قارئین کیلئے ارسال فرمایا ہے۔ (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کلماتِ قرآنیہ کاایک بڑا حصہ تلفظ کے موافق یعنی قیاسی ہے،لیکن چند کلمات تلفظ کے خلاف لکھے جاتے ہیں اورسیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع سے ایسے کلمات یا الفاظِ قرآنی میں قرآن کی کتابت کروائی۔ بایں وجہ اِن کو رسمِ عثمانی کہاجاتا ہے۔ کیا رسمِ عثمانی اور رسمِ قیاسی کے مابین فرق و اختلاف باقی رہنا چاہئے؟یامصاحف کی کتابت وطباعت میں رسمِ عثمانی کے قواعد وضوابط کی پابندی واجب ہے ؟یہ وہ سوال ہیں جس نے علماء ِرسم کے علاوہ مورخین کے زاویۂ فکر کو بنیادی طور پر دو طبقات میں تقسیم کیاہے،کیونکہ،لغتِ عربی اور اس کے رسم الخط سمیت، دنیاکی ہر زبان اپنے تطوّر و ارتقاء کا سفر جاری رکھتے ہوئے اپنے اندر کئی تبدیلیوں کی متحمل رہتی ہے اور لازمی نتیجہ کے طورپر اس کا رسم الخط بھی جدت ونشو کا متقاضی رہتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں رسمِ قرآنی یا رسمِ عثمانی نے اِس عام مروّجہ ’اصولِ نشو ‘کی قبولیت سے ہمیشہ توقف کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآنی رسم کی اِسی قدامت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک مکتبۂ فکر کے نزدیک رسمِ مذکور میں چونکہ کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں چنانچہ طباعت ِمصاحف میں اِسی کی پابندی لازمی ہے۔جب کہ اِس کے مقابلہ میں فکر کا ایک زاویہ یہ بھی تھا کہ مرورِ زمان کے ساتھ زبانو ں اور ان کے رسوم الخطوط کی تبدیلی کالوگوں کے مزاج وفہم پر اثر انداز ہونا ایک لازمی امر ہے لہٰذا رسمِ قرآنی کو لوگوں کی آسانی اور مزاج کے موافق بنانے کیلئے قدیم رسمِ قرآنی میں تبدیلی کی گنجائش موجود رکھتے ہوئے رسمِ عثمانی کا التزام ضروری نہیں۔اِسی سوچ کے حامل بعض افراد نے قدرے اعتدال کامظاہرہ کرتے ہوئے اِس کی خلاف ورزی کو’ ضروری‘ کی بجائے صرف ’جائز ‘قرار دیا ۔ گویا رسمِ عثمانی کے التزام و عدمِ التزام کے بارے میں تین مواقف سامنے آئے:
٭ رسمِ عثمانی کے عدمِ التزام کاوجوب
٭ رسمِ عثمانی کے عدمِ التزام کا جواز
٭ رسمِ عثمانی کے التزام کا وجوب
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ رسمِ عثمانی کے عدمِ التزام کاوجوب
اِ س نظریہ کے مطابق :مصاحف کے دورِ طباعت و کتابت میں خصوصیاتِ رسمِ عثمانی سے پرہیز کرتے ہوئے عصرِ حاضر میں رسمِ عثمانی کے التزام کی بجائے رائج عربی قواعدِ املاء پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔عوام کے لیے رسمِ عثمانی کے مطابق مکتوب مصاحف میں قراء تِ قرآن کے لحاظ سے کئی مفاسد ہیں جبکہ خواص کے لیے اس کی گنجائش موجود ہے ۔
علماء سلف میں سب سے پہلے سلطان العلماء العز بن عبد السلام رحمہ اللہ(م۶۶۰ھ) نے اسی موقف کی بنیاد پر رسمِ عثمانی سے پرہیز کرنے کی تلقین کی۔
علامہ العزبن عبدالسلام رحمہ اللہ کے اِ س موقف کو علامہ قسطلانی رحمہ اللہ اور علامہ الدمیاطی رحمہ اللہ کے علاوہ علامہ زرکشی رحمہ اللہ نے اِن الفاظ میں ذکر کیاہے:
’’قال الشیخ عز الدین بن عبد السلام : لا تجوز کتابۃ المصحف …الآن…علی الرسوم الأولی باصطلاح الأئمۃ لئلا یوقع فی تغییر الجھال‘‘
’’یعنی اب قرآن مجید کی کتابت ائمۂ رسم کی اصطلاح والے پہلے رسم الخط پر جائز نہیں، کیونکہ اس سے جاہل لوگوں کے سنگین غلطی میں مبتلاہونے کا اندیشہ ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ زرکشی رحمہ اللہ کے موقف کی تحقیق الشیخ عزالدین بن عبد السلام رحمہ اللہ کے اس قول کو ذکر کرنے کی وجہ سے بعض متاخرین مثلاًعلامہ عبد العظیم الزرقانی رحمہ اللہ ، ڈاکٹر صبحی صالح رحمہ اللہ، ڈاکٹر لبیب السعیدرحمہ اللہ اور حافظ احمد یاررحمہ اللہ نے علامہ بدرالدین زرکشی رحمہ اللہ کو بھی اِسی مذکورہ رائے کا قائل قرار دیا ہے جو کہ راقم کے نزدیک درست نہیں۔
درحقیقت مذکورہ مصنفین علامہ عزالدین بن عبد السلام رحمہ اللہ اوراس پر علامہ زرکشی رحمہ اللہ کے تعقیبی قول اور محاکمہ کے مابین فرق کرنے سے قاصر رہے ہیں اور دونوں اَقوال کو ایک ہی سمجھ کر اس پر حکم لگا دیا گیا ہے۔ علامہ عزالدین رحمہ اللہ کا قول صرف اسی قدر ہے جتنا کہ گزشتہ اقتباس میں نقل کیا گیا ہے ۔ اس کے متصل بعد علامہ زرکشی رحمہ اللہ کے اپنے الفاظ اِس طرح ہیں:
’’ولکن لا ینبغی إجراء ھذا علی إطلاقہ؛ لئلا یؤدّی إلی دروس العلم، وشئ أحکمتہ القدماء لا یترک مراعاتہ لجھل الجاھلین؛ ولن تخلو الارض من قائم ﷲ بالحجۃ‘‘
’’یعنی (علامہ عزالدین رحمہ اللہ کے)اِس موقف کا اطلاق عمومی طور پر درست نہیں کیونکہ (مخصوص)جاہلین کے جہل کی وجہ سے علماء سلف کی بیان کردہ حکمتوں کو ترک نہیں کیا جا سکتااور اِس پر دلائل کے لحاظ سے بھی کمی نہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ زرکشی رحمہ اللہ کا مذکورہ قول صراحتاً قولِ اوّل کے خلاف اور متناقض ہے۔ دورانِ طباعت کاتب (Composer) اور مطبع(Press) کیلئے ضروری تھا کہ وہ علامہ زرکشی رحمہ اللہ کے قول کو نئے پیراگراف سے شروع کرتے ۔آئندہ طباعت میں اِس امر کوملحوظ رکھنا چاہئے۔لیکن علامہ زرقانی رحمہ اللہ کے حسبِ ذیل الفاظ سے ظاہر ہے کہ اُنہوں نے علامہ عزالدین بن عبد السلام رحمہ اللہ اور علامہ زرکشی رحمہ اللہ کے اقوال میں تفریق کیے بغیران کو ایک ہی موقف ومسلک کا قائل شمار کیا ہے۔ جبکہ درحقیقت ایسا نہیں:
’’یمیل صاحب التبیان ومن قبلہ صاحب البرھان، إلی ما یفہم من کلامہم العز ابن عبد السلام،من أنہ یجوز بل یجب کتابۃ المصحف الآن لعامۃ الناس علی الاصطلاحات المعروفۃ الشائعۃ عندھم…‘‘
مذکورہ صراحت کے بعد یہ کہنا درست ہو گا کہ علامہ زرکشی رحمہ اللہ بھی رسمِ عثمانی کے التزام کے قائلین میں سے ہیں اور انہوں نے علامہ عزالدین بن عبد السلام رحمہ اللہ کی رائے سے اتفاق نہیں کیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جہاں تک علامہ عزالدین بن عبد السلام رحمہ اللہ کے موقف ومسلک کا تعلق ہے تو وہ مجتہد اور جید عالم دین ہونے کے لحاظ سے اپنی رائے کے اظہار کا حق محفوظ رکھتے ہیں، کیونکہ وہ امت کے معاملہ میں تیسیر وسہولت کے قائل تھے۔ جیسا کہ علامہ غانم رحمہ اللہ نے اس کا ذکر کیا ہے:
’’ولیس غریبا علی الإمام العز مثل ھذا الرأي الذی تفرد بہ فھو صاحب نظریۃ المصالح، فالشریعۃ (کلہا مصالح،إمّا تدراً مفاسد أو تجلب مصالح)،وقد أداہ اجتہادہ أن فی مذہبہ مصلحۃ وتیسیراً علی الأمۃ‘‘
’’یعنی امام عزالدین بن عبد السلام رحمہ اللہ کی انفرادی رائے کی وجہ سے اُن پر اظہارِ تعجب نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ نظریۂ مصالح سے واقف کار ہیں اور شریعت مصالح سے بھر پور ہے خواہ وہ مفاسد کو دور کرنے کا معاملہ ہو یا کسی مصلحت کے حصول کا۔ انہوں نے اپنے مذہب کے مطابق مصلحت اور امت پر آسانی کے پیش نظر اجتہاد ی موقف اختیارکیا ہے۔‘‘
ورنہ متاخرین علماء میں سے کوئی قابلِ ذکر نام ایسا نہیں جس نے اِس رائے مذکورہ سے اتفاق کیا ہو،کیونکہ صحابہ کرام کا اتفاق صرف اُسی معاملہ پر ممکن ہوسکتا ہے جو اُن کے ہاں متحقق ہو کر واضح ہو چکا ہو۔جیسا کہ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ ولم یکن ذلک الصحابۃ کیف اتفق بل علی أمر عندھم قد تحقق‘‘
چنانچہ رسمِ عثمانی سے پرہیز اور اس کے عدمِ التزام کا نظریہ صرف علامہ عزالدین بن عبد السلام رحمہ اللہ کے ایک قول کے سہارے پر کھڑا ہے جو کہ علمائِ امت کے اجماع کے مقابلے میں متروک العمل ٹھہرتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رسمِ عثمانی کا جوازِ عدمِ التزام
رسمِ عثمانی کے عدمِ التزام کے متعلق پہلے اور دوسرے نظریہ میں وجوب اور جواز کا فرق ہے۔اِس ضمن میں سب سے پہلے قاضی ابو بکر الباقلانی رحمہ اللہ نے مستعمل طریقۂ ِاملاء میں مصاحف کی کتابت کے جواز کا فتویٰ دیا۔ان کے نزدیک کسی دلیل ِ قطعی سے امت کیلئے کوئی متعین رسم مخصوص ومشروع نہیں کیا گیا۔ علامہ زرقانی رحمہ اللہ نے الانتصار کے حوالے سے قاضی ابوبکر الباقلانی رحمہ اللہ کادرجِ ذیل قول نقل کیا ہے اہمیت کے پیش نظر مکمل اقتباس پیشِ خدمت ہے:
’’وأما الکتابۃ فلم یفرض اﷲ علی الأمۃ فیہا شیئا،إذ لم یأخذ علی کُتّاب القرآن وخُطّاط المصاحف رسماً بعینہ دون غیرہ أوجبہ علیہم وترک ما عداہ… وکان الناس قد أجازوا ذلک وأجازو أن یکتب کل واحد منہم بما ہو عادتہ ، وما ہو أسہل وأشہر وأولیٰ، من غیر تاثیم ولا تناکر، علم أنہ لم یؤخذ فی ذلک علی الناس حدٌّ مخصوص کما أخذ علیہم فی القراء ۃ والأذان۔ والسبب فی ذلک أن الخطوط إنما ھی علامات ورسوم تجری مجری الإشارات والعقود والرموز، فکل رسم دالٌّ علی الکلمۃ مفیدٍ لوجہ قراء تہا تجب صحتہ وتصویب الکاتب بہ علی أی صورۃ کانت۔ وبالجملۃ فکل من ادّعی أنہ یجب علی الناس رسم مخصوص وجب علیہ أن یقیم لحجۃ دعواہ۔ وانی لہ ذلک‘‘۔
’’علامہ زرقانی رحمہ اللہ ، مذکورہ رائے پر مناقشہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مذکورہ رائے کئی وجوہ کی بنیاد پر قابلِ استدلال نہیں۔ مثلاً:علامہ باقلانی رحمہ اللہ کی رائے کے مقابلہ میں سنت اور اجماعِ صحابہ کے علاوہ جمہور علماء کے اقوالِ التزام موجودہیں۔قاضی ابو بکررحمہ اللہ کا یہ دعویٰ کرنا کہ یہ سنت سے ثابت نہیں تو یہ بھی مردود ہے، کیونکہ رسول اللہﷺنے کتّابِ وحی کو اسی رسم کا حکم ارشاد فرمایا،جیسے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے جمع ابی بکر اور پھر جمع عثمانی میں اسی رسم کے موافق کتابت کی جو وہ عہدِ نبوی میں استعمال کرتے تھے۔مذکورہ رائے کے ابطال کی تیسری وجہ اجماعِ صحابہ کا انعقاد ہے اس کے بعد کسی ممکنہ صورت کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ ہم اجماعِ صحابہ کے خلاف اس کی اجازت دیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عبد العزیز دباغ رحمہ اللہ نے قاضی ابوبکررحمہ اللہ کی رائے سے اتفاق نہیں کیا:
’’قاضی ابو بکررحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ رسم الخط کے اتباع کا وجوب نہ کتا ب اللہ سے ثابت ہے نہ کلام الرسول سے نہ اجماع سے نہ قیاس سے،(لہٰذا اختیار ہے جس طرح چاہے لکھے)،صحیح نہیں ہے۔ کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:جو کچھ بھی تم کو رسولﷺدیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں اس سے باز آؤ۔ اور یہ واضح ہو چکا کہ رسم الخط توقیفی ہے ،صحابہ کی اصطلاح نہیں ہے (لہٰذا رسول ؐکا دیا ہوا ہے اور اس کا لینا واجب ہے)۔ اور اگر یہ شبہ کرو کہ حضرت ﷺنے اس طریق پر کتابت ِ قرآن کا حکم نہیں فرمایا ،تو آپ کے زمانہ میں صحابہ کا اس طریق پر لکھنا اور حضرتﷺ کا اس کو قائم وبرقرار رکھنا ہی(سنتِ تقریری کے ذریعے)حکم کے درجہ میں ہے‘‘۔
جامعۃالازہر کی مجلسِ فتویٰ نے بھی علامہ ابو بکر الباقلانی رحمہ اللہ کی رائے کو ضعیف قرار دیتے ہوئے کتابت ِمصحف میں رسمِ عثمانی کے التزام کا حکم دیا:
’’أما ما یراہ أبو بکر الباقلانی من أن الرسم العثماني لا یلزم أن یتبع فی کتابۃ المصحف فھو رأي ضعیف لأن الأئمۃ في جمیع العصور المختلفۃ درجوا علیٰ التزامہ في کتابۃ المصحف،ولأن سدّ ذرائع انفساد ۔مہما کانت بعیدۃ۔ أصل من أصول الشریعۃ الإسلامیۃ التي تبني الأحکام علیہا وما کان موقف الأئمۃ من الرسم العثماني إلا بدافع ہذا الأصل العظیم مبالغۃ في حفظ القرآن وصونہ‘‘
’’یعنی بہرحال ابو بکر الباقلانی کی کتابت ِمصحف میں رسمِ عثمانی کا اتباع لازم نہ ہونے کی رائے ضعیف ہے،کیونکہ تمام ادوار میں علماء ِامت نے کتابت مصحف کیلئے رسمِ عثمانی کے التزام کو ہی ترجیح دی ہے۔ ممکنہ فساد کے اسباب کا تدارک ہی شریعت کا اصل الاصول ہے جس پر احکام کا مدار ہے۔بعینہٖ رسمِ عثمانی کے التزام کے بارے میں ائمہ کا موقف بھی قرآن کی حفظ وصیانت کے اسی مقصد ِعظیم کے دفاع کیلئے ہے ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علماء کے مذکورہ اقوال کے علاوہ مصری مجلسِ فتویٰ کی صراحت کے بعد قاضی ابو بکر الباقلانی رحمہ اللہ کے موقف کے جواز اور اس سے استدلال کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے ۔قاضی ابو بکر الباقلانی رحمہ اللہ کے علاوہ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ نے بھی رسمِ عثمانی کی مخالفت کو جائز قرار دیا ہے۔مقدمہ میں رقمطراز ہیں:
’’ولا تلتفتن فی ذلک إلی ما یزعُمہ بعض المغفَّلین من أنہم کانوا محکمین لصناعۃ الخط، وأن ما یُتخیل من مخالفۃ خطوطہم لأصول الرسم لیس کما یُتخیّل،بل لکلہا وجہ… الخ‘‘
لیکن علماء ِرسم نے علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ کی رائے سے بھی اتفاق نہیں کیا۔ اس کی صراحت کرتے ہوئے علامہ المارغنی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’لا یجوز لأحد أن یطعن في شئ مما رسمہ الصحابۃ فی المصاحف،لأنہ طعن في مجمع علیہ،ولأن الطعن في الکتابۃ کالطعن في التلاوۃ وقد بلغ التہور ببعض المؤرخین إلی أن قال في مرسوم الصحابۃ ما لا یلیق بعظیم علمہم الراسخ وشریف مقامہم الباذخ فإیاک أن تغتر بہ‘‘
قاضی ابو بکر الباقلانی رحمہ اللہ اور علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ کے اقوال کی بنیا د پر بعض علماء کا موقف ہے کہ خواص اور اہلِ علم کیلئے تو اس کا التزام ضروری ہے، لیکن عوام کے لئے رسمِ عثمانی کی بجائے مروّجہ رسم میں مصاحف کی کتابت وطباعت جائز ہے۔ جیسا کہ علامہ الدمیاطی رحمہ اللہ نے اِس رائے کو اِن الفاظ میں نقل کیا ہے:
’’ورأی بعضہم قصر الرسم بالاصطلاح العثمانی علی مصاحف الخواصّ، وإباحۃ رسمہ للعوامّ، بالاصطلاحات الشائعۃ بینہم‘‘
 
Top