• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسمِ عثمانی کا التزام اور اس بارے میں علماء کی آراء

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ ابو طاہر السندی رحمہ اللہ نے رسمِ عثمانی کے التزام کی چار وجوہ بیان فرمائی ہیں:
’’الراجع من ذلک قول الجمہور،وذلک لوجوہ:
(١)إن ہذا الرسم الذی کتب بہ الصحابۃ القرآن الکریم حظي بإقرار الرسول ﷺ،واتباع الرسول ﷺ واجبٌ علی الأمۃ(٢)أجمع علیہ الصحابۃ ولم یخالفہ أحد منہم،وکان ہذا الانجاز الکبیر الأمۃ لقولہﷺ:’’علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین من بعدی…‘‘ (٣) أجمعت علیہ الأمۃ منذ عصور التابعین، وإجماع الأمۃ حجۃ شرعیۃ،وھو واجب الاتباع لأنہ سبیل المومنین،قال تعالیٰ: ’’وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدیٰ وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَائَ تْ مَصِیرًا‘‘(٤) للرسم العثمانی فوائد مہمۃ،ومزایا کثیرۃ،خاصۃ أنہ یحوی علی القراء ات المختلفۃ،والأحرف المنزلۃ، ففي مخالفتہ تضیع لتلک الفوائد وإہمال لہا‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
یعنی جمہور کا مذہب ِالتزام راجح ہے اس کی حسب ِذیل وجوہ ہیں:
اَولاً:کہ رسول اللہﷺ کے تقرر کے باعث صحابہ کرام نے اسی رسم میں قرآن مجید کی کتابت کی اور رسول اللہﷺکا اتباع اُمت پر واجب ہے۔
ثانیاً: اسی رسم پرعہدخلفاء میں جماعت صحابہ کااجماع منعقد ہوا،کسی ایک صحابی سے بھی اس کی مخالفت منقول نہیں۔ چنانچہ خلفاء راشدین کا اتباع بھی امت پر واجب ہے، کیونکہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’تم پر میری اور میرے بعد میرے خلفاء ِراشدین مہدیین کی سنت لاز م ہے‘‘۔
ثالثاً: زمانۂ تابعین سے اُمت کا اسی رسم پر اجماع ہے۔اُمت کا اجماع حجت ِشرعی اورمسلمانوں کیلئے واجب العمل ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:کہ جس نے ہدایت واضح ہونے کے بعد رسول اللہﷺکی نافرمانی کی اور مومنین کے راستے سے ہٹ کر چلاتو ہم اس کو اسی طرف پھیر دیں گے اور اس کو جہنم میں ڈالیں گے اور وہ برا ٹھکانہ ہے۔
رابعاً: رسمِ عثمانی میں بہت سے اہم فوائد شامل ہیں خصوصاً یہ کہ رسمِ عثمانی میں مختلف قراء ات اور منزل من اللہ حروف شامل ہو سکتے ہیں۔ اس رسم کی مخالفت سے یہ تمام فوائدمتروک ہو جاتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
التزامِ رسمِ عثمانی کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ کردی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’فخلاصۃ ما تقدم أن الواجب علینا اتباع رسما المصحف العثماني وتقلید أئمۃ القراء ات خصوصاً علماء الرسم منہم ، والرجوع إلی دواوینہم العظام کالمقنع لأبی عمرو الدانی والعقیلۃ للشاطبی، فإن ائمۃ القراء ات المتقدمین قد حصروا مرسوم القرآن الکریم کلمۃ کلمۃ علی ہیئۃ ما کتبہ الصحابۃ فی المصاحف العثمانیۃ، ونقلوا ذلک بالسند المتصل عن الثقات العدول الذین شاہدوا تلک المصاحف‘‘
’’یعنی ہماری گزشتہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ رسمِ مصحفِ عثمانی کے ساتھ ساتھ ائمۂِ قراء ات خصوصاً علماء ِرسم کا اتباع ہم پر واجب ہے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ اس معاملہ میں ہم ان کی عظیم تصانیف کی طرف رجوع کریں جیسے علامہ دانی رحمہ اللہ کی المقنع اور علامہ شاطبی رحمہ اللہ کی تصنیف العقیلہ وغیرہ۔بے شک متقدمین ائمہ قراء ات نے قرآنی کلمات میں سے ایک ایک کلمہ کارسم اور اس کے احکام بیان کیے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مصاحف ِعثمانیہ میں اِن کلمات کو کتابت فرمایا۔ مزید برآں قر ّاء نے ثقہ وعادل اور مصاحف ِعثمانیہ کے عینی شاہدین سے سندِ متصل کے ساتھ اِس رسم کو نقل فرمایا ۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
فقہاء اور مفسرین کے علاوہ اہلِ لغت نے بھی ہمیشہ رسمِ عثمانی کے التزام کو اختیار کیا ہے اور اسی کا حکم دیا ہے ۔ ڈاکٹرلبیب السعیدرحمہ اللہ نے ’دار الکتب والوثائق القومیۃ قاہرہ‘ میں موجودعلامہ ابو البقاء العکبری رحمہ اللہ کے مخطوط ’اللباب فی علل البناء والإعراب‘کے ورق:۳۰ سے اُن کا ایک اقتباس نقل کیا ہے کہ اہلِ لغت کی ایک جماعت بھی یہی سمجھتی ہے کہ کلمہ کی کتابت اُس کے تلفظ کے مطابق ہونی چاہیے، لیکن قرآنی رسم اس سے مستثنیٰ ہے :
’’ ذھب جماعۃ من أہل اللغۃ إلی کتابۃ الکلمۃ علی لفظہا إلا فی خط المصحف،فإنہم اتبعوا فی ذلک،ما وجدوہ فی الإمام ۔ والعمل علی الأول‘‘
رسمِ عثمانی کے التزام کے بارے میں محقق مناع القطان رحمہ اللہ کی رائے حسب ِذیل ہے:
’’والذی أراہ أن الرأي الثانی ہو الرأي الراجح، وأنہ یجب کتابۃ القرآن بالرسم العثمانی المعہود في المصحف…ولو أبیحت کتابتہ بالاصطلاح الأملائي لکل عصر لأدی ہذا إلی تغییر خط المصحف من عصر لآخر، بل إن قواعد الإملاء نفسہا تختلف فیہا وجہات النظر في العصر الواحد، وتتفاوت في بعض الکلمات من بلد آخر‘‘
’’یعنی میرے خیال میں التزام ِرسمِ عثمانی کی رائے راجح ہے اور اب قرآن مجید میں رسمِ عثمانی کے مطابق کتابت ہونی چاہئے۔ اگر مروّجہ املائی کتابت کے ساتھ قرآن مجید لکھنے کی اجازت دے دی جائے تو ہر زمانہ میں قرآن مجید کا رسم دوسرے زمانہ سے مختلف ہو گا، بلکہ قواعد ِاملائی خود ایک ہی زمانہ میں مختلف جہات سے متغیر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ایک شہر کے مصاحف کے کلمات دوسرے شہر کے مصاحف سے مختلف ہوں گے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مذکورہ اَقوال کے علاوہ یہ بات بھی نہایت اہم ہے کہ جس طرح دیگر اسلامی علوم اورورثہ کی حفاظت مسلم معاشرہ پر ضروری ہے اسی طرح قرآن مجید سے منسوب ایک رسم اور طرزِ کتابت کی حفظ وصیانت بطریقِ اولیٰ لازمی امر ہوگا۔ اس کے بارے میں حافظ احمد یار رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
’’یہ’حفاظت ورثہ‘ والی بات جذباتی ہی نہیں اپنے اندر ایک تہذیبی بلکہ قانونی اہمیت بھی رکھتی ہے۔ برسبیل تذکرہ مصر کے ایک ناشر کے خلاف رسمِ قیاسی کے ساتھ لکھا ہوا ایک مصحف چھاپنے پر مقدمہ چلا۔ عدالت نے ناشر کے خلاف فیصلہ دیا اور نسخہ کی ضبطی کاحکم جاری کیا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں ایک ’نقطۂ توجہ‘ یہ لکھا کہ(آثارِ سلف کی حفاظت ترقی یافتہ اقوام کا فریضۂ اوّلین ہے)۔ یہی وجہ ہے کہ انگریز شیکسپئر (یا دوسرے قدیم شعراء مثل چوسروغیرہ) کا کلام انہی کے زمانے کے ہجاء وغیرہ کے ساتھ چھاپنا ضروری خیال کرتے ہیں اور وہ کسی طابع یا ناشر کو اس کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتے حالانکہ تین چار سو سال میں انگریزی زبان بدل کر کچھ سے کچھ ہو چکی ہے تو پھر قرآن کے بارے میں یہ اِجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دورِ جدید کے علماء کے فتاویٰ جات
مصری تحقیقی جریدے ’المنار‘ نے۱۹۰۹ء میں محمد رشید رضا رحمہ اللہ کا فتویٰ شائع کیا جس میں ملا صادق الایمانقولی القزانی رحمہ اللہ ، جو کہ روسی ممالک میں طباعتِ مصاحف کے سلسلہ میں رسمِ مصاحف کی کمیٹی کے تفتیشی سربراہ تھے،نے حسب ذیل استفتاء کیا:
’’ھل یجب اتباع الرسم العثمانی فی کتابۃ المصحف؟ أم ھل تجوز مخالفتہ للضرورۃ التی من أمثلہا: کلمۃ (ء اتٰن) فی الآیۃ ۳۶ من سورۃ النمل، حیث کُتبتْ فی المصحف العثمانی بغیر یاء بعد النون۔وکلمات:(الأعلام)و(الأحلام)و(الأقلام)و(الأزلام)و(الأولاد)، حیث کُتبت ایضًا فی بعض المصاحف بحذف (الألف) بعد اللام؟‘‘
’’یعنی کیا مصحف کی کتابت کے دوران رسمِ عثمانی کی اتباع واجب ہے ؟کیا کسی ضرورت کے تحت اس کی مخالف جائز ہے؟ مثلاً:کلمہ (ء اتٰن)مصحف ِعثمانی میں نون کے بعد بغیر یاء کے لکھا ہے۔ اسی طرح دیگر کلمات مثلاً: (الأعلام) و(الأحلام) و(الأقلام)و(الأزلام)و(الأولاد)وغیرہ بعض مصاحف میں الف کے بعد لام کے حذف کے ساتھ مرسوم ہیں۔‘‘
اس کے علاوہ سائل نے ،محولہ بالا الفاظِ قرآنی میں الف کے بارے میں یہ وضاحت پیش کی کہ روسی شہر پیٹرزبرگ (بترسبورج) کے’ مکتبۂ امبراطوریہ‘ میں محفوظ مصحف ِعثمانی میں اِن تمام الفاظ(الأعلام)،(الأحلام)، (الأقلام)، (الأزلام)اور(الأولاد) میں ’الف‘ محذوف ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام محمد رشید رضارحمہ اللہ نے پانچ نکات پر مشتمل جو جواب صادر فرمایا اس کو من وعن پیش کیا جاتا ہے:
(۱) أن الاسلام یمتاز علی جمیع الادیان بحفظ أصلہ منذ الصدر الأول،وأن التابعین وتابعیہم وائمۃ العلم أحسنوا باتّباع الصحابۃ فی رسم المصحف، وعدم تجویز الکتابتہ بما استحدث الناس من فنّ الرسم ،وإن کان أرقی مما کان علیہ الصحابۃ، إذ لو فعلوا لجاز أن یحدث اشتباہ فی بعض الکلمات باختلاف رسمہا وجہل أصلہا۔
(ب) وأن الاتباع فی رسم المصحف یفید مزید ثقۃ واطمئنان فی حفظہ کما ہو،وفی إبعاد الشُبہات أن تحوم حولہ،وفی حفظ شیء من تاریخ الملّۃ وسلف الأمۃ کما ہو۔
(ج) وأنہ ــ کنصّ الفتویٰ ــ لو کان لمثل الأمۃ الإنکلیزیۃ ہذا الأثر لما استبدلت بہ ملک کسری وقیصر، ولا أسطول الألمان الجدید الذی ہو شغلہا الشاغل الیوم۔
(د) وأن ما احتج بہ العز بن عبد السلام لما رآہ من (عدم جواز کتابۃ المصاحف الآن علی المرسوم الاول خشیۃ الالتباس،ولئلا یوقع فی تغییر من الجہّال) لیس بشئ،لأن الاتباع إذا لم یکن واجباً فی الأصل ــ وھو ما لا ینکرہ ــ فترک الناس لہ لا یجعلہ حرامًا أو غیر جائز لما ذکرہ من الالتباس۔
(ھـ)وأن الحلّ لکل العُقد فی مشکلات الرسم التی تواجہ السائل ہو فی الرجوع إلی طبعۃ المصحف الصّادرۃ فی سنۃ ۱۳۰۸ھـ من مطبعۃ محمد أبی زید بمصر،فقد توقف علی تصحیح ہذہ الطبعۃ وضبطہا الشیخ رضوان بن محمد المخلانی أحد علماء ہذا الشأن وصاحب المصنفات فیہ،والذی وضع للطبعۃ مقدمۃ شارحۃ ونافعۃ‘‘

رسمِ مصحف کے متعلق ،ابو الخطب رحمہ اللہ کی تصنیف ’الفرقان‘ کے سلسلہ میں صفر ۱۳۶۸ھ کے مجلہ الازہر۱۹۳۷ء میں صادر ہونے والے مصری فتویٰ میں حسب ِذیل الفاظ بھی تھے:
’’أن المصاحف ۔ـ وخاصۃ فی العصر الحدیث۔ـ مضبوطۃ بالشکل التام، ومذیلۃ ببیانات إرشادیۃ تیسّر للنّاس ــ إلی حدّ ما ــ قراء ۃ الکلمات المخالفۃ فی رسمہا للإملاء العادیّ، ثم إن رسم المصحف العثمانی لا یخالف قواعد الإملاء المعروفۃ إلا فی کلمات لا یصعب علی أحد ــ إذا لقنہا ــ أن ینطق بہا صحیحۃ‘‘
’’یعنی دورِ حاضر میں خصوصاً تمام مصاحف حرکات واعراب کے لحاظ سے مکمل ہیں اورعام املاء سے مخالف کلماتِ قرآنیہ کے بارے میں لوگوں کی آسانی کیلئے ممکنہ وضاحتی بیانات سے پر ہیں۔ مزید برآں مصحفِ عثمانی کا رسم سوائے چند کلمات کے عام قواعدِ املا ء کے موافق ہے،تو اِن چند کلمات کا کسی سے سیکھ کر ادا کرنا کچھ مشکل نہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
علامہ محمد بن حبیب اللہ الشنقیطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’والذی اجتمعت علیہ الأمۃ: أن من لا یعرف الرسم المأثور یجب علیہ أن لا یقرأ فی المصحف،حتی یتعلم القراء ۃ علی وجہہا،ویتعلم مرسوم المصاحف‘‘
’’یعنی اِ س بات پر علمائِ امت کا اتفاق ہے کہ جو شخص قدیم رسمِ قرآنی سے واقفیت نہ رکھتا ہو وہ مصحف سے دیکھ کر تلاوت نہ کرے یہاں تک کہ وہ قراء ۃ کے ساتھ ساتھ مصاحف کے رسم کے بارے میں بھی تعلیم حاصل کرے۔‘‘
حافظ احمد یاررحمہ اللہ جامعہ الازہر کی مجلس ِفتویٰ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’الازہر کی مجلس فتویٰ کی طرف سے ۱۳۵۵ھ میں (بذریعہ مجلۃ الازہر) یہ فتویٰ جاری ہوا تھا کہ رسمِ عثمانی کی پابندی کے بغیر قرآن کریم کی طباعت ناجائز ہے ۔اس کے بعد سے طباعت ِمصاحف میں اس التزام کے بارے میں ایک تحریک سی پیدا ہوگئی ہے‘‘۔­
مفتی ٔ ہند مولانا محمد غنی رحمہ اللہ (معدنی) نے ایک استفتاء کاجواب حسب ِذیل الفاظ سے ارشاد فرمایا:
’’فإن الکتابۃ بخلاف المصاحف العثمانیۃ بدعۃ مذمومۃ وفعل شنیع باتفاق الأمۃ ‘‘
’’یعنی مصاحف ِعثمانیہ(کے رسم )کے خلاف (مصاحف کی )کتابت، باتفاقِ اُمت قابل مذمت بدعت اور برا کام ہے۔‘‘
الغرض علماء سلف کی طرح دورِ جدید کے جید علماء ومحققین بھی اس بات کے قائل ہیں کہ دورِ حاضر میں مصاحف کی کتابت وطباعت کے دوران رسمِ عثمانی کی اتباع ہی لازمی وضروری ہے۔ عربی زبان کے علاوہ دیگر لغاتِ عالم میں قرآن مجید کی کتابت (Translateration)دورِ حاضر کاایک توجہ طلب مسئلہ ہے۔چنانچہ آئندہ بحث میں اس مسئلہ کی تحقیق پیشِ خدمت ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
عجمی لغات میں کتابت مصحف اور اس کا حکم
عربی رسم الخط کے علاوہ دیگر زبانوں اور ان کے رسم الخط میں قرآنی کتابت کو جمہور نے پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔اس کی سب سے بڑی وجہ رسمِ عثمانی کا عدمِ التزام ہے کیونکہ اگر قرآن مجید کوکسی عجمی رسم الخط میں لکھا جائے تو اِس سے کئی حروف و کلمات کا سقوط لازم آتا ہے جو کہ قراء ت ِ قرآن کیلئے کسی طور جائز نہیں۔
مثلاً:اگر قرآن مجید کو انگریزی زبان میں Transliteration کے ساتھ لکھا جائے جیسے: وَالضِّحیٰ کو Wazuha لکھنا۔ مثالِ مذکور میں حرفِ Z عربی ہجاء میں سے ذ،ز،ض کی آواز دیتا ہے ۔ عربی حروف کے مخارج سے واقف یا کسی استاذ کے سامنے زانوئے تلمذ طے کرنے والاشخص جانتا ہے کہ ذ،ز اور ض تینوں کے مخارج علیحدہ علیحدہ ہیں ۔جبکہ غیر عربی زبان میں عربی حروفِ ہجاء کے مخارج کا لحاظ رکھنا ناممکن ہے:
’’وکیف یمکن کتابتہ او ترجمتہ حرفیا باللغات الأجنبیۃ ومخارج حروفہا لیست کمخارج الحروف العربیۃ، وعدد حروف ہجائہا قد یزید عنہا وقد ینقص‘‘
’’یعنی عجمی لغات میں قرآن کی کتابت اور اس کا حروف کے اعتبار سے ترجمہ کیونکر ممکن ہو سکتا ہے؟جبکہ اِن اجنبی لغات کے مخارجِ حروف عربی حروف کے مخارج کی طرح نہیں بلکہ بسا اوقات ان کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے اور کبھی یہ کم ہو جاتے ہیں۔‘‘
اس طرح اگر ایک حرف کی جگہ کوئی دوسرا حرف پڑھ دیا جائے تو یہ تجوید کی اصطلاح میں ’لحنِ جلی‘ کہلاتی ہے۔ نیز کسی حرف کے بدلنے سے معنی کی تبدیلی لازم آتی ہے جو سخت ترین تحریف ِقرآن ہے۔جمہور فقہائِ اسلام نے مذکورہ اوراِن جیسی دیگر مکروہات کی بنیاد پر قرآن مجید کو دیگر زبانوں میں لکھنے کی ممانعت بیان فرمائی ہے۔
غیر عربی میں کتابت قرآن کی ممانعت کے حوالے سے خود رسول اللہ کا ارشادِ گرامی بھی موجود ہے جس میں مختلف زبانوں کے التباس سے قرآن کریم کو محفوظ کہا گیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ترمذی رحمہ اللہ نے روایت کو نقل کیا ہے:
’’ھو حبل اﷲ المتین وھو الذکر الحکیم وھو الصراط المستقیم وھو الذي لا تزیغ بہ الأہواء ولا تلتبس بہ الألسنۃ ولا تشبع منہ العلماء ولا یخلف عن کثرۃ الرد ولا تنقضی عجائبہ‘‘
علامہ کردی رحمہ اللہ نے غیر عربی میں قرآنی کتابت وقراء ت کو ناجائز قرار دینے پر ائمہ کا اتفاق ذکر کیا ہے:
’’اتفقت الأئمۃ علی عدم جواز ترجمۃ القرآن وکتابتہ وقراء تہ بغیر العربیۃ،لأن ذلک یؤدی إلی التحریف والتبدیل بلا شک‘‘
’’یعنی قرآن مجید کے غیر عربی میں ترجمہ ،کتابت اور قراء ت کے عدمِ جواز پر ائمہ کا اتفاق ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بغیر کسی شک کے تحریف وتبدیل لازم آتی ہے۔‘‘
محقق ِمشہور،امام حفنی ناصف رحمہ اللہ(۱۸۶۰ء۔۱۹۱۹ء)،تاریخ رسم المصحف میں رسمِ املائی کے مطابق کتابت ِقرآن کے قائلین پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ولا یبعد ـ إذا سلم کلام ہؤلائِ العلماء ـ أن یذہب غیرہم إلی استحسان کَتْب المصاحف بالحروف اللاتینیۃ، وآخرون إلی اختصارہ، وآخرون إلی إرجاعہ للغۃ العامیۃ لیعم نفعہ، إلی غیر ذلک من الرَقَاعات والمَخْرَفَۃ، وما ذا بعد الحق إلا الضلال؟‘‘
مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کا رسالہ تحذیر الانام عن تغییر رسم الخط من مصحف الامام مذکورہ عنوان پر جامع تصنیف ہے جس میں عربی کے علاوہ دیگر زبانوں میں قرآن مجید کی کتابت (Transliteration) کے تفصیلی اَحکام بیان کیے گئے ہیں۔یہ رسالہ دراصل ٹامل زبان میں ترجمۂ قرآن کے بارے میں استفتاء کے جواب میں تحریر کیا گیا۔ مفتی صاحب رحمہ اللہ غیر عربی میں کتابت قرآن کے بارے میں صحابہ کا طرزِ عمل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ان سب مشکلاتِ مزعومہ کے باوجود صحابہ وتابعین نے کہیں یہ تجویز نہیں کیا کہ قرآن کو ملکی رسم الخط میں لکھوا کر ان لوگوں کو دیا جائے۔ بلکہ ان حضرات نے جس طرح قرآن کے معانی اور الفاظ اور زبان کی حفاظت کو ضروری سمجھا اسی طرح اُس کے رسم الخط کی بھی مصحف ِعثمانی کے موافق حفاظت کرنا ضروری سمجھا ۔ اور ان مشکلات کو حفاظت مذکورہ کے مقابلہ میں ناقابلِ التفات قرار دیا‘‘۔ ´
 
Top