• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسمِ قرآنی کا اِعجاز اور اس کے معنوی اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
رسمِ قرآنی کا اِعجاز اور اس کے معنوی اثرات

الأستاذ محمد شملول
مترجم: حافظ مصطفی راسخ​
قرآن کریم کا رسم خاص اہل فن کے ہاں توقیفی ہے اور توقیف کا مطلب یہ ہے کہ من جملہ نصوص ِشریعت کے قرآن کا رسم الخط بھی شارع متین کی طرف سے طے کردہ ہے۔ اسی نظریہ کے پیش نظر زمانہ قدیم سے رسم ِقرآن کا رسم مالوف سے فرق اور اس میں موجود حکمتوں کابیان اہل علم میں زیر بحث رہا ہے۔جمہوریہ مصر کے ممتاز محقق الاستاذ محمد شملول﷾ نے إعجاز رسم القرآن علی المعانی کے نام سے قرآن کریم کے اُن تمام کلمات کا استحصاء واستقصاء کرنے کی کوشش فرمائی ہے، جن میں دو مختلف مقامات پرایک ہی کلمہ کو متنوع اندازوں سے لکھا گیا ہے یا بعض کلمات قرآنی کو رسم ِمالوف سے ہٹ کر لکھا گیا ہے۔ فاضل مولف نے خصوصا اِن مخصوص کلمات میں حذف واثبات وغیرہ کی حکمتوں کو بحث کا موضوع بنایا ہے۔ اپنے موضوع پر انفرادیت کی حامل اس تحریر کو تلخیص و ترجمہ کے ساتھ ہم ہدیہ قارئین کررہے ہیں۔ مکمل کتاب اس مضمون سے کئی گنا طویل ہے، جس کا ترجمہ فاضل مترجم مکمل کر چکے ہیں، جو کہ عنقریب کتابی صورت میں ادارہ ہذا سے دستیاب ہوگا، ان شاء اللہ! (ادارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن مجید وہ عظیم الشان کتاب ہے، جس کے عجائب لامتناہی ہیں اور وہ ہر پہلو سے ایک چیلنج اور معجزہ ہے۔ اس کتاب نے عرب و عجم، جن و انس اور قیامت تک تمام سلف و خلف کو چیلنج کیا ہے کہ وہ اس جیسی کوئی ایک سورت بناکر لے آئیں اور یہ چیلنج ابھی تک قائم ہے۔ عہد نبویﷺسے لے کر آج تک نہ توکوئی ایساکرسکا ہے اور نہ ہی قیامت تک کرسکے گا۔ تمام کلماتِ قرآنیہ اپنی کتابت، تلاوت اور بیان میں معجزہ ہیں اور کتابت کا اعجاز کلمات کی بناوٹ میں کمی و زیادتی سے ظاہر ہوتاہے۔بعض حروف کتابت میں موجود ہوتے ہیں مگر پڑھے نہیں جاتے،اسی طرح بعض حروف لکھے نہیں ہوتے مگر پڑھے جاتے ہیں۔ معروف قواعد املائیہ کے خلاف کلمات قرآنیہ کی کتابت بھی رسم قرآنی کاایک اعجاز ہے۔جو اپنے اندر متعدد حکمتوں اور اسرار و رموز کوسموئے ہوئے ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کلماتِ قرآنیہ کا ایک بڑا حصہ تلفظ کے موافق مکتوب ہے، لیکن چند کلمات ایسے بھی ہیں جو تلفظ کے خلاف لکھے ہوئے ہیں۔ تلفظ کے خلاف لکھے جانے والے ان کلمات کے رسم کے بارے میں اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا ان کلمات کو (معروف قواعد املائیہ کے خلاف) جیسے منقول ہیں ویسے ہی لکھنا ضروری ہے ، یا معروف قواعد املائیہ کے موافق بھی لکھا جاسکتا ہے؟ہم نے گذشتہ شمارے میں اپنے ’رسم عثمانی اور اس کی شرعی حیثیت‘ نامی مضمون میں یہ مؤقف اختیارکیاتھا کہ رسم عثمانی چونکہ توقیفی ہے لہٰذا اس میں تبدیلی کرکے قواعد املائیہ کے موافق لکھنا ناجائز ہے کیونکہ رسم عثمانی میں عظیم مقاصد کے تحت بعض پوشیدہ معانی پردلالت کرنے کے لیے معروف قواعد املائیہ کے خلاف لکھا گیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قرآن مجید کے وہ کلمات جو معروف قواعد املائیہ کے خلاف لکھے گئے ہیں، درج ذیل چھ قواعد پر مشتمل ہیں۔
(١) قاعدۃ الحذف (٢) قاعدۃ الزیادۃ
(٣) قاعدۃ الھمز (٤) قاعدۃ البدل
(٥) قاعدۃ الفصل (٦) قاعدۃ ما فیہ قراء تان فکتب إحداھما
زیر نظر مضمون دراصل مصر کے معروف عالم دین محمدشملول﷾ کی کتاب ’ إعجـاز رسم القرآن‘ کا اُردو ترجمہ وتلخیص ہے۔ اس کتاب میں فاضل مؤلف نے رسم قرآن کے اعجاز و حکمت کوثابت کرنے کی کوشش کی ہے اور’’أفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ ‘‘(محمد:۲۴) پر عمل کرتے ہوئے انتہائی محنت کے ساتھ اس(رسم) کے خفیہ عظیم معانی اور اسرار ورموز کو احسن اَنداز میں منکشف کیاہے۔ ان کی بیان کردہ حکمتیں اگرچہ اجتہاد اور ان کی ذاتی رائے پر مبنی اور ’نکات بعد الوقوع‘ ہیں۔ مگر انہوں نے اپنی ان حکمتوں کی تائید میں قرآن و سنت سے دلائل پیش کئے ہیں اور اپنی رائے کو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ اور ایسی رائے پیش کرنا جو قرآن و سنت کے ساتھ متصادم نہ ہو ’ تفسیربالرائے محمود ‘کہلاتی ہے، جو اہل علم کے نزدیک جائز ہے۔
اس مضمون کا مطالعہ کرنے سے قارئین کو معلوم ہوگاکہ رسمِ قرآنی کتنے عظیم الشان معانی اور اسرار و رموز کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ کلماتِ قرآنیہ کا (قواعد اِملائیہ کے مخالف) یہ مخصوص رسم کتنے عظیم الشان مقاصد پر مبنی ہے اورخلاف ِقواعد کلماتِ قرآنیہ کے حروف میں کمی و زیادتی کن کن عظیم معانی پردلالت کرتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کلماتِ قرآنیہ کی کتابت کا اعجاز

(١) قاعدۃ الحذف:
٭ حذف الألف:
بعض کلماتِ قرآنیہ کے وسط سے حذف ِ الف متعدد معانی پر دلالت کرتا ہے، اوریہ معانی سیاق و سباق سے معلوم ہوتے ہیں مثلاً :
٭ حذف الف بسا اَوقات قرب اور اِلْتِصَاق پردلالت کرتاہے: جیسے ’’صَٰحِبَۃ‘‘،’’أَصْحَٰبُ‘‘،’’أَزْوَٰجٌ‘‘
٭کبھی دلالت ِکلمہ کے مستحکم وجود پر اشارہ کرتا ہے، جیسے: ’’مٰلِکِ یَوْمِ الدِّینِ‘‘،’’مَکَّنَّٰکُمْ‘‘
٭کبھی اِستمرار زمانی، مکانی یا نوعی کے وجود پر دلالت کرتا ہے، جیسے ’’مَنَٰفِعُ‘‘
٭کبھی قرب اور اُلفت پر دلالت کرتا ہے، جیسے: ’’لإیلَٰفِ قُرَیْشٍ‘‘، ’’أُمَّھَٰتِکُمْ‘‘ ،’’الْأرْضَ فِرَٰشًا‘‘
٭کبھی تفصیل سے بُعد، پردلالت کرتاہے، جیسے: ’’سمَٰوَٰت‘‘، ’’ العَٰلمین‘‘
٭کبھی ذلت و رسوائی پردلالت کرتا ہے، جیسے : ’’کَیْدُ سَٰحِر‘‘، ’’ قَالَ فَمَا خَطْبُکَ یَٰسَٰمِرِيّ‘‘
٭کبھی کسی شے کے چھوٹے پن پردلالت کرتا ہے، جیسے: ’’غُلَٰم‘‘، ’’کِذَّٰبًا‘‘
٭کبھی سرعت پردلالت کرتاہے، جیسے : ’’الصَّٰعِقَۃ‘‘ ، ’’الخَٰلِقُ‘‘، ’’أو إطْعَٰمٌ فِی یَوْمٍ ذِی مَسْغَبَۃٍ‘‘
٭کبھی تخلیق میں کمزوری اور جلدبازی پردلالت کرتاہے، جیسے: ’’وَالْقَوَٰعِدُ مِنَ النِّسَآئِ‘‘ ،’’الْیَتَٰمَٰی‘‘
٭کبھی متعدد صفات ِمشترکہ کو جمع کرنے والے کے وجود پر دلالت کرتاہے، جیسے :’’الظَّٰلِمِین‘‘، ’’ الکَٰفِرِین‘‘
٭کبھی سکون اور اطمینان پردلالت کرتاہے، جیسے: ’’أَمْوَٰتًا‘‘
٭کبھی حکم دینے اورمعنی کی قطعیت پر دلالت کرتا ہے، جیسے: ’’الإسْلَٰم‘‘، ’’الإیمَٰن‘‘، ’’میثَٰقَکُمْ‘‘
٭کبھی کسی شے کی حدود کی تنگی پردلالت کرتا ہے، جیسے: ’’الطَّلَٰقُ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حذف الف کی چند معروف مثالیں
وَالصَّاحِبِ،لِصَٰحِبِہ، صَٰحِبَۃ​
قرآن مجید میں کلمہ ’’صَاحِبُہ‘‘ ثبوت الف کے ساتھ آٹھ (۸) مقامات پر وارد ہے اور کلمہ ’’صَٰحِبَۃ‘‘ ثبوت الف کے ساتھ کہیں بھی وارد نہیں ہے۔ (یعنی ہرجگہ بحذف الف وارد ہے)
اسی طرح کلمہ ’’لِصَٰحبِہ‘‘ بدون الف چار (۴) مقامات پر وارد ہے۔
٭بعض آیات قرآنیہ میں کلمہ ’’صَٰحِبِہ‘‘ اور کلمہ ’’صَٰحِبَۃ‘‘ بدون الف وارد ہے، جو قرب اور التصاق کے معنی پردلالت کرتا ہے۔ جیساکہ سورۃ الکہف کی آیت نمبر۳۴ میں اللہ تعالیٰ دو باغوں کی مالک کی گفتگو کو ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔’’ فَقَالَ لِصَٰحِبِہٖ وَھُوَ یُحَاوِرُہٗ ‘‘ یہاں کلمہ ’’لِصَٰحِبِہٖ‘‘ بدون الف وارد ہے۔ جو اس اَمر پر دلالت کرتاہے کہ وہ شخص اپنے ساتھی کو ایمان و صحت میں اپنا قریبی اور ہم خیال تصور کرتا تھا۔ لیکن جب وہ شخص (باغوں کا مالک) اللہ کا کفر کرنے لگا اور قیامت کاانکار کردیا تو فوراً قرآن مجید کا رسم اور کتابت متغیرہوگئی۔ اسی لیے اگلی آیات میں کلمہ ’’صَاحِبُہ‘‘ ثبوت الف کے ساتھ وارد ہے، جو ان کے درمیان زمانی ومکانی صحبت کے باوجود انفصالِ ایمانی پردلالت کرتاہے۔ اللہ تعالیٰ اس سورت کی آیت نمبر ۳۷ میں فرماتے ہیں:’’قَالَ لَہٗ صَاحِبُہُ وَھُوَ یُحَاوِرُہَ اَکَفَرْتَ بِالَّذِیْ خَلَقَکَ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اس معنی کی وضاحت اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ جہاں بھی اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺکوان کی قوم کی طرف منسوب کرکے بیان کیا ہے، وہاں کلمہ ’’صَاحِبُکُمْ، صَاحِبُھُمْ‘‘ ثبوت الف کے ساتھ وارد ہے۔ جو آپﷺ اور قوم کے درمیان انفصالِ ایمانی پر دلالت کرتا ہے۔ باوجودیکہ آپﷺ زمان و مکان میں ان کے ساتھ رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
… ’’ مَا بِصَاحِبِکُمْ مِنْ جِنَّۃٍ‘‘ (سبأ:۴۶)
… ’’ مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی‘‘ (النّجم:۲)
… ’’ وَمَا صَاحِبُکُمْ بِمَجْنُوْنٍ ‘‘ (التّکویر:۲۲)
… ’’ مَا بِصَاحِبِھِمْ مِنْ جِنَّۃٍ ‘‘ (الأعراف:۱۸۴)

مگر نبی کریمﷺ کے ساتھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے تذکرہ میں کلمہ ’’لِصَٰحِبِہ‘‘ بدون الف وارد ہے۔’’ اِذْ یَقُوْلُ لِصَٰحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ إنَّ اﷲَ مَعَنَا‘‘ (التوبۃ:۴۰) جو ان دونوں کے درمیان انتہائی محبت اور رفاقت و ایمان میں حقیقی صحبت پر دلالت کرتاہے۔
اسی طرح کلمہ ’’صَٰحِبَۃ‘‘ ’بمعنی زوجہ‘ پورے قرآن مجید میں بدون الف ہی وارد ہے جو اپنے مقصودی معنی یعنی قرب کامل اور زوجین کے درمیان التصاق پر دلالت کرتاہے کیونکہ بیوی اپنے خاوند کے لیے سکون اور لباس ہے۔ ’’ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ‘‘ (البقرۃ:۱۸۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
خلاصۂ کلام
مذکورہ کلمات پرمشتمل آیات کریمہ کا مطالعہ اور تحقیق کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ جہاں جہاں بھی یہ کلمات ثبوت الف کے ساتھ وارد ہیں وہاں انفصال کامعنی پایاجاتاہے خواہ انفصال زمانی ہو، مکانی ہو، ایمانی ہو یا نفسی ہو۔ اور جہاں حذف الف کے ساتھ وارد ہیں وہاں قرب اور التصاق کامعنی پایاجاتاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
أَصْحَٰبُ​
کلمہ ’’أَصْحَٰبُ‘‘ قرآن مجید میں اٹھتر (۷۸) مرتبہ آیا ہے اور تمام جگہ ہی بدون الف وارد ہے۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے:
’’أَصْحَٰبُ النار‘‘ بیس مرتبہ
’’أَصْحَٰبُ الجنۃ‘‘ چودہ مرتبہ
’’أَصْحَٰبُ الجحیم‘‘ چھ مرتبہ
’’وأَصْحَٰبُ الیمین‘‘ چھ مرتبہ
’’أَصْحَٰبُ الأیکۃ‘‘ چار مرتبہ
’’أَصْحَٰبُ السعیر‘‘ تین مرتبہ
’’أَصْحَٰبُ المیمنۃ‘‘تین مرتبہ
’’وأَصْحَٰبُ المشئمۃ‘‘ تین مرتبہ
’’وأَصْحَٰبُ الشمال‘‘ دو مرتبہ
’’وأَصْحَٰبُ الرأس‘‘ دومرتبہ
’’وأَصْحَٰبُ مدین‘‘ دو مرتبہ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
مذکورہ تمام مقامات پر کلمہ ’’أَصْحَٰبُ‘‘ بدون الف وارد ہوا ہے جو ’’أَصْحَٰبُ النار‘‘، ’’أَصْحَٰبُ الجنۃ‘‘، ’’أَصْحَٰبُ الجحیم‘‘ اور’’أَصْحَٰبُ السعیر‘‘ میں خلود اور التصاق پردلالت کرتا ہے۔ خواہ جنت میں ہو یاجہنم میں۔اسی طرح دیگر مقامات میں بھی التصاق پر دلالت کرتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کی مثالیں بیان کی ہیں اور انہیں ہمیشہ کے لیے نشانِ عبرت بنادیا ہے۔
کلمہ قرآنی کا رسم، معنی واضح کرنے کے ساتھ ساتھ قاری کے لیے ذہنی صورت بھی نقل کرتا ہے، جو مقصودی معنی پر دلالت کررہی ہوتی ہے۔بایں طور پر کہ کلمہ قرآن میں کسی قسم کا التباس یاغموض باقی نہیں رہتا۔ ’’ومن أصدق من اﷲ حدیثًا‘‘
 
Top