• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسمِ قرآنی کا اِعجاز اور اس کے معنوی اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بِسْمِ … بِاسْمِ​
کلمہ ’’بِسْمِ‘‘ بدون ِ الف قرآن مجید میں درج ذیل تین مقامات پر وارد ہوا ہے۔
… ’’ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیمِ‘‘ (الفاتحۃ: ۱)
… ’’بِسْمِ اﷲِ مَجْرِیھَا وَمُرْسَٰھَا‘‘ (ہود: ۴۱)
… ’’إنَّہٗ مِنْ سُلَیْمَٰنَ وِإنَّہٗ بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِیمِ ‘‘ (النمل:۳۰۱)

اور کلمہ ’’بِاسْمِ‘‘ ہمزہ وصلی کے ساتھ قرآن مجید میں درج ذیل چار مقامات پر وارد ہوا ہے:
… ’’بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْم‘‘ (الواقعۃ: ۷۴)
… ’’ بِاسْم رَبِّکَ الْعَظِیمِ‘‘ (الواقعۃ : ۹۶)
… ’’فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکِ الْعَظِیْم ‘‘ ( الحاقّۃ:۵۲)
… ’’اِقْرأ بِاسْم رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ ‘‘ (العلق :۱)

جب ہم کلمہ ’’بِسْمِ‘‘ بدون الف کے مقامات کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد لفظ جلالہ ’’اﷲ‘‘ واقع ہے اور یہ ابتداء کرنے کے معنی میں مستعمل ہے جیسے ’’بِسْمِ اﷲ‘‘ لہٰذا ان مقامات پر حذف الف اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کے لیے جلدی جلدی نیک اعمال کرنے پراشارہ کرتا ہے۔
جبکہ وہ مقامات جن پرکلمہ ’’بِاسْمِ‘‘ الف ِ وصلی کے ساتھ وارد ہواہے، وہاں تسبیح و قراء ۃ مقصود ہے اور یہ امور تفکر، تدبر اور تمہل کے متقاضی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ کسی کلمہ سے کوئی حرف حذف کردینے سے اس میں سرعت کا معنی پیدا ہوجاتاہے یعنی نیکی کرنے میں جلدی کرو یہ بھی رسم قرآنی کا ایک اعجاز ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
إِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ​
کلمہ ’’الْحَسَنَٰت‘‘ قرآن مجیدمیں تین مقامات پر وارد ہوا ہے اور تینوں جگہ ہی درمیان میں حذف الف کے ساتھ وارد ہے۔
اور کلمہ ’’السَّیِّئَات‘‘ قرآن مجید (۳۶) مقامات پر وارد ہوا ہے اور تمام مقامات پر بالالف وارد ہے۔
کلمہ ’’الْحَسَنَٰت‘‘ کا بدون الف وارد ہونا اس امر پر اشارہ کرتا ہے کہ نیکی اگرچہ قلیل ہو پھر بھی انسان کے ساتھ مُلصق رہتی ہے اور اس سے جدا نہیں ہوتی۔
اس کے برعکس کلمہ ’’السَّیِّئَات‘‘ کا الف کے ساتھ وارد ہونااس امر پر اشارہ کرتا ہے کہ برائی ہمیشہ انسان کے ساتھ نہیں رہتی۔ اگر انسان توبہ کرلے تو وہ نیکی میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جیساکہ بذات خود اس آیت کریمہ ’’إِنَّ الْحَسَنَٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ‘‘ (ہود :۱۱۴) سے بھی سمجھ آتا ہے،کہ تھوڑی سی نیکیاں زیادہ برائیوں کاخاتمہ کردیتی ہیں اور نیکی دس گنا سے لے کرسات سو گنا تک بڑھادی جاتی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الطَّلَٰقُ​
کلمہ ’’الطَّلَٰق‘‘ بدون الف، قرآن مجید میں درج ذیل دو مقامات پر وارد ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَاِنْ عَزَمُوْا الطَّلَٰق فَاِنَّ اﷲَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ‘‘ (البقرۃ:۲۲۷)
’’ الطَّلَٰق مَرَّتَانِ فإمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ أوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسٰنٍ‘‘ (البقرۃ:۲۲۹)

اس کلمہ ’’الطَّلَٰق‘‘ کے وسط میں عدم الف سے رسم، اس امر پر دلالت کرتاہے کہ جس طرح الف کے حذف سے یہ کلمہ مختصر اور تنگ ہوجاتاہے،اسی طرح طلاق کامعاملہ بھی انتہائی تنگ حدود میں واقع ہوناچاہئے، اور جتنا ممکن ہو جلداز جلد رجوع کرلیاجائے۔ نیز حذف الف اس امر پربھی دلالت کرتاہے کہ ابھی تک (عدت کے زمانے میں) میاں بیوی کے درمیان ربط قائم ہے اور ان کے درمیان انفصال نہیں ہوا۔
کلمہ (مرتان) میں الفِ صریح کاوجود اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ دونوں طلاقیں علیحدہ علیحدہ ہوں گی، ایک ہی دفعہ میں نہیں ہونگی۔ گویا کہ الف ان دونوں طلاقوں کے درمیان فاصلہ ہے۔
قرآن مجید کے لطائف ِعلمیہ میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے: ’’الطَّلَٰقُ مَرَّتَانِ‘‘ ’’طلاق دو مرتبہ ہے‘‘ فرمایا ہے، اورعملاً پورے قرآن مجید میں لفظ طلاق بھی دو مرتبہ ہی واقع ہوا ہے۔
٭ ’یاء‘ حرف ِ ندا اور ’ھاء‘ تنبیہ کے آخرسے الف کاحذف:
قرآن مجید میں ہر جگہ حرف ِ ندا ’’یاء‘‘ اور ’’ ھاء‘‘ تنبیہ کے آخر میں واقع الف کو حذف کرکے لکھا گیاہے۔جیسے یَٰقَوْمِ، یَٰرَبِّ، یَٰأیُّھَا النَّاسُ، یَٰصَٰلِحُ، ھٰٓأنْتُمْ، ھَٰؤٓلَائِ،ھَٰذَا، ھَٰھُنَا وغیرہ۔
یہاں الف کا حذف اس امر پردلالت کرتاہے کہ ندا اور تنبیہ قریب سے ہونی چاہئے،تاکہ مؤثر ہو اور امور مُلتبس نہ ہوں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭حذف ِ یاء کی چند مثالیں:
إِبْرَٰ ھٖمَ … إِبْرَٰھِیمَ​
کلمہ ’’إِبْرَٰھٖمَ‘‘ بدون الیاء قرآن مجید میں پندرہ (۱۵) مرتبہ وارد ہوا ہے اور پندرہ ( ۱۵) مرتبہ ہی سورۃ البقرہ میں وارد ہے۔
جبکہ کلمہ ’’إِبْرَٰھِیمَ‘‘ بالیاء قرآن مجید میں سورۃ البقرہ کے علاوہ دیگر سورتوں میں چون(۵۴) مرتبہ وارِد ہوا ہے۔ تورات میں سفر تکوین کے پارٹ نمبر۱۷ میں مذکور ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا پہلانام ’ابراہٰم‘ تھا۔ اس وقت ان کی عمر ۸۶ برس تھی۔ جب سیدہ ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے ان کابیٹا اسماعیل علیہ السلام جنا اوران کی عمر ۹۹ سال ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے ان سے کلام کرتے ہوئے فرمایا: عنقریب ابراہیم علیہ السلام جمہور اُمت کے باپ ہوں گے۔ لہٰذا آج کے بعد انہیں ’ابرَاہٰم‘کی بجائے’ابراھیم‘ کے نام سے پکارا جائے گا کیونکہ ان کی کثیرالتعداد نسل ہوگی اور اللہ تعالیٰ انہیں امام بنائے گا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا نام پہلے ’ابراھم‘ تھا ۔ اولاد کی پیدائش کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کا نام ’ابراھیم‘ بالیاء رکھ دیا،کیونکہ الفاظ کی زیادتی معنی کی زیادتی پردلالت کرتی ہے۔
یہاں ایک منفرد امر یہ بھی ہے کہ کلمہ ’’إِبْرَٰھٖمَ‘‘ بدون الیاء قرآن مجیدکی ابتدائی سورت صرف سورۃ البقرہ میں وارد ہے، جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ابتدائی عمر میں ان کا نام تھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
إِنَّ وَلِیِّیَ اﷲُ​
کلمہ ’’ وَلِیِّیَ ‘‘ منسوب إلی یاء المتکلم ، قرآن مجیدمیں درج ذیل دو مقامات پر وارد ہواہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ إن وَلِیِّے اﷲُ الَّذِی نَزَّلَ الْکِتَٰبَ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِینَ ‘‘ (الاعراف:۱۹۶)
’’ أنتَ وَلِیِّے فِی الدُّنْیَا وَالأخِرَۃ‘‘ (یوسف :۱۰۱)

یہاں ’’ وَلِیِّ ے‘‘ میں یاء کا حذف اللہ کے ساتھ قربِ شدید پردلالت کرتاہے۔ پہلی آیت مبارکہ نبی کریمﷺاور دوسری سیدنا یوسف علیہ السلام کی زبان پر جاری ہوئی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
النَّبِیّٖنَ… الْأمِیّٖنَ… رَبَّٰنِیّٖنَ​
ان تمام کلمات میں دو یاؤں میں سے ایک یاء کا حذف، قوت ِ اتصال وارتباط پر دلالت کرتا ہے۔ مثلاً ’’النَّبِیّٖن‘‘ تمام انبیاء علیہم السلام آپس میں ایک ہیں اور سب مسلمان ہیں اوران کے درمیان گہراتعلق اور ربط ہے۔
٭ضمیر متکلم کی طرف لوٹنے والے حرف ِ یاء کا حذف
بعض کلمات کے آخر سے ضمیر متکلم یاء کو حذف کردیاجاتا ہے، جیسے: فَاتَّقُونِ، فَارْھَبُونِ، وَلَا تَکْفُرُونِ، اِذَا دَعَانِ، وَمَنِ اتَّبَعَنِ وغیرہ وغیرہ
ان کلمات کے آخر میں یاء کاحذف سرعت پردلالت کرتاہے۔ یا بسا اوقات معاملے کی اہانت پر دلالت کرتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭فعل کی یائے اصلی کا حذف
اللہ تعالیٰ فرماتاہے: ’’یَوْمَ یَأتِ لَا تَکَلَّمُ نَفْسٌ اِلَّا بِإذْنِہٖ ‘‘ (ہود: ۱۰۵)
یہاں اس آیت مبارکہ میں کلمہ ’’یأت‘‘ کے آخر سے فعل کی یائے اصلیہ محذوف ہے اور یہاں روز قیامت کاتذکرہ کیاجارہا ہے۔ اس کلمہ کے آخرسے یاء کا حذف معاملے کی سرعت اور فوریت پردلالت کرتا ہے کہ قیامت ایک دن اچانک واقع ہوگی۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھ سفر کرنے والے نوجوان کاتذکرہ کیا ہے کہ جب مچھلی عجیب و غریب طریقے سے سمندر میں چلی گئی تو موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ’’ذَلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ فَارْتَدَّا عَلٰی آثَارِھِمَا قَصَصًا‘‘ (الکہف:۶۴)
یہاں اس آیت مبارکہ میں کلمہ ’’نبغ‘‘ کے آخر میں فعل کی یائے اصلیہ محذوف ہے۔سرعت اور جلدی پردلالت کرتاہے۔ کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس نیک بندے کو جلد ازجلد ملناچاہتے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭اسم کی یائے اصلی کاحذف:
المُھْتَدِ​
اللہ تعالی فرماتا ہے: ’’مَنْ یَھْدِ اﷲُ فَھُوَ الْمُھْتَدِ‘‘ (الکہف:۱۷)
اس آیت مبارکہ میں کلمہ (المھتد) کے آخر سے اسم کی یائے اصلی محذوف ہے۔ جو سرعت ہدایت پر دلالت کرتی ہے، ایسی ہدایت جس کے بعد گمراہی نہ ہو۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
الْجَوَارِ​
کلمہ (الْجَوَارِ ) بحذف الیاء، قرآن مجیدمیں تین مقامات پر وارد ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
’’وَمِنْئَ ایٰتِہِ الْجَوَارِ فِیْ الْبَحْرِ کَالأعْلَامِ‘‘ (الشوریٰ:۳۲)
’’وَلَہُ الْجَوَارِ الْمُنْشَئَاتُ فِیْ الْبَحْرِ کَالأعْلٰمِ‘‘ (الرحمن :۲۴)
’’الْجَوَارِ الْکُنَّسِ‘‘ (التکویر:۱۶)
اس کلمہ کے آخر سے یاء اصلی کاحذف، پہلی دونوں آیات میں کشتیوں اور تیسری آیت میں ستاروں کی سرعت حرکت پر دلالت کرتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭حرف ِ تاء کا حذف
تَسْتَطِعْ … تَسْطِعْ​
کلمہ ’’تَسْتَطِعْ ‘‘ اپنے اس معروف رسم پر، قرآن مجید میں فقط ایک مرتبہ وارد ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’قَالَ ھٰذَا فِرَاقُ بَیْنِیْ وَبَیْنِکَ سَأُنَبِّئُکَ بِتَأوِیْلِ مَالَمْ تَسْتَطِعْ عَلَیْہِ صَبْرًا‘‘ (الکہف:۷۸)
یہاں وہ نیک آدمی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو گذشتہ دنوں میں پیش آنے والے واقعات کے خفیہ اسباب بیان کرنے لگے تھے اور طبعی طور پر یہ مناسب تھا کہ یہ کلمہ اپنے معروف رسم کے مطابق آتا کیونکہ انہوں نے حکمت کے ساتھ ان واقعات کے خفیہ اسباب کو نقل کیاتھا۔جیساکہ اگلی آیات سے معلوم ہوتا ہے۔لہٰذا اس کلمہ کا معروف رسم کے مطابق آنا، ان کی حکمت اور صبروتحمل پردلالت کرتاہے۔
جبکہ کلمہ ’’تَسْطِعْ ‘‘ بحذف التاء، بھی اپنے معروف رسم کے خلاف، قرآن مجیدمیں ایک مرتبہ ہی وارد ہوا ہے۔جہاں موسیٰ علیہ السلام کے قصے کی انتہا ہے اور وہ نیک آدمی موسیٰ علیہ السلام پر اپنے موقف کا خلاصہ بیان کرتاہے اور تفصیل سے آگاہ کرتاہے۔جس پر موسیٰ علیہ السلام جلدی کررہے تھے اور صبر نہیں کر رہے تھے۔چنانچہ اس نیک آدمی نے اس جلدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’ ذٰلِکَ تَأوِیلُ مَا لَمْ تَسْطِعْ عَلَیْہِ صَبْرًا‘‘ (الکہف:۸۲)
گویا کہ اس آیت مبارکہ میں کلمہ ’’تَسْطِعْ ‘‘ سے تاکا حذف موسیٰ علیہ السلام کی جلد بازی اور قلت صبر پر دلالت کرتا ہے۔ اسی مناسبت سے یہ کلمہ ناقصۃ الحروف آیا ہے۔
 
Top