• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسمِ قرآنی کا اِعجاز اور اس کے معنوی اثرات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
اسْطَٰعُوٓا … اسْتَطَٰعُوٓا​
اللہ تعالیٰ حضرت ذوالقرنین علیہ السلام کے بنائے ہوئے بند کاتذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں جو انہوں نے یاجوج وماجوج سے قوم کو بچانے کے لیے بنایا تھا۔ ’’فَمَا اسْطَٰعُوٓا اَنْ یَظْھَرُوْہٗ وَمَا اسْتَطَٰعُوا لَہٗ نَقْبًا‘‘(الکہف:۹۷)
پہلی جگہ اللہ تعالیٰ نے بدون تاء کلمہ’’اسْطَٰعُوٓا‘‘ استعمال کیا ہے اور اس کلمہ کااختصار، ان کے تیزی سے بند پر چڑھنے اور چھلانگیں لگاتے ہوئے نیچے اُترنے پردلالت کرتا ہے۔ یعنی کہ اس کلمہ سے تاء کا حذف سرعت ِ حرکت پر دلالت کرتاہے ہے جبکہ بند کو سوراخ کرنے کی حالت میں کلمہ ’’ اسْتَطَٰعُوٓا‘‘ بالتاء استعمال کیا ہے کیونکہ سوراخ کرنے کا معاملہ ایک طویل وقت کا متقاضی ہے چنانچہ اس طوالت پردلالت کرنے کے لیے کلمہ ’’ اسْتَطَٰعُوا‘‘ بدون نقص، بالتاء استعمال کیا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭لام کاحذف :
الَّیْلِ … النَّھَارِ​
کلمہ ’’الَّیْلِ ‘‘ قرآن مجید میں (۷۴) مرتبہ وارد ہوا ہے اور ہر جگہ بدون لام ’’الَّیْلِ‘‘ ہی وارد ہے۔
جبکہ کلمہ ’’النَّھَار‘‘ قرآن مجیدمیں (۵۴) مرتبہ وارد ہواہے اور ہر جگہ ہی اپنی اسی کامل صورت ’’النَّھَار‘‘ میں وارد ہے۔
کلمہ ’’الَّیْلِ ‘‘ سے لام کا حذف، یعنی کلمہ کے حروف اصلیہ میں نقص، اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ رات دن کے مقابلے میں بہت تیزی سے گزر جاتی ہے اور انسان رات کو بہت کم حرکت کرتاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رات کو انسان کے لیے لباس اور باعث ِ سکون بنایا ہے۔ اس کے برعکس، دن کو اللہ نے ذریعہ معاش بنایاہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اَﷲُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَالنَّھَارَ مُبْصِرًا ‘‘(غافر:۶۱)
’’وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ لِبَاسًا وَّالنَّوْمَ سُبَاتًا‘‘ (الفرقان:۴۷)
جبکہ کلمہ ’’النَّھَار‘‘ کااپنے معروف رسم پر آنا، طبعی عمل پر دلالت کرتاہے۔ نیز اس کلمہ کا کامل الحروف ہونا دن کی روشنی پر بھی دلالت کرتاہے۔
……٭……
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭واؤ کا حذف :
قرآن مجید میں چار مرفوع افعال کے آخر سے واؤ کو حذف کیاگیا ہے۔
’’وَیَدْعُ الاِنْسَانُ بِالشَّرِّ‘‘ (الإسراء :۱۱)
’’وَیَمْحُ اﷲُ الْبَاطِلَ‘‘ (الشوریٰ:۲۴)
’’یَدْعُ الدَّاعِ‘‘ (القمر:۷)
’’سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃ‘‘ (العلق:۱۸)

امام دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں واؤ کو ضمہ کی موجودگی کے سبب حذف کیاگیا ہے۔ کیونکہ ضمہ واؤ سے کفایت کرجاتا ہے، یاکسی اور معنی کی وجہ سے حذف کیا گیا ہے۔
مگر امام سیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام مراکشی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان چاروں افعال کے آخر سے واؤ کاحذف، سرعت ِ وقوع الفعل اور سہولت عمل الفاعل پردلالت کرتاہے۔
کلمہ ’’یَدْعُ الانسان‘‘ میں واؤ کا حذف، اس امر پر دلالت کرتاہے کہ شر انسان پر آسان ہے اور انسان اس کی طرف جلدی کرتاہے، جیسا کہ نیکی کی طرف جلدی کرتا ہے۔
کلمہ ’’یَمْحُ اﷲُ الْبَاطِلَ‘‘ میں باطل کے بہت جلد مٹ جانے کی طرف اشارہ ہے۔
کلمہ ’’یَدْعُ الدَّاعِ‘‘ میں تیزی سے دُعاکرنے اور اس کے بہت جلد قبول ہوجانے کی طرف اشارہ ہے۔
کلمہ ’’سَنَدْعُ الزَّبَانِیَۃ‘‘ میں سرعت ِ فعل اور شدتِ پکڑ کی طرف اشارہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وَصَٰلِحُ الْمُؤْمِنِینَ​
کلمہ ’’وَصَٰلِحُ‘‘ اسم کے آخر سے واؤ کو حذف کردیا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَصَٰلِحُ المؤمنین‘‘ (التحریم:۴) یہ اصل میں ’’وَصَٰلِحُو المؤمنین‘‘ تھا۔
امام دانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں واحد کا صیغہ، جمع کا معنی دیتاہے۔نیز اس اسم کے آخر سے واؤ کاحذف سرعت اور مومنوں کی وحدت پردلالت کرتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وَأکُنْ من الصَّٰلِحینَ​
کلمہ ’’وَأکُنْ‘‘ فعل کے وسط سے واؤ کو حذف کردیاگیاہے۔ کیونکہ اصل فعل تھا ’’وأکون من الصالحین‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ فَأصَّدَّقَ وَأکُنْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ‘‘ (المنافقون:۱۰)
یہاں اس کلمہ ’’وَأکُنْ‘‘ کے وسط سے واؤ کا حذف، دونوں افعال کی جلد از جلد ادائیگی پر دلالت کرتاہے۔
٭نون کا حذف:
٭ قرآن مجید میں دو کلموں کے شروع سے نون کو حذف کردیاگیا ہے۔
’’ فَنُجِّیَ من نَّشَآئُ ‘‘ (یوسف :۱۱۰)
’’ وَکَذٰلِکَ نُجِّی الْمُؤمِنِینَ‘‘ (الأنبیاء: ۸۸)

یہاں ان کلمات کے شروع سے نون کا حذف، سرعت پر دلالت کرتا ہے۔
٭ بعض کلمات کے آخر سے نون کو حذف کیا گیا ہے مثلاً ’’یَکُ، تَکُ‘‘ اور یہ کسی شے کی تصغیر پردلالت کرتاہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) قاعدہ الزیادۃ:
٭حرف ِ الف کی زیادتی:
شَیْئٍ … لِشَایْئٍ​
کلمہ ’’شَیْئٍ‘‘ اپنی اس معروف شکل پر قرآن مجید میں (۲۰۱) مرتبہ وارد ہوا ہے۔
جبکہ کلمہ ’’لِشَایْئٍ‘‘ الف کی زیادتی کے ساتھ غیر معروف شکل پر صرف ایک مقام پر وارد ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہے: ’’وَلَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْئٍ إنِّی فَاعِلٌ ذَلِکَ غَدًا إلَّا أن یَّشَائَ اﷲُ ‘‘ (الکہف:۲۳،۲۴)
یہاں غیر معروف شکل لاکر اس عظیم امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالی کی مشیت، ہر مشیت پر برتر ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’وَمَاتَشَآئُ وْنَ اِلآ اَنْ یَّشَآئَ اﷲُ‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وَجِایٓئَ​
کلمہ ’’وَجِایئَ‘‘ الف کی زیادتی کے ساتھ، اس غیر معروف شکل پر، قرآن مجید میں دو مرتبہ وارد ہوا ہے اور اس شکل کے علاوہ وارد ہی نہیں ہوا۔
اس کلمہ کا غیر معروف شکل پر وارد ہونا اس امر پردلالت کرتا ہے کہ جوشے لائی جارہی ہے وہ کوئی عظیم شے ہے۔ برابر ہے کہ اس کی عظمت، شان میں ہو، قیمت میں ہو، اخلاق و رتبہ میں ہو یا خوف و ترہیب میں ہو۔ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے دو مثالیں بیان کی ہیں۔ جن میں سے ایک مثال انبیاء علیہم السلام و شہداء کی ہے جو کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں ہمارے لیے نمونہ ہیں جبکہ دوسری مثال جہنم کی ہے جو کہ ڈرانے کے لیے ایک ضرب المثل ہے اور انتہائی بُرا مقام ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ وَجِایٓء بِالنَّبِیِّینَ وَالشُّھَدَآئِ ‘‘ (الزّمر: ۶۱)
’’ وَجِایٓئَ یَوْمَئِذٍ بِجَھَنَّمَ ‘‘ (الفجر: ۲۳)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
أُولُوا الْأَلْبَابِ​
کلمہ ’’أُولُوا‘‘ الف کی زیادتی کے ساتھ، وارد ہوا ہے، اوراس کلمہ میں الف کی زیادتی، عقل مندوں کی عظمت وانفرادیت اور امتیاز پر دلالت کرتی ہے۔ ’’أُ ولُوا الألباب‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حرف ِ یاء کی زیادتی :
فَإِنْ … أفَإینْ​
کلمہ ’’فَإِنْ‘‘ اپنی معروف شکل پر، قرآن مجید میں متعدد مقامات پر وارد ہوا ہے۔
جبکہ نبی کریمﷺکی وفات کے تذکرہ کے موقع پر کلمہ ’’ أفَإینْ‘‘ یاء کی زیادتی کے ساتھ، اس غیر معروف شکل پر وارد ہے۔
یہاں اس مقام پر کلمہ ’’أَفَإینْ‘‘ میں یاء کی زیادتی اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہﷺعنقریب تمام انسانوں کی مانند مرجائیں گے اور مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ان کی موت کے بعد اپنے دین سے مرتد نہ ہوں اور اس حادثہ سے عدم توازن کاشکارنہ ہوں بلکہ دین کو تھامے رکھیں اور یہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ نے کس کے لیے دائمی حیات نہیں بنائی۔ قرآن مجید میں یہ کلمہ اپنی اس غیر معروف شکل ’’ أفَإینْ‘‘ پر دو جگہ وارد ہواہے اور دونوں جگہ ہی نبی کریمﷺکی موت کے ساتھ خاص ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ أفَإینْ مِتَّ فَھُمُ الْخٰلِدُونَ‘‘ (الانبیاء :۳۴)
’’ أَفَإینْ مَاتَ أوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی أعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِبَیْہِ ۔۔۔۔۔‘‘ (آل عمران :۱۴۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
وَرَ آئَ … وَرَ آیٔ​
کلمہ ’’وَرَآئَ‘‘ اپنی اس معروف شکل پر قرآن مجید میں گیارہ مرتبہ وارد ہواہے۔
جبکہ کلمہ’’وَرَآیئِ‘‘ اپنی اس غیر معروف شکل پر قرآن مجید میں صرف ایک مرتبہ وارد ہوا ہے جہاں وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أنْ یُکَلِّمَہُ اﷲُ إِلَّا وَحْیًا أوْ مِنْ وَرَآیئِ حِجَابٍ‘‘ (الشوریٰ:۵۱)
 
Top