• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسول اللہﷺ کے افعال اور آپﷺکی تقریرات:

ناصر رانا

رکن مکتبہ محدث
شمولیت
مئی 09، 2011
پیغامات
1,171
ری ایکشن اسکور
5,451
پوائنٹ
306
رسول اللہﷺ کے افعال اور آپﷺکی تقریرات:

(کسی کام کوبرقرار رکھنا)

1 نبی کریمﷺ کے افعال:

نبی کریمﷺ کے افعال چند اقسام میں منقسم ہوتے ہیں:

وہ کام جو آپﷺ فطری تقاضا کی وجہ سے سرانجام دیتے تھے ، جیسے کھڑا ہونا، بیٹھنا، کھانا پیناوغیرہ۔ تو ان کا حکم اباحت والا ہے۔ بندہ چاہے تو ایسا کرے ، چاہےتو نہ کرے۔

وہ کام جو فطری تقاضے اور شریعت ہونے کے درمیان متردد ہو یعنی معلوم نہ ہوسکے کہ ایسا آپﷺ نے فطری تقاضے کی بناء کیا ہے یا شریعت کا حکم ہی اس بارے میں یوں ہے۔ مثال کے طور پر آپﷺ کا وقوف عرفات سوار کرکرنا اور وادئ محصب میں پڑاؤ کرنا وغیرہ۔

تو ان احکام کو فطری تقاضے کی بناء پر کیا ہوا سمجھا جائے کہ یہ مباح ہے جیسا کہ پیچھے گزر چکا ہے یا پھر اسے شریعت کا حکم سمجھا جائے کہ اس کی پیروی ضروری ہے؟ اس بارے میں دو قول ہیں۔

وہ کام جو خاص آپﷺ کےلیے ہی جائز تھے۔مثال کے طور پر آپ ﷺ کےلیے اللہ رب العالمین کے اس فرمان کی وجہ سے چار سے زیادہ بیویاں رکھنا جائز تھا: ﴿ يا أَيهَا النَّبِي إنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ ﴾ [الأحزاب:50] اے نبیﷺ! ہم نے آپ کےلیے (زیادہ) بیویاں رکھنا حلال کردیا ہے۔ تو آپ چار سے زیادہ شادیاں کرلیں۔

اسی طرح اپنے آپ کو ہبہ کرنے والی عورت سے نکاح بھی آپ کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس فرمان کی وجہ سے جائز تھا: ﴿ خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ ﴾ [الأحزاب:50] یہ کام خاص طور پر صرف آپﷺ کےلیے جائز ہے ، مؤمنوں کےلیے نہیں۔

تو ان کاموں میں کوئی بھی نبی کریمﷺ کے ساتھ شریک نہیں ہوسکتا۔

جو کام آپﷺ نے قرآنی نص کے بیان کے طور پر کیے ، جیسا کہ آپﷺ نے چور کا ہاتھ کلائی کے پاس سے کاٹا ، تو یہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس فرمان کا بیان تھا: ﴿ وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيدِيهُمَا ﴾ [المائدة:38] چور مردوعورت کے ہاتھ کاٹ دو۔

اسی طرح حج اور نماز کے افعال اللہ رب العالمین کے ان فرامین گرامی کا بیان تھا: ﴿ وَأََقِيمُوا الصَّلاةَ ﴾ [البقرة:43] نماز قائم کرو۔

﴿ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إلَيهِ سَبِيلاً ﴾ [آل عمران:97] لوگوں میں سے جو بھی بیت اللہ کے حج کےلیے راستے کی طاقت رکھے ، اس پر اللہ رب العالمین کا یہ حق ہے کہ وہ حج ضرور کرے۔ اسی وجہ سے رسول اللہﷺ نے فرمایا تھا: «صلوا كما رأيتموني أصلي» نماز ویسے پڑھو ، جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔اور «خذوا عني مناسككم» مجھ سے اپنے حج کے مناسک سیکھ لو۔

اس قسم کا حکم امت کے لیے مبَیَّن والا حکم ہے۔ ان میں سے جو چیزیں وجوب کا درجہ رکھتی ہیں، ان کی پیروی کرنا واجب ہے، اور جو اس کے علاوہ کسی اور درجہ میں ہیں، ان کی پیروی حسبِ حال ہوگی۔

جو کام نہ تو آپﷺ نے فطری تقاضے کے طور پر کیا ہو ، نہ ہی وہ بیان کےلیے ہو اور نہ ہی اس میں آپﷺ کی خصوصیت ثابت ہو تو اس کی مندرجہ ذیل دو قسمیں ہوں گی:

۱۔ اس کا نبی ﷺ کےلیے حکم معلوم کیا جائے گا کہ وہ کام آپﷺ کے لیے جائز تھا ، واجب تھا یا مباح تھا۔ تو جو حکم آپ کےلیے تھا ، وہی حکم امت کےلیے بھی ہوگا جیسا کہ کعبہ کے اندر آپﷺ کا نماز پڑھنا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایسا کرنا آپﷺ کےلیے جائز تھا تو امت کےلیے بھی یہ کام جائز ہی ہوگا۔

۲۔ نبی کریمﷺ کے بارے میں پتہ نہ چل سکے کہ آپ کےلیے اس کا حکم کیا تھا ۔ اس قسم کے بارے میں چار اقوال ہیں:

۱: وہ کام واجب ہوگا۔ سب سے محتاط ترین عمل یہی ہے۔ یہ قول ابوحنیفہ، بعض شافعیہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد کا ہے۔

ب: وہ کام مندوب ہوگا۔ کام بالکل چھوڑنے پر کرنے کو ترجیح دی جائے گی۔ یہ قول بعض شافعیہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ کا بھی ہے۔

ج: وہ کام مباح ہوگا۔ کیونکہ یہی بات یقینی ہے۔ لیکن یہ ان کا موں میں ہوگا جن میں قرب ()نہ ہوگا کیونکہ قرب() کو اباحت سے موصوف نہیں کیا جاتا۔

د: توقف کیا جائے گا۔ کیونکہ ہمیں اس کی مراد کا علم ہی نہیں ہے۔ یہ معتزلہ کا قول ہے۔ اور یہ سب سے کم ترین قول ہے کیونکہ توقف کرنے میں اقتداء کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔ تو اس بحث سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ ان چاروں اقوال میں سے صحیح بات اس کام پر عمل کرنا ہے واجب یا مندوب سمجھتے ہوئے کیونکہ اسی میں ہی رسول اللہﷺکی اقتداء ہے۔

اہل اصول نے اس فعل کی مثال نبی کریمﷺ کے نماز کی حالت میں جوتا اتار دینے والے فعل سے دی ہے ۔ تو اس وقت تمام صحابہ کرام ]نے بھی اپنی اپنی جوتیاں اتار دی تھیں۔ نماز ختم ہونے کے بعد نبی کریمﷺ نے ان سے جوتا اتارنے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے یہ جواب دیا: ہم نے آپﷺ کو کرتے دیکھا تھا، اس لیے ہم نے بھی ایسا کرلیا۔ آپﷺ نے فرمایا: میرے پاس تو جبریل علیہ السلام آئے تھے اور انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ میرے جوتے میں گندگی لگی ہوئی ہے، میں نے تو اس لیے جوتا اتار ا تھا۔

تو پھر آپ نے انہیں اپنا جوتا اتارنے والے فعل پر اپنی اقتداء کی وجہ سے کچھ نہ کہا اور نہ ہی ان پر عیب لگایا حالانکہ وہ آپ کے بتانے سے پہلے اس حکم کو نہیں جانتے تھے۔

2 نبی کریمﷺ کی خاموشیاں:

آپ کی خاموشی بھی آپ ﷺ کے فعل کی طرح ہی ہے کیونکہ ہر وہ کام جس کو آپﷺ نے برقرار رکھا اور کرنے والے پر اعتراض نہیں کیا ، اس کا حکم آپ ﷺ کے فعل کی طرح ہے، وہ کام چاہے قولی ہو یا فعلی۔

یہ اس وقت حجت ہوگا جب کام کرنے والا شریعت کا مکلف ہوگا۔ اگر کوئی کافر یا منافق کوئی کام کرے اور آپﷺ اس پر خاموش رہیں تو یہ دلیل نہیں ہوگا جیسا کہ آپﷺ کا رمضان کے مہینے میں کسی ذمی کے کھانے پینے پر خاموش رہنا ہے۔

کسی کے قول پر آپ کی خاموشی کی مثال آپﷺ کا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اس بات پر خاموش رہنا ہے کہ کافرمقتول سے چھینا ہوا مال مسلمان قاتل کو دیا جائے گا۔ فعل پر خاموشی کی مثال آپ ﷺ کا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو گوہ کھاتے دیکھ کر اور حسان رضی اللہ عنہ کو مسجد میں اشعار پڑھتے دیکھ کر خاموش رہنا ہے۔

یہ تو اس کی مثال ہے کہ جس کو آپﷺ نے خود دیکھا ، سنا یا آپ تک بات پہنچی اور آپ نے اسے برقرار رکھا۔

اسی طرح آپﷺ کا خوش ہونا بھی آپ کے اس فعل کو برقرار رکھنے کی دلیل ہے۔ جیسا کہ آپﷺ مجزز مدلجی کا یہ قول سن کر خوش ہوئے تھے کہ جب اس نے زید بن حارثہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے چادر سے باہر نکلے ہوئے پاؤں دیکھ کر کہا تھا: یہ پاؤں تو ایک دوسرے سے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ آپﷺ نہ تو کسی باطل عمل کو برقرار رکھ سکتےہیں اور نہ ہی اس پر خوش ہوسکتے ہیں۔
اسی وجہ سے امام شافعی اور امام احمد رحمہما اللہ نے کہا ہے کہ قیافہ شناسی کے ذریعے بھی نسب ثابت ہوجاتا ہے۔

ترجمہ کتاب تسہیل الوصول از محمد رفیق طاہر
 
Top