• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خرچ کیسے چلتا تھا؟

شمولیت
جنوری 27، 2015
پیغامات
381
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
94
حدثنا ابو توبة الربيع بن نافع حدثنا معاوية يعني ابن سلام عن زيد انه سمع ابا سلام قال:‏‏‏‏ حدثني عبد الله الهوزنيقال:‏‏‏‏ لقيت بلالا مؤذن رسول الله صلى الله عليه وسلم بحلب فقلت:‏‏‏‏ يا بلال حدثني كيف كانت نفقة رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال:‏‏‏‏ ما كان له شيء كنت انا الذي الي ذلك منه منذ بعثه الله إلى ان توفي وكان إذا اتاه الإنسان مسلما فرآه عاريا يامرني فانطلق فاستقرض فاشتري له البردة فاكسوه واطعمه حتى اعترضني رجل من المشركين فقال:‏‏‏‏ يا بلال إن عندي سعة فلا تستقرض من احد إلا مني ففعلت فلما ان كان ذات يوم توضات ثم قمت لاؤذن بالصلاة فإذا المشرك قد اقبل في عصابة من التجار فلما ان رآني قال:‏‏‏‏ يا حبشي قلت يا لباه فتجهمني وقال لي قولا غليظا وقال لي:‏‏‏‏ اتدري كم بينك وبين الشهر؟ قال:‏‏‏‏ قلت قريب قال:‏‏‏‏ إنما بينك وبينه اربع فآخذك بالذي عليك فاردك ترعى الغنم كما كنت قبل ذلك فاخذ في نفسي ما ياخذ في انفس الناس حتى إذا صليت العتمة رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اهله فاستاذنت عليه فاذن لي فقلت:‏‏‏‏ يا رسول الله بابي انت وامي إن المشرك الذي كنت اتدين منه قال لي:‏‏‏‏ كذا وكذا وليس عندك ما تقضي عني ولا عندي وهو فاضحي فاذن لي ان آبق إلى بعض هؤلاء الاحياء الذين قد اسلموا حتى يرزق الله رسوله صلى الله عليه وسلم ما يقضي عني فخرجت حتى إذا اتيت منزلي فجعلت سيفي وجرابي ونعلي ومجني عند راسي حتى إذا انشق عمود الصبح الاول اردت ان انطلق فإذا إنسان يسعى يدعو:‏‏‏‏ يا بلال اجب رسول الله صلى الله عليه وسلم فانطلقت حتى اتيته فإذا اربع ركائب مناخات عليهن احمالهن فاستاذنت فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " ابشر فقد جاءك الله بقضائك ثم قال:‏‏‏‏ الم تر الركائب المناخات الاربع فقلت:‏‏‏‏ بلى فقال:‏‏‏‏ إن لك رقابهن وما عليهن فإن عليهن كسوة وطعاما اهداهن إلي عظيم فدك فاقبضهن واقض دينك ففعلت فذكر الحديث ثم انطلقت إلى المسجد فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعد في المسجد فسلمت عليه فقال:‏‏‏‏ ما فعل ما قبلك؟ قلت:‏‏‏‏ قد قضى الله كل شيء كان على رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يبق شيء قال:‏‏‏‏ افضل شيء قلت:‏‏‏‏ نعم قال:‏‏‏‏ انظر ان تريحني منه فإني لست بداخل على احد من اهلي حتى تريحني منه فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم العتمة دعاني فقال:‏‏‏‏ ما فعل الذي قبلك؟ قال:‏‏‏‏ قلت:‏‏‏‏ هو معي لم ياتنا احد فبات رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد وقص الحديث حتى إذا صلى العتمة يعني من الغد دعاني قال:‏‏‏‏ ما فعل الذي قبلك؟ قال:‏‏‏‏ قلت:‏‏‏‏ قد اراحك الله منه يا رسول الله فكبر وحمد الله شفقا من ان يدركه الموت وعنده ذلك " ثم اتبعته حتى إذا جاء ازواجه فسلم على امراة امراة حتى اتى مبيته فهذا الذي سالتني عنه.
عبداللہ ہوزنی کہتے ہیں کہ میں نے مؤذن رسول بلال رضی اللہ عنہ سے حلب ۱؎میں ملاقات کی، اور کہا: بلال! مجھے بتائیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خرچ کیسے چلتا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ نہ ہوتا، بعثت سے لے کر موت تک جب بھی آپ کو کوئی ضرورت پیش آتی میں ہی اس کا انتظام کرتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی مسلمان آتا اور آپ اس کو ننگا دیکھتے تو مجھے حکم کرتے، میں جاتا اور قرض لے کر اس کے لیے چادر خریدتا، اسے پہننے کے لیے دے دیتا اور اسے کھانا کھلاتا، یہاں تک کہ مشرکین میں سے ایک شخص مجھے ملا اور کہنے لگا: بلال! میرے پاس وسعت ہے (تنگی نہیں ہے)آپ کسی اور سے قرض نہ لیں، مجھ سے لے لیا کریں، میں ایسا ہی کرنے لگا یعنی (اس سے لینے لگا)پھر ایک دن ایسا ہوا کہ میں نے وضو کیا اور اذان دینے کے لیے کھڑا ہوا کہ اچانک وہی مشرک سوداگروں کی ایک جماعت لیے ہوئے آ پہنچا جب اس نے مجھے دیکھا تو بولا: اے حبشی! میں نے کہا: «يا لباه» ۲؎حاضر ہوں، تو وہ ترش روئی سے پیش آیا اور سخت سست کہنے لگا اور بولا: تو جانتا ہے مہینہ پورا ہونے میں کتنے دن باقی رہ گئے ہیں؟ میں نے کہا: قریب ہے، اس نے کہا: مہینہ پورا ہونے میں صرف چار دن باقی ہیں ۳؎میں اپنا قرض تجھ سے لے کر چھوڑوں گا اور تجھے ایسا ہی کر دوں گا جیسے تو پہلے بکریاں چرایا کرتا تھا، مجھے اس کی باتوں کا ایسے ہی سخت رنج و ملال ہوا جیسے ایسے موقع پر لوگوں کو ہوا کرتا ہے، جب میں عشاء پڑھ چکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر والوں کے پاس تشریف لے جا چکے تھے (میں بھی وہاں گیا) اور شرف یابی کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی، میں نے (حاضر ہو کر)عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، وہ مشرک جس سے میں قرض لیا کرتا تھا اس نے مجھے ایسا ایسا کہا ہے اور نہ آپ کے پاس مال ہے جس سے میرے قرض کی ادائیگی ہو جائے اور نہ ہی میرے پاس ہے (اگر ادا نہ کیا)تو وہ مجھے اور بھی ذلیل و رسوا کرے گا، تو آپ مجھے اجازت دے دیجئیے کہ میں بھاگ کر ان قوموں میں سے کسی قوم کے پاس جو مسلمان ہو چکے ہیں اس وقت تک کے لیے چلا جاؤں جب تک کہ اللہ اپنے رسول کو اتنا مال عطا نہ کر دے جس سے میرا قرض ادا ہو جائے، یہ کہہ کر میں نکل آیا اور اپنے گھر چلا آیا، اور اپنی تلوار، موزہ جوتا اور ڈھال سرہانے رکھ کر سو گیا، صبح ہی صبح پو پھٹتے ہی یہاں سے چلے جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک شخص بھاگا بھاگا پکارتا ہوا آیا کہ اے بلال (تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یاد کر رہے ہیں)چل کر آپ کی بات سن لو، تو میں چل پڑا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ چار لدے ہوئے جانور بیٹھے ہیں، آپ سے اجازت طلب کی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”بلال! خوش ہو جاؤ، اللہ تعالیٰ نے تمہاری ضرورت پوری کر دی، کیا تم نے چاروں بیٹھی ہوئی سواریاں نہیں دیکھیں؟“، میں نے کہا: ہاں دیکھ لی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ وہ جانور بھی لے لو اور جو ان پر لدا ہوا ہے وہ بھی ان پر کپڑا اور کھانے کا سامان ہے، فدک کے رئیس نے مجھے ہدیہ میں بھیجا ہے، ان سب کو اپنی تحویل میں لے لو، اور ان سے اپنا قرض ادا کر دو“، تو میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔ بلال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: پھر میں مسجد میں آیا تو دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما ہیں، میں نے آپ کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”جو مال تمہیں ملا اس کا کیا ہوا؟“، میں نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے سارے قرضے ادا کر دیئے اب کوئی قرضہ باقی نہ رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کچھ مال بچا بھی ہے؟“، میں نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ جو بچا ہے اسے اللہ کی راہ میں صرف کر کے مجھے آرام دو کیونکہ جب تک یہ مال صرف نہ ہو جائے گا میں اپنی ازواج (مطہرات)میں سے کسی کے پاس نہ جاؤں گا“، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا اور فرمایا: ”کیا ہوا وہ مال جو تمہارے پاس بچ رہا تھا؟“میں نے کہا: وہ میرے پاس موجود ہے، کوئی ہمارے پاس آیا ہی نہیں کہ میں اسے دے دوں تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رات مسجد ہی میں گزاری۔ راوی نے پوری حدیث بیان کی (اس میں ہے)یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز پڑھ چکے یعنی دوسرے دن تو آپ نے مجھے بلایا اور پوچھا: ”وہ مال کیا ہوا جو تمہارے پاس بچ رہا تھا؟“، میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ نے آپ کو اس سے بے نیاز و بےفکر کر دیا (یعنی وہ میں نے ایک ضرورت مند کو دے دیا) یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہا، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اس کی حمد و ثنا بیان کی اس ڈر سے کہ کہیں آپ کو موت نہ آ جاتی اور یہ مال آپ کے پاس باقی رہتا، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلا، آپ اپنی بیویوں کے پاس آئے اور ایک ایک کو سلام کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے گئے جہاں رات گزارنی تھی، (اے عبداللہ ہوزنی!) یہ ہے تمہارے سوال کا جواب۔
سنن أبي داود،كتاب الخراج والفيء والإمارة،باب في الإمام يقبل هدايا المشركين،حدیث نمبر: 3055 ( صحيح الإسناد)
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
خلعت نبوت سےسرفراز ہونے سے پہلے آپ تجارت و زراعت وغیرہ سر انجام دیتے رہے ، لیکن اس کے بعد آپ نے خود کو دعوت و تبلیغ کے لیے خاص کرلیا تھا ۔
 
Top