• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ماں کی آواز پر نماز توڑنے والی حدیث ۔۔

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ھے وہ کہتے ھیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ وہ فرمارھے تھے
بسم اللہ الرحمن الرحیم
سیدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ کی مکمل حدیث اصل مصدر و اسناد سے پیش خدمت ہے :
امام بیہقیؒ (شعب الایمان ) میں روایت کرتے ہیں کہ :
أخبرنا أبو الحسين بن بشران، أنا أبو جعفر الرزاز، نا يحيى بن جعفر، أنا زيد بن الحباب، نا ياسين بن معاذ، نا عبد الله بن مرثد، عن طلق بن علي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " لو أدركت والدي أو أحدهما وأنا في صلاة العشاء، وقد قرأت فيها بفاتحة الكتاب تنادي: يا محمد، لأجبتها: لبيك " ياسين بن معاذ ضعيف (شعب الايمان 7497 باب بر الوالدين )
ترجمہ :
سیدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ھے وہ کہتے ھیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ وہ فرمارھے تھے
"کہ اگر میں اپنے والدین کو یا ان میں سے کسی ایک کو اس حال میں پاتا کہ میں نماز عشاء میں ہوتا اور میں نے سورۃ فاتحہ بھی پڑھ لی ہوتی اور وہ پکار رہے ہوتے کہ اے محمد ، تو میں ان کو جواب دیتا (حالت نماز میں) کہ میں حاضر ہوں "

اسے امام بیہقیؒ نے شعب الایمان میں روایت کیا اور ساتھ ہی فرمایا کہ : اس میں راوی یاسین بن معاذ ضعیف ہے "
ــــــــــــــــــــــ
امام ابن الجوزیؒ "الموضوعات " میں اس حدیث کو درج کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ :
" هذا موضوع على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وفيه ياسين.
قال يحيى: ليس حديثه بشئ.
وقال النسائي: متروك الحديث.
وقال ابن حبان: يروي الموضوعات عن الثقاة ويتفرد بالمعضلات عن الأثبات لا يجوز الاحتجاج به."
یعنی یہ حدیث موضوع ہے ، اس میں یاسین نامی راوی کے متعلق امام یحی بن معین " لیس حدیثہ بشیء " یعنی اس کی حدیث کوئی حیثیت نہیں رکھتی "
اور امام نسائیؒ اسے متروک کہتے ہیں ،امام ابن حبانؒ فرماتے ہیں کہ "یہ (یاسین بن معاذ) ثقہ راویون کی طرف نسبت کرکے موضوع روایات بیان کرتے تھے, یہ معضل روایت کو ثقہ راویوں سے بیان کردیتے تھے ثبوت کے طور پر اور ان سے حجت پکڑنا جائز نھی ."
ـــــــــــــــــــــــــ
علامہ ناصر الدین الالبانیؒ نے سلسلہ احادیث ضعیفہ میں اس روایت کو درج کیا ہے ،اور لکھا ہے کہ :


" موضوع.
أخرجه البيهقي في "الشعب " (6/195/7881) ، وابن الجوزي في "الموضوعات" (3/85) من طريق يحيى بن أبي طالب (جعفر) حدثنا زيد بن الحباب: عن ياسين بن معاذ: حدثنا عبد الله بن مرثد عن طلق بن علي مرفوعاً.
وقال البيهقي: "ياسين بن معاذ ضعيف ".
قلت: حاله أسوأ من ذلك، وينبيك عن ذلك قول الذهبي في "المغني ": "تركه النساثي وغيره ".
ومن شاء الوقوف على أقوال الأئمة فيه؛ فليرجع إلى "لسان الميزان"، فقد استوعب أكثرها، على أنني كنت نقلت بعضها تحت الحديث المتقدم (1035)
وقال ابن الجوزي عقب الحديث:
" هذا موضوع على رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وفيه ياسين؛ قال يحيى: ليس حديثه بشيء. وقال النسائي: متروك الحديث. وقال ابن حبان: يروي الموضوعات عنالثقات، وينفرد بالمعضلات عن الأثبات "))

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور نفس مسئلہ یعنی دوران نماز اگر والدین بلائیں تو نمازی کو کیا کرنا چاہیئے ؟
الاسلام سؤال و جواب پر اس مسئلہ کے مفصل فتویٰ دیا گیا ہے :

الجواب :
الحمد لله
إذا كان المسلم في صلاة فريضة فإنه لا يقطعها لنداء أبيه أو أمه ، لكن له أن ينبه من يناديه إلى أنه منشغل بالصلاة ، إما بالتسبيح ، أو رفع الصوت بالقراءة ، أو نحو ذلك .
ويشرع له أن يخفف في صلاته ، فإذا انتهى منها أجاب النداء .
وقد روى البخاري (707) عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رضي الله عنه عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : ( إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلَاةِ أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ ) .
فهذا يدل على مشروعية التجوز في الصلاة ، وتخفيفها لعارض يشغل بال المصلي .
وإذا كانت الصلاة نافلة : فإن علم من أبيه أو أمه أنهما لا يكرهان إتمامه للصلاة : أتمها ، ثم أجابهما بعد فراغه ، وإن علم أنهما يكرهان إتمامها وتماديه فيها : قطعها ، وأجابهما ، ولا شيء عليه في ذلك ، ثم يعيد صلاته من جديد .
روى البخاري (3436) ومسلم (2550) – واللفظ له - عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : ( كَانَ جُرَيْجٌ يَتَعَبَّدُ فِي صَوْمَعَةٍ فَجَاءَتْ أُمُّهُ فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ أَنَا أُمُّكَ كَلِّمْنِي . فَصَادَفَتْهُ يُصَلِّي فَقَالَ : اللَّهُمَّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَاخْتَارَ صَلَاتَهُ ، فَرَجَعَتْ ثُمَّ عَادَتْ فِي الثَّانِيَةِ فَقَالَتْ : يَا جُرَيْجُ أَنَا أُمُّكَ فَكَلِّمْنِي . قَالَ اللَّهُمَّ أُمِّي وَصَلَاتِي ، فَاخْتَارَ صَلَاتَهُ . فَقَالَتْ : اللَّهُمَّ إِنَّ هَذَا جُرَيْجٌ وَهُوَ ابْنِي وَإِنِّي كَلَّمْتُهُ فَأَبَى أَنْ يُكَلِّمَنِي ، اللَّهُمَّ فَلَا تُمِتْهُ حَتَّى تُرِيَهُ الْمُومِسَاتِ . قَالَ : وَلَوْ دَعَتْ عَلَيْهِ أَنْ يُفْتَنَ لَفُتِنَ ... ) الحديث .

وبوّب له النووي رحمه الله : " باب تقديم بر الوالدين على التطوع بالصلاة وغيرها " .
قال النووي رحمه الله :
" قَالَ الْعُلَمَاء : كَانَ الصَّوَاب فِي حَقّه إِجَابَتهَا لِأَنَّهُ كَانَ فِي صَلَاة نَفْل , وَالِاسْتِمْرَار فِيهَا تَطَوُّع لَا وَاجِب , وَإِجَابَة الْأُمّ وَبِرّهَا وَاجِب , وَعُقُوقهَا حَرَام , وَكَانَ يُمْكِنهُ أَنْ يُخَفِّف الصَّلَاة وَيُجِيبهَا ثُمَّ يَعُود لِصَلَاتِهِ ... " انتهى .
وينظر : "فتح الباري" ، للحافظ ابن حجر رحمه الله ، "الموسوعة الفقهية" (20/342) .

وجاء في "الدر المختار" – من كتب الحنفية – (2 / 54) :
" ولو دعاه أحد أبويه في الفرض لا يجيبه ، إلا أن يستغيث به " انتهى .
أي يطلب منه الغوث والإعانة .

وقال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله :
" الوالدان إذا نادياك وأنت تصلي : فإن الواجب إجابتهما ، لكن بشرط ألا تكون الصلاة فريضة ، فإن كانت فريضة فلا يجوز أن تجيبهما ، لكن إذا كانت نافلة فأجبهما .
إلا إذا كانا ممن يقدرون الأمور قدرها ، وأنهما إذا علما أنك في صلاة عذراك ، فهنا أشر إليهما بأنك في صلاة : إما بالنحنحة أو بقول سبحان الله أو برفع صوتك في آية تقرؤها أو دعاء تدعو به حتى يشعر المنادي بأنك في صلاة ...
وإن كان من الآخرين الذين لا يعذرون ويريدون أن يكون قولهم هو الأعلى فاقطع صلاتك وكلمهم ...
أما الفريضة : فلا تقطعها لأحد إلا عند الضرورة ، كما لو رأيت شخصا تخشى أن يقع في هلكة في بئر أو في بحر أو في نار ، فهنا اقطع صلاتك للضرورة ، وأما لغير ذلك فلا يجوز قطع الفريضة " انتهى .
"شرح رياض الصالحين" (ص 302) باختصار .
والله تعالى أعلم .
راجع جواب السؤال رقم : (65682) .

الإسلام سؤال وجواب

خلاصہ یہ کہ :
فرض نماز کے دوران اگر والدین بلائین تو نماز کو روکنا ،توڑنا جائز نہیں۔ لیکن نماز کے دوران جو بھی بلائے اس کو متنبہ کرنے کےلیئے نماز میں تلاوت کی آواز کو اونچا کیا جا سکتا ہے یا سبحان اللہ کہ کر سمجھایا جا سکتا ہے۔ ایسے میں جایز ہو گا اگر نماز کو مختصر کر لیا جا ئے اور بلانے والے کا جواب دے دیا جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نماز دیر تک پڑھنے کے ارادہ سے کھڑا ہوتا ہوں ۔ لیکن کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو ہلکی کر دیتا ہوں ، کیونکہ اس کی ماں کو ( جو نماز میں شریک ہو گی ) تکلیف میں ڈالنا برا سمجھتا ہوں ۔
( صحیح بخاری ، 707 )
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Top