• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسول اللہ ﷺ کی سنت کو بدلنے والا : یزید، یہ روایت موضوع اورمن گھڑت ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
اس موضوع سے متعلق ہمای اس تیسری تحریر کو pdf میں درج ذیل لنک سے ڈاؤنلوڈ کریں






تمہید


حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے اپنے مجلہ الحدیث نمبر103 ص 19 پر ابن عساکر کی ایک ایسی روایت کو حسن قرار دیا جس میں صحابی رسول یزید بن سفیان رضی اللہ عنہ پر حسن پرستی اوراسی کی خاطر کسی اور کی لونڈی غصب کرنے کی تہمت لگائی گئی ہے نیز اسی روایت میں یزید کو سنت بدلنے والاقرار دیا گیا ہے اور اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ۔
ہماری نظر اس روایت پر پڑی تو ہم نے ایک مفصل مضمون لکھ کر اس روایت کا موضوع اور من گھڑت ہونا ثابت کیا ، ہمارے اس مضمون کو لیکر ایک بھائی نے حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ اور حافظ ندیم صاحب سے فون پر گفتگو کی اس کے بعد ہماری تحریر کا یہ کہتے ہوئے جواب دیا:
شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کے اس مدلل مضمون کی توضیح کے لیے ہم نے شیخ زبیر حفظہ اللہ اور شیخ ندیم ظہیر حفظہ اللہ (نائب مدیر ماہنامہ اشاعۃ الحدیث)سے بات کی تا کہ ان کا موقف معلوم کیا جاسکے کیونکہ مضمون نگار پرجان بوجھ کر ترجمہ غلط کرنے اور من گھڑت روایت کو صحیح باور کروانے جیسے سنگین الزامات لگائے گئے تھے۔ ذیل میں ان سے کی گئی گفتگو کی روشنی میں شیخ کفایت اللہ کے مضمون پر تبصرہ پیشِ خدمت ہے:
ایک دوسری جگہ اسی بھائی نے لکھا:
مذکورہ روایت پر شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ کے تحقیقی اعتراضات کی توضیح کے لیے ہم نےشیخ زبیر حفظہ اللہ کو فون کیا اور ان سے کی گئی ٣-٤منٹ کی گفتگو میں جو اہم نکات سامنے آئے انہیں جواب کی شکل میں یہاں پیش کر دیا گیا۔سو اس جواب کو مکمل طور پر شیخ زبیر حفظہ اللہ کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا گو کہ ہماری ذکر کردہ اکثر باتوں سے شیخ صاحب کا اتفاق ہے ۔دونوں شیوخ کے نام ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ تھاکہ ہمارے پیش کردہ جواب کی بنیاد ان سے کی گئی گفتگو پر ہی تھی ۔اور یہ وضاحت ہماری پہلی پوسٹ میں بھی تھی
ہم نے اس کا جواب الجواب بھی پیش کیا اس کے بعد حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے ہماری دونوں تحریروں کا مفصل جواب دیا ۔
ذیل میں ہماری طرف سے یہ تیسری تحریر پیش خدمت ہے جس میں ہم حافظ موصوف کے مفصل جواب کا تفصیلی رد پیش کریں گے اور یہ ثابت کریں گے کہ زیربحث روایت موضوع اورمن گھڑت ہی ہے اسے حسن قرار دینا کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔

اصل جواب شروع کرنے سے قبل ہم واضح کردیں کہ حافظ موصوف کا جواب پڑھ کر ہمیں سخت حیرانی ہوئی کہ ہمیں ایسی باتوں کا جواب کیوں دیا جارہا ہے کہ جو ہمیں پہلے سے تسلیم ہے اور ہم نے کبھی ان کا انکار ہی نہیں کیا ۔
مثلا زیربحث حدیث کے تمام رواۃ کی توثیق میں حافظ موصوف نے بڑی طویل گفتگو کی ہے ، جبکہ ہماری گذشتہ پوری تحریر موجود ہے ہم نے کہیں بھی اس سندکے رواۃ کی تضعیف نہیں کی ہاں صرف ایک راوی کومتکلم فیہ بتلایا ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسے ثقہ ہی تسلیم کیا ہے ۔
اور کسی راوی کو متکلم فیہ کہنے اورضعیف کہنے میں بڑا فرق ہے۔
مثلا بیس رکعات تراویح والی حدیث پربحث کرتے ہوئے بہت سارے محدثین بخاری ومسلم کے راوی یزیدبن خصیفہ کو متکلم فیہ بتلاتے ہیں لیکن انہیں ضعیف کوئی نہیں کہتاہے ، بلکہ خود شیخ محترم نے بھی بخاری کے متعدد رواۃ پر کلام نقل کیا لیکن کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ شیخ کی نظر میں یہ راوی ضعیف ہے۔
الغرض یہ کہ رواۃ کی توثیق سے متعلق جوتفصیلات دی گئی ہیں الحمدللہ ہم نے ان کا انکار ہی نہیں کیا اس لئے ہماری تحریر سے اس پوری تفصیل کا کوئی تعلق ہی نہیں ۔
نیز ثقہ کی زیادتی سے متعلق جو مفصل معلومات پیش کی گئی ہیں اس کی بھی ضرورت نہ تھی کیونکہ علی الاطلاق ہم نے اس کا انکار نہیں کیا بلکہ قرائن کی روشنی میں زیادتی ثقہ کو رد کرنے کے بات کہی ہے ، اس لئے بحث اسی نکتہ پرہونی چاہئے کہ زیرنظر راویت میں زیادتی ثقہ سے متعلق قرائن کیا کہتے ہیں ؟ آیا اس روایت میں زیادتی ثقہ قابل قبول ہے یا قابل رد ؟ اس سے ہٹ کر یہ کہنا کہ دس مقامات یا اس سے زائد مقامات پر ثقہ کی زیادتی قبول کی گئی ہے غیر ضروری ہے، ورنہ ہم بیس مقامات بلکہ اس سے بھی زائد مقامات دکھاسکتے ہیں جہاں ثقہ کی زیادتی مردود قرار دی گئی ،لہٰذا یہ پوری تفصیل ہمارے اصل نکتہ سے غیرمتعلق ہے۔
اورمحترم حافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کا ہماری تنقید کے جواب میں غیرمتعلق چیزوں کو پیش کرکے خواہ مخواہ مضمون کو طول دینا اس پر بات پرغماز ہے کہ موصوف کے پاس ہمارے نقد کا کوئی جواب ہے ہی نہیں، اسی لئے موصوف غیرضروری تفصیل پیش کرنے پر مجبور ہوئے اور ایسا کرکے غالبا موصوف یہ سمجھتے ہیں کہ غیرضروی ہی سہی لیکن یہ تفصیل دیکھ کر قارئین مرعوب ہوجائیں گے اور موصوف کی باتوں کو وزن دار سمجھ لیں گے ۔ حالانکہ انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ قارئین اتنے بھولے نہیں ہیں ہیں کہ کمیت پرکیفیت کو قیاس کرنے لگ جائیں ۔
الغرض یہ کہ حافظ موصوف کے جواب کا اکثر حصہ ایسی باتوں پر مشتمل ہے جس کے ہم منکر ہی نہیں اور جو ہماری بحث سے غیرمتعلق ہے۔

بہرحال ذیل میں ہم حافظ موصوف کے اس جواب کا مفصل رد پیش کررہے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
روایت کے ثبوت پربحث

امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أخبرنا أبو سهل محمد بن إبراهيم أنا أبو الفضل الرازي أنا جعفر بن عبدالله نا محمد بن هارون نا محمد بن بشار نا عبدالوهاب نا عوف ثنا مهاجر أبو مخلد حدثني أبو العالية حدثني أبو مسلم قال غزا يزيد بن أبي سفيان بالناس فغنموا فوقعت جارية نفيسة في سهم رجل فاغتصبها يزيد فأتى الرجل أبا ذر فاستعان به عليه فقال له رد على الرجل جاريته فتلكأ عليه ثلاثا فقال إني فعلت ذاك (ولفظ ابی یعلی: لئن فعلت) لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية يقال له يزيد فقال له يزيد بن أبي سفيان نشدتك بالله أنا منهم قال لا قال فرد على الرجل جاريته ۔
ابومسلم کہتے ہیں کہ صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے اپنی امارت میں لوگوں کے ساتھ جہاد کیا تو انہیں مال غنیمت حاصل ہوا تو ایک مجاہد کے حصہ میں ایک خوبصورت لونڈی آئی تو صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ (جوفوج کے امیرو کمانڈرتھے انہوں)نے اس لونڈی کوغصب کرلیا ، اس کے بعد یہ مجاہد ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کےخلاف ان سے مدد مانگی ، تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ : اس مجاہد کو اس کی لونڈی واپس کردو لیکن یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے ٹال دیا، ابوذر رضی اللہ عنہ نے تین بار ان سے یہی کہا اور تینوں بار یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے ٹال دیا ۔تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: بہتر ہے جیساکہا جارہا ہے ویسا کرو کیونکہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : میری سنت کو سب سے پہلے جو شخص بدلے گا وہ بنوامیہ کا شخص ہوگا جسے یزید کہاجائے گا ۔ تو یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے کہا : میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کرپوچھتاہوں کیا میں ان میں سے ہوں ؟ ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نہیں ، اس کے بعد یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے اس مجاہد کو وہ لونڈی واپس کردی[تاريخ دمشق لابن عساكر: 65/ 249- 250 واخرجہ ایضا ابویعلی کما فی إتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة (8/ 85) رقم 7535 و المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية (18/ 278) رقم 4463 من طریق عبدالوھاب بہ نحوہ ، واخرجہ غیرواحد من طریق عوف منقطعا بین ابی العالیہ وابی ذر]۔
یہ روایت موضوع اور من گھڑت ہے عہدرسالت سے لیکر عصر حاضر تک چودہ سو سالہ دور میں دنیا کے کسی بھی معتبر محدث یا امام نے اس روایت کو صحیح یا حسن نہیں کہا ہے ، بلکہ اس کے برعکس متقدمین ومتاخرین ومعاصرین میں سے متعدد اہل علم نے اس روایت کو موضوع ، منقطع یا مردود قرار دیا ہے، یا اس کے مردود ہونے کی طرف اشارہ کیاہے، ملاحظہ ہو:
  • (1) امام بخاری رحمہ اللہ(المتوفى256) ، دیکھئے [التاريخ الأوسط للبخاري 1/ 397]۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے معلول بھی کا،دیکھئے: [البداية والنهاية 8/ 231]۔
  • (2) امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365) نے اس روایت کو منکر روایات میں شمار کیا ہے دیکھئے :[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 4/ 97]۔
    واضح رہے کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ نے ضعفاء میں اس روایت کو نقل کرکے یہ بھی فرمایا:
    وفي بعض الأخبار مفسرا زاد، يقال له: يزيد
    یعنی بعض روایات میں رجل کی اس وضاحت کے ساتھ اضافہ ہے کہ اس آدمی کو یزید کہا جائے گا [الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 4/ 97]
    عرض ہے کہ یہ اضافہ زیربحث روایت ہی میں ہے اس سے معلوم ہوا کہ امام ابن عدی رحمہ اللہ کے سامنے ہرطرح کی روایات تھیں اس کے باوجود بھی امام ابن عدی رحمہ اللہ نے اس روایت کو منکر روایات میں شمار کیا ہے جیساکہ امام ابن القسیرانی رحمہ اللہ نے وضاحت کی ہے دیکھئے [الذخيرة في الأحاديث الضعيفة والموضوعة: 1/ 540]
  • (3) امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)، نے اسے منقطع قراردیا ہے، اور اس کے متن کو بھی منکر بتلایا ہے دیکھئے[دلائل النبوة للبيهقي:6/ 467]۔
    واضح رہے کہ امام بیہقی رحمہ اللہ حدیث پرحکم لگاتے وقت حدیث کے دیگرطرق کو بھی پیش نظر رکھتے تھے لیکن یہاں پرامام بیہقی رحمہ اللہ نے بغیر کسی اور طریق کی پرواہ کئے اسے منقطع قرار دیا گویا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ کی نظر میں یہ روایت اصلا منقطع ہی ہے ۔
  • (4) امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507) نے ابن عدی کے حوالے سے اسی روایت کو نقل کرنے کے بعد کہا
    لم يذكر عليه كلاما . وأورده في ذكر أبي العالية ، وكأنه استنكره ، فذكره
    امام ابن عدی نے اس پرکوئی کلام ذکر نہیں کیاہے اور ابوالعالیہ کے تذکرہ میں اسے ذکرکیا ہے گویا کہ آپ نے اسے منکر مان کرذکر کیاہے[الذخيرة في الأحاديث الضعيفة والموضوعة: 1/ 540]۔
  • (5) امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)، نے اسے موضوع اور من گھڑت قراردیاہے ، دیکھئے :[البداية والنهاية 8/ 231]۔
  • (6) امام سيوطي رحمه الله (المتوفى911) ، نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ، دیکھئے:[الجامع الصغير من حديث البشير النذير 1/ 244]۔
    واضح رہے کہ امام سیوطی رحمہ اللہ شواہد اور دیگر اسناد کے پیش نظر روایات کو حسن قرار دینے میں معروف ہیں لیکن اس کے باجود بھی یہاں امام سیوطی رحمہ اللہ نے بغیر کسی اور طریق کی پرواہ کئے اسے ضعیف قرار دیا گویا کہ امام سیوطی رحمہ اللہ کی نظر میں یہ روایت ثابت نہیں بلکہ مردودہے۔
  • (7) حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے زیربحث روایت کو نقل کرنے کے بعد سند میں ابو مسلم کی زیادتی پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا:
    رواه معاوية بن هشام، عن سفيان، عن عوف، فلم يذكر بين أبي العالية وأبي ذر أحدا.
    اس روایت کو معاویہ بن ہشام نے سفیان عن عوٍف کے طریق سے روایت کیا ہے اور ابوالعایہ اور ابوذر ررضی اللہ عنہ کے بیچ کسی کو ذکر نہیں کیا[إتحاف المهرة لابن حجر: 14/ 224]۔
  • (8) امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے بھی زیربحث روایت کی سند میں ابو مسلم کی زیادتی پر تنبیہ کرتے ہوئے کہا:
    أخرجه الروياني في مسنده» عن بندار، وروي من وجه آخر، عن عوف، وليس فيه أبو مسلم.
    اسے امام رویانی نے مسند میں روایت کیا ہے اور یہ حدیث دوسری سند سے مروی ہے اس میں ابومسلم کاذکر نہیں ہے،[تاريخ الإسلام للذهبي ت تدمري 5/ 273]۔
  • (9) امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے بھی ایک مقام پر اسی روایت کو منقطع روایت کرنے کے بعد کہا:
    رواه عبد الوهاب الثقفي عن عوف عن أبي مهاجر عن أبي العالية عن أبي مسلم عن أبي ذر زاد فيه أنا مسلم
    اسی روایت کو عبدالوھاب الثقفی نے بھی عوف عن أبي مهاجر عن أبي العالية عن أبي مسلم عن أبي ذر کے طریق سے روایت کیا اس میں اس نے ابومسلم کا اضافہ کردیا ہے[تاريخ دمشق لابن عساكر: 18/ 160]۔
    حافظ ابن حجر ، امام ذہبی اورامام ابن عساکر رحمہ اللہ نے صرف ایک طریق میں جو زیادتی پر تنبیہ کی ہے اس سے مقصود یہی ہے کہ یہاں پر یہ زیادتی شاذ ہے یعنی مردود ہے کیونکہ ایسے مواقع پر اہل فن صرف یہی نہیں کہتے کہ فلاں نے زیادتی کی ہے بلکہ ساتھ میں اس اصول کا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ زیادتی ثقہ مقبول ہے ، اوریہاں پر محض زیادتی پرتنبیہ ہے اور زیادتی ثقہ کی قبولیت کی صراحت نہیں ہے نیز قبولیت کے قرائن بھی مفقود ہیں بلکہ رد کے قرائن موجود ہیں ایسی صورت میں ان ائمہ کا اشارہ اس زیاتی کے شذوذ ہی کی طرف ہے یعنی یہ زیادتی مردود ہے۔ناقدین کے اس طرح کے اشاروں کو اہل علم نے بیان علت ہی سمجھا ہے ۔
    چنانچہ امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385) قتادہ کے طریق سے مروی ’’وإذا قرأ فأنصتوا‘‘ کے اضافہ ساتھ منقول حدیث کی بابت فرماتے ہیں:
    ورواه هشام الدستوائي وسعيد وشعبة وهمام وأبو عوانة وأبان وعدي بن أبي عمارة كلهم عن قتادة فلم يقل أحد منهم وإذا قرأ فأنصتوا وهم أصحاب قتادة الحفاظ عنه
    اوراسی حدیث ہشام دستوائی ، سعید ، شعبہ ، ہمام ، ابوعوانہ ، ابان اور عدی بن ابی عمارہ نے بھی روایت کیا ہے ان سبھوں نے اسی حدیث کو قتادہ ہی سے نقل کیا ہے لیکن ان میں سے کسی ایک نے بھی ’’وإذا قرأ فأنصتوا ‘‘ نہیں کہا اوریہ سب کے سب قتادہ کے حفاظ شاگرد ہیں[سنن الدارقطني: 1/ 330]۔
    یہاں امام امام دارقطنی رحمہ اللہ نے صراحتہ حدیث کو ضعیف نہیں کہا ہے بلکہ اس میں موجود علت کی طرف اشارہ کیا ہے اور تمام اہل علم نے امام دارقطنی رحمہ اللہ کے اس اشارہ سے یہی سمجھا ہے کہ وہ ’’وإذا قرأ فأنصتوا ‘‘ کے اضافہ کو مردود قرار دیے رہے ہیں ۔
    اسی طرح ایک روایت کو نقل کرنے کے بعد امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
    لا نعلم أن أحدا تابع بن عجلان على قوله وإذا قرأ فأنصتوا
    ہمیں نہیں معلوم کہ کسی ایک نے بھی ’’وإذا قرأ فأنصتوا ‘‘ کے الفاظ بیان کرنے میں ابن عجلان کی متابعت کی ہو[سنن النسائي الكبرى 1/ 320]۔
    امام نسائی رحمہ اللہ نے یہاں پر صراحۃ جرح نہیں کی ہے بلکہ اشارۃ جرح کی ہے لیکن حدیث کا کوئی ادنی طالب علم بھی امام نسائی کی اس جرح سے انکار نہیں کرسکتا ۔

    محترم شیخ خبیب حفظہ اللہ بڑی عمدہ وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
    ’’ممکن ہے کہ کوئی معترض کہے کہ امام نسائی نے اس زیادت کو صراحتا تو شاذ قرار نہیں دیا تو اس حوالے سے عرض ہے کہ متقدمین اکثر طور پر احادیث میں مخفی علل کی نشاندہی فرمایا کرتے تھے۔ متاخرین کی طرح حدیث پرصحت اورضعف کا صراحتا حکم بہت کم ذکرکرتے تھے جیساکہ علل الاحادیث پر مشتمل کتب سے معلوم ہوتاہے‘‘[مقالات اثریہ: ص 403]۔
  • (10) مورخ ابن طولون نے بھی امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی بات برضاء ورغبت نقل کی ہے دیکھئے [قيد الشريد لابن طولون ص38] ۔

    واضح رہے کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس روایت کو موضوع اور من گھڑت قرار دیا ہے اور ابن طولون نے بھی یہ بات برضاء ورغبت نقل کیاہے۔
ان دس اہل علم کے برعکس پورے چودہ سو سالہ اسلامی دور میں کسی ایک بھی محدث نے اس روایت کو صحیح یاحسن قطعا نہیں کہا ہے ۔
اس کے برعکس حافظ زبیرعلی زئی حفطہ اللہ پوری دنیا میں پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس روایت کو پیش کردہ سند ومتن کے ساتھ حسن قرار دیا ،حافظ موصوف کا یہ فیصلہ انہیں کے لہجے میں باطل و یکسرمردود ہے۔

تنبیہ اوال:
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسی سلسلے کی ایک منقطع روایت کو حسن قرار دیا ہے لیکن اس کا متن زیربحث روایت کے متن سے بہت مختصر ہے اس میں صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ پر حسن پرستی کا الزام اور اس کی خاطر لونڈی غصب کرنے کی تہمت نہیں ہے اسی طرح یزید کے نام کی بھی صراحت نہیں ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ سارا معاملہ شام میں صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی زیر امارت ہوا اس کا بھی ذکر نہیں جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی جرح کی بنیاد یہی بات ہے ، مزید برآں یہ کہ اس کی سند واضح طور پر منقطع ہے ۔ ان تمام باتوں سے لاعلمی کی بناپر علامہ البانی رحمہ اللہ سے تسامح ہوا اور انہوں نے اس مختصر متن کو حسن کہہ دیا ۔
ہم معترف ہیں کہ علامہ البانی رحمہ اللہ بھی تمام طرق اور تمام علل کو سامنے رکھنے کے بعد ہی حدیث پرحکم لگاتے تھے لیکن اس روایت پر حکم لگاتے وقت وہ تمام طرق اور تمام علل سے واقف نہ تھے اس کی دلیل یہ ہے کہ علامہ موصوف نے سند پر بحث کرتے ہوئے ان باتوں کا سرے سے ذکر ہی نہیں کیاہے حالانکہ سلسلتین میں علامہ البانی رحمہ اللہ کاطرز عمل یہی ہے کہ آں رحمہ اللہ پیش کردہ روایت کے تمام گوشوں پر بات کرتے ہیں ۔
دریں صورت یہ قطعا نہیں کہا جاسکتا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ بھی زیربحث روایت کی سند ومتن کی تحسین میں حافظ موصوف کے ساتھ ہیں ، بلکہ سچائی یہی ہے کہ اس سند ومتن کے ساتھ اس رویت کو حسن کہنے والے محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ پوری دنیا میں پہلے شخص ہیں۔
مزید یہ کہ اس روایت کی تحسین خود علامہ البانی رحمہ اللہ کے اصول کے خلاف ہے کیونکہ اس کی سند منقطع ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ غالبا انقطاع سند پر مطلع نہ ہوسکے کیونکہ انہوں نے اس پرکوئی بحث نہیں کی ہے۔حالانکہ اہل فن نے انقطاع کی صراحت کی ہے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ خود علامہ البانی رحمہ اللہ کے اصول کی روشنی میں بھی یہ روایت مردود ہے۔


تنبیہ ثانی:
زیربحث روایت میں جو یہ ہے کہ بنوامیہ کا ایک شخص یزید سنت کو بدلنے والا ہوگا اسی مضمون کی ایک دوسری روایت کو علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے موضوع اورمن گھڑت قرار دیتے ہوئے اپنی کتاب موضوعات میں نقل کیا ہے[الموضوعات لابن الجوزي 1/ 336]۔
واضح رہے کہ ابن الجوزی نے یزید کی مذمت میں کتاب لکھی ہے لیکن انہوں نے بھی یزید کے خلاف اس روایت کو پیش نہیں کیا ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
روایت مذکورہ کے مردود ہونے کی وجوہات


پیش کردہ روایت موضوع اورمن گھڑت ہی ہے جیساکہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہاہے، اس روایت کے مردود ہونے کی وجوہات درج ذیل ہیں:

  • پہلی وجہ : امام العلل امام بخای رحمہ اللہ نے اس روایت کو معلول قرار دیاہے۔
  • دوسری وجہ : امام العلل امام بخای رحمہ اللہ کی بیان کردہ علت۔
  • تیسری وجہ : ثقہ کی ایسی زیادتی جو قرائن کی روشنی میں مردود ہیں۔



تفصیل ملاحظہ ہو:
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
زیربحث حدیث کے مردود ہونے کی پہلی وجہ

(امام العلل امام بخای رحمہ اللہ نے اس روایت کو معلول قرار دیاہے)​


امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) نے زیربحث حدیث کو واضح طور ’’معلول‘‘ قراردیاہے چنانچہ امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774) امام بخاری کی کتاب ’’تاریخ‘‘ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وكذا رواه البخارى فى التاريخ وأبو يعلى عن محمد بن المثنى عن عبد الوهاب ثم قال البخارى والحديث معلول
اوراسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے (اپنی کتاب) ’’تاریخ‘‘ میں روایت کیا ، اور ابویعلی نے عن محمدبن مثنی عن عبدالوہاب کے طریق سے روایت کیا ہے ، پھر اسے روایت کرنے کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا: یہ حدیث معلول ہے[البداية والنهاية: 8/ 231 وابن کثیر نقلہ من کتاب البخاری]۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے امام بخاری کے اس قول کو ان کی کتاب ’’تاریخ ‘‘ سے نقل کیا ہے لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول ثابت شدہ ہے کیونکہ کتاب سے نقل کی گئی بات معتبر ہوتی ہے۔
معلوم ہوا کہ امام العلل امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو معلول قرار دیا ہے۔

اس حقیقت کی وضاحت کے بعد عرض ہے کہ جب کوئی ماہر امام ناقد کسی حدیث کو معلول کہہ دے اور کوئی دوسرا امام ناقد اس کی مخالفت نہ کرے تو وہ حدیث معلول ومردود ہی رہے گی ، اور امام بخاری رحمہ اللہ کے اس قول کے مخالفت پوری دنیا کے کسی بھی مستند عالم نے نہیں کی ہے بلکہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسے برضاء ورغبت نقل کیاہے۔ یہ ایک اصولی بات ہے جس سے علم حدیث کا ادنی طالب علم بھی واقف ہے ، اور زیربحث روایت کے مردود ہونے کے لئے بس یہی ایک بات کافی ہے ۔

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852) فرماتے ہیں:
وهذا الفن أغمض أنواع الحديث وأدقها مسلكا، ولا يقوم به إلا من منحه الله تعالى فهما غايصا وإطلاعا حاويا وإدراكا لمراتب الرواة ومعرفة ثاقبة، ولهذا لم يتكلم فيه إلا أفراد أئمة هذا الشأن وحذاقهم ، وإليهم المرجع في ذلك لما جعل الله فيهم من معرفة ذلك، والاطلاع على غوامضه دون غيرهم ممن لم يمارس ذلك.وقد تقصر عبارة المعلِّل منهم، فلا يفصح بما استقر في نفسه من ترجيح إحدى الروايتين على الأخرى كما في نقد الصيرفي سواء، فمتى وجدنا حديثا قد حكم إمام من الأئمة المرجوع إليهم - بتعليله - فالأولى إتباعه في ذلك كما نتبعه في تصحيح الحديث إذا صححه.
علل حدیث کا فن ، علوم حدیث کا سب سے پیچیدہ فن اور سب سے دقیق کام ہے، یہ کام اسی شخصیت سے ہوسکتاہے جسے اللہ تعالی نے تبحرفہم، وسیع اطلاع ، رواۃ کے مراتب کا ادراک اور پختہ معرفت سے نوازا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اس بارے میں اس فن کی مخصوص اور ماہر شخصیات ہی نے کلام کیا ہے اوراس معاملے میں وہی ہمارے لئے مرجع ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے انہیں ہی اس کی معرفت اور اس کے خفیہ امور پر آگاہی سے نوازاہے، ان کے علاوہ دوسرے لوگ جنہوں نے یہ کام نہیں کیا وہ اس سے محروم ہیں ۔ اور کبھی کبھی حدیث کو معلول کہنے والے ائمہ اپنی بات واضح کرنے سے قاصر ہوتے ہیں اور دو روایات میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کی جو وجہ ان کے دل میں بیٹھتی ہے اور اسے بیان نہیں کرپاتے جیساکہ ہو بہو یہ معاملہ جوہری کا ہوتا ہے ۔ تو جب ہمیں کوئی ایسی حدیث ملے جسے کسی مستند امام نے معلول قرار دیا ہے تو اس معاملے میں اس کی اتباع ہی بہتر ہے جیساکہ جب وہ کسی حدیث کو صحیح کہہ دے تو ہم اس کی اتباع کرتے ہیں [النكت على كتاب ابن الصلاح لابن حجر 2/ 711]

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی وضاحت سے معلوم ہواکہ کوئی ماہر ناقد امام جب کسی حدیث کو معلول کہہ دے تو اس کا فیصلہ ہی حجت ہے ، اور زیر بحث روایت کو صرف ماہر ناقد ہی نہیں بلکہ ناقدوں کے امیرو رئیس ، علل کے عظیم الشان امام جبل الحفظ امام بخاری رحمہ اللہ نے معلول قرار دیا ہے اور پوری دنیا کے کسی بھی امام نے ان کی مخالفت نہیں کی ہے ۔ لہٰذا امام بخاری کے ہزاروں سال بعد پیداہونے والے لوگ دن رات ایسی حدیث کو صحیح یا حسن قرار دیں پھر بھی امام بخاری رحمہ اللہ کے فیصلہ پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے اور یہ حدیث بہر صورت مردود وباطل ہی رہے گی ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام بخاری رحمہ اللہ کے قول ’’والحدیث معلول‘‘ کے ثبوت پر محترم زبیرعلی زئی کا اعتراض اور اس کارد



ًمحترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
۲: والحدیث معلول کے الفاظ امام بخاری سے با سند صحیح ثابت نہیں۔
عرض ہے کہ ہم سخت حیران ہیں کہ آں محترم یہ کیا فرمارہے ہیں ؟ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول ان کی کتاب ’’تاریخ‘‘ سے نقل کیا ہے ملاحظہ ہوں امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے الفاظ:

امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774) نے کہا:
وكذا رواه البخارى فى التاريخ وأبو يعلى عن محمد بن المثنى عن عبد الوهاب ثم قال البخارى والحديث معلول
اوراسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے (اپنی کتاب) ’’تاریخ‘‘ میں روایت کیا ، اور ابویعلی نے عن محمدبن مثنی عن عبدالوہاب کے طریق سے روایت کیا ہے ، پھر اسے روایت کرنے کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا: یہ حدیث معلول ہے[البداية والنهاية: 8/ 231 وابن کثیر نقلہ من کتاب البخاری]۔
غورکریں کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے کہا: رواہ البخاری فی التاریخ (یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے تاریخ میں رویات کیا ہے ) اس کے چند لفظوں کے بعد ہی کہا:ثم قال البخاری والحديث معلول (یعنی روایت کرنے کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ حدیث معلول ہے)
معلوم ہوا کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول ان کی کتاب ’’التاریخ ‘‘ سے نقل کیا ہے اور کتاب سے نقل کردہ بات ثابت شدہ ہوتی ہے، عام طلباء بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کتاب سے نقل کرنے والے کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ نقل کرنے والا شخص اپنی سند کتاب کے مؤلف تک پیش کرے ورنہ آج کوئی شخص کوئی ایک بھی صحیح حدیث پیش نہیں کرسکتا کیونکہ جوں ہی وہ کسی کتاب سے اسے نقل کرے گا اس پر یہ سوال اٹھے گا کہ تم اپنی صحیح سند صاحب کتاب تک پیش کرو !

اورحیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اسی تحریر میں خود محترم زبیرعلی زئی ایک جگہ لکھتے ہیں:
یحییٰ بن مندہ نے اپنی تاریخ میں فرمایا: ’’ثقة ورع متدین عارف بالقراء ات و الروایات عالم بالأدب والنحو وھو مع ھذا أکبر من أن یدل علیہ مثلي وھو أشھر من الشمس و أضوأ من القمر، ذوالفنون من العلم۔ رحمہ اللّٰہ۔ وکان شیخًا مھیبًا منظورًا فصیح اللسان حسن الطریقة کبیرالوزن .‘‘(بحوالہ التقیید لابن نقطۃ ۲/ ۸۴ ت ۴۰۳)
آئیے ہم پورے الفاظ نقل کرتے ہیں چنانچہ ابن نقطة الحنبلي البغدادي (المتوفى: 629 ) نے کہا:
قال يحيى بن منده في تاريخه قدم أصبهان مرارا ثم خرج من أصبهان إلى كرمان فحدث بها وقرأ عليه القرآن جماعة ومات بها في بلد اوشير سنة أربع وخمسين وأربعمائة في جمادى الأولى وبلغني أنه ولد في سنة إحدى وسبعين وثلاثمائة ثقة ورع متدين عارف بالقراءات والروايات عالم بالأدب والنحو وهو مع هذا أكبر من ظان يدل عليه مثلي وهو أشهر من الشمس وأضوأ من القمر ذو فنون من العلم رحمه الله وكان شيخا مهيبا منظورا فصيح اللسان حسن الطريقة كبير الوزن.[التقييد لمعرفة رواة السنن والمسانيد ص: 334]

اگرکسی کی کتاب سے نقل کرنا ثبوت کے لئے کافی نہیں ہے تو کیا ہم محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ سے پوچھ سکتے ہیں کہ آن جناب نے یہاں امام یحیی بن مندہ کا قول ابن نقطہ کی کتاب سے کیوں نقل کیا ؟؟؟ کیا ابن نقطہ نے امام یحیی بن مندہ کا یہ قول صحیح سند سے نقل کیا ہے ؟؟ اور اگر نہیں اور یقینا نہیں بلکہ بات صرف اتنی ہے کہ ابن نقظہ نے یحیی بن مندہ کی کتاب ’’تاریخ‘‘ سے نقل کیا ہے تو یہی معاملہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ کی نقل میں بھی ہے کہ انہوں نے بھی امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب ’’تاریخ‘‘ سے ان کا قول نقل کیا ہے۔

اگرکوئی کہے کہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ کانقل کردہ قول امام بخاری کی تاریخ الاوسط میں ہے لیکن اصل کتاب میں ’’والحدیث معلول‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں ۔
تو عرض ہے کہ اس کا زیادہ سے زیادہ مطلب یہ ہوا کہ تاریخ الاوسط کے بعض نسخوں میں یہ عبارت ناقص ہے اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے سامنے تاریخ الاوسط کا جو نسخہ تھا اس میں یہ عبارت مکمل تھی اور نسخوں کا اختلاف عام بات ہے آج بھی مخطوطات کی تحقیق کے وقت کتاب کے دیگر نسخوں سے ناقص عبارت کو مکمل کیا جاتا ہے بلکہ دیگراہل علم کے منقولات سے بھی نسخوں کی ناقص عبارتیں درست کی جاتی ہے ، لہذا امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے سامنے جو نسخہ تھا اس نسخہ میں یہ قول مکمل تھا اور بعض دیگرنسخوں میں یہ قول ناقص ہے لہٰذا تمام نسخوں کو دیکھتے ہوئے یہ عبارت مکمل ہوگی اورحجت ہوگی ۔


بطورفائدہ عرض ہے کہ محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے سترہ سے متعلق بزار کی ایک روایت کو حسن قراردیاہے وہ روایت یہ ہے :

امام بزار رحمه الله (المتوفى292)نے کہا:
حَدَّثنا بِشْر بن آدم ، قَال : حَدَّثنا أَبُو عَاصِم ، عَن ابن جُرَيج ، قال : أَخْبَرنا عَبد الكريم ، أنَّ مجاهدًا أخبره ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، رَضِي الله عَنْهُمَا ، قال : أتيت أنا والفضل على أتان ، فمررنا بين يدي رسول الله صَلَّى الله عَلَيه وَسَلَّم بعرفة ، وهُو يصلي المكتوبة ، ليس شيء يستره يحول بيننا وبينه [مسند البزار: 11/ 201 رقم 4951]

اس سند میں ایک راوی ’’عبد الكريم‘“ ہے یہ کون ہے اس کا تعین ایک مشکل کام ہے کیونکہ اسی نام کا ایک اور ضعیف راوی ہے اوریہ بھی اتفاق سے مجاہد کا شاگرد اور ابن جریج کا استاذ ہے اس لئے یہ پریشان کن بات ہے کہ یہ راوی ہے کون لیکن محترم زبیرعلی زئی نے غالبا اس کا تعین ’’عبد الكريم الجزرى‘‘ سے کیا ہے اسی وجہ سے موصوف نے اس سند کو حسن کہا ہے اور تعین کے لئے آں محترم نے غالبا اس بات کو دلیل بنایا ہے کہ امام ابن بطال نے بزار کی اسی روایت کو سند کے ساتھ نقل کیا اوران کے نقل میں سند کے اندر عبدالکریم کی الجزرى سے تعیین موجود ہے،[موطا امام مالک مترجم از زبیرعلیزئی: ص 266]۔ چنانچہ:

امام ابن بطال (المتوفى: 449) نے کہا:
ذكر البزار، قال: حدثنا بشر بن آدم، قال: حدثنا أبو عاصم، عن ابن جريج قال: حدثنى عبد الكريم الجزرى أن مجاهدًا أخبره عن ابن عباس قال: (أتيت أنا والفضل على أتانٍ، فمررنا بين يدى رسول الله (صلى الله عليه وسلم) بعرفة، وهو يصلى المكتوبة، ليس بشىء يستره يحول بيننا وبينه)[شرح صحيح البخارى لابن بطال: 2/ 129]۔

عرض ہے کہ عبد الكريم کی تعیین کرنے والا یہ لفظ ’’الجزری‘‘ اصل کتاب بزار میں یا اس وقت اس کے کسی بھی دستیاب مخطوطہ میں موجود نہیں ہے تو کیا یہ کہہ دیا جائے امام ابن بطال کی نقل کردہ سند غیر معتبر ہے ؟؟
ہرگز نہیں بلکہ یہاں پر یہی کہاجائے گاکہ یہ نسخوں کا اختلاف ہے اور امام ابن بطال کے سامنے مسند بزار کا جونسخہ تھا اس میں یہ سند اس تعین والے لفظ کے ساتھ تھی اورموجودہ نسخہ میں یہ لفظ موجود نہیں ہے لیکن اس کا بھی اعتبار ہوگا کہ کیونکہ ابن بطال نے اسے کتاب سے نقل کیا ہے ۔
ٹھیک اسی طرح یہاں بھی ابن کثیر رحمہ اللہ کے نقل کردہ الفاظ کا اعتبار ہوگا کیونکہ انہوں نے امام بخاری کی کتاب تاریخ سے نقل کیا ہے وہ بھی قدیم نسخہ سے ، والحمدللہ۔

واضح رہے کہ ہم یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ رہے کہ محترم زبیرعلی زئی نے عبدالکریم کی تعین میں ابن بطال کی نقل کردہ سند ہی کو بنیاد بنایا ہے لیکن آں موصوف کی تحریر سے ہمیں یہی لگتا ہے واللہ اعلم۔
بہرحال ہمارا مقصود یہ ہے کہ ابن بطال کی نقل کردہ سند کا اعتبار کیا جائے گا اسے رد نہیں کیا جاسکتا ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
زیربحث روایت کے مردود ہونے کی دوسری وجہ

(امام العلل امام بخای رحمہ اللہ کی بیان کردہ علت )​


امام بخاري رحمه الله (المتوفى256) فرماتے ہیں:
حدثني محمد ، قال : حَدَّثَنَا عَبد الوهاب قال : حدثنا عوف عن المهاجر بن مخلد : ، قال : حَدَّثَنَا أبو العالية , قال : وحدثني أبو مسلم قال : كان أبو ذر بالشام وعليها يزيد بن أبي سفيان فغزا الناس فغنموا.والمعروف أن أبا ذر كان بالشام زمن عثمان وعليها معاوية ومات يزيد في زمن عُمَر ولا يعرف لأبي ذر قدوم الشام زمن عُمَر رضي الله عنه.
امام بخاری رحمہ اللہ زیربحث روایت کو ذکرکرکے فرمارہے ہیں کہ معروف (معلوم وثابت شدہ) بات یہ ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ شام میں عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں تھے اور اس وقت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ شام کے امیر تھے ۔ اوریزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ ہی کے دور میں وفات پاگئے اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ کا شام آنا نامعلوم ہے۔[التاريخ الأوسط للبخاري 1/ 397]۔
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کے بقول صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام کے امیر تھے اور عہد فاروقی ہی میں وفات پاگئے اور عہدفاروقی میں ابوذر رضی اللہ عنہ کا شام آنا ثابت ہی نہیں ہے اور زیر بحث روایت میں اسی دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ کو شام میں بتلایا جارہا ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ انہوں نے شام میں صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو زیربحث حدیث سنائی ۔
یہ زبردست دلیل ہے کہ زیربحث روایت موضوع اور من گھڑت ہے اور جس نے بھی اسے گھڑا ہے وہ تاریخ سے نابلد تھا اس نے یہ حدیث تو وضع کردی کہ شام میں ابوذر رضی اللہ عنہ نے یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کو حدیث سنائی لیکن اس بدنصیب کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ جس دور میں صحابی رسول یزید بن ابی سفیان شام میں تھے اس دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ شام گئے ہی نہیں تھے بلکہ اس کے بہت بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں شام گئے تھے، اور اس سے پہلے ہی صحابی رسول یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ فوت ہوچکے تھے ۔ لہٰذا ایک فوت شدہ شخص کو ابوذر رضی اللہ عنہ کوئی حدیث کیسے سناسکتے ہیں۔

امام بخاری رحمہ اللہ کی تحقیق سے اس روایت کا موضوع اورمن گھڑت ہونا ثابت ہوگیا ، الحمدللہ۔

تبیہ بلیغ :
امام بخاری رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا قول میں دو پہلو ہیں ایک اثبات کا ایک انکارکا۔
چنانچہ اثبات کا پہلو یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں صحابی رسول ابوذر رضی اللہ عنہ کا شام میں آنا بتایا ہے اور اسے معروف (معلوم وثابت شدہ) کے لفظ سے پیش کیاہے۔
اورانکار کا پہلو یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ کے بقول عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ کا شام آنا نامعلوم ہے، اور اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’لایعرف‘‘ کہہ کر پیش کیاہے اورلایعرف کا ترجمہ خود محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے ایک جگہ ’’معلوم نہیں‘‘ سے کیا ہے کماسیاتی۔


امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے:
امام بخاری رحمہ اللہ نے زیربحث حدیث کی جوعلت بیان کی ہے اسے امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی برضاء ورغبت نقل کیا ہے اوراسے بنیاد بناکر زیربحث روایت کو مردود قراردیا ہے دیکھئے [البداية والنهاية لابن کثیر: 8/ 231]۔

امام بیہقی رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے:
امام بیہقی رحمہ اللہ نے اشارۃ یہی بات کہی ہے آپ زیربحث روایت کی نکارت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
قلت: يزيد بن أبي سفيان كان من أمراء الأجناد بالشام في أيام أبي بكر وعمر. لكن سميه يزيد بن معاوية يشبه أن يكون هو- والله أعلم-
یعنی صحابی رسول یزیدبن سفیان رضی اللہ عنہ تو ابو بکر اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں لشکر شام کے امیر ہواکرتے تھے (اوراس دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ شام آئے ہی نہیں) لہٰذا یزیدبن سفیان رضی اللہ عنہ کے ہم نام یزیدبن معاویہ مراد ہوسکتے ہیں واللہ اعلم [دلائل النبوة للبيهقي/ 467]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام بخاری کی بیان کردہ علت سے متعلق محترم حافظ زبیرعلی زئی کے اشکالات اور ان کا ازالہ


محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کے اشکالات کے ازالہ سے قبل ایک بار پھر یہ وضاحت کردی جائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قول میں دو پہلو ہے ایک اثبات کا اور ایک انکار کا۔ لیکن محترم زبیرعلی زئی نے جواب دیتے ہوئے یہ ثاثر قائم کیاہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ بس ایک بات کو معروف کہہ رہے ہیں اور اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ثابت نہیں یعنی محترم نے ثبوت کی ذمہ داری امام بخاری کے سرڈال دی ہے ۔
حالانکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قول میں انکار کا پہلو بھی ہے یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک بات کا انکار بھی کیا ہے اوراسے ’’معروف ‘‘ نہیں بلکہ ’’لایعرف‘‘ سے پیش کیا ہے ، اور اس معاملہ میں ثبوت کی ذمہ داری امام بخاری رحمہ اللہ پرنہیں ہے بلکہ ثبوت کی ذمہ داری اس پر ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ کے انکار کو تسلیم نہ کرے۔

محترم زبیرعلی زئی نے امام بخاری رحمہ اللہ کے قول میں اثبات والے پہلو کا جواب دیتے ہوئے لفظ معروف پرساری توانائی صرف کردی ہے اورلوگوں کو صرف یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے محض ایک مشہوربات نقل کیا ہے جوثابت نہیں ۔لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کے قول میں جوانکار کا دوسرا پہلو تھا جس کے جواب میں آن جناب کو ثبوت پیش کرنا چاہئے تھا لیکن اس معاملہ میں آں جناب سے کچھ بھی نہیں بن پڑا چنانچہ موصوف ثبوت میں ایک حرف بھی پیش کرنے سے یکسرقاصر و عاجز رہے ہیں ۔

اب آئیے ہم پوری تفصیل کے ساتھ محترم کے اشکالات ازالہ پیش کرتے ہیں:
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ امام بخاری نے یہ بھی لکھا ہے:
’’ والمعروف أن أبا ذر کان بالشام زمن عثمان و علیھا معاویۃ و مات یزید في زمن عمر، ولا یعرف لأبي ذر قدوم الشام زمن عمر.‘‘
اور معروف (مشہور) یہ ہے کہ عثمان(رضی اللہ عنہ)کے زمانے اور معاویہ (رضی اللہ عنہ) کے دورِ امارت میں ابو ذر(رضی اللہ عنہ)شام میں تھے اور یزید (بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ)عمر(رضی اللہ عنہ)کے زمانے میں فوت ہو گئے تھے اور عمر(رضی اللہ عنہ)کے زمانے میں ابو ذر(رضی اللہ عنہ) کا شام آنا معروف (مشہور) نہیں۔ (التاریخ الاوسط ۱/ ۳۹۸ ح ۱۳۷، دوسرا نسخہ ۱/ ۷۰)
اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے اس دعوے کی کوئی دلیل بیان نہیں کی اور کسی بات کا معروف (مشہور) ہونا یا نہ ہونا اس کے صحیح یا ضعیف ہونے کی دلیل نہیں ہوتا بلکہ صحیح سند والی روایت صحیح ہوتی ہے چاہے مشہور ہو یا نہ ہو۔ اصولِ حدیث کی کتابوں میں بھی یہ بتایا گیا ہے کہ مشہور حدیث صحیح بھی ہوتی ہے، حسن بھی ہوتی ہے، ایسی بھی ہوتی ہے کہ جس کی کوئی اصل نہیں ہوتی اور کلیتاً موضوع بھی ہوتی ہے۔
(دیکھئے اختصار علوم الحدیث اردو مترجم ص ۱۰۸، نوع: ۳۰)
اصل مسئلہ یہ نہیں کہ فلاں بات معروف ہے یا معروف نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ فلاں بات باسند صحیح ثابت ہے یا ثابت نہیں۔
کتنے ہی مشہور قصے ہیں جو بلحاظِ سند ضعیف، مردود اور باطل ہوتے ہیں۔مثلاً دیکھئے ’’ مشہور واقعات کی حقیقت ‘‘ (مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ لاہور فیصل آباد)
صحیح حدیث کے مقابلے میں امام بخاری رحمہ اللہ کی مبہم جرح کون سنتا ہے؟
سب سے پہلے اس اقتباس کی پہلی سطر دیکھیں محترم فرماتے ہیں ’’اگرکوئی کہے۔۔۔‘‘ اس سے بعض قارئین جو پورے پس منظر سے واقف نہیں ہیں وہ سمجھیں گے کہ موصوف پیشگی ایک نقد کا جواب دے رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پہلے اس نقد کو لے کر آں محترم پرتعاقب کیا گیا اس کے بعد موصوف اس کا جواب عنایت فرمارہے ہیں۔
اس کے بعد اس اقتباس کی آخری سطر دیکھئے کہ محترم زبیرعلی زئی امام بخاری کے اس کلام کو ’’جرح‘‘ تسلیم کرتے ہیں لیکن مبہم جرح کہتے ہیں ، حالانکہ اصول حدیث کا ادنی طالب علم بھی سمجھ سکتا ہےکہ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ جرح بہت ہی مفسر اورواضح ہے ۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس جرح کے کس حصہ میں ابہام ہے؟ یہ ہماری سمجھ سے باہر ہے۔
اس کے بعد عرض ہے کہ محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کا امام بخاری کے کلام میں مستعمل ’’معروف‘‘ کا ترجمہ ’’مشہور‘‘ ( بمعنی زبان زدعام) سے کرنا یکسر غلط ومردودہے۔
ہمیں اس سے انکار نہیں کہ کچھ لوگ مشہور کے معنی میں بھی معروف بولتے ہیں لیکن کیا امام بخاری رحمہ اللہ کے کلام میں لفظ ’’معروف‘‘ مشہور کے معنی میں مستعمل ہے ؟؟ ہر گز نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے کلام میں معروف کا لفظ معلوم کے معنی میں مستعمل ہے یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک یہ بات معلوم اور ثابت شدہ ہے نہ کہ صرف مشہور، جیساکہ محترم زبیر علیزئی باور کرانا چاہئے ہیں ۔
افسوس کہ موصوف امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہاں سمجھ نہیں پارہے ہیں یاتجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں کیونکہ خود موصوف کا ترجمہ ایک دوسرے مقام پردیکھیں ۔
ایک جگہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:
وَلَا يُعْرَفُ هَذَا مِنْ صَحِيحِ حَدِيثِ ابْنِ خَالِدٍ الْأَحْمَرِ[القراءة خلف الإمام للبخاري ص: 64]۔
اس کا ترجمہ کرتے ہوئے آں جناب لکھتے ہیں:
اوریہ معلوم نہیں کہ یہ روایت ابوخالد الاحمر کی صحیح حدیثوں میں سے ہے [نصرالباری: ص 287]۔
عرض ہے کہ جس طرح ’’لایعرف‘‘ کا ترجمہ ’’معلوم نہیں‘‘ سے کیا گیا ہے اس طرح ’’والمعروف‘‘ کا ترجمہ ’’معلوم اورثابت شدہ‘‘ سے ہونا چاہئے ۔

محترم زبیرعلی زئی آگے فرماتے ہیں:
’’صحیح سند والی روایت صحیح ہوتی ہے چاہے مشہور ہو یا نہ ہو۔ اصولِ حدیث کی کتابوں میں بھی یہ بتایا گیا ہے کہ مشہور حدیث صحیح بھی ہوتی ہے، حسن بھی ہوتی ہے، ایسی بھی ہوتی ہے کہ جس کی کوئی اصل نہیں ہوتی اور کلیتاً موضوع بھی ہوتی ہے‘‘اصل مسئلہ یہ نہیں کہ فلاں بات معروف ہے یا معروف نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ فلاں بات باسند صحیح ثابت ہے یا ثابت نہیں۔
ہم اوپر واضح کرچکے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ معروف کا لفظ مشہور کے معنی میں نہیں استعمال کررہے ہیں بلکہ معلوم اور اورثابت شدہ کے معنی میں استعمال کررہے ہین۔ لیکن بفرض محال تھوڑی دیر کے لئے تسلیم کرلیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ’’معروف‘‘ کا لفظ مشہور کے معنی میں استعمال کیا ہے تو امام بخاری رحمہ اللہ کے اسے مشہور کہنے سے یہ لازم تو نہیں کہ یہ بات ثابت ہی نہیں کیونکہ آں جناب خود کہہ رہے ہیں کہ ’’مشہور حدیث صحیح بھی ہوتی ہے، حسن بھی ہوتی ہے‘‘ تو امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں جو مشہور کہا اس سے مراد وہ مشہور بات ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ثابت شدہ ہے۔ کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ اس سے استدلال کررہے ہیں اور اسی کی بنیاد پر ایک روایت پر جرح کررہے ہیں ، اور یہ ناممکن ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ فقط ایسی مشہور بات کی بنیاد پرجرح کریں جو ان کے نزدیک ثابت شدہ نہ ہو بلکہ فضائل اعمال کے قصوں کی طرح فقط مشہور ہو۔
ہم محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ سے پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کسی روایت پرجرح کرتے ہوئے اپنے نزدیک ثابت شدہ چیزوں کو بنیاد بتانے ہیں یا فضائل اعمال کے مشہور قصوں جیسی بے اصل باتوں کی بنیاد پر بھی جرح کرتے رہتے ہیں ؟ اگر آپ نفی میں جواب دیتے ہیں اور اپنی شان یہ بتلاتے ہیں کہ آپ صرف ثابت شدہ چیزوں ہی کی بنیاد پرجرح کرتے ہیں تو کیا امام بخاری رحمہ اللہ آپ سے بھی گئے گذرے ہیں کہ وہ بے اصل قصوں اورکہانیوں کی بنیاد پر ایک حدیث پر ذمہ دارانہ کلام کریں ؟

اور آپ کی بات مان لینے کی صورت میں معاملہ یہیں پرختم نہیں ہوجاتا بلکہ جرح وتعدیل اور علل حدیث سے متعلق امام بخاری رحمہ اللہ کے تمام تر اقوال محل نظر ٹہرتے ہیں اور ان کے ہرقول کے ثبوت کی دلیل فراہم ہونا ضروری قرار پاتا ہے کیونکہ احتمال ہے کہ کسی اور حدیث کو معلول کہنے یا کسی راوی کوضعیف ومجروح کہنے میں بھی اسی طرح کی بے بنیاد باتوں کا سہارا امام بخاری رحمہ اللہ نے لیا ہو! یادرہے کہ محدثین جب کسی حدیث کو معلول کہتے ہیں یا کسی راوی کو ضعیف یا مجروح کہتے ہیں تو اس کی بنیاد دیگر روایات ہی ہوتیں ہیں۔
اوریہ خطرہ صرف امام بخاری رحمہ اللہ ہی کے اقوال سے متعلق نہیں ہوگا بلکہ جرح وتعدیل کے تمام ائمہ کے اقوال تعلیل وتضعیف محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کے یہاں ان کی ذاتی تصدیق کے محتاج ہوں گے کیونکہ جب امام بخاری رحمہ اللہ جیسے سلطان المحدثین بے اصل قصوں اورکہانیوں کی بنیاد پر جرح کررہے ہے تو دیگر ائمہ فن سے بھی یہ چنداں مستبعد نہیں ۔ واللہ المستعان۔

اورحد ہوگئی کہ آں محترم نے امام بخاری رحمہ اللہ کی جرح کو رد کرتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈالا:
’’کتنے ہی مشہور قصے ہیں جو بلحاظِ سند ضعیف، مردود اور باطل ہوتے ہیں۔مثلاً دیکھئے ’’ مشہور واقعات کی حقیقت ‘‘ (مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ لاہور فیصل آباد)‘‘
آں جناب کی خدمت میں مؤدبانہ عرض ہے کہ یہاں کسی قصو گو یا تبلیغی جماعت کے مبلغ کے بارے میں بات نہیں چل رہی ہے بلکہ امام العلل امام بخاری رحمہ اللہ کے ایک ذمہ دارانہ فیصلے کی بات ہو رہی ہے جو انہوں نے ایک روایت سے متعلق فنی حیثیت سے صادر فرمایاہے۔کیا امام بخاری رحمہ اللہ جیسے سلطان المحدثین کے بارے میں یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ فن حدیث میں ایک ذمہ دارانہ کلام کرتے ہوئے فضائل اعمال جیسے بے اصل واقعات و قصوں اور کہانیوں کو بنیاد بنائیں ؟؟
جس چوٹی کے محدث نے اپنی کتاب ’’صحیح ‘‘ میں صحت حدیث کا ایسا اونچا معیار قائم کیا کہ یہ کتاب قران کے بعد سب بہتر کتاب قرار پائی ، کیا ایسے عظیم المرتبت محدث آں جناب کی نظر میں اسی لائق رہ گئے ہیں کہ مشہور واقعات وقصوں اور کہانیوں کی بناپر جرح وتعدیل کے احکام صادر کرنے لگیں ؟؟ امام بخاری کے ہزاروں سال بعد پیداہونے والوں کو تحقیق کا یہ معیار بخوبی معلوم ہے لیکن امیرالمؤمنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ کسی بات کا مشہور ہونا الگ بات ہے اور اس کا صحیح ہونا الگ بات ہے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ واللہ یہ چھوٹا منہ بڑی بات اور امام بخاری رحمہ اللہ کے ساتھ بے ادبی ہے۔ واللہ المستعان۔

۲) اس میں کوئی شک نہیں کہ ’’ والمعروف‘‘ والے الفاظ امام بخاری کا قول ہے اور اس قول کا صرف یہی مطلب ہے کہ امام بخاری کے نزدیک مشہور بات یہ ہے کہ ابو ذر رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ان کا شام جانا مشہور نہیں۔
یہ واقعہ چونکہ امام بخاری کی پیدائش سے پہلے ہوا ہے لہٰذا یہ ضروری ہے کہ امام بخاری سے ابو ذر رضی اللہ عنہ تک صحیح سند پیش کی جائے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام نہیں گئے تھے۔
ہم اوپر واضح کرچکے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے کلام میں معروف کا لفظ معلوم کے معنی میں ہے نہ کہ مشہور کے، اس کے بعد عرض ہے کہ:
یہی اعتراض ہماری پہلی تحریر کے وقت بھی کیا گیا تھااور ہم نے اس کیا جو جواب دیا تھا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے دوبارہ نقل کردیں تاکہ قارئین کو اندازہ ہوسکے کہ اس پر موصوف نے جو کچھ کہا ہے اس میں کتنا وزن ہے ، ملاحظہ ہو ہماری دوسری تحریر میں موجود اس اعتراض کا جواب:

امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ اپنا قول ہے نہ کہ کسی اور کا اس لئے سند کا مطالبہ ہی مردودہے۔
یاد رہے کہ ائمہ نقاد کا یہ کہنا کہ :
فلاں نے فلاں سے سنا نہیں ۔
فلاں کی فلاں سے ملاقات نہیں ۔
یااس طرح کے فیصلے دینا حجت ودلیل کی حیثیت رکھتا ہے چنانچہ جب ہم کسی سندکومنقطع بتلاتے ہیں تو کسی امام سے محض یہ قول نقل کردینا کافی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کہاہے کہ اس راوی نے فلاں راوی سے نہیں سنا ،وغیرہ وغیرہ۔
یہاں پر یہ مطالبہ نہیں کیا جاتا کہ ناقد کے اس فیصلہ کی سند پیش کرو یعنی اس نے جو یہ کہا فلاں نے فلاں سے نہیں سنا اس کی سند پیش کرو۔ کیونکہ یہ فیصلہ ایک ناقد کا ہے اورائمہ نقد کے اس طرح کے فیصلے بجائے خود دلیل ہوتے ہیں ، خود حافظ موصوف کی تحقیقی کتب سے ایسی مثالیں پیش کی جاسکتی ہے جہاں سند میں انقطاع کا حکم لگایاگیا ہے اوردلیل میں کسی ناقد امام کا اپنا قول ہی پیش کیا گیاہے۔
بلکہ عدم لقاء سے زیادہ نازک مسئلہ تدلیس کا ہے یعنی کسی راوی سے متعلق ناقد کا یہ فیصلہ کرنا کہ وہ اپنے اساتذہ سے سنے بغیر روایت کردیتاہے یہاں بھی ناقد کے قول کی سند نہیں مانگی جاتی کیونکہ ناقد کافیصلہ بجائے خود دلیل ہوتاہے۔


الغرض یہ کہ ہم نے پہلے ہی دوسری تحریر میں پوری طرح واضح کیا تھا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے پیش کردہ قول کی نوعیت کیا ہے یعنی یہ قول ایک ناقد امام کا فنی نقد ہے اورائمہ نقد کا فیصلہ حجت ہوتا ہے لیکن ہماری اس خاص وضاحت کا موصوف نے کوئی جواب نہیں دیا ہے بلکہ وہی بے سند والی بات دہرادی ہے ۔





ہماری پیش کردہ نقد کی مثالوں پر محترم زبیرعلی زئی کے تبصروں کا جائزہ:

نیز ہم نے اس طرح کے نقد کی متعدد مثالیں بھی پیش کی تھیں اورحافظ موصوف نے ان مثالوں کا بھی اصل جواب سرے سے دیا ہی نہیں بلکہ انتہائی نامعقول تبصرے کئے ہیں وضاحت ملاحظہ ہو:

ہم نے لکھا تھا :
مثلا امام ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں حافظ موصوف نے نقل کیا:
وقال ابوزرعہ العراقی مشھوربالتدلیس(کتاب المدلسین:21)[الفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين: ص: 40]۔
عرض ہے کہ رواۃ کی کسی خوبی کو مشہور کہا جائے یا معروف کہا جائے ایک ہی بات ہے، اور اگر یہ بات کوئی ناقد کہے تو اس بات کی سند کامطالبہ بجائے خود مردود ہے۔

یہاں پر ہماری قید ’’رواۃ کی کسی خوبی‘‘ پیش نظر رہے کیونکہ ہم یہ بات ناقدین کی طرف رواۃ کے طرزعمل کی ترجمانی سے متعلق کہہ رہے یعنی ایسے موقع پر جب محدثین ’’مشہور‘‘ کا لفظ بولیں تو وہ ’’زبان زدعام‘‘ کے معنی میں نہیں ہوگا بلکہ راوی کا ثابت شدہ طرزعمل بتلانا مقصود ہوگا نہ کہ یہ مطلب ہوگا کہ یہ چیز فقط مشہور یعنی زبان زدعام ہے ۔آئیے اسی چیز کو مثال سے واضح کریں اوربتلائیں کہ محدثین جب رواۃ کے طرزعمل کی ترجمانی کرتے ہوئے معروف یا مشہور کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے معلوم و ثابت شدہ امر مراد ہوتا ہے ، چنانچہ:

امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
إِذَا كَانَ الرَّاوِي مِمَّنْ عُرِفَ بِالتَّدْلِيسِ فِي الْحَدِيثِ، وَشُهِرَ بِهِ
جب راوی تدلیس سے معروف ہوجائے اوراسی سے مشہور ہوجائے[صحيح مسلم: 1/ 33]
اس عبارت میں امام مسلم رحمہ اللہ نے معروف اور مشہور معلوم اور ثابت شدہ کے معنی میں استعمال کیا ہے ، یہاں یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کسی راوی کے بارے میں محض یہ بات زبان زدعام ہوجائے کہ وہ تدلیس کرتا ہے قطع نظر اس کے کہ فی الواقع اس سے تدلیس کاصدرو ہوا ہو یا نہیں ۔

معلوم ہوا کہ محدثین جب کسی راوی کا طرزعمل بتلانے کے لئے معروف یا مشہور کا لفظ استعمال کریں تو اس کا مطلب ان کے نزدیک اس بات کا ثابت شدہ ہونا ہی ہوتا ۔

بلکہ عام بول چال میں بھی بہت سارے مقامات پر معروف اور مشہور معلوم اور ثابت شدہ کے معنی میں استعمال ہوتا بلکہ خود محترم زبیرعلی زئی اپنی اسی تحریر میں آگے چل کرلکھتے ہیں:
الحارث بن عمرو تو مشہور صحابی ہیں ۔ رضی اللہ عنہ
مؤدبانہ عرض ہے کہ ہم آپ کے اس جملہ میں مستعمل لفظ ’’مشہور‘‘ کا کیا مطلب لیں ؟ کیا یہ سمجھ لیں کہ حارث بن عمررضی اللہ عنہ کا صحابی ہونا فضائل اعمال کے قصوں اور کہانیوں کی طرح ’’مشہور‘‘ بات ہے یا یہاں آپ مشہور حددرجہ معلوم اورثابت شدہ کے معنی میں استعمال کررہے ہیں ؟؟ یقینا دوسرا مطلب ہی آپ کی مراد ہے ۔

الغرض یہ ہے کہ معروف اور مشہور جیسے الفاظ حددرجہ معلوم اور ثابت شدہ چیز کوبیان کرنے کے بھی استعمال ہوتے ہیں اور ناقدین محدثین جب کسی راوی کے طرزعمل سے متعلق اس طرح کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ان کا مقصود قصہ وکہانی سنانا نہیں ہوتا بلکہ ایک تحقیقی بات پیش کرنا ہوتاہے۔

اسی تناظر میں ہم نے سفیان ثوری سے متعلق امام ابوزعہ کا قول پیش کیا اور اس قول کے معتبرہونے کے بارے میں سوال اٹھایا تو موصوف نے درج ذیل جواب دیا:

سفیان ثوری کے بارے میں ابو زرعہ ابن العراقی کا قول ’’ مشہور بالتدلیس ‘‘ کئی وجہ سے صحیح ہے۔ مثلاً :
۱: سفیان ثوری کا مدلس ہونا ثابت ہے اور غیر مدلس ہونا ثابت نہیں۔
۲: سفیان ثوری کے شاگردوں سے بھی ان کا مدلس ہونا ثابت ہے۔
۳: یہ قول کسی حدیث یا کسی دلیل کے خلاف نہیں۔
عرض ہے کہ حافظ صاحب نے ہمارے اصل نکتہ کا جواب دیا ہی نہیں ، ہمارا اصل نکتہ یہ کہ امام ابوزرعہ رحمہ اللہ نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کے بارے میں جو یہ کہا کہ ’’ مشھوربالتدلیس‘’(سفیان ثوری تدلیس میں مشہورہیں) تو کیا امام ابوزرعہ کا یہ نقد قابل قبول ہے کہ نہیں ؟؟
حافظ موصف سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس پر مزید دلائل دے رہے ہیں ہمیں یہ دلائل مطلوب نہیں ہیں بلکہ ہمیں یہ بتلایاجائے امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کا فیصلہ بذات خود قابل قبول ہے یا نہیں؟؟
اورحافظ موصوف نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس کے جو دیگردلائل دئے ہیں بالفرض اگر یہ دلائل نہ ہوتے تو کیا امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کا فیصلہ رد کردیا جاتا ؟؟ ہماری اس اصل بات کا جواب دیا جائے ۔

تنبیہ بلیغ:
محترم زبیرعلی زئی نے یہاں پرلفظ ’’مشہور‘‘ کو نظرانداز کرکے سفیان ثوی کی تدلیس پردوسرے دلائل دے رہے لیکن شاید موصوف یہ بھول گئے کہ انہوں نے بعض مقامات پر سفیان ثوری سے متعلق کہے گئے اسی لفظ ’’مشہور‘‘ سے استدلال بھی کیا چنانچہ موصوف اپنی ایک تحریر میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس کی کثرت کو بتانے کے لئے امام بوزرعہ کے اسی قول ’’مشہور‘‘ کو پیش کررہے ہیں دیکھئے علمی مقالات ج 3ص 323۔
کیا ہم آں جناب سے پوچھ سکتے ہیں کہ جب ’’مشہور‘‘ میں عام قصے اورکہانیاں بھی ہوتی ہیں تو آپ نے اسی لفظ ’’مشہور‘‘ سے تدلیس کی کثرت پرکیسے استدلال کرلیا؟؟؟



ہم نے ایک اورمثال پیش کرتے ہوئے کہاتھا:
بلکہ امام بخاری رحمہ اللہ ہی کا ایک قول حافظ موصوف الفتح المبین میں یوں نقل کرتے ہیں:
وَلَا أَعْرِفُ لِسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ , وَلَا عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ , وَلَا عَنْ مَنْصُورٍ. وَذَكَرَ مَشَايِخَ كَثِيرَةً لَا أَعْرِفُ لِسُفْيَانَ هَؤُلَاءِ تَدْلِيسًا مَا أَقَلَّ تَدْلِيسَهُ.(التمہید: 1/ 18 العلل الكبير للترمذي:2/ 266)[الفتح المبين في تحقيق طبقات المدلسين: ص: 40]۔
یہاں امام بخاری رحمہ اللہ کا ’’ولااعرف‘‘ کہنا اور التاریخ میں ’’المعروف‘‘ کہنا ایک ہی معنی میں ہے، تو کیا یہ یہاں بھی کہہ دیاجائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا قول بے سند ہے؟؟

اس کے جواب میں حافظ موصوف نے کہا:
تنبیہ: امام بخاری کی طرف منسوب یہ قول کہ ’’ ولا أعرف لسفیان ... تدلیسًا ، ما أقل تدلیسہ .‘‘ باسند صحیح ثابت نہیں جیسا کہ الفتح المبین کے جدید نسخے میں اصلاح کر دی گئی ہے اور یہ نسخہ چھپنے کے لئے مکتبہ اسلامیہ پہنچ چکا ہے۔العلل الکبیر کا بنیادی راوی ابو حامد التاجر مجہول الحال ہے۔( الحدیث : ۳۸ ص ۳۱، شمارہ ۱۰۲ ص ۲۷)
لہٰذا یہ کتاب ہی ثابت نہیں۔
یہاں بھی مسئلہ اس قول کے ثابت ہونے یا نہ ہونے کا نہیں ہے بلک اصل مسئلہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس اسلوب میں اپنا فیصلہ پیش کیا ہے کیا اس اسلوب میں امام بخاری رحمہ اللہ کا فیصلہ قابل قبول ہے یا نہیں ؟؟
حافظ موصوف حالیہ دنوں میں اس قول کو غیر ثابت مان رہے ہیں لیکن جن دنوں موصوف کی نظر میں یہ قول ثابت تھا ان دنوں مذکورہ اسلوب میں امام بخاری رحمہ اللہ کا فیصلہ آں جناب نے کیسے قبول کرلیا ؟؟ کیا اس وقت یہ قول موصوف کی نظر میں باسند تھا اور آج بے سند ہوگیا ہے ؟ یہ اصل مسئلہ ہے اس کا جواب عنایت فرمائیں۔

واضح رہے کہ ہماری نظرمیں امام ترمذی رحمہ اللہ کی یہ کتاب ثابت ہے ہمارے ناقص علم کے مطابق اہل علم میں سے کسی نے بھی اس کتاب کا انکار نہیں کیا نیز ابوحامد التاجر کو مجہول کہنا بھی غلط ہے نیز کتاب کے ثبوت و عدم ثبوت سے متعلق علامہ البانی رحمہ اللہ نے جواصول پیش کیا ہے وہی راجح ہے ،لیکن ان سب باتوں کا ہمارے موضوع سے کوئی تعلق نہیں اس لئے ہم اس سے صرف نظر کرتے ہیں ۔

ہم نے ایک اورمثال پیش کرتے ہوئے کہاتھا:
اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ بہت سے رواۃ کو منکرالحدیث اور بہت سے رواۃ کو معروف الحدیث کہتے ہیں مثلا:
الوَلِيد بْن عُتبَةَ، الدِّمَشقِيُّ.روى عَنْ مُعاوية بْن صالح، مَعروفُ الحديثِ[التاريخ الكبير للبخاري: 8/ 150]۔
تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول بے سندہے؟؟؟

اس کے جواب میں حافظ موصوف نے کہا:
ولید بن عتبہ الدمشقی مشہور ثقہ راوی ہیں۔ ان سے ابو داود، بقی بن مخلد، یعقوب بن سفیان الفارسی اور ابو زرعہ الرازی نے روایت بیان کی اور یہ سب اپنے نزدیک صرف ثقہ سے ہی روایت بیان کرتے تھے۔ ابن حبان اور ابن حجر نے توثیق کی اور ذہبی نے فرمایا : صدوق .لہٰذا یہ واقعی معروف الحدیث اور ثقہ و صدوق ہیں۔
عرض ہے کہ یہاں بھی حافظ موصوف ہمارے اصل نکتہ کا جواب نہیں دے رہے ہیں ، اصل مسئلہ یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ولیدبن عتبہ کو معروف الحدیث کہا تو ان کا یہ کہنا معتبر قول ہے کہ نہیں ؟
حافظ موصوف ولیدبن عتبہ کی ثقاہت پیش کررہے ہیں ہمیں سرے سے یہ مطلوب ہی نہیں بلکہ ہمیں واضح طور پر اورصراحت کے ساتھ یہ بتلایا جائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا اپنا قول قابل قبول ہے یا نہیں؟؟

ہم نے ایک اورمثال پیش کرتے ہوئے کہاتھا:
إبراهيم أبو إسحاق عن بن جريج سمع منه وكيع معروف الحديث [التاريخ الكبير للبخاري 1/ 273]
تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول بے سندہے؟؟؟

حافظ موصوف نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا !!!

ہم نے ایک اورمثال پیش کرتے ہوئے کہاتھا:
اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوبردہ کے نام کی وضاحت کرتے ہوئے کہا:
الحارث بن عمرو ويقال له أبو بردة خال البراء ويقال عم البراء بن عازب وخال أصح والمعروف اسم أبي بردة هانئ بن نيار [التاريخ الكبير للبخاري 2/ 259]۔
تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول بے سندہے؟؟؟

اس کے جواب میں حافظ موصوف نے کہا:
الحارث بن عمرو تو مشہور صحابی ہیں ۔ رضی اللہ عنہ
قارئین غور کریں کہ ہم کس وادی میں ہیں اور حافظ موصوف کس وادی میں پہنچ گئے ۔
ہم الحارث بن عمرو کی نہیں بلکہ ابوبردہ کی بات کررہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوبردہ کے نام کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا نام ہانی بن نیاز بتلایاہے ، اور اسے معروف کے لفظ سے پیش کیا ہے ،قارئین خط کشید الفاظ پر دھیان دیں ، اسی پر ہمارا سوال ہے کہ کیا امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ وضاحت قابل قبول ہے یا نہیں ؟؟

ہم نے ایک اورمثال پیش کرتے ہوئے کہاتھا:
اسی طرح امام بخاری رحمہ اللہ نے عبدالعزیز سے یزید کے عدم سماع کے بارے میں کہتے ہیں:
ويزيد هذا غير معروف سماعه من عبد العزيز [التاريخ الصغير للبخاري: 2/ 65]۔
تو کیا یہ کہہ دیاجائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ قول بے سندہے؟؟؟

اس کے جواب میں حافظ موصوف نے کہا:
یزید بن عمرو الاسلمی (مجہول الحال) عن عبد العزیز بن عقبہ بن سلمہ (مجہول الحال) کے بارے میں اگر امام بخاری نے ’’ غیر معروف سماعہ ‘‘ فرمایا تو دوسری جگہ اس کے برعکس بھی فرمایا: ’’ یزید بن عمرو الأسلمي ( سمع عبد العزیز ) بن عقبۃ بن سلمۃ. ‘‘ (التاریخ الکبیر ۸/ ۳۵۰ ت ۳۲۸۷)
ان دونوں باتوں میں سے کون سی صحیح ہے؟
ہمارے نزدیک تو التاریخ الکبیر والی یہ روایت یزید بن عمرو اور عبد العزیز دونوں مجہولوں یا مجروحوں کی وجہ سے ضعیف و مردود ہے۔
یہاں بھی حافظ موصوف نے ہماری اصل بات کا جواب نہیں دیا ، ہم یہاں رواۃ کی عدالت وثٖقاہت یا روایت کی صحت وضعف پر بات نہیں کررہے ہیں بلکہ یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عبدالعزیز سے یزید کے عدم سماع کے بارے میں جس اسلوب میں اپنا قول پیش کیا ہے اس اسلوب میں امام بخاری رحمہ اللہ کا قول قابل قبول ہے یا نہیں؟؟

رہی بات دونوں کے مجہول الحال ہونے کی تو ہماری نظر میں یہ دونوں مجہول الحال نہیں بلکہ دونوں کے دونوں ضعیف ہیں لیکن ان دونوں کے ضعیف ہونے سے ہمارے اصل سوال پر کیا فرق پڑتاہے؟ ہم تو صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جو نفی سماع کی بات کہی ہے امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ نفی سماع والا قول باسند ہے یا بے سند ہے ؟ یہ مقبول ہے یا غیرمقبول ہے؟ قطع نظر اس کے کہ متعلقہ راوی ضعیف ہو یا ثقہ۔

رہی بات یہ کہ تاریخ کبیر میں امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:’ یزید بن عمرو الأسلمي ( سمع عبد العزیز ) بن عقبۃ بن سلمۃ. ‘‘ (التاریخ الکبیر ۸/ ۳۵۰ ت ۳۲۸۷)۔
تو اس سے اگرحافظ موصوف یہ سمجھ رہے ہیں کہ امام بخاری نے یہاں سماع کا اثبات کیا ہے تو آپ کی سمجھ ہے جو صرف آپ ہی کے لئے حجت ہے ہم تو یہ سمجھتے ہیں تاریخ کبیر میں امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ بھی منہج ہے کہ آپ کسی روای کی کسی روایت کی بنیاد پر سماع کا تذکرہ کرتے ہیں اور امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود صرف یہ ہوتاہے کہ بعض روایات میں فلاں راوی سے فلاں راوی کے سماع کاذکر ملتاہے ۔
لیکن یہ واقعۃ ثابت ہے یا نہیں یہ الگ مسئلہ ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ الگ سے کبھی اس کی وضاحت کرتے ہیں اور کبھی وضاحت نہیں کرتے ۔

چنانچہ ایک مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا:
ثَعْلَبَةُ بْنُ يَزِيدَ، الحِمّانيّ.سَمِعَ عَلِيًّا، رَوى عَنْهُ حَبِيبُ بْنُ أَبي ثَابِتٍ.يُعَدُّ فِي الْكُوفِيِّينَ.فِيهِ نَظَرٌ
’’ثعلبة بن يزيد الحماني نے علی رضی اللہ عنہ سے سنا اس سے حبیب بن ابی ثابت نے روایت کیا اس کا شمار کوفیوں میں سے ہوتا ہے ، یہ بات محل نظر ہے ‘‘۔[التاريخ الكبير للبخاري: 2/ 174]
غور کریں کہ یہاں پر امام بخاری رحمہ اللہ پہلے سماع کا ذکر کیا پھر اس پرتنقید بھی کی ۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی اس عبارت کے تشریح کرتے ہوئے امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وأما سماعه من علي ففيه نظر كما قال البخاري
جہاں تک ثعلبة بن يزيد الحماني کے علی رضی اللہ عنہ سے سننے کی بات ہے تو یہ بات محل نظر ہے جیساکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا ہے ۔[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 2/ 323]
یہاں ابن عدی رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قول کی تفسیر کررہے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قول ’’ یہ بات محل نظر ‘‘ ہے سے مراد ثعلبة بن يزيد الحمانی کا علی رضی اللہ عنہ سے سننے والی بات ہے ۔ اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ امام بخاری رحمہ اللہ ثعلبة بن يزيد الحماني کا علی رضی اللہ عنہ سے سماع کا اثبات نہیں کررہے ہیں بلکہ امام بخاری نے اپنے قول ’’انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے سنا‘‘ سے یہ مراد لے رہے ہیں کہ کسی سند میں یہ بات ذکر ہے ۔

علامہ ومحدث عبدالرحمن المعلمی رحمہ اللہ کو علم رجال میں جورسوخ و تبحر حاصل تھا اس کی شہادت علمی دنیا نے متفقہ طورپردی ہے ، بلکہ انہیں ذہبی عصر کا کماحقہ خطاب دیا ہے۔ یہی علامہ و محدث معلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قول البخاري في التراجم(سمع فلانا) ليس حكما منه بالسماع، وإنما هو إخبار بأن الراوي ذكر أنه سمع)انتهى.
کسی راوی کے ترجمہ میں امام بخاری رحمہ اللہ کہ یہ فرمانا کہ: ’’اس نے فلاں سے سناہے‘‘ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ سماع کا فیصلہ نہیں کرتے ہیں بلکہ صرف یہ خبردیتے ہیں کہ اس راوی نے سماع کاذکر کیا ہے[ تعلیق علی الموضح للخطيب: 1/ 128]۔
علامہ ومحدث عمرو عبدالمنعم سليم فرماتے ہیں:
على أن ما ذكره البخاري -رحمه الله-في تراجم الرواة من تاريخه من سماعهم من بعض من رووا عنهم، أو مجرد رواياتهم عنهم دون إثبات سماع إنما هو مجرد حكاية سند الرواية، وليس كما يظن البعض أنه إذا قال في تاريخه فلان سمع من فلان ، أنه يثبت له السماع
یادرہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں رواۃ کے ترجمہ میں جو بعض رواۃ سے بعض ان رواۃ کا سماع ذکر کیا ہے جنہوں نے ان سے روایت کی ہے ، یا محض بعض رواۃ کی بعض رواۃ سے مرویات کا تذکرہ کیا ہے بغیر سماع کے اثبات کے ساتھ، تو یہ محض سند کی کیفیت کا بیان ہے ، اس کا یہ مطلب نہیں ہے جیساکہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ جب اپنی تاریخ میں کہیں کہ فلاں نے فلاں سے سناہے تو یہ کہہ کرامام بخاری رحمہ اللہ اس راوی کے لئے سماع کا اثبات کررہے ہیں[حاشيہ على نزهة النظر ص 57]۔
اس کے علاوہ اور بھی اہل علم نے اس بات کی صراحت کی ہے لیکن زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اصل بات سے اس چیز کا تعلق ہی نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے جس اسلوب میں عدم سماع کی بات کہی ہے اس اسلوب میں امام بخاری رحمہ اللہ قول بے سند ہے یا با سند ؟؟ نیز یہ مقبول ہے ؟ یا غیر مقبول ؟؟ حافظ موصوف سے گذارش ہے کہ ادھر ادھر کی باتوں کو چھوڑ کر ہمارے اس اصل نکتہ کا جواب دیں ۔

اور اگر ان مثالوں کے ذریعہ حافظ موصوف ہماری اصل مراد اور اصل سوال کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو دو ٹوک لفظوں میں صرف یہی بتلادیں کہ اگر معروف کے لفظ کے ساتھ کوئی بھی ناقد امام اپنے دور سے قبل کے کسی راوی کے بارے میں صدق وکذب یا سماع وعدم سماع یا اس کے طبقہ یا تاریخ پیدائش و وفات سے متعلق کوئی فیصلہ دے تو وہ قابل قبول ہے یا نہیں ؟؟؟

نیز اس ضمن میں ہماری درج ذیل باتوں کا جواب حافظ موصوف نے بالکل نہیں دیاہے ہم لکھا تھا:
الغرض یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک خاص مقام پر دوصحابہ کی عدم ملاقات کی جو بات کہی ہے تو اس بات کا تعلق محدثین وناقدین کے فن سے ہیں ، محدثین وناقدین کو یہ اتھارٹی حاصل ہے کہ وہ کسی دو رواۃ کے مابین عدم سماع یا عدم معاصرت یا عدم لقاء کی صراحت کریں اور محدثین کے اس طرح کے اقوال کی بنیاد محدثین کی فنی مہارت ہوتی ہے لہٰذا محدثین اپنے فن کی بات کہیں تو یہ حجت ہے یہاں محدثین سے سند کا مطالبہ مردود ہے ۔

اسی طرح ناقدین جب اپنے دور سے قبل کے رواۃ کی تاریخ پیدائش یا تاریخ وفات بتلائیں یعنی یہ بتلائیں کہ یہ فلاں کی شخص کے موت کے بعد پیدا ہوا یہ فلان کے پیدا ہونے سے پہلے فوت ہوگیا ، یا طبقہ بتلائیں تو یہ حجت ہے کیونکہ ناقدین کا یہ فیصلہ ان کے فن کا ہے ، ایسے اقوال میں یہ مطالبہ کہ فلاں راوی کی تاریخ وفات یا تاریخ پیدائش یا طبقہ کی سندصحیح بھی بتلائیں تو یہ مطالبہ ہی مردود ہے ، ورنہ ہم بھی حافظ موصوف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آں جناب نے جہاں جہاں بھی سند کے انقطاع پر ناقدین کے حوالے سے تاریخ وفات یا تاریخ پیدائش کے اقوال پیش کئے ہیں ان اقوال کی سند صحیح پیش کرنے کیے ساتھ ساتھ اقوال میں میں جوبات ہے اس کی بھی سند صحیح پیش کریں !!

اوراگراس طرح کے اقوال میں براہ راست ناقدین سے سند کا مطالبہ درست ہے توہمارا دعوی ہے کہ عام کتب احادیث تو دور کی بات سنن اربعہ کی کوئی ایک حدیث بھی صحیح یاضعیف ثابت نہیں کی جاسکتی ۔
کیونکہ رواۃ کے تعارف میں ناقدین کے جواقوال پیش کئے جائیں گے تو یہاں دو طرح کی سند کا مطالبہ کیا جائے گا:

  • اول: ناقدکا جوفیصلہ ہے وہ اس کی کتاب سے یاکسی اورکتاب سے بسند صحیح پیش کیاجائے۔
  • دوم: ناقد کے اپنے فیصلہ میں جو بات ہے مثلا یہ کہ فلاں کذاب ہے یافلاں کی فلاں سے ملاقات نہیں اور یہ فلاں ناقد کے زمانہ کا نہ ہو یا ہو بھی تو کذاب کہنے کی بھی دلیل ، اسی طرح عدم لقاء یا عدم سماع کی بھی دلیل وغیرہ وغیرہ جیسی تمام باتوں کی بھی سند صحیح بھی پیش کرنی ہوگی ۔
میرے خیال سے اس اصول کے تحت دیگر کتب تو دور کی بات سنن اربعہ ہی سے کسی ایک بھی حدیث کو صحیح یا ضعیف ثابت کرنا ناممکن ہے اور اگرممکن ہے تو ہمیں صرف ایک حدیث کی تحقیق ناقدین سے بسند صحیح ثابت اقوال نیز ناقدین کے اقوال میں جوبات ہے اس کی بھی سندصحیح پیش کرکے دکھلایاجائے۔۔۔۔۔۔۔بارک اللہ فیکم۔
ان تمام باتوں کا محترم زبیرعلی زئی نے کوئی جواب نہیں دیا ہے۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
امام بخاری رحمہ اللہ کی تعلیل کا انتہائی غیرمعقول جواب


گذشتہ سطور میں ہم نے واضح کردیا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا نقد اوران کی تعلیل مسلم ہے انہوں نے کوئی قصہ کہانی نہیں سنائی ہے بلکہ اپنے فن میں ایک ذمہ دارانہ کلام کیا ہے جو حجت ہے اس پر کسی طرح کے اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ،نیز ان تمام باتوں کا تعلق امام بخاری رحمہ اللہ کے قول میں موجود صرف اثبات کے پہلو سے ہے اور جیساکہ ہم اوپر یہ بھی واضح کرچکے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے قول میں اثبات کا پہلو ہونے کے ساتھ ساتھ انکار کا بھی پہلو ہے ۔اوراس انکار والے پہلو کا جواب دینے والے کے لئے لازم ہے کہ کوئی پختہ ثبوت پیش کرے ورنہ امام بخاری رحمہ اللہ کا انکار حجت ومعتبر ہوگا۔

افسوس کہ محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ امام بخاری کے قول کے اس دوسرے پہلو کو گول کرگئے اور قارئین کو صرف یہ تاثر دیا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بات ثابت شدہ نہیں ہے۔ اورپھر امام بخاری رحمہ اللہ کے قول کو غیرثابت شدہ کہنے کے ساتھ ساتھ اسی کا جواب بھی دیا ہے جس سے یہ تاثر قائم ہوتا ہے کہ یہ جواب غیرثابت شدہ چیز کا ہے اس لئے یہ ثانوی حیثیت کا حامل ہے اور اصلا اس کی کوئی ضرورت نہیں۔حالانکہ یہ جواب ثانوی حیثیت کا نہیں بلکہ یہ مستقلا مطلوب ہے کیونکہ امام بخاری رحمہ کے قول میں اثبات کے ساتھ ساتھ انکار کا بھی پہلو ہے ۔اور انکار والے پہلو کو غیرثابت شدہ ، مشہور ، بے سند وغیرہ کہنے کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں بلکہ اس کا جواب مستقلا مطلوب ولازم ہے۔ اور محترم زبیرعلی زئی کے پاس اس انکار والے پہلو کا کوئی جواب سرے سے ہے ہی نہیں، اسی لئے موصوف اس انکار والے پہلو کو بھی اثبات والے پہلو میں چھپاکر ایک سانس میں سب کو بے سند کہہ دیا اور اس کے جواب کو ثانوی حیثیت بنادیا، تاکہ قارئین کو لگے کہ یہ اصل جواب نہیں ہے اس لئے اس میں بے سند بات بھی پیش کردی جائے تو مضائقہ نہیں۔ چنانچہ موصوف نے اس جواب میں امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی کتاب سے بے سند بات پیش کرکے اپنی بے بسی کا ثبوت دیا اوردوسرا کام یہ کیا کہ یہی روایت جو زیر بحث ہے جس پر امام بخاری رحمہ اللہ کانقد ہے عین اسی روایت کو دوسری کتاب سے پیش کرکے اسے امام بخاری رحمہ اللہ کے نقد کا جواب بنانے کی انتہائی نا معقول کوشش کی ہے جو عام طلبہ کے لئے بھی بالکل مضحکہ خیزہے۔

آب آئیے ہم حافظ موصوف کے اس جواب کا جائزہ لیتے ہیں جسے حافظ موصوف نے امام بخاری رحمہ اللہ کے نقد اوران کی تعلیل کے خلاف پیش کیا ہے ۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ بھی واضح کردیا جائے کہ محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ اس پوزیشن میں ہیں ہی نہیں کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ علت کو چیلنج کرسکیں ، بلکہ علت کو چیلنج کرنا تو بہت دور کی بات محترم زیبرعلی زئی اس بات کے بھی مجاز نہیں کہ امام بخاری کے قول ’’والحدیث معلول‘‘ کے خلاف ایک حرف بھی کہنے کی جسارت کریں۔ کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ ان عظیم المرتبت ائمہ حدیث میں سے ہیں جن کی بابت حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی صراحت گذرچکی ہے کہ یہ ائمہ اگرکسی حدیث کو معلول کہہ دیں تو ان کا معلول کہنا ہی کافی ہوتا ہے ، خواہ وہ معلول کہنے کی وجہ بیان کریں یا نہ کریں۔ اور بسا اوقات یہ ائمہ معلول کہنے کی وجہ نہیں بیان کرپاتے جس طرح جوہری کا معاملہ ہے کہ وہ کسی سونے جیسی چیز سےمتعلق یہ فیصلہ کردیتاہے کہ یہ کھوٹا ہے لیکن اس کی وجہ نہیں بیان کرسکتا۔ یہی معاملہ ماہرین فن ائمہ نقد کا بھی ہے اوربہرصورت ان کا فیصلہ حجت ہے۔

اس وضاحت کے بعد ملاحظہ فرمائیں کہ محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کس بات کی کوشش کررہے ہیں ؟؟ جی ہاں موصوف امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ علت کا جواب دینے کی کوشش کررہے ہیں !!!
مؤدبانہ عرض ہے کہ محترم یہ آپ کا کام سرے سے ہے ہی نہیں ، اللہ کے واسطے آپ خود کو اتنے بڑے کام کے لئے تکلیف نہ دیں یہ چیز آپ کے دائرہ کارسے باہر ہے ، آپ اس بات کے قطعا اہل نہیں کہ، کوئی امام فن کسی حدیث کو معلول کہہ دے اور اس کی علت بیان کرے تو آپ اس کی بیان کردہ علت کو غلط ثابت کرنے بیٹھ جائیں !!! یہ بالکل لایعنی اور بے سود کام ہے۔ کیونکہ آپ ثابت بھی کرلے جائیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کو معلول کہنے کی کوئی صحیح وجہ بیان نہیں کی ہے ، تو بھی اس سے امام بخاری رحمہ اللہ کے فیصلہ پر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے کیونکہ محدثین کہہ چکے ہیں ماہرفن امام کبھی کبھی حدیث کو معلول تو کہہ دیتا ہے مگر اس کی صحیح وجہ بیان نہیں کرسکتا۔

اس اصولی بات کی وضاحت کے بعد آئیے یہ بھی دیکھتے چلیں کہ محترم زبیرعلیزئی حفظہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی بیان کردہ علت کا جو جواب دیا ہے ان میں کتنا وزن ہے ؟
توعرض ہے کہ آں محترم نے امام بخاری رحمہ اللہ کے نقد کے خلاف دو جواب پیش کیا ہے ۔

امام بخاری کے نقد پر محترم زبیرعلی زئی کا پہلا جواب اور اس کاجائزہ


محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
امام بخاری کے مذکور قول کی تردید اس سے بھی ہوتی ہے کہ امام ابو یعلیٰ نے فرمایا:
’’ حدثنا محمد بن إسماعیل بن أبي سمینة: ثنا عبد الوہاب عن عوف عن المھاجر أبي مخلد عن أبي العالیة : ثنا أبو مسلم قال: کان أبو ذر بالشام زمن یزید بن أبي سفیان فغزا المسلمون فعنموا و أصابوا جاریة نفیسة فصارت لرجل من المسلمین في سھمہ ... ‘‘ فذکر نحوہ.(المطالب العالیہ ۸/ ۶۴۵ ح ۴۴۵۹/۲)محمد بن اسماعیل بن ابی سمینہ صحیح بخاری وغیرہ کے راوی اور ثقہ ہیں۔ (دیکھئے تقریب التہذیب : ۵۷۳۳)لہٰذا یہ سند بھی حسن لذاتہ ہے۔
اس روایت سے صاف ثابت ہوا کہ یزید بن ابی سفیان(رضی اللہ عنہ)کے زمانے میں ابوذر (رضی اللہ عنہ) شام میں موجود تھے لہٰذا ہر قسم کے ’’ معروف اور غیر معروف‘‘ کا اعتراض سرے سے ہی ختم ہو گیا۔
موصوف نے مزید لکھا:

اگر صحیح سند موجود نہیں تو پھر امام بخاری کا یہ قول ا س صحیح ( حسن لذاتہ) حدیث کے خلاف ہے جس میں آیا ہے کہ ’’کان أبو ذر بالشام زمن یزید بن أبي سفیان ‘‘یعنی ابو ذر رضی اللہ عنہ یزید بن ابی سفیان کے زمانے میں شام میں تھے۔ ظاہر ہے کہ صحیح حدیث کے مقابلے میں امام بخاری ہوں یا کوئی اور امام ، ان کا قول حجت نہیں رہتا اور صحیح حدیث حجت رہتی ہے۔
ان الفاظ میں حافظ موصوف نے امام بخاری رحمہ اللہ کی جرح کاجواب دینے کی کوشش کی ہے اور وہ اس طرح کہ موصوف امام بخاری کے فیصلہ کےخلاف بزعم خویش ایک صحیح ( حسن لذاتہ) روایت پیش کررہے ہیں جس میں آیا ہے کہ ’’کان أبو ذر بالشام زمن یزید بن أبي سفیان ‘‘یعنی ابو ذر رضی اللہ عنہ یزید بن ابی سفیان کے زمانے میں شام میں تھے۔

سب سے پہلے تو یہ وضاحت کردی جائے مؤخر الذکر اقتباس میں خط کشیدہ مقام پر حافظ موصوف نے جو ’’صحیح حدیث‘‘ کے الفاظ استعمال کئے ہیں اس سے کوئی یہ قطعا نہ سمجھے کہ حافظ صاحب کسی ’’حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کی بات کررہے ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی ’’حدیث رسول‘‘ نہیں بلکہ ایک ’’عام روایت‘‘ ہے جسے حافظ موصوف ’’صحیح حدیث‘‘ کے نام سے پیش کررہے ہیں اور عام صحیح روایات پر بھی صحیح حدیث کا اطلاق ہوتا ہے ہمیں اس اسے انکار نہیں لیکن عام قارئین کو مغالطہ میں پڑنے سے بچانے کے لئے ہم یہ وضاحت ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ حدیث رسول نہیں بلکہ ایک روایت ہے۔
اس کے بعد عرض ہے کہ یہ روایت بھی کوئی دوسری روایت نہیں ہے بلکہ عین وہی روایت ہے جو معرض تنقید ہے اورجس پر امام بخاری رحمہ اللہ نقدفرمارہے ہیں اورجس پر بحث کررہے ہیں ، افسوس کہ حافظ موصوف نے محض ادھوری روایت پیش کرکے قارئین کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ کوئی علیحدہ ’’صحیح حدیث ‘‘ ہے جو امام بخاری رحمہ اللہ کے فیصلہ کے خلاف ثبوت فراہم کرتی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی علیحدہ ’’صحیح حدیث ‘‘ ہرگز نہیں بلکہ عین وہی روایت ہے جس پر امام بخاری رحمہ اللہ نے نقد کیا ہے ، آئیے ہم حافظ موصوف کی پیش کردہ روایت کو مکمل الفاظ میں دیکھتے ہیں:

امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840)نے کہا:
رَوَاهُ أَبُو يَعْلَى الْمَوْصِلِيُّ: ثَنَا (مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى) ثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ، ثنا عوف، عن المهاجر أبي مخلد، ثنا أبو العالجة، ثنا أبو مسلم قال: كان أبو ذر بالشام زمن يزيد بن أبي سفيان، فغزا الْمُسْلِمُونَ فَغَنِمُوا وَأَصَابُوا جَارِيَةً نَفِيسَةً فَصَارَتْ لِرَجُلٍ من المسلمين في سهمه ... " فذكره بتمامه. [إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 5/ 189]
امام بوصیری رحمہ اللہ نے سند تو مکمل نقل کی ہے لیکن سند کے ساتھ جو متن تھا اسے مکمل نقل نہیں کیا بلکہ مکمل متن کے لئے امام بوصیری رحمہ اللہ نے اسی کتاب میں اس سے پہلے ذکرکردہ حدیث کے متن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:’’فذكره بتمامه‘‘ یعنی اس کے بعد راوی نے آگے گذشتہ روایت کے پورے الفاظ ذکر کئے اب ہم گذشتہ روایت کو مکمل دیکھتے ہیں :
گذشتہ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
(لَمَّا كان زمن يَزِيدُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ أَمِيرًا بِالشَّامِ قَالَ: غزا المسلمون فسلموا وغنموا، فَكَانَ فِي غَنِيمَتِهِمْ جَارِيَةٌ نَفِيسَةٌ، فَصَارَتْ لِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ،) فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ يَزِيدُ فَانْتَزَعَهَا مِنْهُ، وأبو ذَرٍّ يَوْمَئِذٍ بِالشَّامِ قَالَ: فَاسْتَعَانَ الرَّجُلُ بِأَبِي ذَرٍّ عَلَى يَزِيدَ فَانْطَلَقَ مَعَهُ، فَقَالَ لِيَزِيدَ: رُدَّ عَلَيْهِ جَارِيَتَهُ. فَتَلَكَأَ ثلاث مرار، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: أَمَا وَاللَّهِ لَئِنْ فَعَلْتَ لَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَقُولُ: أَوَّلُ مَنْ يَتْرُكُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ. قَالَ: ثُمَّ وَلَّى عَنْهُ. فَلَحِقَهُ يَزِيدُ فَقَالَ: أُذَكِّرُكَ بِاللَّهِ أَنَا هُوَ؟ قَالَ: اللَّهُمَّ لَا، وَرَدَّ عَلَى الرَّجُلِ جَارِيَتِهِ[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 5/ 188]
ابومسلم کہتے ہیں کہ صحابی رسول ابوذر رضی اللہ عنہ یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے عہد( یعنی عہد امارت) میں شام میں تھے ، تو مسلمانوں نے جہاد کیا پس انہیں مال غنیمت حاصل ہوا اورانہیں ایک خوبصورت لونڈی ملی جو مجاہدین میں سے ایک مجاہد کے حصہ میں آگئی تو صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ (جوفوج کے امیرو کمانڈرتھے انہوں)نے ایک آدمی کو اس مجاہد کے پاس بھیجا اور اس سے اس خوبصورت لونڈی کو چھین لیا ۔ ابوذر رضی اللہ عنہ ان دنوں شام میں تھے ، تو یہ مجاہد ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کےخلاف ان سے مدد مانگی ، تو ابوذر رضی اللہ عنہ اس مجاہد کے ساتھ گئے اور یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ : اس مجاہد کو اس کی لونڈی واپس کردو لیکن یزیدبن سفیان رضی اللہ عنہ نے ٹال دیا، ابوذر رضی اللہ عنہ نے تین بار ان سے یہی کہا اور تینوں بار یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے ٹال دیا ۔تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: بہتر ہے جیساکہا جارہا ہے ویسا کرو کیونکہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : میری سنت کو سب سے پہلے جو شخص بدلے گا وہ بنوامیہ کا شخص ہوگا ۔ اور یہ کہہ کر ابوذر رضی اللہ عنہ وہاں سے جانے لگا، پھر صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ان سے جاملے اور کہا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتاہوں کیا وہ شخص میں ہی ہوں ؟ تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں ۔ اس کے بعد یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے اس مجاہد کو اس کی لونڈی واپس کردی۔[إتحاف الخيرة المهرة للبوصيري: 8/ 85 ایضا 5/ 189]۔
حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
وَقَالَ أَبُو يَعْلَى : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي سَمِينَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنِ الْمُهَاجِرِ أَبِي مَخْلَدٍ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُسْلِمٍ ، قَالَ : كَانَ أَبُو ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالشَّامِ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ ، فَغَزَا الْمُسْلِمُونَ ، فَغَنِمُوا وَأَصَابُوا جَارِيَةً نَفِيسَةً ، فَصَارَتْ لِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ فِي سَهْمٍ .... فَذَكَرَ نَحْوَهُ[المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية 4/ 457]۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے سند تو مکمل نقل کی ہے لیکن سند کے ساتھ جو متن تھا اسے مکمل نقل نہیں کیا بلکہ مکمل متن کے لئے فَذَكَرَ نَحْوَهُ کہہ کرحافظ ابن حجررحمہ اللہ نے اسی کتاب میں اس سے پہلے ذکرکردہ حدیث کے متن کی طرف اشارہ کیا ہے اوراس سے پہلے والی روایت کا متن یہ ہے:
(لما كان يزيد بن أبي سفيان أميرا بالشام ، غزا المسلمون ، فسلموا وغنموا ، وكان في غنيمتهم جارية نفيسة ، فصارت لرجل من المسلمين )، فأرسل إليه يزيد ، فانتزعها منه ، وأبو ذر رضي الله عنه يومئذ بالشام ، فاستعان الرجل بأبي ذر رضي الله عنه على يزيد ، فانطلق معه ، فقال ليزيد : رد عليه جاريته ، فتلكأ ثلاث مرات ، فقال أبو ذر رضي الله عنه : أما والله لئن فعلت ، لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ، يقول : إن أول من يبدل سنتي لرجل من بني أمية ، ثم ولى عنه ، فلحقه يزيد ، فقال : أذكرك بالله تعالى أنا هو ؟ قال : اللهم لا ، ورد على الرجل جاريته
ابومسلم کہتے ہیں کہ صحابی رسول ابوذر رضی اللہ عنہ یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے عہد( یعنی عہد امارت) میں شام میں تھے ، تو مسلمانوں نے جہاد کیا پس انہیں مال غنیمت حاصل ہوا اورانہیں ایک خوبصورت لونڈی ملی جو مجاہدین میں سے ایک مجاہد کے حصہ میں آگئی تو صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ (جوفوج کے امیرو کمانڈرتھے انہوں)نے ایک آدمی کو اس مجاہد کے پاس بھیجا اور اس سے اس خوبصورت لونڈی کو چھین لیا ۔ ابوذر رضی اللہ عنہ ان دنوں شام میں تھے ، تو یہ مجاہد ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کےخلاف ان سے مدد مانگی ، تو ابوذر رضی اللہ عنہ اس مجاہد کے ساتھ گئے اور یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ : اس مجاہد کو اس کی لونڈی واپس کردو لیکن یزیدبن سفیان رضی اللہ عنہ نے ٹال دیا، ابوذر رضی اللہ عنہ نے تین بار ان سے یہی کہا اور تینوں بار یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے ٹال دیا ۔تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: بہتر ہے جیساکہا جارہا ہے ویسا کرو کیونکہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : میری سنت کو سب سے پہلے جو شخص بدلے گا وہ بنوامیہ کا شخص ہوگا ۔ اور یہ کہہ کر ابوذر رضی اللہ عنہ وہاں سے جانے لگا، پھر صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ان سے جاملے اور کہا: میں تمہیں اللہ کا واسطہ دے کر پوچھتاہوں کیا وہ شخص میں ہی ہوں ؟ تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں ۔ اس کے بعد یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے اس مجاہد کو اس کی لونڈی واپس کردی۔[المطالب العالية بزوائد المسانيد الثمانية 4/ 456]۔
غورکریں کہ محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے امام بخاری کے فیصلہ کے خلاف جس روایت کو پیش کیاہے وہ بالکل وہی روایت ہے جس پر امام بخاری رحمہ اللہ نقد کررہے ہیں اور جس پر ہم بحث کررہے ہیں اس کی سند بھی وہی ہے اور مضمون بھی وہی ہے ، حافظ موصوف نے بس اتنا کیا کہ اسی روایت کو ایک دوسری کتاب سے پیش کردیا اور قارئین کو یہ تاثر دیا کہ یہ کوئی علیحدہ روایت ہے جس سے ابوذر رضی اللہ عنہ کا صحابی رسول یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے دور میں شام میں ہونا ثابت ہوتا ہے ۔
اب قارئین خود فیصلہ کریں کہ کیا یہ انتہائی عجیب وغریب بات نہیں ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ جس روایت پر نقد کررہے ہیں عین اسی روایت کو دوسری کتاب سے پیش کرکے یہ باور کرایا جائے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے دعوی کے خلاف ثبوت مل رہا ہے ؟؟
یہ تو بالکل وہی مثال ہوئی کہ بریلیوں کی کتاب فیضان سنت میں جو یہ لکھا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں اس کتاب کو پسند فرمایا ہے ، اب کوئی اہل حدیث اس بات کا انکار کرے تو اس انکار پر کوئی بریلوی اسی کتاب کا دوسرا ایڈیش لاکر یہ کہے دیکھو اس میں تمہارے دعوی کے خلاف ثبوت موجود ہے !!

محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ سے درخواست ہے کہ زیربحث روایت کو پہلے صحیح تو ثابت کریں اس کے بعد اسے بطوردلیل پیش کریں ، امام بخاری رحمہ اللہ نے خاص اس روایت پر جرح کی ہے لہٰذا جب تک آپ اس جرح کا ازالہ دیگرائمہ نقد کے حوالوں سے پیش نہ کردیں تب تک یہ روایت جرح کی زد سے باہر نہیں نکل سکتی اورجب تک یہ روایت جرح کی زدسے باہر نہیں نکل سکتی تب تک یہ صحیح بھی نہیں ہوسکتی ۔ اس لئے آں جناب پہلے اس روایت کو جرح کی زد سے نکالیں اور اس پرگئی جرح کا ازالہ پیش کریں ورنہ یہ روایت صحیح ثابت نہیں ہوسکے گی بلکہ ضعیف ہی رہے گی اور ضعیف روایت کو صحیح ثابت کرنے سے پہلے ہی بطور دلیل پیش کرنا بلکہ اس پرکی گئ جرح ہی کے جواب میں پیش کردینا انتہائی نامعقول بات ہونے کے ساتھ ساتھ حددرجہ مضحکہ خیز بھی ہے۔اس طرح کے طرزعمل کی امید تو عام طلباء سے بھی نہیں ہے پھر معلوم نہیں محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کیونکر اس طرح کے جواب پر مجبورہوئے ۔



امام بخاری کے نقد پر محترم زبیرعلی زئی کا دوسرا جواب اور اس کاجائزہ


حافظ ابن عبدالبر نے بھی لکھا ہے: ’’ثم خرج بعد وفاۃ أبي بکر رضي اللّٰہ عنہ إلی الشام، فلم یزل بھا حتی ولي عثمان رضي اللّٰہ عنہ.‘‘
پھر آپ(ابو ذر رضی اللہ عنہ) ابو بکر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد شام تشریف لے گئے تو عثمان رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بننے تک وہیں رہے۔ (الاستیعاب ۱/۱۵۵، جندب بن جنادہ)

اولا: (بے سندبات):
محترم زبیر علی زئی ہرجگہ تو سندصحیح کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن یہاں آں جناب کی بے بسی کا حال یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ثابت شدہ بات کے خلاف ایسی بات پیش کررہے ہیں جس کا ثابت ہونا یا باسند صحیح ہونا تو دور کی بات اس کی سرے سے کوئی سند ہی نہیں ہے ۔
اورموصوف نے اس بات کو بھی نظرانداز کردیا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے نزدیک ایک ثابت شدہ چیز پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایک چیز کاانکار بھی کیا ہے ۔ اورجب کوئی محدث کسی چیز کا انکار کرے تو اس کے جواب میں بے سند بات پیش کرنا بہت بڑا عجوبہ ہے ۔ محترم اگر آپ کو امام بخاری رحمہ اللہ کا انکار قابل قبول نہیں تو اس کے جواب میں کوئی باسند اور ثابت شدہ بات پیش کریں ، ایک بے سند اور بے اصل بات کو لیکر امام العلل امام بخاری رحمہ اللہ کے نقد وانکار کو چیلنج کرنا بہت بڑی جسارت اور غیرمحمود طرز عمل ہے۔

ثانیا: (قدیم حوالہ میں اس کے برعکس بات ):
امام ابن عبد البر رحمه الله (المتوفى463) کی وفات سے ایک سو چھیالیس (146) سال قبل وفات پانے والے امام ابو القاسم بغوي رحمه الله (المتوفى317) نے کہا:
بلغني أن أبا ذر كان ينزل المدينة فلما قتل عمر رضي الله عنه تحول إلى الشام ثم قدم المدينة على عهد عثمان رضي الله عنه
مجھ تک یہ بات پہونچی ہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ مدینہ میں قیام کیا کرتے تھے لیکن جب عمرفاروق رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو ابوذر رضی اللہ عنہ شام منتقل ہوگئے پھر عثمان رضی اللہ عنہ ہی کے دور میں دوبارہ شام میں آئے [معجم الصحابة للبغوي 1/ 533]۔
امام بغوی رحمہ اللہ کے اس قدیم قول سے معلوم ہوا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ کی شام منتقلی ابوبکررضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد نہیں بلکہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ہوئی ، اس قدیم حوالے کے بہت عرصہ بعد پیداہونے والے امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا حوالہ قطعا غیرمسموع ہے۔

ثالثا: (استیعاب ہی سے دوسرا حوالہ):
خود ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی اسی کتاب میں یہ بھی کہا کہ :
له حديث واحد، أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول: الجائر من الولاة تلتهب به النار التهابًا، في حديث ذكره اختصرته، رواه عنه أبو هلال مُحَمَّد بن سليم الراسبي، ذكره ابن أبي شيبة وغيره
بشر بن عاصم کی ایک روایت ہے جس میں اس نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے یہ روایت کرتاہے کہ ’’والیوں میں سے جو ظالم ہو گا وہ آگ میں بری طرح جلے گا‘‘ یہ اس کی روایت کردہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے میں نے مختصرذکرکیاہے۔ اس سے اس روایت کو ابوہلال محمدبن سلیم راسبی نے بیان کیا ہے ، اسے امام ابن ابی شیبہ وغیرہ نے نقل کیا ہے [الإستيعاب لابن عبد البر: 1/ 172]
عرض ہے کہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے ابن ابی شیبہ وغیرہ کی جس روایت کو مختصرا نقل کیا ہے اس میں اس بات کا ذکر ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ مدینہ ہی میں تھے نہ کہ شام میں ۔
ابن ابی شیبہ کی یہ روایت [مسند ابن أبي شيبة:2/ 87 ] میں ہے ۔
نیزاسی روایت کو عبد بن حمید نے دوسری سند سے روایت کیا ہے دیکھیں : [المنتخب من مسند عبد بن حميد ت صبحي السامرائي ص: 160رقم 430 ]۔
نیزامام بیہقی رحمہ للہ نے اسے ایک تیسری سند سے روایت کیا ہے دیکھیں:[شعب الإيمان 9/ 487]۔
نیز امام طبرانی رحمہ اللہ نے اسے ایک چھوتھی سند کے ساتھ روایت کیا ہے [المعجم الكبير للطبراني 2/ 38- 39 رقم 1219]۔
اس کے علاوہ اس کی اور بھی سندیں اور طرق ہیں ۔بلکہ یہ کتاب مسندرویانی میں بھی ہے جیساکہ ابن المبرد الحنبلي (المتوفى:909) نے ’’محض الصواب في فضائل أمير المؤمنين عمر بن الخطاب‘‘ میں ذکرکیا ہے۔

معلوم ہواکہ امام ابوذر رضی اللہ عنہ سے متعلق امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے دو متضاد بات ذکر کی ہے ایک جگہ بغیرکسی حوالہ کے یہ ذکر کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد یہ شام چلے گئے اور پھر عثمان رضی اللہ عنہ ہی کے دور میں واپس آئے جب کہ دوسری جگہ ایسی روایت کا حوالہ دیا جس میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ کو مدینہ ہی میں بتلایا گیا ہے ۔

رابعا: (بے سند کے خلاف باسند روایات):
وفات ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بعد ہی ابوذر رضی اللہ عنہ کے شام جانے سے متعلق ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے جو بات کہی ہے وہ بے سند وبے حوالہ ہے جبکہ دیگرباسند روایات میں یہ ملتاہے کہ ابوذر رضی اللہ عنہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینہ میں ہی تھے ۔ اس سلسلے کی ایک روایت کا حوالہ اوپر گذرچکاہے اس کے علاوہ :

امام أبو بكر محمد بن الحسين الآجُرِّيُّ رحمه الله (المتوفى360) نے کہا:
حدثنا أبو بكر عبد الله بن محمد بن عبد الحميد الواسطي قال: حدثنا هارون بن عبد الله البزاز قال: حدثنا سيار بن حاتم قال: حدثنا جعفر بن سليمان قال: حدثنا المعلى بن زياد , عن الحسن قال: بينما عمر بن الخطاب رضي الله عنه آخذا بيد أبي ذر رحمه الله إذ غمزها , فقال له أبو ذر: مه يا قفل الإسلام أوجعتني فقال: ما هذا يا أبا ذر؟ فقال: يا أمير المؤمنين , تذكر يوم كذا وكذا؟ يذكره إذ أقبلت فأشرفت على الوادي؛ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لن تصيبكم فتنة ما كان هذا بين أظهركم» فأنت قفل الإسلام يا عمر "[الشريعة للآجري: 4/ 1911 رقم 1388 ]۔

امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أخبرنا أبو غالب وأبو عبدالله ابنا البنا قالا أنا أبو الحسين بن الآبنوسي أنا أبو الطيب عثمان بن عمرو بن المنتاب نا يحيى بن محمد بن صاعد نا الحسين بن الحسن بن حرب نا ابن المبارك أنا رشدين بن سعد عن عبدالله بن الوليد عن وائل المدني أنه حدث عن نجدة وكان مولى لعمر بن الخطاب عن عمر أنه كان في سوق المدينة يوما فطأطأ رأسه فأخذ شق تمرة فمسحها من التراب ثم مر أسود عليه قربة فمشى إليه عمر وقال اطرح هذه في فيك فقال له أبو ذر ما هذه يا أمير المؤمنين قال هذه أثقل أو ذرة قال بل هذه أثقل من ذرة قال فهل فهمت ما أنزل الله في سورة النساء {إن الله لا يظلم مثقال ذرة وإن تك حسنة يضاعفها ويؤت من لدنه أجرا عظيما} كان بدء الأمر مثقال ذرة وكان عاقبته أجرا عظيما [تاريخ دمشق لابن عساكر: 44/ 314]۔

ان دونوں روایات میں ابوذر رضی اللہ عنہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ سے کہہ رہے ہیں کہ اے امیر المؤمنین ، اس سے پتہ چلا کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ مدینہ میں ہی تھے ۔

امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
أخبرنا يزيد بن هارون قال: أخبرنا أبو أمية بن يعلى عن سالم أبي النضر قال: لما كثر المسلمون في عهد عمر ضاق بهم المسجد فاشترى عمر ما حول المسجد من الدور ۔۔۔۔فجاء يقوده حتى أدخله المسجد فأوقفه على حلقة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيهم أبو ذر فقال: إني نشدت الله رجلا سمع رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يذكر حديث بيت المقدس حين أمر الله داود أن يبنيه إلا ذكره. فقال أبو ذر: أنا سمعته من رسول الله - صلى الله عليه وسلم[الطبقات لابن سعد: 4/ 15]۔

ان تمام روایات میں اس بات کاذکر ہے کہ ابوذ رضی اللہ عنہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مدینہ میں ہی تھے یہ تمام روایات گرچہ ضعیف ہیں لیکن باسند ہیں جبکہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی ذکردہ بات بے سند وبے اصل ہے لہٰذا یہ باسند روایات ابن عبدالبر کی ذکر کردہ بے سند بات سے زیادہ قوی ہیں ۔ اور زیادہ قوی ضعیف روایات کو بے اصل یا کم قوی روایات کے خلاف پیش کیا جاسکتا ہے جیساکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا ہے اور ایک مقام پر ایساکیا بھی ہے دیکھیں[سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة 1/ 580]

خامسا: (بے سند کے خلاف بسندصحیح روایت):
صرف باسند ہی نہیں بلکہ بعض صحیح سندوں سے بھی پتہ چلتاہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ مدینہ میں تھے چنانچہ:

امام حميدي رحمہ اللہ (المتوفى219) نے کہا:
ثنا سُفْيَانُ قَالَ: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَى آلِ طَلْحَةَ، وَحَكِيمُ بْنُ جُبَيْرٍ، سَمِعَاهُ مِنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَخْوَالِهِ مِنْ بَنِي تَمِيمٍ يُقَالَ لَهُ ابْنُ الْحَوْتَكِيَّةِ قَالَ: قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: مَنْ حَاضَرَنَا يَوْمَ الْقَاحَةِ إِذْ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَرْنَبٍ فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: أَنَا ۔۔۔
ابن حویتکہ کہتے ہیں کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یوم قاحہ کے موقع پر تم میں سے کون موجود تھا جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک خرگوش لایا گیا تھا؟ تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں [مسند الحميدي 1/ 227 اسنادہ صحیح و ابن الحوتكية ثقہ علی الراجح وصححہ ابن خزیمہ رقم 2127 و الضیاء فی الأحاديث المختار :1/ 421]۔
اس حدیث میں ہے کہ عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے چند صحابہ کے درمیان یہ سوال پیش کیا ، اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا کہ عہد خلافت ہی میں عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی کسی مجلس میں یہ سوال کیا اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دیا۔

سادسا: (ایک بے سند کے خلاف کئی باسند روایات):
ابن عبدالبرکی کتاب سے پیش کردہ بات بے سند ہونے کے ساتھ ساتھ صرف منفرد بات ہے جب کی دوسری طرف ایک سے زائد بلکہ بہت ساری باسند روایات ہیں جوپیش کردہ بات کے خلاف ہیں لہٰذا کثیرروایات میں جو بات ہے اس کے خلاف ایک منفرد اوربے سند بات کی کوئی حیثیت نہیں ۔

سابعا: (امام بخاری رحمہ اللہ کے موقف کی دیگر ائمہ سے تائید):
امام بخاری رحمہ اللہ نے جوبات کہی ہے وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک ثابت شدہ ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا موقف بھی ہے اوراس کے ساتھ ساتھ امام بیہقی رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے کمامضی، اس کے برعکس امام عبدالبر رحمہ اللہ کی کتاب سے استیعاب سے جو بات پیش کی گئی ہے اس سے دوسروں کا اتفاق تو دور کی بات خود ابن عبداالبر رحمہ اللہ کا بھی اس سے اتفاق ثابت نہیں کیونکہ تاریخی طورپرکوئی بات ذکرنے کا یہ مطلب قطعا نہیں کہ ذکرکرنے والے کا موقف بھی یہی ہے۔

ثامنا: (استیعاب سے پیش کردہ حوالہ کو کسی نے صحیح نہیں کہا):
امام ابن عبدالبررحمہ اللہ نے جوبات پیش کی ہے وہ اس کی صحت کے وہ قطعا قائل نہیں، بلکہ انہوں نے محض اسے بیان کیا ہے اور نہ تو اسے صحیح کہا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی استدلال کیا ہے۔ جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی بات کو بالجزم پیش کیا اور اس سے استدلال بھی کیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی نظر میں ان کی پیش کردہ بات صحیح ہے ۔
یاد رہے کہ امام بخاری کے ہزاروں سال بعد پیداہونے والے اس بات کا لحاظ کرتے ہیں حدیث پرکلام کرتے ہوئے جن باتوں کو بنیاد بنایا جائے وہ ثابت شدہ ہونا چاہئے تو کیا امام العلل امام بخاری رحمہ اللہ کو اتنی موٹی اور معمولی بات بھی معلوم نہ تھی ؟؟ کیا امام بخاری رحمہ اللہ سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ فضائل اعمال جیسے قصوں اور کہانیوں کو بنیاد بناکر کوئی فن حدیث میں کوئی حکم صادر کریں گے ؟؟

تاسعا: (فنی حیثیت اورتاریخی حیثیت سے ذکرکرنے کافرق):
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے جو ذکرکیاہے اسے محض تاریخی حیثیت سے ذکر کیا ہے جرح وتعدیل کا حکم صادر کرتے ہوئے فن حدیث کے طور پر یہ بات نہیں کہی ہے ۔
جبکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے فن حدیث کے اعتبار سے اپنی بات کہی ہے نہ کہ تاریخی لحاظ سے کوئی قصہ کہانی سنائی ہے ۔

عاشرا: (جمہورکا موقف):
محترم زبیرعلی زئی ہرجگہ جمہورکے فیصلہ کو ترجیح دیتے ہیں لیکن یہاں پر موصوف امام بخاری رحمہ اللہ کے فیصلہ کے خلاف ایسی بات کو ترجیح دے رہے ہیں جو جمہور تو دور کی بات ، چودہ سوہ سالہ دور میں کسی ایک کا بھی موقف نہیں ہے۔
یادرہے کہ استعیاب والی بے سند بات کو اگرہم ابن عبدالبررحمہ اللہ کا موقف بھی مان لیں(جوکہ قطعا ثابت نہیں) تو بھی یہ موقف امام العلل امام بخاری ، امام بیہقی اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے موقف کےخلاف ہونے کے سبب مردود ہے۔


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722

زیربحث روایت کے مردود ہونے کی تیسری وجہ

(ثقہ کی ایسی زیادتی جو قرائن کی روشنی میں مردود ہیں)​



کسی بھی روایت کی محض ظاہری سند دیکھ کر یا اس کے دیگر طرق سے صرف نظر کرتے ہوئے صرف ایک ہی طریق کو سامنے رکھ کر حکم لگانا متقدمین کے منہج کے سراسر خلاف ہے ، یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آج کوئی شخص صرف ایک حدیث کو سامنے رکھ کر فتوی دینے لگ جائے ۔

جب ہم روایت مذکورہ کی تمام اسانید کو سامنے رکھتے ہیں تو معلوم ہوتا کہ ابوالعالیہ اور ابوذر کے بیچ سے ایک روای ساقط ہے عبدالوہاب کے علاوہ تمام رواۃ نے اس سند کو انقطاع کے ساتھ بیان کیا ملاحظہ ہو:

هوذة بن خليفة الثقفي:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
أخبرنا أبو الحسن علي بن أحمد بن عبدان، أخبرنا أحمد بن عبيد الصفار، حدثنا محمد بن العباس المؤدب، حدثنا هوذة بن خليفة حدثنا عوف عن أبي خلدة عن أبي العالية قال لما كان يزيد بن أبي سفيان أميرا بالشام غزا الناس فغنموا وسلموا فكان في غنيمتهم جارية نفيسة فصارت لرجل من المسلمين في سهمه فأرسل إليه يزيد فانتزعها منه وأبو ذر يومئذ بالشام قال:فاستغاث الرجل بأبي ذر على يزيد فانطلق معه فقال ليزيد: رد على الرجل جاريته- ثلاث مرات- قال أبو ذر: أما والله لئن فعلت، لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية ثم ولى عنه فلحقه يزيد فقال أذكرك بالله: أنا هو قال: اللهم لا ورد على الرجل جاريته [دلائل النبوة للبيهقي 6/ 467]

امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
حَدَّثَنَا هَوْذَةُ بْنُ خَلِيفَةَ ، عَنْ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِي خَلْدَةَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةَ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : أَوَّلُ مَنْ يُبَدِّلُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ.[مصنف بن أبي شيبة ت عوامة: 19/ 554 ، دلائل النبوة للبيهقي: 6/ 467]۔

معاذ بن معاذ العنبري:
امام ابن أبي عاصم (المتوفى: 287) نے کہا:
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّه بْنُ مُعَاذٍ، ثنا أَبِي، ثنا عَوْفٌ، عَنِ الْمُهَاجِرِ بْنِ مَخْلَدٍ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، أَنَّهُ قَالَ لِيَزِيدَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّه صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَوَّلُ مَنْ يُغَيِّرُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ»[الأوائل لابن أبي عاصم ص: 77]۔

سفيان بن عيينة الهلالي:
امام أبو نعيم رحمه الله (المتوفى430)نے کہا:
أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ النَّيْسَابُورِيُّ فِي كِتَابِهِ إِلَيَّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ سَلْمٍ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ أَبَانَ الْأَصْبَهَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، ثنا سُفْيَانُ، عَنْ عَوْفٍ، عَنْ خَالِدٍ أَبِي الْمُهَاجِرِ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ، قَالَ: كُنَّا بِالشَّامِ مَعَ أَبِي ذَرٍّ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَوَّلُ رَجُلٍ يُغَيِّرُ سُنَّتِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي فُلَانٍ» فَقَالَ يَزِيدُ: أَنَا هُوَ؟ قَالَ: لَا[تاريخ أصبهان = أخبار أصبهان 1/ 132]۔

سعيد بن عبدالكريم بن سليط :
امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
أخبرنا أبو الفضل أحمد بن منصور بن بكر بن محمد أنا جدي أنبأ أبو بكر أحمد بن محمد بن عبدوس الحيري إملاء أنا أبو الحسين عبد الصمد بن علي بن مكرم البزاز ببغداد نا أحمد بن محمد بن نصر ثنا سري بن يحيى نا سعيد بن عبدالكريم بن سليط أنه سمع عوف بن أبي جميلة يحدث عن المهاجر أنه حدث أبو العالية قال لما كان زمن يزيد بن أبي سفيان بالشام غزا الناس فغنموا وكانت في غنائمهم جارية نفيسة فصارت لرجل في قسمه فأرسل إليه يزيد فانتزعها وأبو ذر يومئذ بالشام فاستعان الرجل بأبي ذر فانطلق معه فقال رد على الرجل جاريته فتلكأ يزيد فقال أما والله لئن فعلت لقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية ثم ولى فلحقه فقال أذكرك الله أهو أنا قال اللهم لا فرد على الرجل جاريته
[تاريخ دمشق لابن عساكر: 65/ 250]۔

النضر بن شميل المازني:
أخبرني أحمد بن شعيب قال : أنبأ سليمان بن سلم قال : أنبأ النضر بن شميل قال : أنبأ عوف ، عن أبي المهاجر ، عن أبي خالد ، عن رفيع أبي العالية قال : قال أبو ذر : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : « إن أول من يبدل سنتي رجل من بني أمية »[الكنى والأسماء للدولابي 3/ 363 ]۔


مؤخرالذکر تین رواۃ تک سند کمزور ہے لیکن اوپر کے دو رواۃ سے ثابت ہے کہ انہوں نے روایت مذکورہ کو منقطع بیان کیا ہے پھر ان دونوں کے ساتھ مل کر بقیہ رواۃ کا بیان بھی درست ثابت ہوتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتاہے کہ ابن عساکر کی زیر نظر روایت میں رویانی کے شیخ عبدالوہاب سے سند بیان کرنے میں غلطی ہوئی ہے انہوں نے منقطع روایت کو موصول بیان کردیا ہے ۔


حدیث کے تمام طریق کو یکجا کرنے کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کی اسی روایت کو ’’ابوالعالیہ‘‘ سے ’’عبدالوہاب‘‘ کے ساتھ ساتھ ابوالعالیہ کے دیگر شاگردوں نے بھی بیان کیا ہے اور عبدالوہاب کے علاوہ کسی بھی شاگرد نے اپنے استاذ کے حوالہ سے اس روایت کو متصل نہیں بیان کیا ہے بلکہ سارے شاگردوں نے اپنے استاذ ابوالعالیہ سے اسی روایت کو منقطع ہی بیان کیا ہے ۔
اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اس روایت کی اصلی شکل کیا ہے ؟ اور واقعی معنوں میں ابوالعالیہ نے اس روایت کو کس طرح بیان کیا ؟ منقطع یا متصل؟؟ اورعبدالوہاب گرچہ ثقہ ہیں لیکن موصوف نے متصل بیان کرکے سند میں جو اضافہ وزیادتی کی ہے اس کا کیا حکم ہے؟؟؟

تو اس طرح کی صورت حال میں محدثین قرائن دیکھتے ہیں اگرقرائن اس بات کی تائید کریں کہ روایت کی اصلی شکل وصل ہی کی ہے تو روایات کے متصل وموصول ہونے کو راجح قرار دیا جاتا ہے اور اگر قرائن سے اس بات کی تائید ہو کہ روایت کی اصلی شکل منقطع ہے توروایت کے منقطع ہونے ہی کو راجح قرار دیا جاتا ہے تمام متقدمین محدثین کا یہی اصول ہے ، بلکہ متاخرین اور معاصرین میں بھی سب کا یہی موقف ہے ہمیں ابن حزم اور بعض فقہاء کے علاوہ محدثین کی جماعت میں بالخصوص متقدمین میں کوئی ایک بھی ایسا نام نہیں ملا جس کا یہ صریح موقف ہو کہ ثقہ کی زیادتی علی الاطلاق مقبول ہوگی ، بعض لوگ امام ابن حبان ، خطیب بغدادی اور ایک دو نام پیش کرتے ہیں لیکن ان ائمہ کی تمام عبارتیں دیکھنے سے معلوم ہوتاہے کہ یہ لوگ بھی علی الاطلاق زیادتی ثقہ کی قبولیت کے قائل نہیں ہیں۔اس بابت پوری تفصیل ہم پیش کریں گے قارئین منتظر رہیں ۔

الغرض یہ کہ زیادتی ثقہ کے قبول و رد کے لئے قرائن کا اعتبار ہوگا اگرقرائن زیادتی ثقہ کے قبولیت کے حق میں ہو تو زیادتی ثقہ مقبول ہوگی ورنہ اگر قرائن زیادتی ثقہ کے مردود ہونے پر دلالت کریں تو زیادتی ثٖقہ کو رد کردیا جائے گا ۔
اب محدثین کے اس اصول کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم زیربحث روایت سے متعلق قرائن دیکھتے ہیں تو یہاں پرزیادتی ثقہ کے مردود ہونے پر ہی قرائن دلالت کرتے ہیں ۔
ذیل میں ان قرائن کی تفصیل پیش خدمت ہے:


پہلا قرینہ: ثقہ متکلم فیہ کا ثقہ غیرمتکلم فیہ کے خلاف بیان کرنا:
ابوالعالیہ کے شاگردوں میں صرف ایک شاگرد ’’عبدالوہاب‘‘ نے اپنے انہیں استاذ سے اس روایت کو موصول بیان کیا اوریہ گرچہ ثقہ ہیں لیکن ان پرجرح ہوئی ہے یعنی یہ متکلم فیہ ہیں اور ان کے برعکس ابوالعالیہ ہی سے ان کے جن دیگرشاگردوں نے اس روایت کو منقطع بیان کیا ہے ان میں ان میں بخاری ومسلم اورسنن اربعہ کے راوی معاذ بن معاذ العنبري بھی ہیں اور زبردست ثقہ اور متقن ہیں ۔

حافظ ابن حجر رحمه الله نے ان سے متعلق ناقدین کے اقوال کاخلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا:
معاذ بن معاذ بن نصر بن حسان العنبري أبو المثنى البصري القاضي ثقة متقن من كبار التاسعة ع
معاذبن معاذ نصر بن حسان عنبری ابومثنی بصری قاضی یہ ثقہ اور متقن ہیں اور نویں طبقہ کے کبار لوگوں میں سے ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم6740]۔
جبکہ عبدالوہاب ثقفی کے بارے میں ناقدین کے اقوال کاخلاصہ پیش کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے کہا:
عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفي أبو محمد البصري ثقة تغير قبل موته بثلاث سنين من الثامنة ع
عبدالوہاب بن عبدالمجیدبن صلت ثقفی ابو محمدبصری یہ ثقہ ہیں ان کی وفات سے تین سال قبل ان کے حافظہ میں تغیر واقع ہوگیا تھا یہ آٹھویں طبقہ کے ہیں[تقريب التهذيب لابن حجر: رقم4261]۔
معلوم ہوا کہ کتب ستہ کے راوی عبدالوہاب ثقہ متکلم فیہ نے کتب ستہ کے راوی معاذبن معاذ عنبری ثقہ متقن بالاتفاق کے خلاف روایت کیا ہے لہذا زیادتی ثقہ کے مسئلہ میں یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ عبدالوہات کی روایت رد ہونی چاہئے۔

دوسرا قرینہ: اکثر کی مخالفت:
ابوالعالیہ کے شاگردوں میں سب کے سب نے اس روایت کو اپنے شیخ کے حوالے سے منقطع ہی بیان ہے اور اس کے برعکس صرف اور صرف ایک ہی شاگرد ’’عبدالوہاب‘‘ نے اسے موصول یعنی متصل بیان کرکے سند میں اضافہ کیا ہے اور اس اضافہ میں ان کا تنہا ہونا اور ابوالعالیہ کے اکثر شاگردوں کا اپنے استاذ کے حوالہ سے اسے بالاتفاق منقطع بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اس روایت کی اصلی شکل منقطع ہی ہے کیونکہ اکثریت کے متفقہ بیان میں غلطی کا احتمال نہیں رہتا جب کہ ایک اکیلا شخص بیان میں غلطی کرسکتاہے۔
امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
فإن كان الثَّبْتُ أرسَلَه مثلاً والواهي وصَلَه، فلا عبرة بوصلِه لأمرين: لضعفِ راويه، ولأنه معلولٌ بإرسال الثَّبْت له.ثم اعلمْ أنَّ أكثَرَ المتكلَّمِ فيهم ما ضعَّفهم الحُفَّاظُ إلا لمخالفتهم للأثبات. وإن كان الحديثُ قد رَوَاه الثَّبْتُ بإسنادٍ، أو وَقَفَه، أو أَرسَلَه، ورفقاؤه الأثباتُ يُخالفونه: فالعِبرةُ بما اجتَمَع عليه الثقاتُ، فإنَّ الواحد قد يَغلَط. وهنا قد ترجَّح ظهورُ غَلَطِه، فلا تعليل، والعِبرةُ بالجماع
اگرثقہ وثبت کسی حدیث کومرسل بیان کرے اور ضعیف راوی اسے موصول بیان کرے تو دو اسباب کی بناپر موصول کا اعتبار نہیں ہوگا ایک یہ کہ موصول بیان کرنے والا راوی ضعیف ہے اور دوسرے یہ کہ ثقہ وثبت کے مرسل بیان کرنے کی وجہ سے موصول والا بیان معلول ہے، اور یہ بات جان لیں کہ اکثر وہ رواۃ جن پر کلام کیا گیا ہے تو حفاظ نے انہیں اسی لئے ضعیف کہا کیونکہ انہوں نے ثقات واثبات کی مخالفت کی ۔اوراگرکسی حدیث کو ثقہ وثبت نے مسند یا موقوف یا مرسل بیان کیا لیکن اس کے دیگرثقہ وثبت ساتھی اس کی مخالفت کریں تو اعتبار اس سند کا ہوگا جس پر ایک جماعت متفق ہے کیونکہ ایک شخص سے غلطی بھی ہوسکتی ہے اوریہاں غلطی کاظاہر ہونا ہی راجح ہے لہٰذا یہاں تعلیل کی ضرورت نہیں بلکہ یہاں جماعت( کے بیان) کا اعتبار ہوگا[الموقظة في علم مصطلح الحديث ص: 52]
تیسراقرینہ: متن میں نکارت:
کسی روایت میں نکارت کا ہونا بھی ایک قرینہ ہے کہ اس کے پیش نظر متعلقہ روایت کی اس سند کو ترجیح دی جائے جس سے روایت مردود ثابت ہو اور جس سند سے روایت صحت تک پہنچ رہی ہے اس سندکرمنکرقراردیا جائے، آئیے اس کی ایک مثال امام ترمذی رحمہ اللہ کی زبانی دیکھتے ہیں:

امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
حدثنا قتيبة قال: حدثنا نوح بن قيس الحداني، عن عمرو بن مالك، عن أبي الجوزاء، عن ابن عباس، قال: «كانت امرأة تصلي خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم حسناء من أحسن الناس، فكان بعض القوم يتقدم حتى يكون في الصف الأول لئلا يراها، ويستأخر بعضهم حتى يكون في الصف المؤخر، فإذا ركع نظر من تحت إبطيه»، فأنزل الله تعالى {ولقد علمنا المستقدمين منكم ولقد علمنا المستأخرين} [الحجر: ٢٤] ": وروى جعفر بن سليمان، هذا الحديث عن عمرو بن مالك، عن أبي الجوزاء، نحوه، «ولم يذكر فيه عن ابن عباس وهذا أشبه أن يكون أصح من حديث نوح»
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھا کرتی تھی وہ بہت حسین بلکہ حسین ترین لوگوں میں سے تھی۔ بعض لوگ پہلی صف میں نماز پڑھنے کے لئے جاتے تاکہ اس پر نظر نہ پڑے جب کہ بعض لوگ پچھلی صفوں کی طرف آتے تاکہ اسے دیکھ سکیں۔ چنانچہ وہ جب رکوع کرتے تو اپنی بغلوں کے نیچے سے دیکھتے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِيْنَ مِنْكُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِيْنَ) 15۔ الحجر : 24) (اور ہمیں تم میں سے اگلے اور پچھلے سب معلوم ہیں اور بے شک تیرا رب ہی انہیں جمع کرے گا۔ بے شک وہ حکمت والا خبردار ہے۔) جعفر بن سلیمان یہ حدیث عمرو بن مالک سے وہ ابوجوزاء سے اسی طرح نقل کرتے ہیں لیکن اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں اوریہ روایت زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے کہ نوح کی روایت سے زیادہ درست ہو[سنن الترمذي ت شاكر 5/ 296]
اس حدیث کو عمروبن مالک النکری سے دو لوگوں نے روایت کیا ہے۔

  • اول: نوح بن قیس
  • دوم: جعفربن سلیمان

ان دونوں میں ’’نوح بن قیس‘‘ نے اس روایت کو موصول بیان کیا ہے لیکن ’’جعفربن سلیمان‘‘ نے اس روایت کومرسل بیان کیا ہے جیساکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے نقل کیا ۔
یہاں پر یہ دونوں رواۃ ایک ہی حدیث کو دوطرح بیان کررہے ہیں ایک مرسل بیان کررہا ہے اور ایک موصول ۔
لیکن امام ترمذی رحمہ اللہ یہاں پر مرسل روایت ہی کو ترجیح دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
وروى جعفر بن سليمان، هذا الحديث عن عمرو بن مالك، عن أبي الجوزاء، نحوه، «ولم يذكر فيه عن ابن عباس وهذا أشبه أن يكون أصح من حديث نوح»
یعنی جعفربن سلیمان نے اس حدیث کو عمروبن مالک النکری عن ابی الجوزاء کے طریق سے انہیں الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے لیکن اس نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا واسطہ ذکر نہیں کیا ہے اوریہ روایت زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے کہ نوح کی روایت سے زیادہ درست ہو [سنن الترمذي ت شاكر 5/ 296]
غورکریں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ یہاں پر فرمارہے ہیں ’’هذا أشبه أن يكون، اوریہ روایت زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے کہ ۔۔‘‘
سوال یہ ہے کہ ’’جعفربن سلیمان‘‘ کی مرسل روایت کیوں زیادہ مناسب للصواب معلوم ہوتی ہے ؟ کون سا قرینہ ہے جس کی بنیاد پر امام ترمذی رحمہ اللہ ’’جعفربن سلیمان‘‘ کی ارسال والی روایت کو مناسب للصواب قرار دے رہے ؟؟
اس روایت کو مرسل بیان کرنے والا جعفربن سلیمان ثقاہت میں بھی ، موصول بیان کرنے والے نوح بن قيس سے بڑھ کرنہیں بلکہ حفظ وضبط وثقاہت میں اس سے کمتر ہی ہے ، اس کے باوجود بھی امام ترمذی رحمہ اللہ نے موصول بیان کرنے والے اوثق راوی کے بالمقابل مرسل بیان کرنے والے ثقہ کی روایت کیوں رد کی ؟؟
صاف ظاہر ہے کہ اس متن کی شدید نکارت ہی پیش نظر ہے جس کی بنیاد پر اس متن سے جڑی مرسل سند کو امام ترمذی رحمہ اللہ درست بتلارہے ہیں کیونکہ مرسل ضعیف ہوتی ہے اور اس روایت کے اندر موجود شدید نکارت کودیکھتے ہوئے اس کا مرسل یعنی ضعیف ہونا ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔

امام ابن كثير رحمه الله (المتوفى774)نے کہا:
وهذا الحديث فيه نكارة شديدة، وقد رواه عبد الرزاق، عن جعفر بن سليمان، عن عمرو بن مالك وهو النكري أنه سمع أبا الجوزاء يقول في قوله: { وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِينَ مِنْكُمْ } في الصفوف في الصلاة { وَالْمُسْتَأْخِرِينَ } فالظاهر أنه من كلام أبي الجوزاء فقط، ليس فيه لابن عباس ذكر وقد قال الترمذي: هذا أشبه من رواية نوح بن قيس ۔
اس حدیث میں شدید نکارت ہے اور عبدالرزاق نے اسے جعفربن سلیمان عن عمروبن مالک النکری کے طریق سے روایت کیا اس نے ابوالجوزاء کو یہ تفسیر کرتے ہوئے سنا ہے ۔ پس ظاہر یہی ہے کہ یہ صرف ابوالجوزاء کا کلام ہے ، اور اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں ہے اور امام ترمذی رحمہ اللہ نے کہا: یہ روایت زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے کہ نوح کی روایت سے زیادہ درست ہو [تفسير ابن كثير / دار طيبة 4/ 532]
اس مثال کے بعد عرض ہے کہ زیربحث روایت میں بھی شدید بلکہ شدید سے شدید تر نکارت ہے اوروہ یہ کہ ایک جلیل القدر صحابی رسول یزیدبن بی سفیان رضی اللہ عنہ جو کہ اسلامی فوج کے کمانڈر تھے ان پرحسن پرستی اور اسی کی خاطر کسی اور کی لونڈی غصب کرنے کا بے ہودہ الزام اور انتہائی گھٹیا تہمت لگائی گئی ہے یہ کوئی معمولی تہمت نہیں کیونکہ یہ تہمت ایک جلیل القدر صحابی پر اس وقت لگ رہی ہے جب وہ جہاد جیسے مقدس فریٍضہ کی ادائیگی میں تھے نیز ایک عام مجاہد نہیں بلکہ مجاہدین کے امیراورکمانڈرتھے ۔غورکریں کہ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیرتربیت رہنے والے جلیل القدر صحابی اور جنہیں عمرفاروق رضی اللہ عنہ جیسے گوہر شناس نے فوج کا کمانڈر منتخب کیا ہو ، کیا ایسے معتمد اور ذمہ دار صحابی سفر جہاد جیسے مقدس فریضہ کی راہ میں نہ صرف یہ کہ حسن پرستی پر آمادہ ہوں بلکہ اس کی خاطر دوسرے کی لونڈی بھی ہڑپ کرلینے میں کوئی عار محسوس نہ کریں بلکہ مظلوم کے گرگڑانے پربھی یہ ہوش میں نہ آئیں حتی کہ ایک دوسرے صحابی انہیں تین تین بار سمجھائیں پھر بھی ان کی آنکھ نہ کھلے اور معاملہ اس وقت قابو میں آئے جب انہیں کے ہم نام ’’یزید‘‘ سے متعلق ایک خوفناک حدیث پیش کی جائے ۔ لاحوال ولاقوہ الاباللہ۔

یہ پورا سیاق چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یہ من گھڑت کہانی ہے کسی سبائی درندے اور اسلام کے دشمن نے اسے اسلامی فوج اور بالخصوص بنوامیہ کو بدنام کرنے کے گھڑا ہے اور اپنی عاقبت برباد کی ہے ۔

الغرض یہ کہ متن کی یہ نکارت بھی اس بات کا قرینہ ہے کہ اس کی اس سند کو ترجیح دی جائے جس سے اس روایت کا مردود ہونا ثابت ہوتا ہے غور کریں کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے محض نماز میں جھانکنے والی بات میں نکارت دیکھ کر مردود ثابت کرنے والی سند کو ترجیح دی تو یہاں تو معاملہ صرف جھانکے کا نہیں بلکہ چھیننے اور غصب کرنے کا بھی ہے اور وہ اسلامی فوج کے کمانڈر کا۔ لہٰذا یہاں تو بدرجہ اولی زیربحث روایت کرمردود بنانے والی سند کو ترجیح ملنی چاہئے۔

تنبیہ :
محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے اس روایت کے اندر موجود اس شدید نکارت اورگھٹیا بات پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ کیا کہ ’’اغتصب‘‘ کاترجمہ جان بوجھ کر ’’قبضہ میں لینے سے کیا‘‘ ہم نے پہلی بار گرفت کی تو ہمیں یہ جواب ملا کی لغت کے اعتبار سے یہ ترجمہ درست ہے اور مثال میں لفظ’’ کذب‘‘ کو پیش کیا کہ یہ ’’خطاء‘‘ کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے ۔
اس پر ہم نے ’’کذب‘‘ سے متعلق اہل لغت کی تصریح پیش کی اور بتلایا کہ کذب کے بارے میں تو اہل لغت کی تصریحات موجود ہیں اور اس کی مثالیں بھی موجود ہیں لیکن ’’اغتصب‘‘ قبضہ میں لینے کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے یہ عجوبہ لغت کی کون سی کتاب میں ہے ؟ ہمارے اس مطالبہ کا جواب دینے سے موصوف عاجز وساکت رہے اس لئے اپنی بات بدل دی اور یہ کہا کہ صحابی کے احترام میں موصوف نے ترجمہ میں یہ تبدیلی کی ، حالانکہ اس عذر کا بے تکا ہونا بالکل واضح ہے پھر بھی معلوم نہیں موصوف کس مشکل میں ہیں کہ اس طرح کے بے تکی اور واضح طورپر مہمل بات کہنے پر بھی خود کو مجبور پاتے ہیں ؟
اس کی مزید وضاحت ہم آگے کریں گے ۔

چوتھا قرینہ: امام بخاری کی تعلیل:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت پر تنقید کی ہے اور اسے مردود قرار دیا ہے اس کا بھی تقاضہ ہے کہ اس کی اس سند کو ترجیح دی جائے جس سے یہ روایت مردود ثابت ہوتی ہے۔


پانچواں قرینہ تلقی بالرد:
اس روایت کو تلقی بالرد حاصل ہے کیونکہ عصرحاضر سے قبل کسی بھی دور میں اس روایت کو کسی نے صحیح یاحسن نہیں کہا ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر تنقید کی اس کے خلاف پوری دنیائے علم میں سے کسی نے ایک حرف بھی نہیں کہا بلکہ متعدد محدثین اسے مردود ہی قراردیتے رہے اور متاخرین میں امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی امام بخاری رحمہ اللہ کی جرح کو دہرایا اور اس روایت کو موضوع اورمن گھڑت قرار دیا اس پر بھی پوری دنیائے علم خاموش رہی کسی نے اس کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا بلکہ ایک دوسرے مورخ ابن طولون نے امام بخاری و ابن کثیر رحمہ اللہ کی بات کو بھی قید الشرید میں نقل کیا اس پر بھی کسی جانب سے کوئی تنقید نہ ہوئی۔
اورلطف کی بات یہ ہے کہ متاخرین میں سے کئی ایک نے یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کے خلاف منفی باتیں نقل کی ہیں بلکہ بعض مخالفین نے تو کافی زہر اگلا ہے لیکن کسی ایک نے اس روایت کو صحیح یا حسن ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اس پر جرح کرنے والوں کا جواب دیا ۔
یہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ اس روایت کی وہی سند راجح ہے جس سے یہ مردود قرائے پائے ۔
واضح رہے کہ بعض محدثین کسی روایت کے مردودہونے کے لئے یہ قرینہ بھی پیش کرتے ہیں مشہور کتب احادیث کے مؤلفین نے روایت ہی نہیں کیا چنانچہ ایک روایت میں علی رضی اللہ عنہ کے لئے سورج کو لوٹانے کی بات ہے ، اس روایت کو مردود ثابت کرنے کے لئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ بھی کہا:
وَهَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ فِي شَيْءٍ مِنْ كُتُبِ الْحَدِيثِ الْمُعْتَمَدَةِ: لَا رَوَاهُ أَهْلُ الصَّحِيحِ وَلَا أَهْلُ السُّنَنِ وَلَا الْمَسَانِدِ أَصْلًا ، بَلِ اتَّفَقُوا عَلَى تَرْكِهِ وَالْإِعْرَاضِ عَنْهُ، فَكَيْفَ يَكُونُ مِثْلُ هَذِهِ الْوَاقِعَةِ الْعَظِيمَةِ، الَّتِي هِيَ لَوْ كَانَتْ حَقًّا مِنْ أَعْظَمِ الْمُعْجِزَاتِ الْمَشْهُورَةِ الظَّاهِرَةِ، وَلَمْ يَرْوِهَا أَهْلُ الصِّحَاحِ وَالْمَسَانِدِ، وَلَا نَقَلَهَا أَحَدٌ مِنْ عُلَمَاءِ الْمُسْلِمِينَ وَحُفَّاظِ الْحَدِيثِ، وَلَا يُعْرَفُ فِي شَيْءٍ مِنْ كُتُبِ الْحَدِيثِ الْمُعْتَمَدَةِ! [منهاج السنة النبوية 8/ 177]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
تیسری وجہ رد سے متعلق محترم زبیرعلی زئی کے اشکالات کا ازالہ


روایت مذکورہ کے مردود ہونے کی جو تیسری وجہ پیش کی گئی ہے اس سے متعلق محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے جو اشکالات پیش کئے ہیں ان کاخلاصہ درج ذیل ہے۔


  • زیادتی ثقہ مقبول ہوتی ہے۔
  • متن میں کوئی نکارت نہیں ہے۔
  • ابوالعالیہ نے سماع کی صراحت کردی ہے۔
  • عبدالوہاب ثقفی کا متکلم فیہ ہونا مضر نہیں ہے۔


اب اگلی سطور میں ان تمام اشکالات کے جوابات ملاحظہ ہوں:


جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top