• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسول اللہ ﷺ کی سنت کو بدلنے والا : یزید، یہ روایت موضوع اورمن گھڑت ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
سبقت قلم کی غلطی پر حافظ موصوف کی گرفت

۶)محترم کفایت اللہ سنابلی حفظہ اللہ نے لکھا ہے:
’’ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ابو مسلم کے سماع کا کوئی ثبوت قطعاً نہیں ‘‘
عرض ہے کہ ثبوت تو حسن لذاتہ سند کے ساتھ مسند احمد (۵/ ۱۷۹) اور مختصر قیام اللیل للمروزی (ص ۷۸) وغیرہما میں موجود ہے اور امام بخاری نے بھی فرمایا ہے کہ ابو مسلم نے ابو ذر (رضی اللہ عنہ) سے سنا ہے۔ (کتاب الکنیٰ ص ۶۸)
لہٰذا سماع کے انکار کا دعویٰ باطل ہے اور امام بخاری کے ارشاد سے یہی ظاہر ہے کہ امام بخاری بھی اسے ثابت سمجھتے تھے۔

یہ سبقت قلم کی غلطی تھی ، جلد بازی میں ’’ابولعالیہ ‘‘ کی جگہ ’’ابومسلم‘‘ تحریر ہوگیا جیساکہ سیاق وسباق مکمل اس پر دلالت کرتا ہے ، اصل عبارت یوں ہے:
’’’’ اور ابو ذر رضی اللہ عنہ سے ابو العالیہ کے سماع کا کوئی ثبوت قطعاً نہیں ‘‘

اس بارے میں ناچیز نے اپنی پوری وضاحت درج ذیل موضوع میں پیش کردی ہے ، قارئین ملاحظ فرمالیں۔




جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
زیربحث راویت سے متعلق محدثین کا فیصلہ


۷)اگر کوئی کہے کہ ’’ اور ان کے فیصلہ کے بر خلاف متقدمین محدثین نے بالاتفاق اس روایت کو مردود قرار دیا ‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے علم کے مطابق متقدمین محدثین میں سے کسی ایک نے بھی اس روایت کو مردود قرار نہیں
بڑی عجیب بات ہے !!!
کیا امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو مردود قرار نہیں دیا ؟؟
قارئیں امام بخاری رحمہ اللہ سے متعلق گذشتہ سطور کامطالعہ کریں۔

بلکہ متاخرین میں سے صرف حافظ ابن کثیر نے منقطع ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے، جو کہ مذکور سند متصل ہونے کی وجہ سے غلط ہے۔
صرف اشارہ نہیں کیا ہے بلکہ صراحۃ موضوع اور من گھڑت قرار دیاہے تفصیل گذرچکی ہے۔

بعض علماء نے صحیح مسلم کی بعض روایات کو منقطع قرار دیا ہے تو کیا ہم ان روایات کو مردود قرار دیں گے؟ ! ہر گز نہیں، بلکہ اصولِ حدیث و اصولِ محدثین کو ترجیح دیں گے اور اس طرح صحیح بخاری و صحیح مسلم کی کوئی حدیث ضعیف و مردود ثابت نہیں ہوتی ، بلکہ صحیح یا حسن ہی رہتی ہے۔
جی اصول حدیث اور اصول محدثین ہی روشنی میں ہم اس روایت کو باطل و من گھڑت کہتے ہیں ۔
اوراگرمحدثین کے اصول سے کسی کا فیصلہ غلط ثابت ہوجائے تو ہم اس سے برات ظاہر کریں گے لیکن آپ زیربحث روایت سے متعلق محدثین کا فیصلہ پہلے غلط تو ثابت کریں ۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
رمتني بدائها وانسلت

۸)ایک شخص نے معجم المختلطین کے حوالے سے امام فلاس کی طرف منسوب ایک قول :
’’ إنہ اختلط حتی کان لا یعقل ، و سمعتہ وھو مختلط یقول : ثنا محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان باختلاط شدید . ‘‘ پیش کر کے لکھا ہے :
’’اس سے تو پتہ چلتا ہے کہ اختلاط کے بعد بھی انہوں نے روایت کیا ہے، بہر حال یہ بے سند اور عصر حاضر کے مولف کی کتاب ہے لہٰذا مردود ہے۔ ‘‘
اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں یہ قول باسند صحیح نہیں ملا
اور اگر یہ باسند صحیح ثابت ہو جائے تو اس سے یہی ظاہر ہے کہ امام عبد الوہاب الثقفی کا آخری عمر میں دماغ خراب ہو گیا تھا۔
اس مناسبت سے حافظ ذہبی کا ایک قول پیشِ خدمت ہے:
حافظ ذہبی نے امام ابن خزیمہ کے پوتے اور صحیح ابن خزیمہ کے راوی محمد بن الفضل بن محمد کے بارے میں فرمایا:
’’ قلت: ما أراھم سمعوا منہ إلا في حال وعیہ ، فإن من زال عقلہ کیف یمکن السماع منہ ؟ بخلاف من تغیر و نسي وانھرم .‘‘
میں نے کہا : میں یہی سمجھتا ہوں کہ انھوں نے ان کے حافظے کے دور میں ہی ان سے سنا ہے، کیونکہ جس کی عقل زائل ہو جائے تو اس سے سماع کس طرح ممکن ہے؟ برخلاف اس کے جو تغیر کا شکار ہو ، بھول جائے (یا) بوڑھا ہو جائے۔ ( سیر اعلام النبلاء ۱۶/ ۴۹۰)
یہ بھی عجیب لطیفہ ہے !
سب سے پہلے ناچیز ہی پر معجم المختلطین کا رعب ڈالنے کی کوشش کی گئی ، لیکن جب ہم نے اس مرجع کی حقیقت بیان کی تو یوں جواب دیا جارہا ہے گویا کہ ہم نے ہی معجم المختلطین کا حوالہ پیش کرنے میں پہل کی ہو۔

قارئین میں یہ واضح کردوں کہ سب سے پہلے ناچیز کو اسی کتاب کے حوالہ سے یہ جواب دیا گیا:
عبد الوهاب بن عبد المجيد بن الصلت الثقفي صحیح بخاری و صحیح مسلم کے راوی ہیں نیز ان پر جو مختلط ہونے کی جرح کی گئی ہے وہ چنداں مضر نہیں کیونکہ انہوں نے اختلاط کے بعد کچھ روایت نہیں کیا جیسا کہ حافظ ذہبی اور دیگر محدثین نے صراحت کی ہے (ملاحظہ ہو ’’المعجم المختلطین‘‘ ص۲۲۰)
اس پر ہم نے کہا:
رہا معجم المختلطین کا حوالہ تو یہ بے سند ومردود ہے کیونکہ عصر حاضر کی کتاب ہے ، نیز اسی کتاب کے صفحۃ پر ہے:
وَيَخْدِشُ فِيهِ قَوْلُ الْفَلَّاسِ: إِنَّهُ اخْتَلَطَ حَتَّى كَانَ لَا يَعْقِلُ، وَسَمِعْتُهُ وَهُوَ مُخْتَلِطٌ يَقُولُ: ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ بِاخْتِلَاطٍ شَدِيدٍ، وَلَعَلَّ هَذَا كَانَ قَبْلَ حَجْبِهِ[ المعجم المختلطین: ص220 ]۔
اس سے تو پتہ چلتا ہے کہ اختلاط کے بعد بھی انہوں نے روایت کیا ہے، بہرحال یہ بے سند اور عصرحاضر کے مولف کی کتاب ہے لہٰذا مردود ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یعنی ہم نے معجم المختلطین کی مذکورہ بات کا حوالہ بطور الزام دیا تھا اور ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس کتاب کی استنادی حالت ثابت کی جاتی لیکن اس کے برعکس الٹا ہمیں ہی مطعون کیا جارہا ہے اور قارئین کو یہ باور کرایا جارہا ہے کہ ہم نے اس کتاب کا حوالہ دیا ، فیا للعجب ۔

نوٹ: عبدالوہاب کے اختلاط پر مفصل بحث ہم زیادتی ثقہ والے مضمون میں کریں گے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
یزید سے متعلق اعتراضات اور ان کے جوابات

۴) خود ساختہ عقلی قرائن کا اصل جواب یہ ہے کہ صحیح حدیث کے بارے میں ہر قسم کے ڈھکوسلے مردود ہوتے ہیں۔
یہ کہنا کہ فلاں موقع پر کیوں حدیث پیش نہیں کی؟ تو اس طرح سے بہت سی صحیح احادیث کا انکار کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً:سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک عورت نے نبی ﷺ سے کہا : اگر میں آپ کو نہ پاؤں تو؟ مراد یہ ہے کہ اگر آپ فوت ہو گئے تو میں کس کے پاس (اپنے کام کے بارے میں ) جاؤں گی؟
آپ نے فرمایا: ’’ إن لم تجدیني فأتي أبا بکر. ‘‘ اگر تو مجھے نہ پائے تو ابو بکر کے پاس جانا۔ (صحیح البخاری : ۳۶۵۹،صحیح مسلم : ۲۳۸۶)
اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوں گے۔
اگر کوئی کہے کہ یہ حدیث موضوع ہے، اگر یہ صحیح ہوتی تو سقیفہ بنی ساعدہ کے موقع پر اسے کیوں پیش نہ کیا گیا؟ تو کیا اس عقلی ڈھکوسلے سے اس حدیث کو موضوع قرار دیا جائے گا؟!
اس طرح کے عقلی اعتراضات اہلِ حدیث کا منہج نہیں بلکہ اہل الرائے کا وطیرہ ہے۔
عرض ہے کہ دونوں روایات کے پس منظر میں بعد المشرقین ہے ۔
خلافت کی طرف اشارہ کرنے والی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک خاتون سے بتلائی اورکسی ایسے پس منظر میں نہیں بتلائی کہ یہ حدیث بہت زیادہ عام ہوجائے نیز صحابہ کے بیچ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی افضیلت کا مسئلہ بھی متفق علیہ تھا اس لئے اس لئے اس حدیث میں کوئی چونکا دینے والی بات نہیں دی کہ زبان زد عام وخاص ہوجائے۔
اس برخلاف زیربحث حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ فوج میں یہ حدیث سنائی گئی ، اورجس وقت سنائی گئی اس وقت کافی بحث تکرار ہوئی اور دوسرے مجاہد کی لونڈی غصب کرنے کا واقعہ بھی پیش ۔
یہ پوری صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ یہ بات مشہور ہوجائے ، مزید یہ کہ یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ خاندان بنوامیہ کے فرد تھے اب انہیں کے خاندان سے متعلق یزید نامی شخص کی مذمت ہوئی ایسی صورت میں تو انہیں اپنے خاندان میں بھی سب کو اتنی خوفناک بات سے باخبیر کرناچاہئے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روایت بعد کی پیداوار ہے اور سبائی ذہنیت کے تحت گھڑی گئی ہے۔
اور ہم محض اس چیز کو قرینہ بناکر اس روایت کو موضوع نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ اس روایت کی سند باقاعدہ علت موجود اوراب ثابت ہونے کے بعد مزید تائید کے لئے یہ باتیں کررہے ہیں۔


یزید بن معاویہ کے بادشاہ بننے سے بہت پہلے ۳۲ھ میں سیدنا ابو ذر الغفاری رضی اللہ عنہ وفات پا گئے تھے، جبکہ اس وقت یزید پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔
کیا سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ اپنی وفات کے بعد ساٹھ ہجری میں دوبارہ زندہ ہو گئے تھے کہ یزید کے دربار میں یہ حدیث سناتے ؟
ابو مسلم الجذمی کا بھی دربارِ یزید میں حاضر ہونا کسی سند سے ثابت نہیں اور کیا یہ ضروری ہے کہ ہر صحیح حدیث ہر متعلقہ موقع پر ضرور پر ضرور بیان کی گئی ہو؟
عرض ہے کہ سب سے پہلے ہم اپنے الفاظ نقل کردینا مناسب سمجھتے ہیں۔ہم نے دومناسبتوں سے یہ بات کہی تھی ۔
پہلی مناسبت سے ہمارے الفاظ یہ ہیں:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458) فرماتے ہیں:
قلت: يزيد بن أبي سفيان كان من أمراء الأجناد بالشام في أيام أبي بكر وعمر. لكن سميه يزيد بن معاوية يشبه أن يكون هو- والله أعلم- وفي هذا الإسناد إرسال بين أبي العالية وأبي ذر.[دلائل النبوة للبيهقي/ 467]۔
یعنی صحابی رسول یزیدبن سفیان رضی اللہ عنہ تو ابو بکر اور عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں لشکر شام کے امیر ہواکرتے تھے (اوراس دور میں ابوذر رضی اللہ عنہ شام آئے ہی نہیں) ۔
اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس اشکال کو رفع کرنے کا یہ حل پیش کیا ہے کہ زیربحث روایت میں یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے بجائے ان کے ہمنام یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہوگا ، چنانچہ:
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
لكن سميه يزيد بن معاوية يشبه أن يكون هو- والله أعلم- [دلائل النبوة للبيهقي/ 467]۔
عرض ہے کہ یہ ناممکن ہے کیونکہ تمام تر روایات میں یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ہی کی صراحت ہے ، نیز اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ اس حدیث میں لونڈی غصب کرنے کا جو واقعہ ہے وہ یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ کا واقعہ ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یزید نے جب ایک لونڈی غصب کی تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث سنادی لیکن جب انہوں نے مسندخلافت غصب کی کما یقال تو اس وقت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث لوگوں کوکیوں نہ سنائی گئی کیونکہ ظاہر ہے یہ واقعہ پیش آنے کے بعد یہ حدیث کئ لوگوں کے علم میں آچکی ہوگی ۔
نیز اسی حدیث میں ہے کہ یزید نے جب ابوذ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا وہ میں ہوں تو ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا اگر یہ واقعہ یزید بن معاویہ کا ہے تب تو بتصریح ابو ذر رضی اللہ عنہ یزید بن معاویہ رحمہ اللہ اس کے مصداق ہیں ہی نہیں۔
دوسری مناسبت سے ہمارے الفاظ یہ ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کی تحقیق کے علاوہ اور بھی ایسے قرائن ہیں جو بتلاتے ہیں کہ یہ روایت مکذوب ہے ۔
مثلا یہ کہ جب یزید بن معاویہ رحمہ اللہ کو ولیعہدی کے لئے نامزد کیا گیا تو اس وقت بعض لوگوں نے اس آئین کی مخالفت کی لیکن اس موقع پر کسی نے بھی اس حدیث کو پیش نہیں کیا ، جبکہ مذکورہ واقعہ پیش آنے کے بعد اس حدیث کا عام ہوجانا ظاہر ہے ، غور کیا جائے کہ زیربحث روایت کے مطابق ایک جلیل القدر صحابی یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ایک لونڈی غصب کرتے ہیں اور اس ایک غلطی پر انہیں یہ حدیث فورا سنادی گئی جبکہ آپ صحابی رسول تھے تو پھر یزید بن معاویہ تو تابعی تھے انہوں نے ایک لونڈی ہی نہیں بلکہ مخالفین کے بقول مسندخلافت ہی کو غصب کرلیا آخر انہیں کسی نے یہ حدیث کیوں نہ سنائی ؟؟؟؟؟؟؟؟
۔
قارئین ہم نے اپنی پوری بات اوپر نقل کردی ہے ا سے پڑھیں اور بتلائیں کہ :
ہم نے کب اورکہاں کہا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ کو یزید کی نامزدگی کے وقت یہ حدیث سنانا چاہئے ؟؟؟
نیز ہم نے یہ بھی کب کہا کہ ابومسلم کو دربار یزید میں یہ حدیث سنانا چاہئے ؟؟؟
ہم تو یہ کہہ رہے ہیں کہ زیربحث روایت میں جس اندار کا واقعہ پیش آیا ہے اس کے بعد تو اس حدیث کو عام ہوجاناچاہئے اور عام ہونے کے بعد بہت سارے لوگوں کی زبان پریہ رویات ہونی چاہئے اور یزید کی ولیعہدی کے وقت اسے پیش کیا جانا چاہئے ۔

۵) ایک حدیث میں آیا ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
میں نے رسول اللہ سے دو برتن یاد کئے، ایک تو پھیلا دیا اور اگر دوسرا پھیلاؤں تو میرا حلق کاٹ دیا جائے ۔ (صحیح بخاری : ۱۲۰)
اس حدیث سے باطنیہ کسی علم لدنی وغیرہ اباطیل پر استدلال کرتے ہیں ، جبکہ حافظ ابن حجر نے علماء سے نقل کیا کہ اس سے مراد بُرے حکمرانوں کے نام، احوال اور زمانہ ہے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے:’’ و قد کان أبو ہریرۃ یکني عن بعضہ ولا یصرح بہ خوفًا علٰی نفسہ منھم ‘‘ ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) بعض کے بارے میں اشارہ کرتے تھے اور اپنی جان کے خوف کے وجہ سے صراحت نہیں کرتے تھے۔
اس حدیث سے یزید کی قطعت مذمت ثابت نہیں ہوتی تفصیل کے دیکھے میرا مضمون ۔




حافظ صاحب نے مزید لکھا ہے: ’’ کقولہ أعوذ باللّٰہ من رأس الستین واِمارۃ الصبیان یشیر إلٰی خلافۃ یزید بن معاویۃ لأنھا کانت سنۃ ستین من الہجرۃ و استجاب اللّٰہ دعاء أبي ھریرۃ فمات قبلھا بسنہ...‘‘ جس طرح کہ اُن ( ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ) کا ارشاد ہے کہ اے اللہ ! میں ساٹھ ( ہجری ) کے شروع اور لونڈوں کی حکمرانی سے پناہ چاہتا ہوں۔وہ یزید بن معاویہ کی خلافت کی طرف اشارہ کر رہے تھے کیونکہ وہ ساٹھ ہجری میں تھی اور اللہ تعالیٰ نے ابو ہریرہ (رضی اللہ عنہ) کی دعا قبول فرمائی اور آپ اس سے ایک سال پہلے فوت ہو گئے۔ ( فتح الباری ج۱ص ۲۱۶)
اس حدیث کا مذاق اڑاتے ہوئے معترض نے جو کچھ لکھا ہے ہم اس کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔
ہم نے اس حدیث مذاق قطعا نہیں اڑایا ہے بلکہ ان معاصرین فہم پر ماتم کیا ہے جو تحقیق کے اس دور میں سارے حقائق جاننے کے باوجود بھی اس سے یزید کی مذمت کشید کرتے ہیں۔حلانکہ اس حدیث سے یزید کی قطعا مذمت ثابت نہیں ہوتی قارئین تفصیل کے لئے دیکھئے ہمارا مضمون :







(ختم شد)​
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,999
ری ایکشن اسکور
9,800
پوائنٹ
722
خاتمہ


محترم زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کے جواب کا مفصل رد یہاں پرختم ہوتا ہے والحمدللہ۔
اللہ ہم سب کو حق بات کہنے سننے اور اس کے مطابق عمل کی توفیق دے اورہم سب کی غلطیاں معاف فرمائے ۔
آمین۔
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
محترم فضیلت مآب کفایت اللہ حفظہ اللہ کا مضمون پڑھنے سے معلو م ہوا کہ اللہ تعالی نے ہمارے ممدوح کو فہم سلیم اور منھج محدثین سے گہری وابستی عطافرمائی ہے، کہ ایک ہی عبارت سے مخالف کچھ استدلال کررہا ہوتا ہے حالانکہ وہ مراد نہیں ہوتا اس پر بہت زیادہ نقاب کشائی اس مضمون میں ملتی ہے ۔
منھجی اختلاف بہت اہمیت رکھتا ہے اب اس تحقیقی مضمون میں بے شمار منھجی غلطیاں واضح کی گئی ہیں ۔جس سے خبر دار رہنا ضروری ہے ۔
بعض دفعہ سو فیصد بات غلط ہوتی ہے لیکن منھجی غلطی کی وجہ سے اس کو سو فیصد ہی درست کرکے پیش کیا جاتا ہے ۔
اہل علم پر منھجی غلطی کا رد فرض ہوتا ہے تاکہ امت مسلمہ سیدھی راہ پر قائم اور دائم رہے ۔
ہر ہر بات میں محدثین کو لازم پکڑنا چاہئے جس کے پاس دلیل ہو وہی حق ہے ۔
افسوس بھی ہوا کہ اہل علم کس طرح غلط کو صحیح ثابت کرنے پر زور لگا رہے ہیں ۔اللہ تعالی تعصب سے دور رہ تحقیق کی توفیق عطافرمائے ۔
اس تحقیق میں راقم فقیر شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ سے سو فیصد متفق ہے فجزاہ اللہ خیرا۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
ہمیشہ کی طرح مفصل و مدلل تحقیق ہے ماشاءاللہ۔
مجھے بہت حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح کفایت اللہ بھائی، ایک دقیق مضمون کو جس کی مختلف جہتیں ہیں، بڑی آسانی سے عام قارئین کی سمجھ کے مطابق ہیڈنگ اور علیحدہ دھاگوں کی صورت میں پیش کر کے نہایت عام فہم بنا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائیں کہ ان کی بدولت ہمیں علوم الحدیث کی باریکیوں سے بخوبی آگاہی ملتی رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ علم حدیث سے ان کے شغف اور محبت کو ان کی دین و دنیا کی کامیابی کا ذریعہ بنائیں۔ آمین یا رب العالمین۔

بس ایک بات تھوڑی تکلیف دہ محسوس ہوئی کہ دونوں علمائے کرام نے ایک دوسرے پر جو ہلکی پھلکی چوٹیں کی ہیں، وہ نہ ہوتیں تو بہتر تھا۔ ہمیں دونوں ہی سے محبت ہے اور فقط اللہ ہی کی خاطر ہے، اس لئے اگرچہ جو کچھ بھی دونوں طرف سے کہا گیا، جائز اور درست ہی ہو، بس تکلیف دہ محسوس ہوا، جو فطری امر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو اہل علم کی محبت سے بھر دیں۔ آمین یا رب العالمین۔
 

ابن قاسم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 07، 2011
پیغامات
253
ری ایکشن اسکور
1,081
پوائنٹ
120
ماشاءاللہ مفصل اور نہایت مدلل تحریر ہے شیخ کفایت اللہ حفظہ اللہ نے اس دفعہ بھی عام فہم انداز میں اپنی بات کو رکھا ہے مطالعے سے پوری طرح اطمینان ہوا کہ پیش کردہ روایت کا دفاع کرنا لا حاصل ہے۔
جزاک اللہ خیرا
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top