معراج بھی ١٢ ربیع الاول کو
قارئین روایت مذکورہ کو بغور پڑھیں اس میں ١٢ ربیع الاول کو صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش ہی نہیں کہا گیا ہے بلکہ اسی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
وفيه عرج به إلى السماء یعنی اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گئی ۔
حالانکہ تمام میلادیوں کا معمول ہے کہ وہ جش معراج١٢ تاریخ کو نہیں بلکہ رجب کی ٢٧ تاریخ کو بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں اور ببانگ دہل اعلان کرتےہیں کہ اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج کرائی گی ۔اب اگر کوئی شخص روایت مذکورہ کو ماہ رجب میں پیش کرے تو اسے ضعیف کہنے میں میلادی حضرات ایک پل کی تاخیر نہیں کریں گے۔
یعنی میلادیوں کے نزدیک روایت مذکورہ، ہر سال ماہ ربیع الاول میں توصحیح رہتی ہے مگر ماہ رجب میں ضعیف ہوجاتی ۔
تقریبا ایسا ہی طرزعمل میلادی حضرات بخاری کی اس حدیث کے ساتھ اپناتے ہیں جس میں ہے کہ آپ یوم عاشورآء کاروزہ رکھتے تھے اور اس کاحکم بھی فرمایاتھا،کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضر ت موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کوفرعون اور اس کے لشکر سے نجات دلائی تھی ۔
میلادی حضرات اس حدیث کو ربیع الاول میں بڑے زور و شورسے بیان کرتے ہیں اوراس سے میلاد کا جواز کشیدکرتے ہیں، لیکن محرم میں یہ حدیث ان کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔
حالانکہ بخاری کی اس حدیث کا اصل تعلق محرم ہی سے ہے ، اوراس میں جس سنت کا بیان ہے وہ ہے عاشورآء کے دن روزہ رکھنا،لیکن افسوس ہے کہ میلادیوں نے بڑی بے دردی سے اس سنت کاگلاگھونٹ دیاہے ،چنانچہ جب محرم میں عاشورآء کایہ دن آتاہے تو یہ لوگ اس دن روزہ رکھنے کے بجائے کھانے پینے کاکچھ زیادہ ہی اہتمام کرتے ہیں بلکہ لوگوں کو پکڑپکڑ کرشربت پلاتے ہیں ،اور اس دن انہیں یہ حدیث یاد نہیں آتی ،بلکہ یاددلانے پربھی اس طرف متوجہ نہیں ہوتے ،لیکن حیرت ہے کہ ربیع الاول کے مہینے میں یہی حدیث ان کی نظر میں بہت اہم ہوجاتی ہے ،حالانکہ اس مہینے سے اس حدیث کاکوئی تعلق ہی نہیں ہے!سوال یہ ہے کہ جن کی نظرمیں مذکورہ حدیث کی اصل تعلیم قابل عمل نہیں ہے وہ اسی حدیث سے دیگر چیزیں ثابت کرنے کی جرأت کیسے کرتے ہیں ؟؟؟
اسی طرح زیرتحقیق روایت میں معراج کی تاریخ ١٢ تاریخ کوبتائی گئی ہے یہ حدیث انہیں صرف ربیع الاول ہی میں یاد رہے گی ماہ رجب میں یہی حدیث ان کے نظر میں بے وقعت ہوکر مردود ہوجائے گی۔
وفات رسول بھی ١٢ ربیع الاول کو
قارئین اسی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
وَفِيهِ مَاتَ یعنی اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ہوئی [البداية والنهاية ط إحياء التراث 3/ 135]۔
جبکہ میلادی حضرات آج کل اس کا انکار کررہے ہیں اورلوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ١٢ ربیع الاول صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی تاریخ ہے نہ کہ وفات(ان کے الفاظ میں وصال ) کی۔
وفات رسول صلی اللہ علیہ وسلم
مذکورہ حدیث میں صاف طورسے لکھا ہوا ہے :
وَفِيهِ مَاتَ یعنی اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی ہوئی [البداية والنهاية ط إحياء التراث 3/ 135]۔
یعنی اس تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت (وفات) ہوئی ، اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وفات پاچکے ہیں مگرمیلادی حضرات لوگوں کو یہ عقیدہ سکھارہے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں ، بلکہ روایت مذکوہ میں دو صحابہ جابر و ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالہ سے جو یہ بات ہے کہ
’’وَفِيهِ مَاتَ‘‘ یعنی اسی تاریخ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت (وفات) ہوئی ۔ اگر یہی بات کوئی دوسرا کہے تو میلادی اسے گستاخ رسول کہتے ہیں۔
سوال ہے کہ اگر میلادیوں کے نزدیک روایت مذکورہ معتبر ہے تو یہ حضرات اس پوری روایت پر ایمان کیوں نہیں لاتے ؟؟؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کا بھی وہی حال ہے جن کے بارے میں کہا گیا :
{ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنْكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ } [البقرة: 85]۔
تو کیا خدا کے کچھ حکموں پر ایمان لاتے ہو اور کچھ سے انکار کرتے ہو تو جو تم میں ایسا کرے اس کا بدلہ کیا ہے مگر یہ کہ دنیا میں رسوا ہو اور قیامت میں سخت تر عذاب کی طرف پھیرے جائیں گے اور اللہ تمہارے کوتکوں سے بےخبر نہیں (ترجمہ احمدرضا صاحب )۔