• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بےباک سپاہی سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا ذکر خیر

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام
سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ایمان لانے سے پہلے سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ کو مدینہ منورہ میں اسلام کی دعوت دینے سے باز رکھنے کے لیے ان کے پاس گئے
سیدنا اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا مُصعب رضی اللہ عنہ سے پہلے ہی سے کہہ دیا تھا کہ تمہارے پاس ایک ایسا سردار آرہا ہے، جس کے پیچھے اس کی پوری قوم ہے۔ اگر اس نے تمہاری بات مان لی توپھر ان میں سے کوئی بھی نہ پچھڑے گا۔سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا : کیوں نہ آپ تشریف رکھیں اور سنیں۔ اگر کوئی بات پسند آگئی تو قبول کرلیں اور اگر پسند نہ آئی تو ہم آپ کی ناپسندیدہ بات کو آپ سے دور ہی رکھیں گے۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا : انصاف کی بات کہتے ہو ، اس کے بعد اپنا نیزہ گاڑ کر بیٹھ گئے۔ سیدنا مصعب رضی اللہ عنہ نے ان پر اسلام پیش کیا اور قرآن کی تلاوت کی۔ ان کا بیان ہے کہ ہمیں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے بولنے سے پہلے ہی ان کے چہرے کی چمک دمک سے ان کے اسلام کا پتہ لگ گیا۔ اس کے بعد انہوں نے زبان کھولی اور فرمایا : تم لوگ اسلام لاتے ہو تو کیا کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا :آپ غسل کرلیں، پھر حق کی شہادت دیں ، پھر دورکعت نماز پڑھیں۔ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا۔اس کے بعد اپنا نیزہ اٹھا یا اور اپنی قوم کی محفل میں تشریف لائے۔ لو گوں نے دیکھتے ہی کہا : ہم واللہ! کہہ رہے ہیں کہ سعد (رضی اللہ عنہ ) جو چہرہ لے کر گئے تھے اس کے بجائے دوسراہی چہرہ لے کر پلٹے ہیں۔ پھر جب سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اہل مجلس کے پاس آکر رکے تو بولے: اے بنی عبد الاشہل ! تم لو گ اپنے اندر میرا معاملہ کیسا جانتے ہو ؟ انہوں نے کہا : آپ ہمارے سردار ہیں۔ سب سے اچھی سوجھ بوجھ کے مالک ہیں اور ہمارے سب سے بابرکت پاسبان ہیں۔ انہوں نے کہا : اچھا تو سنو ! اب تمہارے مردوں اور عورتوں سے میری بات چیت حرام ہے جب تک کہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان نہ لاؤ۔ ان کی اس بات کا یہ اثر ہواکہ شام ہوتے ہوتے اس قبیلے کا کوئی بھی مرد اور کوئی بھی عورت ایسی نہ بچی جو مسلمان نہ ہوگئی ہو۔ صرف ایک آدمی جس کا نا م اُصیرم تھا اس کا اسلام جنگِ احد تک موخر ہوا۔ پھر احد کے دن اس نے اسلام قبول کیا اور جنگ میں لڑتا ہو ا کام آگیا۔ اس نے ابھی اللہ کے لیے ایک سجدہ بھی نہ کیا تھا۔ نبیﷺ نے فرمایا کہ اس نے تھوڑا عمل کیا اور زیادہ اجر پایا۔ (رحیق المختوم)


سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ مختصر سی اسلامی زندگی کے اوراق پر نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات بخوبی عیاں نظر آتی ہے کہ سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو جب جب موقع ملا ، انہوں نے بے مثال عزیمت و شجاعت کا مظاہر ہ کیا۔ بالخصوص غزوہ بدر اور غزوہ بنی قریظہ دو ایسے مواقع ہیں جب ان کی فہم و فراست ، دینی حمیت اور اولو العزمی حد درجہ کمال کو پہنچی نظر آتی ہے۔

سعد رضی اللہ عنہ اور معرکہ بدر

میدان بدر میں رسول اللہ ﷺ نے ایک اعلیٰ فوجی مجلس شوریٰ میں درپیش صورتحال کی سنگینی کا تذکرہ فرماتے ہوئے کمانڈروں اور عام فوجیوں سے تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر پہلے سیدناابو بکر رضی اللہ عنہ ، پھر سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اور پھرسیدنا مقداد بن عمرو ر ضی اللہ عنہ نے پر عزیمت کلام کیا۔ تاہم یہ تینوں کمانڈر مہاجرین میں سے تھے جن کی تعداد لشکر میں کم تھی۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ کی خواہش تھی کہ انصار کی رائے معلوم کریں کہ وہ لشکر میں اکثریت میں تھے اور معرکے کا اصل بوجھ انہی کے شانوں پر پڑنے والا تھا۔ یہ بات سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ جو کہ انصار کے کمانڈر اور علمبردار تھے ، بھانپ گئے۔ چنانچہ انہوں نے عرض کی : بخدا ایسا معلوم ہوتا ہے اے اللہ کے رسول ﷺ کہ آپ کا روئے سخن ہماری طرف ہے۔ آپ ﷺ نے اثبات میں جواب دیا ۔ جس پر سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ یوں گویا ہوئے:

“ہم تو آپ ﷺپر ایمان لائے ہیں۔ آپ ﷺ کی تصدیق کی ہے ۔ اور یہ گواہی دی ہے کہ آپ ﷺ جو کچھ لے کر آئے ہیں سب برحق ہے اور اس پر ہم نے آپ ﷺ کو اپنی سمع و اطاعت کا عہد و میثاق دیا ہے ۔ چنانچہ اے اللہ کے رسول ﷺ! آپ کا جو ارادہ ہے اس کے لئے پیش قدمی فرمائیے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے اگر آپ ہمیں ساتھ لے کر اس سمندر میں بھی کودنا چاہیں تو ہم اس میں بھی آپ کے ساتھ کود پڑیں گے ۔ ہمارا ایک بھی آدمی پیچھے نہ رہے گا ۔ ہمیں قطعاً کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ آپ ﷺ کل ہمارے ساتھ دشمن سے ٹکرا جائیں۔ ہم جنگ میں پامرد اور لڑنے میں جواں مرد ہیں۔ اور ممکن ہے اللہ آپ ﷺ کو ہمارا وہ جوہر دکھلائے جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جائیں۔ پس آپ ہمیں ہمراہ لے کر چلیں ۔ اللہ برکت دے ۔” سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی یہ بات سن کر رسول اللہﷺ بہت خوش ہوئے اور آپ ﷺ پر نشاط طاری ہو گیا ۔

غزوہ احزاب

میں سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو ایک تیر لگا جس سے ان کے بازو کی بڑی رگ کٹ گئی ۔ انہیں حبان بن عرقہ نامی ایک قریشی مشرک کا تیر لگا تھا ۔سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ( زخمی ہونے کے بعد ) دعا کی کہ اے اللہ ! تو جانتا ہے کہ جس قوم نے تیرے رسول کی تکذیب کی اور انہیں نکال باہر کیا ان سے تیری راہ میں جہاد کرنا مجھے جس قدر محبوب ہے اتنا کسی اور قوم سے نہیں ۔ اے اللہ ! میں سمجھتا ہوں کہ اب تو نے ہماری اور ان کی جنگ کو آخری مرحلے تک پہنچا دیا ہے ۔ پس اگر قریش کی جنگ کچھ باقی رہ گئی ہو تو مجھے ان کے لیے باقی رکھ کہ میں ان سے تیری راہ میں جہاد کروں اور اگر تو نے لڑائی ختم کر دی ہے تو اسی زخم کو جاری کرکے اسے میری موت کا سبب بنا دے ۔ ان کی اس دعا کا آخری ٹکڑا یہ تھا کہ (لیکن) مجھے موت نہ دے یہاں تک کہ بنو قریظہ کے معاملے میں میری آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہو جائے )رحیق المختوم)

غزوہ ٔ بنو قریظہ

جس روز رسول اللہﷺ خندق سے واپس تشریف لائے اسی روز ظہر کے وقت جبکہ آپ سیدہ اُمِ سلمہ رضی اللہ عنھاکے مکان میں غسل فرمارہے تھے سیدنا جبریل علیہ السلام تشریف لائے۔ اور فرمایا : کیا آپ نے ہتھیار رکھ دیئے حالانکہ ابھی فرشتوں نے ہتھیار نہیں رکھے۔ اور میں بھی قوم کا تعاقب کرکے بس واپس چلا آرہا ہوں۔ اُٹھئے ! اور اپنے رفقاء کو لے کر بنو قریظہ کا رخ کیجیے۔ میں آگے آگے جارہا ہوں۔ ان کے قلعوں میں زلزلہ برپا کروں گا ، اور ان کے دلوں میں رعب ودہشت ڈالوں گا۔ یہ کہہ کر حضرت جبریل علیہ السلام فرشتوں کے جلو میں روانہ ہوگئے۔ادھر رسول اللہﷺ نے ایک صحابی سے منادی کروائی کہ جوشخص سمع وطاعت پر قائم ہے وہ عصر کی نماز بنو قریظہ ہی میں پڑھے۔ اس کے بعد مدینے کا انتظام حضرت ابن ام مکتوم کو سونپا۔ اور حضرت علیؓ کو جنگ کا پھریرا دے کر آگے روانہ فرمادیا۔ وہ بنو قریظہ کے قلعوں کے قریب پہنچے تو بنو قریظہ نے رسول اللہﷺ پر گالیوں کی بوچھاڑ کردی ، اسلامی لشکر نے ان کا محاصرہ کر لیاجب محاصرہ سخت ہوگیا تو یہود کے سردار کعب بن اسد نے ان کے سامنے تین متبادل تجویزیں پیش کیں :یاتو اسلام قبول کرلیں۔ اور محمدﷺ کے دین میں داخل ہوکر اپنی جان ، مال اور بال بچوں کو محفوظ کرلیں۔ کعب بن اسد نے اس تجویز کو پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ واللہ! تم لوگوں پر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ وہ واقعی نبی اور رسول ہیں۔ اور وہ وہی ہیں جنہیں تم اپنی کتاب میں پاتے ہو۔یا اپنے بیوی بچوں کو خود اپنے ہاتھوں قتل کردیں۔ پھر تلوار سونت کر نبیﷺ کی طرف نکل پڑیں۔ اور پوری قوت سے ٹکراجائیں۔ اس کے بعد یاتو فتح پائیں یاسب کے سب مارے جائیں۔یا پھر رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر دھوکے سے سنیچر کے دن پل پڑیں کیونکہ انہیں اطمینان ہوگا کہ آج لڑائی نہیں ہوگی۔لیکن یہود نے ان تینوں میں سے کوئی بھی تجویز منظور نہ کی۔ جس پر ان کے سردار کعب بن اسد نے (جھلا کر) کہا:تم میں سے کسی نے ماں کی کوکھ سے جنم لینے کے بعد ایک رات بھی ہوش مندی کے ساتھ نہیں گزاری ہے۔ان تینوں تجاویز کو رد کردینے کے بعد بنو قریظہ کے سامنے صرف ایک ہی راستہ رہ جاتا تھا کہ رسول اللہﷺ کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ اور اپنی قسمت کا فیصلہ آپ پر چھوڑ دیں ، لیکن انہوں نے چاہا کہ ہتھیار ڈالنے سے پہلے اپنے بعض مسلمان حلیفوں سے رابطہ قائم کرلیں۔ ممکن ہے پتہ لگ جائے کہ ہتھیا ر ڈالنے کا نتیجہ کیا ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہﷺ کے پاس پیغام بھیجا کہ آپ ابو لبابہ کو ہمارے پاس بھیج دیں۔ ہم ان سے مشورہ کرنا چاہتے ہیں۔ ابو لبابہ ان کے حلیف تھے۔ اور ان کے باغات اور آل اولاد بھی اسی علاقے میں تھے۔ جب ابو لبابہ وہاں پہنچے تو مرد حضرات انہیں دیکھ کر ان کی طرف دوڑ پڑے۔ اور عورتوں اور بچے ان کے سامنے دھاڑیں مار مار کررونے لگے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر سیدنا ابولبابہ رضی اللہ عنہ پررقت طاری ہوگئی۔ یہود نے کہا : ابو لبابہ ! کیا آپ مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم محمدﷺ کے فیصلے پر ہتھیار ڈال دیں ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں ! لیکن ساتھ ہی ہاتھ سے حلق کی طرف اشارہ بھی کردیا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ ذبح کردیئے جاؤ گے ، لیکن انہیں فورا ً احساس ہوا کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت ہے۔ چنانچہ وہ رسول اللہﷺ کے پاس واپس آنے کے بجائے سیدھے مسجد نبوی پہنچے۔ اور اپنے آپ کو مسجد کے ایک کھمبے سے باندھ لیا۔ اور قسم کھائی کہ اب انہیں رسول اللہﷺ ہی اپنے دست مُبارک سے کھولیں گے۔ اور وہ آئندہ بنوقریظہ کی سرزمین میں کبھی داخل نہ ہوں گے۔ ادھر رسول اللہﷺ محسوس کررہے تھے کہ ان کی واپسی میں دیر ہورہی ہے۔ پھر جب تفصیلات کا علم ہو اتو فرمایا: اگر وہ میرے پاس آگئے ہوتے تو میں ان کے لیے دعائے مغفرت کردیئے ہوتا ، لیکن جب وہ وہی کام کربیٹھے ہیں تو اب میں بھی انہیں ان کی جگہ سے کھول نہیں سکتا ، یہاں تک اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول فرمالے۔ادھر ابو لبابہ کے اشارے کے باوجود بنو قریظہ نے یہی طے کیا کہ رسول اللہﷺ کے سامنے ہتھیار ڈال دیں۔ اور وہ جو فیصلہ مناسب سمجھیں کریں حالانکہ بنو قریظہ ایک طویل عرصے تک محاصرہ برداشت کرسکتے تھے کیونکہ ایک طرف ان کے پاس وافرمقدارمیں سامان خوردو نوش تھا ، پانی کے چشمے اور کنوئیں تھے۔ مضبوط اور محفوظ قلعے تھے۔ اور دوسری طرف مسلمان کھلے میدان میں خون منجمد کر دینے والے جاڑے اور بھُوک کی سختیاں سہ رہے تھے۔ اور آغازِ جنگِ خندق کے بھی پہلے سے مسلسل جنگی مصروفیات کے سبب تکان سے چور چور تھے ، لیکن جنگ بنی قریظہ درحقیقت ایک اعصابی جنگ تھی۔ اللہ نے ان کے دلوں میں رعب ڈال دیا تھا۔ اور ان کے حوصلے ٹوٹتے جارہے تھے۔ پھر حوصلوں کی یہ شکستگی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب سیدنا علی بن ابی طالب ر ضی اللہ عنہ اور سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے پیش قدمی فرمائی۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے گرج کر یہ اعلان کیا کہ ایمان کے فوجیو! اللہ کی قسم ! اب میں بھی یا تو وہی چکھوں گا جو حمزہ ر ضی اللہ عنہ نے چکھا یاان کا قلعہ فتح کرکے رہوں گا۔چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ عزم سن کر بنو قریظہ نے جلدی سے اپنے آپ کو رسول اللہﷺ کے حوالے کردیا کہ آپ جو فیصلہ مناسب سمجھیں کریں۔ رسول اللہﷺ نے حکم دیا کہ مردوں کو باندھ دیا جائے۔ چنانچہ محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے زیر نگرانی ان سب کے ہاتھ باندھ دیئے گئے۔ اور عورتوں اور بچوں کو مَردوں سے الگ کردیا گیا۔ قبیلہ اوس کے لوگ رسول اللہﷺ سے عرض پر داز ہوئے کہ آپ نے بنو قینقاع کے ساتھ جو سلوک فرمایا تھا وہ آپ کو یاد ہی ہے بنو قینقاع ہمارے بھائی خَزْرج کے حلیف تھے اور یہ لوگ ہمارے حلیف ہیں۔ لہٰذا ان پر احسان فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: کیا آپ لوگ اس پر راضی نہیں کہ ان کے متعلق آپ ہی کا ایک آدمی فیصلہ کرے ؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا : تو یہ معاملہ سعد بن معاذ کے حوالے ہے۔ اَوس کے لوگوں نے کہا : ہم اس پر راضی ہیں۔اس کے بعد آپ نےسیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا۔ وہ مدینہ میں تھے ، لشکر کے ہمراہ تشریف نہیں لائے تھے ، کیونکہ جنگِ خندق کے دوران ہاتھ کی رگ کٹنے کے سبب زخمی تھے۔ انہیں ایک گدھے پر سوار کرکے رسول اللہﷺ کی خدمت میں لایا گیا۔ جب قریب پہنچے تو ان کے قبیلے کے لوگوں نے انہیں دونوں جانب سے گھیر لیا۔ اور کہنے لگے : سعد ! اپنے حلیفوں کے بارے میں اچھائی اور احسان سے کام لیجئے گا ... رسول اللہﷺ نے آپ کو اسی لیے حَکم بنایا ہے کہ آپ ان سے حسن سلوک کریں۔ مگر وہ چپ چاپ تھے کوئی جواب نہ دے رہے تھے۔ جب لوگوں نے گزارش کی بھر مار کردی تو بولے : اب وقت آگیا ہے کہ سعد کو اللہ کے بارے میں کسی ملامت گر کی پروا نہ ہو۔ یہ سن کر بعض لوگ اسی وقت مدینہ آگئے اور قیدیوں کی موت کا اعلان کردیا۔اس کے بعد جب سیدنا سعد نبیﷺ کے پاس پہنچے تو آپ نے فرمایا: اپنے سردار کی جانب اٹھ کر بڑھو۔ (لوگوں نے بڑھ کر ) جب انہیں اتارلیا تو کہا: اے سعد ! یہ لوگ آپ کے فیصلے پر اترے ہیں۔ سیدنا سعد نے کہا : کیا میرا فیصلہ ان پر نافذ ہوگا ؟ لوگوں نے کہا جی ہاں ! انہوں نے کہا مسلمانوں پربھی ؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں ! انہوں نے پھر کہا : اور جو یہاں ہیں ان پر بھی؟ ان کا اشارہ رسول اللہﷺ کی فرودگاہ کی طرف تھا۔ مگر اجلال وتعظیم کے سبب چہرہ دوسری طرف کررکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جی ہاں! مجھ پر بھی۔ سیدنا سعد نے کہا : تو ان کے متعلق میرا فیصلہ یہ ہے کہ مردوں کو قتل کردیا جائے ، عورتوں اور بچوں کو قید ی بنا لیا جائے۔ اور اموال تقسیم کردیے جائیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم نے ان کے بارے میں وہی فیصلہ کیا ہے جو سات آسمانوں کے اوپر سے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے۔رحیق المختوم

صحیح بخاری میں ہے :

حدیث نمبر 3804:‏‏‏‏عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ أن أناسا نزلوا على حكم سعد بن معاذ، ‏‏‏‏فأرسل إليه فجاء على حمار، ‏‏‏‏فلما بلغ قريبا من المسجد قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ قوموا إلى خيركم أو سيدكم ‏"‏‏.‏ فقال ‏"‏ يا سعد، ‏‏‏‏إن هؤلاء نزلوا على حكمك ‏"‏‏.‏ قال فإني أحكم فيهم أن تقتل مقاتلتهم وتسبى ذراريهم‏.‏ قال ‏"‏ حكمت بحكم الله، ‏‏‏‏أو بحكم الملك ‏"‏‏.
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک قوم (یہود بنی قریظہ) نے سعد بن معاذ رضی اللہ کو ثالث مان کر ہتھیار ڈال دیئے تو انہیں بلانے کے لیے آدمی بھیجا گیا اور وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے، جب اس جگہ کے قریب پہنچے جسے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام جنگ میں) نماز پڑھنے کے لیے منتخب کیا ہوا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اپنے سب سے بہتر شخص کے لیے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا) اپنے سردار کو لینے کے لیے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے سعد! انہوں نے تم کو ثالث مان کر ہتھیار ڈال دیئے ہیں، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا پھر میرا فیصلہ یہ ہے کہ ان کے جو لوگ جنگ کرنے والے ہیں انہیں قتل کر دیا جائے اور ان کی عورتوں، بچوں کو جنگی قیدی بنا لیا جائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے اللہ کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کیا یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) فرشتے کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔

جب بنوقریظہ کا کام تمام ہو چکا تو بندہ صالح سیدناسعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی اس دعا کی قبولیت کے ظہور کا وقت آگیا جس کا ذکر غزوہ احزاب کے دوران آچکا ہے ،چنانچہ ان کا زخم پھوٹ گیا اس وقت وہ مسجدنبوی میں تھے نبی ﷺ نے ان کےلئے وہیں خیمہ لگوادیا تھا تاکہ قریب ہی ان کی عیادت کر لیا کریں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کا بیان ہے کہ ان کے سینے کا زخم پھوٹ کر بہا مسجد میں بنو غفار کے بھی چند خیمے تھے یہ دیکھ کر چونکہ کہ ان کی جانب خون بہ کر آرہا ہے۔انہوں نے کہا خیمہ والو۔۔!یہ کیاہے جو تمہاری طرف آرہا ہے ؟ دیکھا تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے زخم سے خون کی دھار رواں تھی ۔پھر اسی سے ان کی موت واقع ہو گئی۔(بخاری2/891)۔

صحیح بخاری ہی میں ہے :
حدیث نمبر 3803:‏‏‏‏عن جابر ـ رضى الله عنه ـ سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ اهتز العرش لموت سعد بن معاذ ‏"‏‏.‏

''سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی موت پر عرش ہل گیا ''

امام ترمذی رحمہ اللہ نے سیدناانس رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث روایت کی ہے اور اسے صحیح بھی قرار دیا ہے کہ جب سیدنا سعدبن معاذ رضی اللہ عنہ کا جنازہ اٹھایا گیا تو منافقین نے کہا : ان کا جنازہ کس قدر ہلکا ہے؟ رسول اللہ ﷺنے فرمایا اسے فرشتے اٹھائے ہوئے تھے۔(ترمذی 2/225)بنو قریظہ کے محاصرے کے دوران صرف ایک ہی مسلمان شہید ہوئے جن کا نام خلاد بن سوید رضی اللہ عنہ تھا یہ وہی صحابی ہیں جن کو بنو قریظہ کی عورت نے چکی کا پاٹ پھینک کر مارا تھا،ان کےعلاوہ سیدنا عکاشہ رضی اللہ عنہ کے بھائی ابوسنان بن محصن نے محاصرے کے دوران وفات پائی۔جہاں تک سیدنا ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کا معاملہ ہے تو وہ چھ راتیں مسلسل ستون کے ساتھ بندھے رہے ان کی بیوی ہر نماز کے وقت آکر کھو ل دیتی تھیں اور وہ نماز سے فارغ ہو کر پھر اسی ستون میں بندھ جاتے تھے۔اس کے بعد رسول اللہ ﷺ پر صبح دم ان کی توبہ نازل ہوئی،اس وقت آپ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے مکان میں تشریف فرماتھے۔ سیدنا ابولبابہ رضی اللہ عنہ کابیان ہے کہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر مجھے سے کہا ،اے ابو لبابہ رضی اللہ عنہ خوش ہوجاؤ کہ اللہ نے تمہاری توبہ قبول کر لی ہے یہ سن کر صحابہ انہیں کھولنے کےلئے اچھل پڑے لیکن انہوں نے انکار کر دیا کہ انہیں رسول اللہﷺ کے بجائے کوئی اور نہ کھولے گا۔چنانچہ جب نبی ﷺنماز فجر کےلئے نکلے اور وہاں سے گذرے تو انہیں کھول دیا ۔یہ غزوہ ذی قعدہ میں پیش آیا پچیس روز تک محاصرہ قائم رہا۔(ابن ہشام 2/237،238غزوے کی تفصیلات ملاحظہ کرنے لے لئے دیکھیں،ابن ہشام2/233 تا 273 صحیح بخاری 2/590 تا 591 زادالمعاد2/72 تا74 مختصر السیرۃ للشیخ عبداللہ ص 287 تا 290)رحیق المختوم

صحیح مسلم میں ہے :
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس ایک ریشمی جوڑا تحفہ آیا۔ تو آپﷺ کے صحابہ اس کو چھونے لگے اور اس کی نرمی سے تعجب کرنے لگے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم اس کی نرمی سے تعجب کرتے ہو؟ البتہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے رومال جنت میں اس سے بہتر اور اس سے زیادہ نرم ہیں۔صحیح مسلم کتاب الفضائل ،باب: حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فضائل کابیان
 
Top