• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سوال نمبر 8:
آپ نے غزوۂ قسطنطنیہ کے حوالے سے یزید کی مغفرت کی جو تصریح کی ہے۔ اس مغفرت سے کیا مراد ہے۔ اور محدثین وشراح بخاری نے اس حدیث سے کیا مراد لیا ہے اور یزید کے متعلق کیا تصریحات فرمائی ہیں اور ابن مہلب (یہ "ابن مہلب" نہیں صرف "مہلب" ہے سائل کو غالباً مغالطہ لگا ہے یا قلم کا سہو ہے۔) کے قول کے متعلق کیا کہا ہے؟
جواب نمبر8:

مسئلہ یزید کی مغفرت کا

مغفرت سے مراد وہی ہے جو اس کا عام مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کسی بندے کے گناہوں کو نظر انداز کرکے اس کو معاف کردینا، بخش دینا اور اپنے انعامات کا مستحق قرار دے دینا۔
باقی رہی بات کہ محدثین وشراح بخاری نے اس سے کیا مراد لیا ہے اور یزید کے متعلق کیا تصریحات فرمائی ہیں؟ اور "ابن مہلب" کے قول کے متعلق کیا کہا ہے؟ تو محترم مدیر صاحب! اگر ہماری مختصر تصریحات پر ذرا گہری نظر سے غور فرمالیتے تو شاید وہ یہ سوالات نہ کرتے کہ ہماری مختصر سی عبارت میں ان تمام باتوں کا جواب موجود ہے۔ مناسب ہے کہ ہم پہلے اپنے سابقہ مضمون کی وہ عبارت یہاں نقل کردیں جس پر یہ سوال کیا گیا ہے۔ اس کے بعد مزید گفتگو موزوں رہے گی۔ ہم نے لکھا تھا:
"کم از کم ہم اہل سنت کو اس حدیث کے مطابق یزید کو برا بھلا کہنے سے باز رہنا چاہیے جس میں رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ قسطنطنیہ میں شرکت کرنے والوں کے متعلق مغفرت کی بشارت دی ہے اور یزید اس جنگ کا کمانڈر تھا۔ یہ بخاری کی صحیح حدیث ہے اور آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے، کسی کاہن یا نجومی کی پیشین گوئی نہیں کہ بعد کے واقعات اسے غلط ثابت کردیں۔ اگر ایساہوتو پھر نبی کے فرمان اور کاہن کی پیشین گوئی میں فرق باقی نہ رہے گا۔ کیا ہم اس حدیث کی مضحکہ خیز تاویلیں کرکے یہی کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔"
مدیر موصوف کو اگر ہماری اس بات سے اختلاف تھا تو ان کو بتلانا چاہیے تھا کہ نبی کی بشارت اور نجومی کی پیشگوئی میں کوئی فرق ہے یا نہیں۔ اگر ہے تو وہ کیا ہے؟ کیونکہ اس حدیث کی ایسی تاویل جس سے بشارت کا پہلو ختم ہوجائے، حضور ﷺ کے قول کو ایک کاہن کے قول سے زیادہ اہمیت نہ دینے پر ہی صحیح قرار پاسکتی ہے۔ اس کے بغیر جب غزوۂ قسطنطنیہ کے شرکاء میں سے کسی ایک کو بھی مغفرت کی بشارت سے خارج نہیں کیا جاسکتا تو ہمیں بتایا جائے کہ کس طرح ممکن ہے کہ حضور ﷺ کی پیش کوئی بھی اٹل ہو اور پھر اس میں سے کسی کا تخلف بھی ہوجائے، بیک وقت دونوں باتیں ممکن نہیں۔
امام مہلب کے قول یہی تو کہا گیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ قول مشروط ہے اس بات سے کہ ان شرکاء میں سے بعد میں کفر وارتداد کا ارتکاب نہ ہوا ہو۔ اگر کسی نے ایسا کیا تو وہ اس بشارت سے خارج ہوجائے گا لیکن اس تاویل میں کوئی وزن نہیں۔ معلوم نہیں صحیح بخاری کے جلیل القدر شارحین اس تاویل کو بغیر کسی رد و نقد کے کیوں نقل کرتے آئے ہیں؟ حالانکہ یہ تاویل بالکل ویسی ہی ہے جیسی تاویل شیعہ حضرات صحابہ ٔ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں کرتے ہیں ۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے آنحضرت ﷺ کی زندگی میں صحابہ کو "رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ" کا سرٹیفیکیٹ دیا گیا تھا۔ لیکن آپﷺ کی وفات کے بعد چونکہ (نعوذباللہ) وہ مرتد ہوگئے، اس لیے وہ اس کے مستحق نہیں رہے۔ اگر صحابہ ٔ کرام کے بارے میں یہ لغو تاویل آپ کے نزدیک قابل قبول نہیں تو پھر یزید کے بارے میں یہ تاویل کیوں کر صحیح ہوجائے گی؟
پھر محض امکان کفر و ارتداد کو وقوع کفر وارتداد سمجھ لینا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ مان لیجئے کہ حضور ﷺ پیش گوئی مشروط ہے اور کفر وارتداد کرنے والے اس سے خارج ہوجائیں گے لیکن اس کے بعد اس امر کا ثبوت بھی تو پیش کیجئے کہ یزید کافر و مرتد ہوگیا تھا اور پھر اسی کفر وارتداد پر اس کا خاتمہ بھی ہوا، جب تک آپ کا واقعی ثبوت پیش نہیں کریں گے بشارت نبوی کو مشروط ماننے سے بھی آپ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
اگریہ کہا جائے کہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کا حکم یا اس پر رضامندی یہی کفر وارتداد ہے تو یہ بھی لغو ہے۔ اول تو اس امر کا کوئی ثبوت نہیں کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا یا اس پر رضا مندی کا اظہار کیا، جیسا کہ امام غزالی نے اس کی تصریح کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
" ما صح قتلہ للحسین رضی الہ عنہ ولا أمرہ ولا رضاہ بذٰلک" (وفیات الاعیان: ۴۵۰/۲)
"حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کا قتل کرنا یا ان کے قتل کرنے کا حکم دینا یا ان کے قتل پر راضی ہونا، ان میں سے کوئی بات بھی ثابت نہیں۔"
اور احیاء العلوم میں لکھتے ہیں:
"فإن قیل ھل یجوز لعن یزید بکونہ قاتل الحسین أو آمراً بہ قلنا ھٰذا لم یثبت أصلا ولا یجوز أن یقال إنہ قتلہ أو أمر بہ مالم یثبت" (أحیاء العلوم : ۱۳۱/۳)
"اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا یزید پر لعنت کرنی جائز ہے ، کیونکہ وہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل ہے یا ان کے قتل کا حکم دینے والا ہے تو ہم جواب میں کہیں گے کہ یہ باتیں قطعاً ثابت نہیں ہیں اور جب تک کوئی ثبوت نہ ہو اس کے متعلق یہ کہنا جائز نہیں کہ اس نے قتل کیا یا قتل کا حکم دیا۔"
اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یزید ہی نے قتل کا حکم دیا تب بھی حکم قتل تو کجا، اگر وہ خود ہی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا ہوتا تب بھی محض قتل سے کافر و مرتد قرار نہیں پا سکتا چہ جائے کہ حکم قتل سے۔ یہ بھی ایک کبیرہ گناہ ہی ہے، کفر وارتداد نہیں۔ چنانچہ ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں:
" علی أن الأمر بقتل الحسین بل قتلہ لیس موجباً للعنة علی مقتضیٰ مذہب أھل السنة من أن صاحب الکبیرة لا یکفر فلا یجوز عند ھم لعن الظالم الفاسق کما نقلہ جماعة یعنی بعینہ" (ضوء المعالی علی بدء الأمالی ص:۸۶، طبع جدید)
"حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دینا بلکہ خود ان کا قتل کردینا بھی مذہب اہل سنت کے مقتضی کے مطابق لعنت کا موجب نہیں، (اس لیے کہ یہ کبیرہ گناہ ہی ہے) اور مرتکب کبیرہ گناہ کو کافر نہیں کہا جا سکتا۔ پس اہل سنت کے نزدیک کسی ظالم ، فاسق شخص کےلیے متعین طور پر لعنت کرنی جائز نہیں۔"
ایک اور حنفی بزرگ مولانا اخوند درویزہ اسی قصیدہ امالی کی شرح میں لکھتے ہیں:
"مذہب اہل سنت وجماعت آن ست کہ لعنت بغیر از کافر مسلمان رانیا مدہ است۔ پس یزید کافر نبود بلکہ مسلمان سنی بود وکسے بہ گناہ کردن کافر نمی شود در تمہید آور دہ است کہ قاتل حسین را نیز کافر نباید گفت۔ زیرا کہ بہ گناہ کردن کسے کافر نمی شود۔" (شرح قصیدہ امالی، طبع ۱۳۱۷ھ لاہور)
"اہل سنت کا مذہب ہے کہ لعنت کرنا سوائے کافر کے کسی مسلمان کےلیے جائز نہیں یزید کافر نہیں، سنی مسلمان تھا اور کوئی شخص محض گناہ کرلینے سے کافر نہیں ہوتا۔ تمہید میں ہے کہ خود قاتل حسین کو بھی کافر نہیں کہا جاسکتا۔ اس لیے کہ گناہ کرلینے سے کوئی شخص کافر نہیں ہوتا۔"
الغرض یزید کو مغفرت کو بشارت نبوی ﷺ سے کسی طرح بھی خارج نہیں کیا جاسکتا، جن لوگوں نے ایسی کوشش کی ہے ان کے پاس سوائے بغض یزید اور جذبۂ حب حسین رضی اللہ عنہ کے کوئی معقول دلیل نہیں۔
سب سے زیادہ تعجب مدیر "رضائے مصطفٰے" اور ان کے ہمنواؤں پر ہے کہ ایک طرف وہ آنحضرت ﷺ کو عالم ما کان وما یکون تسلیم کرتے ہیں او ر دوسری طرف آپ کی دی ہوئی بشارت میں سے یزید کو خارج کرنے میں کوشاں ہیں۔ ہم تو آنحضرتﷺ کو عالم الغیب تسلیم نہیں کرتے۔ البتہ بشارات کا منبع وحیٔ الہٰی کو مانتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ مستقبل کے متعلق جتنی بھی پیش گوئیاں حضورﷺ نے فرمائی ہیں وہ اللہ تعالیٰ سے علم اور وحی پا کر کی ہیں جو کبھی غلط نہیں ہوسکتیں اور آپ تو خود حضورﷺ کو بھی عالم الغیب مانتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی پیش گوئی پر اعتقاد نہیں، کیسی عجیب بات ہے؟ آپ کے نزدیک اس بات کا کیا جواب ہے کہ جس وقت نبی ﷺ نے غزوۂ قسطنطنیہ کے شرکاء کی مغفرت کی خبر دی، اس وقت رسول اللہﷺ کو یہ علم تھا یا نہیں کہ اس میں یزید جیسا شخص بھی شامل ہوگا؟ اور یہ بھی آپ کو علم تھا یا نہیں کہ یزید بعد میں کافر ومرتد ہوجائے گا؟ اگر ان دونوں باتوں کا آپ کو اس وقت علم تھا تو پھر نبی ﷺ نے یزید کو مغفرت و بشارت سے خارج کیوں نہیں کیا؟ اور علم ہوتے ہوئے اگر آپ نے یزید کو خارج نہیں کیا تو اس کا مطلب کیا ہے؟ امید ہےمدیر موصوف اپنے عقیدۂ علم غیب کے مطابق ان سوالات کی وضاحت ضرور فرمائیں گے۔
بہرحال رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ قسطنطنیہ کے شرکاء کی مغفرت کی جو پیش گوئی فرمائی ہے وہ بالکل برحق ہے اور یقیناً وہ سب مَغفُورٌ لَہُم ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی کافر یا مرتد ہونے والا ہوتا تو آپ اس کی بھی وضاحت فرمادیتے اس لیے وہ سب شرکائے غزوہ یقیناً مسلمان تھے، غزوہ کے بعد ان کے کفر وارتداد کا امکان محض ایک واہمی، سفسطہ اور مفروضہ ہے۔ بشارت کا اقتضاء تو یہ ہے کہ ان کا خاتمہ بہرحال ایمان و اسلام ہی پر ہونا چاہیے اور یہی ہمارا اعتقاد ہے کیونکہ اس اعتقاد کے بغیر ایک نبی کی پیش گوئی اور کاہن ونجومی کی پیش گوئی میں فرق باقی نہیں رہ جاتا ہے۔ نبی ﷺ کی توہین کی ایسی جسارت ہم نہیں کرسکتے یہ تو انہی لوگوں کا جگرا ہے جو "عشق رسول" کے ٹھیکیدار بھی بنے پھرتے ہیں اور آپ کی پیش گوئی کو ایک نجومی کے اٹکل پچو سے زیادہ حیثیت دینے کےلیے بھی تیار نہیں۔ معاذ اللہ!
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حرف آخر:

ان سوالات کے آخر میں مدیر "رضائے مصطفےٰ" نے لکھا ہے۔
نوٹ:
جواب مختصر، جامع اور مدلل و جلدی ہونا چاہیے"
جواب:
ہم نے موصوف کی خواہش پر اپنے علم و فہم کے مطابق جامع ومدلل جوادے دیے ہیں۔ مدیر موصوف سے متوقع ہیں کہ وہ حزبی تعصب اور جذباتی وابستگی سے بالاتر ہوکر ہماری معروضات پر غور فرمائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح فہم عطا فرمائے۔
" اللھم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ والباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ"
لیکن افسوس ہے کہ مدیر "رضائے مصطفےٰ" نے ہمارے دلائل کا آج تک کوئی جواب نہیں دیا، جس سے قارئین اندازہ کرسکتے ہیں کہ کس کا موقف مضبوط اور وزنی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
یزید کو رحمۃ اللہ علیہ کہنا نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے


امام غزالی کا فتویٰ

مذکورہ مضمون میں متعدد جگہ امام غزالی کے جس فتویٰ کا ذکر آیا ہے اور اس کی بعض عبارتیں نقل ہوئی ہیں وہ پورا فتویٰ افادۂ عام کی غرض سے ذیل میں مع ترجمہ درج کیا جاتا ہے۔

" وقد أفتیٰ الإمام أبو حامد الغزالی رحمہ اللہ تعالیٰ ۔۔۔ فإنہ سئل عمن صرح بلعن یزید ھل یحکم بفسقہ أم یکون ذٰلک مرخصاً فیہ؟ وھل کان مریداً قتل الحسین رضی اللہ عنہ أم کان قصدہ الدفع؟ وھل یسوغ الترحم علیہ أم السکوت عنہ أفضل؟ ینعم بإزالۃ الاشتباہ مثاباً فأجاب لا یجوز لعن المسلم أصلاً ومن لعن مسلماً فھو الملعون وقد قال رسول اللہ ﷺ "المسلم لیس بلعان" وکیف یجوز لعن المسلم ولا یجوز لعن البہائم وقد ورد النہی عن ذٰلک وحرمة المسلم أعظم من حرمۃ الکعبة بنص النبی ﷺ ویزید صح إسلامہ وما صح قتلہ الحسین رضی اللہ عنہ ولا أمرہ ولا رضاہ بذٰلک ومھما لم یصح ذٰلک منہ لا یجوز أن یظن ذٰلک بہ فإن إسآءة الظن بالمسلم أیضاً حرامٌ وقد قال تعالیٰ اجْتَنِبُوا كَثِيراً مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وقال النبی ﷺ إن اللہ حرم من المسلم دمہ ومالہ وعرضہ وأن یظن السوء ومن زعم أن یزید أمر بقتل الحسین رضی اللہ عنہ أو رضی بہ فینبغی أن یعلم بہ غایة حماقة فإن من قتل من الأکابر والوزرآء والسلاطین فی عصرہ لو أراد أن یعلم حقیقة من الذی أمر بقتلہ ومن الذی رضی بہ ومن الذی کرھہ لم یقدر علی ذٰلک وإن کان قد قتل فی جوارہ وزمانہ وھو یشاہدہ ، فکیف لو کان فی بلد بعید وزمن قدیم قد انقضیٰ، فکیف یعلم ذٰلک فیما انقضیٰ علیہ قریبٌ من أربع مائۃ سنۃ فی مکان بعید؟
وقد تطرق التعصب فی الواقعة فکثرت فیھا الأحادیث من الجوانب فھٰذا أمر لا تعرف حقیقتہ أصلاً وإذا لم یعرف وجب إحسان الظن بکل مسلم یمکن إحسان الظن بہ ومع ھٰذا فلو ثبت علی مسلم أنہ قتل مسلماً فمذھب اھل الحق أنہ لیس بکافر والقتل لیس بکفر بل ہو معصیة وإذا مات القاتل فربما مات بعد التوبة والکافر لو تاب من کفرہ لم تجز لعنته فکیف من تاب عن قتل؟ وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ فإذن لا یجوزلعن أحد ممن مات من المسلمین ومن لعنہ کان فاسقاً عاصیاً للہ تعالیٰ ولو جاز لعنہ فسکت لم یکن عاصیاً بالإجماع بل لو لم یلعن إبلیس طول عمرہ لا یقال لہ یوم القیامة لم َ لم تلعن إبلیس؟ ویقال للاعن لِمَ لعنت؟ ومن أین عرفت أنہ مطرودٌ ملعونٌ؟ والملعون ھو المبعد من اللہ عز وجل وذٰلک غیبٌ لا یعرف إلا فیمن مات کافراً فإن ذٰلک عُلم بالشرع وأما الترحم علیہ فھو جائز بل ہو مستحبٌ بل ہو داخل فی قولنا فی کل صلوٰة اللھم اغفر للمؤمنین والمؤمنات فإنہ کان مؤمناً
(وفیات الاعیان لابن خلکان: ۲۸۸/۳، طبع بیروت ۱۹۷۰ء)
"امام غزالی سے سوال کیا گیا کہ اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے، جو یزید پر لعنت کرتا ہے؟ کیا اس پر فسق کا حکم لگایا جاسکتا ہے؟ کیا اس پر لعنت کا جواز ہے؟ کیا یزید فی الواقع حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتا تھا یا اس کا مقصد صرف اپنی مدافعت تھا؟ اس کو "رحمۃ اللہ علیہ " کہنا بہتر ہے یا اسے سکوت افضل ہے؟"
امام غزالی نے جواب دیا مسلمان پر لعنت کرنے کا قطعاً کوئی جواز نہیں، جو شخص کسی مسلمان پر لعنت کرتا ہے وہ خود ملعون ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے:
"مسلمان لعنت کرنے والا نہیں ہوتا۔" علاوہ ازیں ہمیں تو ہماری شریعت اسلامیہ نے بہائم (مسلمانوں) تک پر لعنت کرنے سے روکا ہے تو پھر کسی مسلمان پر لعنت کرنا کس طرح جائز ہوجائے گا؟ جبکہ ایک مسلمان کی حرمت (عزت) حرمت کعبہ سے بھی زیادہ ہے جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ میں مذکور ہے۔ (سنن ابن ماجہ)
یزید کا اسلام صحیح طور ثابت ہے جہاں تک حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے واقعے کا تعلق ہے سو اس بارے میں کوئی صحیح ثبوت موجود نہیں کہ یزید نے انہیں قتل کیا یا ان کے قتل کا حکم دیا یا اس پر رضامندی ظاہر کی۔ جب یزید کے متعلق یہ باتیں پایۂ ثبوت ہی کو نہیں پہنچتیں تو پھر اس سے بدگمانی کیونکر جائز ہوگی؟ جبکہ مسلمان کے متعلق بدگمانی کرنا بھی حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے "تم خوامخواہ بدگمانی کرنے سے بچو کہ بعض دفعہ بدگمانی بھی گناہ کے دائرے میں آجاتی ہے" اور نبی ﷺ کاارشاد ہے:
"اللہ تعالیٰ نے مسلمان کے خون، مال ، عزت و آبرو اور ا س کے ساتھ بدگمانی کو حرام قرار دیا ہے۔"
جس شخص کا خیال ہے کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کا حکم دیا یا ان کے قتل کو پسند کیا، وہ پرلے درجے کا احمق ہے۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ ایسا گمان کرنے والے کے دور میں کتنے ہی اکابر، وزراء اور سلاطین کو قتل کیا گیا لیکن وہ اس بات کا پتہ چلانے سے قاصر رہا کہ کن لوگوں نے ان کو قتل کیا اور کن لوگوں نے اس قتل کو پسند یا ناپسند کیا دراں حالیکہ ان کے قتل اس کے بالکل قرب میں اور اس کے زمانے میں ہوئے اور ا س نے ان کا خود مشاہدہ کیا۔ پھر اس قتل کے متعلق (یقینی اور حتمی طور پر) کیا کہا جاسکتا ہے جو دور دراز کے علاقے میں ہوا اور جس پر چار سو سال (امام غزالی کے دور تک) کی مدت بھی گزر چکی ہے۔
علاوہ ازیں اس سانحے پر تعصب وگروہ بندی کی دبیز تہیں چڑھ گئی ہیں اور روایتوں کے انبار لگا دیے گیے ہیں جس کی بنا پر اصل حقیقت کا سراغ لگانا ناممکن ہے، جب واقعہ یہ ہے کہ حقیقت کی نقاب کشائی ممکن ہی نہیں تو ہر مسلمان کے ساتھ حسن ظن رکھنا ضروری ہے۔ پھر اہل حق (اہل سنت ) کا مذہب تو یہ ہے کہ کسی مسلمان کے متعلق یہ ثابت بھی ہوجائے کہ اس نے کسی مسلمان کو قتل کیا ہے تب بھی وہ قاتل مسلمان ، کافر نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ جرم قتل کفر نہیں ایک معصیت (گناہ) ہے۔ پھر یہ بھی واقعہ ہے کہ مسلمان قاتل مرنے سے پہلے پہلے اکثر توبہ کرہی لیتا ہے اور شریعت کا حکم تو ہے کہ اگر کوئی کافر بھی کفر سے توبہ کرلے اس پر بھی لعنت کی اجازت نہیں، پھر یہ لعنت ایسے مسلمان کےلیے کیوں کر جائز ہوگی جس نے مرنے سے پہلے جرم قتل سے توبہ کرلی ہو؟
آخر کسی کے پاس اس امر کی کیا دلیل ہے کہ حضرت حسین کے قاتل کو توبہ کی توفیق نصیب نہیں ہوئی اور وہ توبہ کیے بغیر ہی مرگیا ہے جب کہ اللہ کا در توبہ ہر وقت وا ہے۔ وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ(الشوری: ۲۵/۴۲)
بہرحال کسی لحاظ سے بھی ایسے مسلمان پر لعنت کرنا جائز نہیں جو مرچکا ہو، جو شخص کسی مرے ہوئے مسلمان پر لعنت کرے گا وہ خود فاسق اور اللہ کا نافرمان ہے۔
اگر (بالفرض) لعنت کرنا جائز بھی ہو لیکن وہ لعنت کی بجائے سکوت اختیار کیے رکھے تو ایسا شخص بالاجماع گناہ گار نہ ہوگا بلکہ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں ایک مرتبہ بھی ابلیس پر لعنت نہیں بھیجتا تو قیامت کے روز اس سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تو نے ابلیس پر لعنت کیوں نہیں کی؟
البتہ اگر کسی نے کسی مسلمان پر لعنت کی تو قیامت کے روز اس سے ضرور پوچھا جاسکتا ہے کہ تو نے اس پر لعنت کیوں کی تھی؟ اور تجھے یہ کیوں کر معلوم ہوگیا تھا کہ وہ ملعون اور راندہ ٔ درگاہ ہے؟ جب کہ کسی کے کفر و ایمان کا مسئلہ امور غیب سے ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ ہاں شریعت کے ذریعے ہمیں یہ ضرور معلوم ہوا ہے کہ جو شخص کفر کی حالت میں مرے، وہ ملعون ہے۔
جہاں تک یزید کو "رحمۃاللہ علیہ" یا "رحمہ اللہ" کہنے کا تعلق ہے تو یہ نہ صرف جائز بلکہ مستحب (اچھا فعل) ہے بلکہ وہ از خود ہماری ان دعاؤں میں شامل ہے جو ہم تمام مسلمان کی مغفرت کےلیے کرتے ہیں کہ
"اللھم اغفر للمؤمنین والمؤمنات" "یا اللہ! تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دے" اس لیے کہ یزید بھی یقیناً مومن تھا۔" (وفیات الاعیان ، ۲۸۸/۳، طبع بیروت)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
غزوۂ قسطنطنیہ کی سپہ سالاری

ایک تاریخی حوالے کی وضاحت
غزوۂ قسطنطنیہ سے متعلق صحیح بخاری کی جو روایت پہلے متعدد مقامات پر زیر بحث آ چکی ہے، جس میں یہ بشارت دی گئی ہے کہ اس غزوے میں شریک ہونے والے افراد مغفور (بخشے ہوئے) ہیں۔ تمام قدیم کتب تواریخ اس امر پر متفق ہیں کہ اس غزوے کے امیر لشکر یزید بن معاویہ تھے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے مسند احمد کی ایک روایت ہے جس میں صاف وضاحت ہے کہ :
" أن یزید بن معاویة کان أمیراً علی الجیش الذی غزا فیہ أبو أیوب" (مسند احمد: ۴۱۶/۵، طبع جدید)
"اس لشکر قسطنطنیہ کے امیر جس میں حضرت ابو ایوب انصاری بھی شریک تھے، یزید بن معاویہ تھے۔"
اسی طرح قدیم تاریخوں مثلاً ابن سعد (متوفی ۲۳۰ھ) کی الطبقات الکبری، ابن جریر طبری (متوفی ۳۱۰ھ) کی تاریخ الامم والملوک (ج:۴، ص:۱۷۳) اور خلیفہ بن خیاط (متوفی ۲۴۰ھ) کی تاریخ (ج:۱، ص: ۱۹۶) میں بسلسلہ زیر بحث غزوہ قسطنطنیہ ، یزید بن معاویہ کی شمولیت کا ذکر اس انداز ہی سے آیا ہے کہ وہ امیر لشکر تھے۔ یہ تو اولین اور قدیم ترین تاریخیں ہیں بعد کے مؤرخین میں حافظ ابن کثیر (متوفی ۷۷۴ھ) کا جو پایہ ہے ، وہ محتاج بیان نہیں انہوں نے اپنی تاریخ کی مشہور کتاب البدایۃ والنہایۃ کے متعدد مقامات پر اس کی صراحت کی ہے ۔ ج: ۸، ص:۵۹ پر مسند احمد کی متذکرہ بالا روایت بھی نقل کی ہے اور ص: ۵۸ پر ہے کہ حضرت ابو ایوب انصاری کی وصیت کے مطابق ان کی نماز جنازہ یزید نے پڑھائی۔
" وکان فی جیش یزید بن معاویة وإلیہ أوصیٰ وھو الذی صلی علیہ" (البدایۃ والنہایۃ: ۶۰/۸۔۶۱)
اسی جلد کے ص: ۱۵۱ پر لکھا ہے کہ حضرت حسین بھی اس لشکر میں موجود تھے۔
" وقد کان فی الجیش الذین غزوا القسطنطنیة مع ابن معاویة یزید" (البدایۃ والنہایۃ: ۱۵۳/۸)
اور ص ۲۲۹ میں یزید کے حالات میں لکھا ہے۔
" وقد کان یزید أول من غزا مدنیة قسطنطنیة" (البدایۃ والنہایۃ: ۲۳۲/۸)
اسی طرح ابن عبدالبر (متوفی ۴۶۳ھ) کی کتاب "الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب" ج:۱، ص:۱۵۷۔ امام سہیلی (متوفی۵۸۱ھ) کی الروض الانف (شرح سیرت ابن ہشام) ج: ۲، ص:۲۴۶۔ حافظ ابن حجر کی کتاب "الاصابہ فی تمییز الصحابہ" ج:۲، ص:۹۰ میں اسی حقیقت کا اثبات کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں شروح بخاری "فتح الباری" ج:۶، ص: ۱۲۵، (طبع دارالسلام) اور "عمدۃ القاری" میں بھی حدیث ((یغزون مدینۃ قیصر)) کی شرح کرتے ہوئے یہی کچھ لکھا گیا ہے۔
حدیث اور تاریخ کے ان تمام حوالوں سے یہ بات پایہ ٔ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ جس لشکر کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے مغفور لھم (وہ بخشا ہوا ہے) فرمایا ہے اس کے امیر یزید بن معاویہ ہی تھے۔ رحمہ اللہ تعالیٰ۔
اس تاریخی حقیقت کے برعکس بعض لوگ یزید کو اس شرف سے محروم کرنے کےلیے کہتے ہیں کہ زیر بحث لشکر کے امیر حضرت سفیان بن عوف تھے، یزید نہ تھے۔ لیکن تاریخی دلائل اس رائے کی تغلیط و تردید کرتے ہیں۔ جیسا کہ محولہ بالا عبارتوں سے واضح ہے۔ غالباً ایسے لوگوں کے سامنے ابن الاثیر (متوفی ۶۳۰ھ) کی الکامل اور ابن خلدون (متوفی ۸۰۸ھ) کی تاریخ ہے حالانکہ ان کے بیانات سے بھی ان کی رائے کی تائید نہیں ہوتی۔
ابن الاثیر نے اس سلسلے میں یہ لکھا ہے کہ :
"حضرت معاویہ نے قسطنطنیہ کی طرف کثیر فوج روانہ کی، حضرت سفیان بن عوف کو اس کا امیر مقرر کیا اور اپنے لڑکے یزید کو بھی اس فوج میں شامل ہونے کو کہا لیکن وہ ساتھ جانے کےلیے تیار نہیں ہوا، لشکر وہاں پہنچا اور خبر آئی کہ وہ مصائب سے دوچار ہوگیا ہے اس پر یزید کی خواہش کے مطابق جم غفیر لشکر کا اضافہ کیا جن میں حضرت ابن عباس ، حضرت ابن عمر، ابن زبیر اور ابو ایوب انصاری وغیرہ بہت سے لوگ تھے۔ (ملخصاً از تاریخ ابن الاثیر (ج ۳، ص ۲۲۷)
تاریخ ابن خلدون میں بھی (غالباً) اسی سے ماخوذ تقریباً ایسا ہی درج ہے۔ (ج:۳، ص:۹، طبع بیروت ۱۹۷۱ء)
اولاً:
یہ دونوں کتابیں بعد کی ہیں جب کہ قدیم تاریخوں میں (جو بنیادی مآخذ ہیں) یزید ہی کو لشکر کا سپہ سالار بتلایا گیا ہے جیسا کہ پہلے سارے حوالے درج کیے جاچکے ہیں۔
ثانیاً:
ابن الاثیر اور ابن خلدون کی بیان کردہ تفصیل کو اگر پہلے مؤرخین کی مذکورہ تصریحات کی روشنی میں دیکھا جائے تو ا س میں صرف اتنا اضافہ ملتا ہ کہ یزید سے پہلے ایک لشکر سفیان بن عوف کی قیادت میں بھیجا گیا لیکن بوجوہ وہ لشکر کوئی کارکردگی پیش نہ کر سکا جس کے بعد یزید کی سپہ سالاری (قیادت) میں وہ لشکر بھیجا گیا جس نے وہاں جاکر جہاد کیا اور یوں یزیدی لشکر ہی غزوہ قسطنطنیہ کا اولین غازی اور بشارت نبوی کا مصداق قرار پایا۔ بنا بریں تمام مؤرخین کا یزید ہی کو اس لشکر قسطنطنیہ کا سپہ سالار قرار دیان بالکل صحیح ہے۔ اور ابن الاثیر اور ابن خلدون کی تفصیل بھی اس کے مناقض نہیں، گو اس میں ایک بات کا اضافہ ضرور ہے، تاہم اس اضافے سے یزید کو اس شرف سے محروم کرنے کی کوشش غیر صحیح اور بے بنیاد ہے۔ یہ بات تو خود ابن الاثیر کے اپنے ذہن میں بھی نہیں تھی جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب اسد الغابہ میں یزید ہی کو لشکر قسطنطنیہ کا سپہ سالار لکھا ہے۔ (ج:۲، ص:۸۸، ص:۱۴۵ طبع قدیم، ترجمہ، ابو ایوب انصاری)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سانحۂ کربلا اور حضرت حسین و یزید شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی نظر میں

سانحۂ شہادت حسین اور واقعات کربلا کے موضوع پر آج سے کئی صدیاں قبل شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ (۶۶۱۔۷۲۸ھ) نے جو کچھ لکھا تھا، وہ حق واعتدال کا ایک بہترین نمونہ، دلائل و براہین کا نادر مرقع اور خداداد فہم صحیح کا شاہکار ہے، انہوں نے اپنی تالیفات میں متعدد مقامات پر اس کو موضوع بحث بنایا ہے۔ بالخصوص "منہاج السنۃ" میں اس پر بڑی عمدہ بحث فرمائی ہے جس کی ضروری تلخیص مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی مرحوم نے اردو میں کرکے شائع کر دی تھی۔ اس کیااہمیت و افادیت کے پیش نظر ہم ذیل میں امام موصوف کی وہ ترجمہ شدہ تحریر بھی قدرے ترمیم کے ساتھ پیش کررہے ہیں ، آیات و احادیث کے عربی الفاظ کا، اصل کتاب سے مراجعت کرکے، ہم نے اضافہ کردیا ہے۔ (مرتب)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تمہید

علماء اسلام میں کوئی ایک بھی یزید بن معاویہ کو ابو بکر، عمر، عثمان اور علی کی طرح خلفائے راشدین میں سے نہیں سمجھتا۔ حدیث میں آیا ہے کہ:
" خلافة النبوة ثلاثون سنة ثم یؤتی اللہ الملک من یشآء" (سنن أبی داؤد، السنۃ، باب فی الخلفاء، ح:۴۶۴۷)
"خلافت تیس برس تک منہاج نبوت پر رہے گی پھر سلطنت ہوجائے گی۔"
علماء اہل سنت اس حدیث کے مطابق یزید اور اس جیسے آدمی اور عباسی خلفاء کو محض فرمانروا بادشاہ اور اسی معنی میں خلیفہ خیال کرتے ہیں۔ ان کا یہ خیال بالکل درست ہے۔ یہ ایک محسوس واقعہ ہے جس سے انکار غیر ممکن ہے کیونکہ یزید اپنے زمانے میں عملاً ایک بادشاہ، حکمران، ایک صاحب سیف اور خودمختار فرمانروا تھا۔ اپنے باپ کی وفات کے بعد تخت پر بیٹھا اور شام، مصر، عراق خراسان وغیرہ اسلامی ممالک میں اس کا حکم نافذ ہوا۔ حضرت حسین قبل اس کے کہ کسی ملک پر بھی حاکم ہوں، یوم عاشوراء ۶۱ھ میں شہید ہوگئے اور یہی یزید کی سلطنت کا پہلا سال ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حضرت عبداللہ بن زبیر رض

بلاشبہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے یزید سے اختلاف کیا اور باشندگان مکہ وحجاز نے ان کا ساتھ دیا لیکن یہ واقعہ ہے کہ حضرت عبداللہ نے خلافت کا دعوی یزید کی زندگی میں نہیں کیا بلکہ اس کے مرنے کے بعد کیا۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ شروع شروع میں اختلاف کرنے کےباوجود عبداللہ بن زبیر یزید کے جیتے جی ہی اس کی بیعت پر رضا مند ہوگئے تھے مگر چونکہ اس نے یہ شرط لگا دی تھی کہ قید ہوکر ان کے حضور میں حاضر ہوں اس لیے بیعت رہ گئی اور باہم جنگ برپا ہوئی۔ پس اگرچہ یزید تمام بلاد اسلامیہ کا حکمران نہیں ہوا۔ اور عبداللہ بن زبیر کا ماتحت علاقہ اس کی اطاعت سے برابر گشتہ رہا، تاہم اس سے اس کی بادشاہت اور خلافت میں شبہ نہیں ہوسکتا کیونکہ خلفائے ثلاثہ ابو بکر، عمر، عثمان اور پھر معاویہ بن ابی سفیان ، عبدالملک بن مروان اور اس کی اولاد کے سوا کوئی بھی اموی یا عباسی خلیفہ پورے بلاد اسلامیہ کا تنہا فرمانروا نہیں ہوا۔ حتی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں بھی تمام دنیائے اسلام کی حکومت نہ تھی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بادشاہوں پر خلیفہ کا اطلاق؟

پس اگر اہل سنت ان بادشاہوں میں سے کسی کو خلیفہ یا امام کہتے ہیں تو اس سے مقصود صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے میں خودمختار تھا، طاقتور تھا، صاحب سیف تھا۔ عزل ونصب کرتا تھا، اپنے حکام کے اِجراء کی قوت رکھتا تھا۔ حدود شرعی قائم کرتا تھا کفار پر جہاد کرتا تھا۔ یزید کو بھی امام و خلیفہ کہنے سے یہی مطلب ہے اور یہ ایک ایسی واقعی بات ہے کہ اس کا انکار غیر ممکن ہے۔ یزید کے صاحب اختیار بادشاہ ہونے سے انکار کرناایسا ہی ہے جیسے کوئی اس واقعے سے انکار کردے کہ ابو بکر، عمر، عثمان حکمران نہیں تھے یا یہ کہ قیصر و کسریٰ نے کبھی حکومت نہیں کی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
یہ "خلفاء معصوم نہ تھے

رہا یہ مسئلہ کہ یزید ، عبدالملک، منصور وغیرہ خلفاء نیک تھے یا بد؟ صالح تھے یا فاجر؟ تو علماء اہل سنت نہ انہیں معصوم سمجھتے ہیں نہ ان کے تمام احکام و اعمال کو عدل و انصاف قرار دیتے ہیں اور نہ ہر بات میں ان کی اطاعت واجب تصور کرتے ہیں۔البتہ اہل سنت والجماعت کا یہ خیال ضرور ہے کہ عبادت و طاعت کے بہت سے کام ایسے ہیں جن میں ہمیں ان کی ضرورت ہے ۔ مثلاً یہ کہ ان کے پیچھے جمعہ وعیدین کی نمازیں قائم کی جاتی ہیں۔ ان کے ساتھ کفار پر جہاد کیا جاتا ہے امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور حدود شرعیہ کے قیام میں ان سے مدد ملتی ہے نیز اسی نوع کے دوسرے معاملات ہیں، اگر حکام نہ ہوں تو ان اعمال کا ضائع ہوجانا اغلب ہے بلکہ ان میں سے بعض کا موجود ہونا ہی غیر ممکن ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نصب امام کے چند اصول

اہل سنت کے اس طریقہ پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا کیونکہ اعمال صالحہ انجام دینے میں اگر نیکوں کے ساتھ برے بھی شامل ہوں تو اس سے نیکوں کے عمل کو ذرا بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ بلاشبہ یہ بالکل درست ہے کہ اگر عادل صالح امام کا نصب ممکن ہو تو فاجر و مبتدع شخص کو امام بنانا جائز نہیں، اہل سنت کا بھی یہی مذہب ہے لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو بلکہ امامت کے دونوں مدعی فاجر اور مبتدع ہوں تو ظاہر ہے کہ حدود شرعیہ وعبادات دینیہ کے قیام کےلیے دونوں میں سے زیادہ اہلیت و قابلیت والے کو منتخب کیا جائے گا۔ ایک تیسری صورت بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی ایسا شخص موجود ہو جو صالح ہو مگر سپہ سالاری کے فرائض و واجبات ادا کرنے کا اہل نہ ہو۔ اس کے خلاف ایک فاجر شخص ہو جو بہترین طریق پر فوجون کی قیادت کرسکتا ہو تو جس حد تک جنگی مقاصد کا تعلق ہے، یقیناً اسی آخر الذکر یعنی فاجر کو سربراہ بنانا پڑے گا۔ نیکی کے کاموں میں اس کی اطاعت و امداد کی جائے گی۔ بدی اور برائی میں اس پر اعتراض و انکار کیا جائے گا۔
 
Top