• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حفظ مصالح اور دفع مفاسد

غرض امت کی مصلحتوں کا لحاظ مقدم ہے اگر کسی فعل میں بھلائی اور برائی دونوں موجود ہوں تو دیکھا جائے گا کہ کس کا پلہ بھاری ہے اگر بھلائی زیادہ نظر آئے تو اس فعل کو پسند کیا جائے گا۔ اگر برائی غالب دکھائی دے تو اس کے ترک کو ترجیح دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے نبیٔ کریم ﷺ کو اس لیے مبعوث فرمایا تھا کہ مصالح کی تائید وتکمیل فرمائیں اور مفاسد مٹائیں یا کم کریں۔ یزید ، عبدالملک اور منصور جیسے خلفاء کی اطاعت اسی لیے کی گئی کہ ان کی مخالفت میں امت کےلیے نقصان ، نفع سے زیادہ تھا۔ تاریخ شاہد ہےکہ ان خلفاء پر جن لوگوں نے خروج کیا ان سے امت کو سراسر نقصان ہی پہنچا، نفع ذرا بھی نہیں ہوا۔ بلاشبہ ان خروج کرنے والوں میں بڑے بڑے اخیار وفضلاء بھی شامل تھے مگر ان کی نیکی وخوبی سے ان کا یہ فعل لازماً مفید نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے اپنے خروج سے نہ دین کو فائدہ پہنچایا اور نہ دنیوی نفع ہی حاصل کیا۔ اور معلوم رہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ایسے فعل کا حکم نہیں دیتا جس میں نہ دنیا کا بھلا ہو نہ دین کا، جن لوگوں نے خروج کیا ان سے کہیں زیادہ افضل حضرت علی ، طلحہ ، زبیر، عائشہ وغیرہم صحابہ تھے مگر خود انہوں نے اپنی خونریزی پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
عہد فتن میں خروج کی ممانعت

یہی وجہ ہے کہ حسن بصری حجاج بن یوسف ثقفی کے خلاف بغاوت سے روکتے تھے اور کہتے تھے "حجاج اللہ کا عذاب ہے اسے اپنے ہاتھوں کے زور سے دور کرنے کی کوشش نہ کرو بلکہ اللہ کے سامنے تضرع و زاری کرو کیونکہ اس نے فرمایا ہے:
’’ وَلَقَدْ أَخَذْنَاهُم بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوا لِرَبِّهِمْ وَمَا يَتَضَرَّعُونَ ‘‘ (المؤمنون ۷۶/۲۳)
"ہم نے ان کی عذاب کے ذریعے گرفت کی۔ انہوں نے پھر بھی اپنے رب کے سامنے نہ عاجزی کا اظہار کیا اور نہ اس کے حضور گڑگڑائے۔"
اسی طرح اور اخیار وابرار بھی خلفاء پر خروج اور عہد فتنہ میں جنگ سے منع کیا کرتے تھے جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر، سعید بن المسیب، حضرت زین العابدین، علی بن حسین وغیرہم اکابر صحابہ وتابعین جنگ حرہ کے زمانے میں یزید کے خلاف بغاوت کرنے سے روکتے تھے۔ احادیث صحیحہ بھی اسی مسلک کی مؤید ہیں اسی لیے اہل سنت کے نزدیک یہ تقریباً متفق علیہ مسئلہ ہے کہ عہدفتن میں قتال وجدال سے اجتناب اور جور ائمہ پر صبر کیا جائے، وہ یہ مسئلہ اپنے عقائد میں بھی ذکر کرتے رہے ہیں اور جو شخص متعلقہ احادیث اور اہل سنت کے صاحب بصیرت علماء کے طرز عمل وفکر میں تامل کرے گا اس پر اس مسلک کی صحت و صداقت بالکل واضح ہوجائے گی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا عزم عراق

اسی لیے جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عراق جانے کا رادہ کیا تو اکابر اہل علم وتقویٰ مثلاً عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس ، ابوبکر بن عبدالرحمن حارث نے ان سے بہ منت کہا کہ وہاں نہ جائیں کیونکہ وہ سمجھتے تھے آپ ضرور شہید ہوجائیں گے۔ حتی کہ روانگی کے وقت بعضوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ استودعک اللہ من قتیل "اے شہید! ہم تجھے اللہ کو سونپتے ہیں۔"
اور بعضوں نے کہا:
" لو الشناعة لأمسکتک ومنعتک من الخروج "
"اگر بے ادبی نہ ہوتی تو ہم آپ کو زبردستی پکڑ لیتے اور ہرگز جانے نہ دیتے۔"
اس مشورے سے ان لوگوں کےمدنظر صرف آپ کی خیرخواہی اور مسلمانوں کی مصلحت تھی مگر حضرت حسین اپنے ارادے پر قائم رہے۔آدمی کی رائے کبھی درست ہوتی ہے اور کبھی غلط ہوجاتی ہے۔ بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ حضرت حسین کو عراق جانے سے روکنے والوں ہی کی رائے درست تھی کیونکہ آپ کے جانے سے ہرگز کوئی دینی یا دنیاوی مصلحت حاصل نہ ہوئی بلکہ یہ مضرت پیدا ہوئی کہ سرکشوں اور ظالموں کو رسول اللہ ﷺ کے جگر گوشے پر قابو مل گیا اور وہ مظلوم شہید کردیئے گئے۔ آپ کے جانے اور پھر قتل سے جتنے مفاسد پیدا ہوئے وہ ہرزگ واقع نہ ہوتے اگر آپ اپنی جگہ پر بیٹھے رہتے کیونکہ جس خیر وصلاح کے قیام اور شروفساد کے دفعیہ کےلیے آپ اٹھے تھے اس میں سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ برعکس اس کے شر کو غلبہ اور عروج حاصل ہوگیا۔ خیرو وصلاح میں کمی آگئی اور بہت بڑے دائمی فتنے کا دروازہ کھل گیا جس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت سے فتنے پھیلے اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت نے بھی فتنوں کے سیلاب بہادیئے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حضرت حسین رض کا مقام بلند

اس تفصیل سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی ٔ کریم ﷺ کا ائمہ و خلفاء کے ظلم پر صبر کرنے اور ان سے جنگ وبغاوت نہ کرنے کا حکم مناسب اور امت کے دین ودنیا کےلیے زیادہ بہتر تھا اور جنہوں نے بالقصد یا بلا قصد اس کی مخالفت کی۔ ان کے فعل سے امت کو فائدہ کے بجائے نقصان ہی پہنچا۔ یہی سبب ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی تعریف میں فرمایا تھا:
" إٍنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ" (صحیح البخاری، الصلح، ح:۲۷۰۴)
"میرا یہ فرزند سردا رہے عنقریب خدا اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا۔"
لیکن اس بات پر کسی شخص کی بھی تعریف نہیں کی کہ وہ فتنہ میں پڑے گا یا خلفاء پر خروج کرے گا یا اطاعت سے برگشتہ یا جماعت سے منحرف ہوگا۔ اس حدیث سے صاف ثابت ہوتاہے کہ دو گروہوں میں صلح کرانا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نظر میں مستحسن ومحبوب ہے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا خلافت سے دستبردار ہوکر مسلمانوں کی خونریزی کا خاتمہ کردینا ان کے فضائل میں ایک عظیم ترین فضیلت ہے کیونکہ اگر خانہ جنگی واجب و مستحب ہوتی تو آنحضرتﷺ اس کے ترک پر ہرگز تعریف نہ فرماتے۔
یہاں یہ معلوم کرنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ نبی ﷺ حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو ایک ساتھ گود میں لے کر فرمایا کرتے تھے۔ "اے اللہ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی محبت کر۔" چنانچہ جس طرح آپ اپنی محبت میں دونوں کو یکساں شریک کرتے تھے اسی طرح بعد میں یہ دونوں ان خانہ جنگیوں سے یکساں طور پر نفرت کرتے تھے۔ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ تو جنگ صفین کے دن اپنے گھر بیٹھ رہے تھے اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنے پدر برادر (حضر ت علی اور حسین رضی اللہ عنہما) کو جنگ سے باز رہنے کا مشورہ دیتے تھے۔ پھر جب خود بااختیار ہوئے تو جنگ سے دستبردار ہوگئے اور لڑنے والوں میں صلح قائم کردی۔ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ پر بھی آخر میں یہ حقیقت روشن ہوگئی تھی کہ جنگ کے جاری رہنے سے زیادہ اس کے ختم ہوجانے میں مصلحت ہے۔ پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی کربلا پہنچ کر جنگ سے بیزار اور سرے سے دعویٰ ٔ امارت وخلافت ہی سے دستبردار ہوگئے تھے اور کہتے تھے "مجھے وطن لوٹ جانے دو۔"
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اطاعت فی المعروف

اب یہ بات صاف ہوگئی کہ یزید کا معاملہ کوئی خاص جداگانہ معاملہ نہیں بلکہ دوسرے مسلمان بادشاہوں کا سا معاملہ ہے یعنی جس کسی نے طاعت الہٰی مثلاً نماز، حج، جہاد، امر بالمعروف ونہی عن المنکر اور اقامت حدود شرعیہ میں ان کی موافقت کی اسے اپنی اس نیکی اور اللہ ورسول کی فرمانبرداری پر ثواب ملے گا۔ چنانچہ اس زمانے کے صالح مؤمنین مثلاً حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ وغیرہ کا یہی طریقہ تھا۔ لیکن جس نے ان بادشاہوں کے جھوٹ کی تصدیق کی، اور ان کے ظلم میں مددگار ہوا، وہ گناہ گار ہوا اور زجر وتوبیخ اور مذمت اور سزا کا سزاوار ۔ یہی باعث ہے کہ صحابہ ٔ کرام یزید وغیرہ امراء کی ماتحتی میں جہاد کو جاتے تھے۔ چنانچہ جب یزید نے اپنے باپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں قسطنطنیہ کا غزوہ کیا تو اس کی فوج میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی شریک تھے۔ یہ مسلمانوں کی سب سے پہلی فوج ہے جس نے قسطنطنیہ کا غزوہ کیا۔ (یہ غزوہ ۵۱ھ میں ہوا جس میں حضرت حسین یزید کی ماتحتی میں شریک تھے (البدایہ، ص:۱۵۱، ج:۸) ظاہر ہے اس اثناء میں نمازیں بھی یزید کے پیچھے پڑھتےرہے۔ (ص،ی) اور صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
’’ أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ ‘‘ (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب ما قیل فی قتال الروم، ح:۲۹۲۴)
"جو فوج سب سے پہلے قسطنطنیہ کا غزوہ کرے گی وہ مغفور یعنی بخشی بخشائی ہے۔"
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
یزید کے بارے میں افراط وتفریط

اس تفصیل کے بعد اب ہم کہتے ہیں کہ یزید کے بارے میں لوگوں نے افراط وتفریط سے کام لیا ہےایک گروہ تو اسے خلفائے راشدین اور انبیائے مقربین میں سے سمجھتا ہے اور یہ سراسر غلط ہے دوسرا گروہ اسے باطن میں کافر و منافق بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ اس نے قصداً حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا اور مدینہ میں قتل عام کرایا تاکہ ااپنے ان رشتہ داروں کے خون کا انتقام لے جو بدرو خندق وغیرہ کی جنگوں میں بنی ہاشم اور انصار ہاتھوں قتل ہوئے تھے اور یہ کہ حضرت حسین کی شہادت کے بعد اس نے یہ شعر پڑھے تھے۔

لما بدت تلک الحمول وأشرفت
تلک الرؤوس علی أبی جیرون
"جب وہ سواریاں اور سرابوجیرون کی بلندیوں پر نمودار ہوئے۔"

نعق الغراب فقلت نح أو لا تنح
فلقد قضیت من النبی دیونی
"تو کوا چلایا ۔ اس پر میں نے کہا تو نوحہ کر یا نہ کر میں نے تو نبی سے اپنا قرض پورا پورا وصول کرلیا!"

یا یہ کہ اس نے کہا:

لیت أشیاخی ببدر شھدوا
جزع الخزرج من وقع الأسل​

"کاش میرے بدر والے بزرگ ، نیزوں کی مار سے خزرج وانصار کی دہشت دیکھتے۔"

قد قتلنا القرون من ساداتھم
وعدلنا ببدر فاعتدل​

"ہم نے ان کے سرداروں میں چوٹی کے سردار قتل کرڈالے اور اس طرح بدر کا بدلہ اتار دیا۔"

یہ تمام اقوال سراسر بہتان اور جھوٹ ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حقیقت حال

حقیقت یہ ہےکہ یزید مسلمان بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اور دنیادار خلفاء میں سے ایک خلیفہ تھا۔ رہے حسین رضی اللہ عنہ تو بلاشبہ وہ اسی طرح مظلوم شہید ہوئے جس طرح اور بہت سے صالحین ظلم وقہر کے ہاتھوں جام شہادت پی چکے تھے۔ لاریب حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اللہ اور اس کے رسول کی معصیت اور نافرمانی ہے۔ اس سے وہ تمام لوگ آلودہ ہیں جنہوں نے آپ کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا یا قتل میں مدد کی یا قتل کو پسند کیا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شہادت کا رتبہ ٔ بلند

شہادت حسین رضی اللہ عنہ اگرچہ امت کےلیے بہت بڑی مصیبت ہے لیکن خود حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے حق میں ہرگز مصیبت نہیں، بلکہ شہادت، عزت اور علومنزلت ہے۔ یہ سعادت بغیر مصائب ومحن میں پڑے حاصل نہیں ہوسکتی چونکہ نبی ﷺ کے دونوں نواسے (حضرت حسین اور حضرت حسن رضی اللہ عنہما ) گہوارۂ اسلام میں پیدا ہوئے، امن و امان کی گود میں پلے اور ہولناک مصائب سے دور رہے جن کے طوفانوں میں ان کے اہل بیت مردانہ وار تیرتے پھرتے تھے۔اس لیے شہداء خوش بخت کے اعلیٰ درجات ِ منازل تک پہنچنے کےلیے انہیں کٹھن مرحلے سے گزرنا ضرور تھا۔ چنانچہ دونوں گزر گئے۔ ایک کو زہر دیا گیا اور دوسرے کے گلے پر چھری پھیری گئی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
بڑی بڑی اہم شہادتیں

لیکن یہ بھی ملحوظ رہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قتل کسی حال میں بھی ان انبیاء کے قتل سے زیادہ گناہ اور مصیبت نہیں جنہیں بنی اسرائیل قتل کرتے تھے۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قتل بھی ان کے قتل سے زیادہ گناہ اور امت کے لیے زیادہ بڑی مصیبت تھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
صبر، نہ کہ جزع فزع

یہ حوادث کتنے ہی دردناک ہوں بہرحال ان پر صبر کرنا، اور " إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَ" کہنا چاہیے کیونکہ اس سے اللہ خوش ہوتا ہے ۔ فرمایا:
"وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُواْ إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّ ا إِلَيْهِ رَاجِعونَ"(البقرۃ ۱۵۵/۲۔۱۵۶)
"ان صبر گزاروں کو خوشخبری دے دیجئے جب انہیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو ان کی زبان پر إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعونَجاری ہوجاتا ہے۔"
 
Top