سانحۂ کربلا: پس منظر اور اہم اسباب
سانحۂ کربلاکے سلسلے میں جو تفصیلات گزشتہ صفحات میں مذکور ہوئیں، ان سے اگرچہ اس سانحۂ الیمہ کی اصل حقیقت واضح ہوجاتی ہے، تاہم پھر بھی مختصراً اس کی ضروری روداد اور تھوڑا سا پس منظر بیان کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے، ان چند مزید اشارات سے حقائق و واقعات کی تہ تک پہنچنا مزید آسان ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ العزیز۔
1۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ویزید کی اس آویزش میں، سب سے پہلا نکتہ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ ان دونوں کے گرامی قد ر والدین (حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ) کے مابین بھی سیاسی آویزش اس حد تک رہی کہ مسلمان اس کی وجہ سے ۵ سال (۳۶ھ سے۴۰ھ) تک خانہ جنگی کا شکار رہے اور جَمَل و صِفِّین کی خونی جنگوں سے تاریخ اسلام کے صفحات رنگین ہوئے۔
2۔ اسے محض اقتدار کی رسہ کشی تو قرار دینا نہایت نامناسب اور احترام صحابیت کے تقاضوں کے خلاف ہے، تاہم یہ تاریخی حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ یہ دونوں جلیل القدر صحابی اپنے اپنے علاقوں اور دائروں میں بااختیار اور بااقتدار تھے۔ ایک امیر المؤمنین تھے تو دوسرے، حضرت علی کے خلیفہ بننے کے وقت تک، شام کی گورنری پر ۱۵ سال سے مقرر اور فائز ، گو ان کے یہ دونوں عہدے متفق علیہ نہ تھے۔ حضرت علی کے امیر المؤمنین ہونے پر تمام مسلمان اس طرح متفق نہ ہوسکے تھے، جیسے وہ اس سے پہلے خلفائے ثلاثہ کی خلافت پر متفق ہوئے تھے (جیسا کہ شاہ ولی اللہ اور امام ابن تیمیہ وغیرہ محققین نے اس کی صراحت کی ہے، جس کی تفصیلات راقم کی کتاب "خلافت و ملوکیت کی تاریخی وشرعی حیثیت" میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔) اسی طرح حضرت معاویہ کی گورنری کو حضرت علی نے خلیفہ بننے کے بعد قبول نہیں کیا۔ لیکن دونوں ، اتنے بااختیار اور ہمہ مقتدر ضرور تھے کہ دونوں کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تھی جس کی وجہ سے دونوں کے سیاسی اختلافات باہم معرکہ آرائی اور خانہ جنگی پر منتج ہوئے۔
3۔ ہمہ مقتدر اور بااثر شخصیات کے باہمی اختلاف و مناقشہ کے، ان کے بعد آنے والے اخلاف پر، دو قسم کے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ کچھ تو اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ اختلافات سے سوائے نقصان اور مزید بربادی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ چنانچہ وہ صلح جوئی کی پالیسی اختیار اور مقابلہ آرائی سے گریز کرتےہیں۔
اور بعض بوجوہ اسی اختلاف اور مقابلہ آرائی پر گامزن رہتے ہیں۔ اس کے کئی اسباب و وجوہ ہوتے ہیں، مثلاً اپنے حق پر یا برتر ہونے کا احساس۔ یا ان کے ساتھیوں کا اسی راہ کو اختیار کرنے پر اصرار یا بدخواہوں کا حمائتیوں کے روپ میں اپنے مفادات یا مقاصد کے حصول کےلیے انہیں استعمال کرنے کی کوشش کرنا، وغیرہ
اس نقطۂ نظر سے جب ہم اس سانحے کے پس منظر کو دیکھتے ہیں تو حضرت علی کے اخلاف (اولاد) میں مذکورہ دونوں قسم کے اثرات نظر آتے ہیں۔
4۔ حضرت حسن اختلاف کی بجائے صلح کو پسند کرنے والے ہیں۔ حضرت حسن کی صلح جویانہ طبیعت کا تو یہ حال تھا کہ انہوں نے اپنے والد محترم سے ان کی زندگی میں بھی ان کی مقابلہ آرائی کی پالیسی سے اختلاف کیا اور انہیں حضرت معاویہ سے صلح کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ منقول ہے کہ جب حضرت علی نے ان لوگوں سے لڑنے کا عزم کیا جنہوں نے آپ کی بیعت خلافت نہیں کی، تو آپ کے صاحبزادے حضرت حسن آپ کے پاس آئے اور کہا:
"یا ابتی دع ھٰذا فإن فیہ سفک دماء المسلمین ووقوع الإختلاف بینھم، فلم یقبل منہ ذٰلک، بل صمم علی القتال ورتب الجیش" (البدایۃ والنہایۃ: ۲۴۰/۷ حالات ۳۶ھ دارالدیان ، مصر ۱۹۸۸ء)
"اباجان! اس ارادے کو ترک فرما دیجئے! اس میں مسلمانوں کی خون ریزی ہوگی اور ان کے مابین اختلاف واقع (یعنی شدید) ہوگا۔ حضرت علی نے یہ رائے قبول نہیں کی اور لڑنے کے عزم پر قائم رہے اور لشکر کو مرتب کرنا شروع کردیا۔"
اس کے نتیجےمیں جب جنگ جمل ہوئی، جس کا سبب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما کا قاتلین عثمان سے قصاص لینے کا مطالبہ بنا تھا، اس کے لیے یہ تینوں حضرات اپنے اعوان و انصار سمیت بصرہ آئے تاکہ وہ اپنے اس مطالبے پرعمل درآمد کےلیے قوت فراہم کریں۔ حضرت علی کے علم میں جب یہ بات آئی کہ یہ حضرات اس مقصد کےلیے بصرہ آگئے ہیں تو حضرت علی نے اپنے اس لشکر کا رُخ، جسے انہوں نے شام کے لیے تیار کیا تھا، بصرے کی طرف موڑد یا تاکہ ان کو بصرے میں داخل ہونے سے روکیں اور اگر داخل ہوگئے ہوں تو ان کو وہاں سے نکال دیں۔ اس موقعے پر بھی حضرت حسن راستے میں اپنے والد حضرت علی کو ملے اور ان سے کہا۔
"میں نے آپ کو منع کیا تھا لیکن آپ نے میری بات نہیں مانی، کل کو آپ اس حالت میں قتل کردیئے جائیں گے کہ کوئی آپ کا مددگار نہیں ہوگا۔حضرت علی نے کہا: تو تو مجھ پر ہمیشہ اس طرح جزع فزع کرتا ہے جیسے بچی جزع فزع کرتی ہے، تو نے مجھے کس بات سے منع کیا تھا جس میں میں نے تیری نافرمانی کی؟ حضرت حسن نے کہا: کیا قتل عثمان سے پہلے میں نےآپ کو نہیں کہا تھا کہ آپ یہاں سے نکل جائیں تاکہ آپ کی موجودگی میں یہ سانحہ نہ ہو، تاکہ کسی کوکچھ کہنے کا موقعہ نہ ملے؟ کیا قتل عثمان کے بعد میں نے آپ کو نہیں کہا تھا کہ آپ اس وقت تک لوگوں سے بیعت خلافت نہ لیں جب تک ہر شہر کے لوگوں کی طرف سے آپ کے پاس ان کی بیعت کی اطلاع نہ آجائے؟ اور میں نے آپ کو یہ بھی کہا تھا جس وقت یہ خاتون (حضرت عائشہ) اور یہ دو مرد (حضر ت طلحہ وزبیر) (قصاص عثمان کا مطالبہ لے کر ) نکلے ، کہ آپ گھر میں بیٹھے رہیں۔ یہاں تک کہ یہ سب باہم صلح کرلیں۔ لیکن آپ نے اب سب باتوں میں میری نافرمانی کی۔" (البدایۃ والنہایۃ، ۲۴۵/۷)
پھر جب جنگ جمل شروع ہو گئی اور مسلمان ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگے ، تو حضرت علی نے اپنے صاحبزادے حضرت حسن سے کہا۔
"یا بنی! لیت أباک مات قبل ھٰذا الیوم بعشرین عاماً"
بیٹے! کاش تیرا باپ اس دن سے ۲۰ سال قبل مرگیا ہوتا"
حضرت حسن نے کہا:
"یا أبت قد کنت أنھاک عن ھٰذا"
"ابا جان! میں تو آپ کواس سے منع ہی کرتا رہا۔" (البدایہ، ۲۵۱/۷)
حضرت علی نے اپنے صاحبزادے حضرت حسن کی رائے کو کیوں قبول نہیں کیا اور ا س کے برعکس موقف کیوں اپنایا؟ یہ ایک الگ موضوع ہے جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں (اس کےلیے راقم کی کتاب
"خلافت وملوکیت کی تاریخی وشرعی حیثیت" کا مطالعہ مفید رہے گا) یہاں اس وقت یہ پہلو واضح کرنا مقصود ہے کہ حضرت حسن اپنے مزاج افتاد طبع کے اعتبار سے نہایت صلح جُو تھے، وہ قدم قدم پر اپنے والد گرامی کو بھی یہ پالیسی اختیارکرنے کی تلقین کرتے رہے اور پھر ۴۰ھ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب مسلمانوں کی زمام کار حضر ت حسن کے ہاتھ آئی اور انہیں خلیفہ تسلیم کرلیا گیا تو اپنے اسی مزاج کی وجہ سے وہ حضرت معاویہ کے حق میں خلافت میں دست بردار ہوگئے اور لڑائی جھگڑے کو طول دینے کی بجائے صلح ومفاہمت کا راستہ اختیار کیا اور یوں نبی ﷺ کی اس پیش گوئی کا مصداق بنے جو آپ نے حضرت حسن کے لیے فرمائی تھی کہ ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کروائے گا۔ یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور حضرت حسن کے تدبر، جذبۂ مفاہمت اور قربانی سےخانہ جنگی کا خاتمہ ہوگیا اور امن واستحکام کا ایک نیا دور شروع ہوا جو حضرت معاویہ کی وفات یعنی ۶۰ ہجری تک رہا۔ حضرت معاویہ کے ۲۰ سالال دور خلافت میں اسلامی قلمرو اندرونی شورشوں سے محفوظ رہی ، امن و خوش حالی کا دَور دَورہ رہا اور اسلامی فتوحات کا سلسلہ، جو حضرت علی کے پانچ سالہ دور میں بند رہا، پھر سے نہ صرف جاری ہوا بلکہ اس کا دائرہ مسلسل وسعت پذیر رہا۔ یہ نتیجہ تھا حضر ت حسن کی صلح پسندانہ پالیسی اور حضرت معاویہ کے حلم وتدبر اور حسن سیاست کا، رضی اللہ عنہما۔
5۔ حضرت علی کے دوسرے صاحبزادے حضرت حسین کا مزاج حضرت حسن سے یکسر مختلف تھا، اس لیے ان پر دوسرے قسم کے اثرات مترتب ہوئے اور اسی کے مطابق ان کی پالیسی اور اقدامات سے نتائج بھی ہولناک ہی برآمد ہوئے۔ ان ہولناک نتائج کے پس منظر میں ، ہمیں وہ سارے اسباب بہ یک وقت کارفرما نظر آتے ہیں جن کی وضاحت ہم نے گزشتہ صفحات میں کی۔ یعنی:
1۔ اپنے حق پر او ربرتر ہونے کا احساس
2۔ اختلاف وانشقاق ہی کی راہ کو اپنانے پر اصرار
3۔ بدخواہوں کا حمائتیوں کے روپ میں انہیں اپنے مفادات و مقاصد کے حصول کےلیے استعمال کرنے کی سعی۔
جہاں تک احساس برتری کا تعلق ہے، اس میں حضرت حسین یقیناً حق بجانب تھے۔ فضائل ومناقب کے اعتبار سے وہ بلا شبہ یزید سے بدرجہا بہتر اور برتر تھے اور اس بنا پر اگر خلافت کےلیے ان کا انتخاب کرلیا جاتا تو بجا طور پر وہ اس کے مستحق تھے۔ لیکن حکومت و اقتدار کی تاریخ بھی یہی ہے اور اس کا تقاضا بھی یہی کہ اس میں فضائل کم دیکھے جاتے ہیں اور دوسرے عوامل زیادہ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتوں پر اکثر ایسے ہی لوگ فائز ہوتے چلے آئے ہیں جو مفضول ہوتے تھے اور افضل لوگ اس سے محروم۔ اسی لیے علمائے سیاست میں سے کسی نے بھی خلافت وحکومت کی اہلیت کےلیے افضلیت کو معیار تسلیم نہیں کیا ہے۔ بلکہ اس سے ہٹ کر دوسرے، معیارات ہی کو بنیاد بنایا ہے۔ بنا بریں محض افضلیت کی وجہ سے حضرت حسین ہی کو مستحق خلافت قرار دینا اور کسی مفضول کے اس منصب پر فائز ہونے کو یکسر رد کردینا، معقول بات نہیں، اس طرح تو تاریخ اسلام کے بھی اکثر خلفاء و سلاطین نااہل قرار پائیں گے۔ حتی کہ اس نکتے کی وضاحت کےلیے حضرت علی اور حضر ت معاویہ کے ادوارِ خلافت ہی پر نظر ڈال لینا کافی ہے۔ اس میں بھی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ دونوں کی بابت صرف اس تبصرے ہی میں کافی رہنمائی ہے جو حافظ ابن کثیر نے کئے ہیں۔ حافظ ابن کثیر حضرت علی کی بابت لکھتے ہیں:
"امیر المؤمنین پر ان کے معاملات خراب ہوگئے تھے، ان کا لشکر ہی ان سے اختلاف کرتا تھا اور اہل عراق نے ان کی مخالفت کی اور ان کا ساتھ دینے سےگریز کیا۔ اس کے برعکس (ان کے مخالف) اہل شام کا معاملہ مضبوط ہوتا گیا۔۔۔ اور اہل شام کی قوت میں جتنا اضافہ ہوتا، اہل عراق کے حوسلے اتنے ہی پست ہوجاتے۔ ایسا اس حالت میں ہو اکہ ان کے امیر علی بن ابی طالب تھے جو اس وقت روئے زمین پر سب سے بہتر، سب سے زیادہ عابد وزاہد، سب سے زیادہ عالم اور اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے تھے، اس کے باوجود اہل عراق (یعنی ان کے اپنے ماننے والوں نے) ان کو بے یار ومددگار چھوڑ دیا اور ان سے علیحدہ ہوگئے یہاں تک کہ حضرت علی زندگی ہی سے بیزار ہوگئے اور موت کی آرزو کرنے لگے اور یہ اس لیے ہوا کہ فتنے بہت زیادہ ہوگئے اور آزمائشوں کا ظہورہوا۔" (البدایۃ، ۳۳۵/۷، ذکر مقتل امیرا لمؤمنین علی بن ابی طالب)
خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک موقعے پر اپنے سر پر قرآن رکھ اور اہل کوفہ کی بابت بارگاہ الہٰی میں یوں عرض کناں ہوئے:
"اے اللہ! انہوں نے مجھے وہ کام نہیں کرنے دیئے جن میں امت کا بھلا تھا، پس تو مجھے ان کے ثواب سے محروم نہ رکھنا (پھر فرمایا) اے اللہ! میں ان سے اکتا گیا ہوں اور یہ مجھ سے اکتا گئے ہیں، میں انہیں ناپسند کرتا ہوں اور یہ مجھے ناپسند کرتے ہیں۔۔۔" (البدایہ، ۱۳/۸)
حضرت معاویہ حضرت عمر کے زمانے سے شام کے گورنر چلے آرہے تھے، جس پر وہ سالہا سال تک فائز رہے (گورنری کی یہ مدت ۲۰ سال شمار کی گئی ہے ) ۴۰ ھ میں حضرت معاویہ خلیفۃ المسلمین بن گئے اور اپنی وفات یعنی ۶۰ ہجری تک خلیفہ رہے، یوں ان کے دور حکومت و خلافت کی مدت ۴۰ سال بنتی ہے۔ اس چالیس سالہ دورِ حکمرانی پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
"حضرت معاویہ کے دورِ گورنری میں فتوھات کا سلسلہ جاری اور روم وافرنگ وغیرہ کے علاقوں میں جہاد ہوتا رہا۔ پھر جب ان کے اور امیر المؤمنین حضرت علی کے درمیان اختلاف ہوا، تو فتوحات کا سلسلہ رک گیا اور ان ایام میں کوئی فتح نہیں ہوئی، حضرت علی کے ہاتھوں نہ حضرت معاویہ کے ہاتھوں ۔ بلکہ حضرت معاویہ کی زیر امارت علاقے میں شاہ روم (عیسائی حکمراں) دلچسپی لینے لگا، حالانکہ اسے اس سے قبل حضرت معاویہ ذلیل ورسوا اور اس کے لشکرکو مغلوب ومقہور کرچکے تھے، لیکن شاہ روم نے جب دیکھا کہ معاویہ حضرت علی سے جنگ و پیکار میں مشغول ہوگئے ہیں تو وہ اپنی فوج کی ایک بڑی تعداد حضرت معاویہ کے بعض علاقوں کے قریب لےآیا اور اپنی حرص وطمع کے دانت تیز کرلیے تو حضرت معاویہ نے اسے لکھا:
"اللہ کی قسم! اے ملعون! اگر تو باز نہ آیا اور اپنے علاقے کی طرف واپس نہ لوٹا تو میں تیرے مقابلے کے لیے اپنے چچازاد (حضرت علی) سے صلح کرلوں گا اور تجھے تیرے سارے علاقے سے باہر نکال کر تجھ پر زمین، تما م تر فراخی کے باوجود، تنگ کردوں گا۔"
یہ خط پڑھ کر شاہ روم ڈر گیا اور اپنے ارادے سے باز آگیا اور صلح کا پیغام بھیج دیا۔ اس کے بعد تحکیم کا مرحلہ ایا اور پھر حضرت حسن بن علی سے صلح ہوگئی (اور حضرت معاویہ خلیفہ بن گئے) تو ان پر سب کا اتفاق ہوگیا اور ۴۱ھ میں ساری رعایا نے متفقہ طور پر ان کی بعیت کرلی۔ پھر اپنے سال وفات تک اس پوری مدت میں وہ مستقل بالامر رہے، دشمن کے علاقوں میں جہاد کا سلسلہ قائم رہا، اللہ کا کلمہ بلند رہا، اطراف و اکناف عالم سے مال غنیمت کی آمد جاری رہی اور مسلمان اس دور میں راحت سے رہے، عوام کے ساتھ ان کا معاملہ عدل و انصاف اور عفو ودرگزر کا رہا۔ " (البدایہ، ۱۲۲/۸)
فضائل و مناقب کے لحاظ سے حضرت علی، یقیناً حضرت معاویہ سے فائق اور افضل ہیں، لیکن افضل ہونے کے باوجود ان کا دورِ حکومت، حضرت معاویہ کے دورِ حکومت کے مقابلے میں جیسا کچھ رہا، وہ مذکورہ تبصروں سے واضح ہے، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امور جہانبانی کا مسئلہ اپنی گوناگوں نوعیت اور وسعت کے اعتبار سے مختلف حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں زہد وورع اور فضل ومنقبت کے اعتبار سے ممتاز شخص بعض دفعہ ناکام اور اس سے کم تر فضیلت کا حامل شخص کامیاب رہتا ہے۔
اس لیے حضرت معاویہ نے ایک افضل شخص کو چھوڑ کر یزید کو اپنا جانشین بنایا، تو اس میں یقیانً یزید کے اندر اہلیت و صلاحیت کے علاوہ بہت سی حکمتیں اورمصلحتیں بھی تھیں۔ ہمارے لیے اس بنا پر حضرت معاویہ کو مطعون کرنے کاکوئی جواز ہے نہ یزید کی خلافت کو ، جسے گنتی کے ۴ افراد کے علاوہ سب لوگوں نے اپنا خلیفہ تسلیم کرلیا تھا، غلط کہنے کی کوئی بنیاد۔ حضرت حسین کے لیے بھی یہی بات مناسب تھی کہ وہ اپنے سے مفضول شخص کی خلافت کو تسلیم کرلیتے، لیکن ایسا نہ ہوسکا اور ان کا احساس فضلیت ایک نہایت المناک سانحے کا سبب بن گیا۔
٭ ان کے اس احساس ہی نے انہیں اختلاف کی راہ پر گامزن کردیا اور انہیں اس کے خطرناک عواقب کا احساس نہ ہونے دیا۔
٭ ان کے اسی احساس کی وجہ سے کوفیوں کو یہ حوصلہ ہوا کہ انہوں نے حضرت حسین کو ایسے خطوط لکھے جن میں ان کے احساس فضیلت کا سامان تھا اور جس نے ان کے احساس کو ایک عزم راسخ میں بدل دیا۔
بہرحال گفتگو یہ ہورہی تھی کہ حضرت حسین کا مزاج ، حضرت حسن کے مزاج سے یکسر مختلف تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے حضرت حسن کی خلافت سے دست برداری اور حضرت معاویہ سے ان کے صلح کرلینے کو بھی ناپسند فرمایا تھا۔ (البدایۃ، ج:۸، ص:۱۷)
ان کا یہ مزاج ہی سانحۂ کربلا کا سب سے بڑا سبب بنا، ۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔ اس کی مرحلہ وار تفصیل آئندہ صفحات میں مختصراً پیش کی جاتی ہے۔