• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
لعنت کے بارے میں مسئلہ شرعیہ

لیکن فاسق کو معین کرکے لعنت کرنا سنت نبوی ﷺ میں موجود نہیں البتہ عام لعنت وارد ہے۔ مثلاً نبی ﷺ نے فرمایا:
" لَعَنَ اللَّهُ السَّارِقَ يَسْرِقُ الْبَيْضَةَ فَتُقْطَعُ يَدُهُ " (صحیح البخاری، الحدود، باب لعن السارق إذا لم یسم، ح:۶۷۸۳ وصحیح مسلم، الحدود، باب حد السرقۃ ونصابہا، ح:۱۶۸۷)
"چور پر اللہ کی لعنت کہ ایک انڈے پر اپنا ہاتھ کٹوا دیتا ہے۔"
فرمایا:
" فَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ " (صحیح البخاری، الجزیۃ والموادعۃ ، باب إثم من عاھد ثم غدر، ح:۳۱۷۹)
"جو بدعت نکالے یا بدعتی کو پناہ دے اس پر اللہ کی لعنت۔"
یامثلاً صحیح بخاری میں ہے کہ ایک شخص شراب پیتا تھا اور باربار نبی ﷺ کے پاس پکڑا آتا تھا یہاں تک کہ کئی پھیرے ہوچکے تو ایک شخص نے کہا:
" اللَّهُمَّ الْعَنْهُ مَا أَكْثَرَ مَا يُؤْتَى بِهِ "
"اس پر اللہ کی لعنت کہ باربار پکڑ کر دربار رسالت میں پیش کیا جاتا ہے۔"
آنحضرت ﷺ نے سنا تو فرمایا:
" لَا تَلْعَنُوهُ فَوَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِنَّهُ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ" (صحیح البخاری، الحدود، باب ما یکرہ من لعن شارب الخمر۔۔۔، ح: ۶۷۸۰)
حالانکہ آپ نے عام طور پر شرابیوں پر لعنت بھیجی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ عام طور پر کسی خاص گروہ پر لعنت بھیجنا جائز ہے مگر اللہ اور رسول ﷺ سے محبت رکھنے والے کسی معین شخص پر لعنت کرنا جائز نہیں اور معلوم ہے کہ ہر مومن اللہ اور رسول سے ضرور محبت رکھتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
یزید پر لعنت سے پہلے دو چیزوں کا اثبات ضروری ہے

صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوگا وہ بالآخر دوزخ سے نجات پائے گا۔
بنابریں جو لوگ یزید کی لعنت پر زور دیتے ہیں انہیں دو باتین ثابت کرنی چاہئیں۔ اول یہ کہ یزید ایسے فاسقوں اور ظالموں میں سے تھا جن پر لعنت کرنا مباح ہے۔ اور اپنی اس حالت پر موت تک رہا۔ دوسرے یہ کہ ایسے ظالموں اور فاسقوں میں سے کسی ایک کو معین کرکے لعنت کرنا روا ہے۔
رہی آیت أَلاَ لَعْنَةُ اللّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ (ہود: ۱۸/۱۱) تو یہ عام ہے جیسا کہ باقی تمام آیات وعید عام ہیں۔ اور پھر ان آیتوں سے کیا ثابت ہوتا ہے یہی کہ یہ گناہ لعنت اور عذاب کا مستوجب ہے؟ لیکن بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوسرے اسباب آکر لعنت وعذاب کے اسباب کو دور کردیتے ہیں مثلاً گناہ گار نے سچے دل سے توبہ کرلی یا اس سے ایسی حسنات بن آئیں جو سیئات کو مٹا دیتی ہیں۔ یا ایسے مصائب پیش آئے جو گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ بنابریں کون شخص دعویٰ کرسکتا ہے کہ یزید اور اس جیسے بادشاہوں نے توبہ نہیں کی، یا سیئات کو دور کرنے والی حسنات انجام نہیں دیں یا گناہوں کاکفارہ ادا نہیں کیا، یا یہ کہ اللہ کسی حال میں بھی انہیں نہیں بخشے گا۔ حالانکہ وہ خود فرماتا ہے:
إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ (النساء: ۴۸/۴)
پھر صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
"سب سے پہلے قسطنطنیہ پر جو فوج لڑے گی وہ مغفور ہے۔" (صحیح البخاری، الجہاد والسیر، باب ماقیل فی قتال الروم، ح:۲۹۲۴)
اور معلوم ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے جس فوج نے قسطنطنیہ پر لڑائی کی اس کا سپہ سالار یزید ہی تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ یزید نے یہ حدیث سن کر ہی فوج کشی کی ہوگی، بہت ممکن ہے کہ یہ بھی صحیح ہو لیکن اس سے اس فعل پر کوئی نکتہ چینی نہیں کی جاسکتی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
لعنت کا دروازہ کھولنے کے نتائج

پھر ہم خوب جانتے ہیں کہ اکثر مسلمان کسی نہ کسی طرح کے ظلم سے ضرور آلودہ ہوتے ہیں اگر لعنت کا دروازہ اس طرح کھول دیا جائے تو مسلمانوں کے اکثر مردے لعنت کا شکار ہوجائیں گےحالانکہ اللہ تعالیٰ نے مردہ کے حق میں صلاۃ ودعا کا حکم دیا ہے نہ کہ لعنت کرنے کا ۔
نبی ﷺ نے فرمایا ہے:
" لَا تَسُبُّوا الْأَمْوَاتَ فَإِنَّهُمْ قَدْ أَفْضَوْا إِلَى مَا قَدَّمُوا " (صحیح البخاری، الجنائز، باب ما ینہی من سب الأموات، ح:۱۳۹۳)
"مردوں کو گالی مت دو کیونکہ وہ اپنے کیے کو پہنچ گئے۔"
بلکہ جب لوگوں نے ابو جہل جیسے کفار کو گالیاں دینی شروع کیں تو انہیں منع کیا اور فرمایا:
’ لَا تَسُبُّوا مَوْتَانَا فَتُؤْذُوا أَحْيَاءَنَا ‘ (سنن النسائی، القسامۃ، القود من اللطمۃ، ح:۴۷۷۹)
"ہمارے مرے ہوؤں کو گالیاں مت دو کیونکہ اس سے ہمارے زندوں کو تکلیف ہوتی ہے۔"
یہ اس لیے کہ قدرتی طور پر ان کے مسلمان رشتہ دار برا مانتے تھے۔ امام احمد بن حنبل سے ان کے بیٹے صالح نے کہا ألا تلعن یزید؟ آپ یزید کو لعنت کیوں نہیں کرتے؟ حضرت امام نے جواب دیا:
متیٰ رأیت أباک یلعن أحداً "
تو نے اپنے باپ کو کسی پر بھی لعنت کرتے کب دیکھا تھا۔"
قرآن کریم کی آیت:
فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ *أُوْلَئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَى أَبْصَارَهُمْ * (محمد ۲۲/۴۸۔۲۳)
"کیا تم سے بعید ہے کہ اگر جہاد سے پیٹھ پھیرلو تو لگو ملک میں فساد کرنے اور اپنے رشتے توڑنے یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی اور ان کو بہرا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا ہے۔"
سے خاص یزید کی لعنت پر اصرار کرنا خلاف انصاف ہے۔ کیونکہ یہ آیت عام ہے اور اس کی وعید ان تمام لوگوں کو شامل ہے جو ایسے افعال کے مرتکب ہوں جن کا اس آیت میں ذکر ہے یہ افعال صرف یزید ہی نے نہیں کیے بلکہ بہت سے ہاشمی، عباسی ، علوی بھی ان کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اگر اس آیت کی رو سے ان سب پر لعنت کرنا ضروری ہو تو اکثر مسلمانوں پر لعنت ضروری ہوجائے گی۔ کیوں کہ یہ افعال بہت عام ہیں مگر یہ فتویٰ کوئی بھی نہیں دےسکتا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
قاتلین حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات

رہی وہ روایت جو بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
حسین رضی اللہ عنہ کا قاتل آگ کے تابوت میں ہوگا۔ اس اکیلے پر آدھی دوزخ کا عذاب ہوگا اس کے ہاتھ پاؤں آتشی زنجیروں سے جکڑے ہوں گے وہ دوزخ میں الٹا اتارا جائے گایہاں تک کہ اس کی تہ تک پہنچ جائے گا اور اس میں اتنی سخت بدبو ہوگی کہ دوزخی تک اللہ سے پناہ مانگیں گے وہ ہمیشہ دوزخ میں پڑا جلتا رہے گا۔"
تو یہ روایت بالکل جھوٹی ہے اورا ن لوگوں کی بنائی ہوئی ہے جو رسول اللہ ﷺ پر تہمت باندھنے سے نہیں شرماتے۔ کہاں آدھی دوزخ کا عذاب، اور کہاں ایک حقیر آدمی؟ فرعون اور دوسرے کفار ومنافقین، قاتلین انبیاء او ر قاتلین مومنین اولین کا عذاب قاتلین حسین سے کہیں زیادہ سخت ہوگا بلکہ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کا گناہ بھی حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے زیادہ ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اہل سنت کا مسلک معتدل:

حسین رضی اللہ عنہ کی طرفداری میں اس غلو کا جواب ناصبیوں کا غُلُو ہےجو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اس حدیث کا مصداق قرار دے کر
" فَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُفَرِّقَ أَمْرَ هَذِهِ الْأُمَّةِ وَهِيَ جَمِيعٌ فَاضْرِبُوهُ بِالسَّيْفِ كَائِنًا مَنْ كَانَ " (صحیح مسلم، الإمارۃ، باب حکم من فرق أمر المسلمین وہو مجتمع، ح:۱۸۵۲)
انہیں باغی اور واجب القتل قرار دیتے ہیں۔ لیکن اہل سنت والجماعت نہ اس کا ساتھ دیتے ہیں نہ اس غلو کا۔ بلکہ یہ کہتےہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ مظلوم شہید ہوئے اور ان کے قاتل ظالم و سرکش تھے۔ اور ان احادیث کا اطلاق ان پر صحیح نہیں جن میں تفریق بین المسلمین کرنے والے کے قتل کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ کربلا میں آپ کا قصد امت میں پھوٹ ڈالنا نہ تھا، بلکہ آپ جماعت ہی میں رہنا چاہتے تھے مگر ظالموں نے آپ کا کوئی مطالبہ نہ مانا، نہ آپ کو وطن واپس ہونے دیا، نہ سرحد پر جانے دیا۔ نہ خود یزید کے پاس پہنچنے دیا بلکہ قید کرنے پر اصرار کیا۔ ایک معمولی مسلمان بھی اس برتاؤ کا مستحق نہیں ہوسکتا کجا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ۔
اسی طرح یہ روایت بھی رسول اللہ ﷺ پر سفید جھوٹ ہے۔
"جس نے میرے اہل بیت کا خون بہایا اور میرے خاندان کواذیت دے کر مجھے تکلیف پہنچائی اس پر اللہ کا اور میرا غصہ ہوگا۔"
اس طرح کی بات رسول اللہ ﷺ کی زبان مبارک سے کہیں بھی نہیں نکل سکتی تھی۔ کیونکہ رشتہ داری اور قرابت سے زیادہ ایمان اور تقوی کی حرمت ہے اگر اہل بیت میں سے کوئی ایسا شخص جرم کرے جس پر شرعاً اس کا قتل واجب ہو تو بالاتفاق اسے قتل کرڈالا جائے گا۔ مثلاً اگر کوئی ہاشمی چوری کرے تو یقیناً اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔ اگر زنا کا مرتکب ہوتو سنگسار کردیا جائے گا۔ اگر جان بوجھ کر کسی بے گناہ کو قتل کرڈالے تو قصاص میں اس کی بھی گردن ماری جائے گی۔اگرچہ مقتول حبشی، رومی ، ترکی دیلمی غرض کوئی بھی ہو۔ کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا:
" الْمُسْلِمُونَ تَتَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ" (سنن أبی داؤد، الجہاد، باب فی السریۃ۔۔۔، ح:۲۷۵۱)
"یعنی تمام مسلمانوں کا خون یکساں حرمت رکھتا ہے۔"
پس ہاشمی وغیر ہاشمی کا خون برابر ہے۔
اسلامی مساوات: نیز فرمایا:
" إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ قَبْلَكُمْ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمْ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ وَايْمُ اللَّهِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا" (صحیح البخاری،أحادیث الأنبیاء، باب:۵۴، ح:۳۴۷۵ وصحیح مسلم، الحدود، باب قطع السارق الشریف وغیرہ۔۔۔، ح:۱۶۸۸)
"اگلی قومیں اس طرح ہلاک ہوئیں کہ جب ان میں کوئی معزز آدمی چوری کرتا تو چھوڑ دیا جاتا تھا۔ لیکن جب معمولی آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی تھی۔ واللہ! اگر فاطمہ بنت محمدﷺ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔"
اس میں نبیﷺ نے تشریح کردی ہے کہ اگر آپ کا قریب سے قریب عزیز بھی جرم سے آلودہ ہوگا تو اسے شرعی سزا ضرور ملے گی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کسی خاندان کی خصوصیت ثابت نہیں

پھر یہ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ نبی ﷺ یہ کہہ کر اپنے خاندان کو خصوصیت دیں کہ جو ان کا خون بہائے گا۔ اس پر اللہ کا غصہ بھڑکے گا۔ کیونکہ یہ بات پہلے ہی مسلم ہے کہ ناحق قتل شریعت میں حرام ہے، عام اس سے کہ ہاشمی کا ہو یاغیر ہاشمی کا:
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِداً فِيهَا وَغَضِبَ اللّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَاباً عَظِيماً (النساء ۹۳/۴)
پس قتل کی اباحت و حرمت میں ہاشمی و غیر ہاشمی، سب مسلمان یکساں درجہ رکھتے ہیں۔
اسی طرح رسول اللہ ﷺ کو تکلیف دینا حرام ہے عام اس سے کہ آپ کے خاندان کو تکلیف دے کر ہو یا امت کو ستا کر، یا سنت کو توڑ کر۔ اب واضح ہوگیا کہ اس طرح کی بے بنیاد حدیثیں جاہلوں اور منافقوں کے سوا کوئی اور نہیں بیان کرسکتا۔
اسی طرح یہ کہنا کہ رسول اللہ ﷺ حضرت حسن اور حسین سے نیک سلوک کی مسلمانوں کو ہمیشہ وصیت کرتے اور فرماتے تھے۔ "یہ تمہارے پاس میری امانت ہیں۔" بالکل غلط ہے۔
بلا شبہ حضرت حسن و حسین اہل بیت میں بڑا درجہ رکھتے ہیں لیکن نبی ﷺ نے یہ کبھی نہین فرمایا کہ "حسنین تمہارے پاس میری امانت ہیں۔" رسول اللہ ﷺ کامقام اس سے کہیں ارفع واعلیٰ ہے کہ اپنی اولاد مخلوق کو سونپیں۔
ایسا کہنے کے دو ہی مطلب ہوسکتے ہیں۔
1۔ یہ کہ جس طرح مال امانت رکھا جاتاہے اور اس کی حفاظت مقصود ہوتی ہے تو یہ صورت تو ہو نہیں سکتی کیونکہ مال کی طرح آدمی امانت رکھے نہیں جاسکتے۔
2۔ یا یہ مطلب ہوگا کہ جس طرح بچوں کو مربیوں کے سپرد کیا جاتا ہے ۔ تو یہ صورت بھی یہان درست نہیں ہوسکتی کیونکہ بچپن میں حسنین اپنے والدین کی گود میں تھے۔ اور جب بالغ ہوئے تو اور سب آدمیوں کی طرح خودمختار اور اپنےذمہ دار ہوگئے۔
اگر یہ مطلب بیان کیاجائے کہ نبی ﷺ نے امت کو ان کی حفاظت و حراست کا حکم دیا تھا تو یہ بھی درست نہیں کیونکہ امت کسی کو مصیبت سے بچا نہیں سکتی۔ وہ صرف اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔
اگر کہا جائے کہ اس سے آپ کی غرض ان کی حمایت ونصرت تھی۔ تو اس میں ان کی خصوصیت نہیں۔ ہر مسلمان کو دوسرے مظلوم مسلمان کی حمایت ونصر ت کرنی چاہیے اور ظاہرہے حسنین اس کے زیادہ مستحق ہیں۔
اسی طرح یہ کہنا کہ آیت:
قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى (الشوری ۲۳/۴۲)
"میں تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتاہوں صرف رشتہ داری کی محبت چاہتا ہوں۔"
حسنین کے بارے میں نازل ہوئی ہے، بالکل جھوٹ ہے کیونکہ یہ آیت سورۃ شوری کی ہے اور سورۂ شوری مکی ہے اور حسنین کیا معنی ؟ حضرت فاطمہ کی شادی سے بھی پہلے اتری ہے۔ آپ کا عقد ہجرت کے دوسرے سال مدینہ میں ہوا اور حسن و حسین ہجرت کے تیسرے اور چوتھے سال پیدا ہوئے۔ پھر یہ کہنا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ آیت ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔؟ (منہاج السنہ از صفحہ: ۲۳۷ تا ۲۵۶، ج: ۲، طبع قدیم)

جاری ہے.....​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
سانحۂ کربلا: پس منظر اور اہم اسباب

سانحۂ کربلاکے سلسلے میں جو تفصیلات گزشتہ صفحات میں مذکور ہوئیں، ان سے اگرچہ اس سانحۂ الیمہ کی اصل حقیقت واضح ہوجاتی ہے، تاہم پھر بھی مختصراً اس کی ضروری روداد اور تھوڑا سا پس منظر بیان کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے، ان چند مزید اشارات سے حقائق و واقعات کی تہ تک پہنچنا مزید آسان ہوجائے گا۔ ان شاء اللہ العزیز۔
1۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ ویزید کی اس آویزش میں، سب سے پہلا نکتہ یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ ان دونوں کے گرامی قد ر والدین (حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ) کے مابین بھی سیاسی آویزش اس حد تک رہی کہ مسلمان اس کی وجہ سے ۵ سال (۳۶ھ سے۴۰ھ) تک خانہ جنگی کا شکار رہے اور جَمَل و صِفِّین کی خونی جنگوں سے تاریخ اسلام کے صفحات رنگین ہوئے۔

2۔ اسے محض اقتدار کی رسہ کشی تو قرار دینا نہایت نامناسب اور احترام صحابیت کے تقاضوں کے خلاف ہے، تاہم یہ تاریخی حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ یہ دونوں جلیل القدر صحابی اپنے اپنے علاقوں اور دائروں میں بااختیار اور بااقتدار تھے۔ ایک امیر المؤمنین تھے تو دوسرے، حضرت علی کے خلیفہ بننے کے وقت تک، شام کی گورنری پر ۱۵ سال سے مقرر اور فائز ، گو ان کے یہ دونوں عہدے متفق علیہ نہ تھے۔ حضرت علی کے امیر المؤمنین ہونے پر تمام مسلمان اس طرح متفق نہ ہوسکے تھے، جیسے وہ اس سے پہلے خلفائے ثلاثہ کی خلافت پر متفق ہوئے تھے (جیسا کہ شاہ ولی اللہ اور امام ابن تیمیہ وغیرہ محققین نے اس کی صراحت کی ہے، جس کی تفصیلات راقم کی کتاب "خلافت و ملوکیت کی تاریخی وشرعی حیثیت" میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔) اسی طرح حضرت معاویہ کی گورنری کو حضرت علی نے خلیفہ بننے کے بعد قبول نہیں کیا۔ لیکن دونوں ، اتنے بااختیار اور ہمہ مقتدر ضرور تھے کہ دونوں کے ساتھ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد تھی جس کی وجہ سے دونوں کے سیاسی اختلافات باہم معرکہ آرائی اور خانہ جنگی پر منتج ہوئے۔

3۔ ہمہ مقتدر اور بااثر شخصیات کے باہمی اختلاف و مناقشہ کے، ان کے بعد آنے والے اخلاف پر، دو قسم کے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ کچھ تو اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ اختلافات سے سوائے نقصان اور مزید بربادی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ چنانچہ وہ صلح جوئی کی پالیسی اختیار اور مقابلہ آرائی سے گریز کرتےہیں۔
اور بعض بوجوہ اسی اختلاف اور مقابلہ آرائی پر گامزن رہتے ہیں۔ اس کے کئی اسباب و وجوہ ہوتے ہیں، مثلاً اپنے حق پر یا برتر ہونے کا احساس۔ یا ان کے ساتھیوں کا اسی راہ کو اختیار کرنے پر اصرار یا بدخواہوں کا حمائتیوں کے روپ میں اپنے مفادات یا مقاصد کے حصول کےلیے انہیں استعمال کرنے کی کوشش کرنا، وغیرہ
اس نقطۂ نظر سے جب ہم اس سانحے کے پس منظر کو دیکھتے ہیں تو حضرت علی کے اخلاف (اولاد) میں مذکورہ دونوں قسم کے اثرات نظر آتے ہیں۔

4۔ حضرت حسن اختلاف کی بجائے صلح کو پسند کرنے والے ہیں۔ حضرت حسن کی صلح جویانہ طبیعت کا تو یہ حال تھا کہ انہوں نے اپنے والد محترم سے ان کی زندگی میں بھی ان کی مقابلہ آرائی کی پالیسی سے اختلاف کیا اور انہیں حضرت معاویہ سے صلح کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ منقول ہے کہ جب حضرت علی نے ان لوگوں سے لڑنے کا عزم کیا جنہوں نے آپ کی بیعت خلافت نہیں کی، تو آپ کے صاحبزادے حضرت حسن آپ کے پاس آئے اور کہا:
"یا ابتی دع ھٰذا فإن فیہ سفک دماء المسلمین ووقوع الإختلاف بینھم، فلم یقبل منہ ذٰلک، بل صمم علی القتال ورتب الجیش" (البدایۃ والنہایۃ: ۲۴۰/۷ حالات ۳۶ھ دارالدیان ، مصر ۱۹۸۸ء)
"اباجان! اس ارادے کو ترک فرما دیجئے! اس میں مسلمانوں کی خون ریزی ہوگی اور ان کے مابین اختلاف واقع (یعنی شدید) ہوگا۔ حضرت علی نے یہ رائے قبول نہیں کی اور لڑنے کے عزم پر قائم رہے اور لشکر کو مرتب کرنا شروع کردیا۔"
اس کے نتیجےمیں جب جنگ جمل ہوئی، جس کا سبب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت طلحہ وزبیر رضی اللہ عنہما کا قاتلین عثمان سے قصاص لینے کا مطالبہ بنا تھا، اس کے لیے یہ تینوں حضرات اپنے اعوان و انصار سمیت بصرہ آئے تاکہ وہ اپنے اس مطالبے پرعمل درآمد کےلیے قوت فراہم کریں۔ حضرت علی کے علم میں جب یہ بات آئی کہ یہ حضرات اس مقصد کےلیے بصرہ آگئے ہیں تو حضرت علی نے اپنے اس لشکر کا رُخ، جسے انہوں نے شام کے لیے تیار کیا تھا، بصرے کی طرف موڑد یا تاکہ ان کو بصرے میں داخل ہونے سے روکیں اور اگر داخل ہوگئے ہوں تو ان کو وہاں سے نکال دیں۔ اس موقعے پر بھی حضرت حسن راستے میں اپنے والد حضرت علی کو ملے اور ان سے کہا۔
"میں نے آپ کو منع کیا تھا لیکن آپ نے میری بات نہیں مانی، کل کو آپ اس حالت میں قتل کردیئے جائیں گے کہ کوئی آپ کا مددگار نہیں ہوگا۔حضرت علی نے کہا: تو تو مجھ پر ہمیشہ اس طرح جزع فزع کرتا ہے جیسے بچی جزع فزع کرتی ہے، تو نے مجھے کس بات سے منع کیا تھا جس میں میں نے تیری نافرمانی کی؟ حضرت حسن نے کہا: کیا قتل عثمان سے پہلے میں نےآپ کو نہیں کہا تھا کہ آپ یہاں سے نکل جائیں تاکہ آپ کی موجودگی میں یہ سانحہ نہ ہو، تاکہ کسی کوکچھ کہنے کا موقعہ نہ ملے؟ کیا قتل عثمان کے بعد میں نے آپ کو نہیں کہا تھا کہ آپ اس وقت تک لوگوں سے بیعت خلافت نہ لیں جب تک ہر شہر کے لوگوں کی طرف سے آپ کے پاس ان کی بیعت کی اطلاع نہ آجائے؟ اور میں نے آپ کو یہ بھی کہا تھا جس وقت یہ خاتون (حضرت عائشہ) اور یہ دو مرد (حضر ت طلحہ وزبیر) (قصاص عثمان کا مطالبہ لے کر ) نکلے ، کہ آپ گھر میں بیٹھے رہیں۔ یہاں تک کہ یہ سب باہم صلح کرلیں۔ لیکن آپ نے اب سب باتوں میں میری نافرمانی کی۔" (البدایۃ والنہایۃ، ۲۴۵/۷)
پھر جب جنگ جمل شروع ہو گئی اور مسلمان ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے لگے ، تو حضرت علی نے اپنے صاحبزادے حضرت حسن سے کہا۔
"یا بنی! لیت أباک مات قبل ھٰذا الیوم بعشرین عاماً"
بیٹے! کاش تیرا باپ اس دن سے ۲۰ سال قبل مرگیا ہوتا"
حضرت حسن نے کہا:
"یا أبت قد کنت أنھاک عن ھٰذا"
"ابا جان! میں تو آپ کواس سے منع ہی کرتا رہا۔" (البدایہ، ۲۵۱/۷)
حضرت علی نے اپنے صاحبزادے حضرت حسن کی رائے کو کیوں قبول نہیں کیا اور ا س کے برعکس موقف کیوں اپنایا؟ یہ ایک الگ موضوع ہے جس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں (اس کےلیے راقم کی کتاب "خلافت وملوکیت کی تاریخی وشرعی حیثیت" کا مطالعہ مفید رہے گا) یہاں اس وقت یہ پہلو واضح کرنا مقصود ہے کہ حضرت حسن اپنے مزاج افتاد طبع کے اعتبار سے نہایت صلح جُو تھے، وہ قدم قدم پر اپنے والد گرامی کو بھی یہ پالیسی اختیارکرنے کی تلقین کرتے رہے اور پھر ۴۰ھ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد جب مسلمانوں کی زمام کار حضر ت حسن کے ہاتھ آئی اور انہیں خلیفہ تسلیم کرلیا گیا تو اپنے اسی مزاج کی وجہ سے وہ حضرت معاویہ کے حق میں خلافت میں دست بردار ہوگئے اور لڑائی جھگڑے کو طول دینے کی بجائے صلح ومفاہمت کا راستہ اختیار کیا اور یوں نبی ﷺ کی اس پیش گوئی کا مصداق بنے جو آپ نے حضرت حسن کے لیے فرمائی تھی کہ ان کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کروائے گا۔ یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور حضرت حسن کے تدبر، جذبۂ مفاہمت اور قربانی سےخانہ جنگی کا خاتمہ ہوگیا اور امن واستحکام کا ایک نیا دور شروع ہوا جو حضرت معاویہ کی وفات یعنی ۶۰ ہجری تک رہا۔ حضرت معاویہ کے ۲۰ سالال دور خلافت میں اسلامی قلمرو اندرونی شورشوں سے محفوظ رہی ، امن و خوش حالی کا دَور دَورہ رہا اور اسلامی فتوحات کا سلسلہ، جو حضرت علی کے پانچ سالہ دور میں بند رہا، پھر سے نہ صرف جاری ہوا بلکہ اس کا دائرہ مسلسل وسعت پذیر رہا۔ یہ نتیجہ تھا حضر ت حسن کی صلح پسندانہ پالیسی اور حضرت معاویہ کے حلم وتدبر اور حسن سیاست کا، رضی اللہ عنہما۔

5۔ حضرت علی کے دوسرے صاحبزادے حضرت حسین کا مزاج حضرت حسن سے یکسر مختلف تھا، اس لیے ان پر دوسرے قسم کے اثرات مترتب ہوئے اور اسی کے مطابق ان کی پالیسی اور اقدامات سے نتائج بھی ہولناک ہی برآمد ہوئے۔ ان ہولناک نتائج کے پس منظر میں ، ہمیں وہ سارے اسباب بہ یک وقت کارفرما نظر آتے ہیں جن کی وضاحت ہم نے گزشتہ صفحات میں کی۔ یعنی:
1۔ اپنے حق پر او ربرتر ہونے کا احساس
2۔ اختلاف وانشقاق ہی کی راہ کو اپنانے پر اصرار
3۔ بدخواہوں کا حمائتیوں کے روپ میں انہیں اپنے مفادات و مقاصد کے حصول کےلیے استعمال کرنے کی سعی۔
جہاں تک احساس برتری کا تعلق ہے، اس میں حضرت حسین یقیناً حق بجانب تھے۔ فضائل ومناقب کے اعتبار سے وہ بلا شبہ یزید سے بدرجہا بہتر اور برتر تھے اور اس بنا پر اگر خلافت کےلیے ان کا انتخاب کرلیا جاتا تو بجا طور پر وہ اس کے مستحق تھے۔ لیکن حکومت و اقتدار کی تاریخ بھی یہی ہے اور اس کا تقاضا بھی یہی کہ اس میں فضائل کم دیکھے جاتے ہیں اور دوسرے عوامل زیادہ۔ یہی وجہ ہے کہ حکومتوں پر اکثر ایسے ہی لوگ فائز ہوتے چلے آئے ہیں جو مفضول ہوتے تھے اور افضل لوگ اس سے محروم۔ اسی لیے علمائے سیاست میں سے کسی نے بھی خلافت وحکومت کی اہلیت کےلیے افضلیت کو معیار تسلیم نہیں کیا ہے۔ بلکہ اس سے ہٹ کر دوسرے، معیارات ہی کو بنیاد بنایا ہے۔ بنا بریں محض افضلیت کی وجہ سے حضرت حسین ہی کو مستحق خلافت قرار دینا اور کسی مفضول کے اس منصب پر فائز ہونے کو یکسر رد کردینا، معقول بات نہیں، اس طرح تو تاریخ اسلام کے بھی اکثر خلفاء و سلاطین نااہل قرار پائیں گے۔ حتی کہ اس نکتے کی وضاحت کےلیے حضرت علی اور حضر ت معاویہ کے ادوارِ خلافت ہی پر نظر ڈال لینا کافی ہے۔ اس میں بھی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ دونوں کی بابت صرف اس تبصرے ہی میں کافی رہنمائی ہے جو حافظ ابن کثیر نے کئے ہیں۔ حافظ ابن کثیر حضرت علی کی بابت لکھتے ہیں:
"امیر المؤمنین پر ان کے معاملات خراب ہوگئے تھے، ان کا لشکر ہی ان سے اختلاف کرتا تھا اور اہل عراق نے ان کی مخالفت کی اور ان کا ساتھ دینے سےگریز کیا۔ اس کے برعکس (ان کے مخالف) اہل شام کا معاملہ مضبوط ہوتا گیا۔۔۔ اور اہل شام کی قوت میں جتنا اضافہ ہوتا، اہل عراق کے حوسلے اتنے ہی پست ہوجاتے۔ ایسا اس حالت میں ہو اکہ ان کے امیر علی بن ابی طالب تھے جو اس وقت روئے زمین پر سب سے بہتر، سب سے زیادہ عابد وزاہد، سب سے زیادہ عالم اور اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے تھے، اس کے باوجود اہل عراق (یعنی ان کے اپنے ماننے والوں نے) ان کو بے یار ومددگار چھوڑ دیا اور ان سے علیحدہ ہوگئے یہاں تک کہ حضرت علی زندگی ہی سے بیزار ہوگئے اور موت کی آرزو کرنے لگے اور یہ اس لیے ہوا کہ فتنے بہت زیادہ ہوگئے اور آزمائشوں کا ظہورہوا۔" (البدایۃ، ۳۳۵/۷، ذکر مقتل امیرا لمؤمنین علی بن ابی طالب)
خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک موقعے پر اپنے سر پر قرآن رکھ اور اہل کوفہ کی بابت بارگاہ الہٰی میں یوں عرض کناں ہوئے:
"اے اللہ! انہوں نے مجھے وہ کام نہیں کرنے دیئے جن میں امت کا بھلا تھا، پس تو مجھے ان کے ثواب سے محروم نہ رکھنا (پھر فرمایا) اے اللہ! میں ان سے اکتا گیا ہوں اور یہ مجھ سے اکتا گئے ہیں، میں انہیں ناپسند کرتا ہوں اور یہ مجھے ناپسند کرتے ہیں۔۔۔" (البدایہ، ۱۳/۸)
حضرت معاویہ حضرت عمر کے زمانے سے شام کے گورنر چلے آرہے تھے، جس پر وہ سالہا سال تک فائز رہے (گورنری کی یہ مدت ۲۰ سال شمار کی گئی ہے ) ۴۰ ھ میں حضرت معاویہ خلیفۃ المسلمین بن گئے اور اپنی وفات یعنی ۶۰ ہجری تک خلیفہ رہے، یوں ان کے دور حکومت و خلافت کی مدت ۴۰ سال بنتی ہے۔ اس چالیس سالہ دورِ حکمرانی پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
"حضرت معاویہ کے دورِ گورنری میں فتوھات کا سلسلہ جاری اور روم وافرنگ وغیرہ کے علاقوں میں جہاد ہوتا رہا۔ پھر جب ان کے اور امیر المؤمنین حضرت علی کے درمیان اختلاف ہوا، تو فتوحات کا سلسلہ رک گیا اور ان ایام میں کوئی فتح نہیں ہوئی، حضرت علی کے ہاتھوں نہ حضرت معاویہ کے ہاتھوں ۔ بلکہ حضرت معاویہ کی زیر امارت علاقے میں شاہ روم (عیسائی حکمراں) دلچسپی لینے لگا، حالانکہ اسے اس سے قبل حضرت معاویہ ذلیل ورسوا اور اس کے لشکرکو مغلوب ومقہور کرچکے تھے، لیکن شاہ روم نے جب دیکھا کہ معاویہ حضرت علی سے جنگ و پیکار میں مشغول ہوگئے ہیں تو وہ اپنی فوج کی ایک بڑی تعداد حضرت معاویہ کے بعض علاقوں کے قریب لےآیا اور اپنی حرص وطمع کے دانت تیز کرلیے تو حضرت معاویہ نے اسے لکھا:
"اللہ کی قسم! اے ملعون! اگر تو باز نہ آیا اور اپنے علاقے کی طرف واپس نہ لوٹا تو میں تیرے مقابلے کے لیے اپنے چچازاد (حضرت علی) سے صلح کرلوں گا اور تجھے تیرے سارے علاقے سے باہر نکال کر تجھ پر زمین، تما م تر فراخی کے باوجود، تنگ کردوں گا۔"
یہ خط پڑھ کر شاہ روم ڈر گیا اور اپنے ارادے سے باز آگیا اور صلح کا پیغام بھیج دیا۔ اس کے بعد تحکیم کا مرحلہ ایا اور پھر حضرت حسن بن علی سے صلح ہوگئی (اور حضرت معاویہ خلیفہ بن گئے) تو ان پر سب کا اتفاق ہوگیا اور ۴۱ھ میں ساری رعایا نے متفقہ طور پر ان کی بعیت کرلی۔ پھر اپنے سال وفات تک اس پوری مدت میں وہ مستقل بالامر رہے، دشمن کے علاقوں میں جہاد کا سلسلہ قائم رہا، اللہ کا کلمہ بلند رہا، اطراف و اکناف عالم سے مال غنیمت کی آمد جاری رہی اور مسلمان اس دور میں راحت سے رہے، عوام کے ساتھ ان کا معاملہ عدل و انصاف اور عفو ودرگزر کا رہا۔ " (البدایہ، ۱۲۲/۸)
فضائل و مناقب کے لحاظ سے حضرت علی، یقیناً حضرت معاویہ سے فائق اور افضل ہیں، لیکن افضل ہونے کے باوجود ان کا دورِ حکومت، حضرت معاویہ کے دورِ حکومت کے مقابلے میں جیسا کچھ رہا، وہ مذکورہ تبصروں سے واضح ہے، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امور جہانبانی کا مسئلہ اپنی گوناگوں نوعیت اور وسعت کے اعتبار سے مختلف حیثیت رکھتا ہے۔ اس میں زہد وورع اور فضل ومنقبت کے اعتبار سے ممتاز شخص بعض دفعہ ناکام اور اس سے کم تر فضیلت کا حامل شخص کامیاب رہتا ہے۔
اس لیے حضرت معاویہ نے ایک افضل شخص کو چھوڑ کر یزید کو اپنا جانشین بنایا، تو اس میں یقیانً یزید کے اندر اہلیت و صلاحیت کے علاوہ بہت سی حکمتیں اورمصلحتیں بھی تھیں۔ ہمارے لیے اس بنا پر حضرت معاویہ کو مطعون کرنے کاکوئی جواز ہے نہ یزید کی خلافت کو ، جسے گنتی کے ۴ افراد کے علاوہ سب لوگوں نے اپنا خلیفہ تسلیم کرلیا تھا، غلط کہنے کی کوئی بنیاد۔ حضرت حسین کے لیے بھی یہی بات مناسب تھی کہ وہ اپنے سے مفضول شخص کی خلافت کو تسلیم کرلیتے، لیکن ایسا نہ ہوسکا اور ان کا احساس فضلیت ایک نہایت المناک سانحے کا سبب بن گیا۔
٭ ان کے اس احساس ہی نے انہیں اختلاف کی راہ پر گامزن کردیا اور انہیں اس کے خطرناک عواقب کا احساس نہ ہونے دیا۔
٭ ان کے اسی احساس کی وجہ سے کوفیوں کو یہ حوصلہ ہوا کہ انہوں نے حضرت حسین کو ایسے خطوط لکھے جن میں ان کے احساس فضیلت کا سامان تھا اور جس نے ان کے احساس کو ایک عزم راسخ میں بدل دیا۔
بہرحال گفتگو یہ ہورہی تھی کہ حضرت حسین کا مزاج ، حضرت حسن کے مزاج سے یکسر مختلف تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے حضرت حسن کی خلافت سے دست برداری اور حضرت معاویہ سے ان کے صلح کرلینے کو بھی ناپسند فرمایا تھا۔ (البدایۃ، ج:۸، ص:۱۷)
ان کا یہ مزاج ہی سانحۂ کربلا کا سب سے بڑا سبب بنا، ۔۔ رضی اللہ عنہ۔۔ اس کی مرحلہ وار تفصیل آئندہ صفحات میں مختصراً پیش کی جاتی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
پہلا مرحلہ۔۔ ترک مدینہ

حضرت معاویہ کی وفات کے بعد جب یزید تخت خلافت پر متمکن ہوا، تو یزید کی طرف سے مقرر گورنر مدینہ ولید بن عتبہ نے حضرت حسین کو بلا کر یزید کی بیعت کرنے کا کہا، تو حضرت حسین نے فرمایا:
"مجھ جیسا شخص پوشیدہ بیعت نہیں کرتا اور میرے خیال میں تمہارے نزدیک بھی میری خفیہ بیعت کافی نہیں ہوگی جب تک کہ ہم اسے لوگوں کے سامنے علانیہ طور پر نہ کریں۔ (ولید نے کہا) ٹھیک ہے۔ حضر ت حسین نے مزید فرمایا: جب تم سب لوگوں سے بیعت لو گے تو ہمیں بھی لوگوں کے ساتھ بلا لینا، پس ایک ساتھ ہی سب کام ہوجائے گا۔" (الطبری، ۲۵۱/۴، مطبعۃ الاستقامۃ، قاہرہ، ۱۹۳۹ء۔ البدایۃ والنہایۃ، ۱۵۰/۸)
ولید نے کہا اور وہ عافیت پسند شخص تھا۔
" فانصرف علی اسم اللہ حتی تأتینا مع جماعة الناس"
"اللہ کا نام لے کر جائیے! اور لوگوں کے ساتھ ہمارے پاس آجائیے گا۔"
دوسرے روز سارا دن گزرجانے کے بعد رات کو ولید نے حضرت حسین کو بلونے کےلیے آدمی بھیجے تو حضرت حسین نے ان سے کہا: "صبح ہولینے دو! پھر دیکھا جائے گا، تم بھی دیکھنا ہم بھی جائزہ لیں گے۔"
وہ واپس چلے گئے اور انہوں نے اصرار نہیں کیا۔ لیکن حضرت حسین اسی رات کو مدینے عازم مکہ ہوگئے اور اپنے بیٹوں ، بھائیوں،بھتیجوں اور تمام اہل خانہ کو بھی ساتھ لے لیا، صرف ان کے بھائی محمد بن حنفیہ نے نہ صرف ساتھ جانے سے انکار کردیا بلکہ خود حضرت حسین کو بھی اس قسم کے اقدام سے روکنے کی کوشش کی۔ چنانچہ چھوٹے ہوتے ہوئے بھی انہوں نے اس موقعے پر اپنے برادرِ اکبر حضرت حسین کو حسب ِ ذیل نصیحت کی۔
"بھائی جان! آپ مجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب اور سب سے زیادہ عزیز ہیں، مخلوق میں آپ سے زیادہ کوئی حق دار نہیں ہے جس کے لیے میں خیر خواہی ذخیرہ کرکے رکھوں (یعنی آپ کو اپنی خیر خواہانہ نصیحت کا سب سے زیادہ حق دار سمجھتا ہوں) آپ اپنے ساتھیوں کو حتی الامکان یزید سے اور شہروں سے دور رکھیں۔ پھر اپنے قاصد لوگوں کی طرف بھیجیں اور انہیں اپنی خلافت کی دعوت دیں، اگر وہ آپ کی بیعت کرلیں تو اس پر اللہ کا شکر کریں اور اگر لوگ آپ کے سوا کسی اور پر متفق ہوجائیں تو اس سے اللہ آپ کے دین میں کوئی کمی کرے گا نہ آپ کی عقل میں اور اس سے آپ کی مروت ختم ہوگی نہ آپ کی فضیلت۔ مجھے خدشہ ہے کہ اگر آپ نے کسی شہر میں قیام کیا اور لوگوں کا آپ کے پاس آنا جانا ہوا تولوگ آپس میں مختلف ہوجائیں گے، کچھ آپ کے ساتھ اور کچھ آپ کے مخالف، اور وہ آپس میں لڑیں گے تو آپ ہی سب سے پہلا نشانہ بن جائیں گے۔۔۔"
حضرت حسین نے اس کے جوا ب میں یہی کہا ، بھائی! میں اپنے (مکہ) جانے کے ارادے پر قائم ہوں۔ اس پر محمد بن حنفیہ نے کہا۔
"پھر آپ مکے ہی میں قیام فرمائیں، اگر وہاں صورت حال اطمینان بخش ہو تو فبہا، وگرنہ آپ وادیوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں کو اپنا مسکن بنائیں اور ایک شہر سے دوسرے شہر جاکر جائزہ لیتے رہیں اور دیکھیں کہ لوگوں کا معاملہ کیا رخ اختیار کرتا ہے۔ اس کی روشنی میں آپ کوئی رائے قائم فرمائیں۔ یہ رائے درست بھی ہوگی اور اس پر عمل، حزم واحتیاط کا مظہر بھی۔۔۔"
حضرت حسین نے فرمایا:
"میرے بھائی! تمہاری نصیحت مشفقانہ ہے اور مجھے امید ہے کہ تمہاری رائے سدید (درست) مُوَفَّق (من جانب اللہ) ہے۔"
لیکن اس کے باوجود حضرت حسین نے اپنا ارادہ ختم نہیں کیا اور مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔ (الطبری، ۲۵۳/۴۔ البدایۃ، ۱۵۰/۸)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دوسرا مرحلہ۔۔۔ مکے میں قیام اور لوگوں کے خیرخواہانہ مشورے

کہا جاتا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ دونوں جب یزید کی بیعت سے بچنے کےلیے مکہ جارہے تھے تو ابن عمر رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہ مکے سے واپس آرہے تھے، یہ دونوں حضرت حسین اور ابن زبیر کو راستے میں ملے اور انہوں نے ان سے ان کے مدینے سے مکہ آنے کی بابت پوچھا، تو حضرت حسین اور ابن زبیر نے بتلایا کہ حضرت معاویہ کی وفات ہوگئی ہے اور یزید کے لیے بیعت لی جارہی ہے۔ تو حضرت ابن عمر اور ابن عباس نے ان دونوں کو خطاب کرکے کہا: "اللہ سےڈرو! اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ مت ڈالو۔" (الطبری، ۲۵۴/۴)
حافظ ابن کثیر نے دونوں کے اقوال کو قدرے تفصیل سے بیان کیا ہے، وہ بھی ملاحظہ فرما لیے جائیں۔ مکے کے دورانِ قیام حضرت ابن عباس حضرت حسین کے پاس آئے اور کہا۔
"بھتیجے! میں صبر کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن صبر نہیں ہوتا، مجھے تمہارے اس طرز عمل سے ہلاکت کا اندیشہ ہے، عراقی بے وفا لوگ ہیں، ان کی وجہ سے دھوکہ مت کھاؤ! تم اس میں قیام رکھو، یہاں تک کہ عراقی اپنے دشمن کو وہاں سے نکال دیں، پھر بے شک تم وہاں چلے جانا۔ بصورت دیگر تم یمن چلے جاؤ، وہاں قلعے اور گھاٹیاں (یعنی پناہ گاہیں) ہیں اور وہاں تمہارے والد کے حمایتی بھی ہیں،تم لوگوں سے کنارہ کش رہو ، ان کو لکھ دو اورا پنے داعی ان کے ہاں بھیج دو، اس طرح مجھے امید ہے کہ تم جو چاہتے ہو وہ تمہیں حاصل ہوجائے گا۔"
حضرت حسین نے کہا:
"ابن عم! اللہ کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تم خیرخواہ اور مہربان ہو، لیکن میں نے (کوفہ) جانے کا تہیہ کرلیا ہے۔"
حضرت ابن عباس نے کہا:
"اگر تم نے ضرور جانا ہی ہے تو اپنی اولاد اور اپنی عورتوں کو مت لے جاؤ! اس لیے کہ اللہ کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ تم اسی طرح قتل نہ کردیئے جاؤ جیسے عثمان قتل کئے گئے اور ان کی عورتیں اور ان کے بچے ان کو دیکھتے ہی رہ گئے۔"
حضرت ابن عمر کی بابت آتا ہے کہ ان کے قیام مکہ کے دوران انہیں حضرت حسین کے عراق جانے کی اطلاع ملی، تو وہ تین راتوں کی مسافت طے کرکے ان سے ملے اور ان سے پوچھا کہ آپ کا کیا ارادہ ہے؟ حضر ت حسین نے فرمایا: میں عراق جارہا ہوں اور ان کے ہاتھوں میں خطوط تھے ، ان کی طرف اشارہ کرکے انہوں نے کہا، دیکھو! یہ ان کے خطوط اور ان کی طرف سے بیعت کا عہد و پیمان ہے۔ حضرت ابن عمر نے کہا۔ آپ ان کے پاس نہ جائیں۔ حضرت حسین نے یہ بات ماننے سے انکار کردیا۔ تو حضرت ابن عمر نے کہا، میں آپ کو ایک حدیث سناتا ہوں۔
"جبریل نبی ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے آپ کو اختیار دیا کہ آپ دنیا اور آخرت میں سے جسے چاہیں پسند کرلیں، نبی ﷺ نے دنیا کے مقابلے میں آخرت کو پسند فرمایا۔"
اور آپ بھی رسول اللہ ﷺ کے لخت جگر ہیں، اللہ کی قسم! تم میں سے کوئی بھی دنیا حاصل کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوگااور اللہ نے تم لوگوں سے دنیا کو اس سے بہتر چیز کے لیےپھیرا ہے۔ یہ سب باتیں سن کر بھی حضرت حسین نے واپس ہونے سے انکار کردیا۔ تو حضرت ابن عمر نے حضرت حسین کو اپنے سینے سے چمٹا لیا اور رونے لگے اور فرمانے لگے :
"(مستقبل میں) قتل کیے جانے والے، میں تمہیں اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔" (البدایۃ، ۱۶۱/۸)
حضرت ابوسعید خدری کے علم میں جب یہ بات آئی کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پاس اہل کوفہ کے خطوط آرہے ہیں ، تو وہ حضرت حسین سے ملے اور ان سے کہا:
"اے ابو عبداللہ! میں تمہارا خیرخواہ اور تمہاری بابت اندیشے میں مبتلا ہوں۔ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ تمہارے حمایتی کوفیوں کی طرف سے تمہیں خطوط آرہے ہیں جن میں وہ تمہیں یزید کے مقابلے میں کھڑے ہونے کی دعوت دےرہے ہیں (لیکن میری نصیحت یہ ہے کہ ) تم وہاں مت جانا، اس لیے کہ میں نے تمہارے والد کو کوفے میں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
"اللہ کی قسم! میں ان (کوفیوں) سے اکتا گیا ہوں اور میں ان سے نفرت رکھتا ہوں اور وہ مجھ سے اکتا گئے ہیں اور مجھ سے نفرت کرتے ہیں اور ان سے کبھی وفا کی امید نہیں۔" (البدایۃ والنہایۃ، ۱۶۳/۸)
ان کے علاوہ اور بھی متعدد حضرات نے حضرت حسین کو اہل کوفہ پر اعتبار کرکے کوفہ جانے سے اور یزید کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے روکااور اس اقدام کی خطرناکیوں سے انہیں آگاہ کیا، مثلا حضرت ابو واقد لیثی، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت سعید بن مسیب، ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن، حضرت مسور بن مخرمہ، عمرہ بنت عبدالرحمٰن، بکر بن عبدالرحمٰن بن حارث، عبداللہ بن مطیع اور عبداللہ بن جعفر وغیرہم رضی اللہ عنہم ۔ حتی کہ گورنر مکہ عمرو بن سعید نے بھی انہیں کوفہ جانے سے روکا اور مکے ہی میں رہنے پر زور دینے کے علاوہ ان کے حفظ و امان کی ضمانت دی اور ان سے حسن سلوک کا وعدہ کیا۔ بلکہ خود یزید نے بھی ایک مکتوب حضرت ابن عباس کے نام لکھا اور انہیں کہا کہ وہ حضرت حسین کو اپنے مجوزہ اقدام سے روکیں، اس سے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا ہوگا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: (البدایۃ، ۱۶۴/۸۔۱۶۸۔ الطبری ۲۸۶/۴۔۲۸۸)
بلکہ حضرت عبداللہ بن زبیر تک بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے حضرت حسین کو عراق جانے سے روکا اور انہیں اہل عراق کی بے وفائی یاد دلائی۔ (البدایہ، ۱۶۳/۸)
روکنے اور سمجھانے کی ایک کوشش حضرت حسین کے ایک اور قریبی عزیز حسین کے چچا زاد اوربہنوئی عبداللہ بن جعفر نے بھی نہایت مؤثر انداز کی۔ حضرت حسین جب مکے سے کوفہ جانے کے لیے نکلے تو عبداللہ بن جعفر نے ایک مکتوب لکھ کر اپنے دو بیٹوں کے ہاتھ حضرت حسین کو بھیجا، اس میں انہوں نے تحریر کیا۔
"میں اللہ کا واسطہ دے کر آپ کو کہتا ہوں کہ آپ (راستے ہی سے) لوٹ آئیں اور میرے خط کو غور سے پڑھیں، مجھے آپ کی بابت یہ اندیشہ ہے کہ آپ نے جس طرف رُخ کیا ہے اس میں آپ کی بھی ہلاکت ہے اور آپ کے گھر والوں کی بھی۔ آج اگر آپ ہلاک ہوگئے تو اسلام کی روشنی بجھ جائے گی۔ اس لیے کہ آپ ہدایت یافتہ لوگوں کا عَلم اور اہل ایمان کی امیدوں کا مرکز ہیں۔ پس آپ (کوفہ ) جانے میں عجلت سے کام نہ لیں، میں بھی (مزید گفتگو کے لیے) اپنے خط کے پیچھے آپ کے پاس آرہا ہوں۔" والسلام
یہ خط روانہ کرکے وہ خود گورنر مکہ عمرو بن سعید کے پاس گئے اور ان سے کہا:
"آپ حسین کے نام ایک خط لکھ دیں جس میں آپ کی طرف سے حفظ و امان کی ضمانت ، حسن سلوک اور صلہ رحمی کی تمنا کا اظہار اور اپنے خط میں ان کےلیے عہد کی پاسداری کی یقین دہانی ہو۔ نیز ان سے واپس آنے کا مطالبہ کریں، شاید اس سے وہ مطمئن ہوجائیں اور لوٹ آئیں۔"
گورنر مکہ عمرو بن سعید نے عبداللہ بن جعفر سے کہا:
"آپ جو چاہیں، لکھ کر میرے پاس لے آئیں ، میں اس پر مہر لگادوں گا۔"
چنانچہ عبداللہ بن جعفر نے عمر و بن سعید کی طرف سے اپنی خواہش کے مطابق ایک تحریر تیار کی اور پھر عمرو بن سعید کے پاس لائے۔ انہوں نے اس پر اپنی مہر ثبت کردی۔ عبداللہ بن جعفر نے ان سے مزید درخواست کی کہ آپ میرے ساتھ اپنی امان بھی بھیجیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنا بھائی یحییٰ ساتھ بھیج دیا۔ یہ دونوں گئے اور راستے میں حضرت حسین سے ملے اور انہیں گورنر کا خط پڑھ کر سنایا، لیکن حضرت حسین نے واپس آنے سے انکار کردیا اور کہا:
"میں نے رسول اللہ کو خواب میں دیکھا ہے، انہوں نے مجھے ایک کام کرنے کا حکم دیا ہے، جسے میں بہرصورت کروں گا۔"
عبداللہ بن جعفر اور یحییٰ بن سعید نے کہا ، وہ خواب کیا ہے؟ حضرت حسین نے کہا:
"میں اسے کسی کے سامنے بیان نہیں کروں گا، تاآنکہ میں اپنے رب عزوجل سے جاملوں۔"
(البدایۃ والنہایۃ، ۱۶۹/۸، الطبری، ۲۹۱/۴۔۲۹۲)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
نظر بازگشت

حضرت معاویہ کی وفات کے بعد یزید کی بیعت کا جو مسئلہ سامنے آیا جس میں حضرت حسین سمیت صرف چار اشخاص نے اختلاف کیا۔ ان میں سے حضرت حسین سے مدینے میں بیعت لینے کا مطالبہ کیا گیا، لیکن حضرت حسین نے اس معاملے کو مؤخر کردیا اور پھر وہاں سے مکہ تشریف لے گئے، مکے میں بھی ان سے تعرض نہیں کیا گیا۔ گویا دونوں شہروں میں ان کے احترام ووقار کو ملحوظ رکھا گیا، ان پر کسی قسم کی سختی کی گئی نہ ان سے کوئی باز پرس ہی ہوئی۔ نرمی اور عزت واحترام کا یہ معاملہ یزید کی اجازت یا رضامندی کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یزید نے اس وصیت کو اپنے سامنے رکھا جو حضرت معاویہ نے حضرت حسین کی بابت بطور خاص کی تھی، یہ وصیت حسب ذیل تھی۔
"حضرت علی کے صاحبزادے ، رسول اللہ کی صاحبزادی فاطمہ کے جگر گوشے ، حسین، کا خیال رکھنا، وہ لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں، پس ان کے ساتھ صلہ رحمی اور نرمی کا معاملہ کرنا، اس سے تیرے لیے ان کا معاملہ درست رہے گااوراگر ان سے کسی چیز کا صدور ہوا تو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے ان سے ان لوگوں کے ذریعے سے کافی ہوجائے گا جنہوں نے اس کے باپ کو قتل کیا اور اس کے بھائی کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔" (البدایہ ۴۶۱/۸)
اس نرم پالیسی ہی کا نتیجہ تھا کہ حضرت حسین کے عزم ِ کوفہ میں کوئی لچک پیدا نہیں ہوئی اور خیرخواہوں کے سمجھانے کے باوجود انہوں نے اپنے ارادے میں تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
 
Top