• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
تیسرا مرحلہ۔۔۔ روانگیٔ کوفہ

حضرت حسین جب مدینے سے مکہ تشریف لے گئے اور وہاں چند مہینے قیام رہا، اس دوران اہل کوفہ کی طرف سے آپ کے پاس خطوط آتے رہے جن میں ان کی طرف سے آپ کے ہاتھ پر بیعت خلافت کرنے اور یزید کو کوفے سے نکال باہر کرنے کے عزم کا اظہار کیا جاتا تھا۔ اہل کوفہ کے ان خطوط نے بھی اہل خیر و اہل صلاح کے مشورے اور رائے کو نظر انداز کرنے میں مؤثر کردار ادا کیا اور حضرت حسین نے ان کو اعتناء کے قابل نہیں سمجھا۔
چنانچہ حضرت حسین نے اپنے چچازاد بھائی مسلم بن عقیل کو کوفہ بھیجا تاکہ وہ معلوم کریں کہ وہاں کے لوگ وہی کچھ چاہتے ہیں جس کا اظہار انہوں نے خطوط میں کیا ہے، مسلم بن عقیل مکے سے پہلے مدینے آتے ہیں اور وہاں سے وہ دو اشخاص کو رہنمائی کےلیے ساتھ لیتے ہیں۔ راستے میں ایک شخص تو شدت پیاس اور راستے کی مشکلات کی تاب نہ لا کر فوت ہوجاتا ہے۔ اس سے مسلم بن عقیل کے ارادے میں کچھ تزلزل واقع ہوتا ہے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے درخواست کرتے ہیں کہ انہیں کوفہ جانے پر مجبور نہ کریں۔ لیکن حضرت حسین ان کی درخواست کو رد کرکے انہیں اپنا سفر جاری رکھنے کی تاکید کرتےہیں۔ بہرحال مسلم بن عقیل کوفہ پہنچ جاتے ہیں اور وہاں لوگوں سے رابطہ کرکے اپنے مشن کا آغاز کرتےہیں۔
ادھر یزید کی طرف سے مقرر گورنر حضرت نعمان بن بشیر کو ان سرگرمیوں کی اطلاع ہوتی ہے تو وہ لوگوں کو تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ اس قسم کی سرگرمیوں سے دور رہیں اور امیر المؤمنین یزید کی اطاعت کے دائرے سے نکلنے کی کوشش نہ کریں۔ لیکن ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے سے انہوں نے گریز کیا، جس سے حامیانِ یزید میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ گورنر کی اس نرم پالیسی سے شورش میں اضافہ ہوگا اور اسے روکنا ممکن نہیں ہوگا۔
چنانچہ بعض حضرات نے امر کی اطلاع یزید کو دی کہ اگر وہ اس علاقے کو بدستور اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتا ہے تو اس کا حل سوچے۔ یزید نے مشورے کے بعد کوفے کا انتظام عبیداللہ بن زیاد کو سونپ دیا جو بصرے کا پہلے ہی گورنر تھا اور اسے یہاں سیاسی معاملات سے سختی کے ساتھ نمٹنے کی تاکید کی۔ اب ابن زیاد بیک وقت بصرہ اور کوفہ دونوں شہروں کا حاکم اعلیٰ بن گیا۔
مسلم بن عقیل جب کوفہ آئے، تو ہزاروں لوگوں نے ان کے ہاتھ پر حسین کے لیے بیعت کی اور حضرت حسین کی وہاں آمد کےلیے اپنا اشتیاق ظاہر کیا۔ مسلم بن عقیل نے اس سے یہ تاثر لیا کہ یہاں فضا حضرت حسین کےلیے تیار اور زمین ہموار ہے۔ انہوں نے حضرت حسین کو خط لکھ دیا کہ وہ یہ خط ملتے ہی فوراً کوفے کےلیے روانہ ہوجائیں، یہاں کے لوگ ان کےمشتاق اور منتظر ہیں۔ حضرت حسین یہ خط پڑھ کے مکے سے کوفے کے سفر پر روانہ ہوجاتے ہیں۔ راستے میں کچھ اور لوگ بھی شریک سفر ہوجاتےہیں۔ لیکن صحابہ و تابعین میں سے کوئی بھی آپ کے ساتھ جانے کےلیے تیار نہیں ہوا ، بلکہ ان میں سے جس جس کو بھی آپ کے ارادے اور سفر کا علم ہوا، تو اس نے آپ کو روکا اور اس ارادے اور سفر کو نہایت خطرناک اور اتحاد واتفاق کے خلاف قرار دیا۔ (جیسا کہ اس کی ضروری تفصیل پہلے بیان ہوئی)
ادھر کوفے میں جب مسلم بن عقیل کی سرگرمیاں عبیداللہ بن زیاد کے علم میں آئیں تو اس نے سخت اقدامات اختیار کئے اور لوگوں کو ڈرایا دھمکایا، جس کے نتیجے میں مسلم بن عقیل کے گرد جمع ہونے والے لوگ منتشر اور حضرت حسین کا ساتھ دینے سے منکر ہوگئے اور بالآخر مسلم بن عقیل بھی قتل کردیئے گئے۔ قتل سے قبل مسلم بن عقیل کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ میرا تو کوفے سے زندہ بچ کر جانا مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن حضرت حسین اور ان کے ہمراہیوں کا کیا بنے گا جنہیں میرا خط مل گیا ہوگا اور وہ کوفے کےلیے روانہ ہوگئے ہوں گے ۔ انہوں نے ایک شخص کے ذمے یہ بات لگائی کہ وہ کسی طرح حضرت حسین تک میرا یہ پیغام پہنچا دے کہ وہ ہرگز کوفہ نہ آئیں، اہل کوفہ جھوٹے نکلے ، انہوں نے مجھے بھی دھوکہ دیا ، یہاں حالات اس کے بالکل برعکس ہیں جو میں نے اس سے قبل تحریر کئے تھے اور خط پہنچنے تک شاید میں قتل کردیا جاؤں۔
جس شخص کے ذمے یہ بات لگائی گئی تھی، اس نے کسی اور شخص کے ذریعے سے مسلم بن عقیل کا یہ پیغام حضرت حسین تک پہنچا دیا۔ راستے میں ملنے والے بعض حضرات نے بھی آپ کو واپس ہوجانے کا مشورہ دیا اور ایک روایت میں ہے کہ قادسیہ سے تین میل پہلے آپ کو حر بن یزید تمیمی نامی شخص ملا (خیال رہے قادسیہ سے کوفے کا فاصلہ تقریباً پچاس میل ہے) اس نے آپ کے سفر کی بابت پوچھا کہ آپ کہاں جارہے ہیں؟ آپ کی وضاحت پراس نے کہا، آپ وہاں نہ جائیں بلکہ لوٹ جائیں ، میں وہیں (کوفہ) سے آرہا ہوں مجھے آپ کےلیے وہاں کسی بھلائی کی امید نہیں ہے۔
یہ صورت حال دیکھ کر اور جان کر حضر ت حسین نے تو واپسی کا ارادہ کرلیا، لیکن آپ کے قافلے میں شریک مسلم بن عقیل کے بھائی بولے، اللہ کی قسم! ہم تو واپس نہیں جائیں گے ، بلکہ اپنے بھائی کا انتقام لیں گے یا خود بھی قتل ہوجائیں گے۔ حضرت حسین نے فرمایا، پھر تمہارے بعد میری زندگی بھی بے مزہ ہے اور سفر جاری رکھا۔ تاہم آپ نے ان لوگوں کو ، جو راستے میں آپ کا مقصد سفر معلوم کرکے آپ کے ساتھ ہولئے تھے، جانے کی رخصت دے دی، چنانچہ ایسے سب لوگ قافلے سے علیحدہ ہوگئے اور آپ کے ساتھ صرف وہی لوگ رہ گئے جو ابتدائے سفر یعنی مکے ہی سے آپ کے ساتھ آئے تھے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
چوتھامرحلہ۔۔۔ کربلا میں صلح کی کوشش اور اس میں ناکامی

روایات میں ہے کہ جب واپسی کی بجائے، آگے ہی جانے کا فیصلہ کرلیا گیا ، تو تھوڑے ہی فاصلے پر ابن زیاد کی طرف سے روانہ کردہ لشکر وہاں آگیا، جسے دیکھ کر حضرت حسین نے اپنا رُخ کربلا (یعنی شام) کی طرف کرلیا۔ ابن زیاد کے اس لشکر کے قائد عمر بن سعد بن ابی وقاص تھے جو ایک صحابی کے فرزند اور فرزند رسول حضرت حسین کے قدر شناس تھے، وہ اس معاملے کو مفاہمانہ انداز میں سلجھانا چاہتے تھے، لیکن قضاء وقدر کے فیصلے کچھ اور ہی تھے اس لیے ان کی تدبیر اور مساعیٔ صلح ناکام رہیں اور ہمارے خیال میں اس کی بڑی وجہیں دو باتیں بنیں۔
ایک ابن زیاد کا سخت گیر حاکمانہ رویہ۔
دوسری ، حضرت حسین کا ابن زیا د کی انتظامی مصلحت کے مقابلے میں اپنی عزت نفس اور وقار کو زیادہ اہمیت دینا۔
اگر ان میں سے کسی ایک کی طرف سے بھی لچک کا مظاہرہ کیا جاتا، تو شاید یہ المیہ رونما نہ ہوتا، لیکن چونکہ اللہ کی مشیت یہی تھی ، جس کی حکمت وہی بہتر جانتا ہے، اس لیے دونوں ہی اپنی اپنی بات پر مصر رہے جس کا بالآخر وہی نتیجہ نکلا جس کا اندیشہ آغازِ سفر ہی میں خیرخواہان ِ حسین نے ظاہر کیا تھا۔
بہرحال ہمارے خیال کے مطابق آخرمیں اس حادثے کے وقوع پذیر ہونے کی یہی مذکورہ دو وجہیں ہیں، جس کی صورت یہ بنی کہ حضرت حسین نے عمر بن سعد کے سامنے تین باتیں پیش فرمائیں اور فرمایا کہ ان میں سے کوئی ایک بات اختیار کرلیں۔
1۔ مجھے چھوڑ دو، میں جہاں سے آیا ہوں وہیں چلا جاتا ہوں۔
2۔ یا مجھے یزید کے پاس جانےدو، تاکہ میں اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دوں۔ یعنی اس کی بیعت کرلوں، پھر وہ خود میرے بارے میں فیصلہ کرلے گا۔
3۔ یا مجھے کی سرحد پر جانے کی اجازت دے دو۔ (البدایۃ: ۱۷۱/۸، الطبری: ۲۹۳/۴)
اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت حسین نے اللہ اور اسلام کا واسطہ دے کر کہا:
"انہیں امیر المؤمنین (یزید) کے پاس لے چلیں، وہ اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ رکھ دیں گے (یعنی بیعت کرلیں گے۔)" (البدایۃ: ۱۷۲/۸، الطبری: ۲۹۵/۴)
یعنی اس روایت کی رُو سے انہوں سے صرف ایک ہی مطالبہ پیش کیا اور وہ تھا، بیعت کرنے کےلیے یزید کے پاس لے جانے کا، علاوہ ازیں اس میں انہوں نے یزید کےلیے "امیر المؤمنین" کا لفظ بھی استعمال فرمایا۔ جس کا صاف مطلب یہ تھا کہ اپنے سابقہ موقف سے ، وہ جو بھی تھا، انہوں نے رجوع کرلیا ہے اور یزید کو امیرالمؤمنین تسلیم اور ان کی بیعت کر لینے کےلیے وہ تیار ہیں۔
حضرت حسین کا آخری وقت میں اپنے موقف سے رجوع، اللہ تعالیٰ کا ان پر خاص فضل وکرم تھاجس کی وجہ سے خلیفۂ وقت کے خلاف خروج اور مسلمانوں کے متفقہ دھارے سے کٹ کر ایک جداگانہ راستہ اختیار کرنے کا جو الزام ان پر عائد ہوسکتا تھا، اس سے وہ بچ گے۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔
اس رجوع اور مذکورہ مطالبے کے بعد ان سے تعرض کرنے اور ان کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا، اس لیے حضرت عمر بن سعد نے (ان کی بات کو تسلیم کرکے) یہ مطالبے ابن زیاد کو لکھ کر بھیج دیئے تاکہ وہ ان کی منظوری دے دے۔ لیکن اس نے سخت رویہ اختیار کیا اور کہا کہ وہ پہلے یہاں میری بیعت کریں، تب میں انہیں یزید کے پاس جانے کی اجازت دوں گا۔ حضرت حسین کی طبع غیور نے اس بات کو پسند نہیں کیا اور فرمایا: لا یکون ذٰلک ابداً، ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔
اس کے نتیجے میں وہ جنگ شروع ہوگئی جس میں حضرت حسین اپنے بچوں اور اعوان وانصار سمیت مظلومانہ طور پر قتل کردیئے گئے اور یوں یہ سب حضرات مظلومیت کی موت سے ہم کنار ہوکر شہادت کے رتبہ ٔ بلند پر فائز ہوگئے۔ رحمہم اللہ ورضی عنہم۔
سانحۂ کربلا کی یہ وہ ضروری تفصیل ہے جو تاریخ کی ساری کتابوں میں موجود ہے۔ ہم نے غیر ضرور ی اور غیر مستند تفصیلات سے بچتےہوئے واقعے کی اصل حقیقت بیان کردی ہے۔ اس سے حسب ذیل باتیں واضح طور پر سامنے آتی ہیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خلاصۂ ماسبق یا سانحۂ کربلا کےاہم اسباب

اس کا پہلا سبب ، خاندانی رقابت وآویزش تھی جو باپوں سے اولاد میں منتقل ہوئی۔ حضرت حسن نے اپنی صلح جُو طبیعت کی وجہ سے اس کوبڑھایا نہیں بلکہ اپنے عمل سے اس کو ختم فرما دیا۔ جب کہ حضرت حسین نے اس کے برعکس دوسرا راستہ اختیار فرمایاجو بالآخر ان کی مظلومانہ شہادت پر منتج ہوا۔
1۔ دوسرا سبب حضرت حسین کا اپنے کو خلافت کا اہل تر سمجھنا تھا، لیکن حالات نے مساعدت نہیں کی۔ یوں وہ ظالموں کی مشق ستم کانشانہ بن گئے۔
2۔ اہل کوفہ کے خطوط، جنہوں نے حضرت حسین کے دل میں امید کے دیئے روشن کردیئے، حالانکہ اہل کوفہ کاتاریخی کردار واضح تھا، اس کی رُو سے وہ بے وفا اور ناقابل اعتبار تھے۔
3۔ حضرت حسین کا خیرخواہوں کے مخلصانہ مشوروں کو نظر انداز کرکے صرف اپنے طور پر فیصلہ کرنا اور نتائج سے بے پروا ہوکر اقدام کرنا۔
4۔ گورنر کوفہ ابن زیاد کا سخت گیر حاکمانہ رویہ، جس کا کوئی جواز نہیں تھا۔
5۔ حضرت حسین کا ابن زیاد کے انتظامی حکم کے مقابلے میں اپنی عزت نفس اور وقار کو عزیز تر رکھنا، حالانکہ اگر وہ موقعے کی نزاکت اور حالات کی خطرناکی کے پیش نظر تھوڑی سی لچک اختیار کرلیتے ، تو شاید اس المیے سے بچنا ممکن ہوجاتا۔
بنابریں یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ قضاوقدر کا فیصلہ سب پر غالب رہا،کیونکہ اس کو ٹالنے پر کوئی قادر ہی نہیں۔ ایسے موقعوں پر بڑی بڑی تدبیریں بھی ناکام ہی رہتی ہیں اور بڑے بڑے اقدامات بھی سعیٔ لاحاصل۔
اس لیے کہ ماشاء اللہ کان ومالم یشأ لم یکن۔ وما تشاؤون إلا أن یشاء اللہ رب العالمین۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
رسوماتِ محرم۔۔۔ علمائے اسلام کی نظر میں

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ : حجۃ الاسلام شاہ ولی اللہ نے فرمایا:
" یا معاشر بنی اٰدم اتخذتم رسوماً فاسدة تغیر الدین اجتمعتم یوم عاشورآء فی الأباطیل فقوم اتخذہ ماتماً أما تعلمون أن الأیام أیام اللہ والحوادث من مشیئة اللہ وإن کان حسین رضی اللہ عنہ قتل فی ھٰذا الیوم فأی یوم لم یمت فیہ محبوب من المحبوبین وقد اتخذوہ لعباً بحرابھم وسلاحہم۔۔۔ اتخذتم الماتم عیداً کأن إکثار الطعام واجبٌ علیکم وضیعتم الصلوٰة وقوم استغلوا بمکاسبھم فلم یقدروا علی الصلوٰات"(التفہیمات الإلٰہیۃ ۱/تفہیم:۲۸۸/۶۹ طبع حیدر آباد سندھ ۱۹۷۰ء)
"اے بنی آدم! تم نے اسلام کو بدل ڈالنے والی بہت سی رسمیں اپنا رکھی ہیں (مثلاً) تم دسویں محرم کو باطل قسم کے اجتماع کرتےہو۔ کئی لوگوں نے اس دن کو نوحہ وماتم کا دن بنالیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت سے حادثے رونما ہوتے ہی رہتے ہیں۔ اگر حضرت حسین اس دن (مظلوم شہید کے طور پر) قتل کیے گئے۔ تو وہ کون سا دن ہے ۔ جس میں کوئی نہ کوئی اللہ کا نیک بندہ فوت نہیں ہوا (لیکن تعجب کی بات ہے کہ ) انہوں نے اس سانحۂ شہادت مظلومانہ کو کھیل کود کی چیز بنالیا۔۔۔ تم نے ماتم کو عید کے تہوار کی طرح بنا لیا، گویا اس دن زیادہ کھانا پینا فرض ہے اور نمازوں کا تمہیں کوئی خیا ل نہیں (جو فرض ہے) ان کو تم نے ضائع کردیا، یہ لوگ اپنے ہی من گھڑت کاموں میں مشغول رہتے ہیں، نمازوں کی توفیق ان کو ملتی ہی نہیں۔"
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ

حافظ ابن کثیر ۳۵۴ھ کے واقعات میں ماتمی جلوسوں کےسلسلے میں لکھتے ہیں:
" وھٰذا تکلف لا حاجة إالیہ فی الإسلام ولو کان أمراً محموداً لفعلہ خیر القرون وصدر ھٰذہ الأمة وخیرتھا وھم أولیٰ بہ وأہل السنة یقتدون ولا یبتدعون" (البدایۃ والنہایۃ: ۲۷۱/۱۱)
"یہ (ماتمی مجالس وغیرہ) کی رسمیں، اسلام میں ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر یہ واقعتاً اچھی چیز ہوتی تو خیرالقرون اور اس امت کے ابتدائی اور بہتر لوگ اس کو ضرور کرتے، وہ اس کے سب سے زیادہ اہل تھے (بات یہ ہے کہ) اہل سنت( سنت نبویﷺ کی) اقتداء کرتےہیں، اپنی طرف سے بدعتیں نہیں گھڑتے۔"
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ

ازجملہ بدعات رَفَضَہ کہ دردیار ہندوستان اشتہار تمام یافتہ ماتم داری وتعزیہ سازی است درماہ محرم بزعم محبت حضرت حسنین ۔۔۔ وصور ظاہریہ ایں بدعات چند چیز است۔ اول ساختن نقل و قبور ومقبرہ و شدہ وغیرہا وایں معنی بالبداہۃ از قبیل بت سازی وبت پرستی است چہ ساختن نقل قبور از اطوار مشرکین صنم پرست است۔حقیقت صنم پرستی ہمیں است کہ شکلے از دست خود تراشیدہ و ساختہ و نام شخصے برآں نہادہ با اوہماں معاملہ کہ بہ اصل باید نہ آن نقل کہ چوب یا سنگ تراشیدہ است بعمل آرند۔۔۔ وآنچہ اہل زمانہ باتعزیہ ہا میکنند ہرگز باقبور واقعیہ ہم بناید کر دچہ جائے قبور جعلیہ اویں مبتدعاں عبادت سجدہ وطواف کردہہ صراحۃ خود رابسرحد شرک قبیح می رساند وشدہ و علم تعزیہ چوں مسجود ومصاف گرد وہمہ درمعنی بت پرستی است۔ (صراط مستقیم، ص:۵۹)
خلاصۂ عبارت یہ ہے کہ پاک و ہند میں رافضیوں کے زیر اثر تعزیہ سازی کی جو بدعت رائج ہے یہ شرک تک پہنچادیتی ہےکیونکہ تعزیے میں حسین کی قبر کی شبیہ بنائی جاتی ہے اور پھر اس کو سجدہ کیا جاتا ہے اور وہ سب کچھ کیا جاتا ہے جو بت پرست اپنے بتوں کے ساتھ کرتے ہیں اور اس معنی میں یہ پورے طور پر بت پرستی ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔
اسی طرح مولانا شہید ماہ محرم میں قصہ شہادت حسین کے ذکر کو بھی مذموم و مکروہ قرار دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
"ذکر قصہ شہادت بشرح وبسط عقد مجلس کردہ بایں قصد کہ مردم آن را بشنوندو تاسفہا وحسرتہا فراہم آرندو گریہ وزاری کنند۔ ہر چند در نظر ظاہرے خللے دراں ظاہر نمی شود۔ اما فی الحقیقت ایں ہم مذموم و مکروہ است۔" (صراط مستقیم، ص: ۶۱)
اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پوری کتاب پوسٹ ہوچکی ہے۔ والحمد للہ
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
اللہ کی سلامتی هو آپ پر ۔ بالترتیب اور بالاختصار ۔ علمی اور معیاری ۔ معلوماتی اور مفید کلام پیش کیا ۔ اللہ آپکو بهترین جزاء دے ۔
امید کرتا هوں عام مسلمان اس کاوش کو سمجهکر پڑهینگے ۔ علمی استفادہ کیلئے رجوع بهی فرمائینگے ۔ اسی طرح کوششوں کی شدید ضرورت هے ۔
والسلام
 

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
ماشاءاللہ
نہایت عمدہ مضمون اور فہم و فراست سے پر تحریر پڑهنے کو ملی. نہایت معروضی اور معتدل مطالعہ پیش کیا ہے آپ نے.
جزاک اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
بہت عمدہ اور مفید کتاب ہے ،
اختصار کے باوجود ماہ محرم اور واقعہ کربلا کے متعلق شرعی نقطہ نظر کی وضاحت کی گئی ہے
اللہ تعالی مصنف اور یہاں فورم پر پیش کرنے والوں کو جزائے خیر سے نوازے۔ آمین
جزاکم اللہ احسن الجزاء
 
Top