• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رشد.. غی.. اور عروہ وثقیٰ

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
قَدْ تَبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ فَمَنْ یَکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَیُؤْمِن بِاللّہِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقَیَ لاَ انفِصَامَ لَھَا (البقرۃ: ۲۵۶)
بھلائی (رُشد) چھانٹ کر رکھ دی گئی ضلالت (غی) سے۔ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کرکے اللہ پر ایمان لے آیا تو تھام لیا اُس نے مضبوط ترین سہارا (عروۂ وثقیٰ) جسے کبھی نہیں ٹوٹنا۔

آیت میں: رشد.. غی.. اور عروۂ وثقیٰ…… کا ذکر ہوا۔

رشد (بھلائی) ہے: دین ِ محمد ﷺ۔

اور غی (ضلالت) ہے: دین ِ ابوجہل۔

اور عروۂ وثقیٰ (مضبوط ترین سہارا): لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کی شہادت دینا۔

اِس شہادت میں……: پہلے نفی ہے پھر اِثبات۔ نفی اس بات کی کہ اللہ کے سوا کوئی ہستی کسی بھی قسم کی عبادت اور بندگی کے لائق ہو۔ اور اِثبات اِس امر کا کہ ہر قسم کی عبادت و بندگی صرف اور صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کو سزاوار ہے۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ فَمَنْ يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنْ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (256)
دین (کے معاملہ) میں کوئی زبردستی نہیں ۔ ہدایت ، گمراہی کے مقابلہ میں بالکل واضح ہو چکی ہے۔ اب جو شخص طاغوت سے کفر کرے اور اللہ ایمان پر لائے تو اس نے ایسے مضبوط حلقہ کو تھام لیا جو ٹوٹ نہیں سکتا اور اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے (سورۃ البقرہ 256)۔۔ترجمہ علامہ عبد الرحمن کیلانی ؒ

تفسیر از ۔۔علامہ عبد الرحمن کیلانی ؒ
[٣٦٤] انسان کو جو قوت ارادہ دی گئی ہے کہ وہ چاہے تو اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کے تابع بنا دے۔ ایسی ہی اطاعت کا نام دین ہے اور یہی ہدایت ہے اور دین کے عقائد اس آیۃ الکرسی میں وضاحت سے بیان ہو گئے ہیں اور چاہے تو اپنی اس قوت ارادہ کا آزادانہ استعمال کرے اور اسی کا نام کفر بھی ہے اور گمراہی بھی اور ان دونوں باتوں کی پوری وضاحت کر دی گئی ہے۔ اب ہر انسان دین اسلام کو اختیار کرنے کی حد تک تو آزاد ہے چاہے تو قبول کرے چاہے تو رد کر دے۔ مگر اسلام کو قبول کر لینے کے بعد اسے اختیار نہیں رہتا کہ وہ دین کے احکام و ہدایات کو اپنی عقل کی کسوٹی پر پرکھنا شروع کر دے اور جو اسے معقول نظر آئے اسے تسلیم کر لے اور باقی کا انکار کر دے یا احکام میں سے کچھ پر عمل کرے اور جو اس کی طبیعت پر گراں گزریں یا ناپسند ہوں انہیں چھوڑ دے۔ یہ بھی گمراہی ہے اور نہ ہی اسے دین اسلام کو چھوڑنے کا اختیار باقی رہتا ہے۔ کیونکہ اسلام ایک تحریک ہے روائتی قسم کا مذہب نہیں ۔ لہذا دین سے ارتداد پوری امت سے بغاوت کے مترادف ہے۔ (تفصیل کے لیے سورۃ توبہ کا حاشیہ نمبر ٣٨ دیکھئے)
[٣٦٥] طاغوت ہر وہ باطل قوت ہے جو اللہ کے مقابلہ میں اپنا حکم دوسرے سے منوائے یا لوگ اللہ کے مقابلہ میں اس کے احکام تسلیم کرنے لگیں خواہ وہ کوئی مخصوص شخص ہو یا ادارہ ہو اور ظاہر ہے یہ مقتدر قسم کے لوگ ہی ہو سکتے ہیں ۔ خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی ہوں ۔ مثال کے طور پر آج کل جتنی قومی، لسانی یا علاقائی تحریکیں چل رہی ہیں ۔ یہ سب اسلام کی رو سے ناجائز ہیں اب جو شخص یا ادارہ ایسی تحریکوں کو چلائے گا وہ طاغوت ہے۔ اسی طرح شیطان بھی طاغوت ہے اور ایسے پیر فقیر بھی جو خود بھی معصیت کے مرتکب ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی ایسی ہی تلقین کرتے ہیں ۔ اسی طرح ہر انسان کا اپنا نفس بھی طاغوت ہوسکتا ہے۔ جبکہ وہ اللہ کی فرمانبرداری سے انحراف کر رہا ہو ۔
[٣٦٦] مضبوط حلقہ سے مراد پوری شریعت اور اس کا نظام ہے اور یہی حلقہ ہے جو انسان کو ہر طرح کی گمراہی سے بچا سکتا ہے۔ بشرطیکہ اس سے چمٹا رہے اور ادھر ادھر جانے والی پگڈنڈیوں کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ ایسا شخص یقینا کامیاب ہوگا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
جناب حافظ عبد السلام بھٹوی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ : ابن عباس (رض) نے فرمایا : ’’(جاہلیت میں) اگر کسی عورت کے بچے زندہ نہ رہتے تو وہ یہ نذر مان لیتی تھی کہ اگر بچہ زندہ رہا تو وہ اسے یہودی بنا دے گی، پھر جب بنونضیر کو جلاوطن کیا گیا تو ان میں انصار کے کئی لڑکے تھے، انصار نے کہا : ’’ ہم انھیں نہیں چھوڑیں گے ‘‘ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ‘‘ [ أبوداوٗد، الجہاد، باب فی
الأسیر یکرہ علی الإسلام : ٢٦٨٢، وصححہ الألبانی ]
یعنی زبردستی کسی کو مسلمان بنانا جائز نہیں، جو مسلمان ہونا چاہے سوچ سمجھ کر مسلمان ہو۔ زبردستی ہوگی تو دل میں ایمان نہیں آئے گا، اس کا کیا فائدہ؟ البتہ اسلام مسلمانوں کو کفر کا محکوم بننے کے بجائے جہاد کے ذریعے سے تمام کفار کو اسلام کا محکوم بنانے کا حکم دیتا ہے، جس میں کفار پر مسلمان ہونے کے لیے زبردستی نہیں کی جاتی، وہ امن و سلامتی کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں مگر غلبۂ اسلام کی علامت کے طور پر ان سے معمولی رقم بطورجزیہ لی جاتی ہے۔ اگر زبردستی مسلمان بنانا جائز ہوتا تو آج ہندوستان میں غیر مسلموں کا نام و نشان بھی نہ ہوتا، جیسا کہ اندلس میں نصرانیوں نے مسلمانوں پر زبردستی کرکے مسلمانوں کا نام و نشان تک مٹا ڈالا۔

بِالطَّاغُوْتِ : یہ ’’ طَغٰی یَطْغٰی طُغْیَانًا ‘‘ سے صیغہ مبالغہ ’’ فَعَلُوْتٌ ‘‘ کے وزن پر ہے، جیسے جبروت اور ملکوت ہے۔ ’’ فَعَلُوْتٌ ‘‘ کے وزن پر ’’ طَغَیُوْتٌ ‘‘ تھا، پھر تخفیف کے لیے اس میں قلب کیا گیا، یاء کو پہلے اور غین کو بعد میں کردیا گیا ’’ طَیَغُوْتٌ ‘‘ ہو گیا، پھر یائے متحرکہ کا ماقبل مفتوح ہونے کی وجہ سے یاء کو الف سے بدل دیا گیا تو ’’ طَاغُوْتٌ ‘‘ بن گیا، جس کا وزن ’’ فَلْعُوْتٌ ‘‘ ہے۔ مصدر بمعنی اسم فاعل ہے، جس کا معنی ہے کسی چیز کا اپنی حد سے آگے بڑھ جانا۔ طاغوت میں ’’ واؤ ‘‘ اور ’’ تاء ‘‘ مبالغہ کے لیے ہیں، یعنی جو اپنی حد سے بہت زیادہ آگے بڑھ جائے۔ تمام باطل معبود طاغوت ہیں، کیونکہ انھیں حد سے بڑھا کر اللہ تعالیٰ کے برابر کردیا گیا ہے۔ شیطان کو بھی اسی لیے طاغوت کہتے ہیں۔ جو شخص لوگوں سے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں اپنی بندگی اور اطاعت کرواتا ہے وہ بھی طاغوت ہے۔
 
Last edited:
Top