• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رفع الیدین نہ کرنے والوں کے دلائل کا تجزیہ

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
رفع الیدین نہ کرنے والوں کے دلائل کا تجزیہ

جن احادیث سے رفع الیدین نہ کرنے کی دلیل لی جاتی ہے ان کا مختصر تجزیہ ملاحظہ فرمائیں:
پہلی حدیث:
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا بات ہے کہ میں تم کو اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھتا ہوں گویا کہ وہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں۔ نماز میں سکون اختیار کرو۔‘‘ (مسلم، الصلاۃ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ، حدیث ۴۳۰)
تجزیہ:
اس حدیث میں اس مقام کا ذکر نہیں جس پر صحابہ رضی اللہ عنہم ہاتھ اُٹھا رہے تھے اور آپ ﷺ نے انہیں منع فرمایا۔ جابر بن سمرہ ہی سے صحیح مسلم میں اسی حدیث سے متصل دو روایات اور بھی ہیں اور بات کو پوری طرح واضح کر رہی ہیں۔
1۔حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جب ہم نماز پڑھتے تو نماز کے خاتمہ پر دائیں بائیں (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔ تمہیں یہی کافی ہے کہ تم قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں اور بائیں منہ موڑ کر (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہو۔‘‘ (مسلم، الصلاۃ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ، حدیث ۴۳۱)
2۔حضرت جابر بن سمرہؓ کا بیان ہے: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز کے خاتمہ پر (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا تمہیں کیا ہو گیا ہے تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو گویا وہ شریر گھوڑں کی دمیں ہیں۔ تم نماز کے خاتمہ پر صرف زبان سے (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہو اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرو۔ (مسلم، حوالہ سابقہ۔ حدیث ۴۳۱ کی ذیلی حدیث)
امام نوویؒ ’’المجموع‘‘ میں فرماتے ہیں: جابر بن سمرہؓ کی اس روایت سے رکوع میں جاتے اور اُٹھتے وقت رفع الیدین نہ کرنے کی دلیل لینا عجیب بات اور سنت سے جہالت کی قبیح قسم ہے۔ کیونکہ یہ حدیث رکوع کو جاتے اور اُٹھتے وقت کے رفع الیدین کے بارے میں نہیں بلکہ تشہد میں سلام کے وقت دونوں جانب ہاتھ سے اشارہ کرنے کی ممانعت کے بارے میں ہے۔ محدثین اور جن کو محدثین کے ساتھ تھوڑا سا بھی تعلق ہے، ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس کے بعد امام نووی امام بخاریؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث سے بعض جاہل لوگوں کا دلیل پکڑنا صحیح نہیں کیونکہ یہ سلام کے وقت ہاتھ اُٹھانے کے بارے میں ہے اور جو عالم ہے وہ اس طرح کی دلیل نہیں پکڑتا کیونکہ یہ معروف و مشہور بات ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں اور اگر یہ بات صحیح ہوتی تو ابتدائے نماز اور عید کا رفع الیدین بھی منع ہو جاتا مگر اس میں خاص رفع الیدین کو بیان نہیں کیا گیا۔ امام بخاری فرماتے ہیں پس ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ وہ نبی ﷺ پر وہ بات کہہ رہے ہیں جو آپ نے نہیں کہی کیونکہ اللہ فرماتا ہے:
فَلَیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَںْ أَمْرِہِج أَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَھُإْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ (الفرقان ۲۴/۶۳)
’’پس ان لوگوں کو جو نبی ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ انہیں (دنیا میں) کوئی فتنہ یا (آخرت میں) درد ناک عذاب پہنچے۔‘‘
دوسری حدیث:
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز بتاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھی اور ہاتھ نہ اُٹھائے مگر پہلی مرتبہ۔ (ابو داؤد، الصلاۃ، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، حدیث ۷۴۸۔ ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی رفع الیدین عند الرکوع، حدیث ۲۵۷)
تجزیہ:
امام ابو داؤد اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں: (لَیْسَ ھُوَ بِصَحِیْحٍ عَلٰی ھَذَا اللَّفْظِ)
’’یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔‘‘ (ابو داؤد، حوالہ مذکور)
جبکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے:
(لَمْ یَثْبُتْ حَدِیْثُ ابْنِ مَسْعُوْدٍؓ) (ترمذی، حوالہ، مذکور، حدیث ۲۵۵)
’’یعنی عبد اللہ بن مسعودؓ کے ترک رفع الیدین کی حدیث ثابت نہیں ہے۔‘‘
امام ابن حبانؒ نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اس میں بہت سی علتیں ہیں جو اسے باطل بنا رہی ہیں۔ (مثلاً اس میں سفیان ثوری مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں۔ مُدَلِّسْ کی عن والی روایت تفرد کی صورت میں ضعیف ہوتی ہے۔ ز۔ع)
تیسری حدیث:
حضرت براءؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھاتے۔ (ثُمَّ لَا یَعُوْدُ) پھر نہیں اُٹھاتے تھے۔ (ابو داؤد، الصلاۃ، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، حدیث ۷۴۹)
تجزیہ:
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اسے سفیان بن عینیہ، امام شافعی، امام بخاری کے استاد امام حمیدی اور امام احمد بن حنبل جیسے ائمۃ الحدیث رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ کیونکہ یزید بن ابی زیاد پہلے (لَا یَعُوْدُ) نہیں کہتا تھا، اہل کوفہ کے پڑھانے پر اس نے یہ الفاظ بڑھا دیئے۔ مزید براں یزید بن ابی زیاد ضعیف اور شیعہ بھی تھا۔ آخری عمر میں حافظہ خراب ہو گیا تھا (تقریب) نیز مدلس تھا۔
علاوہ ازیں رفع الیدین کی احادیث اولیٰ ہیں کیونکہ وہ مثبت ہیں اور نافی پر مثبت کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔
بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ منافقین آستینوں اور بغلوں میں بت رکھ کر لاتے تھے بتوں کو گرانے کے لئے رفع الیدین کیا گیا، بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ لیکن کتب احادیث میں اس کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ البتہ یہ قول جہلاء کی زبانوں پر گھومتا رہتا ہے۔ درج ذیل حقائق اس قول کی کمزوری واضح کر دیتے ہیں:
1. مکہ میں بت تھے مگر جماعت فرض نہیں تھی۔ مدینہ میں جماعت فرض ہوئی مگر بت نہیں تھے، پھر منافقین مدینہ، کن بتوں کو بغلوں میں دبائے مسجدوں میں چلے آتے تھے؟
2. تعب ہے کہ جاہل لوگ اس گپ کو صحیح مانتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نبی ﷺ کو عالم الغیب بھی مانتے ہیں حالانکہ اگر آپ عالم الغیب ہوتے تو رفع الیدین کروانے کے بغیر بھی جان سکتے تھے کہ فلاں فلاں شخص مسجد میں بت لے آیا ہے۔
3. بت ہی گرانے تھے تو یہ، تکبیر تحریمہ کہتے وقت جو رفع الیدین کی جاتی ہے اور اسی طرح رکوع اور سجود کے دوران بھی گر سکتے تھے اس کے لئے الگ سے رفع الیدین کی سنت جاری کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔
4. منافقین بھی کس قدربیوقوف تھے کہ بت جیبوں میں بھر لانے کی بجائے انہوں بغلوں میں دبا لائے؟
5. یقیناً جاہل لوگ اور ان کے پیشوا یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان کے بقول اگر رفع الیدین کے دوران منافقین کی بغلوں سے بت گرے تھے تو پھر آپ نے انہیں کیا سزا دی تھی؟
دراصل یہ کہانی محض خانہ ساز افسانہ ہے جس کا حقیقت کے ساتھ ادنیٰ سا تعلق بھی نہیں ہے۔ (ع،ر)
یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ ابن زبیرؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے رفع الیدین کیا تھا اور بعد میں چھوڑ دیا۔ (نصب الرایہ ۱/۴۰۴) لیکن یہ روایت بھی مرسل اور ضعیف ہے۔
تحقیق تو یہ ہے کہ مسئلہ رفع الیدین میں نسخ ہوا ہی نہیں ہے کیونکہ نسخ ہمیشہ وہاں ہوتا ہے جہاں (الف) دو حدیثیں آپس میں ٹکراتی ہوں (ب) دونوں مقبول ہوں (ج) ان کا کوئی مشترکہ مفہوم نہ نکلتا ہو (د) دلائل سے ثابت ہو جائے کہ ان دونوں میں سے فلاں پہلے دور کی ہے اور فلاں بعد میں ارشاد فرمائی گئی، تب بعد والی حدیث، پہلی حدیث کو منسوخ کر دیتی ہے۔
مگر یہاں رفع الیدین کرنے کی احادیث زیادہ بھی ہیں اور صحیح ترین بھی، جبکہ نہ کرنے کی احادیث کم بھی ہیں اور کمزور بھی (ان پر محدثین کی جرح ہے) اب نہ تو مقبول اور مردود احادیث کا مشترکہ مفہوم اخذ کرنا جائز ہے اور نہ ہی مردود احادیث سے مقبول کو منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اگر بفرض محال اس مسئلہ میں نسخ کا دعویٰ تسلیم کر لیا جائے تو بھی قرائن شہادت دیتے ہیں کہ رفع الیدین کرنا منسوخ نہیں بلکہ نہ کرنا منسوخ ہے کیونکہ (الف) صحابہ کرامؓ نے حیات طیبہ کے آخری حصے (۹ھ اور ۱۰ھ) میں نبی اکرم ﷺ سے رفع الیدین کرنا روایت کیا ہے۔ (ب) صحابہ کرامؓ عہد نبوت کے بعد بھی رفع الیدین کے قائل و فاعل رہے (ج) کہا جاتا ہے کہ چاروں ائمہ برحق ہیں اگر ایسا ہی ہے تو ان چار میں سے تین رفع الیدین کے قائل ہیں۔ (د) جن محدثین کرام (رحمۃ اللہ علیہم) نے رفع الیدین کی احادیث کو اپنی مختلف مقبول سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے ان میں سے کسی نے یہ تبصرہ نہیں کیا کہ ’’رفع الیدین منسوخ ہے‘‘ ثابت ہوا کہ صحابہ و تابعین اور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ کے نزدیک رفع الیدین منسوخ نہیں بلکہ سنت نبوی ہے اور ظاہر ہے کہ سنت چھوڑنے کے لئے نہیں، اپنانے کے لئے ہوتی ہے۔ اب جو شخص ایک غیر معصوم امتی کے عمل کو سنت نبوی پر ترجیح دیتا ہے اور سنت کو عمداً ہمیشہ چھوڑے ہوئے ہے اسے جب رسول کا دعویٰ کرنا جچتا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دیں۔ آمین (ع،ر)
اسی طرح اس سلسلے میں ایک اور روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا ’’میں نے رسول اللہ ﷺ و ابو بکر و عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی یہ لوگ شروع نماز کے علاوہ ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔‘‘
امام بیہقی (۲/۷۹۔۸۰) اور دار قطنی لکھتے ہیں کہ اس کا راوی محمد بن جابر ضعیف ہے۔ بلکہ بعض علماء (ابن جوزی، ابن تیمیہ وغیرھما) نے اسے موضوع کہا ہے۔ (یعنی یہ روایت ابن مسعودؓ کی بیان کردہ نہیں ہے بلکہ کسی نے خود تراش کر ان کی طرف منسوب کر دی ہے) لہٰذا ایسی روایات پیش کرنا جائز نہیں ہے۔
خلاصہ:
رفع الیدین کی احادیث بکثرت اور صحیح ترین اسناد سے مروی ہیں۔ عدم رفع الیدین کی احادیث معنی یا سنداً ثابت نہیں۔ امام بخاریؒ لکھتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک کسی ایک صحابی سے بھی عدم رفع الیدین ثابت نہیں ہے۔
 

عبداللہ حیدر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
316
ری ایکشن اسکور
1,017
پوائنٹ
120
رفع الیدین نہ کرنے والوں کے دلائل کا تجزیہ


دوسری حدیث:
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز بتاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھی اور ہاتھ نہ اُٹھائے مگر پہلی مرتبہ۔ (ابو داؤد، الصلاۃ، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، حدیث ۷۴۸۔ ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی رفع الیدین عند الرکوع، حدیث ۲۵۷)
تجزیہ:
امام ابو داؤد اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں: (لَیْسَ ھُوَ بِصَحِیْحٍ عَلٰی ھَذَا اللَّفْظِ)
’’یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔‘‘ (ابو داؤد، حوالہ مذکور)
جبکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے:
(لَمْ یَثْبُتْ حَدِیْثُ ابْنِ مَسْعُوْدٍؓ) (ترمذی، حوالہ، مذکور، حدیث ۲۵۵)
’’یعنی عبد اللہ بن مسعودؓ کے ترک رفع الیدین کی حدیث ثابت نہیں ہے۔‘‘
امام ابن حبانؒ نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اس میں بہت سی علتیں ہیں جو اسے باطل بنا رہی ہیں۔ (مثلاً اس میں سفیان ثوری مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں۔ مُدَلِّسْ کی عن والی روایت تفرد کی صورت میں ضعیف ہوتی ہے۔ ز۔ع)
السلام علیکم،
اس حدیث کو امام احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، طحاوی، بیہقی اور ابن حزم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی اسے حسن اور امام ابن حزم صحیح کہتے ہیں جبکہ کچھ دوسرے محدثین عبداللہ بن مبارک، دار قطنی اور امام ابن حبان و غیرھم نے اسے ضعیف کہا ہے لیکن امام البانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس پر قدرے تفصیل سے بحث کرنے کے بعد اسے صحیح قرار دیا ہے اور درست بات یہی ہے کہ سند کے اعتبار سے اس میں کوئی طعن نہیں ہے۔ اس کے تمام راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں اور یہ روایت صحیح اور ثابت ہے۔
والسلام علیکم
 

آفتاب

مبتدی
شمولیت
مئی 20، 2011
پیغامات
132
ری ایکشن اسکور
718
پوائنٹ
0
ترک رفع الیدین کے دلائل کے حوالہ سے ایک تھریڈ پہلے سے موجو د ہے ۔ بہتر تھا آپ وہاں جواب دیتے ۔

http://www.kitabosunnat.com/forum/مسائل-و-احکام-71/ترک-رفع-الیدین-1168/

بہرحال اگر آپ نے یہاں بات شروع کی تو کچھ گذارشات یہاں عرض کردیتا ہوں

پہلی حدیث:
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا بات ہے کہ میں تم کو اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھتا ہوں گویا کہ وہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں۔ نماز میں سکون اختیار کرو۔‘‘ (مسلم، الصلاۃ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ، حدیث ۴۳۰)
تجزیہ:
اس حدیث میں اس مقام کا ذکر نہیں جس پر صحابہ رضی اللہ عنہم ہاتھ اُٹھا رہے تھے اور آپ ﷺ نے انہیں منع فرمایا۔ جابر بن سمرہ ہی سے صحیح مسلم میں اسی حدیث سے متصل دو روایات اور بھی ہیں اور بات کو پوری طرح واضح کر رہی ہیں۔
1۔حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جب ہم نماز پڑھتے تو نماز کے خاتمہ پر دائیں بائیں (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔ تمہیں یہی کافی ہے کہ تم قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں اور بائیں منہ موڑ کر (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہو۔‘‘ (مسلم، الصلاۃ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ، حدیث ۴۳۱)
2۔حضرت جابر بن سمرہؓ کا بیان ہے: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز کے خاتمہ پر (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا تمہیں کیا ہو گیا ہے تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو گویا وہ شریر گھوڑں کی دمیں ہیں۔ تم نماز کے خاتمہ پر صرف زبان سے (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہو اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرو۔ (مسلم، حوالہ سابقہ۔ حدیث ۴۳۱ کی ذیلی حدیث)
پہلی اور دوسری حدیث دو الگ واقعات کا بتا رہی ہیں ۔ پہلی حدیث کا پورا متن ملحظہ فرمائیں
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ» قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَرَآنَا حَلَقًا فَقَالَ: «مَالِي أَرَاكُمْ عِزِينَ» قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ: «أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟» فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ قَالَ: «يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ»
[صحيح مسلم (1/ 322) رقم 430]
جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں جیسا کہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں، نماز میں سکون رکھا کرو فرماتے ہیں دوبارہ ایک دن تشریف لائے تو ہم کو حلقوں میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم کو متفرق طور پر بیٹھے ہوئے دیکھتا ہوں پھر ایک مرتبہ ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا کیا تم صفیں نہیں بناتے جیسا کہ فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں بناتے ہیں فرمایا کہ پہلی صف کو مکمل کیا کرو اور صف میں مل مل کر کھڑے ہوا کرو۔

اس حدیث میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور صحابہ نماز میں مشغول تھے اور دوسرا واقعہ باجماعت نماز کا ہے ۔ دونوں واقعات کو ایک تو ثابت نہیں کیا جاسکتا تو حکم ایک کیسے ہوگا۔ کیا ایسے ممکن ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو ایک کام سے منع کریں او پھر بھی صحابہ وہی کام کر رہے ہوں ۔
اس سے معلوم ہوا کہ دونوں جگہ پر الگ الگ رفع الیدن سے منع کیا گیا۔ دوسری حدیث میں تو سلام والے رفی الیدین سے منع کیا گیا پہلی حدیث میں کس رفع الیدین سے منع کیا گیا ، یہ واضح نہیں صرف احتمالات ہو سکتے ہیں ۔
پہلی حدیث میں اسکنوا في الصلاہ کے الفاظ عام ہیں ۔ یعنی کوئی بھی رفع الیدین نہیں کرنا ۔ تکبیر تحریمہ والا رفع الیدین اور وتر اور نماز عیدین والا رفع الیدین اس سے اس لئیے مستثنی ہیں کہ ان کے ترک پر کوئی بھی صحیح حدیث دلالت نہیں کرتی۔ لیکن رکوع والے رفع الیدین پر کے ترک پر کئی احادیث دلالت کرتی ہیں ۔

اب آپ نے جو رفع الیدین کے ترک والی احادیث کو ضعیف کہا ۔ اس کی بھی تحقیق دیکھیں ۔


دوسری حدیث:
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز بتاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھی اور ہاتھ نہ اُٹھائے مگر پہلی مرتبہ۔ (ابو داؤد، الصلاۃ، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، حدیث ۷۴۸۔ ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی رفع الیدین عند الرکوع، حدیث ۲۵۷)
تجزیہ:
امام ابو داؤد اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں: (لَیْسَ ھُوَ بِصَحِیْحٍ عَلٰی ھَذَا اللَّفْظِ)
’’یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔‘‘ (ابو داؤد، حوالہ مذکور)
جبکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے:
(لَمْ یَثْبُتْ حَدِیْثُ ابْنِ مَسْعُوْدٍؓ) (ترمذی، حوالہ، مذکور، حدیث ۲۵۵)
’’یعنی عبد اللہ بن مسعودؓ کے ترک رفع الیدین کی حدیث ثابت نہیں ہے۔‘‘
امام ابن حبانؒ نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اس میں بہت سی علتیں ہیں جو اسے باطل بنا رہی ہیں۔
امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے (ترمذی جلد اول ) ۔ جب وہ خود حسن کہ رہے ہیں تو انہوں نے امام ابن مبارک کا قول تو ذکر کیا لیکن اس سے متفق نہیں ۔ اس لئیے وہ دلیل تو باطل ہے ۔

حاقظ ابن حجر لکھتے ہیں و صححہ ابن حزم (:التلخيص الحبير علی شرح المهذب ج3)

امام ابو داؤد نے جو یہ حدیث بیان کی ہے تو اس میں اور دیگر کتب میں ایک راوی الگ ہے ۔ امام ابو داؤد کے الفاظ دوسرے راوی کی بیان کردہ حدیث پر چسپاں کیوں کر رہے ہیں ۔

اس حدیث کو امام ترمذی ۔ امام دار قطنی ، حافظ ابن حزم ، حاقظ ابن القطان کے علاوہ کئی محدثین نے صحیح کہا ہے تو کیا اس کے مقابلہ میں ایک دو جرح مبہم کی کوئی حیثیت ہے ۔


(مثلاً اس میں سفیان ثوری مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں۔ مُدَلِّسْ کی عن والی روایت تفرد کی صورت میں ضعیف ہوتی ہے۔ ز۔ع)
نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے میں سفیان عن سے روایت کرہے ہیں اور اکیلے ہیں پھر بھی ان کی روایت سے حجت کیوں پکڑی ۔ یہ دہرا معیار کیوں ؟
مُدَلِّسْ کی عن والی روایت تفرد کی صورت میں ضعیف ہوتی ہے
اس کا حوالہ بھی ضرور دیں ۔



تیسری حدیث:
حضرت براءؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھاتے۔ (ثُمَّ لَا یَعُوْدُ) پھر نہیں اُٹھاتے تھے۔ (ابو داؤد، الصلاۃ، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، حدیث ۷۴۹)
تجزیہ:
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اسے سفیان بن عینیہ، امام شافعی، امام بخاری کے استاد امام حمیدی اور امام احمد بن حنبل جیسے ائمۃ الحدیث رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ کیونکہ یزید بن ابی زیاد پہلے (لَا یَعُوْدُ) نہیں کہتا تھا، اہل کوفہ کے پڑھانے پر اس نے یہ الفاظ بڑھا دیئے۔ مزید براں یزید بن ابی زیاد ضعیف اور شیعہ بھی تھا۔ آخری عمر میں حافظہ خراب ہو گیا تھا (تقریب) نیز مدلس تھا۔

یزید بن ابی زیاد کے بارے میں سیر الاعلام سے کچھ محدثین کے حوالہ دیکھیں ۔
قال أبو داود لا أعلم أحدا ترك حديثه
عن شعبة، قال: ما أبالي إذا كتبت عن يزيد بن أبي زياد أن لا أكتبه عن أحد
وقد علق البخاري له لفظة
وقد روى له مسلم فقرنه بآخر معه


اگر کہا جاتا ہے آخری عمر میں اس کا حافظہ کمزور ہوگیا تھا تو یہ بات ذہن میں رکیھں يذید بن ابی زیاد سے "ثم لا يعود " الفاظ یا ان کہ ہم معنی الفاظ مسند ابی لیلی اور جامع المسانید و سنن میں ہشیم سے ۔ مصنف عبدالرزاق میں ابن عینیہ سے ، شرح معانی الاثار میں سفيان الثوری سے ۔مسند ابی لیلی میں ابن ادریس سے اور سنن الدار قطنی میں شعبہ ،اسماعیل بن زکریا اور محمد بن عبد الرحمن سے مذکور ہیں ۔ اور یہ سب یزید بن ابی زیاد کے قدیم تلامذہ ہیں ۔ اس لئیے اگر ان کا حافظہ آخری عمر میں خراب ہوگیا تھا تو اس دلیل کا بھی جواب ہوگیا ۔ ان کے قدیم تلامذہ سے بھی روایت پیش کردی گئیں ۔

ابن حبان نے بھی یہی کہا جنہوں نے ان کے تغیر حافظہ سے پہلی حدیثیں سنیں ان کا سماع صحیح ہے (تھذیب التھذیب )

علاوہ ازیں رفع الیدین کی احادیث اولیٰ ہیں کیونکہ وہ مثبت ہیں اور نافی پر مثبت کو ترجیح حاصل ہوتی ہے۔
عدم رفع الیدین والی احادیث کو بھی اوپر صحیح ثابت کیا ہے

بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ منافقین آستینوں اور بغلوں میں بت رکھ کر لاتے تھے بتوں کو گرانے کے لئے رفع الیدین کیا گیا، بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ لیکن کتب احادیث میں اس کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ البتہ یہ قول جہلاء کی زبانوں پر گھومتا رہتا ہے۔
میں نے یہ بات کہیں نہیں پڑہی ۔ میں یہاں آپ سے متفق ہوں کہ یہ ایک افسانہ ہے


یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ ابن زبیرؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے رفع الیدین کیا تھا اور بعد میں چھوڑ دیا۔ (نصب الرایہ ۱/۴۰۴) لیکن یہ روایت بھی مرسل اور ضعیف ہے۔
کیوں ضعیف ھیںدلائل دیں ۔ بھر اس پر بات ہوگی ۔


تحقیق تو یہ ہے کہ مسئلہ رفع الیدین میں نسخ ہوا ہی نہیں ہے کیونکہ نسخ ہمیشہ وہاں ہوتا ہے جہاں (الف) دو حدیثیں آپس میں ٹکراتی ہوں (ب) دونوں مقبول ہوں (ج) ان کا کوئی مشترکہ مفہوم نہ نکلتا ہو (د) دلائل سے ثابت ہو جائے کہ ان دونوں میں سے فلاں پہلے دور کی ہے اور فلاں بعد میں ارشاد فرمائی گئی، تب بعد والی حدیث، پہلی حدیث کو منسوخ کر دیتی ہے۔
مگر یہاں رفع الیدین کرنے کی احادیث زیادہ بھی ہیں اور صحیح ترین بھی، جبکہ نہ کرنے کی احادیث کم بھی ہیں اور کمزور بھی (ان پر محدثین کی جرح ہے) اب نہ تو مقبول اور مردود احادیث کا مشترکہ مفہوم اخذ کرنا جائز ہے اور نہ ہی مردود احادیث سے مقبول کو منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اگر بفرض محال اس مسئلہ میں نسخ کا دعویٰ تسلیم کر لیا جائے تو بھی قرائن شہادت دیتے ہیں کہ رفع الیدین کرنا منسوخ نہیں بلکہ نہ کرنا منسوخ ہے کیونکہ (الف) صحابہ کرامؓ نے حیات طیبہ کے آخری حصے (۹ھ اور ۱۰ھ) میں نبی اکرم ﷺ سے رفع الیدین کرنا روایت کیا ہے۔ (ب) صحابہ کرامؓ عہد نبوت کے بعد بھی رفع الیدین کے قائل و فاعل رہے (ج) کہا جاتا ہے کہ چاروں ائمہ برحق ہیں اگر ایسا ہی ہے تو ان چار میں سے تین رفع الیدین کے قائل ہیں۔ (د) جن محدثین کرام (رحمۃ اللہ علیہم) نے رفع الیدین کی احادیث کو اپنی مختلف مقبول سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے ان میں سے کسی نے یہ تبصرہ نہیں کیا کہ ’’رفع الیدین منسوخ ہے‘‘ ثابت ہوا کہ صحابہ و تابعین اور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ کے نزدیک رفع الیدین منسوخ نہیں بلکہ سنت نبوی ہے اور ظاہر ہے کہ سنت چھوڑنے کے لئے نہیں، اپنانے کے لئے ہوتی ہے۔ اب جو شخص ایک غیر معصوم امتی کے عمل کو سنت نبوی پر ترجیح دیتا ہے اور سنت کو عمداً ہمیشہ چھوڑے ہوئے ہے اسے جب رسول کا دعویٰ کرنا جچتا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دیں۔ آمین (ع،ر)
یہاں آّپ نے بہت سی باتیں بلا دلیل کی ہیں پہلے ان کے حوالہ دیں بھر بات ہوگی


اسی طرح اس سلسلے میں ایک اور روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا ’’میں نے رسول اللہ ﷺ و ابو بکر و عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی یہ لوگ شروع نماز کے علاوہ ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔‘‘
امام بیہقی (۲/۷۹۔۸۰) اور دار قطنی لکھتے ہیں کہ اس کا راوی محمد بن جابر ضعیف ہے۔ بلکہ بعض علماء (ابن جوزی، ابن تیمیہ وغیرھما) نے اسے موضوع کہا ہے۔ (یعنی یہ روایت ابن مسعودؓ کی بیان کردہ نہیں ہے بلکہ کسی نے خود تراش کر ان کی طرف منسوب کر دی ہے) لہٰذا ایسی روایات پیش کرنا جائز نہیں ہے۔
اچھا اس میں محمد بن جابر نہیں ۔ اس کی تحقیق بیان کردیں

حدثنا يحيى بن آدم، عن حسن بن عياش، عن عبد الملك بن أبجر، عن الزبير بن عدي، عن إبراهيم، عن الأسود، قال: صليت مع عمر، فلم يرفع يديه في شيء من صلاته إلا حين افتتح الصلاة (أخرجه ابن أبي شيبة في مصنفه )

خلاصہ:
رفع الیدین کی احادیث بکثرت اور صحیح ترین اسناد سے مروی ہیں۔ عدم رفع الیدین کی احادیث معنی یا سنداً ثابت نہیں۔ امام بخاریؒ لکھتے ہیں کہ اہل علم کے نزدیک کسی ایک صحابی سے بھی عدم رفع الیدین ثابت نہیں ہے۔
پہلے میری دلائل اور سوالات کے جواب دیں پھر یہ نتیجہ اخذ کریں
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
رفع الیدین نہ کرنے والوں کے دلائل کا تجزیہ

جن احادیث سے رفع الیدین نہ کرنے کی دلیل لی جاتی ہے ان کا مختصر تجزیہ ملاحظہ فرمائیں:
پہلی حدیث:
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا بات ہے کہ میں تم کو اس طرح ہاتھ اٹھاتے دیکھتا ہوں گویا کہ وہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں۔ نماز میں سکون اختیار کرو۔‘‘ (مسلم، الصلاۃ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ، حدیث ۴۳۰)
تجزیہ:
اس حدیث میں اس مقام کا ذکر نہیں جس پر صحابہ رضی اللہ عنہم ہاتھ اُٹھا رہے تھے اور آپ ﷺ نے انہیں منع فرمایا۔ جابر بن سمرہ ہی سے صحیح مسلم میں اسی حدیث سے متصل دو روایات اور بھی ہیں اور بات کو پوری طرح واضح کر رہی ہیں۔
1۔حضرت جابر بن سمرہؓ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جب ہم نماز پڑھتے تو نماز کے خاتمہ پر دائیں بائیں (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا: ’’تم اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے ہو جیسے شریر گھوڑوں کی دمیں ہلتی ہیں۔ تمہیں یہی کافی ہے کہ تم قعدہ میں اپنی رانوں پر ہاتھ رکھے ہوئے دائیں اور بائیں منہ موڑ کر (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہو۔‘‘ (مسلم، الصلاۃ، باب الامر بالسکون فی الصلاۃ، حدیث ۴۳۱)
2۔حضرت جابر بن سمرہؓ کا بیان ہے: ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز کے خاتمہ پر (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ بھی کرتے تھے یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا تمہیں کیا ہو گیا ہے تم اپنے ہاتھوں سے اس طرح اشارہ کرتے ہو گویا وہ شریر گھوڑں کی دمیں ہیں۔ تم نماز کے خاتمہ پر صرف زبان سے (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحَمَۃُ اللہِ) کہو اور ہاتھ سے اشارہ نہ کرو۔ (مسلم، حوالہ سابقہ۔ حدیث ۴۳۱ کی ذیلی حدیث)
امام نوویؒ ’’المجموع‘‘ میں فرماتے ہیں: جابر بن سمرہؓ کی اس روایت سے رکوع میں جاتے اور اُٹھتے وقت رفع الیدین نہ کرنے کی دلیل لینا عجیب بات اور سنت سے جہالت کی قبیح قسم ہے۔ کیونکہ یہ حدیث رکوع کو جاتے اور اُٹھتے وقت کے رفع الیدین کے بارے میں نہیں بلکہ تشہد میں سلام کے وقت دونوں جانب ہاتھ سے اشارہ کرنے کی ممانعت کے بارے میں ہے۔ محدثین اور جن کو محدثین کے ساتھ تھوڑا سا بھی تعلق ہے، ان کے درمیان اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ اس کے بعد امام نووی امام بخاریؒ کا قول نقل کرتے ہیں کہ اس حدیث سے بعض جاہل لوگوں کا دلیل پکڑنا صحیح نہیں کیونکہ یہ سلام کے وقت ہاتھ اُٹھانے کے بارے میں ہے اور جو عالم ہے وہ اس طرح کی دلیل نہیں پکڑتا کیونکہ یہ معروف و مشہور بات ہے۔ اس میں کسی کا اختلاف نہیں اور اگر یہ بات صحیح ہوتی تو ابتدائے نماز اور عید کا رفع الیدین بھی منع ہو جاتا مگر اس میں خاص رفع الیدین کو بیان نہیں کیا گیا۔ امام بخاری فرماتے ہیں پس ان لوگوں کو اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ وہ نبی ﷺ پر وہ بات کہہ رہے ہیں جو آپ نے نہیں کہی کیونکہ اللہ فرماتا ہے:
فَلَیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَںْ أَمْرِہِج أَنْ تُصِیْبَھُمْ فِتْنَۃٌ أَوْ یُصِیْبَھُإْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ (الفرقان ۲۴/۶۳)
’’پس ان لوگوں کو جو نبی ﷺ کی مخالفت کرتے ہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ انہیں (دنیا میں) کوئی فتنہ یا (آخرت میں) درد ناک عذاب پہنچے۔‘‘
دوسری حدیث:
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اللہ ﷺ کی نماز بتاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھی اور ہاتھ نہ اُٹھائے مگر پہلی مرتبہ۔ (ابو داؤد، الصلاۃ، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، حدیث ۷۴۸۔ ترمذی، الصلاۃ، باب ما جاء فی رفع الیدین عند الرکوع، حدیث ۲۵۷)
تجزیہ:
امام ابو داؤد اس حدیث کے بعد فرماتے ہیں: (لَیْسَ ھُوَ بِصَحِیْحٍ عَلٰی ھَذَا اللَّفْظِ)
’’یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح نہیں ہے۔‘‘ (ابو داؤد، حوالہ مذکور)
جبکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہے:
(لَمْ یَثْبُتْ حَدِیْثُ ابْنِ مَسْعُوْدٍؓ) (ترمذی، حوالہ، مذکور، حدیث ۲۵۵)
’’یعنی عبد اللہ بن مسعودؓ کے ترک رفع الیدین کی حدیث ثابت نہیں ہے۔‘‘
امام ابن حبانؒ نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اس میں بہت سی علتیں ہیں جو اسے باطل بنا رہی ہیں۔ (مثلاً اس میں سفیان ثوری مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں۔ مُدَلِّسْ کی عن والی روایت تفرد کی صورت میں ضعیف ہوتی ہے۔ ز۔ع)
تیسری حدیث:
حضرت براءؓ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ جب نماز شروع کرتے تو دونوں ہاتھ کانوں تک اُٹھاتے۔ (ثُمَّ لَا یَعُوْدُ) پھر نہیں اُٹھاتے تھے۔ (ابو داؤد، الصلاۃ، باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، حدیث ۷۴۹)
تجزیہ:
امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے اسے سفیان بن عینیہ، امام شافعی، امام بخاری کے استاد امام حمیدی اور امام احمد بن حنبل جیسے ائمۃ الحدیث رحمہم اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ کیونکہ یزید بن ابی زیاد پہلے (لَا یَعُوْدُ) نہیں کہتا تھا، اہل کوفہ کے پڑھانے پر اس نے یہ الفاظ بڑھا دیئے۔ مزید براں یزید بن ابی زیاد ضعیف اور شیعہ بھی تھا۔ آخری عمر میں حافظہ خراب ہو گیا تھا (تقریب) نیز مدلس تھا۔

بعض لوگ دلیل دیتے ہیں کہ منافقین آستینوں اور بغلوں میں بت رکھ کر لاتے تھے بتوں کو گرانے کے لئے رفع الیدین کیا گیا، بعد میں چھوڑ دیا گیا۔ لیکن کتب احادیث میں اس کا کہیں کوئی ثبوت نہیں ہے۔ البتہ یہ قول جہلاء کی زبانوں پر گھومتا رہتا ہے۔ درج ذیل حقائق اس قول کی کمزوری واضح کر دیتے ہیں:
1. مکہ میں بت تھے مگر جماعت فرض نہیں تھی۔ مدینہ میں جماعت فرض ہوئی مگر بت نہیں تھے، پھر منافقین مدینہ، کن بتوں کو بغلوں میں دبائے مسجدوں میں چلے آتے تھے؟
2. تعب ہے کہ جاہل لوگ اس گپ کو صحیح مانتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ نبی ﷺ کو عالم الغیب بھی مانتے ہیں حالانکہ اگر آپ عالم الغیب ہوتے تو رفع الیدین کروانے کے بغیر بھی جان سکتے تھے کہ فلاں فلاں شخص مسجد میں بت لے آیا ہے۔
3. بت ہی گرانے تھے تو یہ، تکبیر تحریمہ کہتے وقت جو رفع الیدین کی جاتی ہے اور اسی طرح رکوع اور سجود کے دوران بھی گر سکتے تھے اس کے لئے الگ سے رفع الیدین کی سنت جاری کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں تھی۔
4. منافقین بھی کس قدربیوقوف تھے کہ بت جیبوں میں بھر لانے کی بجائے انہوں بغلوں میں دبا لائے؟
5. یقیناً جاہل لوگ اور ان کے پیشوا یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ان کے بقول اگر رفع الیدین کے دوران منافقین کی بغلوں سے بت گرے تھے تو پھر آپ نے انہیں کیا سزا دی تھی؟
دراصل یہ کہانی محض خانہ ساز افسانہ ہے جس کا حقیقت کے ساتھ ادنیٰ سا تعلق بھی نہیں ہے۔ (ع،ر)
یہ بھی دلیل دی جاتی ہے کہ ابن زبیرؓ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے رفع الیدین کیا تھا اور بعد میں چھوڑ دیا۔ (نصب الرایہ ۱/۴۰۴) لیکن یہ روایت بھی مرسل اور ضعیف ہے۔
تحقیق تو یہ ہے کہ مسئلہ رفع الیدین میں نسخ ہوا ہی نہیں ہے کیونکہ نسخ ہمیشہ وہاں ہوتا ہے جہاں (الف) دو حدیثیں آپس میں ٹکراتی ہوں (ب) دونوں مقبول ہوں (ج) ان کا کوئی مشترکہ مفہوم نہ نکلتا ہو (د) دلائل سے ثابت ہو جائے کہ ان دونوں میں سے فلاں پہلے دور کی ہے اور فلاں بعد میں ارشاد فرمائی گئی، تب بعد والی حدیث، پہلی حدیث کو منسوخ کر دیتی ہے۔
مگر یہاں رفع الیدین کرنے کی احادیث زیادہ بھی ہیں اور صحیح ترین بھی، جبکہ نہ کرنے کی احادیث کم بھی ہیں اور کمزور بھی (ان پر محدثین کی جرح ہے) اب نہ تو مقبول اور مردود احادیث کا مشترکہ مفہوم اخذ کرنا جائز ہے اور نہ ہی مردود احادیث سے مقبول کو منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اگر بفرض محال اس مسئلہ میں نسخ کا دعویٰ تسلیم کر لیا جائے تو بھی قرائن شہادت دیتے ہیں کہ رفع الیدین کرنا منسوخ نہیں بلکہ نہ کرنا منسوخ ہے کیونکہ (الف) صحابہ کرامؓ نے حیات طیبہ کے آخری حصے (۹ھ اور ۱۰ھ) میں نبی اکرم ﷺ سے رفع الیدین کرنا روایت کیا ہے۔ (ب) صحابہ کرامؓ عہد نبوت کے بعد بھی رفع الیدین کے قائل و فاعل رہے (ج) کہا جاتا ہے کہ چاروں ائمہ برحق ہیں اگر ایسا ہی ہے تو ان چار میں سے تین رفع الیدین کے قائل ہیں۔ (د) جن محدثین کرام (رحمۃ اللہ علیہم) نے رفع الیدین کی احادیث کو اپنی مختلف مقبول سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے ان میں سے کسی نے یہ تبصرہ نہیں کیا کہ ’’رفع الیدین منسوخ ہے‘‘ ثابت ہوا کہ صحابہ و تابعین اور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ کے نزدیک رفع الیدین منسوخ نہیں بلکہ سنت نبوی ہے اور ظاہر ہے کہ سنت چھوڑنے کے لئے نہیں، اپنانے کے لئے ہوتی ہے۔ اب جو شخص ایک غیر معصوم امتی کے عمل کو سنت نبوی پر ترجیح دیتا ہے اور سنت کو عمداً ہمیشہ چھوڑے ہوئے ہے اسے جب رسول کا دعویٰ کرنا جچتا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دیں۔ آمین (ع،ر)
اسی طرح اس سلسلے میں ایک اور روایت بھی پیش کی جاتی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا ’’میں نے رسول اللہ ﷺ و ابو بکر و عمرؓ کے ساتھ نماز پڑھی یہ لوگ شروع نماز کے علاوہ ہاتھ نہیں اُٹھاتے تھے۔‘‘
امام بیہقی (۲/۷۹۔۸۰) اور دار قطنی لکھتے ہیں کہ اس کا راوی محمد بن جابر ضعیف ہے۔ بلکہ بعض علماء (ابن جوزی، ابن تیمیہ وغیرھما) نے اسے موضوع کہا ہے۔ (یعنی یہ روایت ابن مسعودؓ کی بیان کردہ نہیں ہے بلکہ کسی نے خود تراش کر ان کی طرف منسوب کر دی ہے) لہٰذا ایسی روایات پیش کرنا جائز نہیں ہے۔
خلاصہ:
جزاک الله خیرا بھائی
اللہ ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
 

ابن خلیل

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 03، 2011
پیغامات
1,383
ری ایکشن اسکور
6,754
پوائنٹ
332
ترک رفع الیدین کے دلائل کے حوالہ سے ایک تھریڈ پہلے سے موجو د ہے ۔ بہتر تھا آپ وہاں جواب دیتے ۔

http://www.kitabosunnat.com/forum/مسائل-و-احکام-71/ترک-رفع-الیدین-1168/

بہرحال اگر آپ نے یہاں بات شروع کی تو کچھ گذارشات یہاں عرض کردیتا ہوں



پہلی اور دوسری حدیث دو الگ واقعات کا بتا رہی ہیں ۔ پہلی حدیث کا پورا متن ملحظہ فرمائیں
عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ خَيْلٍ شُمْسٍ؟ اسْكُنُوا فِي الصَّلَاةِ» قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَرَآنَا حَلَقًا فَقَالَ: «مَالِي أَرَاكُمْ عِزِينَ» قَالَ: ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا فَقَالَ: «أَلَا تَصُفُّونَ كَمَا تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟» فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللهِ، وَكَيْفَ تَصُفُّ الْمَلَائِكَةُ عِنْدَ رَبِّهَا؟ قَالَ: «يُتِمُّونَ الصُّفُوفَ الْأُوَلَ وَيَتَرَاصُّونَ فِي الصَّفِّ»
[صحيح مسلم (1/ 322) رقم 430]
جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں جیسا کہ سرکش گھوڑوں کی دمیں ہیں، نماز میں سکون رکھا کرو فرماتے ہیں دوبارہ ایک دن تشریف لائے تو ہم کو حلقوں میں بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا کیا وجہ ہے کہ میں تم کو متفرق طور پر بیٹھے ہوئے دیکھتا ہوں پھر ایک مرتبہ ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا کیا تم صفیں نہیں بناتے جیسا کہ فرشتے اپنے رب کے پاس صفیں بناتے ہیں فرمایا کہ پہلی صف کو مکمل کیا کرو اور صف میں مل مل کر کھڑے ہوا کرو۔

اس حدیث میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور صحابہ نماز میں مشغول تھے اور دوسرا واقعہ باجماعت نماز کا ہے ۔ دونوں واقعات کو ایک تو ثابت نہیں کیا جاسکتا تو حکم ایک کیسے ہوگا۔ کیا ایسے ممکن ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو ایک کام سے منع کریں او پھر بھی صحابہ وہی کام کر رہے ہوں ۔
اس سے معلوم ہوا کہ دونوں جگہ پر الگ الگ رفع الیدن سے منع کیا گیا۔ دوسری حدیث میں تو سلام والے رفی الیدین سے منع کیا گیا پہلی حدیث میں کس رفع الیدین سے منع کیا گیا ، یہ واضح نہیں صرف احتمالات ہو سکتے ہیں ۔
پہلی حدیث میں اسکنوا في الصلاہ کے الفاظ عام ہیں ۔ یعنی کوئی بھی رفع الیدین نہیں کرنا ۔ تکبیر تحریمہ والا رفع الیدین اور وتر اور نماز عیدین والا رفع الیدین اس سے اس لئیے مستثنی ہیں کہ ان کے ترک پر کوئی بھی صحیح حدیث دلالت نہیں کرتی۔ لیکن رکوع والے رفع الیدین پر کے ترک پر کئی احادیث دلالت کرتی ہیں ۔

اب آپ نے جو رفع الیدین کے ترک والی احادیث کو ضعیف کہا ۔ اس کی بھی تحقیق دیکھیں ۔




امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن کہا ہے (ترمذی جلد اول ) ۔ جب وہ خود حسن کہ رہے ہیں تو انہوں نے امام ابن مبارک کا قول تو ذکر کیا لیکن اس سے متفق نہیں ۔ اس لئیے وہ دلیل تو باطل ہے ۔

حاقظ ابن حجر لکھتے ہیں و صححہ ابن حزم (:التلخيص الحبير علی شرح المهذب ج3)

امام ابو داؤد نے جو یہ حدیث بیان کی ہے تو اس میں اور دیگر کتب میں ایک راوی الگ ہے ۔ امام ابو داؤد کے الفاظ دوسرے راوی کی بیان کردہ حدیث پر چسپاں کیوں کر رہے ہیں ۔

اس حدیث کو امام ترمذی ۔ امام دار قطنی ، حافظ ابن حزم ، حاقظ ابن القطان کے علاوہ کئی محدثین نے صحیح کہا ہے تو کیا اس کے مقابلہ میں ایک دو جرح مبہم کی کوئی حیثیت ہے ۔




نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے میں سفیان عن سے روایت کرہے ہیں اور اکیلے ہیں پھر بھی ان کی روایت سے حجت کیوں پکڑی ۔ یہ دہرا معیار کیوں ؟
مُدَلِّسْ کی عن والی روایت تفرد کی صورت میں ضعیف ہوتی ہے
اس کا حوالہ بھی ضرور دیں ۔






یزید بن ابی زیاد کے بارے میں سیر الاعلام سے کچھ محدثین کے حوالہ دیکھیں ۔
قال أبو داود لا أعلم أحدا ترك حديثه
عن شعبة، قال: ما أبالي إذا كتبت عن يزيد بن أبي زياد أن لا أكتبه عن أحد
وقد علق البخاري له لفظة
وقد روى له مسلم فقرنه بآخر معه


اگر کہا جاتا ہے آخری عمر میں اس کا حافظہ کمزور ہوگیا تھا تو یہ بات ذہن میں رکیھں يذید بن ابی زیاد سے "ثم لا يعود " الفاظ یا ان کہ ہم معنی الفاظ مسند ابی لیلی اور جامع المسانید و سنن میں ہشیم سے ۔ مصنف عبدالرزاق میں ابن عینیہ سے ، شرح معانی الاثار میں سفيان الثوری سے ۔مسند ابی لیلی میں ابن ادریس سے اور سنن الدار قطنی میں شعبہ ،اسماعیل بن زکریا اور محمد بن عبد الرحمن سے مذکور ہیں ۔ اور یہ سب یزید بن ابی زیاد کے قدیم تلامذہ ہیں ۔ اس لئیے اگر ان کا حافظہ آخری عمر میں خراب ہوگیا تھا تو اس دلیل کا بھی جواب ہوگیا ۔ ان کے قدیم تلامذہ سے بھی روایت پیش کردی گئیں ۔

ابن حبان نے بھی یہی کہا جنہوں نے ان کے تغیر حافظہ سے پہلی حدیثیں سنیں ان کا سماع صحیح ہے (تھذیب التھذیب )



عدم رفع الیدین والی احادیث کو بھی اوپر صحیح ثابت کیا ہے



میں نے یہ بات کہیں نہیں پڑہی ۔ میں یہاں آپ سے متفق ہوں کہ یہ ایک افسانہ ہے




کیوں ضعیف ھیںدلائل دیں ۔ بھر اس پر بات ہوگی ۔



یہاں آّپ نے بہت سی باتیں بلا دلیل کی ہیں پہلے ان کے حوالہ دیں بھر بات ہوگی




اچھا اس میں محمد بن جابر نہیں ۔ اس کی تحقیق بیان کردیں

حدثنا يحيى بن آدم، عن حسن بن عياش، عن عبد الملك بن أبجر، عن الزبير بن عدي، عن إبراهيم، عن الأسود، قال: صليت مع عمر، فلم يرفع يديه في شيء من صلاته إلا حين افتتح الصلاة (أخرجه ابن أبي شيبة في مصنفه )



پہلے میری دلائل اور سوالات کے جواب دیں پھر یہ نتیجہ اخذ کریں
آفتاب بھائی کا جواب ابھی تک کسی نے نہیں دیا ؟
 
Top