• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضانيات

شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
ماہ رمضان جہنم سے آزادی کا مہینہ

حدیث:عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِذَا كَانَ أَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ صُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ، وَمَرَدَةُ الْجِنِّ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ فَلَمْ يُفْتَحْ مِنْهَا بَابٌ، وَفُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ فَلَمْ يُغْلَقْ مِنْهَا بَابٌ، وَيُنَادِي مُنَادٍ : يَا بَاغِيَ الْخَيْرِ، أَقْبِلْ، وَيَا بَاغِيَ الشَّرِّ، أَقْصِرْ، وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ، وَذَلكَ كُلُّ لَيْلَةٍ ".
حكم الحديث: صحيح (ترمذی /682)
ترجمہ حدیث : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :" جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنوں کو قید کر دیا جاتا ہے، جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا جاتا ہے ان میں سے کوئی بھی کھلا نہیں چھوڑا جاتا اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ان میں سے کوئی بھی بند نہیں رکھا جاتا، ایک ندا دینے والا ندا دیتا ہے : اے بھلائی کے متلاشی آگے بڑھ، اور اے برائی کے متلاشی پیچھے ہٹ، اور اللہ کے پاس جہنم سے آزادی کے لئے کچھ قیدی ہوتے ہیں، اور یہ ہر رات ہوتا ہے.
فوائد حدیث : (1) رمضان المبارک کی فضیلت معلوم ہو رہی ہے
(2) اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ رحمت اور شفقت کا معاملہ بھی سمجھ آرہا ہے کہ اس مبارک ماہ میں نیکیوں کی راہ کو اپنے بندوں کے لیے آسان کر دیا،
(3) جنت و جہنم اور ان کے دروازوں کا ثبوت بھی معلوم ہو رہا ہے
(4) ایک نداء دینے والا روزانہ نداء دیتا ہے اور بھلائی کی طرف بلاتا ہے اور برائی سے روکتا ہے
(5) رمضان کی ہر رات جہنم سے قیدیوں کو آزاد کیا جاتا ہے
(6) رمضان کا پورا مہینہ جہنم سے آزادی کا مہینہ ہے جس نے صرف ایک عشرہ بتایا اس نے گویا اللہ کہ رحمت کو سمیٹ دیا.
(7) جن و شیاطین کے وجود کا بھی علم ہو رہا ہے
(8) جن و شیاطین کی عاجزی بھی معلوم ہو رہی ہے
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
مغفرت کا مہینہ

حدیث : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ". (بخارى ، حدیث :38)
ترجمہ : حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے إرشاد فرمایا : "جس نے رمضان المبارک کے روزے رکھے ایمان اور اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں".

فوائد :
(1)
ماہ رمضان اسلامی قمری تقویم کا نواں مہینہ ہے بڑی فضیلت والا مہینہ ہے اسی مہینہ میں قرآن مجید کا نزول بیت العزت سے آسمان دنیا پر ہوا.
(2)" صوم "عربی زبان کا لفظ ہے اس کے لغوی معنی رکنا، خاموش رہنا ہے قرآن مجید میں حضرت مریم علیہا السلام کا قول منقول ہے " إني نذرت للرحمن صوما" یعنی میں نے رحمان کے لئے خاموش رہنے کی نذر مانی ہے، صوم کا شرعی معنی طلوع فجر سے لیکر غروب شمس تک کھانے، پینے، بیوی سے ہم بستری اور بے ہودگی و جھوٹ وغیرہ سے اپنے آپ کو روکے رکھنے کا نام ہے.
(3) اس حدیث میں رمضان کے روزوں کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے اور وہ ہے پچھلے گناہوں کی مغفرت لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ روزے اعتقاد و ایمان رکھتے ہوئے ہوں، ساتھ ہی ساتھ اجر و ثواب کی امید بھی ہو.
(4) پچھلے گناہوں کی معافی سے مراد صغائر یعنی چھوٹے گناہوں کی مغفرت ہے کیونکہ کبائر یعنی بڑے گناہوں کے لئے بعض دوسری روایات کی بنیاد پر توبہ و استغفار شرط ہے.
(5) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عبادات کرتے وقت خلوص و للٰہیت ہونا چاہئے بغیر خلوص و للٰہیت کے عبادات اللہ قبول نہیں فرماتا،
(6) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا رمضان مغفرت کا مہینہ ہے ہر روزے دار کے لئے، اللہ ہمیں ایمان و احتساب کے ساتھ روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین
 
Last edited:
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
قیام رمضان کی فضیلت

حدیث : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ بِعَزِيمَةٍ، ثُمَّ يَقُولُ : " مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ". فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ كَانَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. ( سنن ابی داؤد : حدیث :1371)
ترجمہ :حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیام رمضان کی ترغیب دلاتے تھے بغیر ان (صحابہ) کو تاکیدی حکم دئیے ہوئے، پس آپ کہتے تھے : " جس شخص نے رمضان المبارک میں قیام کیا ایمان رکھتے ہوئے اور اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں" پس آپ کی وفات تک معاملہ اسی طرح رہا، پھر حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی سالوں میں بھی معاملہ اسی طرح رہا.
فوائد : (1) یہ روایت بخاری، مسلم ابو داؤد سمیت حدیث کی اکثر کتب میں موجود ہے کہیں مجملا کہیں مفصلا، ہم نے یہ الفاظ سنن ابی داؤد سے نقل کئے ہیں.
(2) فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم..... إلى آخر العبارة، یہ الفاظ راوی حدیث إبن شہاب الزہری رحمہ اللہ کے ہیں جیسا کہ بخاری میں اس کی وضاحت موجود ہے.
(3) اس حدیث سے قیام رمضان کی فضیلت معلوم ہو رہی ہے، قیام رمضان باتفاق علماء صیام رمضان کی طرح فرض و واجب نہیں ہے بلکہ سنت اور مستحب ہے.
(4) "الامر على ذلك"سے راوی کی مراد یہ ہے کہ قیام رمضان صحابہ کرام اپنے طور پر مسجد وگھروں میں اکیلے اکیلے پڑھتے رہے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا ابتدائی زمانہ آ گیا . یاد رہے إبن شہاب الزہری رحمہ اللہ کا یہ قول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تین دن قیام رمضان کی جماعت سے نماز پڑھائی اس کے خلاف نہیں کیوں کہ وہ جماعت کی نفی نہیں کر رہے ہیں بلکہ صحابہ کے عام معمول کو بتا رہے ہیں .
(5) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب مسجد میں لوگوں کو علیحدہ علیحدہ قیام رمضان پڑھتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے حضرت ابی اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو جماعت کرانے کا حکم دیا جیسا کہ کتب حدیث میں اس کی تفصیل موجود ہے .
(6) قیام رمضان ہی کو بعد میں تراویح کہا جانے لگا جیسا کہ ہر خاص و عام جانتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو تراویح پر اکٹھا کیا تھا.
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
رمضان کے روزوں کی نیت کب اور کیسے؟

حدیث :عَنْ حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَنْ لَمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ فَلَا صِيَامَ لَهُ ". ( ابو داؤد : 2454)
ترجمہ : ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "جس نے فجر سے پہلے روزہ رکھنے کی نیت نہیں کی اس کا روزہ نہیں "
فوائد حدیث :(1) تمام شرعی امور کا اعتبار نیت کے ساتھ مربوط ہے، روزے بھی نیت کے بغیر قبول نہیں ہوتے.
(2) نیت دل کے ارادے کا نام ہے زبان سے نیت کرنا جیسا کہ فی زماننا رواج ہے نیت نہیں یہ تو کلام ہے شریعت نے نیت کا حکم دیا ہے کلام کا نہیں، یہی وجہ ہے جو کلام نیت کے طور پر لوگوں میں مروج ہے اس کے کلمات الگ الگ ہیں لوگوں نے اپنی اپنی آسانی کے لئے بنا رکھے ہیں، کوئی " نويت أن أصوم غدا لله تعالى" تو کوئی " غد نويت من شهر رمضان" تو کوئی اور کسی دوسرے کلام کے ساتھ لوگوں میں اپنے روزے کا اعلان کرتا ہے جبکہ روزہ تو خالص اللہ کے لئے ہے اور وہی اس کا بدلہ دے گا اور اس کا تقاضا ہے کہ اپنے حرکات و سکنات سے روزے کے عمل کو مخفی رکھا جائے، ان مروجہ نیتوں میں ایک کمی اور بھی ہے کہ زبان سے جو عربی کلمات نقل کئے جاتے ہیں اس میں' غد' کی نیت کی جاتی ہے اور غد کا مطلب ہے آئندہ کل، تو اس طرح ایک دن پہلے ہی روزے کی نیت کی جاتی ہے.
(3) نیت کے لئے دل میں اِرادہ کر لینا کافی ہے سحری کے لئے بیدار ہونا اسی دل کے ارادے کی تاکید ہے اب زبان سے نیت کرنے کی حاجت نہیں.
(4) ہر روزے کی نیت اسی دن کرنا ضروری ہے یعنی أول رات سے لیکر صبح صادق (فجر کے وقت) ہونے سے پہلے تک نیت کر لینا چاہیے، اگر کوئی شخص طلوعِ فجر سے پہلے روزے کی نیت نہیں کر سکا تو اس کا اس دن کا یہ روزہ شمار نہیں ہوگا جیسا کہ حدیث سے ثابت ہو رہا ہے.
(5) بعض فقہاء نے پورے مہینے کے روزوں کی ایک ساتھ نیت کی بھی اِجازت دی ہے، لیکن بہتر وہی ہے جو اوپر بیان کیا گیا.
(6) یاد رہے یہ حکم فرض روزوں کا ہے رہی بات نفلی روزوں کی تو ان کی نیت زوال شمس سے پہلے تک کی جا سکتی بشرط روزہ رکھنے والے ابھی تک کچھ کھایا نا ہو، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی روایات سے ثابت ہے
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
سحری میں تاخیر مسنون ہے

حدیث :عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : تَسَحَّرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ. قُلْتُ : كَمْ كَانَ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالسَّحُورِ ؟ قَالَ : قَدْرُ خَمْسِينَ آيَةً. ( بخارى :1921)
ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ عنہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا : ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوئے، میں (انس رضی اللہ عنہ) نے کہا : سحری اور آذان کے درمیان کتنا وقفہ تھا؟ تو انہوں (زید بن ثابت رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا تقریباً پچاس آیات پڑھنے کے برابر.
فوائد حدیث (1) "سحور " س کے زبر کے ساتھ اس سے مراد وہ کھانا ہے جو سحر کے وقت کھایا جاتا ہے، اردو میں اس کو سحری کہتے ہیں
(2) سحری کھانا برکت کا سبب ہے، ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں کے مابین سحری کھانا خط امتیاز ہے
(3) سحری کھانا امت محمدیہ پر اللہ کی جانب سے کی گئی شفقت و مہربانی میں سے ہے، اس کے ذریعہ روزے دار کو اپنا روزہ پورا کرنے میں تقویت ملتی ہے،
(4) سحری تاخیر سے کھانا مسنون ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سحری سے آذان سے اتنا پہلے فارغ ہوتے کہ قاری پچاس آیات پڑھ لے، پچاس آیات سے درمیانی آیات مراد ہیں نا بہت لمبی نا بہت چھوٹی، بعض شارحین حدیث نے اس وقفہ کی مقدار تقریباً 12 منٹ بتلائی ہے
(5) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل سحری کے آخری وقت کو نہیں بتاتا لیکن مسنون وقت ضرور بتلاتا ہے، کیونکہ سحری کا آخری وقت صبح کاذب (سحری کا وقت جس میں روزے دار کا کھانا پینا حلال ہے) کا ختم ہونا اور صبح صادق (طلوعِ فجر کا وقت جس میں فجر کی نماز حلال اور روزے دار کے لئے کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے) کا شروع ہونا ہے جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کی وضاحت ہے
(6) بعض صحابہ کا بیان کہ ہم اپنے گھر میں سحری کرتے پھر ہم کو فجر کی نماز پانے کی جلدی ہوتی تھی، سحری میں تاخیر کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز جلدی پڑھتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معلوم رمضان کے ساتھ خاص نا تھا بلکہ غیر رمضان بھی فجر کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جلدی پڑھنا ثابت ہے
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
إفطار میں جلدی کرنا مسنون ہے

حدیث : عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْر" ( البخاري، 1957 ، ومسلم، 1098).
ترجمہ : حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : لوگ جب تک إفطار میں جلدی کرتے رہیں گے بھلائی میں رہیں گے.
فوائد : (1) الفطر کا مطلب روزہ کھولنا ہے، روزہ کھولنا دو طرح ہے (الف) روزے دار کا غروب شمس کے بعد کھا پی کر روزہ کھولنا، (ب) رمضان کے مہینہ کا اختتام پذیر ہونا اور روزوں سے فرصت پانا اسی معنی میں یوم العید کو یوم الفطر یا عید الفطر کہتے ہیں، اس حدیث میں پہلا معنی مراد ہے،
(2) إفطار میں جلدی یہ ہے کہ وقت ہونے کے فوراً بعد افطار کر لیا جائے، إفطار کا وقت شام کے وقت سورج کی ٹکیہ کا غائب ہو جانا ہے چنانچہ ایک حدیث میں حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے جب سورج کی ٹکیہ غائب ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاحب سے کہا اے فلاں! کھڑے ہو اور ہمارے لئے ستو گھول لو، انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ شام کر لیتے! (تو بہتر تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اے فلا ں اترو ہمارے لئے ستو گھولو! انہوں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ شام کر لیتے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اترو، ہمارے لئے ستو گھول لو، اس صحابی نے کہا ابھی دن ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر کہا اترو ستو گھول لو وہ اترے اور سب کے لئے ستو گھولا پھر آپ نے ستو پیا اور کہا : جب تم رات کو یہاں سے آتا ہوا دیکھو تو روزہ دار إفطار کر لے (البخاري 1955 ، ومسلم 1101)
(3) غروب آفتاب چاہے خود دیکھ کر معلوم کرے، کسی معتبر انسان کا خبر دینا بھی کافی ہے،
(4) استقراء (تحقيق اور غور و فکر) سے یہ بات متحقق پائی گئی ہے کہ غروب شمس کے اوقات موسم کے حساب سے پرانے ہی گھومتے رہتے ہیں اور ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی لہٰذا اس کے لئے اہل علم کی تحقیق کے بعد کوئی دائمی جنتری بنا لی جائے تو اس کا بھی اعتبار ہوگا،
(5) اگر اس طرح کی کوئی جنتری گوگل پر چڑھا دی جائے تو اس کا بھی اعتبار ہوگا، اس لئے گوگل کا نام سن کر کسی کو بد ہضمی نہیں ہونا چاہیے، یاد رہے گوگل کا اپنا کچھ نہیں ہے اس میں تمام ڈیٹا لوگوں کا ہی صحیح یا غلط ڈالا ہوا ہے، وہاں سے اخذ کرنے والے کی ذمہ داری ہے صحیح کو لے لے غلط کو چھوڑ دے،
(6) إفطار جلدی کرنے میں یہود کی مخالفت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے
(7) إفطار میں جلدی کرنا امت کی سر بلندی کے اسباب میں سے ہے جب تک مسلمان اس پر قائم تھے کامیاب تھے اور جب سے اس میں کوتاہی کا شکار ہیں پستی اور تنزلی ان کا مقدر بنتی جا رہی ہے
(8) إفطار میں جلدی کرنا سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت صحابہ کی پیروی ہے
(9) غروب شمس کے یقینی معلوم ہو نے کے بعد احتیاط کے نام پر إفطار سے رکے رہنا محض بے بنیاد ہے، ایسے ہی بعض لوگوں کا کہنا " دو منٹ کا صبر نہیں ہو رہا ہے؟" شیطانی مغالطہ ہے جو در حقیقت سنت رسول سے دور کرنے کے لئے جہلاء کے دماغ میں بھر دیا گیا ہے
(10) إفطار کے لئے آذان شرط نہیں ہے بغیر آذان کے بھی وقت ہونے کے بعد روزہ کھولا جا سکتا ہے
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
روزہ ڈھال ہے

حدیث : عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : الصَّوْمُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَأَكْلَهُ وَشُرْبَهُ مِنْ أَجْلِي، وَالصَّوْمُ جُنَّةٌ ، وَلِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ : فَرْحَةٌ حِينَ يُفْطِرُ، وَفَرْحَةٌ حِينَ يَلْقَى رَبَّهُ، وَلَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ ". ( بخارى :7492)
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ‌رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، روزہ میرے لئے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، وہ (روزہ دار) چھوڑ دیتا ہے اپنی خواہش، اپنا کھانا اور پینا میرے لئے، روزہ ڈھال ہے، روزے دار کے لئے دو خوشیاں ہیں، پہلی خوشی جب وہ إفطار کرتا ہے، اور دوسری خوشی جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا، روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوش بو سے زیادہ پاکیزہ ہے.
فوائد : (1) اس طرح کی احادیث جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ سے روایت کریں احادیث قدسیہ کہلاتی ہیں،
(2) اس حدیث سے اللہ کے نزدیک روزہ اور روزہ دار کا مقام و مرتبہ معلوم ہو رہا ہے
(3) ساری عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں اور بدلہ بھی وہی دیتا ہے لیکن اللہ کا روزے کی نسبت خاص طور پر یہ کہنا کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، روزہ کی ایک خاص فضیلت ہے جو کسی دوسری عبادت کو حاصل نہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ روزہ میں ریاکاری کا دخل نہیں اگر کوئی روزہ نا رکھنا چاہے تو اس کو کوئی روک نہیں سکتا اور نا ہی اس کو ظاہراً کسی کو دکھا سکتا حتی کہ بسا اوقات ہر وقت پاس رہنے والے فرشتے بھی اس سے بے خبر رہ سکتے ہیں یہ محض اللہ اور بندے کے درمیان کا معاملہ ہے اور جب معاملہ یہ ہے تو اس کا اجر و ثواب بھی وہی جانتا ہے کوئی دوسرا اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا.
(4) جس طرح ڈھال انسان کو اس کے ظاہری دشمن کے وار سے بچاتی اور اس کی حفاظت کرتی ہے اسی طرح روزہ بھی اس کو اس کے باطنی دشمن خواہش نفس، شیطان اور برائیوں سے بچاتا ہے اس طرح یہ ڈھال کے بمنزلہ ہے،
(5) روزہ دار اپنے رب کے لئے اپنے کھانے پینے اور خواہشات کو چھوڑ کر مشقت برداشت کرتا ہے اس کے نتیجہ میں اللہ نے اس کے لیے دو خوشیاں مقدر کی ہیں ان میں ایک دنیوی ہے جو إفطار کے وقت رب کی اطاعت کو بجا لا کر ہوتی ہے، اور دوسری اخروی جو اس اطاعت کے صلہ میں ملنے والی ہے اور وہ ہے اپنے رب کا دیدار اور ملاقات اور یہ خوشی ساری نعمتوں پر بھاری ہے،
(6) روزے دار کے منہ سے نکلنے والی بو اللہ کے نزدیک مشک و عنبر کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے،
(7) اللہ کا دیدار دنیوی آنکھوں سے کرنا ممکن نہیں اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فرمایا اے موسی تم مجھکو ہرگز نہیں دیکھ سکتے، ہاں آخرت میں مومن اللہ کا دیدار کریں گے، یہ حدیث اور اس کے علاوہ دیگر دلائل اس پر دلالت کرتے ہیں
 
شمولیت
اگست 28، 2018
پیغامات
200
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
90
مسنون رکعات تراویح


حدیث :عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا : كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ ؟ فَقَالَتْ : مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهَا عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ ؟ قَالَ : " يَا عَائِشَةُ، إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي ".(بخارى:2013)
ترجمہ : حضرت ابو سلمہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا :رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت کیا ہوا کرتی تھی؟ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا : رمضان یا غیر رمضان آپ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے تو تم ان کی خوبی اور طوالت کے بارے میں بس کچھ نا پوچھو! پھر چار رکعات پڑھتے تو تم ان کی خوبی اور طوالت کے بارے میں بھی کچھ نا پوچھو! پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین رکعات پڑھتے تھے، ایک دن میں نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ وتر پڑھے بغیر ہی سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : اے عائشہ رضی اللہ عنہا میری آنکھیں سو جاتی ہیں لیکن دل نہیں سوتا.
فوائد :
(1)حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان اور غیر رمضان میں نماز کی تعداد اور کیفیت بتائی گئی ہے، تعداد گیارہ رکعات اور کیفیت یہ کہ ان رکعات کی اپنی خوبی و طوالت بیان سے باہر.
(2) حضرت ابو سلمہ رحمہ اللہ کے سوال سے بظاہر یہ معلوم ہو رہا ہے کہ وہ رمضان میں پڑھی جانے والی کسی خاص نماز کے بارے میں پوچھ رہے ہیں جس کا عام دنوں سے کوئی تعلق نہیں ہے ( اور وہ خاص نماز تراویح یا قیام رمضان ہے جسے عام دنوں میں تہجد یا قیام اللیل کہا جاتا ہے) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کے اس شبہ کا ازالہ اس طرح کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان اور غیر رمضان ایک ہی نماز ہوتی تھی جس کی کل 8+3 گیارہ رکعات ہوتی تھیں.
(3) اس کی تائید علماء محدثین کے اس حدیث پر ابواب قائم کرنے سے بھی ہوتی ہے امام بخاری رحمہ اللہ نے خود اس کو ' کتاب التراويح' میں بیان کیا ہے، چونکہ اس میں تہجد کا بھی ذکر ہے اس لئے اس حدیث کو إمام بخاری کتاب التهجد میں بھی لائیں ہیں
(4) بعض لوگ اس حدیث سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ رمضان میں تہجد کی نماز کے بارے میں سوال جواب ہیں اور یہ تعداد تہجد ہی کی ہے، لیکن یہ بات کئی وجہ سے صحیح نہیں ہے
(ا) اگر یہ تہجد ہی کی نماز ہوتی تو ابو سلمہ رحمہ اللہ کو اس کے بارے میں سوال پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اس کے تعلق سے تو سب جانتے ہی تھے یا اگر وہ نہیں جانتے تھے تو رمضان کی قید سے سوال نہیں کرتے اور کیا بھی تھا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کی وضاحت کرنا چاہئے تھا کہ رمضان میں تہجد اتنی اور تراویح اتنی پڑھتے تھے کیونکہ سوال میں خاص تہجد کے بارے میں نہیں پوچھا گیا ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے تفصیل نا کرنے سے کم از کم یہ تو معلوم ہو ہی رہا ہے کہ انہوں نے تہجد یا قیام رمضان جسے تراویح کہتے ہیں میں کوئی فرق نہیں سمجھا.
(ب) حدیث میں گیارہ رکعات کی تفصیل میں تین وتر کا بھی ذکر ہے جس کو مخالفین بھی مانتے ہیں، مخالفین جو تعداد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کرتے ہیں وہ تیئیس رکعات ہیں جس میں بیس تراویح اور تین وتر، اس سلسلے کی تمام روایات میں تفصیل اسی طرح ہے، اب سوال یہ ہے کیا تہجد کی نماز جوکہ گیارہ ہے اور اس میں تین وتر بھی ہے اور تراویح کی وتر کیا ایک ہی رات میں دو وتر پڑھے جائیں گے؟ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات میں دو وتر پڑھنے سے منع کیا ہے؟
( ج) حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی روایت جس کو امام نسائی وغیرہ نے بیان کیا ہے اس میں آپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کی جماعت کی جو کیفیت ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیئیس رمضان کو ہم نماز کے لئے کھڑے ہوئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہائی رات تک نماز پڑھائی، پھر پچیس رمضان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو آدھی رات تک نماز پڑھائی، اور ستائیس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو نماز پڑھائی یہاں تک کہ ہمیں خدشہ سحری کے چھوٹ جانے کا ہوا، روایت کے الفاظ یہ ہیں " قُمْنا مع رسولِ اللهِ ﷺ ليلةَ ثلاثٍ وعشرين في شهرِ رمضانَ إلى ثلثِ الليلِ الأولِ، ثم قمْنا معه ليلةَ خمسٍ وعشرين إلى نصف الليلِ، ثم قام بنا ليلةَ سبعٍ وعشرين حتى ظننّا أن لا ندرِكَ الفلاحَ، قال: وكنا ندعو السَّحورَ الفلاحَ" (صلاة التراويح ١١ • إسناده صحيح • أخرجه النسائي (١٦٠٦)، وأحمد (١٨٤٠٢) واللفظ له)
اب سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین راتوں میں تہجد کی نماز کب پڑھی؟ اور اگر یہ تہجد ہے تو تراویح کب پڑھی گئی؟ جواب دلیل کے ساتھ ہونا چاہیے،
(د) سلف صالحین آٹھ رکعات میں سورہ بقرہ پڑھتے ہیں اور اگر کوئی امام بارہ رکعات میں سورہ بقرہ پڑھائے تو اس کو تخفیف سمجھتے ہیں جیسا کہ موطا مالک کی ایک روایت میں ہے سوال یہ ہے کہ رمضان کے مہینہ میں تراویح میں اتنے طول طویل قیام کے بعد تہجد بھی پڑھی جا سکتی ہے؟ خاص طور پر گرمی کی چھوٹی راتوں میں؟ کیا یہ امت کو مشقت میں ڈالنا نہیں ہے؟ جو شریعت بالکل نہیں چاہتی، مجھے لگتا ہے لوگ سلف صالحین کے بارے میں بد گمانی کا شکار ہیں کہ وہ بھی تراویح میں انہیں کی طرح قرأت " يعلمون، تعلمون" کرتے ہوں گے؟
(5) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وتر سے پہلے آرام کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کو نیند آ جاتی تھی اس پر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا آپ وتر پڑھے بغیر سو جاتے ہیں؟ اس پر آپ نے جواب دیا میری آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں،
(6) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوال سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی گہری نیند کو ناقض وضوء سمجھتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے شبہ کا جواب یہ دیا کہ میری صرف آنکھیں سوتی ہیں دل نہیں (اس لئے اگر وضوء توٹے گا بھی تو فوراً دل کو اس کا احساس ہو جائے گا).
(7) گہری نیند میں بھی دل کا بیدار رہنا یہ تو انبیاء کی خصوصیات میں سے ہے، لیکن اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو رہا ہے کہ اگر کسی کی نیند گہری نا ہو کہ حواس گم ہو جائیں بلکہ جسم سے ہوا کے خروج کا علم ہونے کا امکان ہو تو ایسی نیند نواقض وضوء میں سے نہیں ہے
 
Top