• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان ، آنکھیں اور رب کا دیدار

ایم اسلم اوڈ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
298
ری ایکشن اسکور
965
پوائنٹ
125
کالم نگار،،،بشریٰ امیر

غالب نے کہا تھا....ع
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
یہ سچ ہے کہ اللہ کی قدرت کے ایسے ایسے نظارے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ وہ دل و دماغ میں محفوظ ہو تو جاتے ہیں لیکن انہیں زبان سے بیان کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ہم پر احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں دو خوبصورت آنکھیں عطا کر دیں اور ان میں بصارت دے کر، لائٹس لگا کر اس رنگوں بھری دنیا کو دیکھنے کی صلاحیت سے نواز دیا۔
قارئین! کبھی غور کیا اور سوچا کہ اگر ہماری آنکھیں نہ ہوتیں؟ یا اگر آنکھیں تو ہوتیں لیکن اس میں دی گئی روشنی سے محروم ہوتیں تو.... آپ ذرا اس انسان سے اس نعمت کی قدر پوچھیے جو آنکھیں ہونے کے باوجود بصارت سے محروم ہے۔
قارئین کرام! میں ایک دینی مجلس میں بیٹھی تھی۔ میرے قریب بیٹھی عورتوں میں گفتگو شروع ہو گئی۔ آنکھوں کا تذکرہ چھڑ گیا تو پاس بیٹھی ایک افسردہ لڑکی کہنے لگی کہ میرا باپ نابینا ہے، ہم تین بہن بھائی ہیں۔ میرے باپ نے ہمیں دیکھا تک نہیں۔ وہ پیار سے قریب بٹھا کر ہمیں ٹٹولتا ہے اور ہمارے چہرے کے خدوخال کو محسوس کرتا ہے۔ جب وہ اپنا ہاتھ میرے منہ پر محبت سے پھیرتا ہے تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا اور میں روتے ہوئے اپنے اللہ سے دعائیں کرتی ہوں۔ اے اللہ! میرے بابا کی آنکھوں میں روشنی دے دے۔
اے اللہ! اتنی بڑی نعمت سے اسے محروم رکھا، اسے وہ نعمت لوٹا دے تاکہ وہ ہمیں دیکھ سکیں، ان کے دل کو سکون اور ٹھنڈک مل سکے۔ میں نے اس کی دعاﺅں پر آمین کہا اور سوچ میں پڑ گئی کہ واقعی اگر آنکھیں نہ ہوتیں تو ہم یہ جاننے کے قابل نہ ہو سکتے کہ ماں باپ، بھائی، بہن دوست احباب اور سہیلیاں دکھنے میں کیسی لگتی ہیں؟ ہم خوبصورت اشیاءاور کائنات کا حسن بھی نہ دیکھ سکتے۔
مجھے چند دن پہلے پہاڑی علاقے میں جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں میں نے سفید برفوں سے ڈھکی پہاڑوں کی بلند و بالا چوٹیاں دیکھیں۔ سرسبز و شاداب درختوں کے جنگلات میں بادلوں کو اٹکھیلیاں کرتے دیکھا۔ خوبصورت آبشاریں دیکھیں، ندیاں اور جھیلیں دیکھیں۔ اپنے مولا کے بنائے ہوئے اتنے خوبصورت نظارے دیکھ کر رب کے حضور سجدے میں گر گئی اور اس رب کا صد بار شکر ادا کیا جس مالک نے ان نظاروں کو دیکھنے کی نعمت سے نوازا۔
آیئے! ذرا مختصر سائنسی جائزہ لیتے ہیں کہ ہم دیکھ کیسے پاتے ہیں؟سائنسدان آنکھ کی ریسرچ کے بارے بتاتے ہیں کہ دنیا کی ہر شے روشنی کو منعکس کر کے اپنے ماحول میں پھیلاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم اخبار دیکھ رہے ہوں تو روشنی منعکس ہو کر پتلی کے ذریعے ہماری آنکھ کے پچھلے حصے میں چلی جاتی ہے۔ یہ روشنی آنکھ کے پچھلے حصے میں بہت سے مراحل سے گزر کر ایک برقی پیغام میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ برقی پیغام دماغ میں جاتا ہے۔ دماغ کے پچھلی طرف بصارت کا مرکز ہے جو دیکھنا ممکن بناتا ہے یہ ایک چھوٹا سا حصہ ہے جہاں برقی پیغامات تحریر کی تصویر بناتے ہیں اس وقت کہ جب ہم تحریر پڑھ رہے ہوتے ہیں یا کوئی نظارہ دیکھ رہے ہوتے ہیں تو یہ مراحل اس قدر تیزی سے طے پاتے ہیں کہ ہم تحریر دیکھتے ہیں تو وہ فوراً نظر آ جاتی ہے۔ ریسرچرز بتلاتے ہیں آنکھ کے 30 حصے ہیں ہر حصے کے الگ الگ فنکشن ہیں۔ انسانی آنکھ 10 لاکھ رنگوں کی تمیز کر سکتی ہے۔
سبحان اللہ! جان قربان اس ذات بابرکات پر جس نے ہمیں ایسی خوشنما اور مفید آنکھوں جیسا انمول تحفہ عطا فرمایا۔ آنکھوں کی صورت میں ہمارے چہرے پر لگے یہ دو کیمرے کائناتی حسن کی ویڈیو بنا کر ہمارے دل و دماغ میں محفوظ کر دیتے ہیں، جنہیں ہم بعد میں تصوراتی آنکھوں سے دیکھ کر لطف اٹھا رہے ہوتے ہیں۔
اب ہمیں یہ سوچنا اور غور کرنا ہے کہ کہیں ہم اللہ کی دی ہوئی اس نعمت کی ناقدری تو نہیں کر رہے؟ کہیں اس کا غلط استعمال تو نہیں ہو رہا ،ٹی وی اور انٹرنیٹ پر فحش انڈین فلمیں دیکھ کر اپنی آنکھیں تو خراب نہیں کر رہے، جھوٹے قصے کہانیاں پڑھ کر اپنی نظر تو برباد نہیں کر رہے۔
اے پیارے قارئین! قدر کیجئے اس نعمت کی اور بچا لیجئے ان آنکھوں کو اس دن کے لئے جس دن ال ±یَو ±مَ نَخ ±تمُ علَیٰ وُ جُوھِھِم ± (جس دن مونہوں پر مہریں لگا دی جائیں گی) جسم کے ہر حصے کو زبان دے دی جائے گی آنکھیں اس دن بول بول کر اظہار بیان کریں گی۔ آنکھوں سے ہونے والے جرم کا اعتراف کریں گی۔ مولانا عبدالرشید رام گڑھی کی مسجد میں جمعہ پڑھنے کا اتفاق ہوا اپنے خطبہ جمعہ میں وہ نوجوانوں کو تنبیہ کر رہے تھے۔
اے نوجوان! دنیا کا گند دیکھنے سے بچا لے آنکھ کو اگر دنیا میں ان آنکھوں کی حفاظت کی تو آخرت میں 72 خوبصورت آنکھوں والی حوریں ملیں گی جن کے دوپٹے کا پلو دنیا میں لہرائے تو اندھیر دنیا روشن ہو جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
”مسلمان مردوں سے کہو اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں یہی ان کے لئے پاکیزگی ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اس سے خبردار ہے“۔
اگلی آیت میں ارشاد ربانی ہے۔
”مسلمان عورتوں سے کہہ دو وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں نیز اپنی زیب و زینت کو ظاہر نہ کریں۔
سو اے نوجوان! چوکوں، چوراہوں پر کھڑے ہو کر آتے جاتے لڑکیوں کو نہ تاک، سکول و کالج کے سامنے کھڑے ہو کر کمینی نظروں سے نہ دیکھ، بلکہ ان دو گہرے دوستوں کا واقعہ سن جن کی داستان انتہائی عبرتناک ہے۔
ایک دن دو دوست لڑکیوںکے کالج کے سامنے کھڑے تھے۔ ایک ان میں سے کہنے لگا آج میں تجھے اپنی محبوبہ دکھاتا ہوں، میں روز اسے دیکھتا ہوں پھر انگلی سے اشارہ کر کے بتلانے لگا کہ وہ آ رہی ہے۔ دوست کی نظر پڑی تو اس کے پاﺅں تلے سے زمین کھسک گئی.... ہاتھ پاﺅں پر رعشہ طاری ہو گیا اور پسینے چھوٹ گئے.... غیرت جوش میں آ گئی۔ مارے غصے کے آنکھوں میں خون اتر آیا مگر وہ غصہ دبانے لگا کیونکہ وہ خود بھی اسی روش پر چل رہا تھا جلدی سے وہاں سے چلتا بنا۔ کھولتے دل و دماغ کے ساتھ گھر سے پسٹل لیا اور موقعہ پاتے ہی دوست کو گولیوں سے چھلنی کر دیا اور گھر واپس آ کر لڑکی کو بھی ٹوکے سے مار کر ہلاک کر دیا اس لئے کہ وہ اس کی بہن تھی اور خود کو پولیس کے حوالے کر کے جیل کی سلاخوں میں قید ہو گیا۔ یہ تھا آنکھوں کے فتنے کا انجام۔
خدارا بچا لو ان نظروں کو اور یاد کرو قیامت والا دن جب گناہ گاروں کی آنکھیں (زرقاً) دہشت کی وجہ سے نیلی پیلی ہو جائیں گی اور فاجر گھیر لئے جائیں گے قرآن میں اللہ نے کافروں کو مخاطب نہیں کیا یہاں مسلمان فاجروں کو تنبیہ کی ہے کہ بچ جاﺅ تو قیامت والے دن سرخرو ہو جاﺅ گے۔ دنیا میں بھی عزت ملے گی۔ اور آخرت میں بھی تمام نعمتوں سے بڑی نعمت رب کا دیدار حاصل ہو گا۔ سورة ”قیامة“ میں ہے!
اس دن کتنے ہی چہرے تروتازہ اور بارونق ہوں گے اپنے رب کو دیکھ رہے ہوں گے۔۔
جی ہاں! فکر آخرت پر نظر رکھنے والے مومن کی خوشی اور چہروں کی تازگی کا کیا کہنا جب وہ جنت میں اپنے اللہ کا دیدار کریں گے۔
فرمان رسول ہے۔ جب اہل جنت جنت میں داخل ہوں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے تمہیں کوئی چیز چاہئے جو میں تمہیں مزید عطا کروں؟ وہ کہیں گے کیا تو نے ہمارے چہروں کو روشن نہیں کیا؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور آگ سے نجات نہیں دی (تو اب ہمیں اور کیا چاہئے؟).... اس کے بعد کیا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ پردہ ہٹائے گا اور مومن اپنے رب کا دیدار کریں گے۔ صحیح مسلم میں ہے ان اہل جنت کو کوئی بھی ایسی نعمت نہیں ملی ہو گی جو
بقیہ نمبر 23 صفحہ 3 پر
انہیں اپنے رب عزوجل کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو۔
قیامت کے روز مومن اپنے رب تعالیٰ کو ایسے دیکھیں گے جیسے دنیا میں سورج اور چاند کو دیکھتے ہیں۔
مزید برآں! اللہ مومنوں پر قیامت کے دن مسکراتا ہوا تجلی فرمائے گا۔ یہ ہے ان آنکھوں کا انعام جو دنیا کی فضول، بے ہودہ اور لچر چیزوں کو دیکھنے سے بچتی رہیں۔ وہ آنکھیں جو جہاد کے میدان میں راتوں کو پہرہ دیتی رہیں وہ آنکھیں جو حب الٰہی میں آنسو بہاتی رہیں وہ آنکھیں جو اپنے گناہوں کو بخشوانے کے لئے رب کے حضور چھم چھم برستی رہیں۔ ایسی آنکھیں ہی اپنے رب کے دیدار کی لذت حاصل کریں گی۔
ہاں ہاں.... ایسی آنکھیں ہی ان شاءاللہ رب کے دیدار کا شرف حاصل کر سکیں گی۔
گیارہ مہینوں کی کاہلیوں، لغزشوں اور کوتاہیوں کے بعد نیکیوں کا موسم بہار آیا۔ رحمت و مغفرت کا مہینہ آیا۔ بھائیو اور بہنو! اس سے پہلے کہ رمضان گزر جائے۔ رحمت کے دروازے بند ہو جائیں اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں کیا پتہ یہ مغفرتوں کی گھڑیاں پھر سے ہمارا مقدر بنیں کہ نہ بنیں یہ پرنور ساعتیں نصیب ہوں کہ نہ ہوں۔ آیئے! اپنے مولا سے آنکھوں کے درست استعمال کا عہد کریں۔ نگاہوں سے جو غلطیاں سرزد ہوئیں ان پر ندامت کرتے ہوئے رب سے معافیاں مانگیں اور یہ آنکھیں جو اللہ نے عطا کی ہیں انہیں قرآن کی تلاوت میں لگائیں، قرآن کا ترجمہ اور تشریح پڑھنے میں صرف کریں پھر دیکھئے آنکھوں کو کس قدر سرور ملتا ہے۔ دل کو نور اور دماغ کو کس قدر شعور ملتا ہے۔




بشکریہ ،، ہفت روزہ جرار
والسلام ،، علی اوڈ راجپوت
ali oadrajput

http://www.kitabosunnat.com/forum/روزہ-7/رمضان-،-حرمین-،-اور-قادسیہ-2110/
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جزاک اللہ بھائی
 
Top