• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان المبارک اور ترویح کے رکعات

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
سب سے پہلی بات یہ کہ اس کو بطور دلیل نہیں بلکہ اس ضمن میں پیش کیا جارہا ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ کو بدعت کی تہمت سے بچایا جائے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ خلفائے راشدین کسی امر پر جب تک ان کے پاس نص نہ ہو صحابہ کرام کو اس پر جمع نہیں کر تے تھے۔
خود تہمت دھر رہے ہو خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پر!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
جناب کا یہ اصول صرف اسی راوی کے لئے ہے یا تمام ضعیف روات کے لئے بھی؟
ہر ضعیف راوی کی مردود روایت ، کہ جس کا ضعف رفع نہ ہو، اس راوی اور روایت کا ضعف معلو م ہوجانے کے بعد بھی اس سے استدلال کرنے والے کے لئے ہے!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
جرح مفسر اسے کہیں گے جس میں جارح کسی کے ضعف کا سبب بتائے۔
اہم بات
جارح بذاتِ خود جرح کی اہلیت رکھتا ہو اور اس کی جرح کو حتمی یقین نہ رکھا جائے۔ کیونکہ اس بات کا بھی وقی امکان ہے کہ جارح کو غلطی لگی ہو یا یہ بھی امکان ہے کہ جارح متعصب ہو۔
المیہ
ابتدا میں کسی نے جرح کی اور بعد والوں نے آنکھیں بند کر کے اسے نقل کر دیا اور مرحوم البانی صاحب (اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے) نے تو ایسی حدیثوں کو ہی الگ کر دیا!!!!!!
حقیقت
محدثین کرام بعض احادیث کو ذکر کرکے لکھتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے مگر اہل علم کے ہاں عمل اس پر ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ضعیف راوی کے لئے لازم نہیں آتا کہ وہ ہر ہر حدیث میں ٹھوکر ہی کھا رہا ہو۔
حدیث کا اصل متن ہے۔ جس روایت میں ضعیف راوی ہو اس کے متن پر غور کرنا چاہیئے (للہ خوض نہیں کرنا)۔
واللہ اعلم بالصواب
یہ قاعدے ہم نے آپ سے سیکھنے نہیں ہیں ، آپ کو عرض کیا ہے کہ متروک الحدیث ، لیس بثقۃ وغیرہ جس راوی کے متعلق کہا جائے ، اس کی روایت ضعیف ہوتی ہے ۔ جنہوں نے کہا ہے ، وہ قابل اعتبار اور اہلیت رکھنے والے ہی ہیں ۔
بلاوجہ بات کو بڑھاتے جانا ، درست نہیں ۔
سب سے پہلی بات یہ کہ اس کو بطور دلیل نہیں
جب آپ خود بھی اس کو دلیل کے طور پر پیش کرنے کے قابل نہیں سمجھتے ، اس کے باوجود اس پر بات سے بات نکالتے جانے کا مطلب ہے کہ صرف بحث برائے بحث کا شوق پورا کر رہے ہیں ۔
ایک صاف اور سیدھی بات کو الجھانے کی کوشش اچھی بات نہیں۔ بیس (20) تراویح ایک ایسا عمل ہے جو تسلسل اور تواتر کے ساتھ اب تک چلا آرہا ہے جسے ایک خلیفہ راشد نے اس شکل و صورت میں رواج دیا۔ اس پر کسی دیگر ثبوت کی ضرورت ہی نہیں۔ ہاں البتہ کسی کے پاس ثبوت ہو کہ یہ فلاں وقت میں شروع ہوئی نہ کہ خلفاء کے زمانہ سے تو وہ پیش کرے کیوں خواہ مخواہ لوکوں کو پریشان کر رکھا ہے۔
میری نظر میں آپ کا یہ پوائنٹ درست ہے ، بات کو اسی سمت بڑھانا چاہیے کہ تراویح کے حوالے سے امت مسلمہ کا اب تک کیا عمل رہا ہے ۔ لیکن بات آگے تبھی بڑھے گی ، جب کج بحثی ترک کی جائے گی ، ورنہ تو کسی بھی نکتے پر پوسٹ در پوسٹ کرکے فورم کے سو صفحات بھی بنائے جاسکتے ہیں ، جیسا کہ پہلے کئی ایک موضوعات میں ہوا ہے ۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
0
یہ قاعدے ہم نے آپ سے سیکھنے نہیں ہیں ، آپ کو عرض کیا ہے کہ متروک الحدیث ، لیس بثقۃ وغیرہ جس راوی کے متعلق کہا جائے ، اس کی روایت ضعیف ہوتی ہے ۔
دراصل اس حدیث کے ایک راوی کو ضعیف کہہ کر رد کر دینا ہضم نہیں ہوراہا۔ وجہ اس حدیث کا متن ہے جس میں راوی نے بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوب کیا ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے کہ جس نے میرے ساتھ کوئی بات جان باوجھ کر منصوب کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے۔ یہاں راوی کے متعلق تو کہا جاسکتا ہے کہ اسے وہم ہؤا۔ مگر جو اس سے روایت کرنے والے ثقات ہیں ان پر اور کچھ نہیں تو کم از کم یہ شق ضرور لگے گی کہ انہوں نے بغیر تحقیق کے ایک بات آگے بڑھا دی اور محدث نے اس کو لکھ لیا۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
دراصل اس حدیث کے ایک راوی کو ضعیف کہہ کر رد کر دینا ہضم نہیں ہوراہا۔ وجہ اس حدیث کا متن ہے جس میں راوی نے بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منصوب کیا ہے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان موجود ہے کہ جس نے میرے ساتھ کوئی بات جان باوجھ کر منصوب کی وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے۔ یہاں راوی کے متعلق تو کہا جاسکتا ہے کہ اسے وہم ہؤا۔ مگر جو اس سے روایت کرنے والے ثقات ہیں ان پر اور کچھ نہیں تو کم از کم یہ شق ضرور لگے گی کہ انہوں نے بغیر تحقیق کے ایک بات آگے بڑھا دی اور محدث نے اس کو لکھ لیا۔
پھر تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ جابر جعفی کو جھوٹا کہنے کے باوجود بھی اس کی روایت کو آگے روایت کرنے کے جرم میں خود بھی جھوٹے قرار پائیں گے!
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
یہ وہی لقمہ چبا رہا ہے جو اس کے اکابرین نے چبائیں ہیں!
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

پھر تو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ جابر جعفی کو جھوٹا کہنے کے باوجود بھی اس کی روایت کو آگے روایت کرنے کے جرم میں خود بھی جھوٹے قرار پائیں گے!
لطیف باتیں ہر کسی کی سمجھ میں نہیں آجایا کرتیں۔
کسی کے جھوٹا ہونے کا جو مفہوم سلف میں تھا اس کی سمجھ ہونی چاہیئے۔
جھوٹا شخص ہر وقت جھوٹ نہیں بولا کرتا۔
یہاں معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی بات کو منصوب کرنے کا ہے کوئی عام معاملہ نہیں۔
 
Top