• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان المبارک کی مناسبت سے امت مسلمہ کے لئے ایک انمول تحفہ :: عمل تھوڑا اور اجر زیادہ

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
رمضان المبارک کی مناسبت سے امت مسلمہ کے لئے ایک انمول تحفہ :: عمل تھوڑا اور اجر زیادہ -جہادفی سبیل اللہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

رمضان المبارک کی مناسبت سے امت مسلمہ کے لئے ایک انمول تحفہ



عَمَلٌ قَلِیْلٌ وَاَجْرٌکَثِیْرٌ

عمل تھوڑا اور اجر زیادہ

تالیف:
شیخ صالح محمد المدنی


پی ڈی ایف،یونی کوڈ
Zip Format
http://dl.dropbox.com/u/96067592/Ama...jrunkabeer.rar

http://www.box.com/s/cc5eada57febfa679877

پی ڈی ایف
http://www.box.com/s/65b58b398e87939fc725

یونی کوڈ (ورڈ)
http://www.box.com/s/ce91a58806c53bc323f8
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
فہرست

۱ چند ضروری باتیں 2
۲ جنت کا مختصرترین راستہ 5
۳ پاؤں غبار آلود ہونے سے جنت واجب 6
۴ نماز روزہ اور ذکر کے اجر کو سات سو گنا بڑھانے والا عمل 7
۵ ستر سال تک نماز پڑھنے سے بہتر عمل 8
۶ ستر گنا افضل نماز 8
۷ چالیس سال کی عبادت سے بہتر عمل 9
۸ ایک مہینے کے روزوں اور رات کے قیام سے افضل عمل 10
۹ جہنم سے ستر سال کی مسافت پر دور لے جانے والا روزہ 11
۱۰ دن کے روزے اور رات کے قیام سے افضل عمل 12
۱۱ شب قدر میں حرمین شریفین میں قیام کرنے سے افضل عمل 12
۱۲ ستر حج کرنے سے افضل عمل 14
۱۳ تمام نماز پڑھنے والے اور روزے رکھنے والوں کے برابر اجردینے والا عمل 15
۱۴ گناہوں کو مٹادینے والا سب سے بڑاعمل 16
۱۵ ایک تیر چلانے سے جنت واجب 18
۱۶ ایک قے کرنے پر ایک شہید کااجر 19
۱۷ سردرد اور پچھلے گناہ معاف 20
۱۸ ایک سوئی کی وجہ سے جنت میں داخلہ 21
۱۹ ایک دن میں دس ہزار سال کا اجر 22
۲۰ ایک دن یا رات میں ہزاروں رات کے قیام اور روزوں کا اجر 22
۲۱ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین رحمہم اللہ کا رمضان کیسے گزرتا………؟؟ 25
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
چند ضروری باتیں

ہر انسان فطری طور پر یہ بات چاہتا ہے کہ اس کو کم سے کم محنت میں زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل ہوجائے ۔اس کے لئے وہ طرح طرح کی تدابیر اختیار کرتا ہے۔ایک تاجر کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کو ایسامال تجارت ہاتھ لگے جس میں کم سے کم وقت اورسرمایہ میں زیادہ نفع حاصل ہوجائے ۔اسی طرح ایک کسان کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ ایسی چیز کاشت کرے جس میں محنت و مشقت تو کم ہو مگر پیداوار زیادہ ہواور بازار میں اس کی قیمت زیادہ لگے۔
یہ تو ہے دنیا کے عارضی فائدے کا معاملہ، اسی طرح ایک مسلمان بھی اسی فطری تقاضے کی بنا پر ایسے نیک اعمال کو اختیار کرتاہے جس میں اس کو زیادہ سے زیادہ اخروی درجات ملنے کی امید ہو۔خاص کر ایسے اوقات میں جبکہ اللہ رب العزت کی جانب سے نیک اعمال کی طرف راغب ہونے پر انعام و اکرام کی بارش ہوتی ہو۔چنانچہ اسی فطری تقاضے کے تحت مسلمانوں کے لئے مختلف فرائض و نفلی امور کی ادائیگی پرمختلف اجرو ثواب کو قرآن و حدیث میں کثرت سے بیان کیا گیا ہے تاکہ ان میں نیکیوں میں رغبت اور برائیوں سے نفرت پیدا ہو۔
چنانچہ رمضان المبارک کا مہینہ ایسے اوقات میں سب سے بہترین وقت ہے جب اللہ رب العزت کی رحمت موسلادھار بارش کی مانند برستی ہے۔ایک نفل کا ثواب ایک فرض کے برابر ،اور ایک فرض کا ثواب ستر فرض کے برابرکردیا جاتاہے ۔
ایک بات اس ضمن میں پیش نظر رہے کہ فرائض اور نفلی امورکے درمیان تقدیم و تاخیر کا جومعیار شریعت نے مقرر کیا ہے اس کا لحاظ رکھنابھی واجب ہے۔فرائض ہمیشہ نفلی امور پر مقدم رہتے ہیں یعنی ان کو ہمیشہ نفلی امور سے پہلے ادا کیا جاتاہے۔
لیکن چونکہ انسان کسی بھی معاملے میں افراط و تفریط کا شکار بھی جلد ہوجاتا ہے لہذا وہ شریعت کے عائد کردہ فرائض واجبات (جیساکہ نماز باجماعت اور جہاد دفی سبیل اللہ کہ ) جن میں انسان کو کچھ مشقت اور تکالیف جھیلنی پڑتی ہیں ، ان کو پس پشت ڈالتے ہوئے خاص کر وہ نفلی امور جن میں فرائض کے مقابلے میں کم مشقت لگتی ہو اور وہ آسانی سے ادا ہوجاتے ہوں، ان کی طرف التفات کرتا ہے اور ان نفلی امور کے بارے میں وارد شدہ اجر وثواب کو اپنی نجات کے لئے کافی سمجھتا ہے۔
جبکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ اگر انسان سب سے پہلے فرائض کو اداکرنے والا ہو تو اس کی ادائیگی پر وارداجرو ثواب کا تو وہ مستحق ٹھہرتا ہی ہے ،مگر وہ نفلی امور جن کی ادائیگی وہ نہ کرسکا ،اس کے باوجود صرف ان کی ادائیگی کی نیت پر ہی اس کو وہ اجرو ثواب مل جائے گا۔لیکن اگر وہ صرف نفلی امور اداکرتا رہے اور فرائض کی ادائیگی میں غفلت برتے اورنفلی امورپر بیان کئے گئے ثواب کو اپنے لئے کافی سمجھے تو نفلی امور پر جو اجر وثواب ہے اس سے تو کوئی انکاری نہیں مگراندیشہ اس بات کا ہے کہ فرائض کی ادائیگی پر جو عتاب اور وعیدیں نازل ہوئی ہیں وہ ان اجروثواب کو ضائع کرنے کا باعث بن جائیں گی۔
چنانچہ اعمال میں شریعت کی طرف سے مقررکردہ تقدیم و تاخیر کا لحاظ رکھتے ہوئے ہم ایسے اعمال کو جاننے کی کوشش کریں جن میں ’’عمل تھوڑا اور اجرزیادہ ‘‘ہواور حقیقت یہ ہے کہ چاہے فرائض ہوں یا نفلی امور ،کم سے کم وقت میں جو اجرو ثواب جہاد فی سبیل اللہ کے حوالے سے بیان کئے گئے ہیں، وہ شاید ہی کسی اور فرض یا نفلی امور کے لئے بیان کئے گئے ہوں۔ جن فرائض اور نفلی امور پر بڑے بڑے اجرو ثواب بیان بھی کئے گئے ہیں اگر وہ جہاد فی سبیل اللہ کے دوران کئے جائیں تو ان کو مزید چارچاند لگ جاتے ہیں ۔
توگویا ’’عمل تھوڑا اور اجر زیادہ ‘‘ کا سب سے بڑا ذریعہ جہاد فی سبیل اللہ ہے،جس کے دوران کئے جانے والے کسی بھی نیک عمل کے اجروثواب کے مقابل کوئی عمل نہیں۔پھرنیک اعمال جہاد کے دوران رمضان المبارک کی مبارک ساعتوں میں کئے جائیں تو اس کا اجروثواب کا کیا ہی کہنا ،بس جس کو یہ چیزیں نصیب ہوجائیں تو اس کے بارے میں تو یہی کہاجاسکتا ہے کہ:
﴿وَمَا یُلَقَّآھَا اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ ﴾ (سورة حمٓ السجدة:۳۵)
’’یہ مقام حاصل نہیں ہوتا مگر ان لوگوںکو جو بڑے نصیبوں والے ہیں‘‘۔
بشرطیکہ نیت اور مقصوداللہ کی رضاجوئی کے سوا اورکچھ نہ ہو۔
((عَنْ أَبِی أُمَامَةَ الْبَاھِلِیِّ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَرَأَیْتَ رَجُلًا غَزَا یَلْتَمِسُ الْأَجْرَ وَالذِّکْرَ مَالَہُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا شَیْئ َ لَہُ فَأَعَادَھَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ یَقُولُ لَہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَا شَیْئَ لَہُ ثُمَّ قَالَ اِنَّ اللَّہَ لَا یَقْبَلُ مِنْ الْعَمَلِ اِلَّا مَا کَانَ لَہُ خَالِصًا وَابْتُغِیَ بِہِ وَجْھُہُ)) (سنن النسائی ج۱۰ص۲۰۴رقم۳۰۸۹)
’’سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا کہ آپ ﷺکیا فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو جہاد میں اجر کی بھی نیت رکھتا ہے اور اس بات کی بھی کہ لوگوں میں اس کا تذکرہ کیا جائے ،ایسے شخص کو کیا ملے گا ؟رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا :ایسے شخص کے لئے کچھ بھی نہیں ۔اس شخص نے تین مرتبہ یہی سوال دہرایا اور ہر بار رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا :اس کے لئے کچھ بھی اجر نہیں ۔پھر آپ ﷺنے فرمایا :اللہ تعالیٰ صرف ایسے خالص عمل کو قبول فرماتاہے جو محض اس کی رضاجوئی کے لئے کیا جائے‘‘۔
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
﴿عَمَلٌ قَلِیْلٌ وَاَجْرٌکَثِیْرٌ﴾
عمل تھوڑا اور اجر زیادہ
جنت کا مختصرترین راستہ:
رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
((الْجِھَادُ مُخْتَصَرُ طَرِیقِ الْجَنَّةِ )) (المغنی ج۱ص۴)
’’جہاد جنت کا مختصر ترین راستہ ہے‘‘۔
اس حدیث کی تائید درج ذیل احادیث صحیحہ سے بھی ہوتی ہے:
((سَمِعْتُ الْبَرَاءَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ یَقُولُ أَتَی النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ بِالْحَدِیدِ فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ أُقَاتِلُ أَوْ أُسْلِمُ قَالَ أَسْلِمْ ثُمَّ قَاتِلْ فَأَ سْلَمَ ثُمَّ قَاتَلَ فَقُتِلَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَمِلَ قَلِیلًا وَأُجِرَ کَثِیرًا)) (صحیح البخاری ج۹ص۳۷۹رقم:۲۵۹۷)
’’رسول اللہ کے پاس ایک شخص ہتھیاروں سے لیس آیا، اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ!میں پہلے جہاد میں چلا جاؤں، یا سلام لے آؤں، آپ نے فرمایا پہلے اسلام لاؤ، پھر جہاد میں شرکت کرنا، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، اور جہاد میں وہ شہید ہوگیا، تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اس نے عمل تو کم کیا، لیکن ثواب بہت زیادہ پاگیا‘‘۔
((عَنْ الْبَرَاء ِ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِی النَّبِیتِ قَبِیلٍ مِنْ الْأَ نْصَارِ فَقَالَ أَشْھَدُ أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ وَأَنَّکَ عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ ثُمَّ تَقَدَّمَ فَقَاتَلَ حَتَّی قُتِلَ فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَمِلَ ھَذَا یَسِیرًا وَأُجِرَ کَثِیرًا)) (صحیح مسلم ج۹ص۴۹۹رقم:۳۵۱۹)
’’سیدنا براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے قبیلہ بنونبیت کے ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں پھر میدان میں بڑھا اور لڑنا شروع کردیا یہاں تک کہ شہید کردیا گیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس آدمی نے عمل کم کیا اور ثواب زیادہ دیا گیا‘‘۔
چناچہ ان صحابی کے بارے میں سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کا یہ قول ملتا ہے :
’’عَنْ أَبِی ھُرَیْرَة أَنَّہُ کَانَ یَقُول:أَخْبَرُونِی عَنْ رَجُل دَخَلَ الْجَنَّة لَمْ یُصَلِّ صَلَاة ؟ ثُمَّ یَقُول:ھُوَ عَمْرو بْن ثَابِت رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘‘ (فتح الباری ج۸ص۴۰۲رقم :۲۵۹۷واسنادہ صحیح)
’’مجھے ایسے آدمی کے بارے میں بتاؤ جس نے ایک نماز بھی نہیں پڑھی اور جنت میں داخل ہوگیا ، پھر خود ہی فرمایا:وہ خوش قسمت شخص سیدنا عمرو بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں ‘‘۔
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
پاؤں غبار آلود ہونے سے جنت واجب:​
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((مَا اغْبَرَّتْ قَدَمَا عَبْدٍ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَتَمَسَّہُ النَّارُ)) (صحیح البخاری ج۹ ص۳۸۵ رقم:۲۶۰۰)
’’جس بندے کے قدم اللہ راستے میں غبار آلود ہوئے اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی‘‘۔
((مَنْ اِغْبَرَّتْ قَدَمَاہُ فِی سَبِیل اللَّہ بَاعَدَ اللَّہ مِنْہُ النَّار مَسِیرَة أَلْف عَام لِلرَّاکِبِ الْمُسْتَعْجِل)) ﴿فتح الباری لابن حجر ج۸ ص۸۰۸ رقم :۲۶۰۰)
’’جس شخص کے پاؤں اللہ تعالیٰ کے راستے میں غبار آلو د ہوئے تو اللہ تعالیٰ اس سے جہنم کو ایک ہزار سال دور فرمادیتے ہیں ،یعنی اتنی مسافت جہنم اس سے دور ہوجاتی ہے جتنی مسافت ایک تیز رفتار گھڑ سوار ایک ہزار سال میں طے کرتا ہے‘‘۔
تمام فقہاء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن و حدیث میں جب کبھی ’’فی سبیل اللہ ‘‘عمومی طور پر بولا جائے تو اس سے مراد ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ہی ہوتا ہے۔علامہ ابن جوزی ﷫فرماتے ہیں :
’’جب فی سبیل اللہ کا لفظ مطلق بولا جائے تو اس سے جہاد مراد ہوتا ہے‘‘۔ (حاشیہ صحیح بخاری)
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
نماز روزہ اور ذکر کے اجر کو سات سو گنا بڑھانے والا عمل:
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((اِنَّ الصَّلَاة وَالصِّیَامَ وَالذِّکْرَ تُضَاعَفُ عَلَی النَّفَقَةِ فِی سَبِیلِ اللَّہِ بِسَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ))
(ابوداود ج۷ص۹رقم:۲۱۳۷۔المستدرک للحاکم علی الصحیحن ج۶ص۲۴رقم:۴۲۳۷ھذا حدیث صحیح علی شرط البخاری ، ولم یخرجاہ)

’’جہاد میں نماز،روزہ اور ذکر کا اجر ،جہاد میں خرچ کرنے کے اجر سے سات سو گنا بڑھادیا جاتاہے‘‘۔
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
ستر سال تک نماز پڑھنے سے بہتر عمل:
((عَنْ أَبِی ھُرَیْرَةَ قَالَ مَرَّ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِشِعْبٍ فِیہِ عُیَیْنَةٌ مِنْ مَاء ٍ عَذْبَةٌ فَأَعْجَبَتْہُ لِطِیبِھَا فَقَالَ لَوْ اعْتَزَلْتُ النَّاسَ فَأَقَمْتُ فِی ھَذَا الشِّعْبِ وَلَنْ أَفْعَلَ حَتَّی أَسْتَأْذِنَ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَذَکَرَ ذَلِکَ لِرَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَا تَفْعَلْ فَاِنَّ مُقَامَ أَحَدِکُمْ فِی سَبِیلِ اللَّہِ أَفْضَلُ مِنْ صَلَاتِہِ فِی بَیْتِہِ سَبْعِینَ عَامًا أَلَا تُحِبُّونَ أَنْ یَغْفِرَ اللَّہُ لَکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ الْجَنَّةَ اغْزُو فِی سَبِیلِ اللَّہِ مَنْ قَاتَلَ فِی سَبِیلِ اللَّہِ فَوَاقَ نَاقَةٍ وَجَبَتْ لَہُ الْجَنَّةُقَالَ أَبُو عِیسَی ھَذَا حَدِیثٌ حَسَنٌ)) (سنن ترمذی ج۶ص۲۰۶رقم:۱۵۷۴)
’’سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک صحابی کا ایک گھاٹی پر گزر ہوا اس میں میٹھے پانی کا ایک چھوٹا سا چشمہ تھا۔ یہ جگہ انہیں بے حد پسند آئی اور تمنا کی کہ کاش میں لوگوں سے جدا ہو کر اس گھاٹی میں رہتا۔ لیکن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیے بغیر کبھی ایسا نہیں کرونگا۔ پس جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا تذکرہ کیا فرمایا ایسا نہ کرنا اس لیے کہ تم میں سے کسی کا ایک مرتبہ جہاد کے لئے کھڑے ہونا، اس کے اپنے گھر میں ستر سال تک نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ کیا تم لوگ نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ کی تم لوگوں کی بخشش فرمائیں اور تمہیں جنت میں داخل کریں۔ لہذا تم اللہ کی راہ میں جہاد کرو۔ جس نے، فَوَاقَ نَاقَة(یعنی اونٹنی کے دو دفعہ دودھ دوہنے کے درمیان کا فاصلہ)کے برابر بھی جہاد کیا اس پر جنت واجب ہوگئی۔ یہ حدیث حسن ہے‘‘۔
یہاں پر بھی اس حدیث میں نماز کی فرضیت زیرِ بحث نہیں بلکہ حالت قیام کی عبادت کا تقابل حالت جہاد سے کیا گیا ہے۔
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
ستر گنا افضل نماز:
((صلاة الرجل متقلدا بسیفہ تفضل علی صلاتہ غیر متقلد بسبعمائة ضعف))
(کنز العمال ج۴ص۳۳۸رقم:۱۰۷۹۰ واسنادہ صحیح)

’’حضر ت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تلوار باندھ کر نماز پڑھنے والے کی نماز ،بغیر تلوار باندھے نما ز پڑھنے والے سے ستر گنا افضل ہے‘‘۔
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
چالیس سال کی عبادت سے بہتر عمل:
((عسعس بن سلامة ، یقول أن النبی ﷺکان فی سفر ففقد رجلا من أصحابہ ، فقال انی أردت أن أخلو الجبل وأتعبد۔قال فلا تفعلہ ولا یفعلہ أحدکم ، فلصبر ساعة فی بعض مواطن الاسلام أفضل من عبادة ربہ عز وجل أربعین سنة خالیا )) (شعب الایمان ج۹ص۲۵۷رقم:۴۰۶۴)
’’سیدنا عسعس بن سلامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریمﷺکسی سفر میں تھے کہ آپ نے اپنے رفقاء میں سے ایک شخص کو نہ پایا (تو جب ان کو ڈھونڈکر لایا گیا تو ) وہ کہنے لگے کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ کسی پہاڑی پرخلوت اختیار کرکے اللہ تعالیٰ کی عبادت کروں۔نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :تم ایسا نہ کرو اور نہ کوئی اور تم سے ایسا کرے ، اسلام کے معرکوں میں سے کسی معرکے میں تمہارا ایک گھڑی ڈٹ کرلڑنا ،تنہائی میں چالیس سال کی عبادت سے افضل ہے‘‘۔
((عَنْ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْہُ فَقَالَتْ یَا رَسُولَ اللَّہِ انْطَلَقَ زَوْجِی غَازِیًا وَکُنْتُ أَقْتَدِی بِصَلَاتِہِ اِذَا صَلَّی وَبِفِعْلِہِ کُلِّہِ فَأَخْبِرْنِی بِعَمَلٍ یُبْلِغُنِی عَمَلَہُ حَتَّی یَرْجِعَ فَقَالَ لَھَا أَتَسْتَطِیعِینَ أَنْ تَقُومِی وَلَا تَقْعُدِی وَتَصُومِی وَلَا تُفْطِرِی وَتَذْکُرِی اللَّہَ تَبَارَکَ وَتَعَالَی وَلَا تَفْتُرِی حَتَّی یَرْجِعَ قَالَتْ مَا أُطِیقُ ھَذَا یَا رَسُولَ اللَّہِ فَقَالَ وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ لَوْ طُوِّقْتِیہِ مَا بَلَغْتِ الْعُشْرَ مِنْ عَمَلِہِ حَتَّی یَرْجِعَ)) (مسند احمد ج۳۱ص۲۳۲رقم:۱۵۰۸۰)
’’سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ میرا شوہر جہاد میں شرکت کے لیے چلا گیا ہے میں اس کی نماز اور ہر کام میں اقتداء کیا کرتی تھی۔ اب مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجیے جو مجھے اس کے مرتبہ تک پہنچا دے کیونکہ میں تو جہاد میں شرکت نہیں کرسکتی ،حتی کہ وہ واپس آجائے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا یہ ممکن ہے کہ تم ہمیشہ قیام میں رہو کبھی نہ بیٹھو ، ہمیشہ روزے رکھو کبھی ناغہ نہ کرو اور ہمیشہ ذکر الہی کرو کبھی اس سے غفلت نہ کرو یہاں تک کہ وہ واپس آجائے؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺیہ تو میرے لیے ممکن نہیں ہے!نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں یہ سب کرنے کی طاقت موجود ہوتی توتب بھی تم اس کی واپسی تک اس کے عمل کے دسویں حصے تک نہ پہنچ پاتیں‘‘۔
سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
((عن أبی ھریرة قال :اذا رابطت ثلاثا فلیتعبد المتبعدون ما شاء وا))
(مصنف ابن ابی شیبةج۴ص۵۸۳موقوفاًباسناد صحیح)
’’جب تم نے تین دن پہرہ دے دیا تو پھر دیگر عبادت گزار جو چاہیں عبادت کرلیں ،تمہارے مقام کو نہیں پہنچ سکتے‘‘۔
 

ابوبکر

مبتدی
شمولیت
جولائی 02، 2012
پیغامات
181
ری ایکشن اسکور
432
پوائنٹ
0
ایک مہینے کے روزوں اور رات کے قیام سے افضل عمل:
((رِبَاطُ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ خَیْرٌ مِنْ صِیَامِ شَھْرٍ وَقِیَامِہِ ))(صحیح مسلم ج۱۰ص۲۶رقم:۳۷۳۵)
’’ایک دن کی پہرداری ایک مہینے کے روزوں اور رات کے قیام سے افضل ہے‘‘۔
((رباط شھر خیر من صیام دھر )) (رواہ الطبرانی ورجالہ ثقات۔مجمع الزوائد ج۵ص۲۹۰)
’’ایک مہینے کی پہرے داری ساری زندگی روزے رکھنے سے افضل ہے‘‘۔
ان ا حادیث میں روزے کی فرضیت زیرِ بحث نہیں بلکہ حالت قیام کی روزوں کے اجر کاتقابل حالت جہاد سے کیا گیا ہے۔
جہنم سے ستر سال کی مسافت پر دور لے جانے والا روزہ:
رسول اللہ ﷺنے فرمایا:
((مَنْ صَامَ یَوْمًا فِی سَبِیلِ اللَّہِ بَعَّدَ اللَّہُ وَجْھَہُ عَنْ النَّارِ سَبْعِینَ خَرِیفًا))
(صحیح البخاری ج۹ص۴۳۳رقم:۲۶۲۸)

’’جو شخص اللہ کے راستے میں نکل کرایک روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی بدولت اس کے چہرے کو ستر سال کی مسافت کی مقدار جہنم سے دور فرمادیتے ہیں‘‘۔
((من صام یوما فی سبیل اللّٰہ جعل اللہ بینہ وبین النار خندقا کما بین السماء والارض)) (رواہ الطبرانی فی الصغیر والاوسط واسنادہ حسن۔مجمع الزوائد ج۳ص۱۹۴)
’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں نکل کر روزہ رکھا توا للہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان آسمان و زمین کے درمیان جتنی خندق بنادیتے ہیں ‘‘۔
 
Top