• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان المبارک کے احکام و مسائل

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دعائے قنوت کا محل:
حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ: ’’رسول اللہ ﷺ نے مجھے نماز وتر میں جب کہ میں رکوع سے سر اُٹھاؤں اور صرف سجدہ باقی رہ جائے یہ دعا سکھائی کہ میں پڑھوں۔‘‘ اَللّٰھُم اھْدِنِیْ۔ الحدیث
مختصر میں ذہبی نے اس حدیث پر سکوت کیا ہے اور یہ جس حدیث پر مختصر میں سکوت کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک صحیح ہوتی ہے۔
پس نماز وتر میں دعائے قنوت کے متعلق بعد از رکوع کی تصریح حدیث میں آگئی ہے اس لئے وتروں میں اس حکم پر عمل کرنا چاہئے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
دعائے قنوت میں مقتدیوں کا آمین کہنا:
دُعائے قنوت میں مقتدیوں کا آمین کہنا صحابۂ کرامؓ کے عمل سے ثابت ہے۔ (ملاحظہ ہو قیام مروزی وعون المعبود وغیرہ)
پس ہاتھ اُٹھانے اور نہ اُٹھانے میں اختیار ہے اور مقتدیوں کا دعائے قنوت میں آمین کہنا ابو داؤد میں موجود ہے مگر یہ عام دعائے قنوت کے متعلق ہے۔ وتروں کی خصوصیت نہیں۔ وتر بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ وتروں کی دعا بھی دعائے قنوت ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اعتکاف :

(الف) عبادتِ الٰہی کی نیت سے اپنے کو مسجد میں بند کرنا اعتکاف ہے۔
(ب) اور یہ سنت موکدہ ہے۔
(ج) نبی اکرم ﷺ ہر سال ماہ رمضان المبارک میں دس روز اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ آخری سال آپ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔
اعتکاف کرنے والا چونکہ قربِ الٰہی کی طلب میں اپنے آپ کو عبادت کے لئے وقف کر دیتا ہے اور دنیا کے تمام مشاغل سے علیحدہ ہو جاتا ہے اس لئے وہ تلاوتِ قرآن مجید اور ذِکرِ الٰہی میں جس قدر وقت صرف کرے اور دوسری باتوں سے بچے اسی قدر افضل ہے۔
حوالہ جات:(الف) نووی شرح مسلم و حافظ فی الفتح (ب) لحدیث کَانَ یَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الْاَوَاخِرَ مِنْ رَّمَضَانَ (بخاری مسلم) (ج) بخاری، نسائی، ابن ماجہ)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
کن اُمور سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا :
(الف) مسجد گرنے یا زبردستی مسجد سے نکال دیئے جانے یا جان و مال کے خوف سے مسجد سے نکل جانے پر بشرطیکہ فوراً کسی دوسری مسجد میں چلا جائے ان صورتوں میں اعتکاف فاسد نہیں ہوتا۔
(ب) علاوہ ازیں مسجد میں سونا
(ج) کھانا پینا
(د) کسی کو خرید و فروخت وغیرہ امور کی ہدایت کرنا۔
(ھ) خوشبو استعمال کرنا، سر میں تیل لگانا۔
(و) کئی دوسرا شخص کھانا لانے والا نہ ہو تو گھر جا کر کھانا کھا سکتا ہے۔
(ز) پاخانہ پیشاب کے لئے باہر جا سکتا ہے۔
(ح) غسل جنابت کے لئے مسجد سے باہر جانا اور نکاح کرنا۔ یہ سب امور جائز ہیں ان سے اعتکاف فاسد نہیں ہوتا۔
حوالہ جات:(الف) حدیث ابی داؤد لَا یَخْرُجْ لِحَاجَۃٍ اِلَّا لِمَا لَبدَّ مِنْہُ، مبسوط سرخسی (ب) بخاری و ابن ماجہ مبسوط سرخسی جلد ۳ ص ۱۲۶ (ج) بخاری شریف (د) بخاری (ھ) فتح الباری، تحفۃ الاحوذی (د) حدیث ابو داؤد ولَا یَخْرُجْ لِحَاجَۃٍ اِلَّا لِمَا لَابُدَّ مِنْہُ سے استدلال کیا جا سکتا ہے۔ (ز) متفق علیہ (ح) وکذا الغُسْلُ لِلْجَنَابَۃِ اِنْ لَّمْ یُمْکِنْہُ الْاِغْتِسَالُ فِی الْمَسْجِدِ (تحفۃ الاحوزی جلد ۲ ص ۷۲) غسل جنابت اگر مسجد میں ممکن نہ ہو، باہر جائز ہے۔ لحدیث متقدم (د) ابو داؤد (ھ) ماخوذ (بخاری و مسلم)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
مدتِ اعتکاف:
(الف) ایک دِن رات یا اس سے زیادہ جتنا چاہے اعتکاف کر سکتا ہے مگر رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف سنت نبوی ﷺ ہے۔ جو شخص پورے آخری دھاکے کا اعتکاف کرنا چاہتا ہو وہ رمضان المبارک کی بیس تاریخ غروب آفتاب سے پہلے مسجد میں پہنچ جائے رات وہیں گزارے۔
(ب) اکیسویں کی صبح کو فجر کی نماز پڑھ کر اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جائے۔
(ج) اعتکاف مرد، عورت، بالغ نابالغ سب کر سکتے ہیں البتہ عورت کے لئے خاوند کی اجازت شرط ہے۔
(د) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ اعتکاف جامع مسجد (جہاں جمعہ ہوتا ہو) میں بیٹھنا چاہئے۔
(ھ) عورت بھی مسجد میں اعتکاف کر سکتی ہے چنانچہ ازواجات مطہرات مسجد نبوی میں اعتکاف کرتی تھیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
لیلۃ القدر:

یہ وہی مبارک رات ہے جس میں قرآن مجید لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل ہوا۔ یہ وہی رات ہے جس کی شان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍ۔
اسی ایک رات کا قیام ایک ہزار ماہ (یعنی ۸۳ سال اور چار ماہ) کی عبادت سے افضل ہے۔ یہ وہی رات ہےجس میں جبریل علیہ السلام دیگر ملائکہ سمیت زمین پر تشریف لاتے اور ذکرِ الٰہی کی مجالس میں شریک ہوت ہیں اور ذِکر الٰہی کرنے والوں کے حق میں استغفار کرتے ہیں۔
یہ وہی رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلائے عام ہوتی ہے کہ اے گنہگارو اُٹھو، بخشش طلب کرو، میری رحمت تمہارے گناہ بخشنے کے لئے منتظر ہے۔ بھوکے مرنے والو،در در کی ٹھوکریں کھانے والو اُٹھو اور مانگو۔
آج میرے فضل و کرم کے دروازے تمہارے لئے کھلے ہوئے ہیں۔ اے مصیبت کے مارو، آؤ! میری پناہ میں آؤ کہ میں تمہارے سارے اور تمہاری سب پریشانیاں دور کرنے پر آمادہ ہوں۔
یہ صدا صبح صادق کے طلوع ہونے تک بدستور جاری رہتی ہے۔ لیلۃ القدر کے متعلق قطعی فیصلہ نہیں کیا گیا کہ وہ کون سی رات میں ہے۔ اس بارے میں متعدد احادیث مروی ہیں۔
1۔حضرت عائشہؓ صدیقہ فرماتی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا۔
تَحَروَّا لَیْلَۃَ الْقَدْرِ فِیْ الْوِتْرِ مِنَ الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ مِنْ رَّمَضَانَ (بخاری)’’لیلۃ القدر کو آخری دھاکہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘
2۔ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں نبی ﷺ نے لیلۃ القدر کو اکیسویں رات میں پایا۔
بہر کیف اس رات کی تعیین نہیں کی گئی۔ البتہ اکیسویں، تیئیسویں اور ستائیسویں کو ترجیح دی گئی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں کو بالخصوص عبادت سے زندہ رکھیں۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
لیلۃ القدر کی دعا:
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں، میں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ اگر میں لیلۃ القدر معلوم کرنے میں کامیاب ہو جاؤں تو کیا پڑھوں۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ (مشکوٰۃ)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
وجہ تسمیہ :
اس میں مختلف اقوال میں چند مشہور اقوال کا ذِکر کیا جاتا ہے۔
1۔چونکہ اس میں ارزاق وغیرہ کا اندازہ کیا جاتا ہے اس لئے اسی کو لیلۃ القدر سے موسوم کیا گیا۔ اِس قول کے مطابق اس کے معنی اندازہ کے ہوں گے۔
سَمّٰی بِھَا لِعَظْمِ قَدْرِھَا وَشَرَفِھَا یعنی اس کی بزرگی عظمت و شان کے لئے اس کو لیلۃ القدر کہتے ہیں۔ ’’لیلہ‘‘ موصوف ’’القدر‘‘ صفت یعنی اضافت موصوف بطرف صفت اس لحاظ سے معنی بزرگ کے ہوں گے۔
3۔ہر وہ شخص جو اس رات میں عبادت کرے صاحب قدر ہو جاتا ہے اس لئے اس کو لیلۃ القدر الشرف کہا جاتا ہے۔
وجہ فضیلت اس جگہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہر شے اپنے اسباب و علل کے ساتھ مقصود ہے تو اس مبارک رات کی فضیلت اور بزرگی کی علت و سبب کیا ہے؟
اس کا جواب خود بخود احکم الحاکمین کے ارشاد اِنَّا اَنْزَلْنَاہُ سے مَطْلَعِ الْفَجْرِ تک ملاحظہ ہو کہ اس رات میں قرآن مجید کو نازل کیا گیا۔ اس رات عبادت ہزار مہینے سے بہتر ہے۔ اس رات میں ملائکہ اور روح القدس نازل ہوتے ہیں۔ نیز حدیث میں ہے کہ اس رات جبرائیل ملائکہ کی ایک جماعت کے ساتھ اُتر کر مسلمانوں پر نزول رحمت کا باعث ہوتے ہیں، جو ذکرِ الٰہی میں مشغول ہوتے ہیں۔ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنَا مِنْھُمْ۔
بعض علما کے نزدیک اس ماہ کی بزرگی کے اسباب میں یہ بھی دال ہے کہ اس رات تمام انتظاماتِ عالم کا فیصلہ ہوتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ۱ حَکِیْمٍ یعنی اس رات تمام امور الٰہی کی تقسیم ہوتی ہے اور مقررہ عہدہ داروں کے ذمہ ان کے فرائض سونپ دیئے جاتے ہیں۔
 
Top