• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان المبارک کے بعض احکام و مسائل از مقبول احمد سلفی

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
مضمون کی اور بھی اقساط باقی ہیں ۔ اللہ تعالی تکمیل کے لئے صحت وتندرستی اور فرصت عطا فرمائے ۔ آمین
آئندہ بھی دعاؤں کی مزید درخواست ہے ۔
آمین. تقبل یا رب العالمین.
ان شاء اللہ محترم شیخ.
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
(10)اعتکاف :

اعتکاف اور اس کا حکم:
اعتکاف کا تعلق رمضان کے آخری عشرے سے ہے ۔ یہ قرب الہی کا اہم ذریعہ ہے ۔ اس سے متعلق متعدد فضائل وارد ہیں مگر سب کے سب ضعیف ہیں تاہم اس کی مشروعیت وترغیب متعدد آیات و احادیث سے ثابت ہے ۔ ہاں اعتکاف عبادت ہے نیز مسجد میں اعتکاف کی بدولت مختلف قسم کی نیکیاں کرنے کا موقع ملتا ہے اس لئے ان سب کی فضیلت و اجر اپنی جگہ مسلم ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ ( البقرة:125)
ترجمہ:اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل علیہ السلام کو تاکید کی کہ وہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے صاف ستھرا رکھیں۔
نیز اللہ کا فرمان ہے : وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ (البقرة:187)
ترجمہ:اور اگر تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو پھر اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔
اور نبی ﷺ کے متعلق عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے :
أن النبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم كان يعتكفُ العشرَ الأواخرَ من رمضانَ حتى توفاهُ اللهُ، ثم اعتكفَ أزواجُهُ من بعدِهِ .(صحيح البخاري:2026، صحيح مسلم:1172)
ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے رہے اور آپ کے بعد آپ کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا ۔
قرآن و حدیث کے علاوہ اجماع امت سے بھی اس کی مشروعیت ثابت ہے جیساکہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے ۔(وشرح العمدة :2/711) .
دلائل کی رو سے اعتکاف واجب نہیں بلکہ سنت ہے الا یہ کہ کوئی اعتکاف کی نذر مان لے تو اس کے حق میں واجب ہوگا۔

اعتکاف کی جگہ:
جس طرح مرد کے لئے اعتکاف مسنون ہے اسی طرح عورت کے لئے بھی اعتکاف مشروع ہے ۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ اعتکاف کی جگہ صرف مسجد ہے ۔ جیساکہ اوپرقرآن کی آیت سے واضح ہے اور نبی ﷺ نے اس پہ عمل کرکے دکھایا ہے ۔اگر عورت اعتکاف کرے تو اسے بھی مسجد میں ہی اعتکاف کرنا ہوگا خواہ جامع مسجد ہو یا غیر جامع ۔ صرف جامع مسجد میں اعتکاف والی روایت (لاَ اعْتِكَافَ إِلاَّ فِى مَسْجِدٍ جَامِعٍ) پر کلام ہے ۔ اگر جامع مسجد میں اعتکاف کرے تو زیادہ بہترہے تاکہ نماز جمعہ کے لئے نکلنے کی ضرورت نہ پڑے ۔

اعتکاف کا وقت :
نبی ﷺ نے رمضان میں اکثر دس دنوں کا اعتکاف کیا ہے اس لئے افضل ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں دس دنوں کا اعتکاف کرے کیونکہ آخری عشرے کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ اعتکاف کی دل سے نیت کرے اور بیسویں رمضان کا سورج ڈوبتے ہی مسجد میں داخل ہوجائے ۔یہ اکیسویں کی رات ہوگی ۔ رات بھر ذکرواذکار اور نفلی عبادات میں مصروف رہے اور فجر کی نماز پڑھ کے اعتکاف کی جگہ پہ چلاجائے ۔ عید کا چاند ہوتے ہی اعتکاف ختم کردے ۔

اعتکاف کے مباح امور:
بحالت اعتکاف مسجد میں کھانا پینا،غسل کرنا،بقدرضرورت بات کرنا،تیل خوشبو استعمال کرنا،بغیر شہوت بیوی سے بات چیت اور اسے چھونا، ناگزیر ضرورت کے لئے باہرجانا مثلا مسجد میں بیت الخلاء نہ ہوتوقضائے حاجت کے لئے ، جمعہ والی مسجد نہ ہوتو نماز جمعہ کے لئے ، کھانا کوئی لادینے والا نہ ہوتوکھانا کے لئے وغیرہ۔

اعتکاف کے منافی امور:
بلاضرورت مسجد سے باہرجانا،جماع یا کسی اور طرح سے قصدا ً منی خارج کرنا اعتکاف کے بطلان کا سبب ہے ۔ اسی طرح حیض ونفاس بھی عورت کا اعتکاف باطل کردے گا۔ ان کے علاوہ بلاضرورت بات چیت، غیرضروری کام میں تضییع اوقات یا عبادت کے منافی کام جھوٹ و غیبت سے بچے ۔ یہ بطلان کا سبب تو نہیں مگر ان سے اعتکاف کا مقصد فوت ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح مریض کی عیادت، نمازجنازہ اور دفن کے لئے مسجد سے باہر نکلنا بھی جائز نہیں ہے ۔

اعتکاف کے مسنون اعمال :
معتکف کو چاہئے کہ دس دنوں میں کثرت سے تدبر کے ساتھ تلاوت، ذکر واذکار، دعا واستغفار اور نفلی عبادات انجام دے ۔خشوع وخضوع اور خضورقلبی کے ساتھ اللہ سے تعلق جوڑنے پہ محنت و مشقت کرے ۔ رمضان تقوی کا مظہر ہے ، اعتکاف سے تقوی کو مزید تقویت بخشے ۔ان ہی دنوں میں لیلۃ القدربھی آتی ہے معتکف کے لئے اسے پانی کا سنہرا موقع ہے ، آپ ﷺ نے اسی غرض سے تینوں عشرے میں اعتکاف کیا۔ جب آخری عشرے میں شب قدر کی خبرملی تو اس میں اعتکاف کرنے لگے ۔

مزید چند مسائل :
٭ اعتکاف کی اس طرح نیت کرنا"نویت سنت الاعتکاف ﷲ تعالیٰ"(میں نے اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے سنت اعتکاف کی نیت کی) بدعت ہے ۔ نیت محض دل سے کرنا ہے۔
٭ اعتکاف کے لئے روزہ شرط نہیں (لااعتکاف الابصوم) والی روایت پہ کلام ہے ۔
٭ مسجد میں عورت کے لئے جب تک مخصوص ومحفوظ جگہ نہ ہو تب تک اسے اعتکاف میں بیٹھنا جائز نہیں۔
٭ صرف تین مساجد میں اعتکاف کا اعتقاد بھی صحیح نہیں ہے ۔
٭ اعتکاف کی مدت متعین نہیں ہے اس لئے دس دن سے کم اور زیادہ کا بھی اعتکاف کیا جاسکتا ہے ۔ حدیث میں کم ازکم ایک دن ایک رات کے اعتکاف کا ذکر آیا ہے ۔
٭ رمضان کے علاوہ دیگر ماہ میں بھی اعتکاف کیاجاسکتا ہے جیساکہ نبی ﷺ سے ثابت ہے ۔
٭اگر کسی نے اعتکاف کی نیت کی (نذرنہیں مانی) مگر حالات کی وجہ سے اعتکاف نہیں کرسکا تو اس پہ کچھ نہیں ہے ۔
٭اجتماعی اعتکاف اس طرح کہ ایک مسجد میں کئی معتکف ہوں جائز ہے مگر اجتماعی صورت سے ذکر یا دعا یا عبادت کرنا صوفیاء کی طرح جائز نہیں ہے ۔

اعتکاف سے متعلق بعض ضعیف احادیث :
(1)منِ اعتَكَفَ عشرًا في رمضانَ كانَ كحجَّتينِ وعُمرتينِ۔( السلسلة الضعيفة:518)
ترجمہ:جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔
(2)مَنِ اعتكف يومًا ابتِغاءَ وجهِ اللهِ ؛ جعل الله بينَه وبينَ النارِ ثلاثةَ خنادقَ ، كُلُّ خَندَقٍ أبْعدُ مِمَّا بينَ الخافِقَيْنِ .(السلسلة الضعيفة:5345)
ترجمہ: جو شخص اﷲ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اﷲ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔
(3) أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في المعتكف هو يعكف الذنوب ، ويجرى له من الحسنات كعامل الحسنات كلها(ضعيف ابن ماجه:352) .
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کرنے والے کے بارہ میں فرمایا :وہ گناہوں سے باز رہتا ہے ، اوراس کے لیے سب نیکی کرنے والے کی طرح نیکی لکھی جاتی ہے۔
(4) مَنِ اعتكفَ إيمانًا واحتسابًا غُفِرَ لَهُ ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (ضعيف الجامع (5452) .
ترجمہ:جس نے ایمان اوراجروثواب کی نیت سے اعتکاف کیا اس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردئےجاتے ہیں۔
(5)لا اعتكافَ إلا في المساجدِ الثلاثةِ(ضعیف عندشیخ ابن باز،مجموع فتاوى ابن باز25/218)
ترجمہ: اعتکاف تین مساجد کے علاوہ کسی میں نہیں۔

 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
(11) لیلۃ القدر

لیلۃ القدر کی اہمیت و فضیلت :
لیلۃ القدر کی اہمیت و فضیلت پہ ایک مکمل سورت نازل ہوئی ہے جس سے اس کی فضیلت کا بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے ۔
إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (1) وَمَا أَدْرَاكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ (2) لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ (3) تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ (4) سَلَامٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (5)(سورۃ القدر)
ترجمہ: بیشک ہم نے قرآن کو لیلة القدر یعنی باعزت وخیروبرکت والی رات میں نازل کیا ہے ۔اورآپ کو کیا معلوم کہ لیلةالقدرکیا ہے ۔لیلة القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس رات میں فرشتے اور جبریل روح الامین اپنے رب کے حکم سے ہر حکم لے کر آترتے ہیں۔ وہ رات سلامتی والی ہوتی ہے طلوع فجر تک ۔
اس سورت میں چند فضائل کا ذکر ہے ۔
٭ شب قدر میں قرآن کا نزول ہوا یعنی یکبارگی مکمل قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل کیا گیا جو تئیس سالوں میں قلب محمد ﷺ پر نازل کیا گیا۔
٭یہ قدرومنزلت والی رات ہے ، قدر کی تفصیل اللہ نے ہزار مہینوں سے بیان کی جو مبالغہ پر دلالت کرتاہے یعنی یہ رات ہزاروں مہ و سال سے بہتر ہے ۔
٭ یہ اس قدر عظیم رات ہے کہ اس میں فرشتوں بالخصوص جبریل علیہ السلام کا نزول ہوتا ہے ان کاموں کو سرانجام دینے جن کا فیصلہ اللہ تعالی اس سال کے لئے کرتا ہے ۔
٭ یہ مکمل رات سراپہ امن و سلامتی والی ہے ۔ مومن بندہ شیطان کے شر سے محفوظ ہوکر رب کی خالص عبادت کرتا ہے ۔
٭
اس رات سال میں ہونے والے موت وحیات اور وسائل حیات کے بارے میں سال بھر کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ(الدخان:4)
ترجمہ: اسی رات میں ہرایک مضبوط کام کا فیصلہ کیا جاتا ہے ۔
٭ لیلۃ القدر میں قیام کا اجر پچھلے سارے گناہوں کا کفارہ ہے ۔
مَن قام ليلةَ القدرِ إيمانًا واحتسابًا، غُفِرَ له ما تقدَّمَ من ذنبِه(صحيح البخاري:1901)
ترجمہ: جو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کرے اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔
٭
لیلۃ القدر کی فضیلت سے محروم ہونے والا ہرقسم کی بھلائی سے محروم ہے ۔
دخلَ رمضانُ فقالَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ إنَّ هذا الشَّهرَ قَد حضرَكُم وفيهِ ليلةٌ خيرٌ مِن ألفِ شَهْرٍ من حُرِمَها فقد حُرِمَ الخيرَ كُلَّهُ ولا يُحرَمُ خيرَها إلَّا محرومٌٍ(صحيح ابن ماجه:1341)
ترجمہ: ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آیا تونبی ﷺنے فرمایا کہ: تمہارے اوپر ایک مہینہ آیا ہے جس میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سےافضل ہے جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا ،گویا ساری بھلائی سے محروم رہ گیا۔

لیلۃ القدرکا تعین:
لیلۃ القدر کے تعین کے سلسلے میں علماء کے مختلف اقوال ملتے ہیں مگر راحج قول یہ ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں (21،23،25،27،29) میں سے کوئی ایک ہے ۔ اس کی دلیل نبی ﷺ کا فرمان ہے: تَحَرَّوْا ليلة القدرِ في الوِتْرِ، من العشرِ الأواخرِ من رمضانَ .(صحيح البخاري:2017)
ترجمہ: لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔

کیا ستائیسویں کی رات لیلۃ القدر ہے ؟
بعض لوگوں نے 27 ویں کی رات کو لیلۃ القدر قراردیا ہے جوصحیح نہیں ہے ۔یہ صحیح ہے کہ بعض روایتوں میں شب قدر ستائیسویں کی رات بتلایا گیا ہے مگرستائیسویں کو ہی ہمیشہ کے لئے شب قدر قرار دینا غلط ہے ۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔
اولا: بخاری کی روایت اس موقف کی تردید کرتی ہے جس میں شب قدر کو پانچ طاق راتوں میں تلاش کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، صرف ستائیسویں کی حدیث لیکر فیصلہ کرنا درست نہیں ہے ۔
ثانیا: روایات میں ستائیسویں کے علاوہ دیگر رات کا بھی ذکر ہے ۔ صحیحین میں مذکور ہے کہ نبی ﷺ نے شب قدر پانے کے لئے کبھی پہلے عشرے میں اعتکاف کیا، کبھی درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا تو کبھی آخری عشرے میں اور آخر میں فرمایا:
إني أُريتُ ليلةَ القَدْرِ، ثم أُنْسيتُها، أو نُسِّيتُها، فالتمِسوها في العَشْرِ الأواخرِ في الوَتْرِ(صحيح البخاري:2016، صحيح مسلم:1167)
ترجمہ: مجھے وہ رات دکھائی گئی تھی مگرپھر بھلا دیا گیا، لہذا اب تم اسے رمضان کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرو۔
ایک روایت میں ہے : مَن كان مُتَحَرِّيها فلْيَتَحَرَّها في السبعِ الأواخرِ(صحيح البخاري:2015، صحيح مسلم:1165)
ترجمہ : جس کو شب قدر کی تلاش کرنی ہووہ آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔
ان کے علاوہ کسی روایت میں 21 کا ذکر ہے ، کسی میں 23 کا ذکر ہے ، کسی میں 25 کا ذکر ہے تو کسی میں 29 کا ذکر ہے ۔
ان ساری روایات کو سامنے رکھتے ہوئے عشراخیرکے اندر وسعت پائی جاتی ہے ، ان میں سبع اخیراور دیگر ساری روایات داخل ہیں۔اس وجہ سے شب قدر آخری عشرے کی کوئی طاق رات ہے ۔ یہی موقف اکثر اہل علم کاہے ۔ جہاں تک ستائیس کا مسئلہ ہے تو کسی سال ستائیس کی رات قدر کی رات کی ہوگی جیساکہ کبھی اکیس، کبھی تئیس ، کبھی پچیس تو کبھی انتیس رہی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ رات ہرسال آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں میں سے کسی ایک رات میں منتقل ہوتی رہتی ہے ۔

ثالثا: نبی ﷺ کے فرامین کے علاوہ آپ کا عمل بھی ثابت کرتا ہے کہ لیلۃ القدر آخری عشرے کی کوئی ایک طاق رات ہے ۔
عنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ(صحيح البخاري:2024)
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہوتے تو ﴿عبادت کے لئے﴾ کمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔

لیلۃ القدر کی علامات:
احادیث میں اس شب کی چند نشانیاں ملتی ہیں۔
٭ صبح کے سورج میں شعاع نہیں ہوتی :هي ليلةُ صبيحةُ سبعٍ وعشرين . وأمارتُها أن تطلعَ الشمسُ في صبيحةِ يومِها بيضاءَ لا شُعاعَ لها(صحيح مسلم:762)
ترجمہ: وہ (لیلۃ القدر) ستائیسویں رات ہے ، اور اُس کی نشانی یہ ہے کہ اُس کی صبح میں جب سورج طلوع ہو تا ہے تو وہ سفید ہوتا ہے اور اُس کی کوئی شعاع نہیں ہوتی۔
٭لیلۃ القدر معتدل ہوتی ہے :ليلةُ القدْرِ ليلةٌ سمِحَةٌ ، طَلِقَةٌ ، لا حارَّةٌ ولا بارِدَةٌ ، تُصبِحُ الشمسُ صبيحتَها ضَعيفةً حمْراءَ(صحيح الجامع:5475)
ترجمہ : قدر کی رات نرمی والی معتدل ہے ، نہ گرم نہ ٹھنڈی ، اُس رات کی صُبح سورج کی روشنی کمزور اور سُرخی مائل ہوتی ہے ۔
٭کبھی بارش بھی ہوسکتی ہے:وإني رأيتُ كأني أسجدُ في طينٍ وماءٍ (صحيح البخاري:813)
ترجمہ: میں نے (خواب میں) اپنے کو دیکھا کہ اس رات مٹی اور پانی (کیچڑ) میں سجدہ کر رہا ہوں۔
علامات سے متعلق لوگوں میں غلط باتیں مشہور ہیں مثلا اس رات کتے نہیں بھوکتے ، گدھے کم بولتے ہیں ۔ سمندر کا کھارا پانی بھی میٹھا ہوجاتا ہے ۔ درخت زمین کو سجدہ کرتے ہیں پھر اپنی جگہ لوٹ جاتے ہیں ۔ ہرجگہ روشنی ہی روشنی ہوتی ہے ، اس دن شیطان سورج کے ساتھ نہیں نکل سکتا۔وغیرہ وغیرہ


لیلۃ القدر میں ہم کیا کریں ؟

حدیث میں لیلۃ القدرکے حصول کے لئے نبی ﷺ کے بالغ اجتہاد کا ذکر ملتا ہے ۔
عنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ(صحيح البخاري:2024)
ترجمہ: عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب آخری دس دنوں میں داخل ہوتے تو ﴿عبادت کے لئے﴾ کمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔
اس حدیث میں تین باتیں مذکور ہے ۔
(1) شد میزرہ : کمر کس لیتے یعنی عبادت کے لئے بالغ اجتہادکرتے ۔عورتوں سے کنارہ کشی کے بھی معنی میں آیا ہے ۔
(2) احیالیلہ : شب بیداری کرتے رات میں عبادت کے لئے خود کو بیدار رکھتے ۔
(3) ایقظ اھلہ : اپنے اہل وعیال کو بھی جگاتے کیونکہ یہ اہم رات ہوتی ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شب قدر میں عبادت پہ خوب خوب محنت کرناہے تاکہ ہم اس کی فضیلت پاسکیں جیساکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
مَن قام ليلةَ القدرِ إيمانًا واحتسابًا، غُفِرَ له ما تقدَّمَ من ذنبِه(صحيح البخاري:1901)
ترجمہ: جو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ قیام کرے اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔
قیام کے ساتھ ذکرودعا اور تلاوت و مناجات سے اس رات کو مزین کریں ۔ اس رات کی ایک خصوصی دعا ہے جو نبی ﷺ نے اپنی امت کو سکھائی ہے ۔
عن عائشة أنها قالت يا رسول الله أرأيت إن وافقت ليلة القدر ما أدعو ؟ : قال: تقولين اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني ﴿
صحيح ابن ماجه:3119)
ترجمہ : عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےانہوں نے نبی کریم صلی اللہ علی وسلم سے دریافت کیا کہ اگر مجھے شب قدر مل جائے تو میں کون سی دعا پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پڑھو:" اللَّهمَّ إنَّكَ عفوٌّ تحبُّ العفوَ فاعفُ عنِّي"(اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے معافی کو پسند کرتا ہے لہذا تو مجھے معاف کردے)۔
سنن ترمذی میں عفو کے بعد "کریم" کی زیادتی ہے ، اس زیادتی کی کوئی اصل نہیں یعنی یہ ثابت نہیں ہے ۔

 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
(12) صدقہ الفطر

صدقہ الفطر کی فرضیت :
جس سال رمضان کا روزہ فرض ہوا اسی سال صدقہ الفطر بھی فرض ہوا۔ وہ سن دو ہجری ہے۔ اس کی فرضیت قرآن و حدیث اور اجماع امت سے ثابت ہے ۔
قرآن سے دلیل: قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ (الاعلی : 14)
ترجمہ:بے شک اس نے فلاح پالی جو پاک ہوگیا۔
سنت سے دلیل : أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فرض زكاةَ الفطرِ من رمضانَ على كلِّ نفسٍ من المسلِمين (صحيح مسلم:984)
ترجمہ: بے شک اللہ کے رسول ﷺ نے رمضان کے صدقہ الفطر کو مسلمانوں میں سے ہر نفس پر فرض کردیا ہے ۔
امام ابن منذر رحمہ اللہ نے اس کی فرضیت پہ اجماع نقل کیا ہے ۔(الإجماع لابن المنذرص :55)
صدقہ الفطر/ زکوۃ الفطر کو زکوۃ البدن اور زکوۃ النفس بھی کہا جاتا ہے ۔ عام اردو بول چال میں فطرہ یا فطرانہ سے جانا جاتا ہے۔

فطرانے کی حکمت :
دو حکمتیں تو ایک حدیث میں مذکور ہیں ۔
زكاةُ الفطرِ طُهْرَةٌ للصائِمِ مِنَ اللغوِ والرفَثِ ، و طُعْمَةٌ للمساكينِ (صحيح الجامع:3570)
پہلی حکمت :
روزہ دار کی پاکی :روزے کی حالت میں روزے دار سے ہونے والی غلطیوں سے پاک ہونے کے لئے فطرانہ ادا کیا جاتا ہے ۔
دوسری حکمت :
مساکین کا کھانا: عید کے دن جہاں مالدار لوگ خوشی منائیں وہیں اپنی خوشی میں شامل کرنے کے لئے ان کے ذمہ غرباء ومساکین کو فطرانہ ادا کرنا ہےتاکہ وہ بھی مسلمانوں کی عید کی خوشی میں برابر کے شریک ہوسکیں ۔
تیسری حکمت : فطرانے میں مسکینوں کے ساتھ الفت ومحبت کے اظہار کے سوا، اپنے بدن کا صدقہ بھی ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے اب تک اپنی توفیق سے بقید حیات رکھا۔ اور اللہ کی ان نعمتوں کا شکریہ بھی جو رمضان المبارک میں (روزہ،قیام، اعتکاف، لیلۃ القدروغیرہ)میسرآتے ہیں۔

فطرانے کی شرائط:
اس کی تین شرطیں ہیں۔
(1) فطرانے کے لئے اسلام شرط ہے ، اس لئے کافر پر فطرانہ نہیں۔
(2) استطاعت: فطرانہ کے لئے نصاب کا مالک ہونا شرط نہیں بلکہ اس کے پاس عید کی رات اور اس دن اپنے اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرنےسے زائد خوراک ہو تو اسے مسکینوں کو صدقہ کرے۔
(3) تیسری شرط فطرانے کا واجبی وقت ہونا ہے جوعید کا چاند نکلنے سے عید کی نماز کے وقت تک ہے ۔

کن کی طرف سے فطرانہ ادا کیا جائے گا؟
اس سلسلے میں نبی ﷺ کا فرمان ہے :
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فرض زكاةَ الفطرِ من رمضانَ على كلِّ نفسٍ من المسلِمين ، حرٍّ أو عبدٍ . أو رجلٍ أو امرأةٍ . صغيرٍ أو كبيرٍ . صاعًا من تمرٍ أو صاعًا من شعيرٍ .(صحيح مسلم : 984)
ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے صدقہ فطرکو فرض قرار دیا ہے ایک صاع جو یا کھجور کا، جو ہر آزاد ،غلام ، مرد وعورت اور چھوٹے بڑے مسلمان پر واجب ہے۔
*اس لئے ہر مسلمان خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ، آزاد ہو یا غلام ، مرد ہو یا عورت ان کی طرف سے فطرہ نکالنا ان کے سرپرست کے ذمہ واجب ہے ۔
*یتیم اور مجنوں کے پاس مال ہو تو ان کی طرف سے بھی صدقہ نکالا جائے ۔
*پیٹ میں موجود بچے کی طرف سے فطرانہ واجب نہیں ہے مگر کوئی بطور استحباب دینا چاہے تو دے سکتا ہے ۔
٭ میت کی طرف سے فطرانہ نہیں ہے ۔ ہاں اگر میت نے وقت وجوب(عید کا چاند نکلنے سے عید کی نماز تک) کو پالیا تو اس کی طرف سے فطرانہ ادا کیا جائے گا۔
٭ نوکر یا نوکرانی کافطرانہ خود ان کے ذمہ ہے ، اگر اس کا مالک ادا کردے تو ادا ہوجائے گا۔

فطرانے میں کیا دیا جائے ؟
جس ملک میں جو چیز بطور غذا استعمال کی جاتی ہے اسے فطرے کے طور پہ دے سکتے ہیں ۔اس سے متعلق نبی ﷺ کا فرمان ہے :
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فرض زكاةَ الفطرِ من رمضانَ على كلِّ نفسٍ من المسلِمين ، حرٍّ أو عبدٍ . أو رجلٍ أو امرأةٍ . صغيرٍ أو كبيرٍ . صاعًا من تمرٍ أو صاعًا من شعيرٍ .(صحيح مسلم : 984)
ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے صدقہ فطرکو فرض قرار دیا ہے ایک صاع جو یا کھجور کا، جو ہر آزاد ،غلام ، مرد وعورت اور چھوٹے بڑے مسلمان پر واجب ہے۔
نبی ﷺ کے زمانے میں جو، کھجور، منقہ اور پنیربطور غذا استعمال ہوتا تھا۔ ہمارے یہاں عام طور سے چاول ، گیہوں،چنا، جو ، مکی، باجرہ، جوار وغیرہ اجناس خوردنی ہیں لہذا ہم ان میں سے فطرانہ نکالیں گے ۔

صاع کی مقدار:
فطرانے کی مقدار ایک صاع ہے ۔ایک صاع چار مُد ہوتا ہے ۔گرام کے حساب سے صاع کی تعیین میں کافی اختلاف ہے ۔شیخ ابن عثیمین نے دوکلو چالیس گرام بتلایا ہے ۔ بعض نے دوکلو ایک سو، بعض نے پونے تین سیر یعنی ڈھائی کلو تقریبا،بعض نے دو کلو ایک سوچھہتر، بعض نے دو کلو سات سو اکاون کہا ہے ۔ شیخ ابن باز نے تین کلو بتلایا ہے ۔ یہی سعودی فتاوی کمیٹی لجنہ دائمہ کا فتوی ہے ۔
زیادہ تر اقوال ڈھائی کلو کے آس پاس ہیں ۔ اگر فی کس ڈھائی کلو کے حساب سے نکال دیا جائے توزیادہ مناسب ہے ۔ اس میں فقراء و مساکین کا فائدہ بھی ہے اور اگر کوئی تین کلو کے حساب سے نکالتا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔
یہاں ایک اور مسئلہ جان لینا چاہئے کہ ایک ہی جنس سے ایک صاع نکالنا بہتر ہے نہ کہ آدھا ایک جنس سے اور آدھا ایک جنس سے ۔
ابوداؤد اور نسائی وغیرہ میں نصف صاع کابھی ذکر ہے مگر وہ ورایت صحیح نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں بعض آثار بھی ملتے ہیں ۔امام ابوحنیفہ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ ،علامہ ابن القیم، علامہ البانی اورعبیداللہ مبارک پوری رحمہم اللہ کا مسلک ہے کہ نصف صاع بھی کفایت کرے گا۔

فطرانے کا مصرف:
فطرانے کا مصرف نبی ﷺ نے بتلادیا ہے ۔
زكاةُ الفطرِ طُهْرَةٌ للصائِمِ مِنَ اللغوِ والرفَثِ ، و طُعْمَةٌ للمساكينِ (صحيح الجامع:3570)
ترجمہ: صدقہ فطر روزہ دارکی لغواور بیہودہ باتوں سے پاکی اور مساکین کا کھانا ہے ۔
یہ حدیث بتلاتی ہے کہ فطرانے کا مصرف فقراء ومساکین ہے۔ بعض علماء نے کہا زکوۃ کے آٹھ مضارف میں فطرانہ صرف کرسکتے ہیں مگر یہ بات مذکورہ بالا حدیث کے خلاف ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فطرانے کو فقراء ومساکین کے ساتھ خاص کیا ہے اور دلیل سے قوی تر اسی کو قرار دیا ہے ۔ (مجموع فتاوى:25/71) .
شیخ ابن باز نے کہا کہ فطرانے کا مصرف فقراء ومساکین ہے کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے:
زكاةُ الفطرِ طُهْرَةٌ للصائِمِ مِنَ اللغوِ والرفَثِ ، و طُعْمَةٌ للمساكينِ۔
ترجمہ: صدقہ فطر روزہ دارکی لغواور بیہودہ باتوں سے پاکی اور مساکین کا کھانا ہے ۔
انتہی (مجموع الفتاوى:14/202)
لہذا فطرانہ فقراء ومساکین کے علاوہ مسجد و مدرسہ وغیرہ پہ خرچ کرنا سنت کی مخالفت ہے ۔
اگر اپنی جگہ پہ فقراء ومساکین نہ پائے تو دوسری جگہ فطرانہ بھیج دے۔

فطرانے کا وقت :
فطرانے کا دو وقت ہے ۔ ایک وقت وجوب اور ایک وقت جواز
وقت وجوب: عید کا چاند نظر آنے سے عید کی نماز تک ہے ۔ اس درمیان کسی وقت مستحق کو فطرانہ دیدے ۔
وقت جواز: عید سے ایک دو دن پہلے فطرہ دینا جائز ہے ۔ بخاری ومسلم میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم أو يومين(صحیح البخاري:1511 وصحیح مسلم:984).
کہ صحابہ کرام عید سے ایک دو دن پہلے فطرانہ ادا کرتے تھے ۔
افضل وقت عید کی نمازکے لئےنکلنے سے پہلے ادا کرنا ہے کیونکہ فرضیت فطرانہ والی صحیحین کی روایت میں ہے :
وأمَر بها أن تؤدَّى قبلَ خروجِ الناسِ إلى الصلاةِ .(صحیح البخاري:1503)، وصحیح مسلم:984)
نبی ﷺ نے عید کی نماز کے لئے نکلنے سے پہلے لوگوں کو فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔
عید کی نماز کے بعد فطرہ دینے سے ادا نہ ہوگا وہ محض عام صدقہ شمار ہوگا لیکں اگر کسی کے ساتھ بھول ہوگئی یا کسی عذرشرعی کی بنیاد پر تاخیر ہوگئی تو اللہ تعالی ایسے بندوں سے درگذرکرتا ہے ۔

فطرانہ دینے کی جگہ :
اس میں اصل یہی ہے کہ جو جس جگہ رہتا ہے وہیں فطرہ ادا کرے لیکن اگر وہاں فقراء ومساکین موجود نہ ہوں تو فطرہ دوسری جگہ بھیج دے ۔ اسی طرح اگر کسی دوسری جگہ بھجنے میں سخت ضرورت ہو تو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔

فطرانے میں رقم دینا:
یہ ایک اہم مسئلہ جو لوگوں میں جواز اور عدم جواز سے متعلق اختلاف کا باعث بناہوا ہے ۔ احادیث کی روشنی میں یہ مسئلہ واضح ہے ، نبی ﷺ نے فطرانہ کو مسکین کی غذا قرار دیا ہے اورغذا کھائی جانےوالی چیز ہے، نہ کہ رقم ۔
اس لئے فرمان رسول ﷺ پہ چلتے ہوئے اولی و افضل غلے سے ہی فطرہ ادا کرنا ہے ۔ تاہم سخت ضرورت کے تحت فطرے کی رقم دینا بھی جائز ہے ۔ اس کو مثال سے اس طرح سمجھ لیں کہ آج کل فقراء ومساکین جنہیں غلے کی حاجت نہیں ہوتی وہ ہم سے غلہ تو لے لیتے ہیں مگراسے بیچ کر قیمت حاصل کرتے ہیں اورپھر قیمت سے اپنی ضروری اشیاء خریدتے ہیں ۔ ایسے حالات میں بجائے اس کے کہ مسکین کو غلہ بیچنےکی مشقت ملے اور غلے کی کم قیمت حاصل کرنی پڑے ۔ خود ہم ان کی طرف سے وکیل بن کر غلے کی قیمت ادا کردیں۔
واضح رہے یہ صرف ضرورتا ًجائز ہے تاہم اولی و افضل سنت کی تطبیق دینی ہے جو کہ اشیائے خورنی سے فطرہ ادا کرنا ہے ۔

(جاری رہے گا۔ان شاء اللہ )
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
(13) عیدالفطر

عیدالفطر اور اس کا حکم:
دوہجری میں روزہ فرض ہوا، صدقہ الفطر بھی اسی سال واجب ہوا اور اسی سال پہلی مرتبہ عیدالفطر کی نماز ادا کی گئی ۔ نماز عید مسلمانوں پر واجب ہے ، بغیر عذر کے اس سے پیچھے رہ جانے والا گنہگار ہے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ(الكوثر:2)
ترجمہ:اپنے رب كے ليے نماز ادا كرو، اور قربانى كرو.
وجوب کی اصل دلیل صحیحین کی اس حدیث سے ملتی ہے جس میں نبی ﷺ نے حائضہ عورت تک کو عیدگاہ جانے کا حکم دیا ہے۔
یہی موقف شیخ الاسلام ابن تیمیہ،شیخ البانی، شیخ ابن باز، شیخ الحدیث عبیداللہ مبارک پوری وغیرہم کا ہے ۔

عید کا چاند:
رمضان کی انتیسویں تاریخ کو چاند دیکھنے کا اہتمام کرنا چاہئے ۔ واضح رہے کہ رمضان کے چاند کی رویت کے لئے ایک عادل مسلمان کی گواہی کافی ہے مگر رمضان کے علاوہ بقیہ تمام مہینوں کے لئے دو عادل مسلمان کی گواہی ضروری ہے۔۔ جب چاند نظر آئے تو یہ دعا پڑھیں:
«اَللّٰھُمَّ اؑھلَّه عَلَیْنَا بِالْأمْنِ وَالْإیْمَانِ وَالسَّلا مة وَالْإسْلَامِ رَبِّي وَرَبُّك اللّه»(السلسلہ الصحیحہ: 1816)

فطرانے کی ادائیگی :
عید کا نکلنے سے فطرے کا واجبی وقت شروع ہوجاتا ہےلہذا عید کی نماز سے پہلے پہلے فی کس ڈھائی کلو اناج گھر کے چھوٹے بڑے تمام لوگوں کی طرف سے نکال کے فقراء و مساکین کو دیدیں ۔
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ فرض زكاةَ الفطرِ من رمضانَ على كلِّ نفسٍ من المسلِمين ، حرٍّ أو عبدٍ . أو رجلٍ أو امرأةٍ . صغيرٍ أو كبيرٍ . صاعًا من تمرٍ أو صاعًا من شعيرٍ .(صحيح مسلم : 984)
ترجمہ: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے صدقہ فطرکو فرض قرار دیا ہے ایک صاع جو یا کھجور کا، جو ہر آزاد ،غلام ، مرد وعورت اور چھوٹے بڑے مسلمان پر واجب ہے۔

عید کی شب عبادت :
عید کی رات عبادت کرنے سے متعلق ایک روایت بیان کی جاتی ہے ۔ روایت یہ ہے :
عَنْ أَبِي أُمَامَةَ رضي الله عنه عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ قَامَ لَيْلَتَيْ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ۔(ضعيف ابن ماجه:353)
ترجمہ: ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا جس نے عيد الفطر اور عيد الاضحى كى دونوں راتوں كو اجروثواب كى نيت سے اللہ تعالى كے ليے قيام كيا اس كا اس دن دل مردہ نہيں ہو گا جس دن دل مرجائيں گے۔
یہ روایت گھڑی ہوئی ہے ، اس لئے اس سے دلیل نہیں پکڑی جائے گی ۔ اس روایت کو شیخ البانی نے ضعیف ابن ماجہ میں موضوع کہا ہے ، سلسلہ ضعیفہ میں سخت ضعیف کہا ہے ۔ اور دیگر محدثین نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔
گویا عید کی رات عبادت کرنے سے متعلق فضیلت والی کوئی روایت ثابت نہیں ہے ۔ اس کا معنی ہرگز یہ نہ لیا جائے کہ اس دن قیام نہیں کیا جاسکتا ہے ، جس طرح دیگر راتوں میں قیام کرنے کا ثواب ہے اس عموم میں یہ رات بھی داخل ہے ۔

تکبیر:
چاند رات سورج ڈوبنے سے لیکر نماز عید تک تکبیر پڑھنا سنت ہے ، یعنی شب عید سے لیکر خطبہ ختم ہونے تک تکبیرپڑھنا چاہئے ۔گھر میں ہو، بازار میں ہو یا مسجد میں۔مردحضرات بآواز بلند پڑھیں اور خواتین پست آواز میں ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے :
وَلِتُكْمِلُواْ الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ۔(البقرة:185)
ترجمہ: وہ چاہتا ہے کہ تم گنتی پوری کرلو اور اللہ تعالی کی دی ہوئی ہدایت پر اس کی بڑائیاں بیان کرو اوراس کا شکر کرو۔
تکبیرات کے ثابت شدہ الفاظ :
(1)اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ لا إلهَ إلا اللهُ واللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ وللهِ الحمدُ۔
اس کی سند کو علامہ البانی نے صحیح کہا ہے ۔( إرواء الغليل:3/125)
(2) اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ كبيرًا اللهُ أكبرُ وأجلُّ اللهُ أكبرُ على ما هَدَانا۔
اس کی سند کو علامہ البانی نے صحیح کہا ہے ۔( إرواء الغليل3/126)
(3) اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا، اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا، اللَّهُ أَكبرُ كبيرًا۔
اس کو شیخ ابن تیمیہ نے ثابت کہا ہے ۔ ( مجموع الفتاوى:23/326)
(4) اللهُ أكبرُ اللهُ أكبرُ ، اللهُ أكبرُ كبيرًا۔
حافظ ابن حجر نے اسے تکبیرکا سب سے صحیح صیغہ جو ثابت ہے کہا ہے ۔(فتح الباري :2/462) .
(5) اللهُ أكبرُ كبيرًا . والحمدُ لله كثيرًا . وسبحان اللهِ بكرةً وأصيلًا۔(صحيح مسلم:601)
یہ ایک عام تکبیر ہے مگر اس کے پڑھنے سے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
تکبیر میں یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ اجتماعی طور پر تکبیر کہنا یعنی سب یک آواز ہوکر بدعت ہے ۔

عید کا روزہ :
عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے۔ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
نهى عن صيامِ يومَينِ : يومِ الفطرِ ويومِ النَّحرِ .(صحيح مسلم:1138)
ترجمہ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دنوں عید الفطر اور عیدالاضحی کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایاہے۔


غسل، لباس اور خوشبو :
عید کے دن غسل کرنا مستحب ہے ۔ بہتر ہے فجر کی نماز کے بعد غسل کرے، اگرکسی وجہ سے اس سے پہلے غسل کرلیا تو بھی کوئی حرج نہیں۔
اسی طرح عمدہ یا صاف ستھرا لباس لگانا چاہئےجیساکہ نبی ﷺ سے عید کے دن خوبصورت چادر اوڑھنے کا ذکر ملتاہے اور خوشبو نبی ﷺکو بہت پسند تھی اس لئے ہمیں بھی اسے پسند کرنا چاہئے۔

عید کے دن کھانا:
کھجوریں کھاکر عید گاہ جانا مسنون ہے ۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم لا يَغْدُو يوْمَ الفِطْرِ حتَّى يَأْكُلَ تَمَراتٍ(صحيح البخاري:953)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن کھجوریں تناول فرمائے بغیر نہ نکلتے۔
طاق کھجوریں کھاکر عید گاہ جانا چاہئے جیساکہ دوسری روایات سے پتہ چلتا ہے اور کھجور میسر نہ ہو تو جو بھی ملے کھالے ۔

عیدگاہ پیدل جانا:
پاپیادہ عیدگاہ جانا چاہئے اور اسی طرح واپس آنا چاہئے ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كان رسولُ اللهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يخرجُ إلى العيدِ ماشيًا ويرجعُ ماشيًا(صحيح ابن ماجه:1078)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ پیدل جاتے پیدل ہی واپس تشریف لاتے ۔
ضرورتمند آدمی سواری پہ سوار ہوسکتا ہے ۔
واپس لوٹتے ہوئے راستہ بدل دینا چاہئے ۔ جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
كان النبيُّ صلى الله عليه وسلم ، إذا كان يومُ عيدٍ ، خالف الطريقَ.(صحيح البخاري:986)
ترجمہ:عيد كے دن رسول كريم صلى اللہ عليہ سلم مختلف راستے پر چلتے۔
راستے کی مخالفت کی حکمت سے متعلق بہت سارے اقوال ملتے ہیں ، سب سے اچھا جواب شیخ ابن عثیمین کا ہے کہ اس کی حکمت نبی ﷺ کی اتباع اور پیروی ہے ۔

عیدگاہ:
عید کی نماز صحرا میں ادا کی جائے البتہ ضرورت کے تحت مسجد میں بھی ادا کی جاسکتی ہےجیساکہ بارش کی وجہ سے نبی ﷺ نے مسجد میں عید کی نماز پڑھی ہے ۔

عید کی نماز اور خواتین:
نبی ﷺ نے عورتوں کو عید کی نماز پڑھنے کا حکم دیا لہذا خواتین کو نماز عید میں شریک ہونا چاہئےخواہ بوڑھی ہو جوان، شادی شدہ ہو یا غیرشادی شدہ اور بالغہ ہو یا نابالغہ یہاں تک آپ ﷺ نے حائضہ کو بھی عیدگاہ جانے کا حکم دیا تاکہ وہ مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوسکے ۔
عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْها قَالَتْ : أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نُخْرِجَهُنَّ فِي الْفِطْرِ وَالأَضْحَى الْعَوَاتِقَ وَالْحُيَّضَ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ ، فَأَمَّا الْحُيَّضُ فَيَعْتَزِلْنَ الصَّلاةَ وَيَشْهَدْنَ الْخَيْرَ وَدَعْوَةَ الْمُسْلِمِينَ . قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، إِحْدَانَا لا يَكُونُ لَهَا جِلْبَابٌ . قَالَ : لِتُلْبِسْهَا أُخْتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا .(صحیح البخاري :324وصحیح مسلم :890)
ترجمہ: حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا کہ عورتوں کو عید الفطر اور عید الاضحی میں عید گاہ لے جائیں جوان لڑکیوں ،حیض والی عورتوں اور پردہ نشین خواتین کو بھی ، ہاں حیض والی عورتیں نماز سے الگ رہیں لیکن وہ اخیر میں مسلمانوں کی دعا میں شریک ہوں ،میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے کسی ایک کے پاس جلباب نہ ہوتو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی بہن اس کو اپنی چادر اڑھادے۔
اس لئے عید کے دن خواتین کے لئے افضل ہے کہ وہ عیدگاہ جائیں ۔ ذمہ داروں کو چاہئے کہ خواتین کے لئے الگ سے خیمے کا انتظام کرے تاکہ خواتین بھی مردوں کے ساتھ عید کی نماز پڑھ سکے ۔ خواتین کا الگ سے عید کی نماز ادا کرنا مشروع نہیں ہے ۔

نماز عید کا طریقہ:
٭عیدگاہ میں عید کی نماز سے پہلے یا اس کے بعد کوئی نماز نہیں ہے ، اسی طرح عید کی نماز کے لئے اذان و اقامت بھی نہیں ہے ۔
٭اگر مسجد میں عید کی نماز ادا کرے تو تحیۃ المسجد ادا کرے ۔
٭ نماز عید صرف دو رکعت ہے ۔ پہلی رکعت میں سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں پڑھے ۔
٭تکبیرات عید پہ رفع یدین کرنا چاہئے حدیث سے ثابت ہے ۔

خطبہ عید:
نماز کے بعد امام مرد و خواتین کو وعظ و نصیحت کرے ۔ خطبہ صحیح قول کی روشنی میں سنت ہے، واجب نہیں ہے ۔ عید کی نماز کےبعد نبی ﷺ نے فرمایا تھا: مَن أحبَّ أن ينصرفَ فلينصرِفْ ، ومن أحبَّ أن يُقيمَ للخطبةِ فليُقِمْ۔(صحيح النسائي:1570)
ترجمہ: جو لوٹنا پسند کرے وہ لوٹ جائے اور جو خطبہ کے لئے رکنا چاہے وہ رک جائے۔
٭ جمعہ کی طرح اس کا سننا واجب نہیں لیکن وعظ ونصیحت کو سنے بغیر جانا بھی نہیں چاہئے۔
٭ عید کا ایک ہی خطبہ حدیث سے ثابت ہے ۔
٭ خطبہ کھڑے ہوکر دینا ہے اور بغیر منبر کے دینا ہے ۔
٭ خطبہ کے بعد یا نماز عید کے بعد اجتماعی دعا کا ثبوت نہیں ملتا لہذا اس نئی ایجاد سے بچنا چاہئے۔


جمعہ کے دن عید کی نماز:

اگر جمعہ کے دن عید کی نماز پڑجائے تو اس دن جمعہ کی نمازبھی پڑھ سکتے ہیں یاپھر ظہر ہی ادا کرنا کافی ہوگا۔
اجتمعَ عيدانِ على عَهدِ رسولِ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ فصلَّى بالنَّاسِ ثمَّ قالَ من شاءَ أن يأتيَ الجمعةَ فليأتِها ومن شاءَ أن يتخلَّفَ فليتخلَّف(صحيح ابن ماجه:1091)
ترجمہ : ابن عمر رضي الله عنهما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ساتھ دو عید پڑگئیں (یعنی عید اور جمعہ)، تو آپ نے عید کی نماز پڑھانے کے فرمایا کہ: جو شخص جمعہ پڑھنا چاہے توپڑھ لے، اور جو نہیں پڑھنا چاہتا ہے تو وہ نہ پڑھے۔

نمازعید اور قضا:
٭ اگر کسی کو ایک رکعت مل جائے تو اس نے عید کی نماز پالی ،جو آخری رکعت کے سجدہ یا تشہد میں امام کے ساتھ ملے تو وہ عید کی نماز کی طرح نماز ادا کرلے ۔
٭ اگر کسی کی عید کی نماز چھوٹ جائے تو عید کی نماز کی طرح ادا کرلے ، چند لوگ ہوں تو جماعت قائم کرلے ۔جنہوں نے کہا نمازعید کی قضا نہیں صحیح بات نہیں ہے ۔ قضا کا بھی آثار سے ثبوت ملتا ہے ۔ نیز جس اثر سے قضا کی صورت میں چار رکعت پڑھنے کا ذکر ملتا ہے اسے شیخ البانی نے ارواء الغلیل میں منقطع قرار دیا ہے ۔ قضاکرتے ہوئے دو رکعت ہی ادا کرے اور خطبہ عید چھوڑدے۔

عید کی مبارکبادی:
عید کے دن ایک دوسرے کو بایں الفاظ مبارکبادی دی جائے :تقبل اللہ منا ومنک( اللہ تعالیٰ ہم سب کی عید اور دیگر اعمال صالحہ قبول فرمائے)۔
كان أصحابُ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إذا الْتَقَوْا يومَ العيدِ يقولُ بعضُهم لبعضٍ : تَقَبَّلَ اللهُ مِنَّا ومنكَ۔
جبير بن نفير(تابعی) بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام عيد كے روز جب ايك دوسرے كو ملتے تو ايك دوسرے كو كہتے"تَقَبَّلَ اللَّهُ مِنَّا وَمِنْك" (اللہ تعالى مجھ اور آپ سے قبول فرمائے).
اس کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے ۔(تمام المنة:354)
حافظ ابن حجر نے اسے حسن کہا ہے (فتح الباری )

عید کے دن معانقہ و مصافحہ:
شيخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:نماز عيد كے بعد مصافحہ اور معانقہ كرنے كا حكم كيا ہے ؟
توانہوں نے جواب دیا:ان اشياء ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ لوگ اسے بطور عبادت اور اللہ تعالى كا قرب سمجھ كر نہيں كرتے، بلكہ لوگ يہ بطور عادت اور عزت و اكرام اور احترام كرتے ہيں، اور جب تك شريعت ميں كسى عادت كى ممانعت نہ آئے اس ميں اصل اباحت ہى ہے۔ اھ
ـ(مجموع فتاوى ابن عثيمين : 16 / 208- 210 )

عیدکے دن کھیل:
عید کے دن خوشی کے اظہار میں جائز کھیل کا مظاہرہ کرے تو کوئی مضائقہ نہیں۔عید کے دن حبشہ کے لوگوں کا ڈھالوں اور برچھوں سے کھیلنا ثابت ہے ۔ آپ ﷺ نے بھی اس کھیل کو دیکھا اور ان حبشیوں کو مزید کھیلنے کو کہا۔ یہ حدیث بخاری شریف میں کتاب العید کے تحت مذکور ہے ۔

 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
(14) شوال کے چھ روزے

رمضان المبارک کا روزہ ختم ہونے کے بعد شوال کے چھ روزوں کی صحیح احادیث ترغیب ملتی ہے ۔ ان چھ روزوں کی بڑی فضیلت آئی ہے ۔ تزکیہ نفس، عمل پہ مداومت اور مسلسل عبادات مومن کی میراث ہے ۔جہدمسلسل کے ذریعہ بندہ معمولی عمل سے رب کو پالیتاہے اور اس کی رضا حاصل کرکے رحمت ومغفرت کا مستحق بن جاتاہے ۔ شوال کے چھ روزے بھی انہیں غنیمت کے اعمال میں سے ہیں اسے ہمیں لازم پکڑنا چاہئے ۔
شوال کے چھ روزے کی دیکھیں۔

عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، - رضى الله عنه - أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ ‏"‏ مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ(صحيح مسلم:1164)
ترجمہ: ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیاکہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ ہمیشہ روزے رکھنے (کے ثواب)کی طرح ہیں۔

قرآن کے اس فرمان : مَن جَاء بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا وَمَن جَاء بِالسَّيِّئَةِ فَلاَ يُجْزَى إِلاَّ مِثْلَهَا وَهُمْ لاَ يُظْلَمُونَ(الانعام :160)
ترجمہ: جو شخص نیک کام کرے اس کو اس کے دس گنا ملیں گے اور جو شخص برا کام کرے گا اس کو اس کے برابرہی سزا ملے گی اور ان لوگوں پر ظلم نہ ہوگا۔

کی روشنی میں پتہ چلتا ہے کہ ایک نیکی کا بدلہ کم ازکم دس نیکیاں ہیں اس طرح ایک مہینے کے روزے کا اجر دس مہینوں کے برابرہوا۔ اور شوال کے ہرروزے کے بدلے دس دن کا ثواب ، چھ روزوں کا بدلہ ساٹھ یعنی دومہینوں کا ثواب بنتاہے ۔ اس طرح شوال کے چھ روزوں کو رمضان کے ساتھ ملانے سے سال بھر کا ثواب ملتاہے ۔
ایک دوسری حدیث میں اس بات کی صراحت بھی ملتی ہے ۔ چنانچہ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:

صِيامُ شهْرِ رمضانَ بِعشْرَةِ أشْهُرٍ ، و صِيامُ سِتَّةِ أيَّامٍ بَعدَهُ بِشهْرَيْنِ ، فذلِكَ صِيامُ السَّنةِ(صحيح الجامع:3851)
ترجمہ:رمضان کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں اس کے بعد چھ روزے دو مہینوں کے برابر ہیں ، اس طرح سے پورے سال کے روزے بنتے ہیں۔
اس لئے اسے رکھنے کی کوشش کریں فضیلت بھی ملے گی اور بڑے فوائد بھی حاصل ہوں گے ۔ یہ گناہوں کی مغفرت ، تزکیہ نفس، رمضان کی کوتاہی کا تدارک ، شکر الہی کی غنیمت ، مداومت اعمال کا شوق اور اللہ کا پسندیدہ عمل ہے جس پہ دوام کیاگیا۔

کیا شوال کے روزے مکروہ ہیں؟
اس سلسلے میں امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ نے حدیث کی روشنی میں شوال کے چھ روزے رکھنا صحیح قرار دیا ہے مگر امام حنیفہ رحمہ اللہ نے اسے مکروہ کہاہے ۔ فتاوی عالمگیری اردو،کتاب الصوم کے تحت مذکور ہے "شوال کے چھ روزے رکھنا امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک مکروہ ہے خواہ جداجدا رکھے یا پے درپے رکھے۔"۔ امام مالک ؒ کی طرف بھی کراہت کا قول منسوب کیاجاتاہے ۔
ان دونوں اماموں کا مسلک صحیح حدیث کے خلاف ہے ، اس وجہ یہ بات رد کردی جائے اور ایسی کوئی بھی بات خواہ اس کا قائل کوئی بھی ہو سنت کے خلاف ہونے پہ دیوار پہ مار دے جائے گی جیساکہ امام مالک ؒ نے کہا بھی ہے ۔
نبی ﷺ کے سواباقی ہر انسان کی بات قبول بھی کی جاسکتی اور رد بھی۔﴿ارشاد السالک لابن عبدالہادی :1/227 ﴾

شوال کے چھ روزوں کے مسائل
٭ یہ روزے شوال کے مہینے میں ہی رکھنے ہوں گے خواہ مسلسل رکھے جائیں یا ناغہ کرکے ، دونوں صورتیں جائز ہیں کیونکہ اس سلسلے کی حدیث عام ہے۔

٭ جن کے اوپر رمضان کے روزوں کی قضا بیماری، سفریا حیض ونفاس کی وجہ سے ہو انہیں پہلے قضا روزے ادا کرنے ہوں گے کیونکہ قضا فریضہ ہے اور یہ نفلی ۔ فریضہ کونفل پہ تقدم حاصل ہے ۔

٭یہ روزہ نفلی ہے اس کے لئے بیوی کو شوہر کی اجازت لینے کی ضرورت ہے ، اگر شوہر منع کرے تو رک جائے ۔ اسی طرح حاملہ یا مرضعہ کے لئے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتو نہ رکھنا بہترہے۔

٭بعض لوگوں نے عید کے فوراً بعد روزہ رکھنا لکھا ہے حالانکہ اس میں وسعت ہے ، کچھ بعد بھی رکھ سکتے ہیں تاہم مستحب یہی ہے کہ رمضان سے ملاکر رکھے ۔

٭بعض لوگ ایک دو روزہ رکھ کے چھوڑ دیتے ہیں ، اس سے شوال کے چھ روزوں کی فضیلت نہیں مل پائے گی ۔ہاں اگر کوئی ایک دو روزہ رکھا اور بیمار پڑگیا ،مزید روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رہی تو ایسے بندوں کو اللہ تعالی مکمل اجر دے گا۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا مرضَ العبدُ ، أو سافرَكُتِبَ له مثلُ ما كان يعملُ مُقيمًا صحيحًا(صحيح البخاري:2996)
ترجمہ: اگر بندہ بیمار ہوگیا یا سفر درپیش ہوگیا تو اس کو اتنا ہی اجر ملے جتنا حالت اقامت اور تندرستی میں عمل کرتا تھا۔

٭ روزوں کے سلسلہ میں ایک بات یہ بھی یاد رکھنی ہے کہ نبی ﷺ نے صرف ہفتے یا صرف جمعہ کا روزہ رکھنا منع کیا البتہ ایک روزہ آگے یا پیچھے کرکے رکھاجاسکتاہے ۔ سوموار اور جمعرات کا اکیلا اکیلا روزہ نبی ﷺ سے ثابت ہے بلکہ بہت بہتر ہے کیونکہ اس دن اعمال اللہ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں۔

٭ عید کے دن بھی روزہ رکھنا منع ہے اس لئے عید کے بعدسے روزہ رکھا جائے ۔

٭ بعض علماء نے لکھا ہے کہ جنہوں رمضان کا مکمل روزہ نہیں رکھا چاہے عذرشرعی کیوں نہ ہواسے شوال کے چھ روزوں کا ثواب نہیں ملے گا۔یہ رائے درست نہیں ہےکیونکہ حدیث رمضان کا مکمل روزے رکھنے کی بات ہے خواہ قضاکرکے مکمل ہو۔ اللہ تعالی بندوں پر آسانی کرنے والا ہے وہ عذرپہ مواخذہ نہیں کرتا اور عذر کی وجہ سے صحتمندی میں کئے جانے والے عمل کے برابر ثواب دیتا ہے ، اس لئے اللہ سے رحمت کی ہی امید کرنی چاہئے۔

٭ اگر رمضان کے بعض روزوں کی قضا باقی ہو تو ایک ہی نیت سے قضا اور شوال کے چھ روزوں کو جمع کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ شوال کے روزوں کی فضیلت ان کے لئے ہے جو رمضان کا مکمل روزہ رکھے ۔اس طرح پہلے وہ قضا رکھ کر رمضان کا روزہ مکمل کرے پھر شوال کے چھ روزے رکھے ۔

٭ ایام بیض کے ساتھ ایک نیت سے یہ روزہ رکھا جاسکتا ہے جیساکہ اہل علم نے لکھا ہے۔

٭ چھ روزے اگر شوال میں نہ رکھ سکے تو اس کی قضا دوسرے مہینوں میں نہیں ہے کیونکہ یہ روزہ شوال سے ہی متعلق ہے البتہ کسی نے بعض روزے رکھے مثلا پانچ اور ایک روزہ کسی عذر شرعی کی وجہ سے چھوٹ کیا تو بعد والے مہینے میں ایک مکمل کرلے اور اللہ تعالی سے رحمت کی امید رکھے ۔




 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
رمضان کے بعد ہماری عملی زندگی
ایک مقدس ،پربہاراورنیکیوں سے لبریزمہینہ جیسے لگا پل بھرمیں ہم سے رخصت ہوگیا ۔اس عظیم الاجرمہینے سے اجتہاد کرنے والا حسب جہدوتوفیق نیکیوں سے اپنا دامن بھرتارہا۔ اب وہ دن نہیں رہے کہ نیکیاں لوٹ سکیں، وہ لمحے رخصت ہوگئے جورب کو بیحد عزیزتھے۔مگریاد رکھیں اللہ تعالی کا کرم عام ہے وہ کبھی سخاوت وکرم کا دروازہ بند نہیں کرتا۔ مانگنے والے ہمیشہ پاتے رہیں گے، التجاکرنے والے سدا امیدبرآ ہوتےرہیں گے ۔ یہاں ہمیں سوچنا یہ ہے کہ جب واقعی رب کریم ہے ، اس کا کرم عام ہے، اس پر ہمارا ایمان ہے تو پھراس کے فیض عام سے کیسے ہمیشہ لطف اندوزہواجائے؟
ہمیں یاد ہے کہ استقبال رمضان کے لئے ہم نےایک بہترین لائحہ عمل مرتب کیاتھا۔ وہی لائحہ عمل بعدِرمضان بھی مرتب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زندگی کے اوقات آئین اسلام کے مطابق گذرتے رہیں ۔ دراصل زندگی میں وہی لوگ ناکام ہوتے ہیں جن کا کوئی لائحہ عمل نہیں ہوتا۔ اسلام کا آئین ہمیں صبح سے شام تک اور رات سے دن تک چوبیس گھنٹے کا ایک دستور دیتا ہے جس کے مطابق بندہ صبح صادق میں ہی بیدار ہوکررب کی بندگی وذکر کرکے توکل واعتماد کے ساتھ کسب معاش کے لئے اللہ کی زمین میں پھیل جاتاہے پھر مقدر کی روزی لیکر واپس ہوجاتاہے ۔ سونے سے پہلے بھی رب کی بندگی بجالاتاہے اور اٹھ کر بھی پہلے رب کی بندگی کرتاہے پھر زندگی کے لئے سوچتاہے ۔ یہ شب وروز کی اسلامی طرززندگی انسان کو رب کی رضامندی کے ساتھ دنیا کی خیروبھلائی سے بھی پوری طرح لطف اندوزہونے کا موقع میسر کرتاہے ۔
رمضان ہمارے لئے انعام الہی بن کرآیاتھا، وہ اب دوبارہ نصیب ہوپائے گا نہیں کہ یہ رب کی توفیق پہ منحصر ہے لیکن رب کے فرمان میں لکھاہے، اس کی نعمت ملنے پہ شکرگذاری سے وہ نعمت دوبارہ مل سکتی ہے۔

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ ۖ وَلَئِن كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدٌ (ابراہیم: ۷)
ترجمہ: اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔
یہ حق بھی ہے کہ نعمت پہ شکرگذاری کریں ورنہ ناقدری سے کفران نعمت کا شکار ہوجائیں گے اور اللہ کی پکڑ کے ساتھ زوال نعمت کے سزاوار ٹھہریں گے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (البقرہ: ۱۵۲)
ترجمہ: لہٰذا تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، کفران نعمت نہ کرو ۔
نیز فرمان الہی ہے:
مَّا يَفْعَلُ اللَّهُ بِعَذَابِكُمْ إِن شَكَرْتُمْ وَآمَنتُمْ
ۚ وَكَانَ اللَّهُ شَاكِرًا عَلِيمًا (النساء:147)
ترجمہ: آخر اللہ کو کیا پڑی ہے کہ تمہیں خواہ مخواہ سزا دے اگر تم شکر گزار بندے بنے رہو اور ایمان کی روش پر چلو اللہ بڑا قدر دان ہے اور سب کے حال سے واقف ہے۔
شکرگذاری یہ ہے کہ ہم رب کی حمدوثنا بیان کریں ، اس کی نعمت کی قدردانی اور عظمت کا احساس ہمیشہ دل میں بسائے رکھیں اور جو جو نعمتیں میسرہوئیں سب کے بدلے رب کا گن گاتے پھریں۔ شکر گذاری کا سب سے اہم درجہ ہمیشہ اللہ کا ذکر کرتے رہنا ہےجس کا ذکر اللہ تعالی نے اس آیت میں کیا ہے ۔
الَّذِينَ آمَنُواْ وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ أَلاَ بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ(الرعد:28)
ترجمہ: جولوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں ، یاد رکھو اللہ کے ذکر سے دلوں کوتسلی حاصل ہوتی ہے۔
اللہ کے ذکر سے مراد اس کی توحید کا بیان ہے جس سے مشرکوں کے دلوں میں انقباض پیدا ہوجاتا ہے ، یا اس کی عبادت ، تلاوت قرآن ، نوافل اور دعاومناجات ہے جواہل ایمان کے دلوں کی خوراک ہے یا اس کے احکام وفرامین کی اطاعت وبجاآوری ہے جس کے بغیر اہل ایمان وتقوی بے قرار رہتے ہیں۔ (تفسیراحسن البیان)
اور اللہ کا ذکر ہی سب سے بڑا ہے ۔
اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ(العنكبوت:45 ).
ترجمہ: جوکتاب اللہ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کریں ۔یقینا نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ، بے شک اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے ، تم جو کچھ کررہے ہواس سے اللہ خبردارہے ۔

رمضان المبارک کا لائحہ عمل ہمیں اچھی طرح معلوم ہی ہے اسے بس دوام بخشنا ہے ۔وہی نماز، اسی طرح نفلی روزے(شش عیدی روزے،عشرہ ذی الحجہ کے روزے،صوم عرفہ، عاشورائے محرم ،ایام بیض، سومواراورجمعرات کے روزے) ،قیام اللیل، دعاومناجات،تسبیح وتہلیل،صدقہ وخیرات،تلاوت وتدبرقرآن، دروس وبیانات کی سماعت ، احکام ومسائل کی معرفت اور طاعت وبھلائی پہ محنت ومشقت مسلسل ہوتے رہنا چاہئے ۔ ان چیزوں پہ جم جانے اور تسلسل کے ساتھ قائم رہنے کا نام استقامت ہے ۔
اپنے لائحہ عمل میں استقامت لے آئیں گے تو رمضان کے فیوض وبرکات سال بھر ملتے رہیں گے ۔ استقامت ہی ایمان والوں سے مطلوب ہے ۔ اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے:

فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ [هود: 112]
ترجمہ: پس اے محمد!تم اور تمہارے وہ ساتھی جو (کفر و بغاوت سے ایمان و طاعت کی طرف) پلٹ آئے ہیں، ٹھیک ٹھیک راہ راست پر ثابت قدم رہو۔
دوسری جگہ ارشادالہی ہے:
فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ [فصلت: 6]
ترجمہ:تم سیدھے اُسی کا رخ اختیار کرو اور اسی سے استغفار کرو۔
اس وقت زمانہ نہایت پرفتن ہے ، ایمان والوں کو اپنا ایمان بچانا اور سنت کے مطابق زندگی گذارنا بہت دشوار ہوگیاہے ۔ صبح میں مومن شام میں کافر ایسامنظر برپاہوگیاہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بَادِرُوا بِالْأَعْمَالِ فِتَنًا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا أَوْ يُمْسِي مُؤْمِنًا وَيُصْبِحُ كَافِرًا يَبِيعُ دِينَهُ بِعَرَضٍ مِنْ الدُّنْيَا . ( صحيح مسلم:118)
ترجمہ: نیک اعمال کرنے میں جلدی کیا کرو۔ فتنے رات کی تہہ در تہہ تاریکی کی طرح امڈتے چلے آئیں گے۔کئی مومن بھی صبح کے وقت ایمان کی حالت میں ہوں گے اور شام کفر کے عالم میں کریں گے۔ دنیا کی حقیر متاع کے لیے دین کا سودا کرلیں گے۔
ایسے حالات میں دین پہ استقامت ہی ہمارے ایمان کو شروفساد اور فتنہ زمانہ سے محفوظ کرسکتاہے ۔ مجھے نبی ﷺ کا ایک فرمان یاد آرہاہے ۔
عن سفيان بن عبد الله رضي الله عنه ، قال : قلت : يا رسول الله ، قل لي في الإسلام قولا لا أسأل عنه أحدا غيرك ، قال : قل آمنت بالله ، ثم استقم (رواه مسلم ح :38).
ترجمہ: سفیان بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں سے کہا اے اللہ کے رسولﷺ ! مجھے اسلام کی ایک ایسی بات بتلائیں کہ پھرآپ کے بعد کسی سے اس کے متعلق سوال نہ کروں۔تو آپ ﷺ نے فرمایا: کہو میرا رب اللہ ہے اور اسی پر قائم رہو۔
اگرواقعی ہم استقامت کی راہ اختیار کریں گے تو اللہ تعالی اس کے بدلے ہمیں جنت نصیب کرے گا۔
إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ﴿فصلت: 30﴾
ترجمہ: (واقعی) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار اللہ ہے پھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے (یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ تم کچھ بھی اندیشہ اور غم نہ کرو (بلکہ) اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم وعده دیئے گئے ہو۔
استقامت سے ہمیں خودبخود برائی سے چھٹکارا ملے گا۔ شیطان ہم سے دور بھاگےگا ،کبھی اس کے بہکاوے کا شکار نہیں ہوں گے ، اوصاف رذیلہ (غیبت،دھوکہ،عیاری،بدقماشی،بے ایمانی وغیرہ) سے نجات ملے گی ، ظلم وبغاوت سے دل میں تنفر پیداہوگا۔
اللہ تعالی ہمیں دین پر استقامت نصیب فرمائے ۔ آمین
 
Top