• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان کے بعد کی نصیحت کیا ہے ؟

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
الحمد للہ
کیا روزے دار رمضان کے بعد بھی اسی حالت پر رہتا ہے جس پر وہ رمضان المبارک میں تھا ؟ یا کہ وہ اس عورت کی طرح کرتا ہے جس نے سوت کاتا اورکاتنے کے بعد پھر اسے توڑ ڈالا ؟
توکیا وہ جورمضان المبارک میں روزہ دار ، اورقرآن مجید کا قاری اورتلاوت کرنے والا ، اورصدقہ و خیرات کرنے والا ، راتوں کوقیام کرنے والا اوردعوتی کاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لینے والا تھا ۔
کیا وہ رمضان کے بعد بھی اسی حالت پر رہے گا یا کہ کسی اورراہ یعنی شیطان کے راستے کا راہی بنتا ہوا معاصی وگناہوں کا ارتکاب کرنے لگے گا جواللہ ورحمن کے غضب کا باعث ہوں ؟
بلاشبہ رمضان کے بعد مسلمان کا اعمال صالح کرنے پرصبر کرنا اوراسی حالت پر باقی رہنا اللہ کریم ومنان کےہاں رمضان المبارک کے روزے قبول ہونے کی علامت ہے ۔
اوررمضان المبارک کے بعد اعمال صالحہ ترک کرنا اورشیطان کے راستوں پرچلنا ذلت ورسوائ اورحقارت وگھٹیا پن ہے ، جیسا کہ حسن بصری رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے :
( وہ اس پرذلیل ہوگۓ تواس کی نافرمانی شروع کردی اوراگر وہ اس کے ہاں عزت والے ہوتے تو وہ انہيں اس سے بچا لیتا ) اورجب بندہ اللہ تعالی کے ہاں ذلیل ورسوا ہوجاتا ہے توکوئ بھی اس کی عزت نہیں کرتا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ جسے اللہ عزوجل ذلیل کردے اسے کوئ بھی عزت دینے والا نہیں ہے } الحج ( 18 ) ۔
تعجب تو اس بات پر ہوتا ہے کہ بعض لوگ رمضان المبارک میں روزے رکھتے قیام کرتے ہیں اوراللہ تعالی کے راستےمیں صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں اوررب العالمین کی اطاعت بھی بہت زيادہ کرتے ہیں لیکن جیسے ہی رمضان المبارک کا مہینہ گزرا تو ؟
ان کی فطرت بدل جاتی ہے اوراپنے رب کے ساتھ ان اخلاق اورہی ہوجاتاہے آپ دیکھيں کہ وہ نہ تو نماز پڑھتا ہے اورنہ ہی اعمال صالحہ میں وہ کثرت اورتيزی رہتی ہے بلکہ ان میں قلت آجاتی اوروہ ان سے بھاگنے لگتا ہے ۔
وہ معاصی اورگناہ کا ارتکاب کرنے لگتا ہے اوروہ کئ انواع واقسام میں اللہ تعالی کی معصیت ونافرمانی کرنے لگتا اور اللہ مالک الملک جوکہ قدوس السلام بھی ہے کی اطاعت وفرمانبرداری سے دوربھاگتا ہے ۔
اللہ کی قسم وہ لوگ توبہت ہی برے ہيں جواللہ سبحانہ وتعالی کوصرف رمضان المبارک میں ہی پہچانتےہیں ۔
مسلمان پرضروری ہے کہ وہ رمضان المبارک کے بعد زندگی کاایک نیا صفحہ کولھے جس میں اللہ تعالی کی طرف توبہ ورجوع اورہروقت اورہر گھڑی میں اللہ تعالی کی اطاعت ومراقبہ کرتا رہے ، تواس طرح ہرمسلمان شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستقل طور پراللہ تعالی کی اطاعت کرتا رہے اورہرگناہ ومعصیت کے کام سے بچے اوررمضان المبارک میں جواطاعات واللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کی کوشش کرتا اسے رمضان کے بعد بھی جاری رکھے ۔
اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے :
{ دن کے دونوں حصوں میں نماز کی پابندی کرتے رہو اوررات کی گھڑیوں میں بھی نمازپڑھا کرو یقینا نیکیاں برائيوں کومٹا ڈالتی ہيں ، یہ نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے ہی نصیحت ہے } ھود ( 114 ) ۔
اورنبی مکرصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اوربرائ ہوجاۓ توبعد میں نیکی کیا کرو اس برائ کو وہ ختم کردے گی ، اورلوگوں سے حسن اخلاق سے پیش آيا کرو ) ۔
اس میں کوئ شک وشبہ نہیں کہ اللہ تعالی نے مخلوق کوجس مقصد کے لیے پیدا فرمایا ہے وہ صرف اورصرف اپنی وحدہ لاشریک کی عبادت ہے ، جوکہ ایک عظیم بلند اوراعلی مقصد ہے ، اوروہ یہی ہے کہ ہم عبودیت صرف اللہ عزوجل کی بجالائيں ۔
ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان المبارک میں یہ کام بہت اچھے اندازمیں ہوتا ہے اوردیکھتے ہیں کہ لوگ جوق درجوق اکیلے اورگروپوں میں مساجد کا رخ کرتے ہيں ، ہم نے یہ بھی دیکھا کے وہ فرائض کی ادائیگي میں بھی وقت کی پابندی کرتے اورصدقہ وخیرات کرنے پرحریص ہوتے ہیں ۔
نیکی وبھلائ اورخیر کےکاموں میں ایک دوسرے سے سبقت لےجانے کی کوشش کرتے اوران میں جلدی کرتے ہیں اوراسی چيزمیں سبقت لےجانےوالوں کو سبقت لے جانی چاہیے ، اورایسا کام کرنے والے ان شاء اللہ ماجور ہے ۔
لیکن اب ایک چيز باقی ہے کہ اس نیکی اوربھلائ پر دنیا وآخرت کی زندگی میں کون ثابت قدم رہتا ہے اوراللہ تعالی کسے ثابت قدمی عطا کرتا ہے ، تورمضان المبارک کے بعد اللہ تعالی جسے اعمال صالحہ پر ثابت قدم رکھے اس کے لیے بہت بڑي کامیابی ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
{ تمام تر صاف ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہيں اورنیک و صالح اعمال ان کوبلند کرتا ہے جولوگ برائيوں کے دا‎ؤ گھات میں لگے رہتے ہيں ان کے لیے سخت تر عذاب ہے اوران کا مکر برباد ہوجاۓ گا } فاطر ( 10 ) ۔
اوراس میں کوئ شک وشبہ نہيں کہ ہروقت اوردورمیں اعمال صالحہ اللہ تعالی کے قرب کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ، پھریہ بھی ہے کہ جورب رمضان المبارک کا ہے وہی رب جمادی اورشعبان وذی الحجہ اورمحرم اورصفر اورباقی سارے مہینوں کا بھی ہے ۔
اس اس لیے کہ اللہ تعالی نے ہمارے جوعبادت مشروع کی ہے وہ اسلام کے پانچ ارکان میں ہے جن میں رمضان المبارک کے روزے بھی ہیں جوایک وقت محدد میں آتے ہيں ، تواس طرح باقی ارکان حج زکاۃ ونماز وغیرہ میں بھی ہم اللہ تعالی کے سامنے جواب دہ ہيں ۔
لھذا ہمیں وہ بھی کما حقہ ادا کرنا ضروری ہیں تا کہ اللہ تعالی کی رضا حاصل ہو اورپھرہمیں اس کی کوشش کی کرنی چاہیۓ کہ اللہ تعالی نے ہمیں جس مقصد کے لیے پیدا فرمایا ہے وہ بھی پورا ہو ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
{ اورمیں نے توجنوں اورنسانوں کوصرف اپنی عبادت کے لیے ہی پیدا فرمایا ہے } الذاریات ( 56 ) ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نےبھی اپنے صحابہ کرام کو نیکی اوربھلائ کے کاموں میں سبقت لےجانے اورایک دوسرے سے آگے نکلنے کی راہنمائ کرتے ہوۓ کچھ اس طرح فرمایا :
{ کچھ درہم دینار سےبھی سبقت لےجاتے ہیں ۔۔۔۔ } ۔
اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ اگر صدقہ کرنے والا صحت مند اورصحیح ہو اوراسے فقر کابھی کا خدشہ ہو تواس وقت کا کیا ہوا صدقہ اللہ تعالی کے ہاں بہت زيادہ وزن رکھتا ہے اوراس کے اعمال صالحہ میں وزن کا باعث ہوگا ۔
لیکن وہ جوصدقہ کرنے کوٹالتا رہتا اورکہتا ہے کہ میں عنقریب صدقہ کروں گا لیکن کرتا نہيں اورجب اسے بیماری آدبوچتی ہے تو کہتا ہے کہ فلاں کواتنا دے دو اورفلاں کواتنا اورفلاں کواتنا دے دو ، تو اس طرح کے آدمی کے بارہ اللہ بچاۓ کہ اس کے اعمال کورد کردیاجاۓ اوراس کے اعمال تبار ہوجائيں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :
{ اللہ تعالی توبہ صرف انہی لوگوں کی قبول فرماتا ہے جو نادانی اورجہالت کی بنا پرکوئ عمل کربیٹھتے ہیں اورپھر جلد ہی اس سے توبہ بھی کرتے ہیں اوراس سے باز آجاتے ہیں تواللہ تعالی بھی ان کی توبہ قبول کرتا ہے ، اللہ تعالی بڑے علم والا اورحکمت والا ہے ۔
ان کی توبہ قبول نہیں جوبرائياں کرتے چلے جائيں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجاۓ توکہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی اوران کی توبہ بھی قبول نہیں جوکفر پر ہی مرجائيں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے ہم نے المناک عذاب تیار کررکھا ہے } ( 17 - 18 ) ۔
تواس لیے متقی وصاف شفاف مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالی سے ڈرتا رہے اس کا تقوی اختیارکرے اوراللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری پر حرص رکھے اورہروقت وہمیشہ کےلیے خير وبھلائ اوردعوتی کاموں امربالمعروف اورنہی عن المنکرمیں مشغول رہے ۔
مومن کے زندگی کے ایام و شب خزانے کی طرح ہیں وہ دیکھے کہ اس نے اس میں کیا کچھ اضافہ کیا اورجمع کر رکھا ہے اگر تواس نے ان ایام و شب کے اندرنیکی وبھلائ کے کام کرکے اپنے زخیرہ میں نیکیوں کا اضافہ کیا تویہ اشب وروز اس کے حق میں گواہی دیں گے اوراگراس نے اس کے علاوہ کچھ اورکیا تووہ سب کچھ اس پر وبال ہوگا ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ مجھے اورآپ کوخسارہ ونقصان سے بچا کررکھے ۔ آمین ۔
پھرعلماء کرام رحمہم اللہ تعالی کا یہ بھی قول ہے کہ :
قبول اعمال کی علامت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالی نیکی اوراعمال صالحہ کے بعد اورنیکی کرنے کی توفیق دیتا ہے تواس طرح نیکی بہن بہن کی آوازیں لگاتی ہے ، اوربرائ بھی بہن کی بہن کی آوازيں لگا کراپنی دوسری برائ کودعوت دیتی ہے اللہ تعالی اس سے بچا کررکھے ۔
اس لیے جب اللہ تعالی بندے کی رمضان المبارک میں کی ہوئ عبادت کوشرف قبولیت بخشتا ہے اورانسان اس رمضانی مدرسہ اورورکشاپ سے مستفید ہوتا اوراللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری پر استقامت اختیار کرتا ہے توپھر وہ بھی اس قافلے میں شامل ہوتا ہے جن کی عبادت ودعا اللہ تعالی نے قبول فرمالی :
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :
{ واقعی جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب و پروردگار اللہ تعالی ہے اورپھر اسی پر قائم رہے ان کے پاس فرشتے نازل ہوتے ( اوریہ کہتے ہیں ) کہ تم پر کچھ بھی اندیشہ نہیں اورغم بھی نہ کرو بلکہ اس جنت کی بشارت سن لو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے
تمہاری دنیوی زندگی میں بھی ہم تمہارے رفیق تھے اورآخرت میں بھی رہیں گے ، جس چيزکوتمہارا جی چاہے اورجوکچھ تم مانگوسب کچھ تمہارے لیے ( جنت میں ) ہے } فصلت ( 30 - 31 ) ۔
اورایک دوسرے مقام پر اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان کچھ اس طرح ہے :
{ بلاشبہ جن لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ ہمارا رب و پروردگار اللہ تعالی ہے اورپھراس پر استقامت اختیار کرلی نہ تو ان پر کوئ خوف ہوگا اورنہ ہی وہ غمگین ہوں گے } الاحقاف ( 13 ) ۔
تواس طرح استقامت کا یہ قافلہ ایک رمضان سے لیکر دوسرے رمضان تک چلتا رہتا ہے اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے :
( نماز دوسری نماز تک اوررمضان دوسرے رمضان تک اورحج دوسرے حج تک جب تک کبیرہ گناہوں سے بچا جاتا رہے تو( یہ سب کچھ ) صغیرہ گناہوں سے کفارہ بن جاتی ہیں ) ۔
اوراسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی کابھی ایک مقام پر کچھ اس طرح فرمان ہے:
{ اگر تم کبیرہ گناہوں سے بچتے رہو گے جن سے تم کومنع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ معاف کردیں گے } النساء ( 31 ) ۔
اس لیے مومن کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنی عاقل وبالغ ہونے کے پہلے دن سے لیکر اپنے آخری سانسوں تک استقامت کے قافلہ اورنجات کی کشتی میں سوار رہے ، تو اس طرح وہ لاالہ الا اللہ کےسایہ چلے گا اوراللہ تعالی کی نعمتوں کا سایہ حاصل کرے گا ۔
کیونکہ یہی دین حق ہے اوراللہ تعالی نے ہم پر رمضان المبارک میں استقامت اختیار کرنے کا احسان بھی کیا ہےاوروہی ہے جوہم پر اپنی عطا و فیض کا انعام اورفضل کرم کرتا اورہمیں عزت سے نوازتا ہے کہ ہم رمضان کے بعد بھی اس کی اطاعت وفرمانبرداری اورعبادت کرتے رہيں ۔
اس لیے ہمارے مسلمان بھائ آپ یہ مت بھولیں کہ اللہ تعالی نے آپ کورمضان المبارک میں اعتکاف اورصدقہ وخیرات اوررمضان کے روزے رکھنے کی توفیق دے کر احسان فرمایا اورآپ پریہ بھی احسان کیا کہ آپ اللہ تعالی سے دعا کرتے اوراسے اللہ تعالی نے شرف قبولیت بخشا ۔
بھائ آپ یہ بھی نہ بھولیں کہ یہ نیکیاں اوریہ توفیق ایسی چيز ہے جس کا آپ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے اور اس کی حفاظت کرنا بھی نہ بھولیں اس لیے اس کی حفاظت کا حق ادا کریں لھذا ان نیکیوں کو برائيوں اورباطل اعمال کے ذریعے ختم نہ کریں ، اس لیے آپ خیر و بھلائ کا بیج بونے کی کوشش کریں اورسعادت وفلاح کامیابی کے راستے پرچلتے ہوۓ استقامت اختیارکریں جس سے آپ کو اللہ تعالی اور دارآخرت حاصل ہوگا ۔
تو پھر اس وقت آپ کو یہ کہا جاۓ گا کہ آپ اس جنت کے ساتھ خوش ہوجائيں جس کی چوڑائ آسمان وزمین کے برابر ہے اورمتقی وپرہیزگاروں کے لیے تیار کی گئ‏ ہے ، اورپھر آپ اللہ تعالی کی اس منادی ميں شامل ہوں گے :
اے بھلائ اورخير کے کاموں سےدور بھاگنے والے واپس آجاؤ اس لیے کہ اللہ تعالی آگ سے چھٹکارا دے رہا ہے ، اوراے شروبرائ کرنے والے رک جا اوراسے کم کردے ۔
اورآپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول پر بھی عمل کرلیا :
( جس نے بھی رمضان المبارک میں ایمان اورثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پہلے سب گناہ معاف کردیے گۓ ، اورجس نے بھی لیلۃ القدر کا ایمان اورثواب کی نیت سے قیام کیا اس کے پہلے سب گناہ معاف کر دیے گۓ ) ۔
ہم اللہ عزوجل سے دعا گوہيں کہ جس نے ہم اورآپ پررمضان کے روزے اوراعتکاف اورعمرہ اورصدقہ وخیرات کرنے کی توفیق بخش کراحسان کیا اورہم پرایمان وھدایت اورتقوی کا بھی احسان کیا اورپھر احسان عظیم کرتے ہوۓ ہمارے اعمال صالحہ بھی قبول فرماۓ اوران اعمال ہرہمیں استقامت کی توفیق بخشے اس لیے کہ اعمال صالحہ پراستمرار اورانہیں مستقل کرنا اللہ تعالی کی بہت ہی بڑي قربت ہے ۔
اوراسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس ایک شخص آکر کہنے لگا : مجھے وصیت و نصیحت فرمائيں تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا :
( کہوکہ میں اللہ تعالی پر ایمان لایا اورپھر اس قول پراستقامت اختیار کرو ) صحیح بخاری و صحیح مسلم ۔
اور ایک روایت میں ہے کہ :
( کہو کہ میں اللہ تعالی پر ایمان لايا ، پھر اس پر جم جاؤ اوراستقامت اختیار کرو ، وہ کہنے لگا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو سب لوگ کہتے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تم سے پہلے لوگوں نے میں ایک قوم نے یہ کہا لیکن انہوں نے اس پر استقامت اختیار نہیں کی ) مسند احمد ۔
تو اس لیے مومنوں پر ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کی اطاعت اوراستقامت پر قائم رہيں ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
{ ایمان والوں کواللہ تعالی پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے دنیا کی زندگی میں بھی اورآخرت میں بھی ہاں ناانصاف لوگوں کو اللہ تعالی بہکا دیتا ہے اوراللہ تعالی جوچاہے کرتا ہے } ابراھیم ( 27 ) ۔
جواللہ تعالی کی اطاعت وفرمانبرداری پراستقامت اختیار کرتا ہے اسی کی وہ دعا بھی قبول ہوتی ہے جو ایک دن میں پچیس بارسے بھی زيادہ مرتبہ دھرائ جاتی ہے اوروہ دعا یہ ہے :
{ اے اللہ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھ } ، جوہم سورۃ فاتحہ میں ہررکعت کی اندر پڑھتےہیں ۔
ہم اسے زبان سے کيوں ادا کرتے ہیں اوراس پر ہمارا اعتقاد جازم کیوں ہے اس لیے کہ جب ہم اس پر استقامت اختیار کریں گے تو اللہ تعالی ہمیں معاف فرما دے گا لیکن مشکل یہ ہے کہ ہم اس کی عملی تطبیق میں سستی کرتے ہیں ، لھذا ہم پر ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالی کا تقوی اختیار کرتے ہوۓ اس پر عملی اوراعتقادی اورقولی طورپر تطبیق کریں ۔
اورپھر اس صراط مستقیم کے قافلے میں شامل ہوں اورہم ایاک نعبد وایاک نستعین کی راہ پر اھدنا الصراط المستقیم کی چھاؤ‎ں میں چلتے ہوۓ آسمان وزمین جتنی چوڑی جنتوں کے مالک بن کر اس میں داخل ہوں اوراس جنت کی چابی لاالہ الا اللہ ہے اس پر عمل کرکے اسے ضرور حاصل کریں ۔
جب تک ہم اس کے معانی اورلوازمات پر عمل نہيں کرتے اس وقت تک جنت میں داخلہ ناممکن ہے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمارا اورآپ کا خاتمہ خیر وبھلائ پر کرے آمین ۔
رمضان المبارک کے بعد لوگوں کی کئ اقسام وانواع بن جاتی ہیں جن میں سب سے بڑی دوقسمیں ہیں :
ایک قسم تووہ ہے کہ آپ انہیں رمضان المبارک میں اللہ تعالی کی اطاعت کرنے میں مجتھد پائيں گے ، آپ اسے جب بھی دیکھں یا تووہ سجدہ میں ہوگا اوریا پھر قیام کررہا ہوں کا یا پھر قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوۓ پائيں گے ، اوریا پھر آپ اسے روتا ہوا پائيں گے کہ آپ کوسلف کی عبادت یادآۓ گی ۔
اورآپ اس کی شدت اجتھاد اورکوشش کی وجہ سے اس کے ساتھ شفقت وپیار اورمحبت کرنے لگيں گے ، لیکن جیسے ہی شرف وفضیلت کا مہینہ رمضان المبارک ختم ہوا تووہی شخص اپنی معاصی اورگناہ کی زندگی کی طرف لوٹ آیا گویا کہ وہ اطاعت کے قیدخانہ میں بند تھا ۔
تواس طرح وہ شہوات ھفوات اور غفلت کی طرف واپس آ کریہ گمان کرتا ہے کہ اس میں ہی اس کے ھم وغم اورپریشانی کا علاج ہے اوروہ مسکین یہ بھول جاتا ہے کہ معاصی اورگناہ ھلاکت کا سبب ہیں ۔
وہ بھول جاتا کہ ہے کہ گناہ اورمعاصی زخم ہیں اورپھر ان میں سے کچھ ایسے زخم بھی ہيں جواسے قتل بھی کرسکتے ہیں ، تودیکھیں کتنے گناہ اورمعصیت ایسے ہیں جس کی بنا پربندہ موت کےوقت کلمہ لاالہ الا اللہ سے محروم ہوجاتا ہے ۔
وہ رمضان المبارک کا پورا مہینہ اطاعت وفرمانبرداری اورایمان و قرآن کی تلاوت اوراللہ تعالی کا قرب حاصل کرنے والی سب عبادات میں گزارنے کے بعد دوبارہ پیچھے کی جانب اوندھے منہ جا گرتا ہے (لا حول ولا قوة إلا بالله )
اورسالانہ ( فصلی بٹیرے کی طرح ) عبادت کرنے والے جنہوں نے صرف موسم میں ہی عبادت کرنی ہوتی ہو وہ صرف اللہ تعالی کواسی موسم میں جانتے ہیں اوراس کی اطاعت کرتے ہيں یا پھر کسی سزا کے ڈر سے لیکن جب یہ موسم چلا جاۓ تو اطاعت و فرمانبرداری بھی ختم افسوس ان کی یہ عادت توبہت ہی بری اورغلط حرکت ہے :
ایک شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے :
نمازی نے نماز صرف کسی مطلب کے لیے پڑھی اورجب وہ مطلب پورا ہوگیا تو نہ نماز اور نہ ہی روزہ ۔
افسوس ! توبتائيں کہ جب رمضان المبارک کے بعد پھر اسی غلط کاموں اورشنیع حرکتوں کی طرف پلٹنا ہے توپھراس پورے مہینہ کی عبادت کا کیا فائدہ ؟
دوسری قسم :
رمضان کے بعد لوگوں کی دوسری قسم وہ ہے جنہیں رمضان المبارک کے جانے کا افسوس ہوتا اور انہیں تکلیف محسوس ہوتی اس لیے کہ انہوں نے رمضان المبارک میں عافیت کی مٹھاس چکھی ہے جس کی بنا پر ان کے صبر کی کڑواہٹ جاتی رہی ۔
اس لیے کہ انہوں نے اپنے آپ کی حقیقت کوپہچان لیا کہ وہ اپنے رب کی محتا ج ہے اوراس کی اطاعت بھی کرنی ہے ، اسی لیے انہوں نے روزے بھی حقیقی روزے رکھے اوررمضان المبارک میں راتوں کا قیام بھی شوق سے کیا ۔
اس لیے رمضان المبارک کے وداع ہونے سے ان کے آنسو جاری ہوتے ہیں اوران کے دل دھل جاتے ہیں ، اوران میں گناہوں کا اسیر یہ امید رکھتا ہے کہ وہ آگ سے آزادی حاصل کرکے نجات حاصل کرلے گا ، اورقبول اعمال کے قافلہ میں شامل ہوگا ،
میرے بھائ آپ اپنے آپ سے سوال کریں کہ آپ ان دونوں قسموں میں سے کس قسم کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ؟
اوراللہ کی قسم کیا یہ دونوں برابر ہوسکتے ہیں ، الحمد للہ ، بلکہ اکثر کوتو علم ہی نہیں ۔
اللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان کے بارہ میں مفسرین کا قول ہے کہ :
{ کہہ دیجۓ ! ہرشخص اپنے طریقے پر عمل کرتا ہے } الاسراء ( 84 ) ۔
مفسرین کہتے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ ہر شخص اپنے پاۓ جانے والے اخلاق کے مماثل اعمال کرتا ہے ، اوراس میں کافرکی مذمت اورمومن کی مدح ہے ۔
میرے بھائ آپ کے علم میں ہونا چاہۓکہ اللہ تعالی کے ہاں محبوب اورپسندیدہ عمل وہ ہیں جوہمیشہ کیے جائيں چاہے وہ تھوڑے ہی کیوں نہ ہوں
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
{ لوگو ! جتنی بھی طاقت رکھتے ہو عمل کیا کرو اس لیے کہ اللہ تعالی کوملال نہيں ہوتا حتی کہ تم خود تنگ دل ہوکراکتاہٹ محسوس کرنے لگو ، اوراللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین اعمال وہ ہیں جن پر ہمیشگی کی جاۓ چاہے وہ کم ہی کیوں نہ ہوں ، اورجب آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئ عمل کرتے تو اس پر ہمیشگی اوردوام کرتے تھے } صحیح مسلم ۔
اورجب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا گیا کہ اللہ تعالی کے ہاں سب سے محبوب اورپسندیدہ ترین اعمال کون سے ہیں ؟ جونبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا : ( ہمیشہ کیا جانے والا اگرچہ وہ کم ہی ہو ) ۔
اورعائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے سوال کیا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کی کیفیت کیا تھی ؟ کیا وہ ایام میں سے کسی دن کوخاص کیا کرتے تھے ؟
توعا‏ئشہ رضي اللہ تعالی عنہا نے جواب میں فرمایا :
نہیں ان کے اعمال توہیشگی والے ہوتے تھے ، اورتم میں سے کون ہے جو یہ طاقت رکھے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح عمل کرسکے ۔
توعبادات کی مشروعیت ان کی شرائط اللہ تعالی کے ذکر کی طرح ہیں ، اورحج اور عمرہ اوران کےنوافل ، اور امربالمعروف اورنہی عن المنکر ، طلب علم ، جھاد فی سبیل اللہ ، اوراس کے علاوہ دوسرے اعمال کرنے کی کوشش کریں اوران پر مداومت اورہمیشگی کریں ۔
اورحسب استطاعت عبادات کوبجالانے کی کوشش کریں ، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آل اوران کے صحابہ کرام رضي اللہ تعالی عنہم پر رحمتیں نازل فرماۓ ، آمین یا رب العالمین ۔
واللہ اعلم .

http://islamqa.info/ur/ref/10505
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
ہر نیک اعمال کی قبولیت کی علامت یہ ہے کہ نیکی کرنے اور رغبت ہو اور دل میں سکون و طمانیت ہو اگر ایسا نہیں ہے بلکہ طبیعت میں تعب و فرار اور اکتاہٹ ہے تو سمجھ لیاجائے کہ وہ نیک عمل قبول نہیں ہوا بلکہ ہوسکتا ہے اس میں ریاکاری ہو اور ریاکاری والا عمل عنداللہ مقبول نہیں۔
 
Top