• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان کے بعد

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,331
پوائنٹ
180
سوال :آپ ماشاء اللہ نماز کی بڑی فکر رکھتے ہیں ، آپ کا نماز کے بارے میں کیا خیال ہے؟
جواب : اللہ کاشکر ہے میں نے نماز کی کشش میں اسلام قبول کیا تھا میرے اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ گذشتہ پانچ سال میں میری ایک بھی نماز قضاء نہیں ہوئی ، کل ملا کر میری ٦٧ بار جماعت نکلی ، ٧بار ٢٠٠٢ء میں ١٣بار ٢٠٠٠ء میں ١٦بار ١٩٩٩ء میں ٢١بار اور ١٩٩٨ء میں سفر کم ہوئے اس سال دس بار میری جماعت نکلی مگر اللہ کا شکر ہے کہ یہ جماعتیں شرعی عذر سے نکلی ہیں۔

سوال :آپ نے حساب با لکل یاد کر رکھا ہے؟
جواب : ایک آدمی اپنے نفع نقصان کا حساب رکھتا ہے اپنی پراپرٹی ، اپنی جیب اور بینک بیلنس کا حساب رکھتا ہے کہ اتنے روپئے ہیں اتنی دکانیں ہیں، اتنے مکان ہیں، دکان میں اتنا اتنا سامان ہیںوغیرہ، مسلمان کا اصل مال اور دولت تو یہ ہی ہے کیا نمازوں کی دکان اور مال وسامان سے بھی کم اہمیت ہے، خصوصاً نقصان تو آدمی کو اور بھی یاد رہتا ہے ، نماز قضا ہوجانا یا جماعت نکل جانا کیا کم نقصان ہے کہ آدمی اس کا حساب بھی نہ رکھے ، اصل میں ہم نے نماز کی وقعت اور قیمت ہی نہ جانی ورنہ اگر آدمی کو نماز ادا کرنا بلکہ ابوجی کی بقول نماز قائم کرنا آجائے تو پوری زندگی بلکہ پوری دنیا صحیح ہوجائے ۔

یہ سوال وجواب جوآپ نے دیکھاوہ ایک نومسلم کے انٹرویو کاہےجن کاپہلا نام سنیت کمارسوریہ ونشی تھااور جس نے نماز کی کشش سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیاتھا۔اس کی نماز کے تعلق سے فکر اوراہمیت دیکھئے اورپھرذرااپنے گریبان میں ہم ایک مرتبہ جھانکیں کہ آج نماز جیسی اہم عبادت ،اسلام کے اہم رکن اورستون دین کاہم نے کیاحال کررکھاہے۔
رمضان کامہینہ آیااورمسجدیں بھرگئیں ،وسیع مسجدیں تنگ دامانی کا شکوہ کرنی لگیں،وہ مسجد جہاں مغرب اورفجر کی نماز میں بمشکل ایک صف پوراہواکرتاتھا۔ اب مسجد کا بالائی حصہ بھی نمازیوں کیلئے ناکافی ہونے لگا۔

لیکن رمضان کے رخصت ہوتے کے ساتھ مسجدوں کی سابقہ ویرانی لوٹ آئی ہے۔اب وہی ایک صف یادوصف نمازی ہوپاتے ہیں اورمسلمانوں سے بھرے محلہ میں وسیع مسجد نمازیوں کیلئے ترس رہی ہے۔

پتہ نہیں کب اورکیوں کر ہم نے نماز کو رمضان کے ساتھ خاص کردیاہے کہ رمضان کامہینہ ہوگاتونماز پڑھیں گے ،نیک کام کریں گے ،برائیوں سے دور رہیں گے ورنہ اپنی ڈگر پر چلتے رہیں گے ۔

رمضان کا مہینہ تو اس لئے تھاکہ پورے سال کی تربیت ہو،پوراسال کس طرح گزارناہے۔ ضبط نفس کی کن وادیوں سے گزرناہے۔ اللہ کے حکم کی تعمیل کس جذبے سے کرنی ہے ۔جن کاموں سے خدانے منع کیاہے اس کس طرح بیک وقت چھوڑدینا ہے ان چیزوں کی تربیت کا یہ مہینہ تھا لیکن افسوس کہ ہم نے اس کو صرف ماہ مبارک سمجھ لیاہے اوربقیہ دنوں کیلئے اس ماہ مبارک کی ہمارے ذہن میں کوئی اہمیت نہیں۔

نماز اوردیگر امور خیر کو ہم نے رمضان کے ساتھ خاص کردیاہے اس کو دیکھ کر حضرت مولانا علی میاں کا ایک یادگار خطبہ یاد آرہاہے۔

حضورپاک کے وصال کے بعدحضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے ایک لازوال خطبہ دیاتھاکہ

''جوکوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتاتھاتووہ جان لے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جوار رحمت میں منتقل ہوچکے ہیں اورجوکوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی عبادت کرتاتھاوہ حی وقیوم ہے اوراسے کبھی موت نہیں آنے والی ہے۔
اسی طرزپر میں کہتاہوں کہ جوکوئی رمضان کی عبادت کرتاتھاتورمضان کا مہینہ رخصت ہوچکاہے اورجوکوئی اس لئے عبادت اورامور خیرانجام دیتاتھاکہ یہ اللہ کا حکم اوررب کا فرمان ہے تو وہ جان لے کہ نماز اورامور خیر کورمضان کے ساتھ کوئی تخصیص نہیں اور اس کا حکم اللہ نے پورے سال اورہرمہینہ کیلئے دیاہے''۔

نوٹ:مولانا علی میان کا یہ اقتباس یادداشت کی بناء پر لکھاگیاہے ۔ کچھ کمی بیشی ہوسکتی ہے ۔اگرکسی کو صحیح اقتباس مل جائے توبراہ کرام وہ شیرکردے۔والسلام
 
Top