• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایات- حَوْأَبِ کے کتے اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (ایک تحقیقی جائزہ)

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
حالانکہ ان قیس بن ابی حازم صاحب کے بارے میں یہ محدثین کی رائے بھی ملتی ہے
تاریخ بغداد کے مطابق
قد كان نزل الكوفة، وحضر حرب الخوارج بالنهروان مع علي بْن أبي طالب
قیس کوفہ گیا اور علی رضی الله تعالی عنہ کے ساتھ خوارج سے قتال بھی کیا
یعنی ان صاحب کے بارے میں محدثین کرام یہ تو فرمارہے ہیں کہ یہ جمل میں سیدہ عائشہ رضی اللہ کے ساتھ نہیں تھے، لیکن صفین و نہروان میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ضرور تھے۔ اور ایک ناصبی کا سیدنا علی رض کے ساتھ ہونا، میرے خیال سے عجائب میں ہی شمار ہوگا، آپکے اسٹینڈرڈ کے مطابق۔ تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ جمل کے واقعات انہوں نے ضرور سن کر ہی نقل کئے ہونگے۔ اور اس طرح انکا تدلیس کرنا ثابت ہوتا ہے۔ پچھلی ایک پوسٹ میں، میں نے مدلس ہونا بھی دکھایا تھا۔

تو علی بہرام صاحب اس پر آپ کیا کہیں گے اب؟
خطیب بغدادی کے اس قول کی سند بھی بیان فرمادیں کیونکہ اگر اس قول کی سند نہیں تو یہ قول بھی خطیب بغدادی نے سن کر نقل کیا ہوگا جبکہ خطیب بغدادی جنگ نہروان سے صدیوں بعد پیدا ہوئے جبکہ قیس بن ابی حازم جنگ جمل کے وقت حیات تھا یہ میں ثابت کرچکا ہوں
یہ کتنی عجیب بات ہے قیس کی وہ روایت قبول نہیں کی جارہی جس میں وہ اپنی حیات کے زمانے کا واقعہ بیان کررہا ہے اور خطیب بغدادی سے ایک ایسے واقعے کو بلا سند قبول کیا جارہا ہے جو ان کے پیدا ہونے کے کئی صدیاں پہلے کا واقعہ ہے
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
جی بالکل ایسا نہیں ہے کہ ہر صحیح روایت صحیحین یعنی بخاری و مسلم میں موجود ہو۔ لیکن محترم یہ کلاب الحواب والی روایت تو ان دو کو چھوڑ کر باقی 4 کتب میں بھی نہیں پائی جاتیں، بلکہ اگر میری یاد داشت کام کررہی ہے تو میں کسی جگہ پڑھا تھا کہ دیگر کتب احادیث میں بھی نہیں ہے۔ اور اسکے بارے میں
یہ روایت آپ کے نزدیک سب سے زیادہ متعبر تاریخ اسلام میں بھی بیان ہوئی ہے اور اس روایت کو ابن کثیر امام بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح کہتے ہیں


أَنَّ عائِشَةَ لَمَّا أتتْ على الحَوْأَبِ فسمِعَتْ نُباحَ الكِلابِ فقالتْ ما أَظُنًّنِي إلَّا راجِعَةً إِنَّ رَسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ قال لنا أَيَّتُكُنَّ يَنبحُ عليها كِلابُ الحَوْأَبِ فقالَ لها الزُّبيرُ ترجِعينَ عسى اللَّهُ أَنْ يُصلِحَ بِكِ بينَ النَّاسِ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث: ابن كثير- المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 6/217
خلاصة حكم المحدث: إسناده على شرط الصحيحين
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
خطیب بغدادی کے اس قول کی سند بھی بیان فرمادیں کیونکہ اگر اس قول کی سند نہیں تو یہ قول بھی خطیب بغدادی نے سن کر نقل کیا ہوگا جبکہ خطیب بغدادی جنگ نہروان سے صدیوں بعد پیدا ہوئے جبکہ قیس بن ابی حازم جنگ جمل کے وقت حیات تھا یہ میں ثابت کرچکا ہوں
یہ کتنی عجیب بات ہے قیس کی وہ روایت قبول نہیں کی جارہی جس میں وہ اپنی حیات کے زمانے کا واقعہ بیان کررہا ہے اور خطیب بغدادی سے ایک ایسے واقعے کو بلا سند قبول کیا جارہا ہے جو ان کے پیدا ہونے کے کئی صدیاں پہلے کا واقعہ ہے
آپ بھی تو کربلا سے متعلق واقعہ پر ابو مخنف کی روایات کو من وعن قبول کرتے ہیں- جب کہ ابو مخنف لوط بن یحیی واقعہ کربلا کے تقریباً پچاس سال بعد پیدا ہوا تھا - اس کی بیان کردہ روایات ایک دیو مالائی داستان سے کم نہیں-
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
آپ بھی تو کربلا سے متعلق واقعہ پر ابو مخنف کی روایات کو من وعن قبول کرتے ہیں- جب کہ ابو مخنف لوط بن یحیی واقعہ کربلا کے تقریباً پچاس سال بعد پیدا ہوا تھا - اس کی بیان کردہ روایات ایک دیو مالائی داستان سے کم نہیں-
ویسے یہ بات آپ کو کس نے بتائی کہ ابو مخف واقعہ کربلا کے پچاس سال بعد پیدا ہوئے ؟؟
پھر آپ کو قیس کی روایت قبول کرنے میں کیوں تکلیف ہورہی ہے جبکہ یہ تو اپنی ہی حیات کے ایک واقعہ کو بیان کررہا ہے؟؟؟
 
Last edited by a moderator:

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
جی بالکل ایسا نہیں ہے کہ ہر صحیح روایت صحیحین یعنی بخاری و مسلم میں موجود ہو۔ لیکن محترم یہ کلاب الحواب والی روایت تو ان دو کو چھوڑ کر باقی 4 کتب میں بھی نہیں پائی جاتیں، بلکہ اگر میری یاد داشت کام کررہی ہے تو میں کسی جگہ پڑھا تھا کہ دیگر کتب احادیث میں بھی نہیں ہے۔ اور اسکے بارے میں
اگر آپ کا یہی معیار ہے کہ صحیح حدیث صرف کتب صحہ ستہ میں ہی ہے تو پھر آپ کفایت اللہ صاحب کے اس تھریڈ پر اعتراض کیوں نہیں فرمارہے جس میں انھوں کے کلمہ طیبہ کو صحہ ستہ کی احادیث کی کتب کے علاوہ ایک دوسری کتاب سے ثابت کیا ہے یعنی کسی غیر مسلم کو مسلمان کرنے کے لئے جو کلمہ پڑھایا جاتا ہے وہ کلمہ بھی صحہ ستہ کی کسی کتاب میں لکھا ہوا نہیں اب آپ اپنے ایمان کی فکر کریں
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
ویسے یہ بات آپ کو کس نے بتائی کہ ابو مخف واقعہ کربلا کے پچاس سال بعد پیدا ہوئے ؟؟
پھر آپ کو قیس کی روایت قبول کرنے میں کیوں تکلیف ہورہی ہے جبکہ یہ تو اپنی ہی حیات کے ایک واقعہ کو بیان کررہا ہے؟؟؟
ابومخنف لوط بن یحییٰ بن سعید بن مخنف بن سلیم ازدی غامدی کوفی متوفیٰ ١٥٨ھ

ظاہر ہے کہ اگر اس کی اوسط عمر وفات کے وقت ٧٠ سال گنی جائے- تب بھی یہ مورخ واقعہ کربلا کے تقریباً ٣٠ سال بعد پیدا ہوا ہو گا- اور ظاہر ہے پیدا ہوتے اس نے واقعہ کربلا قلمبند نہیں کیا - کم از کم ٢٥ - ٣٠ سال کی عمر میں ہی اس نے ان واقعات کو کو صفحۂ قرطاس پر تحریر کیا ہو گا- تفصیل کے لئے اہل تشیع کی سائٹ کا لنک بھی ملاحظه کی جاسکتی ہے -

http://urdu.sahartv.ir/96-واقعه-کربلا-849

قیس بن ابی حازم کے بارے میں حمیر بھائی کی تحقیق ملاحظه کرلیں-
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
یہ روایت آپ کے نزدیک سب سے زیادہ متعبر تاریخ اسلام میں بھی بیان ہوئی ہے اور اس روایت کو ابن کثیر امام بخاری اور مسلم کی شرط پر صحیح کہتے ہیں


أَنَّ عائِشَةَ لَمَّا أتتْ على الحَوْأَبِ فسمِعَتْ نُباحَ الكِلابِ فقالتْ ما أَظُنًّنِي إلَّا راجِعَةً إِنَّ رَسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ قال لنا أَيَّتُكُنَّ يَنبحُ عليها كِلابُ الحَوْأَبِ فقالَ لها الزُّبيرُ ترجِعينَ عسى اللَّهُ أَنْ يُصلِحَ بِكِ بينَ النَّاسِ
الراوي: عائشة أم المؤمنين المحدث:
ابن كثير- المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 6/217
خلاصة حكم المحدث: إسناده على شرط الصحيحين

اگر علامہ ابن کثیر رح ر کی ہر بات حجت ہے - تو ان کے مطابق حضرت حسین رضی الله عنہ کے قاتل اہل کوفہ تھے- نہ کہ یزید بن معاویہ رح - (البدایہ و النہایہ جلد ٨ ص ١٥٧) - آپ کو ان کی یہ بات کیوں قبول نہیں؟؟
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
137
پوائنٹ
91
السلام علیکم
یہ پوسٹ اس موضوع کے متعلق تو نہیں لیکن چونکہ یہاں حافظ ابن کثیر و یزید کا زکر آیا تو میں اس کو یہاں پیش کرتا ہوں(اس بات پر معافی کر طلبگار ہوں منتظمین سے) ۔۔۔۔کیا آپ لوگوں کو نہیں لگتا کہ حافظ ابن کثیر کی تاریخ میں کچھ حرکات بعد میں کی گئی ہیں یا پھر خود حافظ ابن کثیر ہی پہلے جو لکھ آتے ہیں آگلے کچھ صفحوں پر اسی کا رد کردیتے ہیں مطلب ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک جگہ خود ہی ایک بات کہ کر آئے ہوں پھر آگے چل کر خود ہی اس کا انکار کردیں مثالیں تو بہت ہیں لیکن کچھ عرض خدمت ہیں
حافظ ابن کثیر امام حسین رضہ کی مظلومانہ قتل پر لکھتے ہیں

فَلَمَّا عَلِمَ ذَلِكَ ابْنُ زِيَادٍ مِنْهُمْ بَلَّغَهُمْ مَا يُرِيدُونَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَخَذَهُمْ عَلَى ذَلِكَ وَحَمَلَهُمْ عَلَيْهِ بِالرَّغْبَةِ وَالرَّهْبَةِ، فَانْكَفُّوا عَنِ الْحُسَيْنِ وَخَذَلُوهُ ثُمَّ قَتَلُوهُ . وَلَيْسَ كُلُّ ذَلِكَ الْجَيْشِ كَانَ رَاضِيًا بِمَا وَقَعَ مِنْ قَتْلِهِ، بَلْ وَلَا يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ بِذَلِكَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ، وَلَا كَرِهَهُ، وَالَّذِي يَكَادُ يَغْلِبُ عَلَى الظَّنِّ أَنَّ يَزِيدَ لَوْ قَدَرَ عَلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُقْتَلَ لَعَفَا عَنْهُ كَمَا أَوْصَاهُ بِذَلِكَ أَبُوهُ، وكما صرح هو به مخبرا
اور ابن زیاد کو جب یہ معلوم پڑا کہ وہ دنیا کے خواہاں ہیں تو انہوں نے ان کو لالچ دیا اور انہوں حضرت حسین رضہ کو بے یارومددگار چھوڑ دیا اور یہ ساری فوج آپ کے قتل سے راضی نہ تھی بلکہ یزید بن معاویہ بھی اس راضی نہ تھا واللہ اعلم ، اور اس (یزید) نے اسے ناپسند کیا ظن غالب یہی ہے کہ اگر یزید آپ کے قتل ہونے سے قبل آپ پر قابو پالیتا تووہ اپنے والد کی وصیت کے مطابق اپ کو معاف کردیتا جیسا کہ خود اس نے اپنے متعلق صراحت کی ہے ۔(جلد 8 صفحہ 259)

پھر اس کے آگے یزید کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
قُلْتُ: يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ أَكْثَرُ مَا تقم عَلَيْهِ فِي عَمَلِهِ شُرْبُ الْخَمْرِ وَإِتْيَانُ بَعْضِ الْفَوَاحِشِ، فَأَمَّا قَتْلُ الْحُسَيْنِ فَإِنَّهُ كَمَا قَالَ جَدُّهُ أَبُو سُفْيَانَ يَوْمَ أُحُدٍ لَمْ يَأْمُرْ بِذَلِكَ وَلَمْ يَسُؤْهُ. وَقَدْ قَدَّمْنَا أَنَّهُ قَالَ: لَوْ كُنْتُ أَنَا لَمْ أَفْعَلْ مَعَهُ مَا فَعَلَهُ ابْنُ مَرْجَانَةَ- يَعْنِي عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ زِيَادٍ- وَقَالَ لِلرُّسُلِ الَّذِينَ جَاءُوا بِرَأْسِهِ: قَدْ كَانَ يَكْفِيكُمْ مِنَ الطَّاعَةِ دُونَ هَذَا، وَلَمْ يُعْطِهِمْ شَيْئًا، وَأَكْرَمَ آلَ بَيْتِ الْحُسَيْنِ وَرَدَّ عَلَيْهِمْ جَمِيعَ مَا فُقِدَ لَهُمْ وَأَضْعَافَهُ، وَرَدَّهُمْ إلى المدينة في محامل وأهبة عَظِيمَةٍ
میں (حافظ ابن کثیر) کہتا ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ یزید پرشراب پینے کچھ فاحش کام کرنے پر ملامت تو کی جاتی ہے لیکن رہا معاملہ قتل حسین رضہ کا اس میں جیسے اس کے دادا ابوسفیان نے احد کے روز کہا تھا کہ نہ تو اس نے اس کا حکم دیا ہے اور نہ ہی اس سے بے جا سلوک کیا ہے اور ہم پہلے بیان کر چکے ہین کہ اس نے کہا کہ میں ہوتا تو اس سے ایسے پیش نہ آتا جیسے ابن مرجانہ یعنی عبیداللہ بن زیاد پیش آیا ہے جب ا س کے پاس امام کا سر بھیجا گیا تھا تو اس نے کہا مین تو ایسے ہی راضی تھا اور کسی کو کچھ نہ دیا ، اور اہل بیت حسین رضہ کی عزت و اکرام کیا اور جو چیزیں ان کی گم ہوئیں تھین وہ اور ان سے دگنی چیزیں انہیں دیں اور انہیں محمل اور دیگر قیمتی تحائف کے ساتھ مدینہ منورہ عزت سے روانہ کیا۔
پھر خود ہی ابن کثیر واقعہ حرہ کے مقام پر لکھتے ہیں
وَقَدْ أَخْطَأَ يَزِيدُ خَطَأً فَاحِشًا فِي قَوْلِهِ لِمُسْلِمِ بْنِ عُقْبَةَ أَنْ يُبِيحَ الْمَدِينَةَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، وَهَذَا خَطَأٌ كبير فاحش، مع ما انضم إلى ذلك من قتل خلق من الصحابة وأبنائهم، وقد تقدم أنه قتل الحسين وأصحابه على يدي عبيد الله بن زياد

اور یزید نے مسلم بن عقبہ کو یہ کہنے میں کہ مدینہ کو مباح کردینا بڑی فحش غلطی کی اور یہ ایک بہت ہی بڑی قبیح غلطی ہے اور اس کے ساتھ بہت سے صحابہ اور ان کے بیٹوں کا قتل بھی شامل ہے اس سے پہلے بیان ہوچکا کہ اس نے (یزید نے) حضرت حسین رضہ اور ان کے ساتھیوں کو عبیداللہ بن زیاد کے ہاتھوں قتل کروایا۔
آگے امام حسین رضہ کے سر کے بارے میں حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں
كتب يزيد إلى ابن زياد ، أنه قد بلغني أن حسينا قد سار إلى الكوفة وقد ابتلي به زمانك من بين الأزمان ، وبلدك من بين البلدان ، وابتليت به أنت من بين العمال ، وعندها تعتق أو تعود عبدا كما تعتبد العبيد . فقتله ابن زياد ، وبعث برأسه إليه .
قلت : والصحيح أنه لم يبعث برأس الحسين إلى الشام ، كما سيأتي
یزید بن معاویہ نے ابن زیاد کو لکھا کہ حسین رضہ کوفہ آرہے ہیں اور زمانہ میں سے تمہارے زمانے شہروں میں سے تمہارے شہر کے عمال سے ان کا پالا پڑنے والا ہے اب یا تو آزاد ہوجائے گا یا پھر پہلے کی طرح غلام بن جائے گا ابن زیاد نے ان کو(حسین رضہ کو) قتل کردیا اور آپ کا سر یزید کے پاس بھیج دیا۔
میں (حافظ ابن کثیر )کہتا ہوں کہ یہ بات صحیح ہے کہ اس نے امام حسین رضہ کا سر شام نہیں بھیجا گیا تھا جیسا کہ ابھی بیان ہوگا۔
پھر آگے کیا لکھتے ہیں ملاحضہ ہو
فالمشهور عند أهل التاريخ وأهل السِّيَرِ أَنَّهُ بَعَثَ بِهِ ابْنُ زِيَادٍ إِلَى يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ أَنْكَرَ ذلك. وعندي أن الأول أشهر فاللَّه أَعْلَمُ

اہل تاریخ میں یہ بات زیادہ مشہور ہے کہ ابن زیاد نے امام حسین رضہ کا سر یزید کے پاس بھیج دیا تھا اور کئی لوگوں نے اس بات کا انکار کیا ہے میرے نزدیک پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔
وقد اختلف العلماء بعدها في رأس الحسين هل سيّره ابن زياد إلى الشام إلى يزيد أم لا، على قولين، الأظهر منهما أنه سيره إليه،

اور اس کے بعد علماء نے حضرت حسین کے سر کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ ابن زیاد نے اسے یزید کے پاس شام بھیجا تھا کہ نہیں ان دونوں میں سے واضع قول یہ ہے کہ اس نے یزید کے پاس بھجوادیا تھا۔

اب اہل علم حضرات ہی میری اس الجھن کو سمجھائیں
 
Last edited:

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
السلام علیکم
یہ پوسٹ اس موضوع کے متعلق تو نہیں لیکن چونکہ یہاں حافظ ابن کثیر و یزید کا زکر آیا تو میں اس کو یہاں پیش کرتا ہوں(اس بات پر معافی کر طلبگار ہوں منتظمین سے) ۔۔۔۔کیا آپ لوگوں کو نہیں لگتا کہ حافظ ابن کثیر کی تاریخ میں کچھ حرکات بعد میں کی گئی ہیں یا پھر خود حافظ ابن کثیر ہی پہلے جو لکھ آتے ہیں آگلے کچھ صفحوں پر اسی کا رد کردیتے ہیں مطلب ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک جگہ خود ہی ایک بات کہ کر آئے ہوں پھر آگے چل کر خود ہی اس کا انکار کردیں مثالیں تو بہت ہیں لیکن کچھ عرض خدمت ہیں
حافظ ابن کثیر امام حسین رضہ کی مظلومانہ قتل پر لکھتے ہیں

فَلَمَّا عَلِمَ ذَلِكَ ابْنُ زِيَادٍ مِنْهُمْ بَلَّغَهُمْ مَا يُرِيدُونَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَخَذَهُمْ عَلَى ذَلِكَ وَحَمَلَهُمْ عَلَيْهِ بِالرَّغْبَةِ وَالرَّهْبَةِ، فَانْكَفُّوا عَنِ الْحُسَيْنِ وَخَذَلُوهُ ثُمَّ قَتَلُوهُ . وَلَيْسَ كُلُّ ذَلِكَ الْجَيْشِ كَانَ رَاضِيًا بِمَا وَقَعَ مِنْ قَتْلِهِ، بَلْ وَلَا يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ رَضِيَ بِذَلِكَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ، وَلَا كَرِهَهُ، وَالَّذِي يَكَادُ يَغْلِبُ عَلَى الظَّنِّ أَنَّ يَزِيدَ لَوْ قَدَرَ عَلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُقْتَلَ لَعَفَا عَنْهُ كَمَا أَوْصَاهُ بِذَلِكَ أَبُوهُ، وكما صرح هو به مخبرا
اور ابن زیاد کو جب یہ معلوم پڑا کہ وہ دنیا کے خواہاں ہیں تو انہوں نے ان کو لالچ دیا اور انہوں حضرت حسین رضہ کو بے یارومددگار چھوڑ دیا اور یہ ساری فوج آپ کے قتل سے راضی نہ تھی بلکہ یزید بن معاویہ بھی اس راضی نہ تھا واللہ اعلم ، اور اس (یزید) نے اسے ناپسند کیا ظن غالب یہی ہے کہ اگر یزید آپ کے قتل ہونے سے قبل آپ پر قابو پالیتا تووہ اپنے والد کی وصیت کے مطابق اپ کو معاف کردیتا جیسا کہ خود اس نے اپنے متعلق صراحت کی ہے ۔(جلد 8 صفحہ 259)

پھر اس کے آگے یزید کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
قُلْتُ: يَزِيدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ أَكْثَرُ مَا تقم عَلَيْهِ فِي عَمَلِهِ شُرْبُ الْخَمْرِ وَإِتْيَانُ بَعْضِ الْفَوَاحِشِ، فَأَمَّا قَتْلُ الْحُسَيْنِ فَإِنَّهُ كَمَا قَالَ جَدُّهُ أَبُو سُفْيَانَ يَوْمَ أُحُدٍ لَمْ يَأْمُرْ بِذَلِكَ وَلَمْ يَسُؤْهُ. وَقَدْ قَدَّمْنَا أَنَّهُ قَالَ: لَوْ كُنْتُ أَنَا لَمْ أَفْعَلْ مَعَهُ مَا فَعَلَهُ ابْنُ مَرْجَانَةَ- يَعْنِي عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ زِيَادٍ- وَقَالَ لِلرُّسُلِ الَّذِينَ جَاءُوا بِرَأْسِهِ: قَدْ كَانَ يَكْفِيكُمْ مِنَ الطَّاعَةِ دُونَ هَذَا، وَلَمْ يُعْطِهِمْ شَيْئًا، وَأَكْرَمَ آلَ بَيْتِ الْحُسَيْنِ وَرَدَّ عَلَيْهِمْ جَمِيعَ مَا فُقِدَ لَهُمْ وَأَضْعَافَهُ، وَرَدَّهُمْ إلى المدينة في محامل وأهبة عَظِيمَةٍ
میں (حافظ ابن کثیر) کہتا ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ یزید پرشراب پینے کچھ فاحش کام کرنے پر ملامت تو کی جاتی ہے لیکن رہا معاملہ قتل حسین رضہ کا اس میں جیسے اس کے دادا ابوسفیان نے احد کے روز کہا تھا کہ نہ تو اس نے اس کا حکم دیا ہے اور نہ ہی اس سے بے جا سلوک کیا ہے اور ہم پہلے بیان کر چکے ہین کہ اس نے کہا کہ میں ہوتا تو اس سے ایسے پیش نہ آتا جیسے ابن مرجانہ یعنی عبیداللہ بن زیاد پیش آیا ہے جب ا س کے پاس امام کا سر بھیجا گیا تھا تو اس نے کہا مین تو ایسے ہی راضی تھا اور کسی کو کچھ نہ دیا ، اور اہل بیت حسین رضہ کی عزت و اکرام کیا اور جو چیزیں ان کی گم ہوئیں تھین وہ اور ان سے دگنی چیزیں انہیں دیں اور انہیں محمل اور دیگر قیمتی تحائف کے ساتھ مدینہ منورہ عزت سے روانہ کیا۔
پھر خود ہی ابن کثیر واقعہ حرہ کے مقام پر لکھتے ہیں
وَقَدْ أَخْطَأَ يَزِيدُ خَطَأً فَاحِشًا فِي قَوْلِهِ لِمُسْلِمِ بْنِ عُقْبَةَ أَنْ يُبِيحَ الْمَدِينَةَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، وَهَذَا خَطَأٌ كبير فاحش، مع ما انضم إلى ذلك من قتل خلق من الصحابة وأبنائهم، وقد تقدم أنه قتل الحسين وأصحابه على يدي عبيد الله بن زياد

اور یزید نے مسلم بن عقبہ کو یہ کہنے میں کہ مدینہ کو مباح کردینا بڑی فحش غلطی کی اور یہ ایک بہت ہی بڑی قبیح غلطی ہے اور اس کے ساتھ بہت سے صحابہ اور ان کے بیٹوں کا قتل بھی شامل ہے اس سے پہلے بیان ہوچکا کہ اس نے (یزید نے) حضرت حسین رضہ اور ان کے ساتھیوں کو عبیداللہ بن زیاد کے ہاتھوں قتل کروایا۔
آگے امام حسین رضہ کے سر کے بارے میں حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں
كتب يزيد إلى ابن زياد ، أنه قد بلغني أن حسينا قد سار إلى الكوفة وقد ابتلي به زمانك من بين الأزمان ، وبلدك من بين البلدان ، وابتليت به أنت من بين العمال ، وعندها تعتق أو تعود عبدا كما تعتبد العبيد . فقتله ابن زياد ، وبعث برأسه إليه .
قلت : والصحيح أنه لم يبعث برأس الحسين إلى الشام ، كما سيأتي
یزید بن معاویہ نے ابن زیاد کو لکھا کہ حسین رضہ کوفہ آرہے ہیں اور زمانہ میں سے تمہارے زمانے شہروں میں سے تمہارے شہر کے عمال سے ان کا پالا پڑنے والا ہے اب یا تو آزاد ہوجائے گا یا پھر پہلے کی طرح غلام بن جائے گا ابن زیاد نے ان کو(حسین رضہ کو) قتل کردیا اور آپ کا سر یزید کے پاس بھیج دیا۔
میں (حافظ ابن کثیر )کہتا ہوں کہ یہ بات صحیح ہے کہ اس نے امام حسین رضہ کا سر شام نہیں بھیجا گیا تھا جیسا کہ ابھی بیان ہوگا۔
پھر آگے کیا لکھتے ہیں ملاحضہ ہو
فالمشهور عند أهل التاريخ وأهل السِّيَرِ أَنَّهُ بَعَثَ بِهِ ابْنُ زِيَادٍ إِلَى يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، وَمِنَ النَّاسِ مَنْ أَنْكَرَ ذلك. وعندي أن الأول أشهر فاللَّه أَعْلَمُ

اہل تاریخ میں یہ بات زیادہ مشہور ہے کہ ابن زیاد نے امام حسین رضہ کا سر یزید کے پاس بھیج دیا تھا اور کئی لوگوں نے اس بات کا انکار کیا ہے میرے نزدیک پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔
وقد اختلف العلماء بعدها في رأس الحسين هل سيّره ابن زياد إلى الشام إلى يزيد أم لا، على قولين، الأظهر منهما أنه سيره إليه،

اور اس کے بعد علماء نے حضرت حسین کے سر کے بارے میں اختلاف کیا ہے کہ ابن زیاد نے اسے یزید کے پاس شام بھیجا تھا کہ نہیں ان دونوں میں سے واضع قول یہ ہے کہ اس نے یزید کے پاس بھجوادیا تھا۔

اب اہل علم حضرات ہی میری اس الجھن کو سمجھائیں
متفق -

عماد الدین ابن کثیر رح کی کتاب البدایہ و النہایہ میں موجود اکثر واقعیات مورخ علامہ ابن جریر طبری رح کی تاریخ طبری کا منبع ہیں - اور تاریخ طبری کی ٤٠ فیصد روایات ضعیف ہیں - اس بنا پر عماد الدین ابن کثیر کی تاریخی واقعات پر تحقیق میں کافی تضاد پایا جاتا ہے (واللہ اعلم)-
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
اگر علامہ ابن کثیر رح ر کی ہر بات حجت ہے - تو ان کے مطابق حضرت حسین رضی الله عنہ کے قاتل اہل کوفہ تھے- نہ کہ یزید بن معاویہ رح - (البدایہ و النہایہ جلد ٨ ص ١٥٧) - آپ کو ان کی یہ بات کیوں قبول نہیں؟؟
جب آپ خودیعنی ان کے اپنے ان کی بات نہیں مان رہے تو دوسرے کیا خاک ان کی باتیں قبول کریں گے
حواب کے کتوں کے بھونکنے والی روایت پر جو آپ نے باطل تحقیق پیش فرمائی تھی اس کا کچھا چھٹا کھل چکا ہے اس لئے اب بات سے بات نکال کر موضوع کو تبدیل کرنے کی سعی لا حاصل میں مصروف نظر آرہے ہیں
 
Top