• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روایت مسلسل بالمصافحہ کا تحقیقی جائزہ

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
4۔حضرت خضر علیہ السلام
حضرت خضر ؑ کے متعلق بہت سی موضوع و ضعیف روایات بیان کی جاتی ہیں جن میں نبی1 سے مصافحہ کرنے والی روایت بھی ہے،جو روایت مسلسل بالمصافحۃ الخضریۃ کے نام سے مشہور ہے اور یہ روایت مناھل السلسلۃ ص۴۵ تا ۴۷ میں مختلف اسناد سے حضرت خضر ؑ کے واسطے سے مروی ہے۔
اس روایت کی تحقیق سے متعلقہ چند باتیں قابل غور ہیں :
1۔خضر علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں یا نہیں ؟
2۔ان کی ملاقات نبی کریمﷺ سے ثابت ہے یا نہیں؟
3۔ان کا شمار نبی کریمﷺکے صحابہ میں کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟
اب ہم مندرجہ بالا نکات کا جائزہ لیں گے :
حضرت خضر ؑ کے بارے میں تین اقوال ہیں:
1۔فرشتہ
2۔ولی
3۔نبی
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
1۔حضرت خضر علیہ السلام کا فرشتہ ہونا:
۔جہاں تک حضرت خضر ؑ کے فرشتہ ہونے کا قول ہے اور یہ قول ماوردیؒ کا ہے اور یہ شاذ قول ہے اور امام نوویؒ اور ابن کثیر ؒنے اس کا ردّ فرمایا ہے۔ (شرح مسلم:۱۵؍۱۴۶، البدایہ ۱؍۳۲۸)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
2۔حضرت خضر کا ولی ہونا:
اب رہا یہ اختلاف کہ وہ نبی ہیں یا ولی؟
تو واضح ہے کہ یہ اختلاف نبیﷺکی وفات کے تقریباًتین سو سال بعد اس وقت رونما ہوا جب عجمی تصوف کے علمبرداروں نے مسلمانوں میں اس بے ہودہ عقیدہ کو رواج دینا چاہا کہ معاذ اللہ ولی علم و فضل اور ادراک و معرفت میں نبی سے افضل ہوتا ہے اور وہ باطنی علوم و معارف کی وجہ سے علومِ ظاہری کے حامل جملہ انسانوں پر فوقیت رکھتا ہے۔ الٰہی افکار کے نتیجہ میں قرآن مجید میں مذکور قصہ موسیٰ ؑ و خضر ؑ کے حوالے سے یہ بات مشہور کی گئی کہ حضرت خضر ؑ چونکہ علم لدنی کے حامل اور حضرت موسیٰ ؑ صرف علوم ظاہری سے آشنا تھے اس لئے وہ حضرت خضر ؑ کی خدمت میں حاضری دیتے اور ان کے سامنے زانوے تلمذطے کرتے نظر آتے ہیں۔
مگر جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ یہ عقیدہ عجمی تصوف کی پیداوار اور بعض صوفیا کی اثر پذیری کا نتیجہ ہے، اسی لئے چوتھی صدی ہجری سے پہلے ایسے غیر حقیقت پسندانہ نظریات کا وجود ناپید رہا۔ بعد میں کچھ مہربانوں نے متعدد ایسی روایات کو وجود بخشا جن سے مذکورہ بالا عقیدہ کی نقلی تائید مقصود تھی۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
ومن ھٰؤلاء من یفضل الأولیاء علی الأنبیاء وقد یجعلون الخضر من ھؤلاء وھذا خلاف ما أجمع علیہ مشایخ الطریق المقتدی بھم دع عنک سائر أئمۃ الدین وعلماء المسلمین (فتاویٰ: ۱۳؍۲۶۷)
’’اور وہ لوگ جو اولیا کو انبیا پر فضیلت دیتے ہیں اور خضر ؑ کوان اولیا میںشمار کرتے ہیں، یہ دعویٰ ائمہ دین اور علماے مسلمین کی تو بات چھوڑ، ان مشائخ طریقت جن کی اقتدا کی جاتی ہے کے اجماع کے بھی خلاف ہے۔‘‘
اور دوسری جگہ فرماتے ہیں:
وکل ہذہ المقالات من أعظم الجہالات والضلالات بل من أعظم
’’اور یہ تمام باتیں عظیم جہالتیں اور بڑی ضلالتیں بلکہ ان سے بھی بدتر ہیں۔‘‘(ایضاً:۱۱؍۴۲۲)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
علامہ ابن ابی العز حنفی کہتے ہیں:
’’وأما من یتعلق بقصۃ موسی مع الخضر علیہما السلام في تجویز الاستغناء عن الوحي بالعلم اللدني الذي یدّعیہ بعض مَن عَدِم التوفیق فہو ملحد زندیق۔۔۔ فمن ادّعٰی أنہ مع محمد کالخَضِر مع موسٰی أو جوّز ذلک لأحد من الأمۃ فلیجدِّد إسلامہ ولیشہد شہادۃ الحق فإنہ مُفارق لدین الإسلام بالکلیۃ فضلا عن أن یکون من أولیاء اﷲ وإنما ہو من أولیاء الشیطان وہٰذا الموضع مُفَرق بین زنادقۃ القوم وأہل الاستقامۃ‘‘ (شرح العقیدۃ الطحاویۃ:ص ۵۱۱)
’’اور جو شخص علم لدنی کے ساتھ علم وحی سے بے پرواہی کے جواز کا تعلق موسیٰ علیہ السلام اورخضر علیہ السلام کے قصہ سے جوڑتا ہے ،جس طرح کہ توفیق سے بے بہرہ لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں پس وہ ملحد اور زندیق ہے۔جوشخص دعویٰ کرتا ہے کہ میں نبیؐ کے ساتھ اسی طرح ہوں جس طرح خضر ؑ موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے یا وہ امت میں سے کسی کے لیے یہ شرف تجویز کرتا ہے، اسے اپنے اسلام کی تجدید کرنی چاہیے اور کلمہ شہادت پڑھے، کیونکہ وہ دین سے کلی طور پر خارج ہو چکا ہے چہ جائیکہ اس کا شمار اولیاء اللہ میں ہوبلکہ وہ شیطان کے ولیوں میں سے ہے۔ یہی مسئلہ زنادقہ اور اہل استقامت (اہل السنہ) کے درمیان فرق کرنے والا ہے۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حافظ ابن حجر ؒ نے بھی اس عقیدہ کو زنادقہ کی طرف منسوب کیا ہے۔لکھتے ہیں:
’’ وکان بعض أکابر العلماء یقول: أول عقدۃ تحل من الزندقۃ اعتقاد کون الخضر نبیًا لأن الزنادقۃ یتذرعون بکونہ غیر نبي إلیٰ أن الولي أفضل عن النبي کما قال قائلہم:
مقام النبوۃ في برزخ
فویق الرسول ودون الولي
’’بعض اکابر علمانے کہا ہے کہ خضر علیہ السلام کے نبی ہونے کا عقیدہ زندیقیت کی پہلی گرہ کھول دیتا ہے،کیونکہ زنادقہ ولی کی نبی پر فضیلت کے لیے خضر علیہ السلام کے غیر نبی ہونے کو آڑ بناتے ہیں جس طرح کہ ان لوگوں میں سے کسی نے کہا : برزخ میں نبوت کا مقام رسول سے کچھ اوپرا ور ولی سے نیچے ہے ۔‘‘ (الإصابۃ:۲؍۲۴۸)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
3۔حضرت خضر علیہ السلام کا نبی ہونا:
آپ ؑ کے بارے میں جمہور علما اسی بات کے قائل ہیں کہ آپ نبی تھے۔
ثعلبیؒ کہتے ہیں کہ جمہور اقوال کے مطابق وہ نبی ہیں۔(الزہر النضر: ص۶۶)
امام قرطبی ؒنے (تفسیر قرطبی:۱۱؍۱۶) میں،علامہ آلوسیؒ نے (روح المعانی:۱۵؍۳۲۰) میں اور ابوحیان نے(البحر المحیط :۶؍۱۴۷) میں حضرت خضر ؑ کے نبی ہونے کو جمہور کی طرف منسوب کیا ہے۔
ابن حجرؒ نے بھی دونوں طرح کے اقوال بیان کرکے راجح اسی کو قرار دیا ہے کہ خضر ؑ نبی تھے، فرماتے ہیں:
’’قلت ذلک لأن غالب أخبارہ مع موسی ھي الدالۃ علی تصحیح قول من قال:إنہ کان نبیا‘‘ ’’میں کہتا ہوں کہ حضرت موسیٰ ؑ کے ساتھ پیش آنے والے ان کے اکثر واقعات یہ بتاتے ہیں کہ ان کو نبی قرار دینے والوں کی بات ہی صحیح ہے ۔ (الإصابۃ :۲؍۲۴۹، المنار المنیف: ص۸۴ بتحقیق محمود مہدی استنبولی)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
حضرت خضر ؑ کی موت وحیات؟
اب حیاتِ خضر ؑ کے بارے میں بھی اختلاف ہے کہ آیا وہ زندہ ہیں یا فوت ہوچکے ہیں؟ اس میں بھی جماعت ِصوفیا پیش پیش رہی کہ حضرت خضر ؑ کی حیات کو ثابت کیا جائے جس کے لئے کشف وکرامات اور ایسی روایات جن کا غیر مستند ہونا ظاہر و باہر ہے، کا سہارا لیا گیا۔
حافظ ابن حجرؒ نے خضر ؑ کی زندگی کے متعلق ایک مستقل رسالہ لکھا ہے جس میں اُنہوں نے حضرت خضر ؑ کے متعلق نبیﷺ کے زمانہ اور بعد کے زمانہ سے متعلقہ تمام روایات کو ذکر کر کے ہر روایت پر ائمہ جرح وتعدیل کی جرح بھی نقل کردی ہے۔
(دیکھئے: الزھر النضر في حال الخضر بتحقیق صلاح الدین مقبول احمد: ص۸۶ تا ۱۶۲)
اسی طرح حافظ ابن حجرؒ نے خضر ؑ کی وفات پر محدثین کے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں جو بالاختصاردرج ذیل ہیں:
ابوحیانؒ نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ جمہور کے مسلک کے مطابق وہ فوت ہوچکے ہیں۔ ابن ابی الفضل المرسی سے بھی یہی نقل ہے کہ اگر خضر ؑ زندہ ہوتے تو نبیﷺ کے پاس ضرور آتے اور ایمان واتباع سے بہرور ہوتے۔ تفسیر اصبہانی میں حسن بصریؒ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ حضرت خضر ؑ فوت ہوچکے ہیں۔ اسی طرح امام بخاریؒ سے پوچھا گیا کہ خضر ؑ اور الیاس ؑ زندہ ہیں؟ تو اُنہوں نے فرمایا: یہ کیسے ہوسکتاہے؟جبکہ نبیﷺ کا فرمان ہے:’’ أرأیتکم لیلتکم۔۔۔الخ‘‘ (الإصابۃ:۲؍۲۵۶) اور خود ابن حجرؒ لکھتے ہیں :
’’ قلت: وہو حیث مسلّم یدل أن الخضر المشہور ماتَ ‘‘(الزہر النضر :۱۶۱،الإصابۃ:۲؍۲۸۱)
’’ میں کہتاہوں اس سے یہی بات مسلم ومشہور ہے کہ خضر فوت ہوچکے ہیں۔ـ‘‘
حافظ ابن قیم ؒکا دعویٰ ہے کہ
امام ابن تیمیہ، امام بخاری، ابن جوزی، قاضی ابویعلی حنبلی، علی موسیٰ الرضا، ابراہیم بن اسحق حربی، ابوالحسین بن مناوی رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر محدثین ان کی موت کے قائل ہیں۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: المنارالمنیف: ص۷۵ تا۷۸ بتحقیق محمود مہدی استنبولی
اس کے علاوہ درج ذیل نصوص سے بھی حضرت خضر علیہ السلام کی وفات ثابت ہوتی ہے :
1۔اللہ تعالیٰ کا فرمان:
’’ وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ أَفَإنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخٰلِدُوْنَ‘‘
’’ ہم نے آپ سے قبل کسی بھی انسان کو دائمی زندگی نہیں دی اگر تم فوت ہو گئے تو کیا یہ لوگ ہمیشہ جیتے رہیں گے۔‘‘ (الانبیائ:۳۴)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ سے پہلے اور بعد کسی بشر کو زندگی کا استمرار نہیں دیا۔ لہٰذا خضر ؑکے متعلق کس طرح یہ دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں؟
2۔سورئہ آلِ عمران کی آیت ۸۱ میں تمام انبیاے کرام علیہم السلام کا یہ وعدہ ذکر کیا گیا ہے:
’’ وَإذْ أَخَذَ اﷲُ مِیْثَاقَ النَّبِیِّیْنَ لَمَآ اٰ تَیْتُکُمْ مِنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَائَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہِ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ قَالَ ئَ أَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلٰی ذٰلِکُمْ إِصْرِیْ قَالُوْا أَقْرَرْنَا قَالَ فَاشْہَدُوْا وَأَنَا مَعَکُمْ مِنَ الشّٰہِدِیْنَ‘‘
’’ یاد کرو ! اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ آج میں نے تمہیں کتاب اور حکمت ودانش سے نوازا ہے کل اگر کوئی دوسرا رسول تمہارے پاس اسی تعلیم کی تصدیق کرتا ہوا آئے جو پہلے سے تمہارے پاس موجود ہے تو تم کو اس پر ایمان لانا ہو گا اور اس کی مدد کرنی ہو گی ۔یہ ارشاد فرما کر اللہ نے پوچھا کیا تم اس کا اقرار کرتے ہو اور اس پر میری طرف سے عہد کی بھاری ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں، ہم اقرار کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا: اچھا توگواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہ ہوں، اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھر جائے وہی فاسق ہے۔‘‘
حضرت خضر ؑ کے بارے میں یہ بات ثابت ہے کہ وہ نبی ؑ تھے جب کہ مذکورہ بالا آیت میں لیے گئے وعدہ میں وہ بھی شامل ہیں اور ان پر بھی یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ اگر وہ نبیﷺ کے زمانہ میں ہوتے تو آپؐ کی ضرور بالضرور تائید کرتے جس کی ایک بھی نظیر روایات میں موجود نہیں۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ خضر علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔
3۔نبی ؐنے فرمایا:
’’ لو کان أخي موسی حیًا ما وسِعہ إلا اتباعي‘‘
(ارواہ الغلیل میں 1579 میں علامہ البانی ؒ اور مسند احمد کی تحقیق میں حمزہ احمد الزبیرؒ نے اسے حسن کہا ہے)
’’اگر میرا بھائی موسیٰ زندہ ہوتا تو اسے بھی میری اتباع کے سوا چارہ نہ تھا۔‘‘(مسند احمد :۳؍۳۸۷)
اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر خضر ؑ نبیﷺ کے زمانہ میں زندہ ہوتے تو آپؐ پر ایمان لاتے جس کا تذکرہ کہیں موجود نہیں۔
4۔نبیؐ نے فرمایا:
’’ ما علیٰ الأرض من نفس منفوسۃ الیوم یأتي علیہا مائۃ وہی حیۃ یومئذ‘‘ (مسلم:۲۵۳۸)
’’ آپ سے سو سال کے بعد جو ذی نفس بھی زمین پر ہے، وہ زندہ نہیں رہے گا۔‘‘
بالفرض حضرت خضر ؑ کا وجود نبیﷺ کے زمانہ میں مان بھی لیا جائے تو وہ اس روایت کے عموم میں شامل ٹھہرتے ہیں جو کہ ان کی موت ثابت کرتا ہے۔
علامہ ابن جوزیؒ ’’ أرأیتکم لیلتکم۔۔۔ الخ‘‘ اور اس معنی کی دوسری روایات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں
: فھذہ الأحادیث الصحاح تقطع دابر دعوٰی حیاۃ الخضر (بحوالہ البدایہ و النھایہ:۱؍۳۳۶) ’’یہ روایاتِ صحیحہ حیاتِ خضر ؑکے دعویٰ کی جڑکاٹ دیتی ہیں۔‘‘
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
اب ہم خضر ؑ کی وفات اور ان کی حیات سے متعلقہ وارد شدہ روایات کی حیثیت پر علما و محدثین کے مزید اقوال بیان کرتے ہیں :
1۔ابن کثیرؒامام ابن جوزیؒ کے حوالہ سے لکھتے ہیں
کہ اُنہوں نے اپنی کتاب عجالۃ المنتظر في شرح حالۃ الخضر میں حیاتِ خضر ؑسے متعلقہ روایات کے بارے میں ثابت کیا ہے کہ وہ تمام مرفوع روایات موضوع ہیں اور اُنہوں نے صحابہؓ و تابعینؒ کی طرف منسوب آثار کا ضعف بھی واضح کیا ہے۔ ( ایضاً: ۱؍۳۳۴)
2۔ابوالخطاب کہتے ہیں:
جمیع ما ورد في حیاتہ لا یصح منہ شیئ باتفاق أھل النقل’’اہل نقل اس پر متفق ہیں کہ حیاتِ خضر ؑ کی جمیع روایات میں سے کوئی بھی مستند نہیں۔‘‘ (الإصابۃ:۲؍۲۵۳)
3۔شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
صحیح بات وہی ہے جس پر محققین قائم ہیں کہ خضر ؑ فوت ہوچکے ہیں۔ اگر وہ موجود ہوتے تو نبیﷺ پر ایمان لاتے اور ان پر زمانہ نبویؐ میں فرض تھا کہ وہ ایمان لاتے اور ان کے ساتھ جہاد کرتے جس طرح کہ سب پر جہاد فرض تھا۔ (فتاویٰ شیخ الإسلام : ۲۷؍۱۰۰)
4۔ملا علی قاری حنفیؒ لکھتے ہیں:
ومنھا الأحادیث التي یذکر فیھا الخضر وحیاتہ، کلھا کذب ولا یصح في حیاتہ حدیث واحد
’’اور اسی میں سے وہ احادیث جن میں خضر ؑ اور ان کی زندگی (کے استمرار) کا ذکرہے، وہ سب کی سب باطل ہیں۔ ان کی حیات سے متعلقہ (ایسی) ایک بھی حدیث مستند نہیں۔‘‘ (الأسرار المرفوعۃ بتحقیق الصباغ، ص۴۴۲)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
خلاصہ:
مذکورہ بالا بحث سے یہ بات ثابت ہوئی کہ
1۔حضرت خضر ؑ نبی تھے۔
2۔وہ فوت ہوچکے ہیں۔ اور
3۔ان کی حیات کی تمام روایات غیر مستند ہیں۔
اور اب ہم روایت ِمصافحہ کی طرف لوٹتے ہیں کہ جب آپؑ کی حضرت موسیٰ ؑ سے مفارقت ہوئی، اس کے بعد آپ ؑ کے احوال کے متعلق قرآن و سنت خاموش ہے اور اسی طرح جو مرفوع روایات یا آثارِ صحابہ ملتے ہیں، وہ پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچتے بلکہ آپؑ کی وفات پر قرآن و سنت کی نصوص اور علما محققین کی آرا موجود ہیں تو ان حالات میں اگر کوئی حضرت خضر ؑسے نبیﷺ کی ملاقات یا خود ان سے روایت کا ذکر کرتا ہے تو ایسا دعویٰ مضحکہ خیز ہے۔
مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں روایت مسلسل بالمصافحہ کی صحت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ خضر علیہ السلام کی ملاقات نبیﷺ سے ہو، اس کا کوئی ثبو ت نہیں اور یقینا خضر ؑ سے مصافحہ کا مدعی غلطی پرہے یا تو وہ خود جھوٹ بول رہا ہے یا وہ کسی شیطان سے ملاقات کربیٹھا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
یہاں امام احمدؒ کے اس قول کا حوالہ دینا برمحل ہوگا :
’’من أحال علی غائب لم ینصف منہ وما ألقی ھذا إلا شیطان‘‘
’’جو غائب (فوت شدہ) سے ملاقات کا حوالہ دیتا ہے، اس سے انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ (یقینا) یہ بات شیطان کی طرف سے القا ہوئی ہے۔ ‘‘ (فتاویٰ: ۴؍۳۳۷)
لہٰذا یہ روایت بھی خانہ ساز اور صوفیا کی طرف سے مشہور کیا گیا محض ایک دعویٰہے جس کا اللہ کے رسولؐ اور حضرت خضر ؑ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
 
Top