• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

روزوں کی فرضیت کا اسے علم نہیں تھا، تو کیا اب وہ روزے رکھے گی؟

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
لم تصم للجهل بوجوب الصوم عليها ، فهل عليها أن تقضي؟
السؤال:
عندما وجب علي الصيام لم أصم رمضاني الأول ؛ لعدم معرفتي ، وجهلي أنني وجب علي ، ولكنني تفطنت بذلك ـ وآخر أسبوع من رمضان ، ثم تطهرت و بقي أربعة أيام من رمضان ، ولم أصمها ؛ نظرا لأنني مرضت ، وكنت أتقيا ، فهل علي صيام شهر كامل ، أو فدية ؟ لكنني لا أتذكر كم يوم لم أصمه بالتحديد ، وأيضا لم أصلي في العام الذي وجب علي الصيام ؛ لأنني لم أدرك حينها ، فهل أقضي هذه الصوات أيضا ؟

تم النشر بتاريخ: 2017-02-26
الجواب :
الحمد لله
يجب عليك قضاء ما تركتيه من صوم رمضان ، سواء كان في مدة حيضك ، أو في سائر الشهر ، وإذا جهلت كم يوما عليك ، فإنك تجتهدين في حساب ذلك ، وتصومين بما يغلب على ظنك أن ذمتك قد برأت ، وأنك صمت ما عليك .
قال الشيخ ابن عثيمين رحمه الله:
" إذا كان قد ترك الصوم عن جهل منه يظن أن الصوم لا يجب عليه ، مثل أن تبلغ المرأة بالحيض وهي صغيرة ، ولا تظن أن البلوغ يحصل إلا بتمام خمس عشرة سنة ، فإن هذه يجب عليها قضاء رمضان ، لأن الواجبات لا تسقط بالجهل .
وهذه المسألة تقع كثيراً لبعض النساء اللاتي يبلغن بالحيض وهنّ صغار ، فتستحي المرأة أن تبلغ أهلها بأنها حاضت ، فتجدها لا تصوم ، وأحياناً تصوم حتى أيام الحيض .
فنقول للأولى التي لم تصم : يجب عليك أن تقضي الشهور التي لم تصوميها بعد بلوغك .
ونقول للثانية التي كانت تصوم في أيام الحيض : يجب عليها أن تعيد ما صامته في الحيض لأن الصوم في الحيض لا يصح ".
انتهى من " فتاوى نور على الدرب للعثيمين "(11/ 2) بترقيم الشاملة .

أما الصلاة : فإنك تكثرين من النوافل ، لأنها تعوض النقص في الفريضة .
روى الترمذي (413) عن أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : ( إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ ، فَإِنْ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ شَيْءٌ قَالَ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ فَيُكَمَّلَ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنْ الْفَرِيضَةِ . ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى ذَلِكَ ) صححه الألباني في "صحيح الترمذي" .
والله تعالى أعلم .

موقع الاسلام سؤال وجواب

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
روزوں کی فرضیت کا اسے علم نہیں تھا، تو کیا اب وہ روزے رکھے گی؟
سوال:
پہلی بار جس وقت مجھ پر روزے فرض ہوئے تو میں نے لا علمی کی وجہ سے روزے نہیں رکھے، مجھے نہیں معلوم تھا کہ مجھ پر روزے فرض ہو چکے ہیں، تاہم مجھے رمضان کے آخری ہفتے میں اس کا ادراک ہو گیا تھا، اس کے بعد میں حیض سے فارغ ہوئی اور اس وقت رمضان کے باقی 4 دن رہ گئے تھے، مجھے ان دنوں میں الٹی کی شکایت تھی جس کی وجہ سے میں روزے نہیں رکھ سکی، تو کیا میں پورے ماہ کے روزے رکھوں یا فدیہ دے سکتی ہوں؟

لیکن مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ میں نے کتنے دنوں کے روزے نہیں رکھے، اسی طرح میں نے اس سال نمازیں بھی نہیں پڑھیں جب مجھ پر روزے فرض ہوئے تھے، مجھے اسی سال نمازوں کی فرضیت کا بھی ادراک ہو گیا تھا، تو کیا میں ان نمازوں کی قضا بھی دوں؟

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
الحمد اللہ:

رمضان کے جتنے روزے آپ نے حیض یا لا علمی کی وجہ سے نہیں رکھے ان کی قضا آپ پر واجب ہے، اور اگر آپ کو یہ نہیں معلوم کہ کتنے روزے آپ نے نہیں رکھے تو اس کیلیے آپ یقینی اندازہ لگائیں اور غالب گمان کے مطابق اتنے روزے رکھیں کہ آپ کو اپنے ذمہ روزوں کی ادائیگی کا گمان ہو جائے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص روزے نہ رکھے اور یہ سمجھے کہ اس پر روزے فرض نہیں ہیں، مثال کے طور پر: اگر کوئی لڑکی جلد ہی حائضہ ہو جائے اور وہ یہ سمجھتی ہو کہ بلوغت 15 سال کی عمر مکمل ہونے پر ہی ہوتی ہے، تو ایسے میں اسے رمضان کے روزوں کی قضا دینا ہو گی؛ کیونکہ واجبات لاعلمی کی وجہ سے ساقط نہیں ہوتے۔

اس مسئلے میں بعض ایسی لڑکیاں مبتلا ہو جاتی ہیں جنہیں جلد ماہواری شروع ہو جائے، یہ لڑکیاں اپنے اہل خانہ کو اپنے بالغ ہونے کا بتلاتے ہوئے شرماتی ہیں ، جس کی وجہ سے وہ بالکل روزے نہیں رکھتیں اور بسا اوقات ماہواری کے دنوں میں بھی روزے رکھ رہی ہوتی ہیں۔

تو ہم روزے نہ رکھنے والی پہلی لڑکی سے کہتے ہیں: آپ نے بلوغت کے بعد جتنے مہینوں کے روزے نہیں رکھے ان کی قضادو۔

اور روزے رکھنے والی دوسری لڑکی سے کہتے ہیں: آپ نے ایام حیض میں جتنے روزے رکھے ہیں وہ دوبارہ رکھیں؛ کیونکہ حیض کی حالت میں روزے رکھنا صحیح نہیں " انتہی
ماخوذ از: "فتاوی نور علی الدرب از عثیمین" (11/2) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق

اور نمازوں کے متعلق یہ ہے کہ آپ زیادہ سے زیادہ نوافل کا اہتمام کریں؛ نوافل سے فرائض کی کمی پوری کی جائے گی۔

چنانچہ جامع ترمذی: (413) میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (بیشک سب سے پہلے جس عمل کا بندے سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے، چنانچہ اگر نمازیں صحیح ہوئیں تو وہ کامیاب و کامران ہو گا، اور اگر وہی صحیح نہ ہوئیں تو وہ ناکام اور نامراد ہو گا، بندے کی فرض نمازوں میں کمی ہوئی تو اللہ عز وجل فرمائے گا: دیکھو میرے بندے کی نفل نمازیں ہیں؟ تو نوافل کے ذریعے فرائض کی کمی پوری کر دی جائے گی، پھر اس کے بعد اس کے دیگر تمام اعمال کے ساتھ بھی یہی تعامل کیا جائے گا)
اس حدیث کو البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح کہا ہے۔

واللہ اعلم .

اسلام سوال و جواب
 
Top